skip to Main Content
ڈے کیئرسینٹر

ڈے کیئرسینٹر

سیما صدیقی

………………..

کمرے سے گرج دارآواز سنائی دی۔ ’’ احسن صاحب! آپ نے وقت دیکھا ہے؟‘‘
’’جی سر! خاصا بُرا وقت ہے….. میرا مطلب ہے سوا بارہ بجے ہیں۔‘‘
’’یہ آپ کے دفتر آنے کا وقت ہے؟ اگر کچھ دیر اور لیٹ ہوتے تو آفس سے جانے کا وقت ہوجاتا۔ یہ میری آخری وارننگ ہے۔ اگر آپ صبح نو بجے آفس میں موجود نہ ہوئے تو نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ یہ دفتر ہے کوئی میونسپلٹی کا پارک نہیں کہ آپ جب چاہیں ٹہلتے ہوئے آئیں اور ٹہلتے ہوئے نکل جائیں۔‘‘
’’وہ سر! دراصل گھرمیں….. !‘‘ احسن ہکلا کر رہ گیا۔
’’دیکھیے! احسن صاحب، اگر آپ کا رحجان’ گھریلو کاموں‘ کی طرف زیادہ ہے تو آپ نے آفس کیوں جوائن کیا ہوا ہے۔‘‘
’’وہ سر! میں آئندہ….. میرا مطلب ہے!‘‘
’’ ٹھیک ہے….. ٹھیک ہے!\” باس نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روکا۔
’’میں سمجھ گیا آپ کا کیا مطلب ہے۔ مطلب سمجھانے میں کہیں چھٹی کا ٹائم نہ ہوجائے۔ پانچ بجے تو آپ لوگ ایسے آفس خالی کردیتے ہیں جیسے بم رکھنے کی خفیہ اطلاع مل گئی ہو، جائیں جاکر کچھ کام کرنے کی کوشش کریں۔‘‘
باس کی جھاڑ کھا کر احسن باہر نکلا تو اسلم نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا:’’ کیا ناشتہ زیادہ مل گیا ہے؟‘‘
(دونوں باس کی جھاڑ کو کوڈ ورڈ میں ناشتہ کہا کرتے تھے) 
لنچ ٹائم میں دونوں ایک قریبی ہوٹل میں بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔ اسلم نے چکن کی کڑاہی کی جانب اشارہ کرکے لذت بھرا چٹخارہ بھرا۔
’’یار لوناں! کڑاہی مزے دار ہے۔‘‘
احسن منھ بناکر بولا:’’ جب سے باس نے ناشتہ کرایا ہے، بھوک اُڑگئی ہے۔ ساری دنیا اس چکن کڑاہی سمیت زہر لگ رہی ہے۔‘‘
\” یار کیا کریں….. نوکری کرنی ہے تو باس کی جھڑکیاں بھی سہنی ہیں….. تم کیوں دل پر اثر لیتے ہو….. مجھے تو لگتا ہے باس گھر سے تپے ہوئے آتے ہیں۔ بیگم ٹھیک ٹھاک ناشتہ کراکر بھیجتی ہیں!‘‘ اسلم نے ہنستے ہوئے احسن کا بھی موڈ بدلنے کی کوشش کی، مگر وہ بدستور سنجیدہ رہا۔
’’یار میں باز آیا ایسی نوکری سے….. اس دو ٹکے کی نوکری میں بڑی ہی خواری ہے۔ کیوں ناہم نوکری کو لات مارکر بزنس میں کچھ ہاتھ دکھائیں! اس طرح ہم اپنے باس خود ہی ہوں گے جب تک چاہیں گے سوئیں گے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے….. مگر بزنس کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرمایہ اور محنت…. اور یہاں دونوں کا ہی ڈبہ گول ہے۔‘‘ اسلم پھر ہی ہی کرکے ہنسنے لگا۔
’’دیکھومیں سنجیدہ ہوں….. ہم ایسے کام کا انتخاب کریں گے جس میں سرمایہ اور محنت سے زیادہ ذہانت اور ٹیلنٹ کی ضرورت ہو۔‘‘
’’مگر ذہانت اور ٹیلنٹ کہاں ملے گا؟‘‘ 
’’جناب! یہ میرے پاس وافر مقدار میں موجود ہے!‘‘
’’اچھا کمال ہے!….. تم نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔‘‘
’’زیادہ طنز کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہت جلد میرے جوہر تم پر کھل جائیں گے۔ بس دو چار روز مجھے پلاننگ کرنے دو۔ پھر میں بتاؤں گا کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ فی الحال تم ہفتہ دس دن کی چھٹی کی درخواست آفس پہنچادو۔ استعفا بعد میں بھیج دیں گے۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
’’میں نے پورا پلان تیار کرلیا ہے۔ ہم ایک ’’بے بی ڈے کیئر سینٹر‘‘ کھول رہے ہیں۔ یہ ملازمت پیشہ والدین کی اولین ضرورت ہے اور ہم اس سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ یہ سینٹر عارضی بنیادوں پر گھر کے ایک کمرے میں کھولا جائے گا۔‘‘
’’ہائیں! مگر بے بیوں کی کیئر کون کرے گا؟ ہم اتنی ممیاں کہاں سے لائیں گے۔‘‘
’’بے وقوف! بچوں کو بہلانا کون سا مشکل ہے۔ کبھی چاکلیٹیں کھلادیں، کبھی جھولا جھُلا دیا، کبھی کھلونا ہاتھ میں تھمادیا تو کبھی کہانی سنادی….. ہاں صرف ایک مسئلہ ٹیڑھا ہے۔‘‘
’’اور وہ کیا؟‘‘
’’بے شک ہم بچوں کی کتنی ہی اچھی دیکھ بھال کے عزائم کیوں نہ رکھیں….. والدین جب ہم لڑکوں کو یہاں بے بی سٹر کے طور پر دیکھیں گے تو کبھی ہم پر اپنے بچے چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔‘‘
’’وہ تو ہے….. مگر خاتون بے بی سٹر کہاں سے لائیں؟ اور اگر لے آئیں تو تنخواہ کہاں سے دیں؟‘‘
’’کیوں نا، باجی نجمہ کو اس کام کے لیے راضی کریں۔‘‘ احسن نے ہچکچاتے ہوئے تجویز پیش کی۔
’’کیا کہا؟ باجی نجمہ….. اوہ میرے خدا اتنی خطرناک بے بی سٹر! یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی ’’ڈریکولا‘‘ کے ہاتھ میں بچہ کھلانے کو دے دیا جائے۔ بچے تو یہاں سے گھٹنوں کے بل بھاگ نکلیں گے اور ان کے اماں ابا ہماری کھوپڑیوں سے بزنس کا سارا فتور نکال دیں گے۔‘‘
’’اے بے وقوف! ہم کون سا ان سے بچے کھلوائیں گے، ہم تو صرف دکھاوے کے طور پر انہیں چند لمحوں کے لیے والدین کے سامنے بطور بے بی سٹر پیش کریں گے ان کا حلیہ ایسا بنادیں گے کہ وہ نسبتاً نرم اور شفیق معلوم ہوں۔‘‘
’’ہوں!! تمھارا کیا خیال ہے، اگر ڈریکولا سیاہ لباس کے بجاے سفید کرتا پاجامہ پہن کر خون پینے آئے تو شفیق اور مہربان لگے گا۔‘‘
’’بھئی یہ ڈریکولا کہاں سے بیچ میں آگیا۔ دیکھو ہم باجی نجمہ کے گھر میں رہتے ہیں، اُن کی اجازت کے بغیر اپنا کمرہ بھی اس کام کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔ اگر ہم انہیں بزنس میں شامل کرلیں تو ہمارے دونوں مسئلے حل ہوجائیں گے …. آؤ، باجی نجمہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
’’باجی….. ہم آپ سے کچھ کہنے کی اجازت چاہتے ہیں!‘‘
’’ہاں جلدی بولو….. کیا بات ہے۔‘‘ نک چڑھی باجی نے تیوری بھی چڑھالی۔
’’وہ دراصل ہم ایک، بے بی ڈے کیئر سینٹر کھول رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا! لیکن اس سے میرا کیا تعلق ہے….. نہ میں بے بی ہوں نہ سینٹر؟‘‘
’’ دیکھیئے! ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے سینٹر میں تھوڑی دیر کے لیے ….. میرا مطلب ہے…. ‘‘ 
’’کیا!! تم لوگ ہوش میں تو ہو….. میں تم کو آیا یا دایا دکھائی دیتی ہوں؟ میں نے تو اپنے بچے پڑوسیوں سے پلوائے ہیں۔ تم شروع تو کرو بزنس۔ میں تمھیں، تمھاری ساری بے بیوں سمیت اُٹھاکر باہر پھینک دوں گی۔‘‘
باجی کا غصہ متوقع تھا، لہٰذا وہ سنبھل کر بولے: ’’باجی ہم آپ کو بچے سنبھالنے کو تھوڑی کہہ رہے ہیں ۔ ہم تو یہ درخواست کررہے ہیں کہ جب والدین آئیں تو چند لمحوں کے لیے آپ ہمارے آفس آجائیں، تاکہ والدین مطمئن ہوجائیں کہ ہمارے بچے ان اودھ بلاؤ قسم کے لڑکوں کے پاس نہیں، بلکہ ایک ذمہ دار، باوقار اور شفیق خاتون کی زیرِ نگرانی رہیں گے۔ ہمارے سینٹر سے متاثر بلکہ متاثرہ والدین جو فیس دیں گے اس میں آ پ کا بھی حصہ ہوگا۔‘‘
احسن نے باجی کو ایسے گھیرا کہ بالآخر وہ چند سخت شرائط کے ساتھ راضی ہوہی گئیں۔ دونوں نے گھر کے بیرونی کمرے میں ردو بدل شروع کیا۔ بچوں سے متعلق پوسٹر دیواروں پر آویزاں کیے۔ کونے میں ایک توتے کا پنجرہ رکھ دیا۔ لکڑی کے ریک میں باجی کے بچوں کے کھلونے چھین کر سجادیئے، جس پر باجی نے شدید احتجاج کیا، مگر انہوں نے یہ کہہ کر اطمینان دلادیا کہ ’’ہم کھلونے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں گے اور اگر طبیعت زیادہ مچلے گی تو تھپڑ رسید کریں گے۔‘‘ آخر میں انہوں نے بیرونی دروازے پر ’ نجمہ ڈے کیئر سینٹر‘ کا بورڈ بھی لگادیا۔
ساتویں دن جب وہ لوگ تقریباً مایوس ہوچکے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھلا، ایک خاتون بڑا سا بیگ سنبھالے اور اُن کے پیچھے پیچھے ان کے خاوند، ڈھائی تین سالہ بچے کی اُنگلی تھامے اور دوسرے بچے کی ٹوکری لٹکائے اندر داخل ہوئے۔ ٹوکری اسی قسم کی تھی جیسی پہلے لوگ سبزی وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے جونہی ٹوکری میز پر رکھی، اسلم نے خفیہ بٹن دبادیا جو باجی نجمہ کو الرٹ کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ ابھی وہ ان خاتون کو اپنے ادارے کی اُن خدمات سے آگاہ کررہے تھے جن سے وہ خود بھی واقف نہ تھے کہ اندرونی دروازہ کھلا اور باجی اندر داخل ہوئیں، احسن نے انہیں کہیں سے ایک سفید یونیفارم لادی تھی جس میں وہ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق معلوم ہورہی تھیں ۔ احسن نے ان سے درخواست کی تھی کہ اگر وہ مسکراتی ہوئی داخل ہوں تو وہ ان کے پرافٹ کا شیئر بڑھادیں گے ، مگر وہ پھر بھی راضی نہ ہوئیں، کہنے لگیں: ’’دوسروں کے بچوں کو دیکھ کر مسکرانا سخت حماقت ہے۔‘‘
خاتون نے باجی نجمہ کو دیکھتے ہی، قدرے فخریہ انداز میں بچوں کا تعارف شروع کیا، یہ ’ ٹونی‘ ہے، تین سال کا ہے اور یہ ’ چھوٹو‘ چھ ماہ کا ہے، یہ کہہ کر انہوں نے چھوٹو کو ٹوکری سمیت باجی کی طرف بڑھایا۔
باجی نے قدرے ناگواری سے سامنے میز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا: ’’نیچے رکھ دیں!‘‘
خاتون نے سٹپٹا کر پہلے اپنے خاوند کو دیکھا، پھر گھبرا کر بولیں: ’’کیا صرف یہی کیئر ٹیکر ہیں؟‘‘
اسلم نے بروقت حاضر دماغی کا مظاہرہ کیا اور بولا: ’’جی نہیں! باقی چاروں کیئر ٹیکرز سینٹر کے بچوں کو پارک لے کر گئی ہوئی ہیں، دراصل یہ بچوں کی سیر و تفریح کے اوقات ہیں۔‘‘
’’اوہو اچھا!!‘‘ خاتون متاثر نظر آنے لگیں۔ ’’ میں بھی سوچ رہی تھی کہ اس سینٹر میں اور بچے تو نظر ہی نہیں آرہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے اپنے بچوں کی عادات اور معمولات سے متعلق ایک خصوصی بلٹن پیش کیا جو انہوں نے بے توجہی سے سنا، کیونکہ ان کے خیال میں یہ غیر ضروری تھا۔ تقریباً سب بچے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ ضدی اور بے وقوف ! اس دوران باجی کسی روبوٹ کی طرح گھوم کر واپس چلی گئیں اور بچے کے والد شرائط نامے کا فارم بھرنے لگے۔ جب والدین بچوں کو چھوڑ کر چلے گئے تو احسن نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
’’واہ! دیکھا تم نے ہماری پہلی کامیابی کتنی زبردست ہے، دو بچے اکٹھے آگئے۔ دیکھنا کچھ ہی دن میں یہاں بچوں کا بدھ بازار لگا ہوگا۔ دیکھا میرا آئیڈیا کتنا منفرد ہے۔ اگر ہم عام لوگوں کی طرح ’ ٹیوشن سینٹر‘ کھولتے تو وہاں کم از کم اتنے بڑے بچے ضرور آتے جو گھر جاکر اپنی ماؤں سے ہماری دل کھول کر شکایتیں لگاتے کہ سر ہمیں پڑھاتے نہیں…. یا مارتے ہیں، لیکن یہ ننھے ننھے بلونگڑے گھر جاکر ہماری چغلی بھی نہیں کھاسکتے ۔ اس طرح ہماری قلعی کھلنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
بڑا بچہ ٹونی جو ماں باپ کی موجودگی میں بڑی معصوم صورت بنائے بیٹھا تھا۔ اچانک اُٹھا اور ٹوکری میں لیٹے بھائی کو ایک چپت لگا کر کھلونوں والے ریک کی جانب بھاگ گیا۔ چھوٹے نے کسمساکر کمزور سا احتجاج کیا اور دوبارہ سوگیا۔ بڑے نے دیکھا کہ کھلونے اُس کی پہنچ سے دور ہیں تو اس نے لات مار کر ریک گرادیا۔ شکر ہے وہ اس کے سرپر نہیں گرا ورنہ تین سو دو کا کیس ہوجاتا۔ کھلونوں میں اس نے ایک ریل گاڑی منتخب کی اور اسلم سے بولا: ’’انتل تابی دو ….. تابی!‘‘
اسلم نے بوکھلا کر احسن کو دیکھا تو اس نے کہا: ’’ارے چابی کہہ رہا ہے چابی!‘‘
اسلم نے بچے سے ٹرین لی۔ چابی بھری اور نیچے چھوڑ دی۔ جو تین منٹ چل کر رُک گئی ۔ بچے نے زور زور سے تالی بجائی اور پھر ٹرین اُٹھا کر بولا: ’’انتل تابی!‘‘
اسلم نہایت متانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل چابی دیتا رہا، مگر جب دسویں بار بچے نے گاڑی اُٹھائی اور ٹھنک کر بولا۔’’ انتل دلدی دلدی تابی دونا!‘‘
تو اسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، بچے کو ایک چپت مار کر بولا: ’’تم خود کیوں نہیں دیتے تابی….. میں تمھارا نوکر لگا ہوا ہوں، بوریت کے پٹارے! دس دفعہ ٹرین چلواکر بھی تمھاری طبعیت نہیں بھری؟‘‘
بچے نے ناراضی سے پہلے ہونٹ بچکائے، پھر آنکھیں مچمچا ئیں۔ گویا یہ رودینے کا اشارہ تھا۔ احسن نے دوڑ کر اُسے گود میں اُٹھالیا۔ بچے نے انتقامی جذبے کی جھونک میں یہ بھی نہ سوچا کہ چپت اسلم نے لگائی تھی، اُس نے احسن کے بال دونوں مٹھیوں میں جکڑ لیے اور اتنی زور سے نوچے کہ وہ بے بس ہوکر چیخ پڑا۔’’ ارے ارے! چھوڑ جنگلی کہیں کے!‘‘
اسلم نے مداخلت کرتے ہوئے بچے کو پیچھے سے کھینچا اور نیچے دھکیل دیا۔ اس کا انتقام ادھورا تھا، لہٰذا وہ رونے لگا۔ حالانکہ رونا احسن کو چاہیے تھا جو اپنی شرٹ کے کالر سے نوچے ہوئے بال چن رہا تھا۔
بچہ مسلسل رونے کا عالمی ریکارڈ قائم کررہا تھا۔ تنگ آکر اسلم اس کے پاس فرش پر بیٹھ گیا اور سر جھکا کر بولا: ’’لے میرے بھائی میرے بال نوچ لے…. !‘‘
بچے نے تیزی سے انکار میں سرہلایا جیسے کہہ رہا ہوکہ جب میرا موڈ تھا تب کیوں نہیں نچوائے؟
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اسلم نے جیب سے ٹافی نکالی اور چھلکا اُتار کر بچے کے منھ میں ڈال دی، اس نے چند ثانیے کے لیے اپنا رونا مؤقف کیا، منھ چلاکر ٹافی کو گھمایا اور پھر غصے سے ٹافی کو تھوک سمیت باہر پھینک کر بولا: ’’یہ والی نئیں…. توتی فروتی تھاؤں دا۔‘‘
اسلم نے ٹافی اُٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکی اور دل ہی دل میں کچکچایا:’’ ٹوٹی فروٹی کے بچے !جاکر اپنے ابا کی دکان سے کھانا۔‘‘
اسلم منھ پھلا کر کرسی پر بیٹھ گیا تو احسن نے نئے عزم سے محاذ سنبھال لیا۔ بچے کو پھسلاتے ہوئے بولا:’’ آؤ بیٹا اِدھر آؤ میں تمھیں ایک بہت اچھی پوئم سناؤں۔‘‘
’’ تو تو، تو تو تا تا، دھڑی میں تو ہاناتا
دھڑی نے ایت بدایا تو ہانیتے آیا۔‘‘
احسن نے تتلا کر نظم پیش کی ، تاکہ بچے کو اپنائیت کا احساس ہوکہ دنیا میں ایک اکیلا وہی تو تلا نہیں۔
بچے کا موڈ قدرے بحال ہوگیا….. وہ اُٹھ کھڑا ہوا اورلڑھکتا ہوا میز کی جانب بڑھنے لگا۔ بچہ اس قدر موٹا تھا کہ چلنے کے بجاے لڑھکتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ پھر اس نے اچانک انتہائی غیر متوقع حرکت کی اور وہ میز پوش کھینچ لیا جس پر اس کے بھائی کی ٹوکری رکھی تھی۔ ٹوکری گرتے ہی، اندر لیٹے اُس بے وقوف بچے کو بھی ہوش آگیا جس کی ماں اُسے چھوڑ کر جاچکی تھی۔ وہ ’’پیں، پیں‘‘ کرکے گاڑی کے کسی کمزور ہارن کی طرح رونے لگا۔ شکر ہے اندر روئی کا گدا تھا، لہٰذا اسے زیادہ چوٹ نہیں آئی۔ البتہ بلندی سے پستی کی طرف سفر نے اس کے جذبات کو خاصی ٹھیس پہنچائی تھی۔ مسلسل رونے میں وہ اپنے بھائی کا صحیح حریف ثابت ہورہا تھا۔ احسن نے فوراً بچے کو ٹوکری سے نکال لیا۔ بچہ ضرورت سے زیادہ گیلا تھا۔ احسن نے برا سا منھ بنایا۔ 
’’یار اسلم بزنس کے اس ناخوشگوار بلکہ نا خوشبودار پہلو کی جانب تو میرا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ یہ بچہ سنبھالنا تو خاصا غیر شاعرانہ کام ہے۔ احسن بچے کے کپڑے بدلنے لگا۔ اس دوران اسلم نے بڑے کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھا….. ’’ بیٹا آپ نے چھوٹے بھائی کو گرادیا نا….. کتنی بری بات ہے!‘‘
بچے نے انگلی سے اپنے سینے کی جانب اشارہ کرکے غصے بھرے لہجے میں کہا: ’’یہ میلا بھائی اے ….. یہ میلا بھائی اے!‘‘ (یعنی یہ میرا بھائی ہے، میں جب چاہوں اس کو پٹخوں ….. آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے؟)
بھائی کو گرا کر ایسا محسوس ہوا گویا اُسے تسکین سی مل گئی ہو۔ وہ کونے میں رکھے توتے کے پنجرے کی طرف چلا گیا اور پنجرے سے جھانکتی، اس کی دم پکڑ کر کھینچنے لگا۔ توتا کرخت آواز میں چیخا….. ادھر چھوٹو ایسے ہچکیاں لے لے کر روہ رہا تھا جیسے اس پر مظالم کے پہاڑ ٹو ٹ پڑے ہوں۔ توتے کی ٹیں ٹیں اور بچے کی ریں ریں نے مل کر ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ جس نے اسلم اور احسن کو اتنا بوکھلا دیا کہ وہ یہ بھی نہ دیکھ سکے کہ اندرونی دروازے کے عقب سے دو سرخ سرخ گھورتی ہوئی نگاہیں اندرونی حالات کا مسلسل جائزہ لے رہی ہیں۔
بچے کو جھولا جھولاتے جھولاتے اچانک احسن کو دودھ کا خیال آیا۔ ’’ارے یار! اسلم ہم بھی کتنے بے وقوف ہیں، بچے کا منھ بند کرنے کا دودھ کی بوتل سے اچھا آلہ تو کوئی ایجاد ہی نہیں ہوا۔‘‘
اسلم نے خوش ہوکر چٹکی بجائی۔ بیگ سے بوتل نکالی اور چھوٹو کے منھ سے لگادی مگر چھوٹا تو بڑے سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ اس نے سارا دودھ اُلٹ دیا۔ دودھ اس کی بانچھوں سے نکل کر اس پر بہنے لگا۔ احسن نے تنگ آکر اُسے دوبارہ ٹوکری میں پٹخ دیا اور بولا: ’’بچہ سخت ناہنجار ہے، اسے ذرا احساس نہیں کہ وہ ابتداء میں ہی ہمار ابزنس ٹھپ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ تعاون کا تو ذر اسا بھی جذبہ اس میں موجود نہیں۔‘‘
اس بار اسلم نے ہمت کی اور بچے کو ٹوکری سے نکال کر اُچھالنے کدانے کی کوشش شروع کردی کہ ممکن ہے وہ ایکسائٹمنٹ اور تھرل محسوس کرے اور اس کا موڈ خوشگوار ہوجائے، مگر وہ چڑ چڑابچہ مزید حلق پھاڑ کر رونے لگا۔ شاید اپنی ماں کو یاد کررہا تھا، جتنا وہ اپنی ماں کو یاد کرتا اتنی ہی ان دونوں کو نانی یاد آتی۔
احسن نے عاجز آکر کہا: ’’یار اسلم! میرے خیال میں اس وقت اسے کسی اسپورٹس کی جانب راغب کرنے کے بجاے سیدھے سیدھے دودھ پلانے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ دودھ پی کر بچے فوراً سوجاتے ہیں۔‘‘
اسلم نے جُھلا کر کہا:’’ مگر یہ سیدھے سیدھے دودھ نہیں پی رہا تو اس کا کیا علاج ہے۔‘‘
’’اسے اُلٹ دیا جائے۔‘‘ احسن نے غیر معمولی سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’کیا!!‘‘ اسلم دھک سے رہ گیا اور اس دوران احسن نے بچے کو ٹانگ سے پکڑا کر اُلٹا کردیا۔ بچہ کچھ دیر کے لیے تو بھونچکا رہ گیا کہ سب چیزیں اُلٹی کیوں نظر آرہی ہیں؟ پھر جب خلا میں ادھر ادھر جھولتے ہوئے اُسے اپنی غیر محفوظ پوزیشن کا احساس ہوا تو اس نے دوبارہ رونے کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں سے منقطع کیا تھا۔ احسن ہوا میں جھولتے بچے کی جانب اشارہ کرکے چیخا۔
’’اسلم! جلدی کرو….. بوتل منھ سے لگادو….. اب اگر یہ بے وقوف دودھ تھوکے گا یا اُلٹی کرے گا تو وہ اُلٹی بھی سیدھی ہوجائے گی، یعنی سیدھے پیٹ میں جائے گی۔‘‘
بچہ اُلٹانے میں اس کا بڑے گلے والا جھبلا بھی اس کی گردن سے نکل چکا تھا۔ وہ بدستور رورہا تھا۔ بس اُلٹا ہونے کے باعث اس کا ساؤنڈ سسٹم متاثر ہوا تھا اور اب وہ کسی بس کے ہارن کی طرح بج رہا تھا۔ اسلم نے جونہی بوتل اُٹھائی….. اچانک بیرونی دروازہ کھلا اور بچے کی ماں جھنجھنا ہاتھ میں لیے یہ کہتی ہوئی داخل ہوئی کہ’’میں نے سوچا، چلو ایک نظر بچے کو!‘‘
بس ایک نظر ڈالنے کی دیر تھی۔ ماں نے چیخ ماری اور جھپٹ کر بچے کو سیدھا کیا اور پھر احسن پر اُلٹ پڑی:’’یہ بے بی کیئر سینٹر ہے یا ٹارچرسیل؟ آخر یہ آپ کر کیا رہے تھے میرے بچے کو اُلٹا لٹکا کے؟‘‘ اسلم نے بوکھلاہٹ کے مارے ایک بھونڈی سی توجیح پیش کی۔
’’وہ دراصل ریکارڈ میں بچے کے باپ کا نام لکھنا بھول گئے تھے، ہم اس سے وہی اُگلوارہے تھے۔‘‘
’’کیا! آپ لوگ پاگل تو نہیں ہوگئے۔ بچے کے باپ کا نام یہ چھ ماہ کا بچہ کیسے بتائے گا۔ آپ بڑے سے نہیں پوچھ سکتے تھے، بیٹا آپ بتایئے….. کیا نام ہے ڈیڈی کا؟‘‘
’’آلف تھوتھر!!‘‘
\”دیکھیے محترمہ! اس کی زبان صاف نہیں….. اس لیے ہم سمجھ نہیں پارہے تھے۔‘‘
’’کیا!!کیا کہا آپ نے اس کی زبان صاف نہیں….. بالکل صاف تو سمجھ میں آرہا ہے کہ بچہ ’عارف کھوکھر‘ کہہ رہا ہے۔‘‘
ماں نے چھوٹے کو کندھے سے لگا کر تھپکتے ہوئے، بڑے کو گھسیٹا۔’’چلیں بیٹا یہاں سے ….. یہ لڑکے تو مجھے سنکی معلوم ہوتے ہیں….. اور ہاں ہماری فیس واپس کیجیے سیدھے ہاتھ سے….. ورنہ میں بھی ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں اس جعلی ڈے کیئر سینٹر کی۔‘‘
’’پولیس!‘‘ اسلم نے تھوک نگل کر جلدی سے دراز کھولی اور بزنس کی پہلی کمائی سیدھے ہاتھ سے خاتون کو واپس کردی ۔ دونوں کو رات بھر نیند نہ آئی….. بہت کوشش کی….. کیونکہ صبح آفس بھی تو جانا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top