skip to Main Content

چچا چھکن نے تصویر ٹانگی

امتیاز علی تاج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چچا چھکن کبھی کبھار کوئی کام اپنے ذمے کیا لے لیتے ہیں، گھر بھر کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں ۔’’آبے لونڈے ،جا بے لونڈے ، یہ کیجو ،وہ دیجو ‘‘،گھر بازار ایک ہو جاتا ہے۔دُور کیوں جاؤ ،پرسوں پرلے روز کا ذکر ہے ،دوکان سے تصویر کا چو کھٹا لگ کر آیا ۔اُس وقت تو دیوان خانے میں رکھ دی گئی۔ کل شام کہیں چچی کی نظر اُس پر پڑی ،بولیں چُھٹن کے ابا تصویر کب سے رکھی ہوئی ہے ،خیر سے بچوں کا گھر ٹھہرا، کہیں ٹوٹ پھوٹ گئی تو بیٹھے بٹھائے روپے دو روپے کا دھکا لگ جائے گا ،کون ٹانگے گا اس کو ؟‘‘
’’ٹانگتا اور کون، میں خود ٹانگوں گا ۔کون سی ایسی جوئے شیر لانی ہے ۔رہنے دو میں ابھی سب کچھ خود ہی کیے لیتا ہوں۔‘‘
کہنے کے ساتھ ہی شیروانی اتار چچا تصویر ٹانگنے کے درپے ہو گئے ۔امامی سے کہا ۔’’بیوی سے دو آنے پیسے لے کر میخیں لے آ۔‘‘
ٍ ادھر وہ دروازے سے نکلا ،ادھر مودے سے کہا ’’مودے مودے !جانا امامی کے پیچھے ۔
کہیو تین تین انچ کی ہوں میخیں ۔بھاگ کر جا ۔جا لیجو اُسے راستے ہی میں ۔‘‘
لیجئے تصویر ٹانگنے کی داغ بیل پڑ گئی اور اب آئی گھر بھر کی شامت۔
ننھے کو پُکارا ۔’’او ننھے جانا ذرا میرا ہتھورا لے آنا ۔بنو !جاؤ اپنے بستے میں سے چفتی نکال لاؤ اور سیڑھی کی ضرورت بھی تو ہوگی ہم کو۔ارے بھئی للو!ذرا تم جاکر کسی سے کہہ دیتے ،سیڑھی یہاں آکر لگا دے ۔اور دیکھنا وہ لکڑی کے تختے والی کرسی بھی لیتے آتے تو خوب ہوتا۔
چھٹن بیٹے !چائے پی لی تم نے ؟ ذرا جانا تو اپنے ان ہمسائے میر باقر علی کے گھر کہنا ابا نے سلام بھیجا ہے اور پُوچھا ہے ،آپ کی ٹانگ اب کیسی ہے اور کہیو ،وہ جو ہے نا آپ کے پاس ،کیا نام ہے اس کا ، اے لو بھول گیا ،پلول تھا کہ ٹلول ،اللہ جانے کیا تھا ،خیر وہ کچھ ہی تھا ، تو یوں کہہ دیجو کہ وہ جو آپ کے پاس آلہ ہے نا جس سے سیدھ معلوم ہوتی ہے وہ ذرا دے دیجئے ،تصویر ٹانگنی ہے ۔جائیو میرے بیٹے ،پر دیکھنا سلام ضرور کرنا اور ٹانگ کا پُوچھنا نہ بھول جانا ۔اچھا ؟۔۔۔۔یہ تم کہاں چل دیے للو ؟کہا جو ہے ذرا یہیں ٹھہرے رہو ،سیڑھی پر روشنی کون دکھائے گا ہم کو؟
آگیا امامی؟لے آیا میخیں ؟مودا مل گیا تھا ؟تین تین انچ ہی کی ہیں نا ؟بس بہت ٹھیک ہیں ۔
اے لوستلی منگوانے کا تو خیال ہی نہ رہا ۔اب کیا کروں ؟
جانا میرا بھائی جلدی سے ۔ہوا کی طرح جا اور دیکھیو بس گز سوا گز ہو ستلی ۔نہ بہت موٹی ہو نہ پتلی ،کہہ دینا تصویر ٹانگنے کو چاہیے ہے ،لے آیا؟او وِدو!وِدو کہاں گیا ؟وِدو میاں !۔۔۔۔اسی وقت سب کو اپنے اپنے کام کی سُوجھی ہے ۔یوں نہیں کہ آکر ذرا ہاتھ بٹا ئیں ۔یہاں آؤ ،تم کرسی پر چڑھ کر مجھے تصویر پکڑانا ۔‘‘
لیجیے صاحب خدا خدا کر کے تصویر ٹانگنے کا وقت آیا مگر ہونی شدنی ،چچا اسے اٹھا کر ذرا وزن کر رہے تھے کہ ہاتھ سے چھوٹ گئی ۔گر کر شیشہ چور چور ہو گیا ۔’’ہئی ہے! کہہ کر سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔
چچا نے کچھ خفیف ہو کر کرچوں کا معائنہ شروع کر دیا ۔وقت کی بات اُنگلی میں شیشہ چبھ گیا ۔خون کی تللی بندھ گئی۔ تصویر کو بھول اپنا رومال تلاش کرنے لگے ۔رومال کیاں سے ملے ؟ رومال تھا شیروانی کی جیب میں شیروانی اتار کر نہ جانے کہاں رکھی تھی ۔اب جناب گھر بھر نے تصویر ٹانگنے کا سامان تو طاق پر رکھا اور شیروانی کی ڈھنڈیا پڑ گئی ۔چچا میاں کمرے میں ناچتے پھر رہے ہیں کبھی اس سے ٹکر کھاتے ہیں ،کبھی اس سے ۔’’سارے گھر میں سے کسی کو اتنی توفیق نہیں کہ میری شیروانی ڈھونڈ نکالے ۔عمر بھر ایسے نکموں سے پالا نہ پڑا تھا۔ اور کیا جھوٹ کہتا ہوں کچھ ؟چھ چھ آدمی ہیں اور ایک شیروانی نہیں ڈھونڈ سکتے جو ابھی پانچ منٹ بھی تو نہیں ہوئے میں نے ایک اتار کر رکھی ہے ۔بھئی بڑے ۔۔۔‘‘
اتنے میں آپ کسی جگہ سے بیٹھے بیٹھے اٹھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شیروانی پر ہی بیٹھے ہوئے تھے ۔اب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں ۔’’اے بھئی رہنے دینا، مل گئی شیروانی ،ڈھونڈ لی ہم نے ۔تم کو تو آنکھوں کے سامنے بیل بھی کھڑا ہو تو نظر نہیں آتا ۔‘‘
آدھے گھنٹے تک انگلی بندھتی بندھاتی رہی ۔نیا شیشہ منگوا کر چوکھٹے میں جڑا اور تمام قصے طے کرنے پر دو گھنٹے بعد پھر تصویر ٹانگنے کا مرحلہ درپیش ہوا ۔اوزار آئے ،سیڑھی آئی،چوکی آئی، شمع لائی گئی چچا جان سیڑھی پر چڑھ رہے ہیں اور گھر بھر (جس میں ماما اور کہا ری بھی شامل ہیں )نیم دائرے کی صورت میں امداد دینے کو کیل کانٹے سے لیس کھڑا ہے ۔دو آدمیوں نے سیڑھی پکڑی تو چچا جان نے اس پر قدم رکھا ،اوپر پہنچے ۔ایک نے کرسی پر چڑھ کر میخیں بڑھائیں ۔ایک قبول کر لی۔ دوسرے نے ہتھورا اوپر پہنچایا ۔سنبھالا ہی تھا کہ میخ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑی۔کھسیانی آواز میں بولے۔’’اے لو،اب کم بخت میخ چھوٹ کرگر پڑی !دیکھنا کہاں گئی ؟‘‘
اب جناب سب کے سب گھٹنوں کے بل ٹٹول ٹٹول کر میخ تلاش کر رہے ہیں ۔اور چچا میاں سیڑھی پر کھڑے مسلسل بڑ بڑا رہے ہیں۔’’ملی ؟ارے کم بختو ڈھونڈی ؟اب تک تو میں سو مرتبہ تلاش کر لیتا۔اب میں رات بھر سیڑھی پر کھڑا کھڑا سوکھا کروں گا؟نہیں ملتی تو دوسری ہی دے دواندھو!‘‘ 
یہ سن کر سب کی جان میں جان آتی ہے ،تو پہلی میخ ہی مل جاتی ہے ۔اب میخ چچا جان کے ہاتھ میں پہنچاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اس عرصے میں ہتھورا غائب ہو چکا ہے ۔
’’یہ ہتھوڑا کہاں چلا گیا ؟کہاں رکھا تھا میں نے ؟لاحول ولا قُوۃ !الو کی طرح آنکھیں پھاڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو؟سات آدمی اور کسی کو معلوم نہیں ،ہتھوڑا میں نے کہاں رکھ دیا؟‘‘
بڑی مصیبتوں سے ہتھورے کا سراغ نکالا اور میخ گڑنے کی نوبت آئی۔ اب آپ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ماپنے کے بعد میخ گڑنے کو دیوار پر نشان کس جگہ کیا تھا۔سب باری باری کرسی پر چڑھ کر کوشش کر رہے ہیں کہ شاید نشان نظر آجائے ۔ہر ایک کو الگ الگ نشان دکھائی دیتا ہے ۔چچا سب کو باری باری الو گدھا کہہ کہہ کر کرسی سے اتر جانے کا حکم دے رہے ہیں آخر پھر چفتی لی۔ اور کونے سے تصویر ٹانگنے کی جگہ کو دوبارہ ماپنا شروع کیا ۔مقابل کی تصویر کونے سے پینتیس انچ کے فاصلے پر لگی ہوئی تھی ۔’’بارہ اور بارہ اور کے انچ اور؟‘‘
بچوں کو زبانی حساب کا سوال ملا۔با آواز بلند حل کرنا شروع کیا ۔
اور جواب نکالا تو کسی کا کچھ تھا اور کسی کا کچھ۔ ایک نے دوسرے کو غلط بتایا۔ اسی تو تو میں میں میں سب بھول بیٹھے کہ اصل سوال کیا تھا ۔نئے سرے سے ماپ لینے کی ضرورت پڑ گئی ۔
اب کے چچا چفتی سے نہیں ماپتے ۔ستلی سے ماپنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔سیڑھی پر پینتالیس درجے کا زاویہ بنا کر ستلی کا سرا کونے تک پہنچانے کی فکر میں ہیں کہ ستلی ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے ۔آپ لپک کر اسے پکڑنا چاہتے ہیں کہ اسی کوشش میں زمین پر آرہتے ہیں ۔کونے میں ستار رکھا تھا ۔اس کے تمام تار چچا جان کے بوجھ سے یک لخت جھنجھنا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں ۔
اب چچا جان کی زبان سے جو منجھے ہوئے الفاظ نکلتے ہیں سننے کے قابل ہوتے ہیں۔ مگر چچی روک دیتی ہیں اور کہتی ہیں ۔’’اپنی عمر کا نہیں تو ان بچوں ہی کا خیال کرو۔‘‘
بہت دشواری کے بعد چچا جان از سرِ نو میخ گاڑنے کی جگہ معین کرتے ہیں ۔بائیں ہاتھ سے اس جگہ میخ رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ سے ہتھورا سنبھالتے ہیں۔ پہلی ہی چوٹ جو پڑتی ہے تو سیدھی ہاتھ کے انگھوٹے پر ۔آپ ’’سی‘‘کر کے ہتھورا چھوڑ دیتے ہیں وہ نیچے آکر گرتا ہے کسی کے پاؤں پر ۔ہائے ہائے اور افوہ اور مار ڈالا شروع ہو جاتی ہے ۔
چچی جل بھن کر کہتی ہیں ’’یوں میخ گاڑنا ہوا کرے تو مجھے آٹھ روز پہلے خبر دے دیا کیجئے۔ میں بچوں کو لے کر میکے چلی جایا کروں ۔اور نہیں تو۔‘‘
چچا جان نادم ہو کر جواب دیتے ہیں۔’’یہ عورت ذات بھی بات کا بتنگڑ بنا لیتی ہے ۔یعنی ہوا کیا جس پر طعنہ دیے جا رہے ہیں ؟بھلا صاحب کان ہوئے ۔آئندہ ہم کسی کام میں دخل نہ دیا کریں گے۔‘‘
اب نئے سرے سے کوشش شروع ہوئی ۔میخ پر دوسری چوٹ جو پڑی تو اسی جگہ کا پلستر نرم تھا ۔پوری کی پوری میخ اور آدھا ہتھوڑا دیوار میں اورچچا اچانک میخ گڑ جانے سے اس زور سے دیوار سے ٹکرائے کہ ناک غیرت والی ہوتی تو پچک کر رہ جاتی۔
اس کے بعد از سرِ نو چفتی اور رسی تلاش کی گئی اور میخ گاڑنے کی نئی جگہ مقرر ہوئی ۔اور کوئی آدھی رات کا عمل ہوگا کہ خدا خدا کر کے تصویر ٹنگی ۔وہ بھی کیسی ؟ٹیڑھی بینکی اور اتنی جھکی ہوئی کی جیسے اب سر پر آئی ۔چاروں طرف گز گز بھر دیوار کی یہ حالت گویا چاند ماری ہوتی رہی ہے ۔چچا کے سوا باقی سب تھکن سے چور نیند میں جھوم رہے ہیں ۔اب آخری سیڑھی پر سے دھم سے جو اترتے ہیں تو کہاری غریب کے پاؤں پر پاؤں۔غریب کے ڈیل تھی‘تڑپ ہی تو اٹھی ۔چچا اس کی چیخ سن کر ذرا سرا سیمہ تو ہوئے مگر پل بھر میں داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے ۔’’اتنی سی بات تھی ،لگ بھی گئی۔ لوگ اس کے لیے مستری بلوایا کرتے ہیں۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top