skip to Main Content
چُوں چڑ چُوں

چُوں چڑ چُوں

غلام عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)

چُوں چڑچُوں چلے پڑھنے۔گھر سے چلنے میں ہوگئی دیر۔راستے میں ملے چچا خرگوش۔بولے:

’’ارے چڑ چُوں!یہ تم نے اپنے پنجے میں اتنی بڑی لکڑی سی کیا پکڑ رکھی ہے؟‘‘

چُوں چڑچُوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا:

’’خرگوش چچا !کیا کہوں؟آج اسکول پہنچنے میں پھر دیر ہوگئی،اور ماسٹر جی نے کہا تھا،چڑ چُوں اگر اب کے اسکول دیر سے آئے توتمھاری ہڈی پسلی کی خیر نہیں۔اس لیے راستے میں سے ایک کُوڑے کے ڈھیر پر سے کسی چڑیا کی یہ سُوکھی ہوئی ٹانگ اپنے ساتھ لیے جاتا ہوں۔‘‘

چچا خرگوش بہت حیران ہوئے اور بولے:

’’اس لکڑی سے کیا کروگے؟‘‘

چُوں چڑ چُوں نے ہنستے ہوئے کہا:’’ہُوں!بتا دیں گے۔‘‘یہ کہہ کر چوں چڑ چوں مُسکراتے ہوئے چل دیے۔

(۲)

چلم چل،میاں چڑ چوں پہنچے اسکول۔پنجے میںُ سوکھی ہوئی ٹانگ کو اس طرح پکڑ کر رکھا تھا۔جیسے کوئی دیکھے تو کہے،میاں چڑ چوں ہی کی ٹانگ ہے۔

ماسٹر جی نے چڑ چوں کی صورت دیکھتے ہی للکار کر کہا:

’’کیوں بے چڑیا کے بچے!آج تو پھر سے اسکول دیر سے آیا ہے۔کل کی مار تجھے بول گئی ہے!کیسی ڈھیٹ ہڈی ہے۔لا پنجا نکال۔‘‘

جس طرح بچو تم سے کوئی قُصور ہو جائے اور ماسٹر صاحب چھڑی لے کر تم سے یہ کہیں’’اپنا ہاتھ نکالو۔‘‘اسی طرح چڑ چوں نے بھی اپنا پنجا آگے بڑھا دیا۔یہ دیکھ کر ماسڑ جی کے دُوسرے شاگردوں کو بہت دُکھ ہوا۔

(۳)

شڑاک ایک!۔۔۔۔شڑاک دو!۔۔۔۔شڑاک تین!۔۔۔۔بس پھر کیا تھا،ماسڑ جی نے سُوکھی ٹانگ پربید مارنے شروع کر دیے،جس کو انھوں نے چڑ چوں کی ٹانگ سمجھ رکھاتھا۔چُوں چڑ چُوں چُپ چاپ کھڑا رہا۔۔۔۔۔۔

آپاچُوہیا نے بی گلہری سے کہا:’’اے ہے بُوا! ننھے پاؤں پر کیا زور زور سے بید پڑ رہے ہیں۔‘‘

میاں پدے اکڑتے ہوئے بولے:

’’واہ رے بہادر !مجال ہے جو چُوں بھی کی ہو۔‘‘

اُدھردُوسرے شاگردوں میںیہ کانا پُھوسی ہو رہی تھی،اور ادھرمیاں چڑ چوں چُپ چاپ کھڑے اپنی جُھوٹ مُوٹ کی سُوکھی ٹانگ پر بید کھا رہے تھے اور خاموش تھے۔

(۴)

جب خُوب جی بھر کر چڑ چوں کو مار چکے تو ماسڑ صاحب بولے:

’’کیوں بے چڑچوں کے بچے!نالائق کہیں کے!دیر سے آنے کا مزہ مل گیا،یا ابھی کُچھ کسر باقی ہے۔‘‘

چڑ چوں بولا:’’جی ابھی کُچھ کسر ہے۔‘‘اور پھر چڑیا کی ٹانگ باہر نکال لی۔

آپا چوہیا،بی گلہری،میاں پدے اور دُوسرے شاگردجو پہلے چڑ چوں کی حالت پر دل ہی دل میں کُڑھ رہے تھے،اب ہنسی کے مارے اُن کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔لیکن ماسڑ جی کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔

جب مدرسے سے چُھٹی ہوگئی اور سب شاگرد اپنے اپنے گھر جانے لگے تو ماسڑ جی نے للکار کر کہا:

’’او چڑ چُوں کے بچے!کہاں جاتا ہے۔ادھرآکرکان پکڑ، اور وعدہ کر کہ پھر کبھی دیر سے اسکول نہیں آئے گا۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top