skip to Main Content

پیارے رسول ﷺ

پروفیسر حسین سحرؔ

۔۔۔۔۔۔۔

آپ ﷺ سے پہلے
ہمارے پیارے رسول ﷺ جب اس دنیا میں تشریف لائے تو دنیا کی حالت بہت خراب تھی۔ اس وقت دنیا کے نقشے پر ایران اور روم دو بڑی طاقتور حکومتیں تھیں اور ان کی حدیں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھیں ۔
ایران میں لوگ ستاروں کو پوجتے تھے۔بتوں کی پوجا بھی عام تھی ۔اس کے علاوہ لوگ بادشاہوں کو بھی پوجتے تھے ۔یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کو چھوڑ کر ہر طاقت ور چیز کی عبادت کی جاتی تھی۔
روم کی بھی یہی حالت تھی ۔روم کے رہنے والے بتوں کے ساتھ ساتھ قبروں کی پوجا بھی کرتے تھے۔عام لوگوں کا مذہب کہنے کو عیسائی تھا لیکن اس مذہب کے بھی کئی فرقے اور گروہ بنے ہوئے تھے اور ہر فرقہ ایک دوسرے سے لڑتا رہتا تھا۔
پاکستان اور ہندوستان جہاں ہم رہتے ہیں بت پرستی کا بہت بڑا مر کز تھا۔یہاں کے لوگوں کا بڑا مذہب ہندومت تھا۔ لوگ لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔شراب اور جوئے کا رواج عام تھا۔لوگوں میں ذات پات کا فرق بہت تھا۔اونچی ذات والے نیچی ذات والوں سے نفرت کرتے تھے اور اگر انہیں نیچی ذات والوں کا کپڑا بھی چھو جاتا تو وہ سمجھتے تھے کہ ناپاک ہو گئے ۔ عجیب عجیب قسم کے وہم تھے جن میں یہ لوگ مبتلا تھے۔
عرب کی حالت دوسری دنیا سے کہیں بڑھ کر خراب تھی ۔یہ خطہ جہالت اور شرک کا گڑھ تھا۔لوگ چاند، سورج ،ستاروں ،درختوں اور پتھروں کے علاوہ مختلف قسم کے بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔بتوں میں یہ لوگ پتھر ،لکڑی ، دھات حتیٰ کہ آٹے کے بُت بنا کر انہیں پوجتے تھے ۔بت پرستی کا رواج اتنا عام تھا کہ اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں بھی تین سوساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔یہ لوگ شراب پیتے تھے ،جواء کھیلتے تھے، پیدا ہوتے ہی اپنی لڑکیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیتے تھے ۔اس کے علاوہ معمولی معمولی باتوں پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے لڑائی شروع کر دیتا تھا اور جہالت کی وجہ سے یہ لڑائی کئی نسلوں تک چلتی تھی۔ غرض کوئی بُرا کام نہ تھا جو یہ لوگ نہ کرتے ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاندان
پیارے رسولﷺ کا خاندان قریش تھا جو عرب کے مشہور شہر مکہ میں رہتا تھا۔یہ خاندا ن خانہ کعبہ کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا اور حج کے دنوں میں حاجیوں کی خدمت بھی کیا کرتا تھا۔یہ خاندان پورے عرب میں اسی وجہ سے بہت نیک اور اچھا سمجھا جاتا تھا۔پھر اس خاندان میں وہ برائیاں بھی نہیں تھیں جو عرب کے دوسرے خاندانوں اور قبیلوں میں تھیں ۔پیارے رسولﷺ کا شجرۂ نسب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملتا ہے۔حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اللہ کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ تعمیر کی تھی ۔اسی قبیلے قریش کے ایک بزرگ تھے ہاشم جو اپنی نیکی اور سخاوت کی وجہ سے پورے عر ب میں مشہور تھے ۔ہاشم کے ایک بیٹے تھے عبدالمطلب ،یہ بھی بہت نیک تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انھیں دس بیٹے عطاء کیے تھے۔حضرت عبداللہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔حضرت عبدالمطلب کو ان سے بہت محبت تھی۔حضرت عبداللہ بہت نیک اور خوبصورت تھے۔جب آپ جوان ہوئے تو آپ کی شادی خاندانِ قریش ہی کے ایک بزرگ حضرت وہب کی بیٹی حضرت آمنہ سے ہو گئی ۔حضرت آمنہ بھی حضرت عبداللہ کی طرح نیک تھیں ۔شادی کے چند ماہ بعد حضرت عبداللہ شام کے سفر پر گئے تو راستے میں وفات پا گئے ۔اس وقت پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہونے والے تھے چنانچہ کچھ عرصے بعد حضرت بی بی آمنہ کے گھر ہمارے پیارے رسولﷺ پیدا ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیدائش
عام روایت کے مطابق ہمارے پیارے رسولﷺ ۱۲ربیع الاول یعنی ۲۰؍ اپریل ۵۷۱ ء کوپیر کے روز صبح کے وقت عرب کے مقدس شہر مکہ میں پیدا ہوئے ۔آپﷺ کی والدہ حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ جب پیارے رسولﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو ان کے دونوں ہاتھ اس طرح اُٹھے ہوئے تھے جیسے وہ دُعا مانگ رہے ہوں اور وہ آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیدا ہونے سے پہلے حضرت آمنہؓ نے خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا ہے جس سے دور دور تک روشنی ہو گئی ۔
جب پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتے کانام محمدﷺ رکھا جس کا مطلب ہے وہ ہستی جس کی بے حد تعریف کی گئی ہو ۔حضرت آمنہؓ نے اپنے پیارے بیٹے کانام احمد رکھا۔
جب پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو آپﷺ کی برکت سے ایران کا آتش کدہ جس میں ہر وقت آگ جلتی رہتی تھی اور جو ایک ہزار سال سے روشن تھا بُجھ گیا۔ایران کے بادشاہ کسریٰ کے محل میں زلزلہ آیا اور اس کے چودہ (۱۴) کنگرے گِر گئے۔واقعہ فیل (ہاتھیوں والا واقعہ ) بھی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے اسی سال پیش آیا ۔یعنی یمن کا بادشاہ ابرہہ جب خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لیے ہاتھیوں کا لشکر لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹے سے پرندے ابابیل کے ذریعے اس پر کنکروں کی بارش کی جس سے ہاتھیوں سمیت تمام لشکر تباہ ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرورش
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے آپ ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا ۔ اس کے بعد آپﷺ کے ایک چچا کی کنیز ثوبیہ نے دودھ پلایااور آخر میں حضرت حلیمہؓ سعدیہ نے آپﷺ کی پرورش کی ۔اس زمانے میں عرب میں یہ عام رواج تھا کہ شریف گھرانوں کے بچوں کو پرورش کے لیے دیہات بھیج دیا جاتا تھا۔دیہاتی عورتیں انہیں دودھ پلاتیں اور اس طرح کھلی آب وہوا میں بچوں کی صحت بھی اچھی رہتی اور وہ عربی زبان بھی زیادہ صحیح بولنے لگتے کیونکہ دیہات کی زبان زیادہ اچھی اور صحیح سمجھی جاتی تھی چنانچہ رواج کے مطابق آپﷺ کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا گیا۔ حضرت حلیمہ قبیلہ سعد کی ایک شریف اور نیک دائی تھیں ۔وہ آپ ﷺ کو لے کر اپنے گاؤں آ گئیں ۔اس طرح پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت حلیمہؓ سعدیہ کے گھر پرورش پانے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچپن
جب پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چار سال کے ہوئے تودائی حلیمہ کے بچوں کے ساتھ جنگل میں بکریاں چرانے کے لیے جانے لگے ۔اس عرصے میں پیارے رسولﷺ عام بچوں کی طرح کھیلنے کودنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے ۔آپﷺ کی برکت سے دائی حلیمہ کی بکریاں جو پہلے بالکل دودھ ہی نہ دیتی تھیں اب خوب دودھ دینے لگیں ۔جب آپﷺ گھر سے باہر نکلتے تو بادل آپ ﷺ پر سایہ کیے رہتا۔یوں آپﷺ دھوپ سے بچے رہتے۔اسی طرح دائی حلیمہ سعدیہ کے قبیلے کی چراگاہیں جو پہلے خشک ہو چکی تھیں آپﷺ کی برکت سے ہری بھری ہو گئیں ۔
جب پیارے رسولﷺ تقریباً چھ سال کے ہوئے تو دائی حلیمہ آپﷺ کولے کر مکہ مکرمہ آئیں اور آپﷺ کو اپنی والدہ کے سپرد کر کے بہت سا انعام و اکرام لے کر واپس چلی گئیں۔
کچھ دن بعد حضرت آمنہ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لیے اپنے یتیم بچے کو ساتھ لے کر مدینہ گئیں ۔وہاں آپ اپنے خاندان بنو نجار میں ایک مہینے تک رہیں ۔پیارے رسولﷺ بھی بنو نجار کے بچوں کے ساتھ رہے ۔ایک مہینے بعدحضرت آمنہ واپس آرہی تھیں کہ ابواء کے مقام پر بیمار ہوگئیں اور وہیں وفات پا گئیں ۔
اس طرح آپ ﷺ باپ کے بعد ماں کے سائے سے بھی محروم ہو گئے ۔آپﷺ اپنی والدہ کی لونڈی اُمِ ایمن کے ساتھ واپس مکہ مکرمہ پہنچے ۔اب آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی پرورش کرنا شروع کی ۔انہیں آپ ﷺ سے بہت محبت تھی۔آپﷺ کی عمر آٹھ سال تھی کہ آپﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔وفات سے پہلے حضرت عبدالمطلب نے آپﷺ کوپر ورش کے لیے اپنے بیٹے حضرت ابو طالب کے سپرد کیا ۔آپﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کو بھی آپ ﷺ سے بہت محبت تھی ۔وہ آپﷺ کو اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتے تھے ۔
پیارے رسولﷺ کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا۔بچپن میں ہی آپ ﷺ بُرے کاموں سے بچے رہتے تھے۔ہمیشہ سچ بولتے اور جھوٹ سے آپﷺ کو نفرت تھی۔لڑائی مار کٹائی اور جھگڑے سے دور رہتے تھے۔آپﷺ کے چچا حضرت ابو طالب تجارت کیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں مختلف ملکوں کے سفر پر جایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ وہ شام کے سفر پر جارہے تھے تو پیارے رسول ﷺ بھی آپ کے ساتھ چل د یئے۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر بارہ سال تھی۔جب آپ ﷺ بصرہ کے شہر پہنچے تو ایک درخت کے نیچے ٹھہرے۔ وہاں ایک راہب بحیرا تھا،اس نے آپﷺ کو دیکھا تو آپﷺ کے چچا حضرت ابو طالب سے پو چھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟حضرت ابو طالب نے جواب دیا:
’’یہ میرا بھتیجا ہے ۔اس کا باپ فوت ہو چکا ہے لیکن مَیں نے اسے اپنے بیٹے کی طرح پالا ہے۔‘‘
بحیرا نے کہا:
’’تم سچ کہتے ہو یہ لڑکا عام لڑکا نہیں ۔یہ نبیوں کا سردار ہو گا۔مَیں نے اس میں وہ نشانیاں دیکھی ہیں جن کا ذکر مذہبی کتابوں میں ہے۔پھر مَیں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں جو اس لڑکے کے سامنے نہ جھکا ہو۔اس لیے اے ابو طالب!مَیں تمہیں یہی مشورہ دوں گاکہ اسے شام نہ لے جاؤ کیونکہ وہاں کے یہودی اور عیسائی اس کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابو طالب آپ ﷺ کو واپس مکہ لے آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوانی
جب پیارے رسولﷺ کی عمر سو لہ سال کی ہوئی تو انہوں نے اپنے خاندان کا پیشہ تجارت اپنا لیا ۔ آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر تجارت کرتے ۔آپﷺ بہت سچّے امانت دار تھے۔اس لیے مکہ کے لوگ آپ کو صادق اور امین یعنی سچا اور امانت دار کے لقب سے پکارتے تھے۔ایک مرتبہ آپ کا ایک ساتھی عبداللہ آپ سے تجارت کا سودا کر رہا تھا کہ اُسے ایک کام یاد آگیا ۔اس نے کہا کہ مَیں ابھی آکر بات کرتا ہوں لیکن تین دن گزرنے کے بعد اسے اپنا وعدہ یاد آیا تو وہ بھاگا بھاگا پہنچا ۔دیکھا تو آپﷺ ابھی انتظار فرما رہے تھے۔ آپﷺ نے صرف اتنا کہا۔۔۔۔۔
’’عبداللہ تمہاری وجہ سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔مَیں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
اس زمانے میں عربوں میں لڑائیوں کا بڑا زور تھا۔ان میں فجّار سب سے بڑی لڑائی تھی جو قبیلہ قیس اور قریش کے درمیان لڑی گئی۔قریش اس لڑائی میں حق پر تھے۔اس لیے پیارے رسولﷺ نے اپنے قبیلے کی طرف سے اس جنگ میں حصہ لیا۔لیکن اس طرح کہ کسی پر تلوار نہیں اٹھائی کیونکہ یہ جنگ اللہ کے لیے نہیں تھی بلکہ دو قبیلوں کے درمیان تھی۔آخر دونوں میں صلح ہو گئی ۔اس وقت آپﷺ کی عمر بیس برس کی تھی۔ان لڑائیوں کو ختم کرنے کے لیے خاندان بنو ہاشم کے کچھ لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ آپس میں مل بیٹھ کر ان جھگڑوں کو دور کرنا چاہیے چنانچہ بنی ہاشم کے علاوہ دوسرے قبیلوں بنی اسد ،بنی زہرہ،بنی عدی وغیرہ سب قبیلے ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور وہاں انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ ہم ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے۔اگر مکہ میں کسی کو لوٹا جائے گا تو اس کے نقصان کو ہر صورت پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔مکہ میں کوئی ظالم نہیں رہنے پائے گاا ور ہم ملک سے بد امنی دور کریں گے۔اس معاہدے کا نام ’’حلف الفضول‘‘تھا۔اس معاہدے میں پیارے نبیﷺ نے بھی شرکت کی اور ہمیشہ اس پر آپ ﷺ فخر کیا کرتے تھے۔اس معاہدے کی وجہ سے مکہ میں امن و امان قائم ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجارت
پیارے رسولﷺ نے اگر چہ سولہ برس کی عمر میں پہلا تجارتی سفر کیا تھا لیکن آپ نے با قاعدہ تجارت بیس برس کی عمر سے شروع کی ۔اس سلسلے میں آپ نے یمن اور شام کے سفر کیے اورہر جگہ آپ کی سچائی اور دیانت کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔لوگ آپ کی انہی خوبیوں کی وجہ سے آپ کو اپنی تجارت میں شریک کیاکرتے تھے۔مکہ کی ایک امیر خاتون حضرت بی بی خدیجہؓ نے جب آپﷺ کی شہرت سُنی تو آپ ﷺ کواپنے کاروبار میں شریک ہونے کی دعوت دی۔آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورے کے بعد یہ شراکت قبول کر لی اور آپﷺ حضرت بی بی خدیجہ کا سامان تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔اس سفر میں حضرت بی بی خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی آپﷺ کے ساتھ تھا۔
شام پہنچ کر آپﷺ ایک درخت کے سائے میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص صومعہ وہاں آیا۔ اس نے دیکھتے ہی کہاکہ سچے نبی کے سوا کبھی کوئی انسان اس درخت کے نیچے نہیں بیٹھا ۔حضرت بی بی خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے بھی دیکھا کہ دوپہر کے وقت جب سورج کی گرمی بڑھی تو آپ ﷺ پر ایک غیبی سایہ ہو رہا تھا۔میسرہ نے اس سفر کے دوران پیارے رسولﷺ کو بہت قریب سے دیکھا اور وہ آپ ﷺ کی اچھائیوں سے بہت متاثر ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شادی
میسرہ نے مکہ واپس آکر اپنی مالکہ حضرت بی بی خدیجہؓ کو سفر کے واقعات سُنائے اور اُن سے اس سچائی اور پاکیزگی کاذکر کیاتو حضرت بی بی خدیجہؓ اس قدر متاثر ہوئیں کہ آپﷺ نے پیارے رسول ﷺ کو شادی کاپیغا م بھجوادیا۔جسے آپﷺ نے قبول فرمالیا۔چنانچہ آپﷺ کے خاندان کے بزرگوں کی موجودگی میں حضرت بی بی خدیجہؓ سے آپﷺ کی شادی ہو گئی ۔آپﷺ کا نکاح آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالب نے پڑھایا۔شادی کے وقت آپ کی عمر پچیس (۲۵) برس تھی۔جبکہ حضرت بی بی خدیجہؓ چالیس (۴۰) سال کی تھیں ۔اب آپﷺ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔حضرت خدیجہؓ سے آپﷺ کی جو اولاد ہوئی ان میں حضرت بی بی فاطمہؓ سے آپ ﷺ کوسب سے زیادہ پیار تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صادق اور امین
لڑکپن ہی سے پیارے رسولﷺ کو لوگ صادق اور امین یعنی سچا اور امانت دار کہہ کر پکارتے تھے اور مکّے کے لوگ آپﷺ کی دل سے عزت کرتے تھے۔
ایک مرتبہ مکّے میں اس قدر سیلاب آیا کہ اس سے خانہ کعبہ کی دیواروں کو بھی نقصان پہنچا۔کعبہ چونکہ تمام قبیلوں کے لیے مقدس تھا اس لیے سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس کی دیواریں پھر سے مضبوط بنانی چاہئیں تا کہ آئند ہ سیلاب کا پانی اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
چنانچہ تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔کعبے کی ایک دیوار میں کالے رنگ کا ایک مقدس پتھر تھا۔جسے حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم سے اس دیوار میں لگایا تھا۔یہی وہ پتھر ہے جسے آج بھی ہر حاجی بوسہ دیتا ہے۔اسے حجر اسود کہتے ہیں ۔جب حجر اسود کو دیوار میں لگانے کا موقع آیا تو اس پر قبیلوں میں جھگڑا ہو گیا ۔ ہر قبیلہ چاہتا تھاکہ مقدس پتھر وہ لگائے۔آخر ایک بوڑھے آدمی نے مشورہ دیا کہ جو شخص سب سے پہلے صبح کوکعبے میں آئے وہی اس جھگڑے کا فیصلہ کرے گا۔دوسرے روز لوگوں نے دیکھا کہ صبح صبح سب سے پہلے خانہ کعبہ میں پیارے رسولﷺ پہنچے ۔لوگوں نے دیکھتے ہی کہاصادق آ گیا،امین آ گیا۔ آپ ﷺ نے ایک چادر میں حجرِ اسود کو رکھا اور تمام قبیلوں کے سرداروں کو کہا کہ چادر کے چاروں طرف سے اسے اٹھا کر دیوا ر تک لے جائیں ۔پھر آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس مقدس پتھر کو دیوار میں لگا دیا۔اس طرح آپﷺ کی وجہ سے ایک بہت بڑی لڑائی رُک گئی۔
حج کے دِنوں میں ہر سال دُور دُور سے لوگ مکہ آتے تھے ۔پیارے رسولﷺ اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ ان حاجیوں کی مہمان نوازی فرماتے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتے ۔ آپ ﷺ کو سچا اور امانت دار سمجھ کر لوگ اپنی امانتیں آپﷺ کے پاس لا کر رکھتے ۔آپﷺ غریبوں ،یتیموں اور محتاجوں کا خیال رکھتے اور ان کی ہر طرح مدد فرماتے ۔
ایک دفعہ پیارے رسولﷺ بازارسے گزر رہے تھے کہ آپﷺ نے دیکھا کہ ایک اندھی عورت ٹھوکر لگنے سے گر پڑی۔یہ دیکھ کر تمام لوگ ہنسنے لگے مگرآپﷺ نے اس کے ساتھ ہمدردی کی اور اسے اٹھایا۔اس کاہاتھ پکڑ ااور اسے گھر تک چھوڑنے گئے۔
ایک دن ایک غریب عورت سر پر لکڑیوں کا ایک گٹھا اٹھائے بازار سے جا رہی تھی۔لوگ اس کا مذاق اڑانے لگے۔آپﷺ نے لوگوں کو اس حرکت سے منع فرمایا۔اس طرح ایک مرتبہ ایک شخص بازار میں اپنی بیوی کو مار پیٹ رہا تھا۔لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔جب آپﷺ نے دیکھا تو اس شخص کو سختی سے منع کر دیا۔
ایک روز آپﷺ نے دیکھا کہ ایک غلام اپنے ہاتھوں سے چکی پر آٹا پیس رہا ہے اور تکلیف کے مارے رو رہا ہے ۔معلوم ہوا کہ وہ سخت بیمار ہے مگر اپنے مالک کے ڈر سے یہ مشقت کر رہاہے ۔آپﷺ نے اسے ہٹا یااور اس کی جگہ خود اپنے ہاتھوں سے اس کا آٹا پیس دیا۔
اس طرح آپ ﷺ غلاموں کی تکلیف میں ان کا ہاتھ بٹاتے ۔ان کی بیماری میں ان کی تیماداری کرتے ۔غریبوں ،یتیموں اور بوڑھوں کی ہر طرح مدد فرماتے۔
بچوں سے آپ کی شفقت بہت زیادہ تھی ۔ایک مرتبہ آپﷺ نے دیکھا کہ ایک بچہ سردی سے کانپتا ہوا جا رہا تھا اور اس کے جسم پر کوئی گرم کپڑا بھی نہیں تھا۔آپ ﷺ نے اس کا حال پوچھاتو اس نے کہا کہ مَیں ایک یتیم غلام ہوں اور میرا مالک مجھ پر بہت ظلم ڈھاتا ہے۔یہ سُن کر آپﷺ کے آنسو نکل آئے ۔آپ ﷺ نے اسے کپڑا اوڑھایااور اسے تسلی دی۔دوسرے دن وہی بچہ پھر نظر آیا ۔اس نے بہت بھاری بوجھ اٹھایا ہوا تھاجو اس سے اُٹھ نہیں رہا تھا۔آپﷺ نے اس کا بوجھ خود اُٹھایا اور اسے جہاں جانا تھا وہاں پہنچا دیا۔
پیارے رسولﷺ بچپن اور جوانی میں بھی ہر قسم کی برائیوں سے دُور رہے۔شرک یعنی اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا آپﷺ کو شروع ہی سے اچھا نہیں لگتا تھا۔چنانچہ بتوں سے آپﷺ کو نفرت تھی اور آپﷺ کبھی کسی بُت خانے میں نہیں گئے تھے ۔یہی وہ اچھی باتیں تھیں جن کی وجہ سے عرب کے لوگوں کے دلوں میں آپﷺ کی بہت عزت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نبوّت
پیارے رسولﷺ لوگوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنا زیادہ وقت سوچنے سمجھنے میں گزارتے اور یہ سوچتے کہ ان کی قوم کے لوگ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجاکیوں کرتے ہیں؟مکہ سے کچھ فاصلے پر ایک غار تھا حرا۔آپﷺ اکثر وہاں جا کر غوروفکر کرتے ۔اکیلے غار میں بیٹھ کر آپﷺ کئی کئی دن اللہ کی عبادت کرتے ۔اس عرصے کے لیے آپﷺ کھانے پینے کا سامان بھی ساتھ لے جاتے ۔اس زمانے میں آپﷺ کو خواب بھی سچے نظر آنے لگے تھے۔
جب آپﷺ کی عمر چالیس برس کی ہوئی تو ایک دن غار میں آپ اللہ کی یاد میں مصروف تھے۔ اچانک ایک فرشتہ آیا ،جس کانام جبریل تھا۔جو اللہ کے خاص فرشتے ہیں اور اللہ کا پیغام نبیوں تک لاتے ہیں ۔حضرت جبریل نے آپﷺ سے فرمایا :
اُس اللہ کانام لے کر پڑھ جس نے پیدا کیااور انسان کوگوشت کے لوتھڑے سے بنایا ۔پڑھ ! تیرا اللہ سب سے زیادہ عزت والا ہے ۔وہ (اللہ )جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اور جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اُسے معلوم نہ تھیں ۔‘‘
یہ سب سے پہلی وحی تھی جو آپﷺ پر نازل ہوئی ۔وحی اللہ کے پیغام کو کہتے ہیں ۔اس وحی کے بعد حضرت جبرئیل ؑ چلے گئے ۔ آپﷺ اسی حالت میں گھر آئے اور اپنی بیوی حضرت بی بی خدیجہؓ سے سارا واقعہ بیان کیا۔حضرت خدیجہؓ نے جب آپﷺ کی پوری بات سُنی تو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپﷺ ہر گز پر یشان نہ ہوں ۔مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آپﷺ پر خاص نظر ہے کیونکہ آپﷺ اپنے خاندان والوں پر مہربان ہیں ۔غریبوں کے ہمدرد اور مددگار ہیں ۔یہ کہہ کرانہوں نے آپﷺ کو کمبل اوڑھا دیا تا کہ آپﷺ آرام فرمائیں ۔
اسکے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنے چچا زاد بھائی ﷺ ورقہ بن نوفل کے پاس جا کر ساری بات انہیں سنائی تو ورقہ جو ایک بہت بڑے عالم دین تھے ۔کہنے لگے :
’’خدیجہ ! مجھے یقین ہے کہ آپ کے شوہر پر وحی نازل ہوئی ہے وہ اس امت کے نبی ہیں ۔انہیں کہنا کہ ان کی قوم کے لوگ ان کے مخالف ہو جائیں گے۔انہیں تکلیفیں پہنچائیں گے مگر وہ ثابت قدم رہیں ۔‘‘
اس وقت حضرت جبریل ؑ پھر نازل ہوئے اور اللہ کانیا فرمان آپﷺ تک پہنچایا:
’’اے کمبل میں لپٹے ہوئے محبوب! اب اُٹھ جاؤ اور لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤ ۔اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرو ۔اپنے لباس کو پاکیزہ رکھو ااور ناپاکی سے دُور رہو ۔نیکی کسی معاوضے کے خیال سے مت کرواور اپنے رب کے لیے صبر کیے رہو۔‘‘
وحی آنے سے آپ ﷺکے دل کو بہت سکون ملا اور آپﷺ بستر سے اُٹھ کر خانہ کعبہ کی طرف تشریف لے گئے ۔اس کے بعد وحی کا یہ سلسلہ کچھ عرصے کے لیے رُک گیا۔توآپﷺ بہت اُداس رہنے لگے۔ آپﷺ باقاعدگی سے غارِ حرا میں جاکر عبادت کیا کرتے تھے ۔تقریباًچھ مہینے بعد پھر آپ ﷺ کے سکون اور اطمینان کے لیے کبھی کبھی جبریل ؑ تشریف لانے لگے ۔وہ آپﷺ کو یقین دلاتے کہ آپﷺ اللہ کے سچّے نبی ہیں ۔
آپﷺ نے جب نبوت کااعلان فرمایا تو گھر کی عورتوں میں آپﷺ کی بیوی حضرت خدیجہؓ ، بچوں میں آپﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ ،غلاموں میں آپ ﷺکے غلام زید بن حارثؓ اور دوستو ں میں حضرت ابو بکرؓ فوراًآپ پر ایمان لے آئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق کا پیغام
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے اعلان کے ساتھ ساتھ لوگوں کو حق کا پیغام دینا شروع کر دیا۔آپﷺ نے انہیں سمجھایا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں ۔بتوں کی پوجا چھوڑ دیں ۔ برائیوں سے دُور رہیں اور نیکیوں پر عمل کریں۔آپﷺ نے لوگوں کو جو باتیں بتائیں ان میں سب سے پہلی بات یہ تھی کہ اللہ ایک ہے۔اس کاکوئی شرک نہیں ۔اس نے زمین،آسمان اور تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ وہی سارے جہانوں کا مالک ہے۔سورج،چاند،ستارے ،ہوا ،پانی اور آگ اس کے حکم کو مانتے ہیں ۔ پھل ،پھول ،درخت ،پہاڑ اور دریا سب اس نے پیدا کیے ہیں ۔نہ اس کو کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے ۔خوشی ،غم ،عزت ،ذلّت سب اس کی طرف سے ہے۔اسلام کے اس عقیدے کو توحید کہتے ہیں ۔
آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے زمین اور آسمان کے تمام کاموں کے لیے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جنہیں ہم فرشتے کہتے ہیں ۔فرشتے ہر وقت عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اللہ کے حکم کو پورا کرتے ہیں ۔اسی طرح انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ نے جن نبیوں کو دنیا میں بھیجا اور ان پر جو مقدس کتابیں نازل کیں انہیں ماننابھی ضروری ہے۔
آپﷺ نے پھر فرمایاکہ ہر جاندار کو ایک نہ ایک د ن ضرور مرنا ہے ۔مرنے کے بعد ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ہمارے کاموں کا حساب لیا جائے گا ۔جس نے اچھے کام کیے ہوں گے اسے جنت میں جگہ ملے گی اورجس نے بُرے کام کیے ہوں گے اسے دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا ۔اسے آخرت کی زندگی کہتے ہیں ۔
جو شخص ان باتوں کو زبان کے ساتھ ساتھ دل سے بھی مانے اور ان پر عمل کرے وہی مسلمان اور مومن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبلیغ
تبلیغ کا مطلب ہے پہنچانا اور اس سے مراد اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے۔پیارے رسولﷺ نے سب سے پہلے اسلام کی تبلیغ اپنے گھر میں کی۔اس کے بعد اپنے خاندان اور دوستوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ لوگ آپﷺ پر ایمان لانے لگے۔تبلیغ کا یہ سلسلہ خاموشی سے جاری رہااور اللہ کے سچے دین کی شہرت لوگوں کے اندر ہی اندر پھیلتی گئی ۔مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی ۔ تین سال تک تو آپﷺ خاموشی سے تبلیغ فرماتے رہے ۔آخر آپﷺ کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ :
’’اے نبیﷺ !جو کچھ تمہیں حکم دیا گیا ہے کھلم کھلا کہہ دو۔‘‘
چنانچہ آپ نے صفا کے پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا ۔جب لوگ اکٹھے ہو گئے تو آپﷺ نے فرمایا:
’’اے قریش ! اگر مَیں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر آرہا ہے ،تو کیا تم یقین کر لوگے ۔‘‘
سب سے کہا:
’’کیوں نہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے کہ تم سچے ہو اور ہم نے تمہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’تو سُن لو! کہ مَیں تمھیں آنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں کہو کہ اللہ ایک ہے ،اس کاکوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔‘‘
یہ سُن کر قریش بہت ناراض ہوئے اور واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن آپﷺ نے ان لوگوں کی ناراضی کی کوئی پروا نہ کی اور لوگوں کو بت پرستی سے منع کرتے رہے اور اچھے کاموں پر زور دیتے رہے ۔
چند دن بعد اللہ کے حکم سے پیارے رسولﷺ نے اپنے خاندان والوں کو اپنے گھر اکٹھا کیا اور ان کی دعوت کی۔ جب تمام لوگ کھانا کھا چکے تو آپﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے اور آپ سب کے لیے ضروری ہے کہ میری بات غور سے سُنیں اور اس پر عمل کریں ۔‘‘
؂پیارے رسولﷺ نے انہیں اللہ کے سچے دین یعنی اسلام کا پیغام پہنچایا۔انہیں اچھی اچھی باتیں بتائیں اور پھر فرمایا:
’’اس عظیم کام میں میرا ساتھ دیں کیونکہ آپ میرے خاندان سے ہیں ۔‘‘
پھر فرمایا:
’’اس مشکل کام میں کون کون میرا ساتھ دے گا؟‘‘
یہ سنتے ہی سب خاموش ہو گئے ۔صرف آپﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ جن کی عمر تقریباً۹ برس کی تھی اور جو آپﷺ کے پاس ہی رہتے تھے اپنی جگہ اٹھے اور کہا:
’’اگر چہ مَیں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور کمزور ہوں مگر اس عظیم کام میں آپﷺ کا
ساتھ دوں گا۔‘‘
تمام لوگ یہ سُن کر ہنسنے لگے اور اپنے گھروں کو چلے گئے مگر حضرت علیؓ نے بچپن میں جو وعدہ کیا تھا اُسے آخر تک نبھایا اور ہر مشکل وقت میں آپﷺ کا ساتھ دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخالفت
پیارے رسولﷺ مخالفتوں کی پروا کیے بغیر اللہ کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچاتے رہے چنانچہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔یہ دیکھ کر مکہ کے لوگ آپﷺ کے سخت مخالف ہوگئے اور آپﷺ کو طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے ۔انہوں نے آپﷺ کے ساتھیوں کو ستانا شروع کر دیا۔ جب آپﷺ مکے کے گلی کوچوں سے گزرتے تو مخالف آپ ﷺ پر آوازیں کستے ۔گالیاں دیتے ۔ آپﷺ کے راستے میں کوڑا پھینکتے ۔ان حالات میں بھی آپ صبر سے کام لیتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی صبر سے کام لینے کی ہدایت فرماتے۔
ایک دن پیارے رسولﷺ خانہ کعبہ تشریف لے گئے ۔آپﷺ نے وہاں حق کی آواز بلند کی تو مکے کے کافروں نے چاروں طرف سے آپﷺ پر حملہ کر دیا۔یہ دیکھ کر حضرت حارثؓ بن ابی ہالہ آپ ﷺ کی مدد کو لپکے تو کافروں کی تلواروں کا نشانہ بن گئے۔اسلام کی راہ میں یہ پہلے شہید تھے۔آپﷺ کو بہت دُکھ ہوا۔
آپﷺ نے اپنا کام اب اور تیز کر دیااور کھلے عا م تبلیغ شروع کر دی۔ابتدائی چار مسلمانوں کے علاوہ شروع میں مکہ کے جو لوگ مسلمان ہوئے ان کے نام یہ ہیں ۔
ابو ذر غفاریؓ ،زیدؓ ،جعفرؓ بن ابی طالب ،بلالؓ ،عمارؓ یاسر ،زوجہ یاسرؓ ،سمیہؓ ،ارقمؓ ،خبابؓ ،عمروؓ بن عنبسہ ،خالدؓ بن سعید ،عثمانؓ ،طلحہؓ ، عبدا لرحمٰنؓ بن عوف اس طرح اب مسلمانوں کی تعداد بیس کے قریب ہوگئی ۔
جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی کافروں کی دشمنی بھی بڑھ رہی تھی ۔وہ آپﷺ کی جان کے دشمن ہو گئے مگر آپﷺ پر ہاتھ اس لیے نہیں ڈالتے تھے کہ وہ آپﷺ کے چچا حضرت ابو طالب سے ڈرتے تھے جو مکے کے ایک با اثر شخص تھے۔اس کے باوجود دشمن موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ ایک دن آپﷺ خانہ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ایک بد بخت نے اپنی چادر کو آپﷺ کے گلے میں ڈال کر اتنے زور سے کھینچا کہ آپکا دَم گھٹنے لگا۔اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آگئے اور انہوں نے اس بدبخت کو ہٹا یا مگر یہ دیکھ کر سب کافروں نے حضرت ابو بکرؓ کو مار مار کر زخمی کر دیا۔
ایک دن آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ کافروں کا سردار ابو جہل اپنے ساتھیو ں کے ساتھ اُدھر سے گزرا ۔اس نے اونٹ کی اوجھڑی منگوا کر سجدے کی حالت میں آپ ﷺ کی گردن پر رکھوا دی ۔ اوجھڑی اتنی وزنی تھی کہ آپ ﷺ سجدے سے سر نہ اُٹھا سکے۔کافروں نے دیکھا تو بہت خوش ہوئے ۔ جب آپﷺ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کو پتہ چلا تو وہ دوڑی ہوئی آئیں اور اوجھڑی کو آپﷺ کی گردن سے ہٹایا ۔
کافر نہ صرف آپﷺ پر سختیاں کرتے تھے بلکہ آپﷺکے ماننے والوں کو تپتی ریت پر لٹاتے ۔ان کے سینوں پر بھاری پتھر رکھ دیتے ۔کوڑے مارتے ۔درختوں پر اُلٹا لٹکا دیتے ۔لیکن ان تکلیفوں اور سختیوں کے باوجود آپﷺ کے ساتھیوں کا ایمان اور مضبوط ہوتاجاتا ۔ان سختیاں سہنے والوں میں حضرت بلالؓ تھے جو ایک حبشی غلام تھے اور آپﷺ کے مؤذن بھی تھے ۔عمارؓ بن یاسر تھے جن کے والد حضرت یاسرؓ اوروالدہ حضرت سمیہؓ کافروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے ۔کافروں کی سختیوں کا نشانہ بننے والوں میں حضرت خبابؓ تھے۔ حضرت صہیبؓ تھے ۔حضرت لبینہؓ تھیں ۔حضرت زنیرہؓ تھیں اور حضرت اُمّ عبیسؓ تھیں ۔اس طرح مسلمان مردوں کے ساتھ ساتھ مسلمان عورتوں نے بھی دینِ حق کی راہ میں تکلیفیں برداشت کیں لیکن وہ اپنے راستے سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ انہیں اسلام کی سچائی پر مکمل یقین تھا۔
کافروں نے جب دیکھا کہ ان کی مخالفت کے باوجود مسلمانوں کی تعداد روز بروزبڑھتی ہی جا رہی ہے تو ان کے سردار آپس میں صلاح کر کے آپﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کے پاس پہنچے اور ان سے آپﷺ کی شکایت کرنے لگے کہ آپ کا بھتیجا محمدﷺ ہمارے خداؤں کی توہین کرتا ہے۔ہمارے باپ دادا کو گمراہ کہتا ہے اور ہمیں احمق سمجھتا ہے۔آپ اسے سمجھا دیں کہ وہ باز آجائے یا آپ راستے سے ہٹ جائیں تا کہ ہم خود کچھ کر سکیں ۔کافروں کی باتیں سن کر حضرت ابوطالب نے آپ سے بات کی تو آپﷺ نے فرمایا:
’’چچا جان ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں تو بھی مَیں اس فرض کی ادائیگی سے باز نہ آؤ ں گا ۔مَیں جو کچھ کر رہا ہوں اللہ کی مرضی سے کر رہاہوں۔مَیں اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا رہوں گا چاہے مجھے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔‘‘
پیارے رسولﷺ کا یہ جواب سُن کر آپﷺ کے چچا نے کہا:
’’بھتیجے ! جاؤ اپنا کام جاری رکھو۔جب تک مَیں زندہ ہوں کوئی تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔‘‘
کافروں نے جب یہ دیکھا کہ آپﷺ اتنی سختیوں کے باوجود تبلیغ کاکام جاری رکھے ہوئے ہیں تو انہوں نے آپﷺ کو طرح طرح کے لالچ دینا شروع کیے لیکن آپﷺ نے اللہ کی راہ میں ہر چیز کو ٹھکرا دیا۔
اسی ثناء میں آپ کے چچا حضرت حمزہؓ بھی اسلام لے آئے ۔حضرت حمزہؓ بڑے بہادر تھے ۔ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی طاقت بڑھ گئی۔اسی طرح حضرت عمرؓ بھی اسلام لے آئے۔حضرت عمرؓ بھی بڑے شہ زور تھے۔ ان کے مسلمان ہونے کا یہ اثر ہوا کی مسلمان جو اب تک ایک صحابی ارقمؓ کے گھر میں اکٹھے ہو کر عبادت کرتے تھے اور آپﷺ سے دین کی باتیں سیکھتے تھے اب کھلم کھلا خانہ کعبہ میں عبادت کرنے لگے اور یوں اسلام کی تبلیغ عام ہونے لگی ۔دوسری طرف کافروں کے ظلم و ستم میں بھی اضافہ ہونے لگا ۔
جب پیارے رسولﷺ نے یہ دیکھا کہ مکے میں مسلمانوں کا عبادت کرنا مشکل ہو گیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کی جو مسلمان مکے سے جانا چاہتے ہوں وہ حبشہ کے بادشا ہ نجاشی کے پا س چلے جائیں ۔ وہ بہت نیک ہے اور دین پھیلانے کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گاچنانچہ گیارہ مردوں اور چار عورتوں کا قافلہ حبشہ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔یہ لوگ جب حبشہ پہنچے تو نجاشی نے انہیں بڑی عزت سے رکھا۔جب کافروں کو پتہ چلا تو انہوں نے مسلمانوں کا پیچھا کیااور نجاشی سے جا کر شکایت کی ۔نجاشی نے مسلمانوں کو بلایا اور ان سے پوچھا تو حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفرؓ بن ابو طالب نے جو مسلمانوں کے سردار تھے دربار میں تقریر کی:
’’اے بادشاہ !ہم بے سمجھ تھے ۔جاہل تھے۔بُت پرستی کرتے تھے ۔مُردار کھاتے تھے ۔بُرے کام کرتے تھے۔گالیاں بکتے تھے ۔ناپاک رہتے تھے ۔پڑوسیوں کو ستاتے تھے ۔ایک دوسرے پر ظلم کرتے تھے ۔آپس میں لڑتے تھے۔طاقتور کمزور کو ستاتے تھے ۔اتنے میں ہم میں سے ایک ایسے شخص پیدا ہوئے جن کی بزرگی ، سچائی اور ایمانداری کوہم سب اچھی طرح جانتے تھے۔وہ بہت ہی نیک ہیں ۔انہوں نے ہمیں سیدھی راہ دکھائی ۔حق کا راستہ بتایا ۔آپس میں محبت کرنا سکھایااور کہا کہ ہم بتوں کو پوجنا چھوڑ دیں ۔سچ بولیں۔ ظلم نہ کریں ۔یتیموں کا مال نہ کھائیں ۔پڑوسیوں کو نہ ستائیں ۔عورتوں پر الزام نہ لگائیں ۔نماز پڑھیں ۔اللہ کی راہ میں خرچ کریں ۔آپس میں محبت اور اتفاق سے رہیں ۔ہم نے انہیں اللہ کا نبی مانا۔ان کی باتوں پر عمل کیا۔اس پر ہماری قوم دشمن بن گئی اور ہمیں ستانے لگی۔اب وہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اُن ﷺ کوچھوڑ کر اسی گمراہی میں چلے جائیں ۔ہم اس لیے اپنا وطن چھوڑ کر یہاںآئے ہیں ۔‘‘
نجاشی نے اس کے بعد قرآن مجید کی چند آیات سُنیں تو اس نے کافروں کو واپس چلے جانے کا حکم دیا اور مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کیا ۔چند دن بعد وہ خود بھی عیسائی سے مسلمان ہو گیا۔
پیارے رسولﷺ نے اس وقت ہجرت نہیں کی ۔وہ خود مکے ہی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہے اورکافروں کو اس نئے دین کے پھیلنے کا بہت رنج تھا ۔چنانچہ ان کے سرداروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ قبیلہ بنی ہاشم کے ساتھ جن سے آپﷺ کا تعلق تھاکھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا،خریدو فروخت ،بات چیت، شادی بیاہ وغیرہ سب کچھ بند کر دیا جائے ۔ کافروں کے اس فیصلے کے نتیجے میں آپ ﷺ اور آپﷺ کے خاندان کے لوگوں کو پہاڑ کی ایک گھاٹی میں قید کر دیا گیا۔اس گھاٹی کا نام شعب ابی طالب تھا۔ پیارے رسولﷺ تین سال تک اس گھاٹی میں گھِرے رہے۔اس عرصے میں جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیاتو مسلمان درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرنے لگے۔کئی کئی دن تک فاقے سے گزرتے لیکن ا س حال میں بھی پیارے رسولﷺ اللہ کے دین کی باتیں بتاتے رہے ۔کافر سمجھتے تھے کہ اتنی تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد مسلمان اپنے نبیﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں گے لیکن کافروں کی دال نہ گلی اور مسلمان پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ دین پر قائم رہے ۔آخر خود کافروں کے چند آدمیوں کے دل میں رحم آیا اور انہوں نے اس فیصلے کو ختم کر دیا۔ اس طرح خاندان بنی ہاشم کو آزادی کی فضا نصیب ہوئی ۔
ابھی یہ آزمائش ختم ہی نہ ہوئی تھی کہ آ پﷺ کے ہمدرد اورسر پرست چچا حضرت ابو طالب وفات پا گئے اور ان کی وفات کے کچھ ہی دن بعد آپﷺ کی غم خوار بیوی حضرت بی بی خدیجہؓ بھی وفات پا گئیں ۔پیارے رسولﷺ کو ان صدموں سے بہت رنج پہنچا ۔اسی لیے آپﷺ اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہا کرتے تھے۔مکے کے کافر حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کا بہت لحاظ کرتے تھے ۔ اب دونوں کے اُٹھ جانے سے انہوں نے آپ ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو اور بھی ستانا شروع کر دیا۔
اس عرصے میں ایک مرتبہ آپﷺ مکے کے قریب طائف کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے تشریف لے گئے ۔آپﷺ کے غلام زیدؓ بن حارث آپﷺ کے ساتھ تھے ۔آپﷺ نے جب اللہ کا پیغا م دینا شروع کیا تو لوگوں نے آپﷺ کی بات نہ مانی اور آوارہ لڑکوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا ۔آپﷺ جس طرف سے گزرتے وہ آپﷺ کو گالیاں بکتے اور پتھر مارتے ۔اتنے پتھر لگے کہ آپﷺ کے مبارک پاؤں لہولہان ہو گئے ۔آپﷺ کے ساتھی زیدؓ بھی زخمی ہو ئے ۔آخر تھک ہار کر آپ ﷺنے ایک باغ میں پناہ لی ۔یہ ظلم بر داشت کر کے بھی آپﷺ نے طائف کے لوگوں کے حق میں بد دُعا نہیں کی بلکہ ہر گالی کے بد لے میں آپﷺ انہیں دعائیں دیتے تھے ۔
طائف کے لوگو ں کی اس بد سلوکی کے باوجود آپ مایوس نہیں ہوئے اور آپﷺ نے واپس مکہ آ کر فیصلہ کیا کہ ایک ایک قبیلے میں جا کر اللہ کا پیغام سنائیں ۔چنانچہ حج کے دنوں میں جب عرب کے کونے کونے سے لوگ خانہ کعبہ میں آتے تھے ،آپﷺ نے ہر قبیلے کو اسلام کی دعوت دی ۔انہی میں یثرب یعنی مدینہ منورہ کے دو بڑے قبیلوں کے چند آدمی بھی آپﷺ کے پاس آئے توایمان لے آئے ۔ دوسرے سال مدینے سے پہلے سے زیادہ آدمی آئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔ان لوگوں نے آپﷺ کومدینہ آنے کی دعوت دی اور یقین دلایا کہ وہ مدینے میں آپﷺ کی پوری پوری مددکریں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معراج
معراج کے معنی ہیں سیڑھی اور اس سے مراد بلندی ہے۔پیارے رسولﷺ کو اللہ کے حکم سے معراج حاصل ہوئی ۔اس واقعے کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔آپﷺ خانہ کعبہ سے حضرت جبریل ؑ کے ساتھ ایک نہایت تیز رفتار سواری براق کے ذریعے مدینہ منورہ سے ہوتے ہوئے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے ۔وہاں تمام نبیوں کے روحیں موجود تھیں ۔آپﷺ نے ان کی جماعت کو نماز پڑھائی ۔پھر آپﷺ آسمانوں کی طرف تشریف لے گئے اور آخر ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ کا جلوہ آپﷺ نے اپنی آنکھوں سے دیکھااور اللہ تعالیٰ سے آپﷺ نے باتیں کیں ۔اس سفر کے دوران آپﷺ نے جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا۔ایک طویل وقت گزارنے کے بعد جب آپﷺ واپس زمین پر تشریف لائے تو یہاں کے حساب سے چند لمحے ہی گزرے تھے ۔جب آپ ﷺنے مکہ میں یہ سب باتیں کیں تو کافروں کے سردا رابو جہل نے مذاق اڑایا لیکن جو لوگ آپﷺ کو سچا جانتے تھے انہوں نے اسے بالکل سچ جانا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہجرت
ہجرت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا۔جب مکے والوں نے مسلمانوں کو بہت ستایا تو ہمارے رسولﷺ نے اپنے ساتھیوں کو مکہ چھوڑ کر حبشہ چلے جانے کا حکم دیا چنانچہ کچھ لوگوں نے پہلی بار اللہ کے دین کی راہ میں ہجرت کی۔اس کے بعد مکے کے کافروں نے جب مسلمانوں کو اور ستایا توآپﷺ نے اپنے ساتھیوں کو پھر ہجرت کر نے کا حکم دیا۔اس مرتبہ مسلمان مکے کو چھوڑ کر مدینہ منورہ گئے۔آہستہ آہستہ مسلمان مدینہ پہنچنے لگے اور آخر میں اللہ کے حکم سے پیارے رسول ﷺ کو بھی مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔
اِدھر کافروں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سب مل کر آپﷺ کو قتل کر ڈالیں ۔آپﷺ نے مکہ چھوڑنے کا پکا ارادہ کر لیا۔اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ سے آپﷺ نے فرمایا کہ آج رات تم میرے بستر پر سوجا نا اور صبح میرے بعد مدینہ چلے آنا۔حضرت علیؓ نے آپﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور بے خوفی سے آپﷺ کے بستر پر سو گئے ۔کافروں نے آپﷺ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھالیکن آپﷺ رات کے اندھیرے میں چپکے سے گھر سے نکلے اور اپنے دوست حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر چل دئیے اور مکے سے کچھ دور ثور نامی ایک غار میں چھپ گئے۔صبح جب کافروں نے آپﷺ کے بستر پر حضرت علیٰ ؓ کو سوتے دیکھا تو بڑے پریشان ہوئے اور چاروں طرف اپنے آدمیوں کو آپﷺ کا پیچھا کرنے کے لیے دوڑایا۔
پیارے رسولﷺ تین دن تک اس غار میں رہے۔اگلے دن آپﷺ باہر آئے اور مدینے کی طرف روانہ ہو گئے ۔مدینے سے باہر مسلمان کئی دنوں سے آپﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔جب انہوں نے آپﷺ کو آتے دیکھا تو بہت خوش ہوئے ۔عورتیں اور ننھی بچیاں آپ کو دیکھ کر گیت گانے لگیں ۔قبا کے مقام پر آپﷺ نے ایک مسجد کی تعمیر کی ۔جسے اسلام کی پہلی مسجد کہا جاتا ہے۔یہاں حضرت علیؓ بھی مکے سے آکر آپﷺ کے ساتھ مل گئے۔ قبا سے آپﷺ مدینہ روانہ ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر آپﷺ نے نماز جمعہ ادا کی ۔یہ پہلی نماز جُمعہ تھی ۔مدینے میں ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ آپﷺ اس کے گھر مہمان ہوں لیکن آپﷺ نے یہ معاملہ اپنی اونٹنی پر چھوڑ دیاکہ وہ جہاں جا کر بیٹھے گی آپﷺ اس گھر کے مہمان ہوں گے۔اس طرح یہ عزت حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قسمت میں آئی۔ آپﷺ سات ماہ تک ان کے گھر رہے ۔یہاں آپﷺ نے ایک مسجد بنوائی جسے مسجدِ نبویﷺ کہا جاتا ہے۔اسی مسجد کے ایک حجرے میں آپﷺ کا گھر بنایاگیا۔
مدینے کے مسلمانوں نے مہاجر یعنی ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھااور ان کی دل کھول کر مدد کی۔انہیں انصار یعنی مدد کرنے والے کہا جاتا ہے۔مدینے میں آکر مسلمانوں کو کافروں کے ظلم و ستم سے چین ملااور وہ امن و سکون کی زندگی گزارنے لگے ۔اب انہیں جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔اذان بھی یہیں شروع کی گئی ۔مسلمانوں میں ہجری سال کا آغاز بھی ہجرت کے اسی واقعے سے ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگِ بدر
پیارے رسولﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اگر چہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تھے لیکن مکہ کے کافروں نے پھر بھی آپﷺ کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ آپس میں یہ مشورے کرتے رہے کہ کس طرح آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کوتنگ کریں ۔
مدینے میں یہودی بھی رہتے تھے۔پہلے پہل تو انہوں نے مسلمانوں کو کچھ نہ کہا۔لیکن جب دیکھا مسلمانوں کی تعداد تیزی کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے تو وہ بھی ان کے دشمن بن گئے ۔اسی طرح ایک اور گروہ بھی تھا جو اوپر اوپر سے مسلمان تھا لیکن دل سے کافروں کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ان لوگوں کومنافق کہتے ہیں۔مکے کے کافروں نے مدینے کے یہودیوں اور منافقوں کو اپنے ساتھ ملایااور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کرنے لگے ۔پیارے رسولﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے بھی مسلمانوں کو تیار رہنے کا حکم دیا۔ابھی مسلمانوں کو مدینہ آئے دوسرا سال ہی ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ مکے کے کافروں کا ایک بڑا لشکر مدینے پر حملہ کرنے آرہا ہے۔پیارے رسولﷺ نے بھی اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیااور مدینے سے کچھ دور بدر کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے۔مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی جبکہ کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی۔رات ہو چکی تھی۔ دونوں لشکر آرام کر رہے تھے لیکن آپﷺ اللہ کے حضور میں دُعا فر ما رہے تھے ۔
’’اے اللہ ! یہ کافر بڑے غرور کے ساتھ آئے ہیں تا کہ تیرے نبیﷺ کو جھوٹا ثابت کریں ۔اے اللہ ہماری مدد فرما۔اگر آج یہ مٹھی بھر مجاہد مارے گئے تو پوری دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘
یہ دُعا قبول ہوئی او ر اس جنگ میں اللہ کی مدد سے مسلمانوں نے کافروں کو زبردست شکست دی ۔ اس جنگ میں کافروں کے ستر آدمی مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے ۔مارے جانے والوں مسلمانوں کا جانی دشمن ابو جہل بھی تھا۔مسلمانوں میں سے صرف چودہ مجاہدوں نے شہادت پائی۔ شہادت اس موت کو کہتے ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے مسلمان کو حاصل ہوتی ہے۔اس جنگ میں مسلمانوں کی طرف سے جہاں حضرت حمزہؓ ،حضرت علیؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ جیسے بہادر جوانوں نے اپنی بہادری کے جو ہردکھائے وہاں دو ننھے مجاہدوں معوذؓ اور معاذؓ کے بہادری کے کارنامے بھی ہماری اسلامی تاریخ کا ایک اہم حصّہ ہیں ۔جب پیارے رسولﷺ اس جنگ کے لیے مسلمان مجاہدوں کی بھرتی فرما رہے تھے تو یہ دونوں بھائی بھی جو بچے تھے آپﷺ کی خدمت میں آئے اور جنگ کی اجازت چاہنے لگے ۔آپﷺ نے فرمایا کہ تم ابھی چھوٹے ہو۔تمہارے لیے جہاد یعنی اللہ کی راہ میں کافروں کے خلاف لڑنا مناسب نہیں لیکن ان بچوں نے جب بہت ضد کی تو آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی ۔ دونوں بھائیوں نے بدر کے میدان جنگ میں بہادری کے ایسے کارنامے دکھائے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے ۔انہی مجاہدوں نے کافروں کے سردار ابو جہل کو قتل کر دیا جس سے دشمن کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔اسلام اور کفر کے درمیان یہ پہلی جنگ تھی جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔
کافروں کے جو قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے ان کے ساتھ آپﷺ نے اچھاسلوک کرنے کا حکم دیا اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہچائی ۔اس سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر روزے رکھنے کی عبادت فرض ہوئی اور مسلمانوں نے پہلی عید بھی منائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگِ اُحد
مکے کے کافروں کو بدر کی شکست کا بہت دُکھ تھا چنانچہ انہوں نے اپنی اس ناکامی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ان کے سردار ابو سفیان نے سب کافروں کو اکٹھا کیااور اندر ہی اندر یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاریاں کرنے لگے ۔آخر ہجرت کے تیسرے سال ابو سفیان کی سرداری میں کافروں کا تین ہزار کا لشکر مدینے کی طرف چل پڑا۔جب پیارے رسولﷺکو اس کا علم ہو اتو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور ان سے مشورہ لیا کہ کافروں کا مقابلہ شہرمیں رہ کر کیا جائے یا شہر سے باہر کھلے میدان میں ۔منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے مشورہ دیا کہ مقابلہ شہر میں رہ کر کیا جائے ۔ جبکہ نوجوا ن اور جوشیلے مسلمانوں کا خیال تھا کہ مقابلہ شہر سے باہر جاکر کیا جائے ۔پیارے رسولﷺ نے بھی یہی فیصلہ کیا اور تقریباًایک ہزار کا لشکر لے کر آپﷺ مدینہ سے باہر روانہ ہو گئے۔راستے میں منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا کہ اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ اب مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی۔ان میں کچھ کم عمر مجاہد بھی تھے۔آپﷺ نے مدینے سے باہر اُحد پہاڑ کے دامن میں اپنے لشکر کی صفیں ترتیب دیں ۔چند مسلمان تیر اندازوں کو یہ حکم دیا کہ وہ پہاڑ کے ایک درے کی نگرانی کریں تا کہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کر سکے ۔جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں میں سے حضرت علیؓ ،حضرت حمزہؓ اور حضرت ابو دجانہؓ نے بہادری کے بے مثال جو ہر دکھائے ۔وہ لڑتے لڑتے دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور انہوں نے بہت سے کافروں کاکام تمام کر دیا ۔حضرت حمزہؓ کوابو سفیان کے غلام وحشی نے شہید کر یااور ابو سفیان کی بیوی نے دشمنی میں حضرت حمزہؓ کی لاش کے ناک ،کان کاٹ دئیے اور ان کا کلیجہ نکال کر کچا چبا گئی۔
مسلمانوں کے حملوں سے کافروں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔اب مسلمانوں کو اپنی فتح یقینی نظر آنے لگی ۔یہ دیکھ کر درّے کی حفاظت پر مقرر مسلمان تیر اندازوں نے درّے کو چھوڑ دیا۔یہ زبر دست غلطی تھی چنانچہ پیچھے سے کافروں کا ایک دستہ وہاں سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو گیا۔مسلمان اس اچانک حملے سے گھبرا گئے اور وہ آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھیرے میں آگئے ۔مسلمانوں کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہو گئے۔ان کی شکل پیارے رسولﷺ سے ملتی تھی چنانچہ یہ افواہ پھیل گئی کہ خدانخواستہ حضورﷺ شہید ہو گئے ہیں ۔ مسلمانوں پر مایوسی چھا گئی اور ان کے حوصلے ٹوٹ گئے لیکن پیارے رسولﷺ اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ اپنی جگہ پر ڈٹے رہے ۔مسلمانوں کو جب پتہ چلا کہ آپﷺ زندہ ہیں تو انہیں کچھ تسلی ہوئی اور انہوں نے دوبارہ کافروں پر حملہ کر دیا جس پر ابو سفیان اپنے لشکر کو لے کر واپس چلا گیا اور جاتے ہوئے یہ کہہ گیا کہ ہم اگلے سال پھر بدر کا بدلہ لینے آئیں گے ۔اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا۔ان کے ستر مجاہد شہیداور چالیس زخمی ہوئے۔خود حضورﷺ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگِ خندق
مسلمانوں کے تین بڑے دشمن تھے ۔کافر ،منافق اور یہودی ۔
یہودیوں نے کافروں کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ مسلمانوں کی طاقت کو کسی نہ کسی طر ح ختم کرنا چاہیے چنانچہ انہوں نے ہجرت کے پانچویں سال چوبیس ہزار کا ایک بڑا لشکر تیار کیا اور مدینے پر چڑھائی کر دی ۔اس لشکر کا سردار ابو سفیان تھا۔
پیارے رسولﷺ کوجب علم ہوا تو آپﷺ نے اپنے جاں نثاروں کو اکٹھا کیااور ان سے مشورہ لیا کہ اتنے بڑے لشکر کاکیسے مقابلہ کیا جائے ؟
حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا کہ کھلے میدان میں لڑنے کی بجائے شہر کے چاروں طرف ایک خندق یا کھائی کھود لی جائے اور مسلمان اس کھائی میں پنا ہ لے کر دشمن کے خلاف لڑیں تو بہتر ہو گا۔آپﷺ نے یہ تجویز مان لی اور مسلمانوں نے مل کر یہ خندق کھودی ۔ اب مسلمان مدینے کے اندر تھے اور دشمن باہر ،درمیان میں خندق تھی۔کافر بار بار حملے کی کوشش کرتے لیکن ناکام رہتے ۔بیس دن تک دشمنوں کا لشکر مدینے کے چاروں طرف گھیرا ڈالے رہا۔ ایک دن کافروں نے ایک جگہ سے حملہ کر دیا۔ان کا ایک بڑا پہلوان عمر ابن عبد ود گھوڑے پر خندق پھلانگ کر آگے بڑھاتو حضرت علیؓ نے اپنی تلوار سے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ادھر اللہ کی قدرت سے اتنی سخت آندھی چلی کہ دشمنوں کے خیمے اُکھڑ گئے ۔اس طرح دشمنوں میں مایوسی پھیل گئی اور وہ واپس چلے گئے۔مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح دی ۔او ر مدینہ بھی بچ گیا ۔اس جنگ کو جنگِ احزاب بھی کہتے ہیں۔ اس میں بہت سے لشکر شامل تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صُلح حُدیبیہ
مسلمانوں کومکے سے گئے ہوئے پورے چھ سال ہو چکے تھے اور وہ اللہ کے گھر خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے بے چین تھے۔سب کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وہ یہ زیارت کریں، چنانچہ اس نیت کے ساتھ پیارے رسولﷺ اپنے ساتھ چودہ سو (۱۴۰۰) مسلمانوں کو لے کر مکے کی طرف روانہ ہوئے ۔آپ ﷺ کا ارادہ ہر گز لڑائی کا نہ تھا لیکن کافر سمجھے کہ مسلمان لڑائی کے لیے آ رہے ہیں۔آپﷺ نے انہیں پیغام بھجوایا کہ ہم لڑنا نہیں چاہتے ۔صرف اللہ کے گھر کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اور بہتر یہ ہے کہ قریش مکہ ہم سے صلح کامعاہدہ کر لیں ۔
بات چیت ہوتی رہی ۔آخر حدیبیہ کے مقام پر ایک معاہدہ طے پایا کہ اس سال مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کے بغیر واپس چلے جائیں ۔پھر اگلے سال آئیں اور ہتھیار ساتھ نہ لائیں ۔مکے سے جو مسلمان مدینہ جائے اس کو واپس کر دیا جائے اور مدینے سے جو آدمی بھاگ کر مکے آئے تو اس کو واپس نہیں کیا جائے گا۔یہ شرطیں ظاہری طور پر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں لیکن آخر اس کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں اچھا نکلا۔
پیارے رسولﷺ نے ان شرطوں کو قبول فرمایااور مسلمان اس سال خانہ کعبہ کی زیارت کے بغیر واپس مدینہ چلے گئے ۔یہ صلح دراصل مسلمانوں کی جیت تھی جسے قرآن مجید میں فتح مبین یعنی کھلی فتح کہا گیاہے۔
اس سال پیارے رسولﷺ نے عرب کے ہمسایہ ملکوں ایران، روم اور مصر کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطوط لکھے۔اُدھر عرب کے کونے کونے میں اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا ۔اس سال اتنے زیادہ لوگ مسلمان ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگِ خیبر
یہودی مدینے سے نکل کر عرب کے مختلف علاقوں میں آباد ہو چکے تھے ۔ان کا سب سے بڑا مرکز خیبر تھاجو شام کی سرحد کے قریب تھا۔یہاں یہودیوں کے کئی قلعے تھے۔پیارے رسولﷺ کو پتہ چلا کہ یہودی مسلمانوں پر ایک زبردست حملہ کرنا چاہتے ہیں ،چنانچہ آپﷺ مسلمانوں کا ایک بڑا لشکر تیار کر کے خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔مسلمانوں نے کئی چھوٹے چھوٹے قلعے فتح کر لیے ۔صرف ایک بڑا قلعہ رہ گیاجہاں یہودیوں کا سردار مرحب رہتاتھا۔کئی دن تک لڑائی ہوتی رہی ۔آخر آپﷺ نے ایک دن فرمایا:
’’کل مَیں اسلامی فوج کا پر چم اس شخص کو دوں گا جس سے اللہ اور اس کارسولﷺ دونوں محبت کرتے ہیں اور جس کے ہاتھ پر اللہ مسلمانوں کوفتح دے گا۔‘‘
بڑے بڑے بہادر مجاہدوں نے رات اس بے چینی سے گزاری کی دیکھیں صبح خیبر کی فتح کس کے مقدر میں ہوتی ہے۔صبح ہوئی تو آپﷺ نے اسلامی فوج کا پر چم حضرت علیؓ کے سپرد کرتے ہوئے انہیں فرمایا:
’’اے علیؓ ! جاؤاللہ کی راہ یں جہاد کرو۔پہلے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دو۔اگر وہ مان جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ ا ن سے جنگ کرو۔‘‘
حضرت علیؓ اسلامی فوج لے کر دشمن کے مقابلے کے لیے پہنچے تو قلعے کا سردار مرحب لڑنے کے لیے آگے بڑھا۔حضرت علیؓ نے مرحب کے سر پر تلوار کا ایسا بھر پور وار کیا جس سے اس کاکام تمام ہو گیا۔اس کے بعد مسلمانوں نے مل کر قلعے پر حملہ کر دیا اور یہودیوں کو شکست ماننے پر مجبور کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتح مکہ
خیبر کی فتح سے یہودی تو مسلمانوں کے راستے سے ہٹ گئے مگر مکے کے کافر ابھی تک مسلمانوں کے خلاف تھے۔انہوں نے حدیبیہ کی صلح کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دیا۔ادھر روز روز کی لڑائیوں سے مسلمان بھی تنگ آ چکے تھے ۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ مکے کے کافروں پر ایسا زبردست حملہ کیا جائے کہ وہ پھر اسلام کی مخالفت کے لیے نہ اُٹھ سکیں ۔
چنانچہ پیارے رسولﷺ نے دس ہزار مسلمانوں کا ایک بڑا لشکر تیار کیااور مکے کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں کافروں نے کوئی مقابلہ نہ کیا اور اس طرح مکہ بغیر خون بہائے فتح ہو گیا۔ابو سفیان جو حضورﷺ اور مسلمانوں کا جانی دشمن تھا مسلمانوں کی یہ شان و شوکت دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔جب مکہ فتح ہو گیا تو آپﷺ نے خانہ کعبہ میں کافروں کی طرف سے رکھے گئے تین سو ساٹھ بتوں کو وہاں سے نکال باہر کیا۔اس طرح کعبہ بت پرستی اور شرک سے پاک کر دیا گیا۔اس کے بعد آپﷺ اپنے خون کے پیاسے کافروں سے یوں مخاطب ہوئے:
’’اے قریشِ مکہ! تمہیں معلوم ہے آج مَیں تمہارے ساتھ کیاسلوک کرنے والا ہوں ۔‘‘
کافروں نے کہا:
’’آپﷺ رحم دل باپ کے رحم دل بیٹے ہیں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا :
’’جاؤ آج کے دن تم پر کوئی سختی نہیں ۔تم سب آزاد ہو۔مَیں نے تمہیں معاف کیا۔‘‘
دنیا کا کوئی اور فاتح ہوتا تو اپنے دشمنوں کوکبھی معاف نہ کرتا لیکن پیارے رسولﷺ تو دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔وہ بھلا دشمن سے بُرا سلوک کیسے کر سکتے تھے؟
یہ سلوک دیکھ کر آپﷺ کے بد ترین مخالف بھی اسلام قبول کرنے لگے اور اس طرح مدینے کے علاوہ اب مکے پر بھی اسلام کا پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ لہرانے لگا۔
پیارے رسولﷺ چند دن مکے میں ٹھہرے ،پھر مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِسلامی حکومت
فتح مکہ کے بعد تقریباًتمام ملک عرب مسلمان ہو چکا تھا۔پیارے رسولﷺ نے مدینے میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی ۔ سلطنت کے تمام کام آپﷺ کی نگرانی میں ہوتے تھے۔سلطنت کے دور دراز علاقوں میں آپﷺ نے گورنر مقرر کیے اور مدینے کے حاکم آپﷺ خود تھے۔تمام مقدموں کے فیصلے آپﷺ فرماتے تھے۔مسجد نبوی آپﷺ کا دربار تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک حجرہ آپﷺ کا گھر ۔آپﷺ کے دروازے پر کوئی دربان یا سپاہی نہیں تھا۔ہر شخص جب چاہتابے جھجک آپﷺ کی خدمت میں آسکتا تھا۔آپﷺ پورے عرب کے حکمران تھے لیکن آپﷺ کی زندگی بادشاہوں جیسی نہ تھی ۔نہ کوئی شاہی محل، نہ شاہی دربار ،نہ شاہی تخت، نہ شاہی تاج ،نہ لباس اور نہ شاہی دستر خوان ۔ آپﷺ سادہ کپڑے پہنتے تھے۔سادہ سے گھر میں رہتے تھے اور اپنا ہر کام خود کرتے تھے۔اس طرح آپﷺ نے اسلامی حکومت کا ایک ایسا مثالی نمونہ پیش کیا جس میں ہر طرف امن و سکون اور عدل و انصاف کا دور دورہ تھااور غریب سے لے کر امیر تک ہر ہر شخص خوش وخرم اور مطمئن نظر آتاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخری حج
ہجرت کا دسواں سال تھا۔پیارے رسولﷺ نے مکہ جا کر حج کرنے کا ارادہ فرمایا تو عرب کے ہر حصّے سے بے شمار لوگ آپﷺ کے ساتھ حج پر جانے کے لیے تیار ہونے لگے ۔آخر ۲۶ ذیقعد کو نماز ظہر کے بعد آپﷺ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔آپﷺ نے حج کا خاص لباس احرام باندھا اور اونچی آواز سے پکار کر کہا:
’’اے اللہ ہم تیرے حضور حاضر ہیں۔اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ہم حاضر ہیں ۔تمام تعریف اور نعمت تیری ہے ۔سلطنت میں تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘
اس سفر میں مسلمانوں کے گروہ کے گروہ آپﷺ کے قافلے میں شامل ہوتے گئے ۔آخر یہ سفر طے ہوااور آپﷺ مکہ پہنچے ۔مکہ کے قریب عرفات کے میدان میں آپﷺ نے قیام فرمایااور ۹ ذی الحجہ جمعے کے روز آپﷺ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمانوں کے سامنے وہ تاریخی خطبہ دیا جسے آپ ﷺ کا آخری خطبہ بھی کہتے ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا:
‘‘کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ۔تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔تمہارے جان و مال ایک دوسرے کے لیے اس طرح محترم ہیں جس طرح یہ شہر (مکہ ) اور یہ مہینہ (ذی الحجہ ) ۔ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔غلاموں کا خیال رکھو ،جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی اُن کو پہناؤ۔جس کسی کے پاس کوئی امانت ہو وہ اسے لوٹائے ۔عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ۔تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے ۔مَیں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہاہوں ۔اللہ کی کتاب اور میری سنت، اگر تم نے ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے بہت سی اچھی اچھی باتیں بتانے کے بعد فرمایا:
’’اللہ کے یہاں تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟‘‘
اس پر تمام مسلمانوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا:
’’ہم شہادت دیں گے کہ آپﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا اور اپنا فرض اداکر دیا۔‘‘
یہ سُن کر آپﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا:
’’اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘
جب آپ یہ فرما رہے تھے تو وحی کی صورت میں اللہ کی طرف سے قرآن پاک کی یہ آخری آیت نازل ہوئی :
’’آج مَیں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسندکیا۔‘‘
خطبے کے بعدپیارے رسولﷺ نے حج کے دوسرے ارکان کے طریقے ادا کر کے دکھائے ا۔آپﷺ کی زندگی کا یہ آخری حج تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفات
پیارے نبیﷺ کی یہ عادت تھی کہ آپ ﷺ اکثر قبرستان تشریف لے جاتے اور وہاں فاتحہ پڑھتے ۔ہجرت کے گیارہویں سال صفر کے مہینے میں آپﷺ رات کے وقت مدینے کے قبرستان جنت البقیع تشریف لے گئے اور صحابہ کہ قبروں پر فاتحہ پڑھ کر گھر واپس آئے تو بخار ہو گیا۔ایک ہفتے تک آپ ﷺبیمار رہے ۔پھر طبیعت کچھ سنبھلی تو ایک روز مسجد نبوی تشریف لائے اور آپﷺ نے مسلمانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’جو انسان اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ضرور ہے ۔مجھ سے پہلے جتنے نبی گزرے ہیں سب کو موت ہوئی ۔مَیں بھی انہی میں سے ہوں۔ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا اور اللہ کے احکا م کی پابندی کرتے رہنا۔‘‘
وفات کے روز بخار اس قدر تیز تھا کہ پورا جسم تپنے لگا ۔آپ بار بار پانی میں ہاتھ ڈال کر چہرے پرملتے تھے ۔آخر آپﷺ کی مقدس روح پرواز کر گئی ۔وفات کے وقت آپﷺ فر ما رہے تھے۔
’’بس وہی سب سے اچھا دوست ہے۔‘‘
وفات کی خبر سن کر آپﷺ کے صحابہ یعنی ساتھیوں کے لیے دنیا اندھیر ہو گئی ۔ان کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔اس غم کی وجہ سے وہ نڈھال تھے۔
وفات کے وقت آپﷺ کی عمر تریسٹھ (۶۳) برس تھی ۔آپﷺ کو اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپﷺ رہتے تھے اور اب اسے ہی روضۂ رسول کہتے ہیں ۔
آپﷺ پر اللہ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں ۔
آپ ﷺ پر لاکھوں درود ہوں ۔
آپﷺ پر لاکھوں سلا م ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپﷺ کیسے تھے؟
پیارے رسولﷺنہایت خوبصورت تھے ۔آپﷺ کا رنگ سُرخ اور سفید تھا۔آپﷺ نہ بہت زیادہ دُبلے تھے اور نہ بہت بھاری۔آنکھیں بڑی بڑی اور کالی تھیں ۔بال گھنے ،لمبے ،سیاہ اور گھنگریالے تھے۔گردن اونچی اور صراحی دار تھی۔دانت نہایت سفید اور چمکدار ۔ہونٹ سرخ اور چہرہ رعب والاتھا۔قد نہ بہت لمبا تھا اور نہ بہت چھوٹا ۔آواز بہت صاف اور گرجدار تھی۔ایک ایک لفظ زبان سے ٹھہر ٹھہر کر ادا فر ماتے ۔لباس سادہ اور پاک صاف پہنتے تھے۔آپﷺ کی غذا بھی سادہ تھی ۔عام طور پر آپﷺروزہ رکھتے تھے ۔
پیارے رسولﷺ کی عادتیں نہایت اچھی تھیں ۔آپﷺ بہت مہربان اور رحم دل تھے۔نہایت سخی تھے ،کسی سائل کا سوال نہیں ٹھکراتے تھے ۔خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھلاتے ۔گھر کے تمام کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے ۔ہمیشہ پاک صاف رہتے ۔صاف کپڑے پہنتے ۔بالوں میں کنگھی کرتے ۔روزانہ مسواک کرتے ۔دوسروں کو بھی بار بار صفائی کی تلقین فرماتے ۔کھانے میں جو کچھ مل جاتا صبرو شکر سے کھا لیتے اور کھانا کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتے ۔
پیار ے رسولﷺکبھی کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے ۔سب کو معاف کر دیتے تھے۔یہاں تک کہ اپنے جانی دشمنو ں سے بھی درگزر سے کام لیتے تھے ۔جانوروں پر رحم فرماتے ۔بوڑھوں ،عورتوں ،بیواؤں اور یتیموں پر خا ص مہربانی فرماتے ۔بیماروں کی مزاج پرسی فرماتے ۔ہمیشہ سچ بولتے اور لوگوں کی امانتوں کی پوری پوری حفاظت فرماتے ۔
بچوں سے آپ کوخاص پیار تھا اور ان سے شفقت سے پیش آتے ۔بچے بھی آپ سے بہت پیار کرتے تھے ۔بچے جب کبھی آپﷺ کو راہ میں دیکھ لیتے خوش ہوتے اور آگے بڑھ کر آپﷺ سے ملتے اور سلام کرتے ۔آپﷺ بھی انہیں سلام کرتے اور انہیں گود میں اٹھا کر پیار کرتے اور دُعائیں دیتے ۔ اپنے نواسوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین سے آپﷺ کوخاص محبت تھی۔نماز پڑھتے وقت یہ دونوں بچے آپﷺ سے چمٹ جاتے ۔آپﷺ سجدے میں ہوتے تو یہ آپ کی پیٹھ پر سوار ہو جاتے اور آپﷺ سجدے سے اس وقت تک سر نہ اٹھا تے جب تک وہ خود نہ اتر جاتے ۔
بچّوں سے آپ کاپیار صرف مسلمان بچوں کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ سب کے لیے تھا۔ایک جنگ میں چند بچے مارے گئے۔ آپﷺ نے سُنا تو بہت افسوس کیا۔کسی نے کہا:
’’یا رسول اللہ !وہ بچے مسلمانوں کے تو نہیں تھے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’تم سے اچھے تھے،خبردار بچوں کوکبھی قتل نہ کرنا۔‘‘
آپ کی یہ عادتیں ہماری زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم سچّے مسلمان بنیں اور آپﷺ کے طریقوں پر پوری طرح عمل کریں۔اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپﷺ نے فرمایا
ہماری رہنمائی کے لیے پیارے رسولﷺ نے بہت سی اچھی اچھی باتیں بتائی ہیں۔انہیں حدیث کہتے ہیں ۔ان پر عمل کرناہمارا فرض ہے۔یہاں کچھ حدیثوں کاترجمہ دیا جاتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
۱۔ ’’نماز دین کا ستون ہے۔‘‘
۲۔ ’’روزہ ڈھال ہے اور زکوٰۃ اسلا م کا خزانہ ۔‘‘
۳۔ ’’حج گناہو ں کو یوں دھو ڈالتا ہے جیسے پانی میل کو صاف کر دیتا ہے۔‘‘
۴۔ ’’تم میں بہترین وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘
۵۔ ’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
۶۔ ’’دین ،خلوص اور وفاداری کانام ہے ۔‘‘
۷۔ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مُسلمان محفوظ رہیں ۔‘‘
۸۔ ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے۔‘‘
۹۔ ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘
۱۰۔ ’’دو مسلمان اگر آپس میں لڑیں تو انہیں تین دن سے زیادہ ناراض نہیں رہناچاہیے۔‘‘
۱۱۔ ’’اللہ کے نزدیک اس سے بڑی کوئی عبادت نہیں کہ تم کسی مسلمان بھائی کا دل خوش کر دو۔‘‘
۱۲۔ ’’پاکیزگی جزوِ ایمان ہے۔‘‘
۱۳۔ ’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔‘‘
۱۴۔ ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘
۱۵۔ ’’ذخیرہ اندوزی صرف گناہگار ہی کرتا ہے ۔‘‘
۱۶۔ ’’جس میں امانت داری نہیں اس کا ایمان ہی نہیں ۔‘‘
۱۷۔ ’’جس نے میانہ روی اختیار کی وہ کبھی مفلس نہیں ہو گا۔‘‘
۱۸۔ ’’سچ بولنا تم پر واجب ہے۔‘‘
۱۹۔ ’’جھوٹی گواہی دینا اور شرک دونوں برابر کے گناہ ہیں ۔‘‘
۲۰۔ ’’بدترین لوگ وہ ہیں جو چغلی کھاتے پھرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں ۔‘‘
۲۱۔ ’’بات کرنے سے پہلے سلام کیا کرو۔‘‘
۲۲۔ ’’جب تم گھر میں جاؤ سب کو سلام کرو ۔سلام کرنا تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے نیکی اور بھلائی ہے۔‘‘
۲۳۔ ’’وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا جس کا ہمسایہ رات کو بھوکا رہا۔‘‘
۲۴۔ ’’پڑوسی کو ستانے والا دوزخی ہے بے شک تمام رات عبادت کرے۔‘‘
۲۵۔ ’’خود کو حسد سے بچاؤ ۔حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top