skip to Main Content

میں ایک میاؤں ہوں

مستنصر حسین تارڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف عید کے دن ’’میاؤں‘‘ بن گیا مگر کیوں؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’اسلام علیکم۔۔۔ جناب میں روزنامہ ’’مشرق‘‘ کی جانب سے آپ کو عید مبارک کہتا ہوں۔ ہم نے اپنے اخبار میں ’’خوش و خرم خاوند خوش و خرم خاندان‘‘ کے عنوان کے تحت ایسے خاوندوں کے انٹرویو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور ان کے اہلِ خاندان ان سے بے حد مطمئن ہیں، چنانچہ پہلا انٹرویو آپ کا ہوگا۔۔۔ آپ یہ فرمائیے کہ آج عید کا دن ہے، لیکن آپ کو آپ ہی کے گھر کے ایک چھوٹے کمرے میں بند کردیا گیا ہے اور آپ اس وقت صرف ایک لنگوٹ میں ملبوس ہیں ایسا کیوں ہے؟‘‘
’’معاف کیجئے گا یہ لنگوٹ نہیں بلکہ لنگوٹی ہے۔۔۔ ایک تو صحافی حضرات کی گرامر درست نہیں اور دوسرے یہ کہ اگر عید کے روز بھی ایک کمرے میں بند ہوں تو آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’جی مجھے تو کوئی تکلیف نہیں، لیکن ہمارے قارئین یقیناً اس کی وجوہات جاننا چاہیں گے‘‘۔
’’میں ایک میاؤں ہوں۔۔۔‘‘
’’جی کیا فرمایا آپ نے؟‘‘
’’میں ایک میاؤں ہوں، میاؤں میاؤں‘‘۔
’’یہ آپ کیا فرما رہے ہیں، آپ تو اچھے بھلے انسان ہیں بلی وغیرہ تو نہیں ہیں۔۔۔‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔ آپ بھی مجھے بلی سمجھتے ہیں۔ بھائی میں بلی نہیں ہوں میں تو ایک میاؤں ہوں‘‘۔
’’جی جی بالکل ۔۔۔ اچھا آپ یہ فرمائیں کہ آپ میاؤں کیسے بن گئے؟‘‘
’’کیسے بن گئے؟ بھئی جس طرح سب لوگ شادی کرتے ہیں اور میاؤں بن جاتے ہیں ویسے ہم بھی بن گئے۔۔۔ بات سنئے۔ ادھر کان میں۔۔۔ کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ میں بلی ہوں؟‘‘
’’بالکل نہیں۔ بالکل نہیں‘‘۔
’’لیکن میرے گھر والے یہی سمجھتے ہیں۔۔۔‘‘
’’کب سے سمجھتے ہیں؟‘‘
’’آج صبح سے۔۔۔ تبھی تو انہوں نے مجھے کمرے میں بند کردیا ہے‘‘۔
’’ذرا تفصیل سے بتائیے کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے؟‘‘
’’دیکھیے بھائی رپورٹر صاحب میں درمیانے درجے کا ایک درمیانہ سا ملازم ہوں اور اللہ کے فضل سے شکر کرتا ہوں اور صبر کرتا ہوں اور جو مل جاتا ہے اس پر سر جھکاتا ہوں۔ ہوا یہ کہ جب عید قریب آئی تو بچوں نے کہا کہ ہمیں نئے کپڑے اور نئے جوتے درکار ہیں۔۔۔‘‘
’’وہ تو بچے کہتے ہی ہیں۔۔۔‘‘
’’درمیان میں کیوں بولتے ہیں اچھے صحافی۔۔۔ اب مت ٹوکیے گا۔۔۔‘‘
’’چنانچہ جناب میں نے کچھ رقم کا بندوبست کیا اور انہیں بازار لے گیا اور وہاں میرے بچے کچھ زیادہ بھی نہیں بس یوں سمجھ لیجئے کہ آخری گنتی کے وقت درجن سے ایک دو کم ہی تھے۔۔۔ سب سے پہلے ہم جوتوں کی دکان میں گئے۔ وہاں سب بچوں نے جوتے بند کئے جو پڑنے تھے میرا مطلب ہے پہننے تھے جب ان کا بل بنا تو معلوم ہوا کہ پونے دو ہزار روپے کے ہیں۔۔۔‘‘
’’پونے دو ہزار کے جوتے؟‘‘
’’جی۔۔۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ میں میاؤں کیسے ہوگیا۔۔۔ بالکل جوتے۔۔۔ اور میں ایک ہزار روپیہ لے کر گیا تھا کپڑوں۔۔۔ جوتوں۔۔۔ چوڑیوں اور کھانے پینے وغیرہ کے لئے۔ بہرحال اِدھر اُدھر سے مانگ تانگ کر یہ بل پورا کیا اور جوتے گھر لے آئے۔۔۔ نئے کپڑوں کی چھٹی کرادی گئی۔۔۔ اب جناب آج نمازِ عید کے بعد لوگ آنے شروع ہوگئے، صفائی والی۔ دودھ والا، چوکیدار، سامنے پارک کا مالی، ڈاکیہ۔ عید مبارک صاحب عید مبارک صاحب۔۔۔ پتہ نہیں کون کون لوگ تھے سب کو دس دس پانچ پانچ تھمانے پڑے اور ہماری جیب خالی ہوگئی۔ آخر میں چوکیدار آیا تو جیب چونکہ خالی ہوچکی تھی اس لئے میری بیگم نے کہا کہ چوکیدار بہت کام کا آدمی ہے اسے خالی ہاتھ نہیں بھیجا جائے، اس لئے اسے یہ والا کرتا شلوار دے دیتے ہیں جو تم نے پہن رکھا ہے، ابھی استری تو خراب نہیں ہوئی، چنانچہ میں نے اپنا یہ سوٹ اُتار کر چوکیدار کو پیش کردیا۔۔۔ میں اس دوران بالکل نہیں بولا مسکراتا رہا۔۔۔ لیکن جب میرا کرتا شلوار اُتروایا گیا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کچھ تو میرا خیال کرو میں ایک میاؤں ہوں۔۔۔ تمہارا میاؤں ہوں ۔۔۔‘‘
’’قطع کلامی کی معافی چاہتا ہوں آپ نے اپنی بیوی سے کہا ہوگا کہ میں ایک میاں ہوں، یعنی ایک خاوند ہوں‘‘۔
’’جی بالکل میں نے یہی کہا کہ میں ایک میاؤں ہوں‘‘۔
’’میاؤں ہوں یا میاں ہوں؟‘‘
’’یہی دوسرے والا جس کا مطلب خاوند ہوتا ہے۔۔۔ بس یہی کہا کہ بیوی بچو تم کچھ تو میرا خیال کرو۔ آج میں اس لنگوٹی میں ملبوس ہوں اور عید کا دن ہے۔۔۔ تمہارا باپ ہوں اور تمہارا میاؤں ہوں۔۔۔ بس جی یہ کہنا تھا کہ میری بیوی نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا کہ میرے سرتاج کو کیا ہوگیا ہے، آپ بلیوں کی طرح میاؤں میاؤں کیوں کرنے لگے ہیں۔ مجھے سخت تاؤ آیا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ تم میری بیگم ہو اور میرا تمہارا میاؤں ہوں۔۔۔ لیکن وہ اور زور زور سے رونے لگی اسے دیکھ کر بچے بھی رونے لگے۔ تب مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے کہا کہ کون کہتا ہے کہ میں میاؤں نہیں ہوں، میں تمہارا میاؤں ہوں۔ ایک عرصے سے میاؤں ہوں اور ہمیشہ میاؤں رہو گا۔۔۔ میاؤں۔ میاؤں۔ میاؤں۔۔۔ پھر پتہ نہیں انہیں کیا ہوا ان سب نے مجھے پکڑ کر اس کمرے میں بند کردیا اس لنگوٹی سمیت۔۔۔‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔ بالکل۔۔۔ اخراجات کی وجہ سے انسان کچھ میڑ تو ہی جاتا ہے۔۔۔‘‘
’’آپ ہوں گے میڑ میں تو میاؤں ہوں۔۔۔‘‘
’’اچھا جناب انٹرویو کا بہت بہت شکریہ اب اجازت دیجئے‘‘۔
’’بات سنیے‘‘۔
’’جی فرمائیے‘‘۔
’’ذرا اور قریب آجائیے‘‘۔
’’جی‘‘۔
’’آپ کا کیا خیال ہے کہ میں سچ مچ میاؤں ہوگیا ہوں؟۔۔۔ اجی نہیں صاحب میں ایک میاں ہوں اور میاؤں نہیں ہوں‘‘۔
’’تو پھر آپ۔۔۔‘‘
’’دیکھیں ناں بھائی ابھی تو عید کی صبح ہے۔۔۔ ابھی میری ہمشیرگان آئیں گی اپنی درجنوں بچوں کے ساتھ پھر بھائی آئیں گے ان کے بعد بیگم کے رشتے دار شروع ہوجائیں گے اور آپ ستارے شمار کرسکتے ہیں، لیکن انہیں اور ان کے بچوں کو نہیں گن سکتے۔۔۔ اور ان تمام بچہ لوگ کو اگر پانچ پانچ روپے عیدی بھی دوں تو سارے سال کی تنخواہ لگ جائے گی، چنانچہ صرف آج کے دن کے لئے میں ایک میاؤں میاؤں ہوں۔ لوگ آئیں گے اور میری بیوی کو آبدیدہ دیکھ کر پوچھیں گے کہ کیا ہوا اور وہ کہے گی کہ میرے خاوند بلی ہوگئے ہیں۔۔۔ اور وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے چلے جائیں گے اور میں عیدیوں کی رقم بچالوں گا۔۔۔ یہ ہے عیدیاں بچانے کا صحیح طریقہ۔۔۔ میری طرف سے آپ کو بھی میاؤں عید مبارک ۔۔۔ میاؤں میاؤں‘‘۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top