skip to Main Content

وہ لڑکی جو……

کہانی: The  Girl  Who  Was  Afraid  of  Dogs
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: عائشہ وحید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آ ج پھر عینی اپنی امی کے ساتھ سمندر کے کنارے کھیلنے آئی ہوئی تھی۔یہ اس کا روز کا معمول تھا۔وہ سمندر میں نہاتی، ریت کے گھروندے بناتی اور اپنی ننھی سی کشتی پانی میں تیرا کر لطف اندوز ہوتی۔ اُس کی امی بھی اس کے ساتھ کھیلتیں۔
کوئی اور بھی ہر روز سمندر کے کنارے کھیلنے آتاتھا، اور وہ تھا ایک چھوٹا سا کتا۔اس کتے کو بھی عینی کی طرح کھیلنے کا بہت شوق تھا اور وہ جب بھی عینی کو گیند کے ساتھ کھیلتے دیکھتا تو دوڑا آتا کہ شاید وہ اسے بھی کھیل میں شریک کرلے۔مگر عینی کو تو کتوں سے شدیدنفرت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ چھوٹی تھی تو ایک کتااس کے پیچھے پڑگیا تھا اور وہ یہ سمجھتی تھی کہ وہ اسے کاٹنے لگا ہے۔حال آں کہ وہ اس کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔بس تبھی سے وہ کتوں سے ڈرنے لگی تھی۔ اسے یہی خوف ہوتا کہ وہ اگر کسی کتے کے قریب گئی تو وہ اسے کاٹ کھائے گا۔
عینی کی امی نے اسے سمجھایا تھا۔ ”کیا تم ساری زندگی یوں ہی کتوں سے ڈرتی رہو گی؟میں یہ تو نہیں کہتی کہ تم ہر کتے کو جاکر پیار کرو، لیکن اگر کبھی کوئی کتا دُم ہلاکر تم سے دوستی کرنا چاہ رہا ہو تو اس میں چیخیں مارنے اور آسمان سر پر اٹھالینے کی کوئی بات نہیں۔“
”مجھے کتوں سے نفرت ہے۔“ عینی نے کہاتھا،”ان کے بھونکنے کی آواز اور باہر لٹکتی ہوئی زبان مجھے بری لگتی ہے۔“
سمندر کے کنارے جو چھوٹا سا کتا آتا تھا، وہ کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا۔ وہ تو صرف یہ چاہتا تھا کہ کوئی اس کے ساتھ کھیلے۔ اس کی مالکن ایک بڑی عمر کی خاتون تھی جو اس کے ساتھ نہیں کھیل سکتی تھی۔اس لیے وہ کتا روز اس امید پر عینی کے پاس دوڑا آتا کہ شاید وہ اس کو کھیل میں شامل کرلے۔
ایک دن عینی بہت خوش تھی۔ اسے پچھلے دن ایک نیا گیند تحفے میں ملا تھا۔یہ ایک خاصا بڑا نیلے رنگ کا گیند تھا جو خوب اونچا اچھلتا تھا۔ عینی کو اپنا نیا گیند اس قدر پسند آیا تھا کہ وہ اس رات اس کو ساتھ لے کر سوئی تھی۔
اس دن جب وہ اپنا نیا گیند لے کر سمندر کے کنارے گئی تو وہ کتا بھی دوڑا آیا۔اس نے بھی گیند دیکھ لیا تھا۔عینی کی امی نے گیند اچھالا تو عینی کے ساتھ ساتھ وہ کتا بھی اسے پکڑنے کے لیے بھاگا۔عینی رک گئی۔اس کا غصے کے مارے برا حال تھا۔ وہ کتے کے قریب تو جا نہیں سکتی تھی، بس دور ہی سے کھڑے ہو کر چیخنے لگی:
”چھوڑدو میرے گیند کو۔ خراب ہو جائے گا۔دفع ہو جاؤ!“
کتے نے گیند منہ میں دبایا اور عینی کے قریب آ کر اس کے قدموں میں ڈال دیا۔پھر دم ہلانے لگا کہ عینی اس کے ساتھ کھیلے۔
”تم ایک نہایت فضول کتے ہو۔“ عینی زور سے بولی۔”دم ہلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے تم بالکل اچھے نہیں لگتے اور میرے یا میرے گیند کے قریب آنے کی کوشش نہ کرنا۔مجھے پتا ہے تم مجھے کاٹ لو گے۔“
کتے نے سر جھکایا اور اداس نظروں سے عینی کو دیکھتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی اس سے ناراض کیوں ہے۔وہ تو صرف اس کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔
عینی نے اپنا گیند اٹھا لیا اور امی سے کہنے لگی:
”جب تک یہ فضول کتا یہاں ہے،میں نہیں کھیلوں گی۔“
تھوڑی دیر بعد وہ کتا بھی عینی کے نزدیک آگیا کہ شاید اب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہو اور وہ اس کے ساتھ کھیلے لیکن عینی نے اسے گھورا اور پھر زمین پر پڑے کنکر اور پتھر اٹھا کر اسے مارنے لگی۔دو پتھر کتے کو لگے اور وہ بے چارہ درد سے چیخنے لگا۔
”عینی!“ امی چیخیں،”یہ کیا کیا تم نے؟وہ بے چارہ تو تمہارے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا، اور تم نے اسے زخمی کردیا۔دیکھو، وہ لنگڑا رہا ہے اور اس نے اپنی دم بھی ٹانگوں میں دبا رکھی ہے۔“
کتا بے چارہ بہت اداس تھا۔ آج تک کسی نے اسے پتھر نہیں مارا تھا۔ نہ جانے اس لڑکی نے ایسا کیوں کیا تھا۔سارا دن وہ لنگڑاتا رہا۔ کبھی کبھی اپنی زخمی ٹانگ کو چاٹتا اور عینی کی طرف دیکھتا مگر وہ اب اس کے قریب نہیں جاتا تھا۔ اب وہ بھی عینی سے ڈرنے لگا تھا۔
عینی شرمندگی محسوس کرنے لگی تھی۔لیکن یہ دیکھ کر وہ خوش تھی کہ اب کتا اس سے دور رہتا ہے۔کچھ دیر بعد اس نے دوبارہ گیند اٹھایا اور اکیلے ہی کھیلنے لگی۔اس بار تو کتے نے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔
عینی نے زور سے گیند ہوا میں اچھالا تو وہ اس سے خاصی دور جا کر گرا۔گیند ریت پر گرا تھا اور تیزی سے سمندر کی طرف لڑھک رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ پانی تک پہنچ گیا۔ اسی وقت ایک بڑی لہر آئی اور گیند کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔
عینی رونے لگی:
”میرا گیند! میرا اتنا خوب صورت گیند!“
وہ گیند کے پیچھے جانے لگی تھی کہ امی نے اسے روک لیا۔وہ کہ رہی تھیں کہ اس وقت لہریں بہت تیز اور طوفانی ہیں اور اس کا سمندر میں جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔
”مگر میرا گیند، بالکل نیا تھا۔“ وہ رونے لگی۔
گیند اس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ بہتا ہوا کہیں اور چلا جائے گا اور کوئی اور بچہ اس سے کھیلا کرے گا۔یہ سوچ کر اس کا دل بھر آیا اور وہ اور زور زور سے رونے لگی۔
اُس کتے نے بھی گیند کو سمندر میں گرتے دیکھ لیا تھا اور اس نے رونے کی آواز بھی سنی تھی۔
وہ بہت نرم دل تھا۔کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔اسے عینی پر ترس آگیا۔وہ جلدی سے اٹھا اور لنگڑاتا ہوا گیند کی جانب بھاگنے لگا۔ اس کے ذہن میں صرف یہ خیال تھا کہ عینی کا گیند سمندر میں چلا گیا ہے اور عینی اداس ہے۔وہ عینی کا ظلم اور اپنی زخمی ٹانگ بھول چکا تھا۔
وہ چھلانگ لگا کر تیزی سے پانی میں داخل ہو گیا۔ایک بہت بڑی لہر آئی، جس نے ننھے کتے کو پیچھے دھکیل دیا۔مگر وہ ہمت کرکے پھر آگے بڑھا اور تیرنے لگا۔اب وہ آہستہ آہستہ گہرے پانی میں پہنچ گیا تھا۔اس کی زبان لٹک رہی تھی اور ٹانگیں پانی میں تیزی سے چل رہی تھیں۔
”ارے امی! دیکھئے۔“ عینی چلائی۔”وہ کتا میرا گیند لینے جا رہا ہے۔ کتنا بہادر ہے!“
”یہ وہی کتا ہے جس کو تم نے اتنی بے دردی سے مارا تھا۔پھر بھی وہ تمہارا گیند لینے جا رہا ہے۔“ امی نے جواب دیا۔
اب کتا گیند تک پہنچ گیا تھا۔ اس نے مضبوطی سے گیند کو منہ میں دبایا اور پھر واپس کنارے کی طرف تیرنا شروع کردیا۔وہ بڑی مشکل سے لہروں کا مقابلہ کرتا ہوا کنارے تک پہنچا،لنگڑاتا ہوا عینی کے پاس آیا،گیند کو اس کے قدموں میں ڈالا، دم ہلائی اور پھر ایک طرف کو بھاگ گیا۔
”اِس کتے نے تم سے کہیں زیادہ انسانیت کا مظاہرہ کیا۔“ عینی کی امی نے کہا۔”تم نے اسے خواہ مخواہ مارا اور زخمی کیا لیکن اس نے پھر بھی تمہاری مدد کی اور پھر شکریہ تک وصول کرنے کے لیے نہیں رکا۔“
عینی کا شرم کے مارے برا حال تھا۔اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے واقعی کتے کے ساتھ زیادتی کی تھی۔
”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، امی۔“ وہ بولی۔”لیکن اب میں کیا کروں؟اگر میں اس سے معافی مانگوں تو کیا وہ میری بات سمجھ جائے گا؟“
”میرے خیال میں تو وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ تم اس کے قریب جاؤ۔“ امی نے جواب دیا۔
اچانک عینی کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔
”امی!میں اُس کتے کو اپنا یہ نیا گیند دے دیتی ہوں۔“وہ بولی،”یہ مجھے بہت پسند ہے، مگر اس کتے کو بھی بہت اچھا لگتا ہے۔شاید اس طرح وہ مجھے معاف کر دے۔“
”شاپاش! عینی۔“ امی بولیں،”یہ تو واقعی بہت اچھا سوچا تم نے۔اگر کسی کے ساتھ ہم کوئی برا سلوک کریں تو پھر اس کی تلافی کرنا بھی ہمارا ہی کام ہے، لیکن کیا تمہیں اس کتے کے پاس جاتے ہوئے ڈر نہیں لگے گا؟آخر تم کتوں سے ڈرتی ہو۔“
”ڈرتی تو میں ہوں۔“ عینی بولی،”مگر اب گیند دینا ہے تو جانا ہی پڑے گا۔“
یہ کہ کر عینی نے گیند پکڑا اور کتے کو تلاش کرنے لگی۔وہ خاصی دور ریت میں لیٹا ہوا تھا۔عینی کو آتا دیکھ کر اس نے سر اٹھایا، مگر دم نہیں ہلائی۔وہ دم صرف دوستوں کے لئے ہلاتا تھا اور اسے یقین تھا کہ یہ لڑکی اس کی دوست نہیں ہے۔
”ننھے دوست۔“ عینی نے گھٹنوں کے بل کتے کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔”مجھے معاف کردو۔ میں نے تمہیں زخمی کیا۔ یہ لو،میرا گیند تم لے لو۔“
کتے نے عینی کی طرف دیکھا لیکن پھر بھی دُم نہیں ہلائی اور نہ گیند ہی لیا۔وہ اس لڑکی سے ڈرتا تھا۔
”لے لو۔“ عینی نے پھر کہا۔”اب یہ تمہارا ہے۔“
کتا پھر بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ بس اس نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔عینی پریشان ہو گئی۔اس نے گیند کتے کے پاس رکھ دیا۔ پھر اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور آہستہ سے کتے کی کمر پر پھیرا۔یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے کسی کتے کو پیار کیا تھا۔اسے کتے کے نرم نرم بالوں پر ہاتھ پھیرنا اچھا لگا۔اس نے کتے کو چمکارا ا ور بولی:
”تم بہت اچھے ہو۔“یہ کہ کو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔پھر وہ بھاگتی ہوئی اپنی امی کے پاس چلی گئی۔
کتا کچھ دیر حیران حیران نظروں سے عینی کو جاتا دیکھتا رہا۔اسے تعجب تھا کہ اس لڑکی نے نہ صرف اسے پیار کیا تھا بلکہ اپنا اتنا اچھا گیند بھی اسے دے گئی تھی،یعنی وہ اس کی دوست بننا چاہتی تھی۔ خوشی کے مارے اس نے زور زور سے دم ہلانی شروع کردی۔پھر چھلانگ لگا کر اٹھا، گیند کو منہ میں دباکر عینی کے پیچھے دوڑا اور بھونکنے لگا۔
”دیکھو، عینی!اس نے تمہیں معاف کردیا ہے اور اب تمہارے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔“ امی نے کہا۔
اب عینی اور کتے نے کھیلنا شروع کردیا۔ کبھی عینی گیند پھینکتی اور کتا اسے پکڑ کر لاتا اور کبھی عینی کی امی گیند پھینکتیں اور وہ دونوں اس کے پیچھے بھاگتے۔
اُسی دن، شام ہونے سے پہلے پہلے، عینی اور کتے کی آپس میں پکی دوستی ہو چکی تھی۔
اُس رات، سونے سے پہلے، عینی سوچ رہی تھی کہ وہ کتنی بے وقوف تھی کہ کتوں سے ڈرا کرتی تھی۔
”اب تو میرا دل چاہ رہا ہے کہ میرے پاس اپنا بھی ایک کتا ہو!“ وہ بولی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top