skip to Main Content
چاند کا نشان

چاند کا نشان

اشتیا ق احمد

…….

’’ اس کے چہرے پر چاند کا نشان ہے۔‘‘
’’ چاند کا نشان؟‘‘ سرور غنی نے حیران ہو کر اختر نذیر کی طرف دیکھا ، کیونکہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ آخر اس نے کہا: ’’میں سمجھا نہیں! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’اس کے چہرے پر چاند کا پیدائشی نشان ہے …جو چھپاے نہیں چھپتا، مطلب یہ کہ اگر وہ کسی طرح یا کسی چیز سے اس نشان کو چھپانا چاہے، تو بھی نشان نظر آتا رہے گا … اس نشان میں ایک باقاعدہ چمک ہے … اس چمک کی وجہ سے نشان دور سے نظر آجاتا ہے … اب بات سمجھ میں آگئی؟‘‘ اختر نذیر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’جی ہاں بالکل…اب آپ تفصیل بتائیں … اس نوجوان کی تصویر بھی دکھا دیں… تو بہتر ہوگا … اور بھی اس کے بارے میں جو باتیں آپ جانتے ہیں…میں وہ سب جاننا چاہوں گا۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں… میں آپ کو تصویر دکھاؤں گا … باقی معلومات بھی دوں گا … لیکن پہلے معاملہ طے ہو جائے … تب۔‘‘
’’ آپ صر ف یہ چاہتے ہیں نا کہ میں آپ کے لیے اس نوجوان کو تلاش کروں …‘‘
’’ ہاں ! یہی بات ہے۔‘‘
’’اور آپ اس کام کا مجھے کتنا معاوضہ دیں گے؟‘‘ سرور غنی نے پوچھا۔
’’ اپنی فیس بتانا آپ کا کام ہے… یہ دیکھنا میرا کہ فیس مناسب ہے یا مجھے کوئی بات کرنی چاہیے۔‘‘
’’اچھی بات ہے … فیس بتانے سے پہلے میں یہ گارنٹی چاہوں گا کہ نوجوان ملک میں ہی ہے… ملک سے باہر نہیں چلاگیا۔‘‘
’’اس کے ملک سے باہر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… وہ اپنے ملک سے باہر جانے کے نام سے بھی گھبراتا ہے… لہٰذا میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہے ملک ہی میں… لیکن شہر سے باہر ضرو ر ہو سکتا ہے … بلکہ نہ جانے کون سے شہر میں ہو۔‘‘
’’اس کی آپ فکر نہ کریں … وہ ملک کے جس شہر میں بھی ہوگا… میں وہاں پہنچ جاؤں گا… اس کام میں کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ لگ سکتے ہیں… اس سے کم تو لگ سکتے ہیں… زیادہ نہیں … گویاآپ کو چھ ماہ کا انتظار تو کرنا ہوگا۔‘‘
’’کوئی پروانہ نہیں … میں کر لوں گا۔‘‘
’’ بس ٹھیک ہے … اب بات ہو جائے فیس کی … میری فیس اس کام کی دس لاکھ روپے ہو گی…میں اس سے کم پر یہ کام نہیں کروں گا، کیونکہ مجھے بھی اخراجات کرنے ہوں گے… سفر کرنے ہوں گے… دوسرے شہروں میں جا جا کر ہوٹلوں میں ٹھہرنا ہوگا…‘‘
’’میں یہ تمام باتیں سمجھتا ہوں… مجھے دس لاکھ روپے منظور ہیں۔‘‘
’’ شکریہ ! پانچ لاکھ آپ کو ایڈوانس دینے ہوں گے… پانچ لاکھ نوجوان کے ملنے کے بعد … نوجوان نہ مل سکا … تب بھی یہ پانچ لاکھ میں آپ کو واپس نہیں دوں گا … اس لیے کہ اخراجات …‘‘ سرور غنی کہہ رہا تھا کہ اختر نذیر نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا … میں سمجھتا ہوں… آپ اس بات کو چھوڑیں اور جو پوچھنا ہے ،وہ پوچھیں۔‘‘ اختر نذیر نے منھ بنایا۔
’’ آپ اس نوجوان کو کیوں تلاش کروانا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’وہ میرے دو عدد ہیرے چرا کر بھاگا ہے… مجھے اپنے دونوں ہیرے اس سے حاصل کرنے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ سرور غنی کے منہ سے نکلا ۔ پھر اس نے کہا: ’’ آپ نے اس کے خلاف رپورٹ درج کرائی تھی… پولیس نے کیا کیا ؟‘‘
’’ رپورٹ درج کرائی تھی… پولیس پر دباؤ بھی ڈلوایا تھا … لیکن پولیس کافی بھاگ دوڑ کے باوجود اسے گرفتار نہ کر سکی۔‘‘
’’ہوں … یہ کب کی بات ہے … یعنی اس نے ہیرے کب چرائے تھے ۔‘‘
’’یہ آج سے چھ ماہ پہلے کی بات ہے … میں نے اسی روز رپورٹ درج کرائی تھی … یعنی 19 اپریل کو،پولیس اسٹیشن نورآباد لگتا ہے اس علاقے کو… پولیس انسپکٹر محمد نواز خان تھے اس وقت… اب تو پتا نہیں کون ہوں گے۔‘‘
سرور غنی نے یہ باتیں اپنی نوٹ بک میں لکھ لیں۔تصویربھی لے لی… پھر اختر نذیر کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا: ’’ آپ کو مجھ سے یہ کام لینے کے لیے کس نے کہا؟‘‘
’’میں نے اپنے ایک دوست سے اس بارے میں مشورہ کیا تھا … اس نے کہا ، یہ کام کوئی پرائیویٹ جاسوس ہی کر سکتا ہے … پولیس کچھ نہیں کرے گی ۔‘‘
’’ابھی میرے سوال کا جواب نہیں آیا۔‘‘
’’ دوست نے تو صرف مشورہ دیا تھا… پھر میں نے اپنے ایک دوست سے اس بارے میں بات کی … اس کے پولیس والوں سے تعلقات تھے … اس طرح پولیس کے ایک دو آدمیوں نے آپ کا نام بتا یا … انہوں نے کہا تھا … آپ اپنے کام میں بہت نیک نام ہیں…لو گوں کو لوٹنے کی کوشش نہیں کرتے … نہ بلیک میل کرتے ہیں … ورنہ پرائیویٹ جاسوس عام طور پر اپنے گاہکوں کو الٹا بلیک میل کرنا شروع کر دیتے ہیں… یا پھر اخراجات کی لمبی چوڑی فہرست پیش کرتے ہیں … لیکن سرور غنی ایسا شخص نہیں ہے … یہ بتانے کے ساتھ انہوں نے آپ کے کئی کار نامے بیان کیے تھے … اور یہ کہ پولیس والے بھی آپ کی رعایت کرتے ہیں … آپ ان کی بھی مدد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
’’ شکریہ! ہیرے اس نوجوان نے کہاں سے چرائے تھے اور کیسے؟‘‘ سرور غنی نے پوچھا ۔
’’ میری سیف سے۔‘‘
’’اور وہ گھر میں داخل کیسے ہوا تھا۔‘‘
’’ وہ بہت ماہرچور ہے … پتا نہیں اندر کس طرح پہنچ گیا تھا اور تجوری کھولنے میں بھی اس نے انتہاکی مہارت دکھائی تھی… پتا نہیں اس کے پاس چابیاں تھیں یاکیا چیز تھی … مجھے تو سیف کھلی ملی تھی اور بیرونی دروازہ بھی کھلا ملا تھا… جب میں نے سیف کا جائزہ لیا تو اس میں سے ہیرے غائب تھے… میں نے تو اپنا سر پیٹ لیا تھا۔‘‘
’’ لیکن جناب! آپ کو یہ کیسے پتا چلا کہ ہیرے کس نے چرائے ہیں۔‘‘
’’گھر میں کئی جگہ خفیہ کیمرے نصب ہیں …کیمروں نے اس کی فلم بنائی تھی۔‘‘
’’ بہت خوب! آپ مجھے وہ فلم دکھا دیں … اس طرح میں اس کی حرکات و سکنات بھی نوٹ کر لوں گا… اس طرح مجھے اسے تلاش کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔‘‘
’’میں وہ آپ کو دکھا دیتا ہوں… پولیس والوں نے بھی دیکھی تھی … لیکن افسوس ! وہ اس نوجوان کو تلاش نہ کر سکے … آپ سے البتہ میری ایک درخواست ہے۔‘‘
’’ہاں فرمایئے؟‘‘ سرور غنی نے فوراً پوچھا ۔
’’ آپ کا کام صرف تلاش کرنے کی حد تک ہوگا …جب وہ آپ کو مل جائے تو آپ اس پر کوئی بات ظاہر نہ ہو نے دیں… بس مجھے اطلاع دے دیں… اس کے خلاف پولیس کارروائی میں خود کرالوں گا۔‘‘
’’ ٹھیک ہے … یہ میرا کام بھی نہیں کہ جرائم پیشہ افراد کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کروں … وہ آپ کا مجرم ہے … آپ کے دو ہیروں کا چور ہے … جب میں اسے تلاش کرلوں گا تو آپ کو اطلاع دے کر معاملے سے الگ ہو جاؤں گا۔‘‘
’’ بس ٹھیک ہے … آپ بہت اچھے ہیں معاملہ طے کرنے میں … اب میں آپ کو اس کی فلم دکھاتا ہوں … آیئے میرے ساتھ ، آپ کو دوسرے کمرے تک چلنا ہوگا ۔‘‘
’’ جی بہتر ! ویسے ایک بات میں ابھی تک نہیں پوچھ سکا … اس نوجوان نے آپ کے صرف دو ہیرے چرائے … کوئی اور چیز نقدی ، زیورات نہیں اڑائے ؟‘‘
’’یہ بھی ایک حیرت انگیز اتفاق ہے … اس روز گھر کے افراد ایک شادی میں گئے ہوئے تھے… صرف میں گھر میں تھا … بیگم اور بچیاں اپنے زیورات پہن کر گئی تھیں اور نقدی میں عام طور پر زیادہ گھر میں رکھتا نہیں … رہا ان دو ہیروں کا معاملہ … وہ مجھے بہت پسند ہیں… انہیں دیکھ کر ایک انجانی سی خوشی محسوس کرتا ہوں…اس لیے انہیں کبھی لاکر میں نہیں رکھوایا ۔‘‘
’’اور کیا وہ ہیرے بہت زیادہ قیمتی بھی ہیں ۔‘‘
’’ ہاں! بہت …آپ سوچ بھی نہیں سکتے … کئی کروڑوں کے ہیں ۔‘‘
’’ اوہ ۔‘‘ مارے حیرت کے سرور غنی کے منھ سے نکلا۔
پھر انہوں نے نوجوان کی فلم دیکھی …وہ تجوری والے کمرے میں نظر آ رہا تھا … اس کے دائیں گال پر ننّا سا ایک چاند تھا…وہ چمک رہا تھا … انہوں نے اس نوجوان کو غور سے دیکھا… اس نشان کوبھی غور سے دیکھا… کئی بار فلم چلوا کر اس کا جائزہ لیا ۔آخر انہوں نے کہا : ’’ بس کافی ہے … لیکن احتیاطاََآپ اس فلم کی ایک کاپی مجھے دے دیں۔‘‘
’’ضرور کیو ں نہیں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد اختر نذیر انہیں پانچ لاکھ نقد اور فلم کی کاپی دے رہے تھے اور وہ ان سے اجازت مانگ رہے تھے: ’’ مجھے امید ہے ،آپ جلد ازجلد اس کا پتا چلا لیں گے … دراصل وہ ہیرے ہمارے خاندانی ہیرے بھی ہیں۔‘‘
’’ آپ فکر نہ کریں…میرا کام کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہے … اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے میں بہت جلد اس نوجوان تک پہنچ جاؤں گا… اور آپ کی ہدایت کے مطابق اس سے براہِ راست ملاقات نہیں کروں گا … بس آپ کو اطلاع دے دوں گا اور جب تک۔‘‘ سرور غنی کہتے کہتے رک گیا۔
’’ اور جب تک کیا ؟‘‘
’’اور جب تک آپ یا آپ کا کوئی نمایندہ وہاں نہیں پہنچ جائے گا … میرا ماتحت وہاں رہ کر دور دور سے اس کی نگرانی کرتا رہے گا۔‘‘
’’ بہت خوب! اتنا تو ہوا … آپ نے اس کا نام اب تک نہیں پوچھا ۔‘‘اختر نذیر کے لہجے میں حیرت تھی ۔
’’ آپ کو ایک چور کا نام کیونکر معلوم ہے؟‘‘ سرور غنی کے لہجے میں بلا کی حیرت در آئی ۔
’’ غالباََاس کا کوئی ساتھی باہر بھی موجود تھا … اس نے دبی آواز میں اسے آواز دی تھی… احسن! میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں … فوراً باہر آجاؤ… اور وہ اسی وقت باہر چلا گیا تھا …اس لحاظ سے ہم اسے احسن کہتے ہیں … لیکن ہو سکتا ہے … اس کا نام یہ نہ ہو۔‘‘ اختر نذیر نے جلدی جلدی کہا ۔
’’ کوئی بات نہیں … فکر نہ کریں… میں دیکھ لوں گا … آپ کے اطمینان کے لیے … میں آج شام ہی اپنے تمام کارندوں کی میٹنگ بلا رہا ہوں اور انہیں یہ مہم سوپننے کے ساتھ اپنی خاص قسم کی ہدایات جاری کر رہا ہوں …بس اس کے بعد میرے کارکن بجلی کی طرح حرکت میں آئیں گے … اور جناب من ! میرے ادارے کی شہرت بلاوجہ نہیں ہے… کسی نے ایسے ہی آپ سے سرور غنی سیکرٹ سروسز کا نام نہیں لے دیا ہوگا۔‘‘
’’ بہت خوب ! میں اس وقت گہر ااطمینان محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
’’ بس تو پھر میں چلا ۔‘‘
سرور غنی نے ان سے ہاتھ ملایا اور باہر جانے کے لیے مڑ گئے۔

*۔۔۔*

سرور غنی سیکرٹ سروسز کے دفتر کے ہال میں اس وقت تمام شہری کارکن موجود تھے… دوسرے شہروں میں موجود کارکنوں کو بھی موبائل کانوں سے لگاے رکھنے کی ہدایات جاری کی جا چکی تھیں… جلدہی سرور غنی کی آواز گونجنے لگی : ’’عزیزساتھیو! ابھی ابھی ایک کیس ملا ہے … جیسا کہ آپ جانتے ہیں… اﷲ کے فضل و کرم سے ہماری شہرت بلاوجہ نہیں… ہم اپنے فرض سے پورا پورا انصاف کرتے ہیں… مہینوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا کام گھنٹوں اور گھنٹوں کا کام منٹوں میں کر ڈالتے ہیں… اس کیس میں بھی ہمیں بجلی کی طرح حرکت میں آنا ہے …جو نہی ہمیں کامیابی ہوئی، میں اس سے ملنے والی پوری رقم کا صرف دسواں حصہ خود رکھ کر باقی رقم آپ سب میں برابر تقسیم کردوں گا … کہ یہی ہمارا طریقہ ہے … یہی ہمارا معاہد ہ ہے … کیس میں سب حصہ لیں گے… اب ظاہر ہے، ہمارا مطلوبہ شخص تو کسی ایک ہی کو ملے گا …لیکن یہ کامیابی صرف اس کی نہیں ہوگی … سب کی ہوگی … ہم میں سے کسی بھی ایک کی کامیابی سب کی گنی جاتی ہے … سب کو برابر برابر رقم ملتی ہے …ساتھ ہی ہمیں یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہے … الحمدللہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں … یہ تو تھا اختتامی بیان… اب اصل کیس کی طرف آتا ہوں۔
شہر کے ایک بڑے باعزت اور دولت مند شخص ہیں…نام ہے ان کا اختر نذیر… آج سے چھ ماہ پہلے ان کے ہاں سے دو ہیرے چرائے گئے تھے … ہیرے بہت زیادہ قیمتی ہیں… کروڑوں کے ہوں گے … لیکن ہمیں ا س سے کیا … ہمیں تو اپنی فیس سے مطلب ہے … ہیرے ایک نوجوان نے چرائے تھے … میں نیٹ پر وہ فلم لگا رہا ہوں… جو اس نوجوان کی اختر نذیر کی کوٹھی میں داخل ہونے پر خفیہ کیمروں نے بنائی ہے … دوسرے شہروں کے کارکن بھی فلم دیکھ لیں … تاکہ اس کی تلاش میں آسانی رہے …جس قدر جلد ہم اسے تلاش کرلیں گے … اسی قدر ہم فائدے میں رہیں گے…دس لاکھ میں سے بہت کم رقم کیس کے سلسلے میں خرچ ہو گی… ورنہ جتنی دیر لگے گی … ان میں سے رقم خرچ ہوتی رہے گی اور آخر میں ہمارے پاس تقسیم کرنے کے لیے بہت کم رقم رہ جائے گی ، اس وقت ہمیں افسوس ہوگا کہ اتنی محنت کی اور ہاتھ کیا آیا… خیر… چھوڑو… ہمیں بہرحال اپنا کام کرنا ہے … اب میں فلم دکھاتا ہوں… نوجوان کی تصویر سب لوگ اپنی اپنی جیب میں رکھ کر کام پر لگیں گے … خاص ترین بات یہ کہ اس کے دائیں گال پر چاند کا نشان ہے… یعنی جلد میں چاند نظر آتا ہے اور چمکتا بھی ہے … اس نشان کی بدولت ان شاء اﷲ ہم جلد اس تک پہنچ جائیں گے … میرے بتائے ہوئے طریقے ہی ایسے ہیں… کیا خیال ہے… تم سب کا۔‘‘
’’ جی بالکل ٹھیک ۔‘‘
اور پھر فلم دیکھنے کے بعد یہ اجلاس ختم ہو گیا … اسی شام سرور غنی نے اپنے ساتھ اپنے خاص نائب لیاقت بیگ کو لیا اور مہم پر نکل کھڑا ہوا : ’’لیاقت بیگ …بھلا ہمیں یہ تلاش کہاں سے شروع کرنی چاہیے ۔‘‘
’’ اسی پولیس اسٹیشن سے … جس پر رپورٹ درج کرائی گئی تھی سر… وہاں سے نوجوان کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو سکتا ہے … خاص طور پر اس کے گھر کا پتا ، وہاں ظاہر ہے، اس کے گھر والے رہتے ہوں گے ۔‘‘
’’ بہت خوب! بہت شان دار … لیاقت بیگ ۔‘‘
’’ بس سر ۔‘‘
’’اسی لیے میں تمہیں اپنے ساتھ رکھتا ہوں… چلو پولیس اسٹیشن چلتے ہیں… اگرچہ ان دنوں پولیس اسٹیشن بھائی خاں میں ہمارے زبردست مخالف لگے ہوئے ہیں… لیکن کیا کیا جائے… معلومات کے لیے وہاں جانا تو ہو گا ۔‘‘
’’ اﷲ مالک ہے سر ۔‘‘ لیاقت بیگ نے مسکرا کر کہا ۔
جلد ہی وہ پولیس اسٹیشن میں داخل ہو رہے تھے… جونہی انسپکٹر جمال شاہ فارغ نے انہیں دیکھا… دور سے ہی چلا اٹھا: ’’ واپس چلے جاؤ سرور غنی … تمہاری خیریت اسی میں ہے … ورنہ پکڑ کر بند کردوں گا ۔‘‘
’’السلام علیکم سر ۔‘‘ سرور غنی نے بھی دور سے ہی کہا ۔
’’ وع… وعلیکم السلام… تم نے سنا نہیں ۔‘‘
’’ جی بالکل سنا ہے … لیکن مجبوری ہے … ہمیں آپ سے چند ضروری باتیں پوچھنی ہیں… ان معلومات کے بدلے میں ہم آپ کو بھی کچھ حصہ دے دیں گے۔‘‘
’’کیا مطلب …کیسا حصہ ؟‘‘ جمال شاہ فارغ نے بھنویں اچکائیں ۔
’’ کیس حل کرنے کی ہمیں جو فیس ملی ہے … اگر آپ سے حاصل کردہ معلومات سے ہمیں کوئی مدد ملی تو فیس میں آپ کا بھی حصہ ہوگا۔‘‘
’’ کک… کیا … واقعی ۔‘‘ انسپکٹر جمال شاہ فارغ نے آگے کو جھک کر کہا ۔
’’ جی ہاں! واقعی ۔‘‘
’’ ملاؤ پھر ہاتھ… اور بتاؤ… کون سا کیس ہے ۔‘‘ سرور غنی نے جمال شاہ سے ہاتھ ملایا ، پھر گویا ہوئے : ’’ چھ ماہ پہلے شہر کے مشہور رئیس اختر نذیر کے ہاں سے دو عدد ہیرے چرائے گئے تھے… ہیرے چرانے والا احسن نامی نوجوان تھا … اس کی وڈیو فلم بن گئی تھی … لیکن وہ ہیرے اڑا لے جانے میں کامیاب ہوگیا … بس آپ ہمیں وہ فائل نکلوا دیں… ہم اس کا مطالعہ کرلیں ا ور بس ۔‘‘
’’ اچھی بات ہے … لیکن اگر تم نے مجھ سے چال چلنے کی کوشش کی تومجھ سے برُا کوئی نہ ہو گا۔‘‘
’’ وہ تو اب بھی نہیں ہے سر۔‘‘ سرور غنی مسکراے۔
’’کیا مطلب ؟‘‘ جمال شاہ چلا اٹھا ۔
’’اوہ… معاف کیجیے گا، روانی میں نہ جانے کیا کہہ گیا۔‘‘
’’تاریخ بتاؤ چوری کی۔‘‘ جمال شاہ نے اور زیادہ منھ بنا کر کہا۔
سرور غنی نے تاریخ بھی اپنی نوٹ بک میں نوٹ کی تھی۔ وہ انہوں نے جمال شاہ کو بتا دی … اس کی مدد سے جلد ہی فائل تلاش کر لی گئی … اور پھر فائل ان کے ہاتھوں میں تھی… فائل میں احسن کی تصویر بھی تھی۔انہوں نے فائل کا مطالعہ خوب غور سے کیا… آخر فائل جمال شاہ کو لوٹاتے ہوئے انہوں نے کہا : ’’ بہت بہت شکریہ انسپکٹر صاحب … اب ہم چلتے ہیں۔‘‘
’’ اپنا وعدہ یاد رکھنا۔‘‘
’’ آپ فکر نہ کریں…سرو ر غنی جب کسی سے کوئی وعدہ کر لیتا ہے تو پھر اسے ضرور پورا کرتا ہے۔‘‘
’’ یہی تو دیکھنا ہے … ‘‘ جمال شاہ نے خوش ہو کر کہا اور وہ باہر نکل آئے۔فائل میں انہیں نوجوان کے گھر کا پتا مل گیا تھا … وہ شہر سے باہر ایک دیہات کا پتا تھا … جہاں اس کے ماں باپ کا گھر تھا۔‘‘
اب ان کی گاڑی کا رخ اس گاؤں کی طرف تھا… گاؤں میں محسن رفیق نام کے شخص کا پتا چلا نا ذرا بھی مشکل ثابت نہ ہو ا، لیکن جب وہ اس کے گھر کے دروازے پر پہنچے تو ایک اور الجھن ان کے سامنے تھی… اس گھر کے دروازے پر ایک بہت پرانا تالا لٹک رہا تھا: ’’ اس تالے کو دیکھ رہے ہو لیاقت بیگ… پرانے زمانے میں ایسے تالے بنتے تھے … اور تم نے اس مکان کو دیکھا لیاقت … یہ حویلی نما ہے… پرانے زمانے میں نواب لوگ ایسی حویلیاں بنواتے تھے… تم آج کے محل سمجھ لو ۔‘‘
’’ یس سر ! میں دیکھ رہا ہوں، تو کیا احسن کا تعلق کسی نواب گھرانے سے ہے ۔‘‘
’’یہ تو معلوم نہیں… تالے کا مطلب ہے ، وہ یہ گھر چھوڑ گئے… آؤ ساتھ والوں سے پوچھتے ہیں۔‘‘
لیا قت بیگ نے ساتھ والے دروازے پر دستک دی تو ایک ادھیڑ عمر آدمی باہر نکل آیا … اس نے دروازے پر دو سادہ سے لوگوں کو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا ، پھر اس نے کہا :
’’ جی فرمایئے ۔‘‘
’’ یہ محسن رفیق صاحب کا گھر ہے نا ۔‘‘
’’ جی… جی ہاں… لیکن انہیں فوت ہوئے تو ایک مدت گزر گئی۔‘‘ اس نے دکھی سے انداز میں کہا۔
’’ اور ان کے گھر کے باقی افراد ۔‘‘
’’ باقی افراد میں تھا ہی کون … محسن رفیق صاحب کی بیوی اور ان کا نوجوان بیٹا احسن… آج سے چھ ماہ پہلے ایک رات وہ دونوں چپ چپاتے نہ جانے کہاں چلے گئے… ہم نے تو صبح سویرے اٹھ کردیکھا تو یہ تالا لگا ہوا تھا… اس روز سے بس تالا ہی لگا ہوا ہے … ہاں کئی بار انہیں تلاش کرنے پولیس ضرور آئی ہے۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’وہ کس سلسلے میں آئی تھی؟‘‘ سرور غنی نے الجھن کے عالم میں کہا۔
’’ انہوں نے بتایا…احسن نے شہر میں ایک بڑی کوٹھی میں چوری کی واردات کی ہے… اس سلسلے میں انہیں اس کی تلاش ہے … اور جہاں کہیں بھی اس کے ملنے کا امکان نظر آتا ہے… وہ وہاں چھاپے مار رہے ہیں۔‘‘
’’تو پھر… کیا انہوں نے حویلی کو اندر سے نہیں دیکھا تھا … باہر سے باہر ہی چلے گئے تھے؟‘‘ سرور غنی نے پوچھا ۔
’’ وہ سیڑھی لگا کر اندر کی طرف اترے تھے اور پوری حویلی کی خوب تلاشی لی تھی… لیکن انہیں کچھ نہیں ملا تھا… آخر مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے تھے، چند دن بعد وہ پھر آئے تھے… اس روز بھی انہوں نے حویلی کے اندر اتر کر اس کی تلاشی لی تھی۔‘‘
’’ پھر …اس روز کے بعد بھی آئے تھے وہ ؟‘‘
’’ جی ہاں ! کچھ دن بعد ایک بار وہ پھر آئے تھے … بس اس کے بعد نہیں آئے۔‘‘
’’ ہوں …آپ تو ان کے ساتھ شروع سے رہ رہے ہیں شاید…یہ ماں بیٹا دونوں کیسے تھے… کیا وہ نوجوان چوریاں کرتا رہا تھا۔‘‘
’’نہیں جناب …وہ تو بہت بھولا بھالا نوجوان ہے … ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس نے چوری کی ہو… ہاں جس رات کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے ، اس رات وہ شہر ضرور گیا تھا … اور اسی رات کی دوسری صبح سے دونوں ماں بیٹا غائب ہیں … لیکن پھر بھی ہمارے دل نہیں مانتے … کہ اس نے چوری کی ہے … یہ لوگ کسی نواب خاندان کے لوگ تھے …احسن کی والدہ محلے کی عورتوں سے بہت اچھا سلوک کرتی تھیں… ہم سب کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی تھیں … لیکن چونکہ ابھی احسن نے کمانا شروع نہیں کیا تھا اور اس کے والد فوت ہو گئے تھے ، اس لیے ان کا کوئی ذریعہ آمدنی تو تھا نہیں ، ا س لیے وہ محلے داروں کی کچھ زیادہ مالی مدد نہیں کر سکتی تھیں…‘‘
’’ اور احسن کے والد … وہ کیا کرتے تھے ۔‘‘
’’ وہ کوئی کام تو نہیں کرتے تھے … لیکن اکثر شہر جاتے تھے اور جب آتے تو ان کے پاس اچھے بھلے پیسے ہو تے تھے،شاید شہر میں ان کی کوئی جائیداد تھی،جس کاکرایہ لینے جاتے تھے…یا کوئی اور ذریعہ تھا … وہ گاؤں کے لوگوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے …ان کی وفات کے بعد شہر سے وہ پیسے آنے کا سلسلہ بند ہو گیا… ماں بیٹے کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ وہ پیسے کیسے لے آتے تھے… دراصل محسن رفیق کی موت بالکل اچانک ہوئی تھی …شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ اس طرح اچانک فوت ہو جائیں گے … اور اسی لیے وہ اپنے بیٹے اور بیوی کو یہ نہیں بتا سکے تھے کہ شہر میں ان کی آمدنی کا ذریعہ کیا تھا، بہرحال یہ معاملہ راز ہی رہ گیا۔‘‘ یہاں تک بتا کر وہ خاموش ہو گیا … اس کے لہجے سے گہرے دکھ کا اظہار ہو رہا تھا … اس وقت تک آس پاس کے دو چار اور لوگ بھی وہاں آ کھڑے ہوئے تھے اور ان باتوں کو غور سے سن رہے تھے ۔ اب سرور غنی نے کہا: ’’ ہم لوگ بھی دراصل احسن کی تلاش میں ہیں… کیا ہم کسی طرح اس حویلی کو اندر سے دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘
’’ اندر داخل ہونے کی وہی صورت ہے … یعنی سیڑھی لگا کر دوسری طرف اتر ا جا سکتا ہے… لیکن …پولیس نے ہم سے کہا تھا کہ کوئی اس طرف آئے تو انہیں اس حویلی میں نہ جانے دیا جائے…‘‘
’’ٹھیک ہے… ہم اندر نہیں جاتے … آپ لوگوں کا شکریہ… آپ سے ہمیں بہت کام کی باتیں معلوم ہوئیں… شاید ہم کسی روز آپ لوگوں کو احسن کے بارے میں بتائیں … اس پر دراصل دو عدد ہیروں کی چوری کا الزام ہے…اور وہ غائب ہے… ہم اس کی تلاش میں ہیں۔‘‘
’’یہ بات تو خیر پولیس نے بھی بتائی تھی … لیکن گاؤں میں اس بات کو کوئی بھی درست نہیں مانے گا ۔‘‘
’’ ہم ایک دن آپ لوگوں کو بتائیں گے… آؤ لیاقت چلیں۔‘‘
’’ ایک منٹ سر … آپ اجازت دیں تو ان حضرات سے ایک دو سوال میں بھی پوچھ لو ں۔‘‘
’’ہاں ہاں ضرور… کیوں نہیں ۔‘‘
’’ گاؤں کے لوگو … کیا آپ لوگ بتا سکتے ہیں… احسن کا کوئی اور بھائی بہن تھا یا نہیں۔‘‘
’’احسن کی ایک بہن تھی … بڑی بہن … اس کی انہوں نے شادی کر دی تھی… یعنی ابھی ان کے والد محسن صاحب زندہ تھے … انہوں نے بیٹی کی شادی خود کی تھی۔‘‘
’’ان کی بہن کا گھر کہاں ہے ۔‘‘
’’سجاول پور۔‘‘
’’سجاول پور … اور یہ گاؤں کہاں ہے ۔‘‘
’’احسن کی والدہ نے ہی بتایا تھا… یہ دور دراز علاقے میرپور کا ایک گاؤں ہے۔‘‘
’’اوہ اچھا … بہت بہت شکریہ ۔‘‘
ان سے ہاتھ ملا کر وہ واپس روانہ ہوئے: ’’کیا خیال ہے… لیاقت بیگ۔‘‘سرور غنی نے خیالات میں گم انداز میں کہا ۔
’’سر! ہمیں سجاول پور گاؤں جانا ہوگا …‘‘
’’لیکن لیاقت … اس سے پہلے ہم اختر نذیر سے کیوں نہ پوچھ لیں… احسن کی تلاش کے سلسلے میں کسی نے سجاول کا رخ بھی کیا تھا یا نہیں ۔‘‘
’’یہ ٹھیک رہے گا ۔‘‘ لیاقت بیگ نے فوراًکہا۔ آخر انہوں نے اختر نذیر کو فون کیا… جلد ہی اس کی آواز سنائی دی:
’’ اختر نذیر بات کر رہا ہوں ۔‘‘
’’اور یہ میں ہوں اختر نذیر صاحب… آپ کا خادم… سرور غنی ۔‘‘
’’ اوہ !آپ ہیں… کہیے کیا رپورٹ ہے … کوئی کامیابی ہوئی یا نہیں ۔‘‘
’’آپ مطمئن رہیں… ہم بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔‘‘
’’بہت خوب!یہ جان کر خوشی ہوئی ۔‘‘
’’آپ سے ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں… یہ کیس ہمارے ذمے لگانے سے پہلے پولیس کے ذریعے آپ کی کوششیں کہاں تک پہنچیں تھیں… دوسرے الفاظ میں یہ بات جاننا چاہتا ہوں کہ کون کون سے دوسرے شہروں میں تلاش کرایا جا چکا ہے ۔‘‘
’’پولیس نے زیادہ زور تو اپنے شہر میں ہی لگایا تھا … اس کے علاوہ پولیس نے اس کے گاؤں میں بھی کئی بار چھاپہ مارا تھا … لیکن افسوس!احسن کا کوئی پتا نہیں چلا تھا ۔‘‘
’’اور کسی شہر میں کوئی خاص کوشش کی گئی … یا کسی گاؤ ں میں۔‘‘
’’اگر کسی جگہ کوئی کامیابی ہوتی تو پولیس مجھے ضرور بتاتی ۔‘‘
’’ اس کا مطلب ہے … کسی دوسرے گاؤں یا شہر میں کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی ۔‘‘ 
’’ جی ہاں! یہی کہا جا سکتا ہے ۔‘‘
’’ اچھی بات ہے … ہم بہت جلد آپ کا چور تلاش کر دیں گے … بلکہ آپ پسند کریں تو ہم اسے گرفتار کر کے لے آئیں گے … اور یہاں کی پولیس کے حوالے کر دیں گے ۔‘‘ انہوں نے کہا ۔
’’ نہیں سرور غنی صاحب! ایسا نہ کیجیے گا … آپ صرف اسے تلاش کر دیں اور جہاں وہ نظر آئے… اس کی نشان دہی کر دیں … اسے گرفتار میں خود کرا لوں گا ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ، اختر صاحب ! ہمارے درمیان یہی بات طے ہوئی ہے … اور ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہیے… اﷲ حافظ۔‘‘
’’ اﷲحافظ !‘‘ اختر نذیر نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا ۔
’’ لگتا ہے … ان لوگوں نے گاؤں کے لوگوں سے یہ سوال پوچھا ہی نہیں کہ احسن کی کوئی بہن یا کوئی بھائی تھا یا نہیں … تھا تو وہ کہاں رہتاہے … لیکن ہم نے اس کی بہن اور اس کے گاؤں کا نام معلوم کر لیا ہے … لہٰذا لیاقت بیگ … ہماری اگلی منزل سجاول گاؤں ہے … میر پورکا گاؤ ں۔‘‘
’’ بالکل ٹھیک سر ۔‘‘
’’ اور لیاقت بیگ… میں پچھلے کئی گھنٹے سے ایک خاص بات محسوس کر رہا ہوں ۔‘‘
’’ اور وہ کیا سر …ویسے خاص بات محسوس کرنے میں آپ کو خاص مہارت حاصل ہے ۔‘‘
’’ لیا قت تم جانتے ہو … مجھے اپنی تعریف سننا پسند نہیں ۔‘‘ سرور غنی کا لہجہ سرد ہو گیا ۔
’’ سس… سوری سر ۔‘‘
’’چلو خیر… آیندہ خیال رکھنا ۔‘‘
’’جی اچھا ۔‘‘ اس نے فوراًکہا۔
’’ وہ بات رہ گئی … جو آپ پچھلے کئی گھنٹے سے محسوس کر رہے ہیں… ویسے آپ پسند کریں تو پہلے مجھ سے سن لیں ۔‘‘
’’کیا سن لو ں۔‘‘ انہوں نے لیاقت بیگ کو گھورا۔
’’ یہ کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں ۔‘‘
’’ اوہ بہت خوب… تو تم نے بھی یہ بات محسوس کر لی … لیکن ذرا بتاؤ تو … وہ بات ہے کیا۔‘‘
’’یہ کہ کوئی مسلسل ہمارا تعاقب کر رہا ہے ۔‘‘
’’ بالکل یہی بات ہے لیا قت اور اسی لیے اپنے تمام ماتحتوں میں سے میں تمہیں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔‘‘
’’شکریہ سر۔‘‘ لیاقت خوش ہو گیا ۔
’’ ویسے لیاقت ذرا سوچو …ہمارا تعاقب کرنے والا کون ہو سکتاہے ،اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ ہمارا تعاقب کرنے والا اختر نذیر کا آدمی ہے… تو اس کی کوئی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی اور احسن کی طرف سے تو اس کا امکان ہی نہیں … اس کا تعلق کون ساچوروں کے کسی بڑے گروہ سے ہے ۔‘‘
’’تب پھر … وہ کون ہو سکتا ہے ۔‘‘
’’میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا … البتہ میں غور کررہا ہوں … اس سے بھی زیادہ اہم بات ایک اور ہے … اگر تم کہو تو بیان کر دوں ۔‘‘
’’کیوں نہیں سر… ضرور۔‘‘ لیاقت بیگ مسکرایا ۔
’’یہ جو پرانے خاندانی لوگ ہوتے ہیں … یہ اپنی خاندانی آن پر جان تو دیتے ہیں… اپنی نوابی کو بٹہ نہیں لگنے دیتے … لہٰذا میں مسلسل یہ بات محسوس کر رہا ہوں کہ ہیروں کا چور احسن نہیں کوئی اور ہے ۔‘‘
’’تب پھر سر !وہ اختر نذیر کی کوٹھی میں کیا کرنے گیا تھا۔‘‘
’’ہاں! یہ بات الجھن میں ڈال رہی ہے … اور میں اسی سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں، جونہی مجھے اس سوال کا جواب مل گیا …یہ کیس حل ہو جائے گا … میرا مطلب ہے… دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘
’’اﷲ کرے جلد ایسا ہو جائے سر …کیونکہ میری بے چینی کو گویا پر لگ گئے ہیں… لمحہ بہ لمحہ زیادہ ہی ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
’’سنو لیا قت !میں چاہتا ہوں… ہم اس طرح میر پور کی طرف روانہ ہوں کہ ہمارے تعاقب کرنے والوں کو کانوں کان خبر نہ ہو۔‘‘
’’یہ کیا مشکل ہے سر …پہلے آپ کے گھر سے آپ کی گاڑی میں آپ کے میک اپ میں ہمارا کوئی ساتھی نکلے گا اور اس طرح تعاقب کرنے والا اس کے پیچھے چلا جائے گا … اس کے بعد آپ میرے ساتھ میری گاڑی میں نکلیں گے اور میرپور کا رخ کریں گے ۔‘‘
’’تمہاری کھٹارا گاڑی میں … ‘‘ سرور غنی نے برُا سا منھ بنایا۔
’’اگر یہ پسند نہیں تو پھر تعاقب کرنے والے کو برداشت کر لیں ۔‘‘ لیا قت مسکرایا ۔
’’ کوئی اور ترکیب بتاؤ یار … ایسی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘
’’تب پھررات میں کسی وقت گھر کے پچھلے حصے سے پیدل نکل چلیے …گاڑی کی آواز سنائی نہیں دے گی … لہٰذا تعاقب کرنے والے کو پتا نہیں چلے گا کہ ہم باہر نکل گئے ہیں۔‘‘
’’ اور میر پور کیسے جائیں گے ۔‘‘
’’ اگر اخر اجات برداشت کر سکتے ہیں… تو پرائیویٹ گاڑی لے لیتے ہیں… ورنہ پھر بس تو کہیں گئی نہیں ۔‘‘
’’فضول ترکیب۔‘‘
’’میں آپ کی ترکیب سننے کا بھی حوصلہ رکھتا ہوں ۔‘‘
’’ سنو ! ہمارا ایک ماتحت گاڑی لے کر دروازے پر آئے… دستک دے … گویا کوئی ایمر جنسی آپڑی ہے … میرے میک اپ میں ایک ماتحت باہر نکلے اور گاڑی روانہ ہو جائے … اور کچھ دیر بعد میں اپنی گاڑی میں گھر سے باہر نکلوں گا… تم اپنے گھر کے دروازے پر تیار ملو گے … لہٰذا ہم اﷲ کا نام لے کر میر پور کی طرف روانہ ہو جائیں گے ۔‘‘
’’زبردست سر … میری ترکیب آپ کی ترکیب کے مقابلے میں پانی بھر رہی ہے ۔‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں… کسی وقت تم بدلہ لے لینا ۔‘‘ سرور غنی نے مسکراکر کہا ۔
اس ترکیب کے تحت وہ میر پور روانہ ہوئے … لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اپنے ساتھی کو انہوں نے یہ ہدایت نہیں دی تھی کہ وہ کہاں جائیں گے، چنانچہ سرور غنی نے موبائل پر اسے ہدایات دیں۔
’’تم مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر چلے جانا … رات وہیں گزرے گی…صبح تمہارا ساتھی میرا میک اپ ختم کرکے باہر نکل کر اپنی ڈیوٹی پر چلا جائے گا … تعاقب کرنے والا بے چارہ ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جائے گا … مم… مگرنہیں ۔‘‘ سرور غنی چونک اٹھا ۔
’’ مگر نہیں کیا سر ۔‘‘
’’ ہم یہ موقع کیوں ضائع کریں ۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں سر !‘‘
’’ بھئی سیدھی سی بات ہے … آخرتھک ہار کر تعاقب کرنے والا وہاں سے جائے گا۔اب تم اس کا تعاقب کرو گے اور معلوم کرو گے … وہ کہاں جاتا ہے… یا وہ کون ہے ۔‘‘
’’بہت خوب سر… واقعی یہ بہت بہتر رہے گا ۔‘‘
’’بس تو پھر تم یہی کرنا … میں تمہاری طرف سے ملنے والی رپورٹ کا انتظار کروں گا ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے سر۔‘‘

*۔۔۔*

تمام رات کے سفر کے بعد وہ میر پور کے نزدیک پہنچ گئے … برُ ی طرح تھک گئے تھے … انہوں نے سوچا کسی سراے میں کچھ دیر آرام کر لیں اور ناشتا بھی کر لیں ۔سراے کے ملازم سے سجاول گاؤں کا پتا بھی معلوم کر لیں گے ۔
لیا قت نے بھی اسی بات سے اتفاق کیا ۔وہ آرام کرنے اور ناشتا کرنے کے بعد سراے سے روانہ ہوئے … سجاول کا راستہ وہ معلوم کر چکے تھے … لہٰذا آسانی سے گاؤں تک پہنچ گئے… انہوں نے دیکھا … وہ نام کا گاؤں تھا … ورنہ وہاں گاؤں والی کوئی بات بھی نہیں تھی ، صاف ستھرے مکانات نظر آرہے تھے ۔گاؤں میں داخل ہوتے ہی انہوں نے گاڑی روک دی … پھر گاؤں کی طرف سے آتے ہوئے ایک شخص کو انہوں نے اشارے سے قریب بلا لیا: ’’ السلام علیکم جناب۔‘‘
’’ وعلیکم السلام ۔‘‘ اس نے قدرے حیران ہو کر کہا ۔
’’ آپ سجاول کے ہی رہنے والے ہیں ۔‘‘
’’ جی… جی ہاں …فرمایئے … کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘
’’ہمیں احسن صاحب سے ملنا ہے ۔‘‘
’’ احسن … کون احسن؟‘‘
’’شہر شکوال کا ایک گاؤں ہے … نہاری آباد … وہاں رہا کرتے تھے ۔ وہاں سے یہاں آکر آباد ہوگئے… ہم ان کے دوست ہیں… ان کی یاد نے ستایا تو ملنے چلے آئے۔‘‘
’’ سجاول میں تو کوئی احسن نامی شخص نہیں رہتا … یعنی ایسا شخص جو پنجاب سے آیا ہو ۔‘‘
’’ کیا کہا آپ نے … ‘‘ سرور غنی نے بغور اس کی طرف دیکھا… اس وقت اس شخص نے فوراً نظریں چرا لیں… ان کا دل دھڑکا … انہوں نے فوراً کہا :
’’افسوس! ہم نے اتنا لمبا سفر کیا… اب تو فوراََ وا پس بھی نہیں جا سکتے … کچھ دیر تو یہاں آرام کرنا ہوگا … چلیے آپ کسی سراے کا ہی پتا بتا دیں ۔‘‘
’’ میرا گھر حاضر ہے … گاؤں میں سرائیں نہیں ہوتیں… گاؤں کے لوگ تو اس قدر مہمان نواز ہوتے ہیں کہ سب اپنے دروازے مہمان کے لیے کھول دیتے ہیں… آیئے میرے گھرآرام بھی کریں اور ناشتا بھی ۔‘‘
’’ آپ… آپ بہت اچھے ہیں… آپ کا شکریہ ۔‘‘
’’کوئی بات نہیں… یہ تو یہاں کی ریت ہے۔‘‘
وہ انہیں اپنے گھر لے آیا… دونوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر گھر کے اندر چلا گیا… انہوں نے دیکھا… وہ ایک سادہ سا گھر تھا: ’’ یار لیا قت بیگ ۔‘‘ سرور غنی نے دبی آواز میں کہا ۔
’’ یس سر ۔‘‘
’’ دال میں کچھ کالا ہے ۔‘‘
’’سر !میں اسے سفید تو کرنے سے رہا ۔‘‘
’’ لیکن بھئی…ہم نے دس لاکھ لیے ہیں ۔‘‘ سرور غنی نے عجیب سے لہجے میں کہا ۔
’’ جی کیا … مطلب ؟‘‘
’’ ہمیں اپنا فرض تو نبھانا ہوگا ۔‘‘
’’تب پھر بتائیں… وہ کالا کالا کیا ہے ۔‘‘
’’ جب میں نے اپنے میزبان سے احسن کے بارے میں پوچھا تھا تو اس نے کہا تھا … یہاں تو ایسا کوئی احسن نام کا آدمی نہیں رہتا جو پنجاب سے آیا ہو …اس پر میں نے زور دار انداز میں کہا تھا … کیا کہا آپ نے …تو اس نے فوراً گھبرا کر نظریں نیچی کر لی تھیں…اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ احسن یہاں رہتا ہے ۔‘‘ 
’’اوہ!‘‘ لیا قت کے منھ سے نکلا ۔
عین اس لمحے سرور غنی کے موبائل کی گھنٹی بجی… اس نے دیکھا… فون اس ماتحت کا تھا ، جسے وہ تعاقب کرنے والے کے پیچھے لگا کر آئے تھے ۔ انہوں نے جلدی سے موبائل آن کیا اور بولے :’’ ہاں ارشد بھائی ؟‘‘
’’سر! خوفناک خبر ہے … انہوں نے آپ کے گھر کے پیچھے بھی کسی کو مقرر کر رکھا تھا… اب وہ آپ لوگوں کے تعاقب میں ہیں ۔‘‘
’’ ارے باپ رے۔‘‘
’’ اور اب وہ بھی سجاول پہنچنے والے ہیں یا پہنچ چکے ہیں… میں نے اختر نذیر کو اپنے دس پندرہ آدمیوں کے ساتھ ایک بڑی گاڑی میں روانہ ہوتے دیکھا ہے۔‘‘ 
’’لیکن ارشد بھائی … تمہیں کیسے پتا چل گیا کہ وہ لوگ سجاول کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔‘‘
’’ میں تعاقب کرنے والے کا تعاقب کرتے ہوئے اختر نذیر کی کوٹھی تک پہنچ گیا تھا… وہ لوگ اس وقت کوٹھی کے لان میں تھے… تعاقب کرنے والے نے اختر نذیر کو جب اپنی کار گزاری سنانا شروع کی تھی تو اختر نذیر نے بے قراری کے انداز میں کہا تھا …اب اس تفصیل کی ضرورت نہیں رہی … ہمارے آدمی نے سرور غنی کا تعاقب کیا ہے… وہ میر پور کی طرف جاتے دیکھے گئے ہیں…اب اس کا مطلب ہے … وہ چھپا ہوا وہیں ہے …لہٰذا ہم سب وہیں جا رہے ہیں۔‘‘
’’ اوہ … اوہ ۔‘‘ مارے خوف کے ان کے منھ سے نکلا ۔
’’ اور سر …وہ اسلحے سے پوری طرح لیس ہو کر گئے ہیں۔‘‘
’’ حیرت ہے … کمال ہے …یہ اختر نذیر صاحب کو ہو کیا گیا ہے …جب ایک کام میرے ذمے لگایا تھا تو بس مجھے کرنے دیتے …خیر اﷲ مالک ہے …کوئی اور بات معلوم ہوتو فون کر دینا ۔‘‘
’’جی بہتر ! کیا ہم سب بھی ادھر آجائیں ۔‘‘
’’ نہیں! سفر بہت لمبا ہے… تم لوگ بس دعا کرنا …کوئی گڑ بڑ نہ ہو ۔‘‘
’’ بہت بہتر سر۔‘‘ فون بند کرکے وہ لیاقت بیگ کی طرف مڑے : ’’یار لیاقت بیگ …میں خوف محسوس کر رہا ہوں…اختر نذیر بندوق ہمارے کندھوں پر رکھ کر چلانا چاہتا ہے۔‘‘ اسی وقت انہوں نے قدموں کی آواز سنی اور ان کا میزبان اندر داخل ہوا… 
اس نے با اخلاق لہجے میں کہا: ’’ ناشتے میں ابھی کچھ دیر ہے…آپ لیٹ جائیں۔‘‘
’’ آپ ہمارے پاس بیٹھ جائیں …آپ بہت اچھے ہیں…اصل بات یہ ہے کہ احسن کی زندگی خطرے میں ہے …ہم انہیں خبر دار کرنا چاہتے ہیں…لیکن آپ کہہ رہے ہیں، اس نام کا کوئی شخص یہاں پنجاب سے نہیں آیا… دیکھیے…ہم ان کے دوست ہیں… دشمن نہیں …اگر آپ کو ان کے بارے میں معلوم ہے تو فوراً بتا دیں ، ایسا نہ ہو…آپ جب بتائیں تو پانی سر پر سے گزر چکا ہو …آپ دیکھ لیں… بے شک ہماری تلاشی لے لیں… اگر ہم ان کے دشمن ہیں تو پھر تو ہمارے پاس ہتھیار ہونے چاہیے نا …اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں…جس نوجوان کی ہم تلاش میں ہیں… اس کے دائیں گال پر چاند چمکتا ہے… یعنی چاند کا پیدائشی نشان ہے اور وہ دور سے بھی صاف نظر آتا ہے… اب اگر یہاں … یہ نوجوان رہتے ہیں اور آپ نے ہمیں ان کے بارے میں نہ بتایا …اور ان کے دشمن یہاں تک آگئے تو پھر ان کی موت کے ذمے دار آپ ہوں گے… ہم نے آپ کو پہلے ہی خبردار کر دیا ہے ۔‘‘
’’ نن… نہیں۔‘‘ وہ کانپ گیا ۔
’’ہم جانتے ہیں … احسن یہیں رہتے ہیں… لیکن آپ ہمیں بتا نہیں رہے… آپ کی مرضی۔‘‘
’’مم… میں مجبور ہوں …‘‘ اس کے منھ سے نکلا ۔
دونوں اچھل پڑے… کہاں تو وہ اس بات سے انکاری تھا…کہ احسن نامی شخص اس گاؤں میں رہتا ہے… کہاں اب کہہ رہا تھا… اس کے بارے میں نہ بتانے پر مجبور ہے۔
’’ آپ کو کیا مجبوری ہے ۔‘‘
’’ آپ میرے ساتھ گاؤں کے سردار کے پاس چلیں… یہ فیصلہ وہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو احسن میاں سے ملایا جائے یا نہیں ۔‘‘
’’ چلو ! ایک بات تو طے ہوئی … یہ کہ احسن میاں یہیں رہتے ہیں… اب جلدی ہمیں سردار کے پاس لے چلیں … وقت پہلے ہی بہت ضائع ہو گیا ہے۔‘‘
’’آیئے چلیں ۔‘‘
’’ ہم نے ابھی تک آپ کا نام نہیں پوچھا۔‘‘ سرور غنی نے کہا ۔
’’ جی میرا نام توفیق پاشا ہے ۔‘‘
’’ تو پھر پاشا بھائی جلدی چلیں۔‘‘
وہ اس کے ساتھ گاڑی میں روانہ ہوئے … لیکن گاؤں لمبا چوڑا تو تھا نہیں… ایک منٹ بعد ہی گاؤں کے سردار کے گھر کے سامنے پہنچ گئے… سردار کا مکان بڑا اور خوب صورت تھا… سرخ رنگ کی عمارت میں بلند درخت نظر آرہے تھے… دستک کے جواب میں ایک بوڑھا آدمی باہر آیا:
’’ السلام علیکم …‘‘ ان تینوں نے ایک ساتھ کہا ۔
’’وعلیکم السلام …آؤ پاشا … یہ کن لوگوں کو ساتھ لیے پھر رہے ہو۔‘‘
’’ ان کی بات آپ ذرا جلدی سے سن لیں… کہیں خطرہ سر پر نہ آجائے ۔‘‘ توفیق پاشا نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ۔
’’خطرہ… کیسا خطرہ۔‘‘
’’یہ بتانے لگے ہیں نا۔‘‘
’’آیئے ، اندر آکر بتائیں… کیا بتانا چاہتے ہیں آپ۔‘‘
اورپھر وہ چاروں ڈرائنگ روم میں آبیٹھے… اب سرور غنی نے کہنا شروع کیا : ’’ ہماری اطلاعات کے مطابق اس گاؤں سجاول میں محسن رفیق کے بیٹے احسن میاں رہتے ہیں… وہ پنجاب سے آکر یہاں آباد ہوگئے ہیں… لیکن وہ اپنے پیچھے ایک کہانی چھوڑ کر آئے ہیں… وہاں ایک بہت بڑے دولت مند نے ان کے خلاف دو ہیروں کی چوری کی رپورٹ درج کرائی تھی … اب کسی طرح انہوں نے سراغ لگا لیا ہے کہ وہ اس گاؤں میں ہی ہیں…‘‘
’’ وہ یہاں سے انہیں کیسے تلاش کر لیں گے۔‘‘ سردار نے منھ بنایا۔
’’پہلے انہیں ایک بات معلوم نہیں تھی… وہ انہیں ابھی معلوم ہوئی ہے ۔‘‘ سرور غنی نے بے چین ہو کر کہا۔
’’اور وہ کیا بات ہے…‘‘
’’پہلے انہیں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ احسن میاں کی بڑی بہن کی شادی اس گاؤں میں ہوئی ہے… اب جب انہیں یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے جان لیا… احسن میاں ضرور یہیں ہیں… وہ کسی اور جگہ تو جا ہی نہیں سکتے … اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ دولت مند آدمی دونوں ہیرے حاصل کرنے کے لیے اپنے غنڈوں کے ساتھ چل چکا ہے اور کسی وقت بھی یہاں پہنچنے والا ہے …اس کے آدمیوں کے پاس ہر طرح کا اسلحہ ہے۔‘‘
’’بس! اتنی سی بات ہے۔‘‘ سردار مسکرایا۔
’’یہ آپ کو اتنی سی بات لگ رہی ہے …آپ کو تو چاہیے … پہلی فرصت میں احسن میاں کو خبردار کر دیں۔‘‘
’’انہیں خبردار کرنے کی ضرورت نہیں …ہم سب کو ہے… پورا گاؤں جو اس کے ساتھ ہے…‘‘
’’ جی … کیا مطلب؟‘‘
’’پورا گاؤں… احسن میاں کی حفاظت کرے گا … حفاظت کرنے کے لیے اگر انہیں لڑنا بھی پڑا تو لڑیں گے … لیکن اپنے مہمان کو دشمن کے حوالے نہیں کر یں گے … کیونکہ یہ بازو میرے آزماے ہوئے ہیں… آپ دونوں کا شکریہ کہ وقت سے پہلے ہمیں خطرے سے خبردار کر دیا … میں ابھی گاؤں میں خطرے کا اعلان کراتا ہوں… پھر آپ ایک ایسا نظارہ دیکھیں گے کہ پہلے زندگی میں شاید نہ دیکھا ہو گا۔‘‘
جلدہی گاؤں میں سردار کی طرف سے اعلان ہو رہا تھا، اوروہ رائفل اٹھائے باہر جا چکا تھا… شاید وہ گھوڑے پر سوار ہو کے گاؤں کے لوگوں کو خبردار کر رہا تھا …اور لوگ جلدی جلدی اپنے گھروں سے نکل رہے تھے …اور ہر ایک کے ہاتھ میں رائفل نظر آرہی تھی … سرور غنی اور لیاقت بیگ اپنی زندگی کا عجیب ترین نظارہ دیکھ رہے تھے …وہ سب لو گ انتہائی نظم اور ضبط کے ساتھ درختوں کی اوٹ لے رہے تھے …کچھ اپنی چھتوں پر مورچہ زن ہو رہے تھے ، چند ایک ان کے دیکھتے ہی دیکھتے درختوں پر چڑھ گئے تھے اور ان سب کی رائفلوں کا رخ اس طرف تھا ، جس طرف سے دشمن کو آنا تھا: ’’یار لیاقت بھائی…یہ ہم کہاں آگئے… سمجھ میں نہیں آ رہا… ہم اختر نذیر کے لیے کام کررہے ہیں…یا احسن میاں کے لیے ۔‘‘ سرور غنی نے حیرت زدہ آواز میں کہا ۔
’’سر… تیل دیکھیں … تیل کی دھار دیکھیں۔‘‘
’’ لیکن کہاں سے ۔‘‘
’’ سردار کے مکان کی چھت بہت اونچی ہے …اور ان کے گھر کے تمام افراد خواتین سمیت پہلے ہی ادھر ادھر مورچہ زن ہو چکے ہیں …حیرت تو یہ ہے کہ گاؤں کی عورتیں بھی جنگ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں… ایک بس ہم دو ہی ایسے ہیں …جن کے پاس رائفلیں نہیں ہیں…یوں ہمیں نہیں معلوم …ہمیں اختر نذیر کی طرف سے لڑنا ہے یا احسن میاں کی طرف سے ۔‘‘
’’میں نے اسی لیے تو کہا تھا سر تیل دیکھیں… تیل کی دھار دیکھیں ۔‘‘
اور پھر وہ دونوں سردار کی چھت پر چڑھ گئے… انہوں نے دروازہ اندر سے بند نہیں کیا تھا … کیونکہ گاؤں کے لوگوں کو کسی وقت بھی کہیں بھی پناہ کی ضرروت پیش آسکتی تھی … البتہ چھت پر پہنچ کر انہوں نے زینہ بند کردیا ۔ اب وہ چھت پر کھڑے تھے… اور آنے والے راستے پر ان کی نظریں جمی تھیں ۔ایسے میں انہوں نے گاڑیوں کا ایک قافلہ آتے دیکھا ’’ دشمن آگیا۔‘‘ سردار کی آواز گونجی ۔

*۔۔۔*

اور پھر گاڑیاں راستے کے آخری سرے پر آکر رک گئیں… گاؤں والے دھک سے رہ گئے… سب سے آگے والی گاڑیاں پولیس کی تھیں : ’’ ارے ! یہ کیا … یہ تو پولیس کی گاڑیاں ہیں… ہم نے تو سنا تھا …کوئی بہت بڑا دولت مند آدمی گاؤں پرحملہ کرنے آرہا ہے …لیکن یہ تو ہمارے ملک کی پولیس ہے ،قانون کے محافظوں سے جنگ کرنا ہمارا اصول نہیں… ہاں قانون کے محافظ ہمارے گاؤں پر کیوں چڑھ دوڑے ہیں… یہ ہم ان سے ضرور پوچھیں گے۔‘‘
’’ سردار صاحب! اس سوال کا جواب آپ کو ضرور دیا جائے گا … اس گاؤں میں ایک مفرور چور چھپا ہوا ہے …آپ بس اسے ہمارے حوالے کر دیں …ہمیں گاؤں کے لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں… قانون کے مجرم کو گرفتار کرنا ہے اور بس ۔‘‘
’’ لیکن !‘‘ سردار کی آواز گونجی۔
’’لیکن کیا…‘‘ پولیس آفیسر نے فوراًکہا۔
’’ لیکن …یہاں کوئی چور چھپا ہوانہیں ہے… جس شخص کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دو ہیروں کا چور ہے … اس نے کسی دولت مند کے ہیرے نہیں چراے … یہ سراسر جھوٹ ہے ۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں سردار صاحب… آپ گاؤں کے سردار ہیں ، سارا گاؤں آپ کی عزت کرتا ہے … آپ کا حکم مانتا ہے… لہٰذ اکوئی غیر ذمے دارانہ بات نہ کہیں … ہمارے پاس اس نوجوان یعنی احسن میاں کے خلاف مکمل ثبوت موجود ہے ۔‘‘ 
’’ وہ ثبوت جھوٹ ہے… فریب ہے ۔‘‘
’’تو کیا یہ بھی فریب ہے کہ نوجوان اختر نذیر کی کوٹھی میں گیا تھا… اگر یہ وہاں نہیں گیا تھا تو کیمروں نے اس کی فلم کیسے بنا لی۔‘‘
’’ آفیسر !‘‘ ایسے میں سرور غنی کی آواز گونجی…اورو ہ کچھ ایسی تھی کہ سب اس کی گونج میں دب کر رہ گئے۔
’’یہ کون بولا ۔‘‘
’’ یہی میرا سراغر ساں ہے …اسی نے تو سراغ لگایا ہے احسن کا ۔‘‘ اختر نذیر کی چہکتی آواز سنائی دی ۔
’’ نہیں … یہ بات اب نہیں کہی جا سکتی … میں نے اصل حقیقت جان لی ہے ۔‘‘
’’ کیا مطلب… اصل حقیقت جان لی تھی …آپ کون ہیں اور کیا کہنا چاہتے ہیں۔‘‘ پولیس آفیسر کی آواز میں حیرت ہی حیرت تھی ۔
’’ میرا نام سرور غنی ہے… میں پنجاب کا ایک پرائیویٹ سراغر ساں ہوں… حکومت کی طرف سے مجھے لائسنس ملا ہوا ہے … اختر نذیر صاحب نے مجھے بلایا تھا … انہوں نے بتایا کہ ایک شخص ان کی سیف سے دو ہیرے اڑا لے گیا تھا اور یہ آج سے چھ ماہ پہلے کی بات ہے …پولیس آج تک اس کا سراغ نہیں لگا سکی … لہٰذا یہ کام میں آپ کو سونپتا ہوں… اس طرح میں نے یہ ذمے داری قبول کر لی… چوری کے ثبوت کے طور پر انہوں نے مجھے ایک فلم دکھائی تھی … جوان کے کیمروں کی کارروائی تھی … میں نے جب اس فلم کو دیکھا … تو ایک عجیب سا احساس ہوا…یوں لگا جیسے اس میں کہیں کوئی گڑ بڑ ہے … لیکن اس وقت میں یہ بات نہیں جان سکا تھا کہ کیا گڑبڑ ہے …لیکن پھر بعد میں اچانک میرے ذہن میں بات آگئی… اور سارا کیس ذہن میں صاف ہو گیا ۔‘‘
’’ پتا نہیں تم کیا کہہ رہے ہو … کیا میں نے تمہیں دس لاکھ روپے اس لیے دیے تھے کہ تم احسن کی وکالت کرو۔‘‘ اختر نذیر کی بلند آواز ابھری ۔
’’ آپ نے مجھے دس لاکھ روپے احسن میاں کو تلاش کرنے کے لیے دیے تھے…میر ا کام صرف انہیں تلاش کرکے آپ کو اطلاع دینا تھا… میں یہاں آنے کے بعد جب احسن میاں کو دیکھ لیتا تو فوراََآپ کو فون کرتا کہ میں نے نوجوان کو تلاش کر لیا ہے ،یہاں آکر آپ اس بات کی تصدیق کر لیں… لیکن آپ میراتعاقب کرتے ہوئے پہلے ہی یہاں پہنچ گئے …یعنی ادھر میں اور میرے ماتحت لیاقت بیگ یہاں پہنچے، ادھر اس کے کچھ ہی دیر بعد آپ پہنچ گئے…لیکن اکیلے نہیں، پولیس کے ساتھ ، لہٰذا میں نے دس لاکھ کا کام کر دیا ہے … آپ یہاں میراتعاقب کرتے ہوئے آئے ہیں… اگر آپ کو احسن میاں کا پتا پہلے ہی معلوم تھا تو پھر آپ کو دس لاکھ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘
’’مسٹر سرور غنی … آپ کسی گڑ بڑ کا ذکر کر رہے تھے… جو آپ نے فلم دیکھ کر محسوس کی تھی… مہر بانی فرما کر اس کی وضاحت کریں۔‘‘ پولیس آفیسر نے کہا۔
’’جی بہتر! عرض کرتا ہوں… اختر نذیر صاحب نے مجھے کیس کے سلسلے میں بلایا تھا تو نوجوان احسن میاں کی تصویر دکھائی تھی…اور ان کے دائیں گال پر چاند کا نشان خاص طور پر دکھایا تھا… میں نے اس نشان کو غور سے دیکھا تھا ، پھر چوری کرتے ہوئے نوجوان کی فلم دکھائی گئی… میں نے اس فلم کو بھی غور سے دیکھا تھا … اس کے بعد میں ان کے گاؤں گیا … ان کے آبائی مکان تک پہنچا، وہ ایک حویلی ہے … پرانے زمانے کی حویلی … ہم اندر نہ جا سکے…پولیس کی طرف سے اس کی اجازت نہیں تھی… پھر ہم پولیس اسٹیشن گئے تھے… پولیس انسپکٹر خالد بھائی سے اس چوری کی فائل حاصل کی تھی۔ پولیس نے گاؤں والی حویلی کے اندر سے بھی نوجوان کی تصاویر لی تھیں، وہ تصاویر اس فائل میں موجود تھیں…میں نے ان تصاویر کو بھی دیکھا تھا… اس وقت مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا… میں نے اور زیادہ غور سے فائل کا مطالعہ کیا … پھر اس فلم کو دیکھا جو اختر نذیر کے کیمروں نے تیار کی تھی … اور تب میں جان گیا … ‘‘ یہاں تک کہہ سرور غنی خاموش ہو گئے۔
’’یہ کیا بات ہوئی … آپ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے ، تب میں جان گیا …یہ بھی تو بتائیں کہ آپ کیا جان گئے ۔‘‘ پولیس آفیسر نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہا ۔
’’ جی… میں سانس لینے کے لیے رکا تھا یا یوں کہہ لیں کہ یہ میری عادت ہے ۔‘‘ وہ مسکراے۔
’’ خیر خیر…آپ آگے بیان کریں ، آپ کیا جان گئے۔‘‘
’’میں جان گیا … اختر نذیر نے کیمروں کے جو فلم تیار کی ہے … اس میں جو نوجوان احسن دکھایا گیا ہے … وہ اصلی احسن نہیں… احسن کے میک اپ میں جعلی احسن ہے۔‘‘
’’کیا!‘‘ بہت سے لوگ زور سے چلائے …چلانے والوں میں گاؤں کے لوگ تو تھے ہی ، پولیس والے بھی شامل تھے ۔
’’ہاں! یہی بات ہے …احسن کا میک اپ کسی دوسرے نوجوان کے چہرے پر کیا گیا … پروگرام کے مطابق وہ اندر داخل ہوا… کیمرے اس کی فلم بنانے کے لیے تیار تھے … اس طرح چوری کرتے ہوئے بھی اس کی فلم تیار ہو گئی… اب اس فلم کے بل بوتے پر اسے گرفتار کیا جانا چاہیے تھا … اس پر دو عدد انتہائی قیمتی ہیروں کی چوری کا الزام لگ چکا تھا …پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج ہو چکی تھی… لیکن نوجوان احسن اپنی والدہ کے ساتھ غائب تھا … پولیس نے ادھر ادھر بہت تلاش کیا…لیکن تلاش نہ کر سکی… آخر اختر نذیر نے یہ کام مجھ سے لینے کا پروگرام بنایا …کسی نے اسے میرے بارے میں بتایا ہوگا … اس طرح ہماری ملاقات ہوئی… معاملہ طے ہوا… مجھے فلم دکھائی گئی … تصاویر دکھائی گئیں… ان میں وہ تصویر یں بھی تھیں جو پولیس نے احسن میاں کے گھر سے لی تھیں… میں نے ان سب کو غور سے دیکھا اور یہ بات جان گیا کہ احسن میاں کے خلاف جھوٹا کیس بنایا گیا ہے… تاکہ عدالت میں اسے چور ثابت کر دیا جائے …اور ہیرے اس سے وصول کرکے اختر نذیر کو دیے جائیں ۔‘‘
’’اگر ہم اس ساری کہانی کو درست مان بھی لیں … جو کہ گھڑی ہوئی لگ رہی ہے… تب بھی سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر احسن میاں نے چوری نہیں کی تو ان کے پاس اتنے قیمتی ہیرے کہاں سے آئے۔‘‘ پولیس آفیسر نے تلملائے ہوئے انداز میں کہا ۔
’’ہاں! یہ سوال کرنے کا آپ کا حق بنتا ہے …تو سنیے اس کا جواب … دونوں ہیرے دراصل احسن میاں کی والدہ کے ہیں …اور یہ ان کے خاندانی ہیرے ہیں … خان دان در خان دان ان کے پاس چلے آئے ہیں… ہم نے ان کے گاؤں کی وہ حویلی دیکھی ہے …وہ نوابوں کی حویلی صاف نظر آرہی ہے… اور اس زمانے کے نواب کس قدر مال دار ہوتے تھے… انہیں بادشاہوں کی طرف سے جا گیریں اور ہیرے جواہرات انعام میں ملا کرتے تھے …سو یہ ہیرے پرانے زمانے سے ان کے خاندان میں چلے آرہے ہیں…آپ پسند کریں تو احسن میاں کی والدہ سے اس بات کی تصدیق کر لیں ۔‘‘
’’ میں تصدیق کرتی ہوں…یہ صاحب بالکل درست کہہ رہے ہیں…ہم لوگ آج تک ان سے ملے نہیں… نہ ہم نے انہیں دیکھا ہے …نہ انہوں نے ہمیں دیکھا ہے… لیکن حیرت ہے … اس قدر درست اندازے انہوں نے لگا لیے …ان کی ذہانت پر حیرت ہوتی ہے … بہرحال ان کی بیان کردہ تفصیل کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا …ان حالات میں اختر نذیر کو گرفتار کر لیاجانا چاہیے ۔‘‘
’’ محترمہ ! ابھی نہیں… ابھی یہ معاملہ عدالت میں جائے گا …ابھی تک مسٹر سرور غنی نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے نوجوان احسن کی تصاویر میں وہ کیا فرق دیکھا ہے…جس کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ چوری کرنے والے احسن میاں نہیں… ان کے میک اپ میں کوئی اور نوجوان تھا…لہٰذا ہم یہ معاملہ اب عدالت میں لے کر جارہے ہیں…سرور غنی صاحب وہاں اپنے ثبوت پیش کر سکتے ہیں …پھر عدالت کا جو فیصلہ ہو گا …وہ سب کو منظور ہوگا… کیا خیال ہے آپ کا۔‘‘
’’ٹھیک ہے … ٹھیک ہے … یہ اس معاملے کا بہت ہی احسن موڑ ہے۔‘‘بہت سی آوازیں ابھریں۔
’’ اچھا تو پھر اب عدالت میں ملاقات ہو گی ۔‘‘ اختر نذیر نے غراہٹ زدہ آواز میں کہا ۔
’’ ٹھیک ہے …‘‘ سرور غنی نے جواب دیا ۔
’’ اور میرے دس لاکھ روپے …کیونکہ تم نے میری نہیں… ان کی وکالت کی ہے ۔‘‘
’’غلط … میں نے نوجوان کو تلاش کر دیا ہے …اگر آپ اس بات کو نہیں مانتے تو ساتھ ہی عدالت میں یہ معاملہ بھی زیرِ بحث آجائے گا ۔‘‘
’’ اچھی بات ہے ۔‘‘
’’ عدالت میں آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگ جائیں گی…کیو نکہ آپ نے دھوکا کیا ہے …ایک بے گناہ کو چور ثابت کرکے ان سے ان کے ہیرے ٹھگنے کی کوشش کی ہے …یہ تو اگر میں اصلی معاملے کو بھانپ نہ لیتا تو آپ تو ہو گئے تھے کامیاب ۔‘‘
’’ ہم اب بھی کامیاب ہوں گے …ہم نے کوئی فراڈ نہیں کیا ہے …سمجھے تم … یہاں باتیں بنانا آسان ہے …عدالت میں ثبوت پیش کرنا مشکل … وہاں مخالف وکیل کے سامنے تم چوکڑیاں بھول جاؤ گے ۔‘‘
’’ اﷲ مالک ہے ۔‘‘
اور پھر وہ لوگ واپس لوٹ گئے … اب جو سرور غنی اور لیاقت بیگ چھت سے نیچے اترے تو گاؤں کے لوگ ان کے گرد جمع ہو کر اچھلنے کودنے لگے …وہ اس قدر خوش تھے کہ خوشی ان سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی… ان حالات میں سرور غنی نے بلند آواز میں کہا : ’’ سردار صاحب …ہمیں احسن میاں سے تو ملوا دیں …یہ اچھلنا کودنا تو بعد میں بھی ہوتا رہے گا۔‘‘
’’اوہ ہاں …کیوں نہیں …ہمارے محسن…دراصل احسن میاں کی بہن…میرے بیٹے کی اہلیہ ہے اور اس طرح وہ اس پورے گاؤں کی بہو ہے …پورا گاؤں اس پر اور اس کے بھائی پر جان دینے کو تیار رہتا ہے …ہمارا یہ گاؤں مثالی ہے …یہاں آپ کو صرف اور صرف محبت کے پھول کھلے نظر آئیں گے …ہمارے گاؤں میں نفرت کے کانٹے ہیں ہی نہیں …احسن بیٹے … اب سامنے آجاؤ…کوئی خطرہ نہیں رہ گیا ۔‘‘
’’ آگیا چچا جان!‘‘
اس کی آواز کے ساتھ ہی ایک نوجوان لوگوں کے درمیان سے نکل کر ان کے سامنے آگیا …انہوں نے دیکھا…اس کے دائیں گال پر چاند چمک رہا تھا …اور وہ حد درجے خوب صورت نوجوان تھا …اس کے چہرے کی مسکراہٹ اسے اور خوب صورت بنا رہی تھی …پھر وہ آگے بڑھے اور ایک دوسرے کے گلے سے لگ گئے… سرور غنی نے احسن میاں سے پوچھا: ’’لیکن آپ اس رات شہر کیوں گئے تھے…بس یہ بات اب تک صاف نہیں ہو سکی ۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں، اختر نذیرنے اپنا ایک آدمی بھیج کر مجھے یہ پیغام دے کر بلایا تھا کہ آپ کے والد صاحب کا ایک مسئلہ آپ کے سامنے رکھنا ہے،والد صاحب کا نام سن کر میں چلا گیا …بس اس نے مجھے وہاں رسیوں سے باند ھ دیا …پھر اپنے ایک آدمی کے چہرے پر میرا میک اپ ایک ماہر سے کرایا… اس آدمی سے چوری کرائی ، اس طرح میرے خلاف مکمل ثبوت حاصل کیا اور کہا کہ تم گھر جا سکتے ہو … بس میں نے جان لیا کہ اب مجھے گرفتار کر لیا جائے گا ،لہٰذا ہم نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اسی رات نکل کھڑے ہوئے۔‘‘ ایسے میں سرور غنی کے منھ سے مارے خوف کے نکلا: ’’ارے باپ رے۔‘‘

*۔۔۔*

وہ سب کے سب سرور غنی کی طرف متوجہ ہو گئے … آخر انہوں نے کہا: ’’میں خوف محسوس کر رہا ہوں… اختر نذیر کو اب اپنی موت نظر آرہی ہوگی…اور زخمی سانپ پلٹ کر حملہ ضرور کرتا ہے … پولیس کو رخصت کرکے وہ رات میں کسی وقت ضرور گاؤں پر حملہ آور ہوگا ۔‘‘
’’ نن… نہیں… ‘‘ کئی خوف زدہ آوازیں ابھریں۔
’’ بہتر ہوگا …ہم گاؤں خالی کر دیں … اور سب لوگ جنگل میں درختوں کے درمیان چلے جائیں… درختوں کی اوٹ لے لیں ۔‘‘ انہوں نے جلدی جلدی کہا ۔
’’ لیکن ہم گاؤں کیوں خالی کریں ۔‘‘
’’ ا س سے کچھ بعید نہیں…وہ خوف ناک ترین قدم اٹھا سکتا ہے ۔‘‘
’’ اﷲ اپنا رحم فرماے … آپ تو ہمیں ڈرائے دے رہے ہیں۔‘‘
’’ اس کی جان پر بن گئی ہے … وہ خود کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے… اور اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں … اس کے لیے کام کرنے والے بہت لوگ ہیں ، اگر وہ دو چار سو مسلح آدمیوں کو ساتھ لے آیا اور جدید اسلحے کی مدد سے گاؤں پر حملہ آور ہوا تو صورت حال خوفناک ہو گی …یہ ٹھیک ہے ، اس کے بھی آدمی مارے جائیں گے اور ہماری طرف کے …لیکن ہم وہ کام کیوں نہ کریں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘
’’اوہ … اوہ ۔‘‘ کئی آوازیں ابھریں …آخر سر دار نے کہا : ’’ ٹھیک ہے …جو یہ نوجوان سرور غنی کہہ رہے ہیں… وہ کیا جائے ۔‘‘
’’ تب پھر گاؤں فوراََخالی کر دیں … قیمتی ہلکی پھلکی چیزیں ساتھ لے لیں ، باقی چیزیں جوں کی توں رہنے دیں … گھروں کے دروازے اندر سے بند کر دیں اور کھڑکیوں وغیرہ کے ذریعے نکلیں… تاکہ وہ یہ خیال کریں کہ سب لوگ گھروں میں ہیں … اگر انہوں نے یہ خیال کر لیا تو ہم سب اپنی جانوں کو بچانے میں کامیا ب ہو جائیں گے … ورنہ کچھ نہیں کہا جاسکتا …کس فریق کا کتنا نقصان ہوگا … ویسے آپ لوگوں کے پاس کتنی رائفلیں ہوں گی … اور گاؤں کے کتنے لوگ رائفلیں چلانا جانتے ہیں ۔‘‘
’’ سو رائفلیں تو ضرور ہوں گی … اور اتنے ہی افراد چلانا بھی جانتے ہیں ۔‘‘سردار نے جواب دیا ۔
’’بس ٹھیک ہے …سو کی سو رائفلیں ساتھ لے لیں …جو لوگ ان کو چلانا جانتے ہیں… وہ ان کو تھام لیں … تاکہ ہم ہر لمحے ہر صورت حال کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’ تمہارا شکریہ نوجوان …تم نے بہت اچھی راے دی۔‘‘
’’ یہ وقت ان باتوں کا نہیں… بس سب لوگ نکل چلیں …ایسا نہ ہو کہ دشمن آجائے اور ہم اپنی باتیں ہی کرتے رہ جائیں ۔‘‘
سردار نے انہیں سرور غنی کی ہدایات پر فوری طور پر عمل کرنے کی ہدایت کر دی … اس طرح پورا گاؤں حرکت میں آگیا … البتہ وہ افراتفری کا شکار ہر گز نہیں ہوئے تھے …انہوں نے یہ کام بہت تیزی سے کیا ، لیکن …بہت پر سکون انداز میں کیا … جلد ہی پورا گاؤں خالی ہو چکا تھا… اب وہ بہت فاصلے پر دم سادھے بیٹھے تھے… جوں جوں وقت گزررہا تھا … گاؤں کے لوگوں کو یہی محسوس ہو رہا تھا کہ …کوئی خطرہ نہیں ہے … سرور غنی نے انہیں بلاوجہ پریشان کیا … پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خیال پختہ ہو گیا … اور وہ سرور غنی پر پیچ و تاب کھا رہے تھے… جلد ہی ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تو سردار سے یہ بھی کہتا سنائی دیا’’ سردار! آخر ہم کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے …‘‘
’’ٹھہرو! میں…‘‘سردار کے الفاظ درمیان میں رہ گئے … عین اس لمحے ایک فائر کی آواز گونجی تھی اور اس کے صرف چند سکینڈ بعد ایک بھاری بھر کم آواز گونجنے لگی: ’’گاؤں کے لوگوں ہم نے گاؤں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے … ہمارے پاس ہر طرح کا اسلحہ ہے ، بم بھی ہیں…ہم چاہیں تو چند منٹوں میں پورے گاؤں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیں… ہم نمونے کے طو ر پر ایک بم گاؤں سے باہر گر ارہے ہیں … تاکہ تم جان لو ہم غلط نہیں کہہ رہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی انہوں نے بم دھماکے کی آواز سنی …گاؤں سے کچھ ہی فاصلے پر گرد کا ایک پہاڑ سا نمو دار ہوا …اور پھر وہ پہاڑ واپس آتا نظر آیا …گاؤں کے سب لوگ کانپ کانپ گئے… اب وہ دل ہی دل میں سرور غنی کی ذہانت کی تعریف کر رہے تھے … اس کا احسان مان رہے تھے… ادھر اسی آواز نے کہا :’’گاؤں کے لوگوں تم نے دیکھ لیا …اب سنو …وہ دونوں ہیرے ہمیں دے دو…اور کسی بھی عدالتی کارروائی کا خیال دل سے نکال دو …ورنہ ہم اس گاؤں کو راکھ بنا دیں گے …تم سب جل جاؤ گے… احسن خود ہیرے لے کر ہماری طرف آئے گا … ہم صرف پندرہ منٹ دیتے ہیں… پندر ہ منٹ کے بعد فائرنگ اور بم دھماکے شروع ہو جائیں گے ۔‘‘
اس کے بعد موت کا سناٹا طاری ہو گیا… ادھر سردار نے اشاروں میں سرور غنی سے پوچھا: ’’اب کیا کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر جواب دیا : ’’ خامو ش رہنا ہے۔‘‘
پھر پندرہ منٹ گزر گئے …ادھر سے پہلے فائرنگ شروع ہوئی ، پھر بم دھماکے شروع ہو گئے … دیکھتے ہی دیکھتے پورا گاؤں ملبے کا ڈھیر بن گیا۔

*۔۔۔*

چند دن بعد اختر نذیر کو عدالت کی طرف سے حاضری کا نوٹس ملا تووہ اچھل پڑا ۔ وہ تو اپنی طرف سے سب کچھ ختم کر آیا تھا …اس نے فوراً اپنے وکیل کی طرف دوڑ لگا دی … پولیس آفیسر سے بھی رابطہ کیا …انہوں نے اسے تسلی دی اور کہا: ’’فکر کی کوئی بات نہیں …یہ نوٹس سرور غنی کی شرارت ہے…ورنہ گاؤں میں تو کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا …ہم نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تھا …وہاں زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے… سرور غنی غالباً وہاں سے پہلے ہی چلا آیا تھا …اب جب کہ اصل آدمی ہی نہیں رہ گیا تو سرور غنی کیا کرے گا… کہاں سے شہا دتیں پیش کرے گا …لہٰذا پہلی پیشی پر مقدمہ خارج۔‘‘ 
مقررہ تاریخ کو وہ اپنے آدمیوں ، وکیل اور پولیس آفیسر کے ساتھ عدالت میں موجود تھا اور سرور غنی، لیاقت بیگ کے ساتھ موجو د تھے…سرور غنی نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے کی پیروی وہ خود کریں گے ، کیو نکہ وہ ایک وکیل بھی ہیں ، انہوں نے اپنا وکالت نامہ عدالت میں پیش کیا تو عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔
سرور غنی نے شروع سے ساری تفصیل سنائی …عدالت میں موجود ہر شخص حد درجے حیرت اور دلچسپی کے ساتھ روداد سن رہا تھا … یہ ساری تفصیلات پہلی مرتبہ لوگوں کے علم میں آرہی تھیں۔آخر گاؤں کے تباہ کر دیے جانے تک کے واقعات سنانے کے بعد سرور غنی نے کہا:’’اس سے پہلے کہ میں اپنا ثبوت ان کے خلاف پیش کروں …میں مخالف وکیل کو موقع دیتا ہوں، وہ میرے اس بیان کے خلاف اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں۔‘‘
اختر نذیر کے وکیل نے اٹھ کر پہلے عدالت سے اجازت طلب کی اور اس کے بعد اس نے کہا : ’’میرے محترم وکیل سرور غنی صاحب نے اس پورے قصے میں بہت غلط بیانیاں کی ہیں ، میرے موکل اختر نذیر نے ان کی خدمات ایک چور احسن میاں کی تلاش کرنے کے سلسلے میں حاصل کی تھیں، کیونکہ میرے موکل ایک پرائیویٹ جاسوس بھی ہیں… انہوں نے اس کیس پر کام کرنے کی فیس دس لاکھ روپے وصول کی… ان کا کام چور کو تلاش کرنا تھا …کیونکہ چور احسن میاں نے اختر نذیر صاحب کی کوٹھی سے دو عدد انتہائی قیمتی ہیرے چراے تھے…ان کی قیمت کروڑوں سے بھی کہیں زیاد ہ ہے… یہ چور جب کوٹھی میں داخل ہوا تھا تو وہاں نصب کیمروں نے اس کی فلم بنائی تھی …وہ فلم ہم عدالت میں پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں ، تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے اور معلوم ہو جائے کہ میرے محترم وکیل ایک چور کو بچانے کے لیے کیوں سر توڑ کوشش کر رہے ہیں… شاید احسن میاں نے ان خدمات کے بدلے میں چوری کا ایک ہیرا دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔‘‘ 
اس پر عدالت میں سب لوگ ہنس پڑے… پھر وہ فلم دکھائی گئی… سب نے احسن کو اندر داخل ہوتے … اور ہیرے چراتے صاف دیکھا …اب مخالف وکیل نے عدالت سے مطالبہ کیاکہ وہ سرور غنی سے کہیں… چور کو عدالت میں پیش کریں تاکہ سب لوگ اس چھپے رستم کو دیکھ لیں … جسے وکیل صاحب بے گناہ ثابت کرنے کے لیے ایڑ ی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔‘‘
’’ احسن میاں کو پیش کیا جائے ۔‘‘ عدالت نے حکم دیا ۔
سرور غنی نے لیاقت بیگ کو اشارہ کیا …وہ ایک کونے میں دبک کر بیٹھے احسن میاں کو جج صاحب کے سامنے لے آیا :
’’ دیکھیے جج صاحب… یہ ہے وہ چور…ابھی آپ نے جس کی چوری کرتے ہوئے فلم دیکھی ہے۔‘‘
’’ اوہو …یہ…یہ تو واقعی وہی ہے ۔‘‘ جج صاحب چلا اٹھے۔
’’یہی تو اصل حقیقت ہے… اس قدر مکمل ثبوت کے ہوتے ہوئے میرے محترم وکیل ایک مجرم کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں… انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔‘‘
جج صاحب نے سرور غنی کی طرف دیکھا … اور گویا ہوئے: ’’وکیل صاحب! یہ کیس تو بالکل آپ کے موکل کے خلاف جا رہا ہے …آپ کس برتے پر یہ معاملہ عدالت میں لائے ہیں۔‘‘
’’ جنابِ والا …ایک ثبوت پیش کیا ہے…میرے مخالف وکیل نے …اب مجھے اجازت دی جائے … تاکہ میں اپنا ثبوت پیش کر سکوں ۔‘‘
’’ اجازت ہے ۔‘‘
’’ شکریہ جناب والا …اس فلم کو پھر سے چلایا جائے …چور کا چہرہ سکرین پر بالکل سامنے لایا جائے ۔‘‘
’’اس سے کیا ہوگا ۔‘‘ مخالف وکیل نے جھلا کر کہا ۔
’’اس سے یہ ہوگا کہ میں اپنا ثبوت پیش کر سکوں گا ۔‘‘ سرور غنی مسکرائے۔
آخر عدالت کی اجازت سے فلم پھر چلائی گئی اور جب چور کا چہرہ بالکل صاف سامنے آیا… تصویر کو سکرین پر وہیں روک دیا گیا ۔ اس وقت سرور غنی اٹھے اور سکرین کے نزدیک چلے آئے… ان کی آواز عدالت میں گونجی: ’’جناب والا …اس تصویر کو غور سے دیکھیے … میرا دعویٰ ہے کہ یہ تصویر احسن میاں کی نہیں ہے… بلکہ احسن کے میک اپ میں اختر نذیر کے کسی ساتھی کی ہے۔‘‘
’’آپ اپنے دعوے کی کوئی دلیل بھی تو پیش کریں ۔‘‘ مخالف وکیل نے طنزیہ انداز میں کہا ۔
’’ جی ضرور کیوں نہیں۔‘‘ سرور غنی یہ کہتے ہوئے مسکرائے… انہوں نے ایک نظر جج صاحب پر ، پھر حاضرین پر ڈالی… ہر کوئی سکتے کی حالت میں تھا… کہ دیکھیں سرور غنی کی طرف سے کیا ثبوت پیش کیا جاتا ہے …آخر اس کی آواز گونجنے لگی: ’’جناب والا ! اس نوجوان کے دائیں گال پر چاند کے نشان کو دیکھیے اور ادھر میرے موکل کے دائیں گال پر موجود چاند کے نشان کو دیکھیے…‘‘
سب باری باری چاند کو دیکھنے لگے …کبھی سکرین والے نوجوان کے نشان کو دیکھتے تو کبھی احسن میاں کے نشان کو …جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو جج صاحب نے کہا : ’’آپ ہمیں کیا دکھانا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’جناب والا…چاند کا رخ ،یعنی چاند کے دونوں سرے احسن میاں کی ناک کی طرف ہیں… جب کہ سکرین و الے نوجوان کے گال پر جو چاند ہے …اس کا رخ ناک کی طرف نہیں کان کی طرف ہے ۔‘‘
’’کیا!‘‘ سب لوگ برُی طرح چلا اٹھے… خود جج صاحب بھی چلاے بغیر… بلکہ اپنی کرسی سے قدرے اٹھے بغیر نہ رہ سکے … اب سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے دونوں نشانوں کو دیکھ رہے تھے… عین اس لمحے اختر نذیر عدالت سے بھاگ نکلا … لیکن اس کے استقبال کے لیے لیاقت بیگ پہلے ہی تیار تھا … اس نے فوراً جھک کر اس کی دونوں ٹانگیں پکڑ لیں… وہ دھڑام سے گرااور ساتھ ہی پولیس نے اسے چھاپ لیا : ’’اُف مالک! یہ ہے ہمارے شہر کا مشہور ومعروف دولت مند اختر نذیر ۔‘‘جج صاحب چلا اٹھے۔
’’جناب والا …اس کی اصل حقیقت تو دراصل یہ ہے کہ یہ چوروں کے ایک بہت بڑے گروہ کا سردار ہے … پولیس جب اس کی کوٹھی کی تلاشی لے گی تو بہت کچھ باتیں سامنے آئیں گی…فی الحال میں یہ عرض کیے دیتا ہوں… دونوں ہیرے دراصل احسن میاں کی والدہ کے ہیں…جو ان کے خاندان میں نسل درنسل چلے آرہے ہیں… اپنے آباؤ اجداد کی نشانی ہونے کے ناطے یہ سارے لوگ انہیں فروخت نہیں کرتے … جب اس گھرانے نے دیکھا کہ ایک ظالم گروہ ان کے ہیروں کے چکر میں پڑ گیا ہے … تو یہ اپنا گاؤں چھوڑ کر چپ چپاتے سجاول گاؤں چلے گئے ۔ سجاول گاؤں کے سردار کے بیٹے سے احسن میاں کی بہن کی شادی ہو گئی تھی …اور اس طرح وہ پورے گاؤں کی بہو ہے …اسی رشتے کی نسبت سے پورا گاؤں احسن اور اس کی والدہ کے لیے جان کی بازی تک لگانے کے لیے تیار تھا… انہوں نے کہہ دیا تھا … ادھر کوئی آیا تو ہم اس سے نبٹ لیں گے… اور جب اختر نذیر احسن اور اس کی والدہ کا سراغ نہ لگا سکا تو اس نے میری خدمات حاصل کیں… اور یہ اچھا ہی ہوگیا… ورنہ یہ شخص ہیرے حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا …اب رہا یہ سوال …اسے کیسے پتا چل گیا … کہ اس گھرانے کے پاس دو انتہائی قیمتی ہیرے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے گروہ یہ معلومات بھی حاصل کرتے پھرتے ہیں کہ کون سے خاندانی لوگ کتنی دولت کے مالک ہیں…معلومات حاصل کی جائیں تو اس شخص کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے ، جس نے اختر نذیر کے کسی ساتھی کے چہرے پر احسن میاں کا میک اپ کیا تھا… اور اسی کی غلطی سے آج ہم اصل حقیقت جاننے کے قابل ہوئے ہیں… ورنہ اس نے تو احسن کو چور ثابت کر دیا تھا …اﷲ اپنا رحم فرماے…بس جناب والا … مجھے یہی کچھ کہنا تھا ۔‘‘
’’بہت خوب مسٹر سرور غنی … آپ نے کمال کر دیا … آپ بہت اچھے رہے… آپ جیسے لوگوں کی اس ملک کو بہت ضرورت ہے…عدالت محکمہ پولیس کو حکم دیتی ہے کہ وہ اختر نذیر کے اور اس کے گروہ کے بارے میں پوری طرح چھان بین کرے… اور تمام حقائق پوری قوم کے سامنے لائے ،اسی کے ساتھ عدالت بر خاست کی جاتی ہے ۔‘‘
جج صاحب کے اٹھتے ہی سب لوگ عدالت کے کمرے سے باہر نکلنے لگے… اور جب سرور غنی ، لیاقت بیگ اور احسن میاں ، اس کی والدہ اور گاؤں کے سردار باہر نکلے تو گاؤں سے آئے ہوئے تمام لوگوں نے سرور غنی کو گھیر لیا … وہ اس سے لپٹنے لگے …ہر کسی کی آنکھوں میں آنسو تھے… اس وقت سرور غنی نے احسن میاں سے کہا :’’احسن میاں ! ایک بات میں آپ سے اور آپ کی والدہ سے کہنا چاہوں گا ۔‘‘
’’ ضرورانکل …‘‘ احسن میاں نے فوراً کہا۔
دونوں ہیرے آپ لوگوں کے لیے ہمیشہ دردِ سر بنے رہیں گے … یوں بھی آپ کی بہن کا گاؤں تباہ ہوگیا ہے …آپ ان دونوں ہیروں کو فروخت کر دیں… ایک تو گاؤں کے گھر بن جائیں گے … دوسرے ان سے کوئی بڑا کام لیا جائے گا …آپ کوئی ہسپتال بنوا لیں… یا اس قسم کے اور کئی کام کرائے جا سکتے ہیں ۔‘‘
’’میں نے اپنی والدہ سے یہ بات کئی بار کی …لیکن یہ نہیں مانیں…آپ انہی سے بات کر لیں۔‘‘
’’بات کرنے کی ضرورت نہیں…اب ان ہیروں سے یہی کام لیا جائے گا … اور ہم اس ہسپتال کا یا فلاحی ادارے کا نام،پتا ہے کیا رکھیں گے ۔‘‘ ان کی والدہ نے فوراً کہا۔
’’ کیا رکھیں گے ۔‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’چاند کا نشان۔‘‘
یہ نام سنتے ہی ان سب کے چہروں پر خوشی پھیل گئی… ایسے میں احسن کی والدہ نے کہا : ’’اور اس ادارے کا افتتاح ہم کرائیں گے … اپنے محسن سرورغنی صاحب سے…‘‘
’’ ارے!!!‘‘ ان کے منھ سے نکلا اور پھر چہروں پر پھیلی مسکراہٹیں اور گہری ہو گئیں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top