skip to Main Content
پرفیکٹ ماموں!

پرفیکٹ ماموں!

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ارے کیا بات ہے ماموں۔۔۔ آپ تو بالکل ہی بدل گئے……. آنکھوں کے گرد حلقے، چہرہ زرد زرد، وزن بھی بڑھا ہوا ہے……. اپنی عمرسے دس سال بڑے معلوم ہورہے ہیں آپ……. آخر ہوا کیا ہے؟‘‘
’’ارے بس بھانجے میاں! کیا بتاؤں! ‘‘ماموں نے بجھے بجھے انداز میں کہا۔’’ قسمت کی خرابی ہے۔ جو نوکری کرتا ہوں، سال دو سال بعد چھٹی ہوجاتی ہے……. گھر میں پڑے پڑے وزن بڑھتا اور رنگ اُڑتا ہے۔ شاید میری قابلیت میں ہی کوئی کمی ہے۔‘‘
’’ارے ماموں! چھوڑیئے، آج کل قابلیت کوکون پوچھتا ہے۔ اصل چیز شخصیت ہے شخصیت! اپنی شخصیت کو اُبھاریئے، یہ آپ کی ڈھیلی ڈھالی دبی دبائی شخصیت ہی ہے جس نے آپ کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اپنی شخصیت کو پرفیکٹ بنائیے پرفیکٹ!!‘‘
ماموں آہ بھر کر بولے: ’’ڈیل ڈول ہی بے ڈھنگا ہے تو کیا کیا جائے؟‘‘
’’ارے ماموں آپ کس دنیا میں رہتے ہیں……. ڈیل ڈول، بال ، قد، وزن اور رنگ اب کوئی مسئلہ نہیں رہے ……. اب دیکھیئے ناں!!‘‘
اسی اثناء میں ٹی وی پر دھماکا خیز موسیقی کے ساتھ ایک اشتہار چلنا شروع ہوگیا۔ ماموں نے گھڑی پر نظر ڈالی اور ریموٹ چھینتے ہوئے کہا۔
’’ساڑھے سات بج گئے۔۔۔مزاحیہ ڈرامہ آنے والا ہے۔‘‘ 
’’ارے ماموں چھوڑیئے ان ڈراموں کو، آپ مزاحیہ ڈرامے ہی دیکھتے رہے تو کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔ یہ دیکھیں!‘‘
اشتہار پورے زور و شور سے شروع ہوچکا تھا۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی، کیمرے کے سامنے بڑے اسٹائلش انداز میں کھڑے ہیں، ان کے ہاتھوں میں ’’ چپلیں‘‘ ہیں۔ وہ ناظرین کو چپلیں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’ یوکوہاما‘‘ بیک گراؤنڈ میں موسیقی کے ساتھ جنگل چل رہا ہے۔ یوکوہاما……. یوکوہاما……. آجا میرے ماما……. میرے ماما ……. مجھے آزمانا……. آزمانا۔
لڑکا سنسنی خیز لہجے میں کہتا ہے: ’’یوکوہاما چپلیں، ان میں جدید تحقیق کے مطابق ایسے پریشر پوائنٹ بنائے گئے ہیں کہ اس کے مستقل استعمال سے آپ کے قد میں آٹھ سے دس انچ اضافہ ہوجائے گا۔
قیمت صرف 1295 روپے۔ (فائدے نہ ہونے کی صورت میں پچانوے روپے واپس ۔یعنی منی بیک گارنٹی) یہ جدید چپلیں امپورٹڈ ہیں اور جاپان کی جدید ہائی پریشر ٹیکنالوجی پر تیار ہوئی ہیں۔
اس کے بعد چند لوگوں کے انٹرویو دکھائے گئے جنھوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے یوکوہاما چپلیں پہن کر کس طرح اپنا قد لمبا اور دوسروں کا چھوٹا کیا۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ہم لمبے ہوتے ہیں تو دوسرے خودبخود چھوٹے ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہ یوکوہاما استعمال نہیں کرتے۔ چند راہ گیروں نے رُک کریہ بھی بتایا کہ اب ان کی نوکری، شادی اور تعلیم میں حائل ساری رکاوٹیں دور ہوچکی ہیں۔ آخر میں دفتر کا منظر دکھایا گیا کہ یوکوہاما پہننے والے ایک نوجوان کا نوکری کے سلسلے میں انٹرویولے رہے ہیں ۔باہر انتظار گاہ میں باقی نوجوان عام سی چپلیں پہنے ہاتھ مل رہے ہیں۔
ماموں اشتہار سے متاثر نظر نہ آئے۔ منھ بناکر چینل تبدیل کردیا اور بولے: ’’میاں! یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جاپان والوں نے یہ ساری چپلیں بناکر ملک سے باہر کیوں پھینک دیں اور خود کیوں ناٹے رہ گئے؟‘‘
’’اوہو! ماموں وہ لوگ قد کے معاملے میں اتنے کانشیئس نہیں، کیونکہ وہ سب ایک ہی جیسے قدوقامت کے ہوتے ہیں۔ یہ تو ہمارا مسئلہ ہے جہاں کوئی سوا چھ فٹ کا ہے تو کوئی پونے پانچ کا۔ آپ نکالئے بارہ سو روپے، پچانوے میں خود ڈال لوں گا۔ ہوم ڈلیوری کی سہولت بھی ہے۔ میں ابھی آرڈر دیتا ہوں۔‘‘
’’بیٹا ہوم ڈلیوری تو اس لیے ہے کہ کہیں چل کر دکان تک آتے آتے بے وقوفوں کو عقل نہ آجائے۔‘‘
’’ارے ماموں! آپ بھی بڑے شکی ہیں۔ یہ اتنے بڑے پیمانے پر پبلسٹی ہورہی ہے۔ یوں کھلے عام کوئی جعلی پروڈکٹ تھوڑی بکتی ہے۔‘‘
’’اچھا چلو! تمھاری خاطر یہ بھی کر دیکھتا ہوں۔ ہمارے پاؤں کا سائز تو لے لو!‘‘
’’ماموں سائز کی ضرورت نہیں……. وہ تو بس ’ فری سائز‘ ہوتی ہے یعنی ہر کوئی پہن سکتا ہے۔‘‘
’’ خوب! اگر مجھے چپلیں لمبی ہوئیں اور راستہ چلتے پیچھے سے کوئی اور بھی اس پر چڑھ گیا تو وہ مفت میں لمبا ہوجائے گا؟‘‘
’’اوہو! ماموں آپ بحث میں بہت پڑتے ہیں……. یہ بھی شخصیت کی ایک خامی ہے کہ آدمی بحث میں وقت ضائع کرے……. نکالیے بارہ سو!‘‘
ٹھیک تیسرے دن پارسل موصول ہوا۔’’چپل‘‘ دیکھ کر ماموں بھانجے دنگ رہ گئے۔ یہ اس سے کہیں زیادہ بھدی اور بڑی تھی جیسی ٹی وی پر نظر آتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی مریخی مخلوق بھاگتے بھاگتے یہ چپل زمین پر ہی چھوڑ گئی ہو۔
بھانجے نے تسلی دی: ’’ماموں شکل پہ نہ جائیں….. اس کے فوائد دیکھیں۔ اب فوراً پہن لیجیے……. ایک دن بھی ضائع نہ کیجیے۔‘‘
’’ارے بیٹا ذرا فون کرکے یہ تو پوچھو کہ یہ مستقل پہننی ہے یا رات کو اُتار کے سونا ہے اور اگر مستقل پہننی ہے تو میں یہ عجوبہ چپل پہن کر دفتر کیسے جاؤں گا؟……. نئی نئی نوکری ہے اس طرح جہازی سائز پریشر پوائنٹس والی چپل گھسیٹتا جاؤں گا تو کل کے بجاے آج ہی نکالا جاؤں گا۔‘‘
’’ماموں آپ چھٹی لے لیں……. چپل تو بہرحال آپ کو پہننی ہے۔‘‘
’’بھانجے کہا ناں!! چھٹی نہیں لے سکتا……. نئی نئی نوکری ہے!‘‘
’’آپ پہنئے تو سہی ……. پھر دیکھتے ہیں، ویسے بھی ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے، صرف اسے تلاش کرنے کی بات ہے……. آپ بہت جلدی گھبرا جاتے ہیں اور یہ آپ کی شخصیت کی دوسری بڑی خامی ہے۔‘‘
’’ہائیں!!‘‘ ماموں کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ’’اور پہلی کیا ہے؟‘‘
’’یہی کہ آپ بہت جلدی پہلی خامی بھول جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا اچھا…… اب نصیحت بند کرو۔ تم میرے ماموں نہیں……. میں تمہارا ماموں ہوں۔ چپل کو بغور دیکھ کر فیصلہ کرو کہ یہ کس طرف سے پہننی شروع کی جائے اور کہاں تک پہن کر پہننے کا عمل روک دیا جائے۔‘‘
بھانجے نے چپل زمین پہ رکھی اور ماموں کا ہاتھ پکڑ کر سہارا دیا، چپل کی اونچائی بھی غیر معمولی تھی، لہٰذا ماموں کو کمر سے پکڑ کر اُٹھایا اور چپل پر کھڑا کردیا۔ ماموں نے بہ دقت تمام پٹے میں پیر گھسائے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ چلیں کیسے؟
’’میاں! کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کے نیچے پہیے بھی لگے ہوتے، آدمی چل نہ پاتا توپھسل ہی لیتا۔ جاپانیوں کو گاڑی بنانے کی اتنی عادت ہے کہ چپل بھی بغیر پہیوں کے گاڑی ہی لگ رہی ہے۔‘‘
بھانجے نے اس تبصرے کا جواب دیئے بغیر اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور ایک چھتری اُٹھائی اور اُسے چھڑی کی طرح پکڑادی پھر بولا:’’ اب اس کے سہارے چلنے کی کوشش کیجیے، شاباش!‘‘
ماموں نے قدم آگے بڑھایا اور ایک درد ناک کراہ کے ساتھ زمین بوس ہوگئے۔
’’ہاے میں مرا!‘‘
’’کیسے ماموں! آخر ہوا کیا؟‘‘
’’ہوا کیا کے بچے! تم خود ہی پہن کر دیکھو…… اس کے جدید ترین پریشر پوائنٹ تلوؤں میں ایسے گڑ رہے ہیں کہ اگر یہ چپلیں مردوں کو پہنادی جائیں تو وہ بھی اس کے پریشر(دباؤ) سے اُٹھ کھڑے ہوں۔‘‘
ماموں نے زمین پر بیٹھے بیٹھے پاؤں کو زور دار جھٹکادیا اور چپل بھانجے کے کاندھے کو چھوتی ہوئی الماری کے آئینے پر جا لگی۔ کندھے اور آئینے کے چٹخنے کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں۔ بھانجے نے اپنا شانہ سہلاتے ہوئے ماموں کو کاندھا دیا اور بولا: ’’ماموں! آپ میں مشکل کام کر دکھانے کا جذبہ ہی موجود نہیں….. کرچکے آپ ترقی….. یہ آپ کی تیسری خامی ہے۔‘‘
’’بھانجے میں ترقی کرنا چاہتا ہوں ، مگر گھٹنوں اور ٹخنوں سمیت! لمبا قد ہوگیا اور ٹخنے ٹوٹ گئے تو؟ بس میرے بھانجے ….. بہت ہوگئی….. یہ چپلیں کمپنی کو واپس کردو۔‘‘
’’ماموں!! یہ ناقابلِ واپسی ہیں۔ ویسے بھی مجھے یہ چپلیں واپس کرکے جاپانیوں سے جوتے نہیں کھانے۔ آپ کسی غریب محتاج کو دے دیجیے گا۔‘‘
’’بھانجے! یہ چپلیں پہن کر تو وہ بے چارہ مزید محتاج ہوجائے گا۔ یہ تم کسی کو بیچ دینا۔ مجھے میرے بارہ سو واپس کرو۔‘‘
’’ماموں میں آپ کی شخصیت بدلنا چاہتا ہوں اور آپ میری حیثیت! اگر اسی طرح آپ کی کم ہمتی کے جرم میں ، میں جرمانہ بھرتا رہا تو میری مالی حیثیت تو زیرو بٹا زیرو ہوجائے گی۔‘‘
’’ارے میرے بھانجے، ناراض نہ ہو….. دیکھو غلطی ہماری ہی ہے، ہم نے ’ شخصیت سازی‘ کے پہلے مرحلے پر چپل کا انتخاب کیا۔ تم کہہ رہے تھے کہ وزن، رنگ، دانتوں اور بالوں کی بہتری کے لیے جدید ترین پروڈکٹس مارکیٹ میں آگئی ہیں۔ کیوں نہ ہم پہلے وزن کم کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ نوے کلو وزن کے ساتھ اس چپل کو گھسیٹنا ناممکن ہے۔‘‘
’’اوکے ماموں!! یہ دیکھیے ویٹ لوزر’پگھلو بیلٹ‘ کا اشتہار ۔‘‘
یہ بیلٹ درمیان سے بہت چوڑی تھی اور اپنی ہیبت ناکی میں چپل کا مقابلہ کررہی تھی۔ بیلٹ کو ہر اینگل سے دکھائے جانے کے بعد ایک صاحب نمودار ہوئے اور کسی ریکارڈ کی طرح بجنے لگے۔
’’چھوٹے قد کے جن حضرات کو ہماری جدید ترین چپلیں استعمال کرنے میں دشواری محسوس ہورہی ہے وہ ہماری ویٹ لوزر بیلٹ استعمال کریں۔ دُبلے ہوجائیں گے تو قد خود بخود لمبا لگنے لگے گا۔‘‘
پھر ایک ڈاکٹر کا کلوز اپ دکھایا جاتا ہے جو ڈپٹ کر کہتا ہے۔’’ساری بیماریوں کی جڑ موٹاپا ہے….. اپنی چربی کم کیجیے صرف 3700 میں ویٹ لوزر بیلٹ خریدئیے۔‘‘
پھر ایک خاتونِ خانہ کو دکھایا جاتا ہے جو’ پگھلو بیلٹ‘ باندھ کر کھانا پکارہی ہیں۔ تھوڑی دیر میں انہیں پسینہ آتا ہے اور وہ ٹھنڈی سانس لے کر بیلٹ اُتارتی ہیں۔ بیک گراؤنڈ کمنٹری میں بتایا جاتا ہے کہ خاتون کی چربی پگھل رہی ہے۔ خاتون مسکرا کر چربی پگھلنے کی رفتار پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتی ہیں اور چولھا بند کرکے کہتی ہیں میرا وزن چار کلو روزانہ کے حساب سے کم ہورہا ہے، جس کی وجہ سے میرے کھانوں کی لذت میں بھی اضافہ ہورہا ہے، میرے گھر والے مجھ سے متاثر نظر آرہے ہیں۔ متاثرہ گھر والوں کا ایک شاٹ۔ یہاں سے کٹ کرکے دوبارہ ڈاکٹر کا شاٹ لیا جاتا ہے جو کہتا ہے’’ یہ بیلٹ دماغ پہ چڑھی چربی کے علاوہ ہر جگہ کی چربی پگھلا سکتی ہے۔ آج ہی خریدیں۔‘‘
اشتہار ختم ہوتے ہی بھانجا ماموں کی طرف دیکھتا ہے۔ ’’کیا خیال ہے ماموں؟‘‘
’’بھانجے میرا خیال ہے اس کی قیمت ہی چربی اُتارنے کے لیے کافی ہے!‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے….. ایک رنگ گورا کرنے والی سستی پروڈکٹ بھی مارکیٹ میں آئی ہے۔ اس کا اشتہار دیکھیے گا رات خبرنامہ کے بعد۔‘‘
اشتہار شروع ہوا۔ چند بدحواس ماڈلز جن کا شاید یہ پہلا اور آخری کمرشل تھا، یکے بعد دیگرے دکھائی گئیں۔ (حسن پری کریم کی پیلی ٹیوب کے ساتھ) چند مڑے تڑے گلاب کے پھول دکھانے کے دوران پس منظر سے ایک گمبیھر آواز آئی۔
’’ آئیے دیکھیے! حسن پری کریم کا کمال۔
حسن پری کریم لگا کر ملک کی مشہور ماڈل فرزانہ پہ کیا گزری!‘‘ فرزانہ کا کلوز اپ دکھایا جاتا ہے۔ فرزانہ گلوگیر آواز میں کہتی ہے۔
’’حسن پری کریم کے بے قاعدہ استعمال کے بعد میں، یعنی فرزانہ جو ملک کی مشہور ترین ماڈل ہے….. آج مجھے کوئی پہچانتا تک نہیں….. کسی کو کیا معلوم کے ’ حسن پری‘ کی بدولت کل کی کالی بھجنگ فرزانہ آج گوری اور حسین دوشیزہ بن چکی ہے۔‘
پھر ایک طالب علم کا کلوز اپ دکھایا جاتا ہے کہ وہ لائبریری میں بیٹھا ہے، بڑی تاثراتی آواز نکال کر کہتا ہے۔ ’’ میٹرک میں میرا سی گریڈ آیا تھا۔ میں احساسِ کمتری کا شکار ہوچکا تھا، جب انٹر میں داخلہ ہوا تو مجھے میرے دوستوں نے حسن پری کریم کے بارے میں بتایا۔ میں بہت خوش ہوا۔ حسن پری کا استعمال میں نے پورا سال کیا، جس کے نتیجے میں، میں نے پورے کراچی میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ مان گیا! حسن پری کریم واقعی لاجواب ہے!‘‘
پھر بیک گراؤنڈ سے وہی گھمبیر آواز دوبارہ ابھری۔ ’’حسن پری کی تعارفی قیمت صرف 900 روپے۔ یہ پیشکش محدود مدت کے لیے ہے(کیونکہ لمبی مدت کے لیے ہم کہیں ٹکتے ہی نہیں….. مارکھانی ہے کیا پبلک سے!)
’’زبردست! ماموں زبردست! یعنی آپ بھی اپنے دفتر میں نمایاں پوزیشن حاصل کرسکتے ہیں….. ہم آج ہی آرڈر دیتے ہیں۔‘‘
’’نہیں میرے بھانجے! اتنی جلد بازی اچھی نہیں۔ پہلے مجھے اس طرح کے اور اشتہار دکھاؤ تاکہ میں فیصلہ کرسکوں کہ میرے لیے فوری ضرورت کس چیز کی ہے۔ بات یہ ہے کہ میرے پاس رقم محدود ہے، کیونکہ اشتہاری کمپنیوں کی پیشکش کی طرح، میری نوکریاں بھی محدود مدت کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘
’’اچھا تو ٹھیک ہے ماموں! میں محسوس کررہا ہوں کہ آپ کے دانت بہت پیلے ہوگئے ہیں، اسی لیے آپ مسکرانے سے کتراتے ہیں۔ مسکراہٹ شخصیت کو نکھارتی ہے۔ میں آپ کو ’پرل ٹوتھ برائٹ‘ کا اشتہار دکھاؤں گا۔‘‘
اگلے ہی دن انہیں یہ اشتہار نظر آگیا ’ پرل ٹوتھ برائٹ‘ کے اشتہار میں پہلے چند خوفناک مجرموں کے غلیظ دانت کلوز اپ میں دکھائے گئے، جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے جھانک رہے تھے، معلوم نہیں یہ صرف اس لیے جیل بھیج دیے گئے کہ ان کے دانت پیلے تھے یا کوئی اور وجہ بھی تھی۔ بہرحال چند مزید پیلے اور کتھے میں لتھڑے ہوئے ٹوٹے پھوٹے دانت دکھانے کے بعد باقاعدہ اشتہار شروع ہوا۔
ایک صاحب اپنے لان میں کرسی ڈالے بیٹھے ہیں۔ کیمرے سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں۔ ’’میری عمر چالیس سال ہوچکی تھی، میں جہاں بھی رشتے کے سلسلے میں جاتا، میرے دانتوں کی وجہ سے لوگ کانوں کو ہاتھ لگالیتے اور ناک دباکر بھاگ جاتے۔ ایک درد مند لڑکی والوں نے مجھے ’ پرل ٹوتھ برائٹ‘ استعمال کرنے اور آئندہ ان کے گھر کا رُخ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے صرف ایک ماہ اسے بے قاعدگی سے استعمال کیا اور میرے ہونٹ کاسنی، مسوڑھے جامنی اور دانت موتیوں جیسے ہوگئے (اس موقع پہ انہوں نے منھ کھول کر پپیتے کے بیجوں جیسے دانتوں کی نمائش بھی کی) آج میرے تین بچے ہیں اور میری شادی ہوچکی ہے۔‘‘ کیمرے کا لانگ شاٹ، جس میں لان میں تین بچے (پروڈیوسر یا ڈسٹری بیوٹرز کے) ہنستے گاتے، پرل ٹوتھ برائٹ منجن ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
’’ارے واہ!!‘‘ ماموں پہلی بار کسی پروڈکٹ سے ذاتی طور پر متاثر دکھائی دیے۔
’’یہ پروڈکٹ تو لگتا ہے میرے لیے ہی بنائی گئی ہے۔‘‘ ماموں بچوں اور لان کے تصور سے خوش ہوکر بولے۔
’’تم آج ہی پرل ٹوتھ پیسٹ کا آرڈر دے دو۔‘‘
ماموں نے ’ پرل ٹوتھ برائٹ‘ باقاعدگی سے لگانا شروع کردیا تاکہ ان کا فیوچر بھی کچھ برائٹ ہوسکے۔ مگر ان کو شکایت تھی کہ منجن یا پیسٹ لگاتے ہی مسوڑھوں میں جلن سی ہونے لگتی ہے۔ بھانجا بولا: ’’ارے ماموں آپ بہت کم ہمت ہیں….. چپل والے معاملے میں بھی آپ نے یہی کیا، اگر چھ فٹ لمبے ہوگئے ہوتے تو چمک دار دانتوں کے ساتھ اور بھی بھلے لگتے۔ مگر آپ مستقل مزاجی بالکل نہیں….. اور یہی ہے آپ کی شخصیت کی چوتھی خامی!‘‘
بھانجے کا طعنہ دل پہ لگا….. چنانچہ مستقل مزاجی سے ٹوتھ برائٹ ملتے رہے۔ آج بھانجے کی روانگی تھی۔ وہ ماموں کے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے بولا:’’جاری رکھیں‘‘ اور جواب میں ماموں جلن کے مارے کچھ بول بھی نہ پائے۔
چھ ماہ بعد جب بھانجے کا دوبارہ کراچی شہر کا ٹور بنا تو ماموں کے گھر کا رُخ کیا۔ ماموں نے دروازہ کھولا: ’’السلام علیکم! ماموں جان!!‘‘ بھانجے نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ 
ماموں نے قدرے منھ موڑ کر عجیب سے انداز میں کہا: ووا…. لے…. کُم۔‘‘ بھانجے کو لگا جیسے وعلیکم کے ساتھ ماموں نے ہلکی سی سیٹی بھی بجائی ہو۔
’’اور سنائیے ماموں جان!کیا حال چال ہیں؟ اور آپ کے مزاحیہ ڈرامے کیسے جارہے ہیں؟‘‘
’’بھانجے!! کاش میں وہی مزاحیہ ڈرامے دیکھتا رہتا، کم ازکم ان خوفناک ڈراموں سے تو بہتر ہوتا جو تم مجھے دیکھنے پر لگا گئے تھے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے منھ کھولا تو بھانجے کے ہاتھ سے بریف کیس گرتے گرتے بچا۔ ماموں کے منھ میں ایک دانت نہ تھا۔
بھانجے نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’آہ ماموں! یہ ہے آپ کی شخصیت کی آخری بڑی خامی!!‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top