skip to Main Content
مین سوئچ

مین سوئچ

حماد ظہیر

………………………..

شجاعت مرزا اور سدھر جائیں، ممکن نہیں۔۔۔ !!

………………………..

ان کی کوشش ہمیشہ سے یہی ہوتی ہے کہ دوچار نہیں بلکہ کم از کم دس ہزار لوگوں سے پٹیں۔ اگر صرف ہاتھوں، مکوں سے گزارا ہو سکتا ہوتا تو شاید ان کی یہ خواہش ہم ہی پوری کر دیتے مگر وہ تو لاتوں کے بھوتوں کے بھی سردار ہیں۔
ہم نے بہت سمجھایا کہ ہم دس بارہ بلیک بیلٹ قسم کے کراٹے ماسٹر چن لاتے ہیں۔ان سے اچھی طرح پٹ کر ایک ہی مرتبہ اپنی ہڈی پسلی ایک کرالو، مگر مرزا ہمیشہ نت نئے طریقوں ہی کی تلاش میں رہے۔
یہ طریقے ایسے ہوتے تھے کہ ہم مرزا کو بچانے کے بجائے از خود دو دھبے لگانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ ہمارے حساب سے ایسے موقعوں پر مرزا سے لڑنا ایک نیکی، ان کو مارنا کارِثواب اور ان کو پیٹنا کسی کارِ خیر سے کم نہ تھا۔

*۔۔۔*

شجاعت کو ایک جھگڑا کھڑا کرنے میں ہمیشہ بہت مزہ آتا۔ اچھی بھلی پانچ فروری کی چھٹی ہوا کرتی تھی، مگر اس نے پرنسپل صاحب کے کان ایسے بھرے کہ انہوں نے اس دن ایک نمائش کا اعلان کر دیا۔
کالج کے احاطے ہی میں عمارت کے ساتھ ایک بہت بڑا میدان تھا، جہاں طلبہ نے اس خصوصی دن کی مناسبت سے اسٹال لگانے تھے۔ 
اس نمائش کو صرف کالج ہی کے لوگوں کیلئے نہیں بلکہ عوام الناس کیلئے بھی کھولا جانا تھا، لہٰذا اس کے اوقات شام اور رات کے رکھے گئے تھے۔
سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے اسٹال کیلئے پرنسپل صاحب کی طرف سے انعام تھا اور اسی نے جھگڑا ڈال دیا تھا۔
ہر اسٹال والے، دوسرے اسٹال والوں کو اپنا دشمن خیال کررہے تھے۔ مدد کرنا تو درکنار، کوئی سیدھے منہ بات بھی نہیں کررہا تھا۔ نمائش کیلئے دکھائی جانے والی چیزوں کی کسی اہم راز کی طرح حفاظت کی جا رہی تھی۔ ہر کوئی دوسرے کی ٹوہ میں تھا کہ اس نے کچھ انوکھا نہ کر لیا ہو۔
ہم عموماً ایسے جھگڑوں میں کم ہی پڑتے ۔ مگر شجاعت ساتھ ہو تو سوچ ضرور لیتے تھے۔
شجاعت ہی کے کہنے پر ہم نے ایک اسٹال بک کرا لیا، لیکن اس کا اندازہ تو شاید ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں تھا کہ اس میں رکھا کیا جائے گا؟
’’ کیوں شجاعت ، ہمارے اسٹال میں کیا ہوگا؟‘‘
’’پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا!‘‘ مرزا کسی شاعر کی طرح بولے۔
’’ کیا؟؟؟ کشمیر ڈے پر ہم لوگ کھانے پینے کا اسٹال لگائیں گے!‘‘ ہم آپے سے باہر ہو گئے۔
’’ تو کیا کشمیر ڈے پر لوگ کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں؟‘‘ مرزا نے بحث شروع کر دی۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ بتانا نہیں چاہتے، اور ایسے میں ان سے اگلوا لینا مرغے سے انڈا دلوانے کے مترادف تھا۔
’’ ہماری کوئی مدد چاہیے تو ابھی بتا دو، ورنہ بعد میں سارا کچھ تمہیں اکیلے ہی کرنا پڑے گا۔‘‘ ہم نے بے نیازی سے کہا اور چل دیئے۔
’’ارے ارے رکو۔۔۔ مدد تو چاہیے!‘‘ شجاعت چلایا تو ہم ٹھہر گئے۔
’’ پانچ کلو باسمتی چاول، تین کلو گوشت ، تیل دھنیا، کڑھی پتا۔۔۔‘‘
ہم نے لاحول پڑھا اور دوبارہ چل دیئے!

*۔۔۔*

ہمارا خیال تھا کہ شجاعت کے بچے نے ضرور کچھ نہ کچھ سوچ کر ہی وہ اسٹال بک کرایا ہوگا اور ہمارے پیٹھ پیچھے وہ اس میں کسی نمائش کی تیاری کررہے ہوں گے، مگر تف ہے ہمارے ہر اس خیال پر جو ہم نے شجاعت کے بارے میں مثبت کیا ہو۔وہ کچھ نہیں کررہے تھے۔
ہم نے صبح میں، شام میں، دوپہر میں رات میں، چھپ کر اور اعلانیہ، ہر طریقہ سے تفتیش کرکے دیکھ لی مگر ہر زاویہ سے مرزا کو سست اور نکما پایا۔
یہاں تک کہ جب چار فروری آگئی تو ہم پھٹ پڑے۔
’’آخر ہم لوگ نمائش میں کیا پیش کریں گے؟‘‘
’’ہم لوگ نہیں، صرف ہم کہو کیونکہ اسٹال تو تمہارے نام سے بک ہوا ہے۔‘‘
ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ہمیں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ پرنسپل صاحب کو توجواب دہ ہم ہوں گے۔
’’ لیکن ایسا تو ہم نے تمہارے کہنے پر کیا تھا!‘‘ ہم اپنی پریشانی اور غصہ دونوں پر قابو رکھتے ہوئے بولے۔
’’آدھی بات مانو گے اور آدھی نہیں تو ایسا ہی ہوگا میری جان!‘‘ وہ انتہائی سکون سے بولے۔
’’ کیا آدھی بات؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔
’’مطلب یہ کہ اسٹال تو بک کرا لیا، لیکن نہ چاول لا کر دیئے، نہ تیل پیاز گوشت، اب پلاؤ بنے تو کیسے بنے؟‘‘
’’ یہ خیالی پلاؤ تم ساری زندگی پکاتے رہنا، ہم انتہائی سنجیدہ ہیں!‘‘ ہم نے اسے پٹری پر لانے کی کوشش کی!
’’ یقین مانو! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے اسٹال کو سب سے زیادہ پسند کیا جائے تو۔۔۔ ‘‘ ہم ہمہ تن گوش ہو گئے۔
’’۔۔۔ تو لوگوں کی پسندیدہ ڈش بناؤ اور کھلاؤ۔ پیسے بھی ملیں گے اور داد بھی۔‘‘
ہم مٹھیاں بھینچ کررہ گئے۔ پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولے۔
’’دوسروں کو اس کے سوا کچھ نہیں سوجھ رہا کہ وہ کشمیر سے متعلق تصاویر رکھیں۔‘‘ ہم نے شجاعت کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’ظاہر ہے۔۔۔ اب وہ کشمیر کے سیب یا شالیں تو رکھنے سے رہے۔‘‘
’’بہت خوب، آئیڈیا برا نہیں!‘‘ ہم نے خوش ہو کر چٹکی بجائی۔
’’مم مم مم ! میں تو سمجھتا تھا کہ بھری دنیا میں میں اکیلا ہی ایک احمق ہوں، مگر تمہیں دیکھ کر بہت حوصلہ ملتا ہے!‘‘ مرزا سرد آہ بھر کر بولے۔

*۔۔۔*

نمائش رات میں ہونی تھی، کیونکہ سردیوں کی شامیں تو ویسے ہی بڑی مختصر ہوتی ہیں۔
ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنا اسٹال سجانے میں مصروف تھا۔ انعام جیتنے کی کوشش میں خوب خرچہ بھی کیا گیا تھا۔ بڑے بڑے رنگ برنگے پوسٹر لگائے گئے تھے۔ برقی قمقمے لگا کر اسٹال کو چار تارے لگا دیئے گئے تھے۔ اندھیرے کا خیال رکھتے ہوئے بڑی بڑی لائٹیں بھی لگائی گئی تھیں۔
کچھ نے تو اسپیکر پر کشمیری ترانے چلانے کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔
ہم انتظامات دیکھ کر زمین میں گڑے جارہے تھے کہ ہمارے اسٹال پر ایک بلب تک نہ تھا۔ اور ہم نے بڑی مشکل سے جو دوچار تصاویر اور ایک کشمیری شال حاصل کی تھی، وہ پوری نمائش میں ایک ٹاٹ کے پیوند سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھی۔
شجاعت مرزا غائب تھے، ہم رہ رہ کر انہیں کوس رہے تھے کہ کہاں ہمیں اکیلے پھنسا گئے۔ ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ نمائش شروع ہونے سے پہلے پہلے ہم بھی کہیں روپوش ہوجائیں گے!
ایک اسٹال پر تو ہمیں ٹیلی ویژن بھی رکھا دکھائی دیا، گویا وہ لوگ اس پر کوئی ڈاکو منٹری چلانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ہم شرم سے ڈوب ہی تو مرے کہ تھوڑا دماغ لگاتے تو کچھ ایسا ہم بھی کرلیتے، مگر ہمیں تو اس شجاعت کے بچے نے اس حال تک پہنچایا نا کہ نہ رہتے اس کے آسرے پر تو کچھ کر ہی جاتے۔ نہ بھی کرتے تو کم از کم یہ اسٹال تو نہ لیتے۔ کتنی امیدوں سے پرنسپل صاحب نے کہا تھا۔
’’تم سے اور شجاعت سے مجھے بہت عمدہ چیز کی توقع ہے۔‘‘
بہرحال اب پانی سر سے گزر چکا تھا، بلکہ سر سے کیا پرنسپل سے بھی گزر چکا تھا۔ پچھتانے کے ساتھ ساتھ صرف ایک کام اور بچا تھا۔۔۔ شجاعت کو مار مار کر گنجا کر دینا۔
نمائش کا وقت شروع ہوا تو تھوڑے تھوڑے کرکے لوگ آنے شروع ہوئے۔ جیسے جیسے اندھیرا بڑھا رش بھی بڑھنا شروع ہو گیا اور رنگ برنگی روشنیوں نے اسٹالز کی خوبصورتی کو اور زیادہ جگمگانا شروع کر دیا۔
ہر کوئی اپنے اسٹال اور نمائش کی چیزوں کو بڑھ چڑھ کر پیش کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
ہمارا خیال تھا کہ شاید شجاعت دیر سویر پہنچ ہی جائے، مگر وہ حضرت سرے سے تشریف ہی نہیں لائے تھے۔
ہمارا اسٹال اندھیراور ویران پڑا ساری نمائش کیلئے ایک بدنما داغ بن چکا تھا۔ ہمیں اپنی شامت قریب ہی دکھائی دے رہی تھی اور ہم وہاں سے کھسکنے کا پروگرام بنا چکے تھے۔
یکایک سارے میدان میں اندھیرا چھا گیا۔ شاید بجلی چلی گئی تھی۔ دو ایک بچے عمارت کی طرف دوڑے تاکہ جنریٹر چلائیں۔ 
اسٹال والے عوام کو تسلیاں دے رہے تھے کہ ابھی چند ہی لمحوں میں بجلی آجائے گی اور روشنی ہوجائے گی۔ مگر کافی دیر تک بھی کچھ نہ ہوا تو بہت سارے لوگ قافلے کی صورت میں عمارت کی طرف بڑھے۔
وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عمارت کے صدر دروازے کی گرل اندر سے لاک ہے، جہاں ایک منحنی سا الول جلول لڑکا سر جھکائے بیٹھا ہے۔
’’دروازہ کھولو۔۔۔ ہمیں جنریٹر چلانا ہے، یا خود ہی چلا دو۔‘‘ کسی نے کہا مگر لڑکے کے کان پر جوں تک نہ رینگی، شاید وہ سو رہا تھا۔
لوگوں کی باتیں شور شرابے اور چیخ و پکار میں تبدیل ہو گئیں، وہ گرل پر لاتیں مکے برسانے لگے۔۔۔ مگر!
مگر لڑکا ٹس سے مس نہ ہوا۔ لگتا تھا وہ سویا نہیں بلکہ ہیڈ ڈاؤن کیے کیے شاید مر ہی چکا ہے۔
جب تک لوگوں نے گرل توڑنے کا فیصلہ کیا اس وقت تک نمائش کی تقریباً ساری ہی عوام وہاں جمع ہو چکی تھی۔ اتنا رش کسی ایک لڑکے کے پاس جمع ہوتا دیکھ کر ہماری چھٹی سے لے کر تیرہویں تک ہر حس پھڑکی اور ہم دل تھام کر رہ گئے۔
لڑکے نے پہلے سر اٹھایا اور پھر کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
’’خاموش!!‘‘
مجمع کو سانپ سونگھ گیا اور ہمیں ناگ ۔ وہ بھی کالا اور خطرناک کہ یہ آواز کسی اور کم بخت کی نہیں بلکہ شجاعت مرزا کی تھی۔
وہ کہہ رہے تھے۔’’جنریٹر چلانے کی ضرورت نہیں۔ بجلی نہیں گئی ہے بلکہ میں نے مین سوئچ بن کر دیا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنا کارنامہ بتایا اور ایسے مسکرائے کہ ان کی بتیسی اندھیرے میں چمکنے لگی۔
ہمیں اندازہ ہو گیا کہ آج ان کے بتیس دانت دو سوچھ ہڈیاں ٹوٹ کر رہیں گی کیونکہ انہوں نے پلاننگ ہی ایسی کی تھی کہ دو چار سے نہیں بلکہ کم از کم دس ہزار لوگوں سے پٹیں!

*۔۔۔*

’’شجاعت ! آخر تم نے مین سوئچ کیوں بند کر دیا۔ کیا تمہیں پتا نہیں تھا کہ میدان میں ایک نمائش ہو رہی ہے۔ بے شمار لوگ وہاں آئے ہوئے ہیں۔‘‘ کسی نے گویا ایک تازہ اور انوکھی خبر دی۔
’’پتا ہے!‘‘ شجاعت نے کندھے اچکائے۔
’’ پھر کیوں تم نے مین سوئچ بند کیا؟‘‘ اس مرتبہ سختی سے پوچھا گیا۔
’’میری مرضی!‘‘ شجاعت اڑیل پن سے بولا۔
’’تمہاری مرضی نہیں۔ یہ پورے کالج کا معاملہ ہے۔ سوئچ کھولو ورنہ۔۔۔‘‘
’’ ورنہ کیا؟ تم لوگ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ گرل کوئی عام گرل نہیں ہے۔ اسے توڑنے میں کم از کم چار پانچ گھنٹے لگیں گے!‘‘ شجاعت مکاری سے بولا۔
ہمیں اس کی تکہ بوٹی ہوتی قریب ہی نظر آئی کیونکہ طلبہ اس بات پر بھڑک اٹھے اور لگے الٹی سیدھی چیزوں سے گرل کو ٹھوکنے پیٹنے ۔ کوئی لکڑی سے ٹھوک رہا ہے تو کوئی سریے سے پیٹ رہا ہے۔ کسی نے تو اٹھا کر گملا تک دے مارا۔
مگر بے اثر۔ گرل پر بھی اور شجاعت پر بھی۔ دونوں ڈھیٹ نکلے۔
آخر کچھ صلح جو قسم کے لوگ آگے بڑھے اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے شجاعت کو سمجھانے بجھانے لگے۔
کافی کچھ سننے کے بعد شجاعت بولا۔
’’ہر اسٹال والا مجھے پچاس روپے دے تو کھول سکتا ہوں۔‘‘
ہم تو شجاعت کے نیچ پن پر بلبلا گئے اور تہیہ کر لیا کہ آئندہ اس سے سوائے دشمنی کے اور کوئی تعلق نہ رکھیں گے۔‘‘
’’ اتنے زیادہ ۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘‘
’’ٹھیک ہے، پھر گرل ہی توڑ لو۔ نمائش کا کیا ہے۔‘‘ شجاعت جمائیاں لیتا ہوا دوبارہ بیٹھ گیا۔
کچھ دیر چہ مگوئیاں ہوئیں اور آخرکارلوگوں نے کسی نہ کسی طرح پچاس پچاس روپے جمع کیے۔ 
شجاعت نے بڑے محتاط انداز میں وہ پیسے وصول کیے اور بڑی دیر تک انہیں گنتا رہا۔
’’اب سوئچ بھی آن کر دو شجاعت۔‘‘ کسی نے اسے یاد دلایا۔
’’وہ تو میں نے نہیں کرنا۔ میں تو ایسے ہی کہہ رہا تھا۔‘‘ وہ بدمعاشوں کی طرح مسکرایا اور سکون سے بیٹھ گیا۔
مجمع کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ بپھرے ہوئے ہاتھی کی طرح گرل سے ٹکریں مارنے لگا۔ ہمیں شجاعت کا کفن دفن قریب نظر آنے لگا۔ مگر گرل کا کچھ نہ بگڑا۔
آخر مجمع پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
’’شجاعت ! آخر تم کیسے مانو گے؟‘‘ کسی نے سوال کیا۔
’’پچاس پچاس اور دو تو سوچوں!‘‘ شجاعت نے گھٹیاپن میں ایک نیا رتبہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
لوگ گالم گلوچ پر اتر آئے ۔ ایسے میں ہی کہیں سے پرنسپل صاحب بھی آتے دکھائی دیئے۔
’’یہ کیا ناٹک ہے شجاعت؟ ‘‘ وہ غصہ سے بولے۔
’’سر میں نے صرف مین سوئچ ہی تو بند کیا ہے، ان کے اسٹال میں کوئی توڑ پھوڑ تھوڑ ا ہی کی ہے۔ بلکہ میں تو نمائش کے قریب بھی نہیں گیا، پھر بھی نہ جانے کیوں یہ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔‘‘ شجاعت بھولے پن سے بولا۔
’’تم نے ان کی بجلی بند کر دی، ان کے اسٹال سے زندگی ختم کر دی اور کہتے ہو کہ کچھ نہیں کیا؟‘‘
’’انہیں شکر کرنا چاہیے کہ میں نے صرف یہی کیا۔ اگر میں کسی طرح انہیں تیز وولٹیج مار دیتا تو نہ صرف ان کی لائٹیں اور برقی آلات جل جاتے بلکہ ان سے ایسی آگ لگتی کہ سب کچھ ختم ہوجاتا۔‘‘ شجاعت سفاکی سے بولا۔
’’مگر تم ایسا کیوں کرتے شجاعت؟‘‘ پرنسپل صاحب حیرانی سے بولے۔ پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا اور ہر کوئی اس بات کا جواب سننے کے لیے بے چین تھا۔ شجاعت آخر شجاعت تھا۔ وہ سماں باندھ ہی لیا کرتا تھا۔
’’ کیونکہ میں نے ان کی شہ رنگ پر قبضہ کر لیا ہے۔ جب چاہے اسے بند کرکے ان کی سانس روک دوں اور جب چاہے اس سے زہر اتار دوں جو سارے جسم تک خود بخود پھیل جائے۔ یوں سمجھ لیں کہ میں بھارت ہوں جس نے کشمیر پر قبضہ کر لیا ہے ۔ پاکستان کی شہ رگ پر ۔ جب چاہے پانی بند کرکے فصل تباہ کردے، اور جب چاہے زیادہ پانی کھول کر سیلاب بپا کردے۔‘‘ شجاعت مطلب کی بات پر آہی گیا تھا۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر پرنسپل صاحب بولے ’’ اب کیا ہوگا شجاعت؟‘‘
’’ان لوگوں سے کہیں کہ یہ اپنا مسئلہ مجھ سے بات چیت کے ذریعے حل کرا لیں۔ میرا کیا جاتا ہے کرتا رہوں گا زندگی بھر بات چیت۔ وقتاً فوقتاً پیسے بھی بٹورتا رہوں گا۔ مگر بجلی میں نے نہیں کھولنی۔ آخر دشمن کے پانی سے اپنی فصلیں سیراب ہوں تو کیا برا ہے۔ بجلی اور توانائی پیدا ہو تو کیا برا ہے۔ آپ مذاکرات کرتے رہیے۔‘‘ شجاعت کا چہرہ جذبات کی شدت سے سرخ ہو گیا۔
سب کو سمجھ آگیا کہ طاقت کے زور پر دشمن کو اپنی شہ رگ سے بے دخل کر دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
شجاعت نے کونے پر رکھا ایک چندے کا ڈبہ اٹھایا اور سارے پیسے اس میں ڈال دیئے۔ پہلے اس نے مین سوئچ کھولا اور پھر گرل کا دروازہ اور ہمیں وہ ڈبہ پکڑاتے ہوئے بولا۔ 
’’ اپنے اسٹال پر یہ ڈبہ رکھ دو۔ نمائش سے محظوظ ہونے والے لوگ اگر چار چار آنے بھی اس میں ڈال دیں تو شاید یہ ان کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو۔‘‘ ہم نے دیکھا اس پر آڑھی ترچھی خوشخطی سے لکھا تھا۔ 
’’جہاد کشمیر فنڈ۔‘‘

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top