skip to Main Content

ٹام سائر

تحریر: مارک ٹوئن

ترجمہ: مسعود احمد برکاتی

تلخیص: عمیر صفدر

۔۔۔۔۔۔۔

”ٹام!“ خالہ پولی نے اونچی آواز سے پکارا۔
اس وقت انہیں اپنے پیچھے کچھ شور سا سنائی دیا۔ وہ تیزی سے گھومیں۔ ایک چھوٹا سا لڑکا بھاگتا ہوا ان کے قریب سے گزرا۔ انہوں نے فوراً ہی اسے پکڑ لیا۔”تم کیا لے کر بھاگ رہے ہو؟“
”کچھ نہیں۔“
”کچھ نہیں؟ ذرا اپنے ہاتھوں اور منہ کو تو دیکھو۔ یہ کیا لگا ہوا ہے ان پر۔ تم سے کتنی مرتبہ کہا ہے جام کو ہاتھ نہ لگایا کرومگر تم سنتے ہی نہیں۔“
خالہ پولی نے چھڑی ہاتھ میں لیتے ہوئے بلند کی۔ اب ٹام کی پٹائی ہونے والی تھی۔
”ارے خالہ جان چوہا“ وہ ایک دم چلایا۔
خالہ پولی ایک دم گھوم گئیں۔ ٹام کے لیے اتنی مہلت کافی تھی۔ وہ ایک دم کمرے سے نکل کر بھاگا اور باغ کی باڑھ پھلانگ کر غائب ہو گیا۔
خالہ لمحہ بھر کے لیے ہکا بکا رہ گئیں پھر وہ ہنسنے لگیں۔
”کیا آفت کا پرکالہ ہے۔ آج تو یہ ضرور اسکول سے غیر حاضر رہے گا مگر میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔ میں کل اس سے خوب محنت کراؤں گی اور سزا بھی ضرور دوں گی۔ ہفتہ کے دن اس سے کام کرانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب اس کے سب دوست چھٹی منا رہے ہوتے ہیں۔ اسے کام سے جتنی نفرت ہے اور کسی چیز سے بھی نہیں۔ مگر اب میں اس سے کوئی رعایت نہیں برتوں گی۔“
ٹام اس دن اسکول نہ گیا اور ادھر ادھر گھوم پھر کر تفریح کرتا رہا۔ اس رات ٹام خاصی دیر بعد گھر واپس پہنچا۔ جب وہ چپکے سے کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں خالہ پولی کو اپنا انتظار کرتے پایا۔ انہوں نے اسے ڈانٹا پھر کہنے لگیں۔ ”تمہاری سزا یہ ہے کہ ہفتہ کے دن جب چھٹی ہوتی ہے تم کام کرو گے۔“
ہفتہ کی صبح ٹام رنگ کی بالٹی اور ایک لمبے دستے والا برش لیے گھر سے باہر نکلا۔ اس نے باڑھ پر نظر ڈالی اور ایک گہری سانس لی۔ وہ باڑھ اچھی خاصی لمبی چوڑی تھی۔ اسے اس کو رنگ کرنا تھا اور یہ کام ایک بھاری بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے گہری سانس لی اور برش رنگ میں ڈبوتے ہوئے باڑھ کے اوپری تختے کو رنگنے لگا۔ اس تختے کو رنگنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گیا اور باقی تختوں کو دیکھنے لگا۔ اسے یہ خیال بھی تکلیف پہنچا رہا تھا کہ جلد ہی ا س کے ساتھیوں کو پتہ چل جائے گا کہ اسے کام پر لگا دیا گیا ہے۔ پھر وہ آکر اسکا مذاق اڑائیں گے۔ اسی وقت بین راجر اس طرف آنکلا۔ وہ سیب کھا رہا تھا اور بڑا اکڑا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اسے کسی بحری جہاز کا کپتان بننے کا بڑا شوق تھا۔ وہ ویسے بھی اپنے آپ کو ایک بحری جہاز کا کپتان ہی سمجھتا تھا اور ہر وقت یوں ادا کاری کیا کرتا تھا جیسے کسی جہاز کے عرشے پر کھڑا ہو۔
”روکو اسے۔ واپسی کے لیے جہاز کا رخ موڑو۔ دائیں طرف۔ دائیں طرف۔“ وہ اپنے بازوؤں کو سر کے اوپر دائرے کی صورت میں گھمانے لگا۔ ”بس اب ٹھیک ہے۔ تھوڑا چکر دو۔ انجن بند کرو۔ ہاں اب لنگر گرا دو۔“
ٹام اس کی طرف توجہ دیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہا۔ بین راجر اسے دیکھتا رہا۔ ٹام نے اپنا برش رکھ دیا۔اور تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر رنگ کیے ہوئے تختوں کو ایسی تعریفی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کوئی مصور اپنی بنائی ہوئی تصویر کو دیکھتا ہے۔ پھر اس نے ایک جگہ تھوڑا سا رنگ کیا اور پیچھے ہٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ بین راجر اس کے قریب آیا اور پاس کھڑا ہو گیا۔
”ہیلو۔“ بین بولا۔ ”تم کام میں لگے ہو؟“
”بین یہ تم ہو؟“ ٹام نے حیرت ظاہر کی۔ ”معاف کرنا میں نے تمہیں دیکھا نہیں تھا۔“
ٹام بدستور اپنا کام کرتا رہا۔ پھر بولا ”یہ کام واقعی ٹام سائر کے شایان شان ہے۔“
”یعنی تم اسے پسند کرتے ہو؟ عجیب ہی بات ہے۔“ ٹام کا برش مسلسل حرکت کرتا رہا۔
”ہاں کیوں؟ بھلا میں اس کام کو کیوں پسند نہ کروں؟ کسی لڑکے کو ایک باڑھ پر رنگ کرنے کا موقع روز روز تو نہیں ملا کرتا۔“
بین سیب کھاتے کھاتے رک گیا۔ ٹام تختوں کو رنگتا رہا۔ رنگ کی دوسری تیسری تہہ جماتا رہا۔ بین اس کی ہر حرکت کو بغور دیکھتا رہا۔ اسے ٹام کا کام بہت دلچسپ معلوم ہونے لگا تھا۔ پھر اس نے ٹام سے کہا۔
”ٹام مجھے بھی تھوڑا سا رنگ کر لینے دو۔“
”نہیں بین۔ خالہ پولی اسے ہر گز پسند نہ کریں گی۔ یہ باڑھ گھر کے سامنے والی ہے۔ اگر پچھلی باڑھ ہوتی تو میں اس پر رنگ کرنے کی اجازت دے دیتا۔ اس کو بہت احتیاط اور اچھی طرح رنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خالہ پولی مطمئن ہو سکیں۔ میرے خیال میں ہزار دو ہزار لڑکوں میں بھی کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس باڑھ پر عمدگی سے رنگ کرسکے۔“
”واقعی؟“ لیکن مجھے ایک موقع تو دو پھر دیکھو میں کس طرح رنگ کرتا ہوں۔“
”اچھا چلو۔ میں تمہیں رنگ کرنے دیتا ہوں لیکن غلطی نہ کرنا تم مجھے اپنا یہ سیب دو تو میں تمہیں برش دوں۔“
بین نے ایک نظر اپنے سیب کو دیکھا۔ پھر خوشی خوشی وہ ٹام کو دیتے ہوئے اس سے برش لے لیا۔ جب تک بین راجر تختوں پر رنگ کرتا رہا اور دھوپ میں جلتا رہا۔ ٹام ایک درخت کے سائے میں بیٹھا مزے سے سیب کھاتا رہا۔ اس دوران دوسرے لڑکے بھی آکر کھڑے ہوگئے۔ ٹام نے انہیں بھی اسی طرح بیوقوف بنایا اور کام پر لگا دیا۔ ٹام نے بلی فشر سے رنگ کرنے کا ”اہم“ کام لینے کے عوض اس کی پتنگ لے لی۔ وقت گزرتا گیا۔ ٹام مختلف لڑکوں سے رنگ کرا کر کئی چیزیں جمع کر چکا تھا جن میں بارہ کنچے، چاک کا ٹکڑا، ایک کانا بلی کا بچہ اور ایک ٹین کا سپاہی شامل تھے۔ اب ساری باڑھ رنگی جا چکی تھی۔
”خالہ کیا اب میں کھیلنے کے لیے چلا جاؤں؟“ ٹام نے فوراً گھر کے اندر جا کر خالہ پولی سے کہا جو سوئیٹر بننے میں مصروف تھیں۔
”کیا؟ اتنی جلدی۔ تم نے کام ختم کر لیا؟“
”جی ہاں۔“
”جھوٹ مت بولو۔“
”خالہ خود چل کر دیکھ لیں۔“ خالہ پولی نے اس کی بات کا یقین نہ کیا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”ہوں۔ تو جب تمہارا موڈ ہو تو تم کام کر ہی لیتے ہو۔ اچھا چلو کھیلنے جاؤ۔“ خالہ پولی کا اتنا کہنا تھا کہ وہ جھٹ باہر نکل گیا۔

٭……٭

وہ ایک بہت خوشگوار صبح تھی۔ اسکول کی گھنٹی بجی لیکن ٹام نے اسکول کا رخ نہ کیا۔ وہ اس وقت اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کررہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کوئی اس سے محبت نہیں کرتا۔ سب اسے برا سمجھتے ہیں۔ اگر وہ کہیں چلا جائے گا تو کوئی اسے یاد نہیں کرے گا۔ لیکن اس کے چلے جانے پر سب کو اس کے ساتھ کیے گئے اپنے سلوک پر افسوس ضرور ہو گا۔ وہ اسکول سے دور چلا جا رہا تھا کہ اس کی ملاقات جو ہارپر سے ہو گئی۔ وہ بھی ایک دکھی اور اکیلا سا لڑکا تھا۔ وہ تقریباً ہر روز اپنی ماں سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار کھایا کرتا تھا۔ اس وقت بھی وہ اپنی ماں سے چھپ کر ملائی کھانے کے جرم میں پٹ کر آرہا تھا۔ وہ اب یہ سمجھتا تھا کہ اس کی ماں اس سے سخت تنگ ہے اور چاہتی ہے کہ وہ گھر سے چلا جائے۔ وہ جب ٹام سے ملا تو وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ گھر سے بھاگ جانے پر تیار ہو گیا۔ انہوں نے جیکسن آئی لینڈجانے کا پروگرام بنایا جو اس جگہ سے چند میل دور دریا میں واقع ایک جزیرہ تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جزیرے پر بحری قزاقوں کی طرح رہیں گے۔ انہوں نے ہکل بیری کو تلاش کیا۔ ہکل بیری ان دونوں کی عمر کا ایک نکما اور ان پڑھ لڑکا تھا۔اسے ہک کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ہر وقت آوارہ گھومتا رہتا۔ اس کی ماں مر چکی تھی اور باپ شرابی تھا۔ سب گاؤں والے ہکل بیری سے بیزار تھے۔ وہ اپنے بچوں کو ہک کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ٹام کو بھی خالہ پولی نے سختی سے منع کررکھا تھا کہ وہ ہر گز ہکل بیری کے ساتھ نہ کھیلا کرے۔ مگر ٹام کو وہ لڑکا اچھالگتا تھا۔ اسے دیکھ کر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ کاش وہ بھی کبھی ہک کی طرح آزادی اور بے فکری کی زندگی گزار سکے۔ جب ان دونوں نے ہکل بیری کے سامنے اپنا منصو بہ پیش کیا تو وہ بھی ان کے ساتھ اس جزیرے پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ انہوں نے رات کے دو بجے گاؤں سے باہر دریا کے کنارے ایک جگہ ملنے کا پروگرام طے کیا۔ اس جگہ ایک چھوٹی سی کشتی بندھی رہتی تھی۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے ساتھ مچھلی پکڑنے کا سامان اور کھانے پینے کی چیزیں لانی تھیں۔
آدھی رات کو ٹام اس جگہ پہنچ گیا۔ وہ اپنے ساتھ ابلا ہوا گوشت لایا تھا۔ جو ہار پر بھی اپنے ساتھ ابلا ہوا گوشت لایا تھا ہکل بیری اپنے ساتھ ایک ساس پین اور کچھ اناج لایا تھا۔ پھر انہوں نے کشتی کو پانی میں دھکیلا اور اپنی مہم پر روانہ ہو گئے۔ ٹام کشتی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ہدایات دینے لگا۔ ہا رپر اور ہکل بیری نے چپو سنبھال رکھے تھے۔ انہیں جزیرے تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ انہوں نے کشتی میں پڑے ہوئے ایک پرانے سے بادبان کا خیمہ کھڑا کیا اور اپنی چیزیں اس میں رکھ دیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بحری قزاقوں کی طرح خیمے سے باہر سویا کریں گے۔
انہوں نے لکڑیوں کے گٹھے اکٹھے کرکے آگ جلائی۔ انہیں اس آزادی کا بڑا لطف آرہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ کبھی اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔
”یہ آزادی بھی کیا خوب چیز ہے۔“ جو ہارپر بولا۔
”ہاں مجھے تو بہت مزہ آرہا ہے۔“ ٹام نے کہا۔
”بحری قزاق بھلا کیا کرتے ہوں گے؟“ ہک نے پوچھا۔
”وہ اپنا وقت بڑے مزے میں گزارتے ہیں۔“ وہ کچھ دیر تک بحری قزاقوں کی باتیں کرتے رہے۔ پھر انہیں نیند آگئی۔
صبح ناشتے سے فارغ ہو کر وہ جزیرے کا جائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے۔ جزیرہ تین میل لمبا اور ڈیڑھ میل چوڑا تھا۔ انہوں نے دریا میں بھی جی بھر کر پیراکی کی۔ لیکن جب وہ دریا کے کنارے پر پہنچے تو وہ کشتی جس میں وہ بیٹھ کر یہاں تک پہنچے تھے، رات کو دریا کے بہاؤ پر بہہ کر دور جا چکی تھی۔ مگر یہ ان کے لیے اتنی پریشانی کی بات نہ تھی کیوں کہ وہ بہت اچھا تیرنا جانتے تھے۔ اس دوران اچانک انہوں نے ایک عجیب سی آواز کہیں دور سے آتے سنی۔
”یہ آواز کیسی ہے؟“ ٹام نے کہا۔
”آؤ چل کر دیکھیں۔“ ہک بولا۔
وہ تینوں اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگے اور جھاڑیوں میں دبک گئے۔ انہوں نے دیکھا دریا میں ایک چھوٹا جہاز چلا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ بہت سی چھوٹی چھوٹی کشتیاں بھی ہیں۔ اس چھوٹے سے جہاز پر بہت سے لوگ سوار تھے۔ پھر جہاز سے ایک توپ کا گولہ نکل کر آسمان پر بلند ہوا اور فضا ہی میں پھٹ گیا اور سفید سفید دھواں آسمان پر چھا گیا۔
”میں سمجھ گیا۔“ ہک بولا۔ ”کوئی شخص دریا میں ڈوب گیا ہے اور یہ لوگ اسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔“
”ہاں یہی بات ہے۔“ ٹام بولا ”پچھلے سال جب بلی ٹرنر دریا میں ڈوب گیا تھاتو انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔اس مرتبہ جانے کون ڈوب گیا ہے؟“
”میں جانتا ہوں یہ کسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔“ ٹام بولا۔ ”یہ ہمیں تلاش کررہے ہیں۔“
یہ خیال آتے ہی ان کے دل خوشی سے بھر گئے۔ لوگوں کو ان کی گمشدگی کا علم ہو گیا تھا۔ وہ ان کے لیے پریشان ہو گئے تھے۔
وہ چھوٹا جہاز کچھ دیر تک دریا میں چکر لگانے کے بعد واپس چلا گیاوہ اس وقت بڑے جوش میں تھے۔ انہوں نے گاؤں کے لوگوں سے بالآخر اپنی اہمیت منوا ہی لی تھی۔ وہ یہی باتیں کرتے رہے کہ ان کے متعلق کیا کہا جا رہا ہوگا۔ پھر رات تک ان کا یہ جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ ٹام اور ہارپر کو اپنے گھروں کی یاد ستانے لگی۔ البتہ ہک کو نیند آنے لگی۔ پھر وہ جلد ہی خراٹے لینے لگا۔ ہارپر کو بھی اس کو دیکھ کر نیند آگئی۔ جب وہ بھی سو گیا تو ٹام اپنی جگہ سے اٹھا اور دریا کی طرف چل پڑا۔

٭……٭

چند منٹوں بعد ٹام پانی میں تیرتا ہوا جزیرے سے دور ہٹتا جا رہا تھا۔ جب وہ دوسرے ساحل پر پہنچا تو وہ پانی سے نکل کر دریا کنارے چلنے لگا۔ دس بجے وہ قصبے کے باہر کھلے میدان میں جا پہنچا۔ وہ دریا کے ساحل پر بندھی ہوئی بڑی سی کشتی دیکھ سکتا تھا۔ اس کشتی کے ساتھ ہی ایک چھوٹی کشتی بندھی ہوئی تھی۔ وہ اس چھوٹی کشتی میں جا کر چھپ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بڑی کشتی پر لوگ آگئے اور اسے چلاتے ہوئے قصبے کے قریبی ساحل پر لے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے کشتی کو باندھا اور وہاں سے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ٹام چھوٹی کشتی میں سے نکلا اور آبادی کی سمت ہو لیا۔ اس نے پیچھے کی طرف جا کر باڑھ پھلانگی اور گھر کی کھڑی سے اندر جھانکا۔ وہاں خالہ پولی، مسنر ہارپر بیٹھے باتیں کرتے دکھائی دیئے۔ ان کے اور دروازے کے درمیان ایک پلنگ حائل تھا۔ ٹام دروازے کی طرف گیا اور اس کا ہینڈل گھمانے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے دبایا۔ دروازہ ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ کھل گیا۔ ٹام اسے آہستہ آہستہ مزید کھولتا رہا۔ پھر وہ اس میں سے گزر کر تیزی سے پلنگ کے نیچے جا کر چھپ گیا۔ اسی وقت اس نے خالہ پولی کی آواز سنی۔
”میں کہہ رہی تھی۔“ خالہ پولی بولیں۔ ”وہ کوئی ایسا برا لڑکا نہیں تھا۔ اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ وہ دل کا بہت اچھا تھا۔ بہت اچھی فطرت کا مالک تھا۔“ اور اس کے ساتھ ہی وہ رونے لگیں۔
”میرا جو بھی ایسا ہی تھا۔“ مسنر ہارپر بولیں۔ ”وہ شرارتی ضرور تھا لیکن اس کی طبیعت بہت اچھی تھی۔ وہ ایک نیک اور اچھا لڑکا تھا۔ آہ! میں اسے معمولی معمولی باتوں پر کتنا مارا کرتی تھی۔ یہ سوچ سوچ کر مجھے بہت دکھ محسوس ہوتا ہے۔ آہ اب میں اسے اب کبھی نہ دیکھ سکوں گی۔ بے چارہ۔“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
ٹام پلنگ کے نیچے چھپا ہوا یہ ساری باتیں سن رہا تھا۔ اسے اپنے کیے پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پلنگ کے نیچے سے باہر نکل آئے اور دوڑ کر خالہ پولی سے لپٹ جائے لیکن اس نے اپنے آپ کو ایسا کرنے سے باز رکھا اور خاموشی سے اُن کی باتیں سننے لگا۔ ان کی باتوں سے اسے معلوم ہوا کہ گاؤں کے سب لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ تینوں لڑکے دریا میں تیرتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوگئے ہیں۔
کافی تلاش کے باوجود دریا سے ان کی لاشیں دست یاب نہ ہوسکی تھیں۔ چناں چہ یہ طے ہوا کہ اگلی صبح گرجا میں ان کی آخری رسومات انجام دے دی جائیں۔ ان باتوں نے ٹام کو بری طرح سے لرزا دیا۔ پھر رات کو ٹام دوبارہ خاموشی سے نکلا۔ اب اس کا رخ دریا کی طرف تھا۔
دریا کے کنارے پہنچ کر اس نے چھوٹے جہاز سے بندھی ہوئی چھوٹی سی کشتی کو کھولا اور اس میں سوار ہو کر اسے دھکیلتا ہوا دریا کے مخالف ساحل کی سمت ہو لیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے کشتی کو وہاں چھوڑا اور چلتے چلتے جنگل میں داخل ہو گیا۔ وہاں وہ ایک درخت کے نیچے اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک صبح نہ ہو گئی۔ پھر جب سورج کافی بلندی پر پہنچ گیا تو وہ جزیرے پر جانے کے لیے دریا میں اتر گیا۔
جب وہ جزیرے پر پہنچ کر کیمپ کے قریب پہنچا تو اس نے خیمے کے اندر جو کو کہتے سنا۔“ نہیں ٹام ضرور واپس آجائے گا ہک۔ تم دیکھ لینا۔وہ ہمیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ اس کے نزدیک ایسا کرنا ایک قزاق کی شان کے خلاف ہے لیکن میں حیران ہوں کہ وہ آخر کہاں چلا گیا ہے۔“ دوسرے ہی لمحے ٹام نے خیمے کے اندر قدم رکھ دیا۔
جوہارپر کو بری طرح سے اپنا گھر یاد آرہا تھا۔ وہ بار بار اس کا ذکر کررہا تھا اور رو رہا تھا۔ ہک بھی بے حد اداس دکھائی دے رہا تھا۔ ٹام کی دلی کیفیت بھی اپنے دوستوں سے مختلف نہ تھی مگر اس نے اسے ان پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس کے پاس ایک راز تھا جو اس نے ابھی تک اپنے ساتھیوں کو نہ بتایا تھا۔ اس نے کہا:
”اس جزیرے پر قدیم زمانے میں بحری قزاق آیا کرتے تھے۔ ہمیں اس جزیرے کو اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے اس جزیرے پر کسی نامعلوم مقام پر اپنا خزانہ چھپا رکھا ہوگا۔ ہو سکتا ہے سونے چاندی کا یہ ذخیرہ ہمیں مل جائے۔“
لیکن اس کے دوستوں نے اس کی اس بات پر کسی دل چسپی کا اظہار نہ کیا۔ جو ہارپر ایک شاخ پر ریت کریدتا رہا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا رہا۔ پھر وہ بولا۔ ”یہ سب کچھ چھوڑو میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ یہاں میں اپنے آپ کو بہت تنہا اور اکیلا محسوس کر رہا ہوں۔“
”نہیں جو تمہیں جلد ہی اس نئی زندگی کا لطف آنے لگے گا۔“ ٹام بولا۔ ”ذرا دیکھو تم ہم یہاں کتنی آزادی سے ہر کام کررہے ہیں۔ پیراکی، مچھلیاں،کھیل کود۔“
”مجھے ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں گھر جانا چاہتا ہوں۔“
”یعنی تمہیں اپنی ماں یاد آرہی ہے؟“ہکل بیری بولا۔
”ہاں اور یہ قدرتی بات ہے۔ اگر تمہاری بھی ماں ہوتی تو اس وقت تمہارے احساسات بھی مجھ جیسے ہوتے۔“
”تو جاؤ پھر تم اپنی ماں کے پاس۔ کیوں ہک تم کیا کہتے ہو؟ تم کیا یہیں ٹھہرو گے یا تم بھی واپس جانا چاہتے ہو؟“
”نہیں میں یہیں رہوں گا۔“ ہک نے کہا۔ مگر اس کے لہجے میں ہچکچاہٹ کی جھلک تھی۔
”ٹھیک ہے پھر تم یہاں رہو۔ میں جب تک زندہ رہا تم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔“ جو بولا اور وہاں سے جانے کے لیے اپنی چیزیں سمیٹنے لگا۔
”ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔“ ٹام بولا۔ ”بے شک تم اپنے گھر واپس چلے جاؤ۔ وہاں سب لوگ تمہارا مذاق اڑائیں گے۔ اچھے قزاق ثابت ہوئے۔ تم کو تو یہاں ایک رات گزرتے ہی گھر یاد آنے لگا۔ میں اور ہک یہیں ٹھہریں گے۔ کیوں ہک؟ ہم جو کے بغیر بھی یہاں رہ سکتے ہیں کہ نہیں؟“ اس نے ہک کی طرف دیکھا لیکن ہک نے نظریں چرالیں۔
”میں بھی یہاں سے جانا چاہتا ہوں ٹام۔ یہ جگہ ہمارے لیے اچھی نہیں۔ یہاں بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ تم بھی ہمارے ساتھ واپس چلو ٹام۔“
”تم اچھی طرح سے سوچ لو ٹام۔ ہم ساحل پر رک کر تمہارا انتظار کریں گے۔“
”تمہیں طویل عرصے تک انتظار کرنا پڑے گا۔“
ہک نے افسردہ سی نظر اس پر ڈالی اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ جو ہارپر بھی اس کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ انہوں نے ایک بار بھی مڑ کر ٹام کی طرف نہ دیکھا۔ ٹام کو ایک دم ہی شدید قسم کی تنہائی اور اکیلے پن کا احساس ہوا۔ اپنے دوستوں کے بغیر تن تنہا اس ویران سی جگہ پر رہنا اسے عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے پیچھے دوڑ پڑا۔
”رُک جاؤ۔ رُک جاؤ۔ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔“
جو اور ہک چلتے چلتے رک گئے اور مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ٹام دوڑتا ہوا ان کے قریب آگیا اور انہیں اپنا راز بتایا۔ جب وہ انہیں سب کچھ بتا چکا تو وہ مسرت سے چلا اٹھے اور اس سے کہا کہ آخر اس نے انہیں یہ سب کچھ پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا تھا۔ اگر وہ انہیں اپنے خفیہ منصوبوں کے بارے میں پہلے سے ہی آگاہ کر دیتا تو وہ یوں گھر واپس نہ جانے لگتے۔ وہ خوشی خوشی پڑاؤ کی طرف واپس لوٹ آئے اور مچھلیوں کا سالن کھانے کے بعد کچھ دیر تک کھیلتے رہے پھر ریت پر پڑ کر سو گئے۔
رات کو شدید بارش کے ساتھ ایک خوفناک قسم کا طوفان بھی آیا۔ بادل کچھ اس طرف کھل کر برسے اور بجلی یوں کڑکتی کوندتی رہی کہ وہ اپنے خیمے میں جا گھسے اور باقی رات اسی میں گزاری۔ پڑاؤ کی ہر چیز بھیگ گئی تھی۔ مگر خوش قسمتی سے آگ محفوظ رہ گئی تھی۔ انہوں نے صبح اس آگ میں چند لکڑیاں جھونکیں اور اس پر اپنے کھانے کے لیے مچھلیاں اور گوشت بھونا۔ پھر جب سورج نکلا تو وہ ریت پر جا کر لیٹ گئے۔ انہیں ایک بار پھر گاؤں کی یاد ستانے لگی۔اور اپنے گھر والے یاد آنے لگے تھے۔ لیکن ٹام اپنی باتوں سے انہیں بہلاتا رہا اور ان کی طبیعتوں کو بشاش رکھنے کی کوششیں کرتا رہا۔ اس نے انہیں اپنے جس راز سے آگاہ کیا تھا۔ اس میں انہیں دلچسپی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کا منصوبہ تھا کہ انہیں اب قزاقوں کے بجائے ریڈ انڈین بن جانا چاہیے۔ اس منصوبے نے انہیں تمام دن مصروف رکھا۔اب شاید ان تینوں نے ریڈ انڈین بن کر جزیرے پر رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

٭……٭

اس ہفتے کی سہ پہر کو گاؤں کا ہر فرد بے حد غم زدہ اور اداس دکھائی دے رہا تھا۔ ہارپر اور خالہ پولی کے خاندانوں کے دکھ اور رنج کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ سب گاؤں والے اُن سے ہمدردی کررہے تھے۔ گاؤں کے بچے بھی اپنا کھیل کود بھولے ہوئے تھے اور بالکل خاموش تھے۔
پھر اتوار کے دن جب اسکول کا وقت ختم ہوا تو گرجے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ وہ اس وقت بجائی جاتی تھیں جب کسی کی آخری رسومات ادا کی جانی ہوتی تھیں۔ لوگ گرجا میں جمع ہونے لگے وہ ان تینوں لڑکوں کو پراسرار موت کے بارے میں چپکے چپکے باتیں کررہے تھے۔
پھر اچانک گرجا کے دروازے پر کچھ شور ہوا۔ پادری صاحب جو آخری دعائیہ کلمات ادا کررہے تھے، نے اپنی آنسو بھری آنکھوں پر سے رومال ہٹایا اور سامنے دروازے کی طرف دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کو اس طرح دیکھتے ہوئے جب لوگوں نے گردنیں موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو ان کی حالت بھی پادری صاحب سے مختلف نہ ہوئی۔ وہ تینوں لڑکے جن کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے وہ گرجا میں جمع ہوئے تھے، دروازے سے اندر داخل ہو رہے تھے۔ ٹام سب سے آگے تھا۔ اس کے پیچھے ہارپر اور ہکل بیری تھے۔ وہ گرجا کے پچھلے حصے میں چھپے ہوئے تھے۔
خالہ پولی، میری اور مسنر ہارپر نے ٹام اور جو کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے انہیں لپٹا لیا اور انہیں بے تحاشا پیار کرنے لگیں۔ بے چارا ہک تنہا کھڑا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آرہا تھا وہ کہاں جائے، کہاں جا چھپے۔ اسی وقت ٹام نے اس کا بازو پکڑ لیا اور خالہ پولی سے بولا: ”خالہ پولی۔ یہ اچھی بات نہیں۔ کسی کو ہک کو دیکھ کر بھی اظہار مسرت ضرور کرنا چاہیے۔“
”ہاں مجھے خوشی ہے کہ یہ بے چارا بے ماں کا بچہ بھی بخیر و عافیت واپس آگیا ہے۔“
پھر جب ٹام اسکول پہنچا تو اس نے وہاں سب بچوں کو اپنے کارناموں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے پایا۔ وہ سب اس پر رشک کررہے تھے اور خواہش کررہے تھے کہ کاش انہیں بھی اس کی طرح کوئی مہم انجام دینے کا موقع مل جائے۔

٭……٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top