skip to Main Content

چچا ہادی نے ناول لکھا

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی دوران موڑ سے مجھے ایک محافظ تیز قدم اٹھاتا ہماری طرف بڑھتا نظر آیا….

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے ، جب میں تعلیم سے فارغ ہوچکا تھا اور نوکری کی تلاش میں تھا، لیکن نوکری نہیں مل رہی تھی۔ جب میں دفتروں کے چکر لگا لگا کر مایوس ہو گیا تو میرا بیشتر وقت گھر میں گزرنے لگا۔ میرے پڑوس میں چچا ہادی رہتے تھے میں اکثر ان کے پاس چلا جاتا۔ چچا ہادی، ماضی کے مشہور کردار چچا چھکن کی ہو بہو تصویر تھے۔ وہی چگی ڈاڑھی، سیدھا پاجامہ کرتا اور سر پر پھندنے والی ٹوپی ۔ ان کے گھر کے ایک کمرے کا دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ جسے لوگوں نے کبھی بند نہیں دیکھا تھا۔ وہ چچا کا بیڈ روم، ڈرائنگ روم، آفس غرض سب کچھ تھا۔ چچا ایک بڑے محکمے سے ریٹائر ہوئے تھے اور اب پنشن پر گزارہ کررہے تھے۔ اُنھوں نے مجھے امید دلا رکھی تھی کہ میری ملازمت کے لیے کوشش کریں گے۔ ان دنوں چچا پر کہانیاں لکھنے کا بھوت سوار تھا۔ جب ان کی کچھ کہانیاں مختلف رسائل میں شائع ہو گئیں تو ان کا دماغ ساتویں آسمان پر جا پہنچا۔ وہ اپنے آپ کو بہت بڑا مصنف اور ناجانے کیا کچھ سمجھنے لگے اور پھر اُنھوں نے ایک ناول پر کام شروع کردیا جو ایک ہزار ایک صفحات پر لکھا جانا تھا جب میں نے ان سے اتنی ضخامت کا سبب پوچھا تو وہ کسی سیاست دان کی طرح بولے ” یہ میری طرف سے قوم کو ایک تحفہ ہوگا۔“
ایک دن جب میں ان کے پاس گیا تو انھیں بے چینی سے کمرے مےں ٹہلتے پایا وہ کسی سوچ میں گم تھے، کبھی بڑبڑانے لگتے۔ میں نے بات کرنے کی کوشش کی تو ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر خاموش کر ادیا۔ ان کی حالت بے چین مرغی جیسی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ کرسی پر ڈھ گئے ان کی سانس تیزی سے چل رہی تھی۔ جب حواس کچھ بحال ہوئے تو بولے:
” میاں بھتیجے ! ناول آخری موڑ پر پہنچ چکا ہے بس اختتام رہ گیا ہے اورمیں اس پر کام کررہا ہوں، لیکن ایک نکتہ سمجھ میں نہیں آرہا۔“ اُنھوں نے سر کھجایا پھر بولے ” پتا نہیں جے کے رولنگ اس صورتحال میں کیا کرتی ہوگی؟“
” کون؟“ میں نے چونک کر کہا۔
”اپنی جے کے رولنگ“ وہ بولے۔
”وہ کون ہے؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
اُنھوں نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولے ” یہی تو المیہ ہے تمہاری نسل کا تمہاری معلومات ناقص ہیں اور تم لوگ اپنے آپ میں مگن رہتے ہو ۔ تمھیں پتا ہی نہیں جے کے رولنگ کون ہے؟“
میں نے کہا ” آپ تو اس طرح کہہ رہے ہیں جیسے وہ ہمارے محلے میں ہی رہتی ہے، آخر کون ہے وہ؟“
اُنھوں نے سر پر ہاتھ مارا اور بولے ” ہیری پوٹر سیریز کی معروف مصنفہ پہلے ایک اسکول ٹیچر تھی اورآج کل اس کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے، معلوم ہے اس نے پیسے کیسے کمائے؟“
”شاید بچوں کو ٹیوشن پڑھاکر۔“ میں نے بے خیالی میں کہا۔
اُنھوں نے غصے سے مجھے گھورا اور بولے: ” نہیں اس نے یہ پیسہ اپنے ناولوں سے کمایا ہے۔“
میں نے گہری آہ بھری اور کہا ” چچا جان! وہ ایک امیر ترین ملک میں رہتی ہے اور ہم…. بہرحال آپ نے مجھے کیوں بلایا تھا؟“
چچا مسکراے اور بولے: ” میاں عامر! ایک کام آپڑا ہے، ناول کا اختتامی باب لکھنے کے لیے تازہ ہوا اور ماحول کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تم مجھے ذرا گاندھی گارڈن لے چلو۔“
”گاندھی گارڈن؟ اس نام کا پارک تو ہمارے شہر میں نہیں ہے۔“ میں نے حیرت سے کہا ۔ اُنھوں نے ایک بار پھر اپنا سر پیٹ لیا اور بولے ” میں چڑیا گھر کی بات کررہا ہوں۔“
” اچھا چڑیا گھر ، لیکن کیسے جائےں گے؟“
” اپنے بھائی کی موٹر سائیکل لے لو۔“ وہ ہوشیاری سے بولے۔
میں نے آہ بھری اور کہا ” اُنھوں نے مجھے موٹر سائیکل کو ہاتھ لگانے سے بھی منع کر دیا ہے، پیٹرول بہت مہنگا ہو گیا ہے۔
”تو پھر تمہاری سائیکل پر چلتے ہیں۔“ اُنھوں نے تجویز پیش کی۔
” میں نے سائیکل چلانا چھوڑ دی ہے۔“
” کیوں؟“ اُنھوں نے پوچھا۔
” جب بڑی بڑی گاڑیاں قریب سے گزرتی ہیں تو سائیکل سواروں کو احساس کمتری ہونے لگتا ہے۔“ میں نے ایک اور آہ بھر کر کہا۔
چچا بولے ”بھتیجے ! اتنی آہیں نہ بھرو، کمرے کی فضا ٹھنڈی ہوتی جارہی ہے۔ اس عمر میں مجھ سے ٹھنڈ برداشت نہیں ہوتی۔“
”تو کیا کروں؟“ میں نے بے بسی سے کہا۔
”ایسا کرو کسی قریبی پارک مےں لے چلو۔“ وہ بولے۔
میں نے کہا ” ہمارے محلے کے قریب میں کوئی پارک بھی نہیں ہے سب جگہوں پر بلڈروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ آپ کہیے تو کلفٹن لے چلوں۔شاید وہاں کی تازہ ہوا آپ کو راس آجائے ۔“
چچا بولے ”چلو یوں ہی سہی۔“
میں نے انھیں سائیکل پر بٹھایا اور روانہ ہو گیا۔ جلد ہی ہم پرہجوم گلیوں سے نکل کر کھلے علاقے میں آگئے۔ تیز ہوا چل رہی تھی اور مخالف سمت کی تھی۔ مجھے بہت زور لگانا پڑرہا تھا۔ ہم ایک ایسی سڑک سے گزر رہے تھے جس پر ایک بڑے ملک کا قونصل خانہ تھا عام طور پر وہ سڑک بند رکھی جاتی تھی، لیکن ان دنوں کھلی ہوئی تھی ۔ اس پر سے اِکاّ دُکاّ گاڑیاں ہی گزر رہی تھیں۔ میں تیزی سے پیڈل مار رہا تھا تاکہ جلدی وہاں سے گزر جائیں ۔ اچانک چچا ہادی چلائے ۔
”روکو روکو! سائیکل روکو!!“
میں نے گھبرا کر بریک لگائے۔ چچا نے میرا ہاتھ ہٹایا اور سائیکل سے اتر کر فٹ پاتھ پر جا بیٹھے۔ میں نے گھبرا کر پوچھا: ”چچا کیاہوا؟“
اُنھوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور سرگوشی میںبولے ”آمد ہو رہی ہے آمد! مجھے اختتامی باب کا آئیڈیا سوجھ رہا ہے۔“
وہ فٹ پاتھ پر آرام سے بیٹھے اور گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ وہاں دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ قونصل خانے کی اونچی دیوار پر خاردار تار لگی تھی اور کیمرے بھی لگے نظر آرہے تھے۔ مجھے گھبراہٹ ہونے لگی۔ میں نے کہا۔ ”چچا چلیں کہیں اور بیٹھ کر سوچ لیجیے گا۔“
لیکن اُنھوں نے میری بات ان سنی کردی۔ قریب کے درخت پر ایک کوا بیٹھا حیرت انگیز خاموشی سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ جب دس منٹ اسی طرح گزر گئے تو میں سائیکل سے اتر کر ان کے پاس گیا اور سرگوشی میں بولا۔ ”چچا جان آپ جہاں تشریف فرما ہےں۔ یہ جگہ اس کی ہے جو پوری دنیا کا کبھی چچا (چچا سام) تھا لیکن اب دادا بنا ہوا ہے۔ وہ ہم لوگوں کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرتے۔ ویسے بھی ان دنوں ہر ڈاڑھی والے کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ تو ماشا اﷲ دائمی باریش ہیں۔ میں بھی حالات کی بنا پر ہفتوں ڈاڑھی نہیں بناتا۔ ایسا نہ ہو شک کی بنا میں ہم دونوں دھر لےے جائیں۔“
چچا نے میری بات کا کوئی اثر نہیں لیا۔ وہ اسی طرح بیٹھے رہے۔ گھبراہٹ میں میرے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اسی دوران موڑ سے مجھے ایک گارڈ تیز قدم اٹھاتا آتا نظر آیا۔ وہ بہت بھاری بھر کم آدمی تھا۔ موٹے یونیفارم اور فوجی جوتوں میں وہ بہت خطرناک لگ رہا تھا۔ اس کی نظریں ہم پر تھیں اور ہاتھ ہولسٹر پر جما تھا۔ میں نے چچا کی توجہ فوراً اس کی طرف کرائی ۔ چچا نے ترچھی نظر اس پر ڈالی اور بولے: ” تم خاموش رہنا اس جن سے میں خود بات کرلوں گا۔“ وہ دھپ دھپ چلتا ہمارے قریب آیا تو چچا ہاے ہاے کرنے لگے، ایسا لگتا تھا سخت بیمار ہیں۔ گارڈ سخت لہجے میں بولا ” یہاں کیا ہو رہا ہے؟“
چچا نے کراہتے ہوئے جواب دیا ” بیٹا بیمار ہوں، ڈاکٹر کے پاس جارہا تھا کہ چکر آنے لگے اس لیے دو گھڑی بیٹھ گیا۔“
میں چچا کی حاضر دماغی کی دل ہی دل میں داد دے رہا تھا۔ گارڈ یکدم نرم پڑ گیا۔ اس نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ کیا ہوا ہے۔ چچا جلدی سے بولے:” میاں کوئی ایک بیماری ہو تو بتاؤں۔“ پھر وہ اگلے دس منٹ تک مختلف بیماریوں اور ان کے گھریلو علاج بتاتے رہے ۔ گارڈ کو وہ بولنے کا موقع نہیں دے رہے تھے۔ اس سے اگلے دس منٹ میں اُنھوں نے گارڈ سے اس کے گھر کے حالات پوچھے اور اسے اپنا منھ بولا بیٹا بنا ڈالا، اٹھتے اٹھتے اُنھوں نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ ان کے گھر ضرور آئے گا اور ان کے ساتھ کھانا بھی کھائے گا۔ میں نے سائیکل سنبھالی اور انھیں بٹھا کر وہاں سے چل دیا۔ کچھ دور جا کر میں نے مڑ کر دیکھا وہ گارڈ ابھی تک اسی جگہ خاموش سکتے کی حالت میں کھڑا تھا۔ چچا ہنس کر بولے۔ ”دیکھا میاں عقل کا کمال! تمھارے دادا کے کارندے کو کیسا بے وقوف بنایا۔“ جلد ہی ہم ساحل سمندر پر پہنچ گئے۔ میں تھک کر دیوار پر جا بیٹھا اور چچا پاؤں گیلے کرنے پانی میں چلے گئے۔ پھر وہ بھی میرے پاس چلے آئے۔ ہم خاموشی سے اپنے اپنے خیالات میں کھوئے ہوئے تھے۔ آدھے گھنٹے بعد میں نے کہا ” چچا کیا ہوا؟ آخری باب پورا ہو گیا؟“
بولے ” وہ تو وہیں پر ہو گیا تھا۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ جن واقعی کسی دن کھانے پر آگیا تو اسے کیا کھلاؤں گا۔ تمہاری چچی تو ہر دو دن بعد ٹنڈوں کا بھرتا بناتی ہیں؟“
میں نے کندھے اُچکاے اور بے زاری سے بولا ” چلیں پھر واپس چلتے ہیں۔“ واپس آتے ہوئے ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔مجھے بہت زور کی بھوک لگ رہی تھی۔ راستے میں جب ایک مشہور بریانی فروش کی دکان آئی تو اس کی اشتہا انگیز خوشبو سے بے قابو ہو کر میں نے کہا کہ چچا بہت بھوک لگ رہی ہے بریانی کھلادیں۔ چچا میری بات پر ایک لمحے کے لیے تو گڑبڑا گئے پھر جلدی سے بولے کہ میاں توبہ کرو کل ہی میں نے اخبار میں ایک مضمون پڑھا ہے۔ بازار کی بریانی مضر صحت ہوتی ہے۔ انسان کو ہمیشہ گھر کے صاف ستھرے کھانے کھانے چاہئیں۔ میں نے کہا کہ اور یہ جو کھانے والوں کا رش لگا ہے؟
چچا ہادی ہنسے اور بولے: ” میاں یہ قوم تو بندروں جیسی عادت رکھتی ہے۔ ایک کو دیکھ کر دوسرا وہی کرنے لگتا ہے۔ تم تجربہ کرسکتے ہو کسی دن فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر اوپر دیکھنا شروع کردو۔ تھوڑی دیر میں بہت سے لوگ تمھارے گرد جمع ہوجائےں گے اور اوپر دیکھتے ہوئے پوچھےں گے۔ کیا ہوا بھائی؟“
میں خاموش ہوگیا۔ چچا سے کوئی بات کرنا بیکار تھا۔ ان کے پاس ہر بات کا تیار شدہ جواب موجود ہوتا تھا ۔ پھر وہ کچھ دیر بعد بولے :”تمھیں بھوک لگی ہے میں گھر پہنچتے ہی تمہےں ایک کٹوری میں ٹنڈوں کا بھرتا بھجوا دوں گا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو معاف رکھیں اپنے ٹنڈوں کے بھرتے سے ۔ اس کے جواب میں مجھے گھر تک ٹنڈوں کی افادیت ، اس کی قسموں اور اسے بنانے کے مختلف طریقوں پر ایک طویل لیکچر سننا پڑا۔ اگر ہمارے یہاں کتاب کلچر مضبوط ہوتا لوگ کتابیں بھی اسی طرح خرید رہے ہوتے جس طرح پان سگریٹ خریدتے ہیں، بے مقصد سڑکوں پر گاڑیاں دوڑا کر پیٹرول پھونکتے ہےں اور ہزاروں روپے ہوٹل کے ایک وقت کے کھانے پر صرف کر دیتے ہیں تو میں کیوں نہ ٹنڈوں کی افادیت پر ایک کتابچہ شائع کروں جس سے شاید میرے مسائل حل ہوجائیں ۔ محلے میں پہنچ کر میں نے چچا ہادی کو اﷲ حافظ کہا اور اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔
ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے۔ امی میرے لیے کھانا گرم کررہی تھیں کہ اچانک باہر سے چچا کی چیخ پکار سنائی دی۔ میں گھبرا کر اٹھا اور چپل پیر میں ڈال کرباہر بھاگا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ چچا کے گھر شاید چھاپا پڑ گیا ہے۔ اُنھوں نے جو بے سروپا باتیں گارڈ سے کی تھیں۔ چند ہی لمحوں میں مواصلاتی نیٹ ورک کے ذریعے ریکارڈ ہو کہ کہیں سے کہیں جا پہنچی ہوں گی۔ ان کا مطلب نکالا گیا ہوگا۔ ہماری تصویریں بھی کھینچ لی گئیں ہوں گی اور منٹوں میں ان ہزاروں تصویروں سے میچ کرائی گئی ہوں گی جو مطلوبہ لوگوں کی فہرست میں آتے ہوں گے۔ ہمارا ڈیٹا نکالا گیا ہوگا۔ مجھے اپنے ڈیٹا کے بارے میں سوچ کر شرم آرہی تھی۔ جو اتنے بڑے شہر میں رہتے ہوئے بھی کسی پس ماندہ علاقے کے باشندے جیسا تھا۔ میں اپنے اندیشوں میں گھرا چچا کے گھر تک پہنچا، لیکن وہاں کوئی بڑی گاڑی اور چاق چوبند بندوقیں سنبھالے لوگ نہ تھے۔ میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور اپنے بے ہودہ خیالات پر لعنت بھیجی۔ اندر سے ابھی بھی چچا کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں سن گن لینے کی کوشش کرتا رہا، لیکن کچھ پتا نہ چلا۔ ہاں اتنا سمجھ میں آگیا کہ چچا، چچی سے کسی بات پر لڑرہے ہیں۔ میں واپس پلٹ رہا تھا کہ چچا باہر آگئے۔ ان کی بہت بُری حالت تھی، سخت غصے اور صدمے میں نظر آرہے تھے۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی بولے: ” لو میاں عامر! ساری محنت برباد ہو گئی۔“
” کیا ہوا؟“ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
مایوسی سے بولے ” میاں تمہاری چچی کو کھانا پکانے کی جلدی تھی اور گیس بند ہوگئی تھی۔ اُنھوں نے ناول کا مسودہ انگیٹھی میں جھونک دیا۔“
” اوہ…. “ میرے منھ سے بے اختیار نکلا۔
چچا آگے بڑھے اور میرے گلے لگ گئے، فرطِ غم سے وہ ہچکیاں بھی لے رہے تھے۔ میں نے بزرگوں کی طرح ان کی پیٹھ تھپتھپائی اور صبر کی تلقین کی۔ شکر ہے گلی میں کوئی نہیں تھا ورنہ میرا بہت مذاق بنتا۔ بہت دنوں تک چچا غم زدہ رہے۔ میں نے کہا بھی کہ دوبارہ لکھ لیں۔ بولے :”میاں کس کم بخت میں ہمت ہے ہزار صفحے لکھنے کی۔“ بس ٹھنڈی سانسیں لیتے رہتے ہیں۔

٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top