skip to Main Content

چکر

حماد ظہیر
……………………

جن سیریز

……………………

’’خزانے‘‘ کا لفظ سن کر میں چونکا۔
آپ شاید سوچیں کہ بھلا جنوں کو خزانے سے کیا سروکار اور خزانہ کسی جن کے کس کام کا۔ تو ذرا یہ بھی تو سوچیں کہ خزانہ بھلا انسان کے کس کام کا؟ کتنے ہی خزانے دنیا میں پڑے رہ گئے یاد ھنس گئے اور لوگ فقط اس کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بہرحال اس لفظ میں کم از کم اتنی کشش تو تھی کہ میں دروازے پر پہنچ گیا اور سلمان کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں کی بات سننے لگا۔
’’اگر ہم واقعی پرانے زمانوں میں ہوتے تو اسے کسی بڑے خزانے کا نقشہ سمجھتے!‘‘ ایک دوست نے کہا 
’’لیکن یہ تو سوچو کہ اس دور میں تو وہی زمانہ حال ہوتا۔ پرانا زمانہ نہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ اگلے دو چار ہزار سال اگر دنیا باقی رہے تو آج کا زمانہ بھی پرانا اور قدیم تصور کیا جائے۔‘‘سلمان نے کہا۔
’’ جو بھی ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ یقیناًکوئی راز ہے جو ہمارے گھر کی بنیادوں کی کھدائی کے دوران ایک پلاسٹک کی تھیلی میں لپٹا ہوا نکلا ہے‘‘۔ دوسرا دوست بولا۔
’’تو بھائی تم وہ لیتے آتے نا ہم بھی دیکھتے ذرا کہ کیا لکھا ہے اور کیا بنا ہے۔ ‘‘ سلمان نے کہا۔
’’ہمیں تو بہت ڈر لگ رہا تھا۔ اس لیے ہم نے اسے وہیں قریب ایک جگہ چھپا دیا۔ اب تم دونوں کو لینے آئے ہیں تاکہ تم لوگ عقل لڑا کر یہ معمہ حل کرو!‘‘
’’اچھا تو پھر میں نعمان کو بلا کر، اور امی کو بتا کر آتا ہوں‘‘
’’سنو سنو! یہ کوئی عام بات نہیں ہے کہ ہر کسی کو بتلا دی جائے۔ کہیں کوئی ملکی راز یا پولیس کو مطلوب دستاویز ہوئی تو مفت میں دھر لیے جائیں گے۔‘‘ ایک دوست نے کہا
’’اور عورتیں تو ویسے بھی کسی بات کو زیادہ دیر نہیں چھپا سکتیں۔ تم اپنی امی سے کہہ دو کہ بوبی سے ملنے جارہے ہیں‘‘۔ دوسرے دوست نے مفت مشورہ دیا۔
’’لیکن نہ ہم امی سے کوئی بات چھپاتے ہیں اور نہ ہی ان سے جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ سلمان نے جرح کی۔
’’تو جھوٹ نہیں ہوگا نا! ہم بوبی سے بھی ملتے آئیں گے!‘‘
سلمان سر ہلاتا ہوا اندر چلا گیا۔
گو کہ وہ لڑکے مجھے کچھ عجیب سے لگے لیکن جو کچھ وہ کرنے جارہے تھے وہ مجھے دلچسپی سے خالی نہ لگا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اس مہم میں ان بچوں کا پورا پورا ساتھ دوں گا اور اگر وہ ملک وقوم کی کوئی خدمت کرنے جارہے ہیں تو ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کروں گا کیونکہ اب تو میں ان کی مدد کرنے کے بھی قابل تھا!
سلمان، نعمان کے ساتھ باہر آیا اور چاروں لڑکے ایک طرف کو چل دیئے۔
کافی آگے چل کر ایک چوراہے سے وہ لوگ سیدھے ہاتھ پر مڑنے لگے تو ایک دوست بولا:
’’اس جگہ ہمیں وہ کاغذ رکھتے ہوئے ایک مزدور نے دیکھ لیا تھا لہٰذا اس کو ہم نے فلیٹوں کے پیچھے چھپا دیا ہے‘‘
’’تو یہ بات تم لوگوں نے پہلے کیوں نہیں بتائی؟‘‘ نعمان نے بھنوئیں اچکائیں
’’یہ بات تو مجھے بھی ابھی ابھی معلوم ہوئی ہے‘‘ دوسرے دوست نے پہلے دوست کو گھورتے ہوئے معذرت کی۔
اب وہ چاروں بائیں ہاتھ کی طرف مڑ گئے۔ میں نے دیکھا اس طرف کچھ فلیٹ زیر تعمیر تھے۔
’’کس جگہ رکھ دیا بھئی! سلمان نے پوچھا
’’وہ سامنے جو ایک کمرہ نظر آرہا ہے نا، بس اسی کے اندر رکھا ہے‘‘ دوست نے کہا
’’اتنا دور جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے تو بہتر تھا کہ اپنے گھر ہی لے جاتے‘‘ سلمان نے پھر کہا۔
’’بس بتایا نا کہ کچھ ایسی پراسراریت تھی اس میں کہ جنوں بھوتوں کا بھی خوف ہوا اور پولیس وغیرہ کا بھی ڈر تھا‘‘
میں نے منہ بنایا۔ جب بھی میں مسلمانوں کے منہ سے جنوں بھوتوں کے خوف کی بات سنتا تو دانت پیس کر رہ جاتا۔ اگر چنے کے دانت ہوتے تو اب تک ٹنوں بیسن تیار ہوچکا ہوتا۔
وہ چاروں جس کمرے کے پاس پہنچے اس کے آس پاس دور دور تک کوئی مکان یا سڑک نہیں تھی۔ فلیٹ کافی دور تھے لیکن وہ بھی ویران لگتا تھا کہ کسی زمیندار نے اپنی زمینوں کے بیچوں بیچ کسی اسٹور وغیرہ کے مقصد کیلئے وہ کمرہ بنوایا ہے۔ 
دروازہ تالے کے بوجھ سے بے نیاز تھا۔ کنڈی کھول کر دونوں لڑکے اندر داخل ہوئے اور سلمان نعمان کو بھی پیچھے آنے کا کہا۔
میں بن بلائے مہمان کی طرح اندر داخل ہوگیا۔
چاروں کمرے کے ایک کونے میں پہنچے اور ایک دوست نے کونے پر رکھا بڑا سا پتھر کھسکایا۔
’’ارے میری چابی تو شاید باہر گر گئی‘‘ دوسرے دوست نے جیبوں پر ہاتھ مارے اور باہر کی طرف لپکا۔
’’اوہ یاد آیا دروازے کے پاس مجھے کوئی چیز گرنے کی آواز آئی تھی۔‘‘ وہ لڑکا بھی باہر کی طرف گیا اور باہر جاتے ہی انہوں نے دروازہ باہر سے بند کردیا۔
’’ہا ہا ہا ۔۔۔ پھنس ہی گئے نا آخر، بہت چالاک اور ذہین بنتے تھے‘‘ باہر سے قہقہہ کی آواز آئی۔
پہلا خیال مجھے یہی آیا کہ وہ دونوں کوئی شریر جن تو نہیں تھے۔ نہیں ورنہ میں تو انہیں نظر آہی جاتا۔
’’اب بتاؤ ذرا کیا ضرورت تھی ہمارے ابا سے ہماری سگریٹ پینے کی شکایت لگانے کی ‘‘ ایک لڑکا بولا
’’ہاں ہاں بڑے نیک بنے پھرتے ہو۔۔۔ سارے زمانے کو سدھارنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا تم لوگوں نے‘‘ دوسرے لڑکے نے بھی باہر ہی سے ہانک لگائی۔
’’اوہ ۔۔۔ میں تو انہیں دوست سمجھا تھا۔ انہوں نے تو سازش کر کے پھنسا دیا سلمان نعمان کو‘‘ میں نے سوچا۔
’’ہاں ہاں ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ بلکہ اللہ نے دیا ہے ہمیں اس کام کا ٹھیکہ جنت کے بدلے کہ نیک بنو اور نیکی پھیلا ؤ !‘‘ نعمان نے گرج کر کہا 
’’اب تم لوگ اپنے سارے شوق اندر ہی بیٹھ کر پورے کرو۔ ایک رات اور ایک دن ا س کال کوٹھری میں بھوکے پیاسے رہنا تم لوگوں کی سزا ہے۔ اگر ہمیں ترس آگیا تو ہم کل کسی وقت کسی راہ گیر سے کہہ کر تم کو کھلوادیں گے۔‘‘ ایک لڑکے نے مکاری سے کہا۔
’’لیکن تم پر ہمیں حبس بے جا میں رکھنے کا مقدمہ ہوسکتا ہے اور ویسے بھی تم جانتے ہو کہ ہم کتنے اچھے لڑاکا ہیں۔ کبھی نہ کبھی تو ہوگی ہی ملاقات!‘‘ سلمان نے انہیں دھمکایا۔
’’ہاں ہمیں پتا ہی ہے تبھی تو ہم نے تم لوگوں کیلئے یہ سزا تجویز کی ہے۔ ورنہ کوئی اور ہوتا تو اس کا ٹوٹا پھوٹا ڈھانچہ کسی ہسپتال میں پڑا ہوتا‘‘ دوسرا لڑکا بولا
’’اور آج ہی ہم اپنا کرائے کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ شفٹ ہورہے ہیں کل تک تمہیں ہمارا نشان بھی نہیں ملے گا‘‘ پہلا لڑکا بولا۔
’’تم اپنی خیر مناؤ، ہم نے صرف یہاں سے بہت جلد نکل جائیں گے بلکہ تمہارے علاقہ چھوڑ جانے کے بعد بھی باآسانی تمہارا کھوج لگالیں گے۔ تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ تم ہمیں فورا کھول دو‘‘ نعمان نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ہا ہا ہا۔۔۔ جب نکل جاؤ گے باآسانی تو ہم سے کیوں کہہ رہے ہو۔ یاد رہے کہ تمہاری امی تو سمجھ رہی ہوں گے کہ تم ہو بوبی کے یہاں ‘‘ ان لڑکوں نے قہقہہ لگایا اور وہاں سے چل پڑے۔ 
’’ہم نے تو جو کچھ کیا ان کی بھلائی ہی کیلئے کیا۔ پہلے خود انہیں سمجھایا کہ سگریٹ جیسی بری عادت کو چھوڑ دو۔۔۔ یہ نہ سمجھے تو ان کے والد کو بھی ان کی اصلاح ہی کی نیت سے بتایا!‘‘ سلمان نے افسوس کیا۔
’’اور انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ خیر کوئی بات نہیں ہماری ذمہ داری تو پوری ہوئی۔ اب سوچو کوئی ترکیب یہاں سے نکلنے کی۔‘‘ نعمان نے ہمت کی۔
’’کوئی نیک انسان گز ررہا ہو یہاں سے تو ذرا دروازہ کھول دے‘‘ سلمان نے صدا لگائی۔ میں فوراً باہر نکلا اور آواز لگائی۔
’’کون ہو تم اور اندر کیا کر رہے ہو‘‘ کہہ تو میں نے دیا لیکن سوچنے لگا کہ انہوں نے تو نیک انسان کو پکارا تھا اور میں تو سرے سے انسان ہی نہیں۔
اللہ سے خوب دعا کی کہ یہ آواز ان تک پہنچ جائے۔
’’آ۔۔۔ آپ کون ہیں؟‘‘ سلمان تھوڑا بوکھلا گیا۔ یقیناًوہ لوگ بھی چونکے ہوں گے کہ ایک ہی آواز پر اس ویرانے میں کون اتنا قریب آگیا۔
میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان تک میری آواز پہنچی۔
’’بھائی ذرا دروازہ کھول دیں کسی نے ہمیں بند کردیا ہے۔‘‘ نعمان نے جلدی سے کہا۔
’’اچھا ابھی کھولتا ہوں‘‘ میں نے ایک دیہاتی کا روپ دھارا اور لگا دروازہ کھولنے۔۔۔ لیکن یہ کیا باوجود بہت کوشش کے کنڈی تو میرے ہاتھ ہی میں نہیں آرہی تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں اس وقت صرف اپنی آواز ہی سنا سکتا ہوں، یا شاید نظر بھی آسکوں لیکن کسی چیز کو چھونا اس وقت ممکن نہیں۔
’’کیا ہوا بھائی؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔ اب ظاہر ہے مجھے کوئی بہانہ کرنا تھا۔ ’’مم۔ میں سوچ رہا ہوں کہیں تم لوگ کوئی آسیب وغیرہ تو نہیں۔ میں ویسے ہی بھوتوں، چڑیلوں سے بہت ڈرتا ہوں‘‘ میں نے کہا ’’ہم کوئی بھوت وغیرہ نہیں ہیں، آپ چاہیں تو دروازہ کھول کر تسلی کرلیں‘‘
’’دروازہ کھولتے ہی تو تم مجھ پر سوار ہوجاؤ گے۔ نا بابا نا۔ میں کسی بہادر آدمی کو ادھر بھیجتا ہوں‘‘ میں نے الٹا انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’دیکھیں آپ ہماری بات پر یقین کریں‘‘ سلمان کی آواز آئی۔ پھر کچھ دیر بعد نعمان چلایا۔
’’اچھا کسی بہادر آدمی کو ضرور بھیجئے گا اور جلدی‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
قریب ترین آدمی ڈھونڈنے کیلئے میں نے نظریں دوڑائیں تو مجھے وہی دو لڑکے نظر آئے جو چوراہے تک جاچکے تھے اور خوب مکر وہ ہنسی ہنستے ہوئے اپنے ’’معرکے‘‘ پر خوش، سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا کر منا رہے تھے۔ میرا خون کھول اٹھا۔
وہ تھوڑا ہی اور آگے گئے ہوں گے کہ ان کے پاس سے ایک گاڑی گزری جس کی پچھلی سیٹ خالی تھی۔ بس میں فورا اس میں نعمان بن کر بیٹھ گیا۔
دونوں ہی نے مجھے دیکھا۔۔۔ لیکن شاید وہم سمجھا ہو، لہٰذا میں فورا واپس ہوا اور دونوں کے بیچ جاکر ملتی جلتی آواز میں کہا
’’ارے یہ تو نعمان تھا!‘‘
دونوں نے مڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا
’’یہ تو کچھ بھی نہ ہوا‘‘ اور تیز تیز واپس اس کمرے کی طرف لوٹے۔ شاید یقین کرنے کہ وہ دونوں کمرے ہی میں ہیں یا آزاد ہوگئے۔
’’سلمان ! نعمان! کیا تم لوگ اندر ہو‘‘ بوکھلاہٹ اور پریشانی تو تھی وہی، ا س لڑکے نے بے وقوفوں کی طرح آواز دی۔
’’میرا خیال ہے اگر ہم خاموش رہیں تو وہ لامحالہ دروازہ کھولیں گے‘‘ نعمان نے سرگوشی کی
اور یہی ہوا۔ دو تین آوازیں دینے کے بعد انہوں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا اور ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔نہ جانے مجھے کیا سوجھی میں نے خوب زور لگایا اور دروازہ نہ صرف بند کیا بلکہ کنڈی بھی اٹکانے میں کامیاب ہوگیا۔
’’اوہ ۔۔۔ ہائے ۔۔۔ یہ کیا ہوا۔۔۔ کون تھا یہ‘‘ ایک لڑکے کی سہمی ہوئی آواز آئی۔
’’شاید سلمان قریب ہی کہیں چھپا ہوگا۔ اس نے باہر سے بند کردیا۔ اب کیا ہوگا‘‘ دوسرے نے تقریبا روتے ہوئے کہا۔ مجھے فخر محسوس ہوا کہ ایک سلمان نعمان کی ہمت تھی اور ایک یہ بزدل!
’’ہم تو یہیں ہیں۔ دروازہ تو کسی اور نے بند کیا ہے‘‘
سلمان نعمان جو دیوار کی آڑ لیے کھڑے تھے سامنے آگئے۔ وہ دونوں لڑکے تو بس روہی پڑے اور گھگھیاتے ہوئے بولے ’’تت تم لوگ کہیں واقعی بھوت تو نہیں، ہم نے تو تمہیں ابھی ایک گاڑی میں بیٹھے دیکھا تھا۔‘‘
’’وہم ہوا ہوگا، ہم دونوں تو اس وقت سے یہیں ہیں‘‘ نعمان نے کہا۔
’’میں تو وہم ہی سمجھا تھا لیکن جب اس نے کہا کہ نعمان گزرا ہے تو یقین کرنا ہی پڑا کیونکہ دونوں کو ایک ساتھ تو وہم ہو نہیں سکتا‘‘
’’میں نے کب کہا تھا۔ میں تو خود اسے اپنا وہم سمجھ رہا تھا۔ کہا تو تم نے تھا‘‘
بس پھر وہ دونوں اسی بات پر جھگڑنے لگے کہ ’تم نے کہا تھا ‘، ’تم نے کہا تھا‘ جبکہ میں ایک کونے میں منہ دبائے ہنس رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ کب سلمان نعمان ان کی چٹنی بنانا شروع کرتے ہیں۔
’’ایک بات بتاؤ اگر تم لوگ سگریٹ نوشی کی بری عادت کو ترک کرلو گے تو اس میں ہمارا کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ سلمان نے دھیمے سے کہا۔
’’اور اس کے بے شمار نقصانات کی وجہ سے اگر تم تباہ ہوجاؤ گے تو ہمارا کیا نقصان ہوگا‘‘ نعمان نے بھی وہی لہجہ روا رکھا۔
اب چونکہ سلمان نعمان غالب تھے لہذا لڑکے نہ صرف ٹھنڈے دل سے ان کی بات سن رہے تھے بلکہ شاید سمجھ بھی رہے تھے۔
’’لیکن بلگرامی نے تو بتایا تھا کہ اس سے بڑے مزے ہیں۔ ذائقہ الگ اور سکون الگ۔ یکسوئی بھی حاصل ہوتی ہے‘‘
’’بڑے بے وقوف ہو تم لوگ۔ بلگرامی تم سے کتنا بڑا ہے اور ہم نے بچپن سے اسے کوئی صحیح کام کرتے نہیں دیکھا اور تم اسکی باتوں میں آگئے۔‘‘ نعمان نے ڈانٹا۔
’’لیکن اس میں آخر اس کا کیا فائدہ تھا۔ اس نے تو ہمیں سرسری سا بتایا تھا۔ اور ٹرائی کرنے کیلئے ایک دے بھی دی تھی‘‘
’’بس وہیں پھنس گئے تم لوگ۔ اس لعنت کو تو چھونے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایک دفعہ جو پھنسا بس پھر تو وہ گیا‘‘ سلمان نے کہا۔
’’توڑ کر پھینک دینی چاہئے تھی فوراً۔ دراصل تم نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جو اس کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اور جو منہ اور حلق سے مائع بھی نگلنے کے قابل نہیں، بلکہ نلکی پیٹ میں لگا کر انہیں جوس وغیرہ دیا جاتا ہے‘‘ نعمان نے انجام بتایا۔ تو دونوں لڑکے کانپ گئے۔
دروازے پر کھٹ پٹ ہوئی تو میں بھی سمجھا کہ واقعی کوئی بھوت آگیا۔ ان لڑکوں کی تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ نعمان نے کہا۔ ہم چھپ کر دیکھتے ہیں بھلا کون آیا ہے اور آخر کیوں آیا ہے‘‘
’’ان اینٹوں کے پیچھے چھپ جاؤ کہیں کوئی خطرناک آدمی ہوا تو ہمیں نقصان ہی نہ پہنچا دے‘‘
میں نے دیکھا اب بھی آنے والے دو ہی تھے۔ لیکن عمر میں وہ پچھلے چاروں سے بڑے تھے۔ ان کے حلیے بھی بالکل بگڑے ہوئے تھے۔
’’ماما کو بتا دیا ہے کہ نئے چھوکروں کو ہر پانچ میں سے ایک چرس والی سگریٹ دیا کرے‘‘ نووارد بولا
’’دیکھ بلگرامی، تیرا دھندہ بہت سست جارہا ہے۔ اس طرح تو تو بھوکوں مرجائے گا۔ زیادہ سے زیادہ بندے پھنسا اور فوراً انہیں چرس کی لائن پر لگا، ورنہ اپنا کیا فائدہ؟‘‘ دوسرا جو بلگرامی سے بھی تھوڑا بڑا تھا بولا۔
’’اچھا تو یہ ہے بلگرامی۔ اور اس کے کرتوت۔ یہ تو پورا شیطان ہے ابھی ذکر ہوا اور ابھی حاضر، میں نے سوچا۔
ادھر یقیناًسلمان نعمان اور انکے ساتھ دونوں لڑکے بھی حقیقت سمجھ گئے ہونگے۔ تبھی تو انہوں نے سامنے آکر بلگرامی اور اسکے ساتھی کی پٹائی شروع کردی۔ انہیں اتنا مارا کہ میرے دل میں بھی ٹھنڈک پڑ گئی اور اگر ان لوگوں نے ان کے ہاتھ پیر نہیں توڑ دیئے ہوتے تو میں خود بلگرامی اور اس کے ساتھی کی گردن توڑنے کی کوشش کرتا۔
مجھے ان کی گرفتاری کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنی سلمان نعمان کے ساتھیوں کی نشہ کی لت سے آزادی کی تھی۔ اور وہ دونوں بھی نیکی کے سپاہیوں میں اپنا نام لکھوا چکے تھے۔
اور میں جو کسی خزانے کا سن کر اٹھا تھا اپنے رب کی بارگاہ میں دو چمکتے موتیوں کا اضافہ کرکے زیادہ شاداں تھا! *

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top