skip to Main Content

پھولوں والی چراگاہ

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں دور ایک دریائی بھینسا رہتا تھا۔ جو آج کل بہت خوش خوش رہتا تھا کیونکہ اُس کے گھر جلدی ہی ایک ننھا منا مہمان آنے والا تھا۔ اِسی لیے اس کی بیوی بھی کھا کھا کر بہت موٹی تازی ہو رہی تھی۔ بہار کے موسم میں ایک دن اُس کی بیوی جس کا نام ”ننھی“تھا سیر کرنے کے لیے ایک بہت ہی خوبصورت چراگاہ میں گئی جو پھولوں سے اَٹی ہوئی تھی۔ سورج کی روشنی میں یہ پھول ہوا میں اِدھر اُدھر لہرائے ہوئے خوبصورت رنگ بکھیر رہے تھے۔ ننھی نے ایک ساتھ اتنے زیادہ خوبصورت پھول اکٹھے نہیں دیکھے تھے۔ وہ خوشی سے پھولی نہ سمائی اور اِدھر اُدھر دوڑنے لگی۔ وہ لڑھکتی ہوئی کبھی اِدھر جاتی اور کبھی اُدھر۔ ساری چراگاہ میں وہ لٹکتی مٹکتی پھر رہی تھی۔
ننھی کو پھولوں والی چراگاہ اتنی پسندآئی کہ وہ اِسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی اور وہ گئی بھی نہیں۔ وہ کئی دن اُدھر ٹھہری اور پھر کئی ہفتے بھی لڑھکتی رہی اور پھولوں میں لٹکتی مٹکتی رہی۔ پھر ایک دن اُس کے گھر اُس کی بیٹی پیدا ہوئی۔ وہ ایک ننھی سی مادہ دریائی بھینسا تھی۔ ننھی کی آنکھیں بیٹی کو دیکھ کر حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اُس کی ننھی منی بیٹی کے سارے جسم پر سرخ اور گلابی پھول بنے ہوئے تھے۔ ننھی نے سوچا کہ اُس کی بیٹی دنیا کی سب سے خوبصورت مادہ دریائی بھینسا ہے۔ پھولوں کی وجہ سے ننھی نے بیٹی کا نام ”مالا“ رکھ دیا کیونکہ سر سے پاو¿ں تک اُس کے جسم پر پھول ہی پھول بنے ہوئے تھے تو ننھی کو وہ پھولوں کی مالا ہی لگ رہی تھی۔
مالا تھوڑی بڑی ہوئی تو کئی دریائی بھینسے اور اُن کے بچے ایسے ہی تھے جنہیںمالا بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ مالا کا مذاق اُڑاتے تھے۔ مالا کا ایک ہم عمر ”جینو“ اُسے کہنے لگا ”تم دریائی بھینسا ہو کہ پھولن دیوی۔“ کبھی کسی نے کسی دریائی بھینسے کا سنا ہے جو خود کو پھولوں کی ملکہ سمجھتا ہو۔ میں تو آئندہ سے تمہیںپھولوں کی رانی ہی کہوں گا۔
ایک دن مالا بہت افسردہ سی دریا کے کنارے بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش اُس کے جسم پر پھول نہ بنے ہوتے۔تاکہ کوئی اُسے گھور کر نہ دیکھتا۔ کوئی اُس کا مذاق نہ بناتا۔ کاش وہ بھی ایک مٹیالے رنگ کا عام دریائی بھینسا ہوتی۔ تبھی اُسے باتیں کرنے کی آواز آئی۔ کوئی کہہ رہاتھا ”وہ دیکھو پھولوں کی رانی کیسے پانی میں خود کودیکھ کر اِترا رہی ہے۔“ دوسرا بولا ”آو¿ ذرا اِس کو مزا چکھاتے ہیں یہ خود کو کیا سمجھتی ہے۔“ مالا نے دیکھا چھ دریائی بھینسے کے بچھڑے اُس کی طرف دوڑے۔ مالا تیزی سے اُٹھی اور خوف سے بھاگی۔ نزدیک ہی پھولوں والی چراگاہ تھی۔ اُس کے باہر دروازہ تھا جو کھلا تھا۔ وہ چراگاہ میں دوڑتی رہی۔ اُس نے چراگاہ کی دوسری طرف سے باہر نکلنا چاہا لیکن اُس طرف بھی دروازہ تھا جو بند تھا۔ وہ پریشان ہو گئی کہ اب کہا چھپے؟
اب وہ صرف انتظار ہی کر سکتی تھی کہ بچھڑے اُسے پکڑ لیں۔ اُس کے اردگرد چکر کاٹیں اور اُس کا مذاق اڑائیں۔ لیکن پھر ایک عجیب چیز ہوئی۔ بچھڑے جب چراگاہ میں گھسے اور اِدھر اُدھر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ مالا کدھر چلی گئی؟ مالا کو بھی سمجھ آ گئی کہ اُس کے جسم پر بنے ہوئے پھولوں کی وجہ سے وہ چراگاہ کے پھولوں میں اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ لہٰذا وہ دم سادھے لیٹی رہی۔ جلد ہی پیچھا کرنے والے بچھڑے اکتا گئے اور پھر وہاں سے چلے گئے۔
مالا کو یقین ہو گا کہ وہ بچ گئی ہے تو وہ قہقہے لگانے لگی۔ لڑھکنے لگی اور پھولوں میں اِدھر اُدھر لیٹنیاں مارنے لگی چراگاہ میں ایک سے دوسرے کنارے تک۔ اُس دن مالا کو علم ہو گیا کہ جینو اور اُس کے دوست بچھڑے چراگاہ کے پھولوں میں سے اُسے نہیں ڈھونڈ سکتے۔ سارے موسم بہار میں مالا اُن کو ایسے ہی دھوکہ دے کر بچتی رہی اور پھر گرمیوں میں بھی۔ لیکن ایک دن وہ بھاگی تاکہ چراگاہ کے پھولوں میں چھپ جائے مگر تب تک سارے پھول سوکھ چکے تھے۔ درختوں سے پتے گرنے لگے تھے۔ وہ خود کو گرے ہوئے پتوں میں نہیں چھپا سکی۔ دوسرے بچھڑوں نے اُسے گھیر لیا اور اُس کی زندگی اجیرن کردی۔
اب چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اور باتیں کرنے والا کوئی دوست بھی نہیں تھا۔ مالا بہت اداس اور اکیلی تھی۔ آنسو اُس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ لیکن یہ اور بھی بری بات تھی، جینو اور اُس کے دوستوں نے اُس کا اور بھی مذاق اڑایا۔ پھر سردیاں آ گئیں۔ لیکن مالا فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ دریائی بھینسوں سے دور چلی جائے گی۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ جو بھی کر لے اُسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ اُسے اپنا نہیں سمجھتے تھے وہ لمبے سفر پر نکل گئی۔ اِس سفر کے دوران موسم بہت خراب ہو گیا۔ سیاہ بادل چھا گئے تیز بارش ہونے لگی۔ آسمانی بجلی درختوں پر گری۔ کہیں چھپنے کو جگہ نہیں تھی۔ تبھی پناہ کے لیے اُسے ایک غار نظر آئی۔ غار میں اندھیرا تھا اور وہ بہت خوش تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ ساری زندگی ادھر ہی رہے تو نہ کوئی اُسے دیکھ سکے گا اور نہ اُس پر ہنسے گا۔ لیکن پھر اندھیرے غار کے آخری اندھیرے کونے سے آواز آئی ۔ ”کون ہے؟ آخر تم کیا ہو؟“ مالا سہم گئی اور بولی ”میں دریائی بھینسا ہوں اور میرا نام مالا ہے۔“ آواز آئی ”تو کیا تم۔۔۔ تم ۔۔۔ تم اِدھر رہنے کا تو نہیں سوچ رہی؟ “ مالا بولی”ہاں سوچ تو رہی ہوں۔“ کوئی بولا ”اوہ! ادھر تو مجھے مجھے بھی بتانا پڑے گا کہ میں بھی دریائی بھینسا ہی ہوں۔“
مالا بولی ”یہ تو بہت اچھا ہے کہ اندھیرا بہت ہے اِس لیے ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے۔ “ اِسی طرح وہاں رہتے دونوں کو کئی ہفتے گزر گئے۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن باتوں باتوں میں اُن کی دوستی ہو چلی تھی۔ مالا کی خواہش تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھیں لیکن پھر وہ سوچتی کہ اُسے دیکھ کر دوسرا دریائی بھینسا جس کا نام جگنو تھا، ہنسنے لگے گا۔ کئی مہینوں کی سردیاں جا رہی تھیں اور آخر کار غار میں ہر طرف روشنی ہو گئی اور دکھائی دینے لگا۔
تب وہ دونوں غار سے نکلے اور ایک دوسرے کو کافی عرصہ گھورتے ہی رہے۔ مالا بولی ”جگنو تم تو میرے جیسے ہو۔“ نیلا جگنو بولا ”اور تم بالکل میرے جیسی۔“ مالا بولی ”جب تم دنیا میں آنے والے تھے تو کیا تمہاری امی پھولوں والی چراگہ میں تو نہیں رہیں؟“ جگنو کا جواب ہاں میں تھا۔ مالا نے پوچھا ”اور کیا میری طرح تمہیں بھی مذاق کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے؟ جگنو نے پھر ہاں کی لیکن لیکن پھر جگنو نے مالا کو کہا کہ وہ پھولوں والی جلد سے بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔
غار کے پیچھے ہی پھولوں کی ایک اور چراگاہ تھی۔ وہ دونوں اب پھولوں میں لیٹتے۔ لیٹنیاں لیتے اور لڑھکتے۔ اب وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتے تھے۔ وقت گزرا اور پھر اُن کے گھر ننھے منے مہمان آئے۔ خدا کی قدرت دیکھیے سب کے جسموں پر سر سے دُم تک پھول ہی پھول بنے ہوئے تھے۔ اب اِدھر کوئی اجنبی بھی گزرتا تو اُن پر نہیں ہنستا تھا کیونکہ وہ چھپ جاتے تھے کوئی اُن کا مذاق نہیں بناتا تھا کوئی ان کا پیچھا نہیں کرتا تھا کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اِن پھولوں میں رہتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top