skip to Main Content

کائی نے جان بچادی

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری چوتھی صدی ہجری(دسویں صدی عیسوی)میں ابو بکر محمد بن زکریا رازی مشہور طبیب (حکیم)گزرے ہیں۔کہا جاتاکہ وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے طبیب تھے جن بیماروں کے علاج سے دوسرے عاجز آجاتے تھے وہ ابوبکر محمد رازی کے علاج سے تندرست ہوجاتے تھے۔بی شمار مایوس مریض ان سے علاج کرانے کے لئے بغداد آتے رہتے تھے۔ان کے دوائی نسخوں اور علا ج کے طریقوں سے نہ صرف ان کے زمانے کے ہزار ہا لوگوں نے فائدہ اٹھا یا بلکہ ان کے بعد بھی لوگ صدیوں تک ان سے فائدہ اٹھاتے رہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان مریض بہت دور سے سفر کرتا ہوا بغداد پہنچا اور حکیم رازی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :
”حکیم صاحب !میں بہت دور سے سفر کرتا ہوا بغداد کی طرف آرہا تھا کہ راستے میں میرے منہ سے خون آنا شروع ہو گیا،اٹھتے بیٹھتے کھانستے تھوکتے وقت خون اتنی زیادہ مقدار میں میرے منہ سے نکلتا ہے کہ میں نڈھال ہو جا تاہوں۔اس بیماری نے مجھے اتناکمزو ر کردیا ہے کہ میں بڑی مشکل سے چل پھر سکتا ہوں خدا کے لئے مجھ پر دیسی کا علاج کیجئے اور مجھے اس مصیبت سے نجات دلائیے۔“
حکیم صاحب نے اس نوجوان کو دلاسا دیا اور کہا ،گھبراﺅ نہیں،ہمت سے کام لو،میں تمہارا علاج کروں گا،دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ شفا دے پھر حکیم صاحب نے مریض کی نبض دیکھی ،اس کے خون تھوک اور پیشاب کا معائنہ کیا مگر بیماری کی وجہ ان کی سمجھ میں نہ آسکی۔عام طور پر سل کی بیماری میں مریض خون تھوکتا ہے کیونکہ اس کے پھیپڑوںمیں زخم ہوجاتے ہیں لیکن اس مریض کی تھوک،خون وغیرہ میں سل کی کوئی علامت نہیں تھی۔حکیم صاحب مریض کی تسلی کے لئے اس کو کچھ دوائیں دیتے رہے لیکن اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔آخر ایک دن انہوں نے مریض سے کہا کہ اپنے سفر کا پورا حال سناﺅ اور جو کچھ تم نے سفر میں کھایا پیا وہ بھی بتاﺅ۔مریض نے سفرکے حالات سناتے ہوئے حکیم صاحب کو بتایا کہ ایک صحرائی علاقے سے میرا گزر ہوا تو دور دور تک پانی کا نام ونشان تک نہ تھااور نہ کوئی بستی نظر آتی تھی جہاں سے میں پانی حاصل کر سکتا ۔پیاس سے میرا یہ حال ہوا کہ چلنا محال ہو گیا قریب تھا کہ میں بےہوش ہو کر گر پڑتا ،کچھ فاصلے پر مجھے ایک جوہڑ نظر آیا۔میں گرتا پڑتا اسکے پاس پہنچا اور وہاں سے پانی لیکر اپنی پیاس بجھائی۔
اس کے کچھ دیر بعد میرے منہ سے خون آنا شروع ہو گیا اور اسی بیماری نے مجھے ہلکا ن کر رکھا ہے۔
مریض کابیان سنتے ہی حکیم صاحب بیماری کی وجہ جان گئے ۔انہوں نے ملازم کو بھیج کر ایک جوہڑ سے مٹھی بھر کائی منگوائی(کائی اس سبزی کو کہتے ہیں جو بند کھڑے پانی کے اوپر یا برسات میں دیواروں وغیرہ پر جم جاتی ہے) اور مریض سے کہا کہ اس کو کھاﺅ۔مریض نے ایسا کرنے سے بڑی کراہت محسوس کی لیکن حکیم صاحب کے حکم اور بار بار کہنے پر اس نے کائی کھا لی۔کائی کھاتے ہی اسکو قے آئی ۔اس میں کائی میں لپٹی ہوئی کوئی چیز رینگ رہی تھی۔اس کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ ایک جونک تھی،جو صحراکے جوہڑ سے پانی پیتے وقت مریض کے پیٹ کے اندر چلی گئی تھی۔یہی مریض کی آنتوں اور معدے کو زخمی کر کے اس سے خون تھکواتی رہی تھی۔ جوں ہی یہ مریض کے پیٹ سے باہر آئی وہ اپنے آپ کو بھلا چنگا محسوس کرنے لگا۔حکیم صاحب نے اب اس کو چند مزید دوائیں دیں جنہیں چار پانچ دن کھانے سے مریض کی کمزوری دور ہو گئی اور وہ حکیم صاحب کو دعائیں دیتا ان سے رخصت ہوا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top