skip to Main Content

پیلی پتی مراد آبادی

اطہرشاہ خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں میاں نہیں، مجھے ان نالائقوں کے ساتھ بہت دماغ سوزی کرنا پڑے گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ مصیبت بتا کرنہیں آتی چنانچہ یہ جوہمارے قبلہ ماسٹر صاحب ہیں یہ بھی بتائے بغیر ہم پرنازل ہوگئے ہیں ۔اس آفت کابنیادی سبب والد صاحب کایہ خیال اور خوش فہمی ہے کہ شاید ٹیوٹر بدل دینے سے ہمارا ذہن بھی بدل جائے گا۔ 

جہاں تک ذہن کاتعلق ہے ہم اور ہمارے دونوں چھوٹے بھائی شامی اور پپو نہایت ذہین ہیں کیوں کہ آپ نے آج تک کسی بے وقوف بچے کوشرارت کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔ جب کہ ہماری شرارتوں کی حدود محلے کے دائرے سے نکل کر اتنی آگے تک جاچکی ہیں کہ دور دور کے لٹھ بردار ہماری ذہانت کاذکر کرنے کے لیے والد صاحب کے پاس تشریف لاتے رہتے ہیں۔

ہاں اگرگزشتہ ٹیوٹر صاحبان ہمیں کند ذہن کاخطاب دے کرچلے گئے ہیں تواس غلط فہمی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم تینوں پڑھائی میں ذراکاہل ہیں لیکن محترم والد صاحب ہمارے لیے کاہل جیسا غلط لفظ کبھی استعمال نہیں کرتے وہ ہمیں پیار سے جاہل کہتے ہیں ۔

اب تک توشاید قسمت مہربان تھی کہ جتنے ماسٹر صاحبان ہمیں ٹیوشن پڑھانے کے لیے آئے وہ دوچار ہفتوں میں ہی ہم سے کچھ اس قدر متاثر ہوئے کہ پھرکبھی ٹیوشن فیس وصول کرنے کے لیے بھی نہ پلٹے لیکن اب۔۔۔ شاید تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہرائے گی۔ بلکہ ہمارا جغرافیہ ہی بدل جائے گا کیونکہ یہ نئے ماسٹر صاحب اپنی عمر کے آخری سانس تک جاتے نظرنہیں آتے۔ 

ہمیں نہیں معلوم کہ ’’چغتائی‘‘ ان کانام ہے یا تخلص؟ لیکن اتنایقین ضرور ہے کہ ان کے جد امجد چنگیز خان جب ٹائیفائیڈ کی بیماری ہوجانے کے بعد بہت دُبلے ہو کر مرے توبالکل ہمارے چغتائی صاحب جیسے نظر آتے ہوں گے۔ اگرذرا سافرق تھا تو وہ بھی صرف اتنا کہ چنگیز خاں شیروانی پہن کرنہیں مرے تھے۔ ہمارے نئے ماسٹر صاحب صرف شکل وصورت ہی میں چنگیز خاں سے نہیں ملتے بلکہ شاگردوں سے جنگ وجدل اور ہاتھاپائی میں بھی اسی تاریخی دہشت کے امین ہیں۔

ہمیں جویہ خدشہ ہے کہ ماسٹر صاحب ہمارے ہی گھر کے کسی کمرے، برآمدے یاغسل خانے میں آخری ہچکی لیں گے۔ تواس کی بنیادی وجوہ یہ ہیں کہ وہ ملازمت سے ریٹائر یا برخاست ہوچکے ہیں۔ والد صاحب کے ایک بہت ہی پیارے (مرحوم) دوست کے پھوپھا ہیں اور اب دنیامیں کوئی بھی بدنصیب رشتے دار نہ ہونے کی وجہ سے بالکل تنہا ہیں۔ لہٰذا ہمارے ہی گھر میں مستقل قیام وطعام فرمائیں گے۔

وہ پچھلے مہینے کی کوئی منحوس تاریخ تھی جب ہمارا ان سے تعارف ہوا۔ ہم تینوں کرکٹ کھیل کر گھر میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ملازم شرفو ہاتھ میں چاے کی پیالی لیے تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف جاتا نظر آیا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ایک انتقامی مسکراہٹ اُبھری۔۔۔ 

’’جلدی آئیے، آپ تینوں کاڈرائنگ روم میں انتظار ہورہا ہے۔‘‘ ہم لرز کررہ گئے۔ ’’یااﷲ خیر‘‘دل نے سرگوشی میں کہا۔ خطرہ ۴۴۰ وولٹ۔۔۔ 

بہرحال ہم دل کو سنبھالتے اور دونوں چھوٹے بھائیوں کوحوصلہ دلاتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے اور ٹھٹھک کررک گئے۔ شرفو وسطی میز پر چاے کی پیالی رکھ رہا تھا۔ والد صاحب ایک صوفے پربیٹھے ہوئے تھے اور دوسرے صوفے پرایک ایسی چیز رکھی ہوئی تھی جس کے بارے میں ہماری چھٹی حِس نے فوراًسے بتادیا کہ وہ ٹیوٹر ہے اور یہی ہو ابھی ۔۔۔والد صاحب ذراکھنکھار کربولے :’’آؤ بچو! یہ ہیں تمھارے نئے ٹیوٹر۔‘‘

یہ کہتے ہی وہ اُٹھ کر تیزی سے چلے گئے تاکہ ہم ان کی موجودگی سے اپنے نحیف ذہن کوتقویت نہ دے سکیں۔ شامی اور پپودبک گئے اورماسٹرصاحب ہمیں اتنی گہری نظرسے دیکھ رہے تھے جیسے دنیا کاآٹھواں عجوبہ قرار دینے کے بارے میں غور کررہے ہوں۔

’’السلام علیکم۔‘‘ ہم نے خیرسگالی کاآغاز کرنے کی کوشش کی۔

’’وعلیکم السلام۔‘‘ ہمیں گھورتے ہوئے وہ مسکراے اور ہمیں ان کی آنکھوں میں وہی چمک نظرآئی جوبکرے کوذبح کرنے سے پہلے قسائی کی آنکھوں میں نظرآتی ہے۔ پھراچانک ان کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ چہرے پر عجیب تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ آنکھیں پھیل گئیں۔ منھ پور اکھل گیا۔ ناک پھڑپھڑانے لگی اور اس کھلے منھ سے ایک حیرت انگیز آواز برآمد آئی ادھر۔۔۔آخ۔۔۔آئیے

۔۔۔آخ۔۔۔صاحب 

۔۔۔آخ زادے ۔۔۔

آخ چھیں۔۔۔غالباً وہ کہناچاہ رہے تھے کہ ادھر آئیے،صاحب زادے ۔۔۔بولنے اور چھینکنے کے اس کامیاب تجربے کے نتیجے میں ان کے پان کی پیک سے سفید میز پوش پرجزائر غرب الہند بن گئے۔ جنھیں اُنھوں نے فوراً اخبار سے ڈھانپ دیا کیونکہ شرفو ہماری طرف متوجہ تھا، اخلاقیات کاتقاضہ یہ تھا کہ مہمان کی چھینک کے جواب میں ہم بھی ایک ہلکی سے چھینک عرض کریں مگرصرف کھانس کررہ گئے ۔

’’کیاخیال ہے ؟‘‘ و ہ بولے ۔’’میں ذرا آپ کاامتحان لے لوں؟‘‘

امتحان کالفظ توویسے بھی کمزور دل بچوں کے لیے سنسنی خیز ہوتاہے مگر اُنھوں نے اپنے لہجے میں ڈریکولا جیسی خوفناکیت پیداکرتے ہوئے کچھ یوں کہا تھا جیسے پوچھ رہے ہوں۔ اگرزحمت نہ ہوتوآپ کے جسم سے آٹھ دس گیلن خون لے لوں۔اب پتا نہیں کہ ہم نے اقرار میں سرہلایاتھا،یا ہماری گردن سر کاوہ بوجھ اٹھانے کے ناقابل ہوگئی تھی۔ چنانچہ وہ بولے،’’یہ توبتائیے اسٹالین کہاں واقع ہے؟‘‘

ہمارا سارا خوف ایک لمحے میں دور ہوگیا۔۔۔ ’’جی۔۔۔اسٹالین؟‘‘ہم نے زندگی میں پہلی بار کسی سوال کاصحیح جواب دیا۔ 

’’اسٹالین توشاید روس کے وزیراعظم ہوئے تھے ۔‘‘

ایک بے ہنگم قہقہے سے سارا کمرہ لرز اُٹھا۔ پھر وہ شرفو کومخاطب کرکے بولے: ’’شرفو میاں دیکھی تم نے صاحب زادے کی قابلیت؟ میں تویہ پوچھتاہوں کہ اب تک تمھارے صاحب نے اِنھیں کس اُستاد سے پڑھوایاتھا۔ جواِنھیں یہ تک نہیں بتاسکاکہ اسٹالین روس کا دارالحکومت ہے۔‘‘

’’بچہ ہے جناب۔‘‘ شرفو ملامت آمیز نظروں سے ہماری طرف دیکھ کر اُن سے بولا۔’’آپ پڑھائیں گے تودنیا کے ہرشہر کانام زبانی یاد ہوجائے گا۔‘‘

ماسٹر صاحب طنزیہ لہجے میں بولے: ’’شکر ہے میں نے ان سے یہ نہیں پوچھ لیا کہ ماسکو کس سن میں پیدا ہوا تھا۔‘‘

اب تو شرفو بھی تحقیر آمیز انداز میں زور سے ہنسا مگر ماسٹر صاحب کے چہرے پرمایوسی کی گہری چھائیاں دیکھ کر فوراً ہی چپ ہوگیا۔ وہ بے حدرقت آمیزلہجے میں کہنے لگے ۔ نہیں میاں نہیں،مجھے ان نالائقوں کے ساتھ بہت دماغ سوزی کرناپڑے گی۔

اس دن سے لے کرآج تک ماسٹر صاحب اتنی دماغ سوزی کرچکے ہیں کہ دماغ تودونوں جانب کا ختم ہوچکا اب صرف سوز ہی سوز باقی رہ گیاہے۔

یہ یقین آجانے کے بعد کہ اب ماسٹر صاحب ہمیشہ کے لیے ہم پرمسلط ہوچکے ہیں، ایک دن ہمارے دل نے ہمیں ایک نہایت نامعقول مشورہ دیا جسے ہمارے نامعقول بھائیوں نے بہت پسند کیا، شام کو ہمارادل چاہ رہاتھا کہ کیرم کھیلیں جب کہ وقت تھا ٹیوشن پڑھنے کا، ہم ماسٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دست بستہ گزارش کی۔ ’’ماسٹر صاحب، پان کھائیں گے؟ ‘‘

وہ بھلا یہ پیشکش کیسے مسترد کردیتے خوش ہوکر بولے: ’’ہاں لے آؤ، ذرا سا تمباکو ذرا سا خوشبو، چونابھی زیادہ نہ ہو۔‘‘

ہم فوراً اندر گئے اور دادی جان سے ماسٹر جی کیلئے پان بنانے کا کہا پھر نظربچاکر ان کے پان دان کے نچلے حصے میں سے نیند کی دو گولیاں نکالیں۔ دادی جان کو رات گئے تک نیند نہ آنے کی شکایت تھی۔اس لیے وہ نیند کی یہ چھوٹی چھوٹی گولیاں اپنے پان دان میں محفوظ ذخیرے کے طور پر رکھتی تھیں۔ ڈرائنگ روم کی طرف جاتے ہوئے ہم نے ایک ایک گولی دونوں پانوں میں ڈال دی۔ ایک پان نوش جان کرنے کے ذرا دیر بعد ماسٹر صاحب نے فرمایا:’’اطہر میاں! یہ کیسا پان ہے؟‘‘

ہم نے عرض کیا کہ پاکستانی پان ہے۔ یہ کہتے ہوئے ہم نے تھالی سے دوسرا پان اُٹھایا اور یوں اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگے جیسے اس پر کہیں مہرلگی ہو۔۔۔ میڈ ان پاکستان ’’ذائقہ قدرے مختلف ہے۔‘‘ ماسٹرصاحب ایک جھونکا سا لیتے ہوئے بولے۔

’’ہونا بھی چاہیے، ہم نے کہا خوشبو فرانس کی ہے اور پیلی پتی مرادآبادی لندن کی،ہماری دادی جان پان کا تمباکو ہمیشہ لندن سے منگواتی ہیں۔‘‘

ماسٹر صاحب خوش ہوکر جگالی کرنے لگے ذرادیر بعد نیند کاایک جھٹکا سا لیا، خمار آلود آنکھیں کھول کر بولے، ’’شاید میں کچھ پڑھارہا تھا۔‘‘

’’جی ہاں حساب۔‘‘ شامی نے لقمہ دیا۔

’’ہاں‘‘ ماسٹر صاحب جھوم کربولے۔’’ذرا یہ بتاؤ کہ اگرتین آدمی ایک کھیت کی فصل کو چار دن میں کاٹ سکتے ہیں تو۔۔۔تین کھیت ایک آدمی کو ۔۔۔جی لاحول ولاقوۃ۔۔۔چار دن آدمی تین کو۔۔۔ اوں ہونہہ ۔۔۔ ایک فصل چار کھیت کو۔۔۔ نہیں بھئی۔۔۔ تین کھیت چار دن کو۔۔۔‘‘ پھروہ اپنے ماتھے پرہاتھ مار کر بولے۔ ’’بھئی اطہرمیاں ایسالگ رہاہے جیسے کمرہ گھوم رہا ہو۔ زبان وغیرہ بھی بہک رہی ہے ۔۔۔ پان میں تمباکو شاید کچھ زیادہ تیز ہو گیاہے؟‘‘

’’ جی ہاں۔‘‘ شامی نے تائید کی، ’’جبھی توانگریز اس تمباکو والے پان پرجان دیتے ہیں۔‘‘ ماسٹر صاحب نے پورا منھ کھول کر ایک طویل جماہی لی اور دونوں ہاتھ لہراکر آدھی انگڑائی لی اور نیند سے بوجھل لہجے میں بولے ،’’ہاں تو۔۔۔میں ۔۔۔کیاپڑھا رہاتھا۔۔۔؟‘‘

’’اگرتین آدمی ایک کھیت کی فصل کوچار دن میں کاٹ سکتے ہیں تو۔۔۔؟‘‘ ہم نے سوالیہ انداز میں کہا۔

’’ بس بس ۔۔۔ٹھ۔۔۔ی ی ی ک۔۔۔ہے۔‘‘ ماسٹر صاحب صوفے پرنیم دراز ہوکربولے ۔۔۔’’اگرچار کھیت ۔۔۔ایک آدمی کی فصل کو۔۔۔تین دن میں ۔۔۔کاٹ سکتے ہیں تو ایک خر۔۔۔‘‘

’’ایک خرگوش؟‘‘ہم نے لفظ پورا کرنے کی کوشش کی مگرماسٹر صاحب گہری نیند سوچکے تھے اور زور وشور سے خراٹے لے رہے تھے ۔

اس دن کی بعدسے ماسٹر صاحب کوہمارا یہ پان اس قدر پسند آیا کہ جب وہ پڑھانے بیٹھتے توپان کی فرمائش ضرور کرتے اور ہم تودل وجان سے بھی یہی چاہتے تھے کہ نیند کی گولی والا پان کھاکر ماسٹر صاحب سوجائیں اب اگرایک پان کھلاکر ہمیں تین چار گھنٹے کے لیے فرصت ہوجاتی تھی توآپ ہی بتائیے اس میں ہمارا کیا نقصان تھا؟

ایک دن شامی نے ہنستے ہوئے ہمیں بتایا کہ تین دن بعد ماسٹر صاحب کی سالگرہ ہونے والی ہے۔ پپو نے اس کی گواہی دی اور شام کو جب ماسٹر صاحب پڑھانے بیٹھے تولند ن کی پیلی پتی مراد آبادی والاپان کھانے سے پہلے اُنھوں نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ ہم نے والدین سے گزارش کی کہ چونکہ اس گھر میں کوئی بڑی تقریب مدت سے نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ اس سالگرہ کواپنے خرچ پرزور وشور سے منائیں۔ ہماری اس فرمائش کو شرف قبولیت بخشاگیا اور دھوم دھام سے تیاریاں شروع کردی گئیں۔ پورے گھر کو دُلھن کی طرح سجایا گیا۔ 

سالگرہ والے دن توعجیب ہنگامہ تھا۔ چار بجے ہی سے مہمان آنا شروع ہوگئے تھے ۔لان میں ایک بڑے شامیانے کااہتمام کیا گیا تھا۔ اسٹیج بھی تھا۔ شامیانے کے نیچے کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ اگلے حصے میں دری پران مہمانوں کوبٹھایاگیا جو تحفہ نہیں لائے تھے۔۔۔ چنانچہ بیشتر کرسیاں خالی تھیں۔شام کو شامیانہ رنگ برنگی روشیوں سے جگمگارہا تھا۔ ماسٹر صاحب کے ہاتھوں کیک ذبح ہونے کے بعد چاے اور کھانے پینے کاآغاز ہوا۔ ماسٹر صاحب نے آدھا کیک اور پورے چھ سموسے کھانے کے بعد ہم سے پان لانے کو کہا اور تاکید کردی کہ لندن کی پیلی مراد آبادی تمباکو بالکل نہ ڈالی جائے لیکن ہماری شامت ہمیں کافی دنوں سے آواز دے رہی تھی اس لیے ہم اس تاکید پر عمل نہ کرسکے اور ماسٹر صاحب کے علاوہ کئی دوسرے پانوں میں بھی نیند کی گولی ڈال دی۔ جب ہم پانوں کی بڑی تھالی لے کر آئے توچاے کا دور ختم ہوچکا تھا۔ ماسٹر صاحب نے اکٹھے دوپان منھ میں رکھے، ان قوالوں کو بھی پان پیش کیے جن کی قوالی ماسٹر صاحب کے خیر مقدمی کلمات کے بعد شروع ہونی تھی۔ کچھ دیر بعد ماسٹر صاحب اسٹیج پرپہنچے ،مائکروفون میں دوچھینکیں ماریں اور بڑی دیر تک تقریر یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے جو اُنھوں نے تین دن تک غسل خانے میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر رٹی تھی مگرتقریر یاد نہ آسکی کیوں کہ ذہن نیند سے بوجھل ہوچکاتھا مجبوراً اُنھوں نے فی البدیہہ تقریر فرمائی۔

’’جناب صدر اور معزز حاضرین! آج میری تقریر کا۔۔۔ عنوان ہے دوسری جنگ عظیم اورخربوزے کے فوائد۔۔۔ اُف یہ عنوا ن کیسے ہوگیا۔۔۔معاف کیجیے گا۔۔۔ سرذرا چکرا رہاہے۔۔۔تومعزز حاضرین میری تقریر کاعنوان ہے ۔۔۔پاکستان کی زرعی ترقی اور چچک کاعلاج۔۔۔ایں ۔۔۔و فوہ بھئی ۔۔۔ یہ چچک والی تقریر درمیان میں کہاں سے آگئی۔۔۔مجھے تو۔۔۔ مجھے تو ۔۔۔مجھے تو۔۔۔صرف شکریہ اداکرناہے ۔۔۔ تومعزز خواتین اور حیاتین ۔۔۔آپ سب کی آمد پر میں بڑے خلوص سے کہناچاہتے ہوں کہ ۔۔۔لاحول ولا قوۃ۔۔۔اماں اطہر میاں یہ آپ نے لندن کی پیلی پتی مراد آبادی پھر ڈلوادی پان میں؟ دماغ گھومے چلا جارہا ہے۔۔۔زبان لڑکھڑا رہی ہے ۔۔۔جی تومعزز حضرات ومستورات میں آپ سب کی آمد پر ۔۔۔خوشی سے جھوم رہاہوں۔۔۔کیونکہ ۔۔۔یہ مائیک بھی جھوم رہاہے ۔۔۔شامیانہ بھی جھوم رہاہے ۔۔۔اور ۔۔۔اور ۔۔۔آپ سب بھی ۔۔۔گھوم رہے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ماسٹر صاحب مائیکرو فون سمیت دھڑام سے گرے ااوراسٹیج سے نیچے لڑھک گئے انھیں دری پرلٹادیا گیا کیونکہ وہ سوچکے تھے۔

ذرادیر بعد قوالی کاپروگرام شروع ہوا۔ بڑے خاں صاحب نے جوقوال ساتھیوں کے چیف تھے اور استاد جی کہلاتے تھے ۔ایک ہاتھ کان پر اور دوسرا ہارمونیم پررکھ کرکچھ ایسی تان لگائی جونیند کی گولی والا پان کھا کربھی لگائی جاسکتی ہے۔ نیند کی شدید غنودگی میں ان کی آواز اور ہارمونیم کے سروں میں وہی گہراتعلق تھاجوشیراور بکری میں ہوسکتاہے ۔ایک افسوسناک جماہی لے کر اُنھو ں نے علامہ اقبال کے کلام سے اپنی قوالی کاآغاز اس لیے کیا کہ ان پرمقدمہ کرنے کے لیے علامہ زندہ نہیں تھے۔

ترے شیشے میں مئے ماقی نہیں ہے 

بتا کیا تو مراساقی نہیں ہے 

ساتھی قوالوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ،ارے ساقی نہیں ہے ۔۔۔ہاں ارے ساقی نہیں ہے۔۔۔ ہاے ارے ساقی نہیں ہے۔۔۔اُف ارے ساقی۔۔۔ ساقی ۔۔۔ ساقی نہیں ہے ۔

لیکن جب وہ خاموش ہوئے توان کے ساقی صاحب انٹا غفیل ہوچکے تھے۔ برابر والے اسسٹنٹ ساقی نے استاد جی کوکہنی ماری ۔۔۔لیکن استاد جی توکسی اور ہی دنیا میں گھر تھے۔ طبلے والے نے استاد جی کو جھنجھوڑا، اُستاد جی نے ایک پان زدہ جماہی لے کر اپنی بوجھل آنکھیں کھولیں۔ کان پرہاتھ رکھا اور پھرقوالی شروع کی۔

ترے ۔۔۔شی۔۔۔شے میں۔۔۔مئے باقی ۔۔۔نہیں ہے ۔۔۔باقی ۔۔۔نہیں ں ں ں ں ۔۔۔ ہے لے لے لے لے لے۔۔۔ان کی آواز اس طرح غائب ہوتی چلی گئی جیسے ٹیپ اُلجھ گئی ہو ۔۔۔طبلے والے نے اُنھیں پھر جھنجھوڑا ۔۔۔نظر بچا کر ایک گھونسا بھی رسید کردیالیکن استاد جی ٹس سے مس نہ ہوئے اوراس کے کندھے پرسرلٹکا کر سوگئے ۔

خر ،خر ،خر ،خر خائیں، استاد جی کاخراٹابلندہوا۔

خر خر خر!سارنگی والے نے لندن کی پیلی پتی مراد آبادی خراٹاعرض کیا۔خرخائیں۔۔۔خڑاپ! شامیانے کے کونے والی کرسی سے ایک مہمان نے جوابی خراٹا پیش کیا۔ درری پرلیٹے ہوئے ماسٹر صاحب نے ایک خوفناک خراٹے سے باقی سب کوڈرانے کی کوشش کی ۔۔۔ اب تو باقاعدہ غیر طرحی خراٹامشاعرہ شروع ہوگیا۔ پان کھانے والے مہمان بھیانک خراٹے لے رہے تھے اورپان نہ کھانے والے مہمان محفل سے کھسک رہے تھے تاکہ ان پر بھی اس غیبی آفت کا اَثر نہ ہوجائے۔

ہم کچھ دیر تک خراٹوں کی موسیقی سے لُطف اندوز ہوتے رہے۔ پھراپنے کمرے میں جاکر بستر پرلیٹ گئے لیکن شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دوسرے دن ہونے والی پٹائی کی وجہ سے پندرہ دن تک بستر سے نہیں اُٹھ سکے تھے۔

*۔۔۔*

بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ مصیبت بتا کرنہیں آتی چنانچہ یہ جوہمارے قبلہ ماسٹر صاحب ہیں یہ بھی بتائے بغیر ہم پرنازل ہوگئے ہیں ۔اس آفت کابنیادی سبب والد صاحب کایہ خیال اور خوش فہمی ہے کہ شاید ٹیوٹر بدل دینے سے ہمارا ذہن بھی بدل جائے گا۔  جہاں تک ذہن کاتعلق ہے ہم اور ہمارے دونوں چھوٹے بھائی شامی اور پپو نہایت ذہین ہیں کیوں کہ آپ نے آج تک کسی بے وقوف بچے کوشرارت کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔ جب کہ ہماری شرارتوں کی حدود محلے کے دائرے سے نکل کر اتنی آگے تک جاچکی ہیں کہ دور دور کے لٹھ بردار ہماری ذہانت کاذکر کرنے کے لیے والد صاحب کے پاس تشریف لاتے رہتے ہیں۔ ہاں اگرگزشتہ ٹیوٹر صاحبان ہمیں کند ذہن کاخطاب دے کرچلے گئے ہیں تواس غلط فہمی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم تینوں پڑھائی میں ذراکاہل ہیں لیکن محترم والد صاحب ہمارے لیے کاہل جیسا غلط لفظ کبھی استعمال نہیں کرتے وہ ہمیں پیار سے جاہل کہتے ہیں ۔ اب تک توشاید قسمت مہربان تھی کہ جتنے ماسٹر صاحبان ہمیں ٹیوشن پڑھانے کے لیے آئے وہ دوچار ہفتوں میں ہی ہم سے کچھ اس قدر متاثر ہوئے کہ پھرکبھی ٹیوشن فیس وصول کرنے کے لیے بھی نہ پلٹے لیکن اب۔۔۔ شاید تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہرائے گی۔ بلکہ ہمارا جغرافیہ ہی بدل جائے گا کیونکہ یہ نئے ماسٹر صاحب اپنی عمر کے آخری سانس تک جاتے نظرنہیں آتے۔  ہمیں نہیں معلوم کہ ’’چغتائی‘‘ ان کانام ہے یا تخلص؟ لیکن اتنایقین ضرور ہے کہ ان کے جد امجد چنگیز خان جب ٹائیفائیڈ کی بیماری ہوجانے کے بعد بہت دُبلے ہو کر مرے توبالکل ہمارے چغتائی صاحب جیسے نظر آتے ہوں گے۔ اگرذرا سافرق تھا تو وہ بھی صرف اتنا کہ چنگیز خاں شیروانی پہن کرنہیں مرے تھے۔ ہمارے نئے ماسٹر صاحب صرف شکل وصورت ہی میں چنگیز خاں سے نہیں ملتے بلکہ شاگردوں سے جنگ وجدل اور ہاتھاپائی میں بھی اسی تاریخی دہشت کے امین ہیں۔ ہمیں جویہ خدشہ ہے کہ ماسٹر صاحب ہمارے ہی گھر کے کسی کمرے، برآمدے یاغسل خانے میں آخری ہچکی لیں گے۔ تواس کی بنیادی وجوہ یہ ہیں کہ وہ ملازمت سے ریٹائر یا برخاست ہوچکے ہیں۔ والد صاحب کے ایک بہت ہی پیارے (مرحوم) دوست کے پھوپھا ہیں اور اب دنیامیں کوئی بھی بدنصیب رشتے دار نہ ہونے کی وجہ سے بالکل تنہا ہیں۔ لہٰذا ہمارے ہی گھر میں مستقل قیام وطعام فرمائیں گے۔ وہ پچھلے مہینے کی کوئی منحوس تاریخ تھی جب ہمارا ان سے تعارف ہوا۔ ہم تینوں کرکٹ کھیل کر گھر میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ملازم شرفو ہاتھ میں چاے کی پیالی لیے تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف جاتا نظر آیا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ایک انتقامی مسکراہٹ اُبھری۔۔۔  ’’جلدی آئیے، آپ تینوں کاڈرائنگ روم میں انتظار ہورہا ہے۔‘‘ ہم لرز کررہ گئے۔ ’’یااﷲ خیر‘‘دل نے سرگوشی میں کہا۔ خطرہ ۴۴۰ وولٹ۔۔۔  بہرحال ہم دل کو سنبھالتے اور دونوں چھوٹے بھائیوں کوحوصلہ دلاتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے اور ٹھٹھک کررک گئے۔ شرفو وسطی میز پر چاے کی پیالی رکھ رہا تھا۔ والد صاحب ایک صوفے پربیٹھے ہوئے تھے اور دوسرے صوفے پرایک ایسی چیز رکھی ہوئی تھی جس کے بارے میں ہماری چھٹی حِس نے فوراًسے بتادیا کہ وہ ٹیوٹر ہے اور یہی ہو ابھی ۔۔۔والد صاحب ذراکھنکھار کربولے :’’آؤ بچو! یہ ہیں تمھارے نئے ٹیوٹر۔‘‘ یہ کہتے ہی وہ اُٹھ کر تیزی سے چلے گئے تاکہ ہم ان کی موجودگی سے اپنے نحیف ذہن کوتقویت نہ دے سکیں۔ شامی اور پپودبک گئے اورماسٹرصاحب ہمیں اتنی گہری نظرسے دیکھ رہے تھے جیسے دنیا کاآٹھواں عجوبہ قرار دینے کے بارے میں غور کررہے ہوں۔ ’’السلام علیکم۔‘‘ ہم نے خیرسگالی کاآغاز کرنے کی کوشش کی۔ ’’وعلیکم السلام۔‘‘ ہمیں گھورتے ہوئے وہ مسکراے اور ہمیں ان کی آنکھوں میں وہی چمک نظرآئی جوبکرے کوذبح کرنے سے پہلے قسائی کی آنکھوں میں نظرآتی ہے۔ پھراچانک ان کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ چہرے پر عجیب تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ آنکھیں پھیل گئیں۔ منھ پور اکھل گیا۔ ناک پھڑپھڑانے لگی اور اس کھلے منھ سے ایک حیرت انگیز آواز برآمد آئی ادھر۔۔۔آخ۔۔۔آئیے ۔۔۔آخ۔۔۔صاحب  ۔۔۔آخ زادے ۔۔۔ آخ چھیں۔۔۔غالباً وہ کہناچاہ رہے تھے کہ ادھر آئیے،صاحب زادے ۔۔۔بولنے اور چھینکنے کے اس کامیاب تجربے کے نتیجے میں ان کے پان کی پیک سے سفید میز پوش پرجزائر غرب الہند بن گئے۔ جنھیں اُنھوں نے فوراً اخبار سے ڈھانپ دیا کیونکہ شرفو ہماری طرف متوجہ تھا، اخلاقیات کاتقاضہ یہ تھا کہ مہمان کی چھینک کے جواب میں ہم بھی ایک ہلکی سے چھینک عرض کریں مگرصرف کھانس کررہ گئے ۔ ’’کیاخیال ہے ؟‘‘ و ہ بولے ۔’’میں ذرا آپ کاامتحان لے لوں؟‘‘ امتحان کالفظ توویسے بھی کمزور دل بچوں کے لیے سنسنی خیز ہوتاہے مگر اُنھوں نے اپنے لہجے میں ڈریکولا جیسی خوفناکیت پیداکرتے ہوئے کچھ یوں کہا تھا جیسے پوچھ رہے ہوں۔ اگرزحمت نہ ہوتوآپ کے جسم سے آٹھ دس گیلن خون لے لوں۔اب پتا نہیں کہ ہم نے اقرار میں سرہلایاتھا،یا ہماری گردن سر کاوہ بوجھ اٹھانے کے ناقابل ہوگئی تھی۔ چنانچہ وہ بولے،’’یہ توبتائیے اسٹالین کہاں واقع ہے؟‘‘ ہمارا سارا خوف ایک لمحے میں دور ہوگیا۔۔۔ ’’جی۔۔۔اسٹالین؟‘‘ہم نے زندگی میں پہلی بار کسی سوال کاصحیح جواب دیا۔  ’’اسٹالین توشاید روس کے وزیراعظم ہوئے تھے ۔‘‘ ایک بے ہنگم قہقہے سے سارا کمرہ لرز اُٹھا۔ پھر وہ شرفو کومخاطب کرکے بولے: ’’شرفو میاں دیکھی تم نے صاحب زادے کی قابلیت؟ میں تویہ پوچھتاہوں کہ اب تک تمھارے صاحب نے اِنھیں کس اُستاد سے پڑھوایاتھا۔ جواِنھیں یہ تک نہیں بتاسکاکہ اسٹالین روس کا دارالحکومت ہے۔‘‘ ’’بچہ ہے جناب۔‘‘ شرفو ملامت آمیز نظروں سے ہماری طرف دیکھ کر اُن سے بولا۔’’آپ پڑھائیں گے تودنیا کے ہرشہر کانام زبانی یاد ہوجائے گا۔‘‘ ماسٹر صاحب طنزیہ لہجے میں بولے: ’’شکر ہے میں نے ان سے یہ نہیں پوچھ لیا کہ ماسکو کس سن میں پیدا ہوا تھا۔‘‘ اب تو شرفو بھی تحقیر آمیز انداز میں زور سے ہنسا مگر ماسٹر صاحب کے چہرے پرمایوسی کی گہری چھائیاں دیکھ کر فوراً ہی چپ ہوگیا۔ وہ بے حدرقت آمیزلہجے میں کہنے لگے ۔ نہیں میاں نہیں،مجھے ان نالائقوں کے ساتھ بہت دماغ سوزی کرناپڑے گی۔ اس دن سے لے کرآج تک ماسٹر صاحب اتنی دماغ سوزی کرچکے ہیں کہ دماغ تودونوں جانب کا ختم ہوچکا اب صرف سوز ہی سوز باقی رہ گیاہے۔ یہ یقین آجانے کے بعد کہ اب ماسٹر صاحب ہمیشہ کے لیے ہم پرمسلط ہوچکے ہیں، ایک دن ہمارے دل نے ہمیں ایک نہایت نامعقول مشورہ دیا جسے ہمارے نامعقول بھائیوں نے بہت پسند کیا، شام کو ہمارادل چاہ رہاتھا کہ کیرم کھیلیں جب کہ وقت تھا ٹیوشن پڑھنے کا، ہم ماسٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دست بستہ گزارش کی۔ ’’ماسٹر صاحب، پان کھائیں گے؟ ‘‘ وہ بھلا یہ پیشکش کیسے مسترد کردیتے خوش ہوکر بولے: ’’ہاں لے آؤ، ذرا سا تمباکو ذرا سا خوشبو، چونابھی زیادہ نہ ہو۔‘‘ ہم فوراً اندر گئے اور دادی جان سے ماسٹر جی کیلئے پان بنانے کا کہا پھر نظربچاکر ان کے پان دان کے نچلے حصے میں سے نیند کی دو گولیاں نکالیں۔ دادی جان کو رات گئے تک نیند نہ آنے کی شکایت تھی۔اس لیے وہ نیند کی یہ چھوٹی چھوٹی گولیاں اپنے پان دان میں محفوظ ذخیرے کے طور پر رکھتی تھیں۔ ڈرائنگ روم کی طرف جاتے ہوئے ہم نے ایک ایک گولی دونوں پانوں میں ڈال دی۔ ایک پان نوش جان کرنے کے ذرا دیر بعد ماسٹر صاحب نے فرمایا:’’اطہر میاں! یہ کیسا پان ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ پاکستانی پان ہے۔ یہ کہتے ہوئے ہم نے تھالی سے دوسرا پان اُٹھایا اور یوں اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگے جیسے اس پر کہیں مہرلگی ہو۔۔۔ میڈ ان پاکستان ’’ذائقہ قدرے مختلف ہے۔‘‘ ماسٹرصاحب ایک جھونکا سا لیتے ہوئے بولے۔ ’’ہونا بھی چاہیے، ہم نے کہا خوشبو فرانس کی ہے اور پیلی پتی مرادآبادی لندن کی،ہماری دادی جان پان کا تمباکو ہمیشہ لندن سے منگواتی ہیں۔‘‘ ماسٹر صاحب خوش ہوکر جگالی کرنے لگے ذرادیر بعد نیند کاایک جھٹکا سا لیا، خمار آلود آنکھیں کھول کر بولے، ’’شاید میں کچھ پڑھارہا تھا۔‘‘ ’’جی ہاں حساب۔‘‘ شامی نے لقمہ دیا۔ ’’ہاں‘‘ ماسٹر صاحب جھوم کربولے۔’’ذرا یہ بتاؤ کہ اگرتین آدمی ایک کھیت کی فصل کو چار دن میں کاٹ سکتے ہیں تو۔۔۔تین کھیت ایک آدمی کو ۔۔۔جی لاحول ولاقوۃ۔۔۔چار دن آدمی تین کو۔۔۔ اوں ہونہہ ۔۔۔ ایک فصل چار کھیت کو۔۔۔ نہیں بھئی۔۔۔ تین کھیت چار دن کو۔۔۔‘‘ پھروہ اپنے ماتھے پرہاتھ مار کر بولے۔ ’’بھئی اطہرمیاں ایسالگ رہاہے جیسے کمرہ گھوم رہا ہو۔ زبان وغیرہ بھی بہک رہی ہے ۔۔۔ پان میں تمباکو شاید کچھ زیادہ تیز ہو گیاہے؟‘‘ ’’ جی ہاں۔‘‘ شامی نے تائید کی، ’’جبھی توانگریز اس تمباکو والے پان پرجان دیتے ہیں۔‘‘ ماسٹر صاحب نے پورا منھ کھول کر ایک طویل جماہی لی اور دونوں ہاتھ لہراکر آدھی انگڑائی لی اور نیند سے بوجھل لہجے میں بولے ،’’ہاں تو۔۔۔میں ۔۔۔کیاپڑھا رہاتھا۔۔۔؟‘‘ ’’اگرتین آدمی ایک کھیت کی فصل کوچار دن میں کاٹ سکتے ہیں تو۔۔۔؟‘‘ ہم نے سوالیہ انداز میں کہا۔ ’’ بس بس ۔۔۔ٹھ۔۔۔ی ی ی ک۔۔۔ہے۔‘‘ ماسٹر صاحب صوفے پرنیم دراز ہوکربولے ۔۔۔’’اگرچار کھیت ۔۔۔ایک آدمی کی فصل کو۔۔۔تین دن میں ۔۔۔کاٹ سکتے ہیں تو ایک خر۔۔۔‘‘ ’’ایک خرگوش؟‘‘ہم نے لفظ پورا کرنے کی کوشش کی مگرماسٹر صاحب گہری نیند سوچکے تھے اور زور وشور سے خراٹے لے رہے تھے ۔ اس دن کی بعدسے ماسٹر صاحب کوہمارا یہ پان اس قدر پسند آیا کہ جب وہ پڑھانے بیٹھتے توپان کی فرمائش ضرور کرتے اور ہم تودل وجان سے بھی یہی چاہتے تھے کہ نیند کی گولی والا پان کھاکر ماسٹر صاحب سوجائیں اب اگرایک پان کھلاکر ہمیں تین چار گھنٹے کے لیے فرصت ہوجاتی تھی توآپ ہی بتائیے اس میں ہمارا کیا نقصان تھا؟ ایک دن شامی نے ہنستے ہوئے ہمیں بتایا کہ تین دن بعد ماسٹر صاحب کی سالگرہ ہونے والی ہے۔ پپو نے اس کی گواہی دی اور شام کو جب ماسٹر صاحب پڑھانے بیٹھے تولند ن کی پیلی پتی مراد آبادی والاپان کھانے سے پہلے اُنھوں نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ ہم نے والدین سے گزارش کی کہ چونکہ اس گھر میں کوئی بڑی تقریب مدت سے نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ اس سالگرہ کواپنے خرچ پرزور وشور سے منائیں۔ ہماری اس فرمائش کو شرف قبولیت بخشاگیا اور دھوم دھام سے تیاریاں شروع کردی گئیں۔ پورے گھر کو دُلھن کی طرح سجایا گیا۔  سالگرہ والے دن توعجیب ہنگامہ تھا۔ چار بجے ہی سے مہمان آنا شروع ہوگئے تھے ۔لان میں ایک بڑے شامیانے کااہتمام کیا گیا تھا۔ اسٹیج بھی تھا۔ شامیانے کے نیچے کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ اگلے حصے میں دری پران مہمانوں کوبٹھایاگیا جو تحفہ نہیں لائے تھے۔۔۔ چنانچہ بیشتر کرسیاں خالی تھیں۔شام کو شامیانہ رنگ برنگی روشیوں سے جگمگارہا تھا۔ ماسٹر صاحب کے ہاتھوں کیک ذبح ہونے کے بعد چاے اور کھانے پینے کاآغاز ہوا۔ ماسٹر صاحب نے آدھا کیک اور پورے چھ سموسے کھانے کے بعد ہم سے پان لانے کو کہا اور تاکید کردی کہ لندن کی پیلی مراد آبادی تمباکو بالکل نہ ڈالی جائے لیکن ہماری شامت ہمیں کافی دنوں سے آواز دے رہی تھی اس لیے ہم اس تاکید پر عمل نہ کرسکے اور ماسٹر صاحب کے علاوہ کئی دوسرے پانوں میں بھی نیند کی گولی ڈال دی۔ جب ہم پانوں کی بڑی تھالی لے کر آئے توچاے کا دور ختم ہوچکا تھا۔ ماسٹر صاحب نے اکٹھے دوپان منھ میں رکھے، ان قوالوں کو بھی پان پیش کیے جن کی قوالی ماسٹر صاحب کے خیر مقدمی کلمات کے بعد شروع ہونی تھی۔ کچھ دیر بعد ماسٹر صاحب اسٹیج پرپہنچے ،مائکروفون میں دوچھینکیں ماریں اور بڑی دیر تک تقریر یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے جو اُنھوں نے تین دن تک غسل خانے میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر رٹی تھی مگرتقریر یاد نہ آسکی کیوں کہ ذہن نیند سے بوجھل ہوچکاتھا مجبوراً اُنھوں نے فی البدیہہ تقریر فرمائی۔ ’’جناب صدر اور معزز حاضرین! آج میری تقریر کا۔۔۔ عنوان ہے دوسری جنگ عظیم اورخربوزے کے فوائد۔۔۔ اُف یہ عنوا ن کیسے ہوگیا۔۔۔معاف کیجیے گا۔۔۔ سرذرا چکرا رہاہے۔۔۔تومعزز حاضرین میری تقریر کاعنوان ہے ۔۔۔پاکستان کی زرعی ترقی اور چچک کاعلاج۔۔۔ایں ۔۔۔و فوہ بھئی ۔۔۔ یہ چچک والی تقریر درمیان میں کہاں سے آگئی۔۔۔مجھے تو۔۔۔ مجھے تو ۔۔۔مجھے تو۔۔۔صرف شکریہ اداکرناہے ۔۔۔ تومعزز خواتین اور حیاتین ۔۔۔آپ سب کی آمد پر میں بڑے خلوص سے کہناچاہتے ہوں کہ ۔۔۔لاحول ولا قوۃ۔۔۔اماں اطہر میاں یہ آپ نے لندن کی پیلی پتی مراد آبادی پھر ڈلوادی پان میں؟ دماغ گھومے چلا جارہا ہے۔۔۔زبان لڑکھڑا رہی ہے ۔۔۔جی تومعزز حضرات ومستورات میں آپ سب کی آمد پر ۔۔۔خوشی سے جھوم رہاہوں۔۔۔کیونکہ ۔۔۔یہ مائیک بھی جھوم رہاہے ۔۔۔شامیانہ بھی جھوم رہاہے ۔۔۔اور ۔۔۔اور ۔۔۔آپ سب بھی ۔۔۔گھوم رہے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ماسٹر صاحب مائیکرو فون سمیت دھڑام سے گرے ااوراسٹیج سے نیچے لڑھک گئے انھیں دری پرلٹادیا گیا کیونکہ وہ سوچکے تھے۔ ذرادیر بعد قوالی کاپروگرام شروع ہوا۔ بڑے خاں صاحب نے جوقوال ساتھیوں کے چیف تھے اور استاد جی کہلاتے تھے ۔ایک ہاتھ کان پر اور دوسرا ہارمونیم پررکھ کرکچھ ایسی تان لگائی جونیند کی گولی والا پان کھا کربھی لگائی جاسکتی ہے۔ نیند کی شدید غنودگی میں ان کی آواز اور ہارمونیم کے سروں میں وہی گہراتعلق تھاجوشیراور بکری میں ہوسکتاہے ۔ایک افسوسناک جماہی لے کر اُنھو ں نے علامہ اقبال کے کلام سے اپنی قوالی کاآغاز اس لیے کیا کہ ان پرمقدمہ کرنے کے لیے علامہ زندہ نہیں تھے۔ ترے شیشے میں مئے ماقی نہیں ہے  بتا کیا تو مراساقی نہیں ہے  ساتھی قوالوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ،ارے ساقی نہیں ہے ۔۔۔ہاں ارے ساقی نہیں ہے۔۔۔ ہاے ارے ساقی نہیں ہے۔۔۔اُف ارے ساقی۔۔۔ ساقی ۔۔۔ ساقی نہیں ہے ۔ لیکن جب وہ خاموش ہوئے توان کے ساقی صاحب انٹا غفیل ہوچکے تھے۔ برابر والے اسسٹنٹ ساقی نے استاد جی کوکہنی ماری ۔۔۔لیکن استاد جی توکسی اور ہی دنیا میں گھر تھے۔ طبلے والے نے استاد جی کو جھنجھوڑا، اُستاد جی نے ایک پان زدہ جماہی لے کر اپنی بوجھل آنکھیں کھولیں۔ کان پرہاتھ رکھا اور پھرقوالی شروع کی۔ ترے ۔۔۔شی۔۔۔شے میں۔۔۔مئے باقی ۔۔۔نہیں ہے ۔۔۔باقی ۔۔۔نہیں ں ں ں ں ۔۔۔ ہے لے لے لے لے لے۔۔۔ان کی آواز اس طرح غائب ہوتی چلی گئی جیسے ٹیپ اُلجھ گئی ہو ۔۔۔طبلے والے نے اُنھیں پھر جھنجھوڑا ۔۔۔نظر بچا کر ایک گھونسا بھی رسید کردیالیکن استاد جی ٹس سے مس نہ ہوئے اوراس کے کندھے پرسرلٹکا کر سوگئے ۔ خر ،خر ،خر ،خر خائیں، استاد جی کاخراٹابلندہوا۔ خر خر خر!سارنگی والے نے لندن کی پیلی پتی مراد آبادی خراٹاعرض کیا۔خرخائیں۔۔۔خڑاپ! شامیانے کے کونے والی کرسی سے ایک مہمان نے جوابی خراٹا پیش کیا۔ درری پرلیٹے ہوئے ماسٹر صاحب نے ایک خوفناک خراٹے سے باقی سب کوڈرانے کی کوشش کی ۔۔۔ اب تو باقاعدہ غیر طرحی خراٹامشاعرہ شروع ہوگیا۔ پان کھانے والے مہمان بھیانک خراٹے لے رہے تھے اورپان نہ کھانے والے مہمان محفل سے کھسک رہے تھے تاکہ ان پر بھی اس غیبی آفت کا اَثر نہ ہوجائے۔ ہم کچھ دیر تک خراٹوں کی موسیقی سے لُطف اندوز ہوتے رہے۔ پھراپنے کمرے میں جاکر بستر پرلیٹ گئے لیکن شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دوسرے دن ہونے والی پٹائی کی وجہ سے پندرہ دن تک بستر سے نہیں اُٹھ سکے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top