skip to Main Content
پیراشوٹ: ایک قدیم ایجاد

پیراشوٹ: ایک قدیم ایجاد

محمد فرحان اشرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہواسے زمین پرحفاظت کے ساتھ اتارنے والی چھتری کوپیراشوٹ یاحفاظتی چھتری کہاجاتاہے۔پیراشوٹ کالفظ دومختلف زبانوں کے الفاظ سے مل کربناہے۔یہ پیرااورشوٹ کامجموعہ ہے۔پیرایونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مقابلے پرہیں۔جب کہ شوٹ فرانسیسی زبان کالفظ ہے اوراس کے معنی ہیں گرنا۔یہ عام طورپرہلکے کپڑے اورریشم یانائیلون سے تیارکیاجاتاہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعدامریکانے سب سے پہلے نائیلون کوپیراشوٹ کی تیاری میں استعمال کیاتھا۔یہ کپڑاریشم کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مندثابت ہوا۔موجودہ زمانے میں پیراشوٹ تیارکرنے کے لیے مضبوط لچک دارکپڑے کے علاوہ ڈوریاں اوراعلیٰ قسم کے ہُک استعمال کیے جاتے ہیں۔پیراشوٹ کے کپڑے کی سلائی کے لیے نائیلون کامضبوط دھاگااستعمال ہوتاہے۔اس کے ذریعے ہوائی جہازکی مددسے مصیبت زدہ علاقوں میں لوگوں کی مددکے لیے خوراک اورامدادی سامان پہنچایاجاتاہے۔تمام ممالک کی فوج اسے استعمال کرتی ہے،اس کی مددسے انسان زمین پراترتاہے۔حالت جنگ میں دشمن کے علاقے میں اس کے ذریعے بم بھی گرائے جاتے ہیں۔پیراشوٹ ہواکے دباؤکے تحت کام کرتاہے۔جب اس میں ہوابھرجاتی ہے تویہ ایک غبارے کی طرح پھول جاتاہے۔پھرہواکادباؤاوپرکی جانب ہونے کی وجہ سے پیراشوٹ کی زمین کی جانب گرنے کی رفتارکافی کم ہوجاتی ہے۔پیراشوٹ ہوائی جہازکی رفتارکوبھی کم کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔جب بہت زیادہ تیزرفتارہوائی جہاززمین پراترتاہے تواس کی رفتارکوکم کرنے کے لیے کمانڈرکینوپی پیراشوٹ استعمال کیاجاتاہے۔اس پیراشوٹ کوڈروگ پیراشوٹ بھی کہاجاتاہے۔جس سے ہوائی جہازکی رفتارخاصی کم ہوجاتی ہے۔
معلوم انسانی تاریخ کے مطابق سب سے پہلے پیراشوٹ کاتصورارمن فرمن نامی شخص کے ذہن میں آیاجومسلم اسپین کے خلیفہ عبدالرحمن دوم کادرباری تھا۔822ء میں جب نیا خلیفہ عبدالرحمن دوم تخت نشین ہوا تو اس نے دنیا سے تمام با صلاحیت افراد کو اکٹھا کرنا شروع کیا تو ان میں ابن عباس بھی شامل تھے۔خلیفہ کی زیر سرپرستی میں852ء میں ارمن فرمن نے پرندوں کے پروں کی طرح کی ایک بڑی چادر کے ذریعے قرطبہ کی ایک اونچی عمارت سے اڑنے کا مظاہرا کیا مگر وہ فوراً ہی نیچے گر گیا اور اس کو معمولی چوٹیں بھی آئیں۔ارمن فرمن کو دنیا کا سب سے پہلا پیرا شوٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ابن فرناس نے بھی اڑان پر تجربات کرنا شروع کر دیے اور 23 سال بعد ان کا تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا۔عباس ابن فرناس کا سب سے بڑا کارنامہ تاریخ میں پہلی انسانی پرواز ہے۔ وہ گھنٹوں پرندوں کو محو پرواز دیکھ کر انہیں کی طرح اڑنے کا خواہشمند تھا۔ اس نے کئی سال تک پرندوں کی پرواز کی تکنیک ( ایروڈائنامکس) کا بغور مطالعہ کیا اور ایک دن یہ اعلان کیا کہ انسان بھی پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے۔ جب اس کے ناقدین نے اس کا مذاق اڑایا تو اس نے اپنی تھیوری کا عملی مظاہرہ بذات خود کرنے کا اعلان کر دیا۔
عباس ابن فرناس نے پرندوں کے پروں کی طرح دو پر اپنے وزن کے مطابق تیار کئے اور ان کے فریم ریشم کے کپڑے سے منڈھ دیے۔ پھر قرطبہ سے دو میل دور شمال مغرب میں واقع امیر عبد الرحمن الداخل کے بنائے ہوئے محل رصافہ کے اوپر واقع ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور کئی سو تماش بینوں کی موجودگی میں چٹان کے اوپر کھڑا ہو کر دونوں پر اپنے جسم کے ساتھ باندھ لیے۔ تماشائی بڑی حیرت اور تعجب سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ابھی اسی کوشش میں اس پاگل سائنسدان کی ہڈیاں تک سلامت نہیں بچیں گی۔ اپنی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد ابن فرناس نے تماشائیوں کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر پہاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنے پروں کی مدد سے ہوا میں کچھ دیر تیرتا رہا اور پہاڑ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک میدان میں بحفاظت اتر گیا، اگرچہ اس کی کمر لینڈنگ کے دوران دباؤ کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ اس وقت اس کی عمر 65 یا 70 سال بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ نویں صدی کے دوسرے ربع میں پیش آیا اور اس طرح وہ انسانی تاریخ کا ہوا میں پہلا اڑنے والا انسان اورپہلامسلم سائنس دان کہلایا۔
عباس ابن فرناس نے اپنا تجربہ اسی جگہ پر ارمن کی چھلانگ کے تقریباً 23 برس بعد کیا۔ یہ جگہ ایسی پہاڑیوں پر مشتمل تھی جس کے نیچے ایک بہت بڑا ہموار قطعہ زمین واقع تھا۔ اس جگہ ہوا نیچے زمین سے ہو کر پہاڑیوں سے ٹکراتی تھی اور اس کے بعد بلندی کی جانب جاتی تھی۔ اپنے فارغ وقت میں وہ اکثر غور کرتا کہ آخر پرواز کرنے والے سوٹ میں کیا خرابی تھی جس کی وجہ سے اسے چوٹ کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ اس کی سمجھ میں یہی آیا کہ پرندے اپنی پرواز اور لینڈنگ کے دوران اپنی دُم کا استعمال کرتے ہیں۔ اس نے پر تو بنا لیے تھے مگر دم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ اسے اپنی اس غلطی کا احساس شاید آخری سانس تک رہا۔
عباس ابن فرناس کی وفات کے کئی سال بعد تقریباً 1010ء میں ایک یورپی راہب ایلمر مالسمبری نے بھی عباس ابن فرناس کے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق اڑن مشین بنائی اور اس کے مزید کچھ صدیوں بعد پندرہویں صدی میں لیونارڈو ڈاؤنچی نے اس میں اضافہ کیا۔جس کاذکرلیونارڈوڈاونچی کی نوٹ بک سے ملتاہے۔پیراشوٹ کاسب سے پہلے استعمال فرانس کے لوئس سبیسٹین لی نورمنڈنے کیا۔اس نے 26 دسمبر1783ء میں فرانس کے شہرماؤنٹ پیلئیرمیں واقع ایک رصدگاہ کے مینارسے چھلانگ لگائی۔1797ء میں فرانس کے جے گارنرین نے پیراشوٹ کاایک کامیاب تجربہ کیا۔اس نے تجربے کے لیے تقریباََ7میٹرچوڑائی کاپیراشوٹ استعمال کیا،جس میں اوپرکی جانب ہواکے اخراج کے لیے ایک سوراخ بناہواتھا۔ہوائی جہازکے ذریعے زمین پرحفاظت کے ساتھ اترنے کاپہلاکامیاب تجربہ کیپٹن بیری نے امریکی ریاست میسوری کے سینٹ لوئیس نامی مقام پر1912ء میں کیاتھا۔

آج کل ہوائی جہازسے پیراشوٹ کی ذریعے کودنے کوباقاعدہ ایک کھیل کی شکل دے دی گئی ہے۔اس کھیل میں ہوائی جہازسے چھلانگ لگاکرپیراشوٹ کھولنے سے پہلے فضامیں طرح طرح کے کرتب دکھائے جاتے ہیں۔یہ کھیل سکائی ڈائیونگ کہلاتاہے۔سکائی ڈائیونگ کھیل میں سب سے اہم حصہ کوئی خاص ترتیب بنانا ہوتاہے۔اس کھیل میں کئی سکائی ڈائیورایک دوسرے کے ہاتھ پکڑکرمختلف شکلیں بناتے ہیں۔ امریکاکی ریاست کیلی فورنیاسے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافرٹام سانڈرس نے سکائی ڈائیونگ کے دوران منفرداندازکی فوٹوگرافی کی،جس بناء پراس کانام گینزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوا۔اس کتاب میں دنیابھرمیں حیرت انگیزکارنامے سرانجام دینے والے افرادکے ریکارڈدرج ہوتے ہیں۔یہ تصاویراس نے پیراشوٹ کی مددسے چھلانگیں لگاتے ہوئے بنائیں۔ پیراشوٹ کی مددسے چھلانگ لگاتے وقت سرپرہیلمٹ ہوتاہے جس کے اوپرکیمرانصب کیاگیاہوتاہے۔اس کھیل میں اگربروقت پیراشوٹ نہ کھلے توجان جانے کاخطرہ بھی ہوتاہے۔اس کھیل میں کھلاڑی عام طورپرسطح زمین سے2500فٹ کی بلندی پر پیراشوٹ کھولتے ہیں۔پاکستان میں بھی پاک فوج کے نوجوان یوم پاکستان23مارچ اوریوم آزادی14اگست کے موقع پرہوائی جہازسے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگیں لگاتے ہیں اورفضامیں پاکستانی پرچم کوخوب صورت اندازمیں لہراتے ہیں۔پیراشوٹ کے ذریعے سب سے اونچی چھلانگ لگانے کاعالمی ریکارڈآسٹریاسے تعلق رکھنے والے ہوابازفلکس بام گارٹنرنے اکتوبر2012ء میں قائم کیاتھا۔فلکس نے 128100فٹ کی بلندی پراڑتے ہوئے ایک غبارے سے چھلانگ لگائی اوراس کی زمین پرآنے کی رفتار1342کلومیٹرفی گھنٹہ تھی۔
چین کے سائنس دانوں نے دنیاکے سب سے ہلکے کیمیائی مادے سے پیراشوٹ بنانے کااعلان کیاہے۔یہ کیمیائی مادہ کاربن ایروجل ہے جواتناہلکاہے کہ اس سے تیارکردہ 20مربع میٹرلمبائی والاپیراشوٹ صرف200گرام وزنی ہوگا۔اس پیراشوٹ میں اتنی لچک ہوگی کہ اسے ٹی شرٹ کی صورت میں پہناجاسکے گا۔اگریہ پیراشوٹ کامیاب ہوگیاتوہوائی جہازمیں سفرکرنے والے افراداس کوپہنچ سکیں گے۔ اس طرح دنیابھرمیں فضائی حادثات میں انسانی زندگی کو اورمحفوظ بنایاجاسکے گا۔آج کل جدیدقسم کے پیراشوٹ کے ذریعے بھاری بھرکم مشینیں اورفوجی سازوسامان بھی زمین پراتاراجاتاہے۔ہوابازی کے لیے استعمال ہونے والے پیراشوٹ کوایک بیگ میں بندکیاجاتاہے۔اگرپیراشوٹ کوصحیح طریقے سے بیگ میں بندنہ کیاگیاہوتووہ موت کاباعث بھی بن سکتاہے۔ہوائی جہازسے چھلانگ لگانے کے بعدہواباز پیرا شوٹ کی ہُک کوکھینچتاہے جس سے پیراشوٹ کھل جاتاہے۔اگرپیراشوٹ نہ کھلے تواس میں زمین پرگرکر ہوا بازکی جان جانے کاخطرہ ہوتاہے۔آج کل سکائی ڈائیونگ کرنے والے کچھ افراداپنے ساتھ بیرومیٹر کمپیوٹررکھتے ہیں۔جس کے ذریعے وہ مسائل اورہنگامی حالات سے آگاہ رہتے ہیں۔
پیراشوٹ کوخلائی تحقیقات میں بھی استعمال کیاجاتاہے۔یہ خلائی جہازاورسپیس شٹل کی رفتارکوکم کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔امریکی سائنس دان خلائی جہازکوسیارہ مریخ کی سطح پربحفاظت اتارنے کے لیے پیراشوٹ کی تیاری میں مصروف ہیں ۔یہ پیراشوٹ110مربع فٹ چوڑائی کاحامل ہوگااور1100کلومیٹرکی خلائی جہازکی رفتارکوقابوکرسکے گا۔اس طرح مریخ کے بارے میں مزیدانسانی تحقیقات ہوں گی۔پیراشوٹ کی صنعت میں دوسری عالمی جنگ کے بعدجب بہت تیزرفتارہوائی جہازایجادکیے گئے انقلاب آیا۔1950ء کی دہائی میں پیراشوٹ کی بہت سی اقسام سامنے آئیں۔آج کل مختلف شعبوں میں مندرجہ ذیل پیراشوٹ استعمال ہورہے ہیں:
گول پیراشوٹ فوجی ،ایمرجنسی یادیگرسامان کوزمین پراتارنے میں مدددیتاہے۔یہ گنبدنماشکل میں تکونی کپڑے سے بنائے جاتے ہیں۔یہ پیراشوٹ دورسے دیکھنے پرسمندری جانورجیلی فش کی طرح نظرآتاہے ۔اس کے درمیان میں سوراخ رکھاجاتاہے تاکہ اگرہواکادباؤبہت زیادہ ہوجائے تویہ الٹ نہ جائے۔مربع شکل کے پیراشوٹ کوفوج زمینی مقاصدکے لیے استعمال کرتی ہے۔یہ انتہائی جدیدقسم کاپیراشوٹ ہے ۔اس پیراشوٹ کوایڈوانسڈٹکٹیکل پیراشوٹ سسٹم کے تحت تیارکیاجاتاہے یہ گول پیراشوٹ کے مقابلے میں 30فیصدکم رفتارسے زمین پرآتاہے۔اس پیراشوٹ میں چھلانگ لگانے والے کوچوٹ لگنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔آج کل اس کی جگہT-10پیراشوٹ استعمال ہورہاہے۔کمانڈرکینوپی پیراشوٹ کوفرانس نے گول پیراشوٹ میں کچھ مزیدتبدیلی کرکے تیارکیاہے۔اس میں بہت مضبوط ڈوریاں استعمال کی جاتی ہیں۔اس پیراشوٹ کی چھتری میں بھی سوراخ ہوتاہے جوہواکوباہرکی طرف خارج کرتاہے۔
ربن پیراشوٹ آوازسے تیررفتارہوائی جہازکے لیے بنایاجاتاہے۔یہ کمانڈرکینوپی پیراشوٹ جیسا ہوتاہے۔اس پیراشوٹ کی شکل انگوٹھی کی شکل جیسی ہوتی ہے۔اس کے درمیان میں ایک سوراخ ہوتاہے۔یہ بہت زیادہ ہواکے دباؤ کوبرداشت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔عام پیراشوٹ اس رفتارکے ہوائی جہازمیں پھٹ جاتے ہیں۔اس پیراشوٹ کی مددسے زمین پرایٹم بم بھی پھینکاجاسکتاہے۔پیراگلائیڈریاریم ائیرپیراشوٹ میں کپڑے کی دوتہیں استعمال کی جاتی ہیں۔اس پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے والاسمت اوررفتارکوکنٹرول کرسکتاہے۔اس پیراشوٹ میں پسلی نماکپڑے کے دوتھیلے ہوتے ہیں جن میں ہوابھرنے سے اس کی زمین پرگرنے کی رفتارخاصی کم ہوجاتی ہے۔بیلسٹک پیراشوٹ ہنگامی حالات میں استعمال کے لیے ہوابازکی سیٹ کے ساتھ لگایاجاتاہے۔ہنگامی حالات میں ہوابازہوائی جہازکاایک مخصوص بٹن دباتاہے جس سے ہوائی جہازکی چھت کھل جاتی ہے اورسیٹ ہوابازسمیت بڑی تیزی سے ہوائی جہازسے باہراچھال دی جاتی ہے۔فوراً ہی پیراشوٹ کھل جاتاہے اورہوابازحفاظت کے ساتھ زمین پراترجاتاہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top