skip to Main Content

مہرِ نبوت

قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری
۔۔۔۔۔

سیرت محمدیہ ﷺ
ہمارے نبی محمد ﷺ بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔عدنان سے اکیسویں پشت میں ہوئے۔عدنان چالیسویں پشت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نامور فرزند تھا۔حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کے بڑے بیٹے ہیں۔
آنحضرت ﷺمکہ میں دوشنبہ کے دن نوربیع الاول(عام الفیل) کو پیدا ہوئے۔ابھی ماں کے پیٹ میں تھے کہ باپ کا انتقال ہوا۔ جب چھ سال کی عمر ہوئی تب ماں نے انتقال کیا۔
آنحضرت ﷺ کی والدہ مکرمہ کا نام آمنہ ہے۔ان کا نسب تین پشت اوپر جا کر حضور ﷺ کے ددھیال سے جا ملتا ہے۔
جب آنحضرتﷺ آٹھ سال دومہینے اور دس دن کے ہوئے تو دادا فوت ہوئے۔ابوطالب جو آنحضرت ﷺ کے والد عبداللہ کا حقیقی بھائی ایک ماں سے تھا،سرپرست متعین ہوا۔
تیرہویں سال میں شام کے سفرکو چچا کے ساتھ گئے تھے،مگر راہ میں سے واپس آگئے۔جوان ہو کر کچھ دنوں تجارت کرتے رہے۔
پچیس سال کی عمر پوری ہونے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی۔پھر حضور ﷺ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت یا لوگوں کی بھلائی میں پورا کرتے رہے۔پینتیس سال کی عمر تھی جب قریش میں کعبہ کی عمارت پرجھگڑا ہوا۔سب نے آنحضرت ﷺ کو صادق اور امین جان کر منصف بنایا۔
نبوت
چالیس سال ایک دن کی عمر ہوئی تو خدا کی وحی ہوئی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔خدیجہ رضی اللہ عنہا(بیوی)علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ(بھائی عمر دس سال)ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ(دوست) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (مولیٰ آنحضرتﷺ) فوراً مسلمان ہو ئے۔
پھر حضرت صدیق کی ہدایت سے عثمان غنی،عبد الرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص،طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے۔ابو عبیدہ، ابوسلمہ، ارقم، عثمان بن مظعون اور عبداللہ بن مسعود، عبیدہ بن الحارث،سعید بن زید،یاسر،عمار،بلال رضی اللہ عنہم ان کے بعد مسلمان ہوئے ۔عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور نبی ﷺ کی بیٹیوں رضی اللہ عنھن کے بعد ام الفضل(حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بیوی)مسلمان ہوئیں۔پھر اسماءرضی اللہ عنہا(ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی) پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا(عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بہن)۔
تین برس تک آنحضرت ﷺ چپکے چپکے لوگوں کو اسلام سکھلاتے رہے۔پھر کھلم کھلا سکھلانے لگے۔جہاں کوئی کھڑا بیٹھا مل جاتا یا مجمع نظر آتا،وہیں جا کر ہدایت فرماتے تھے۔
مکہ والے اب مسلمانوں کو ستانے لگے۔ان کو رنج یہ تھا کہ جو کوئی مسلمان ہو جاتا ہے۔وہ بت پوجنا چھوڑدیتا ہے۔مسلمان دو برس تک بڑی بڑی تکلیفیں سہتے رہے۔پھر انہوں نے تنگ آکرمکہ سے چلے جانے کا ارادہ کرلیا۔
مسلمانوں کا وطن چھوڑنا
رجب ۵نبوت میں سب سے پہلے عثمان غنی رضی اللہ عنہ گھر بار چھوڑ کے اپنی زوجہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو(جو نبی ﷺ کی دوسری بیٹی ہیں) ساتھ لے کے حبش کو روانہ ہوئے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حضرت لوط علیہ السلام پیغمبر کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ پہلا شخص ہے،جس نے خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑا۔ان کو سمندر تک پانچ عورتیں اور بارہ مرد اور جا ملے۔ان کے پیچھے بہت مسلمان حبش گئے۔ان میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی ہیں۔
۶نبوت کو حمزہ رضی اللہ عنہ(آنحضرت ﷺ کے چچا) اور ان سے تین دن پیچھے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔
مسلمان اس وقت تک چھپ چھپ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔اب کعبہ میں جاکر پڑھنے لگے۔
۷نبوت کو قریش نے آپس میں ایک عہد نامہ لکھا کہ کوئی شخص مسلمانوں کے ساتھ لین دین اور رشتہ ناطہ نہ کرے،ہاشمی قبیلہ کے ساتھ بھی لین دین اور رشتہ ناطہ بند،کیوں کہ وہ آنحضرت ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔
اس ظلم کی وجہ سے آنحضرت ﷺ اور ہاشمی قبیلے کے سب لوگ ایک پہاڑی کی کھوہ(شعب ابی طالب) میں بند رہے۔کھانے پینے کی چیزیں بھی دشمن اندر نہ جانے دیتے۔گڑھی کے اندر بچے جب بھوک کے مارے روتے تو ان کے رونے کی آواز شہر تک سنائی دیتی۔ کوئی شخص ترس کھاتا تو تھوڑا بہت اناج چھپ چھپا کر رات کو پہنچادیتا،ان سب سختیوں پر بھی آنحضرت ﷺ اللہ کے پاک نام اور سچے دین کو برابر پھیلاتے رہے۔
۱۰ نبوت
آنحضرت ﷺ طائف پہاڑ پر اسلام کا وعظ فرمانے لگے۔جب آنحضرت ﷺ وعظ کے لیے کھڑے ہوتے تو لوگ پتھر مارا کرتے۔حضور ﷺ لہو میں تر بہ تر ہو جاتے ۔کہو بہہ بہہ کر جوتے میں جم جاتا،پاﺅں سے جوتے اتارنا مشکل ہوجاتا۔
ایک دن آنحضرت ﷺ کے اتنی چوٹیں لگیں کہ بے ہوش ہو کر گرگئے۔ زید بن حارثہ جو ساتھ تھے ،حضور ﷺ کو اٹھا کر بستی سے باہر لے گئے۔ منہ پر پانی چھڑکنے سے ہوش آیا۔پھر آنحضرت ﷺ وہاں سے چلے آئے اور یہ بھی فرمایا کہ اگریہ لوگ نہیں مسلمان ہوتے تو ان کی اولاد تو ضروراللہ پاک کو ایک ماننے والی ہوجائے گی۔(آٹھ برس کے بعدسارا طائف مسلمان ہو گیا تھا)
۱۱نبوت
آنحضرت ﷺ راستوں ، گزرگاہوں پر جایا کرتے۔آتے جاتے کو وعظ سناتے۔ایک دن آنحضرتﷺ شہر کو آرہے تھے۔رات پڑ چکی تھی۔آنحضرت ﷺ کو ایک طرف سے کچھ آدمیوں کی بات چیت کی آواز سنائی دی۔ادھر گئے، وہاں مدینہ کے چھ آدمی اترے ہوئے تھے۔آنحضرت ﷺ نے وعظ فرمایا،اسلام سمجھایا۔وہ مسلمان ہوگئے۔
۱۲ نبوت
(۱)۷۲رجب کو ۵۱سال ۵ مہینہ کی عمر میں آنحضرت ﷺکو معراج ہوا۔مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔اس سے پہلے دو نمازیں فجر اور عصر پڑھی جاتی تھیں۔
(۲)موسم حج میں ۸۱شخص مدینہ سے مکہ آئے۔انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔آنحضرت ﷺنے ان کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیج دیاکہ لوگوں کو اسلام سکھائیں۔اس پاک زمین میں اسلام کو خوب ترقی ہوئی۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کے وعظ سے بنو نجار اور بنو اشہل کے قبیلے اور دوسرے قبیلوں کے بہت سے لوگ ایک ہی سال میں مسلمان ہوگئے۔
۱۳نبوت
(۱)دوعورتیں ،۳۷ مرد مدینہ سے آئے اور انہوں نے بیعت اسلام کی اور آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ مدینہ چلیں۔آنحضرت ﷺ نے منظور فرمایاکہ مدینہ رہا کریں گے۔انہوں نے اقرار کیا کہ اسلام پر پکے رہ کر حضور ﷺ کی اطاعت اور نصرت کیا کریں گے۔
(۲)جب مکہ کے دشمنوں نے سنا کہ اسلام مکہ سے باہر پھیل رہا ہے تو انہوں نے ارادہ کرلیاکہ آنحضرت ﷺ کو قتل کردیں۔ ایک رات انہوں نے آنحضرت کے گھر کو گھیر لیا۔آنحضرت ﷺ ان کے گھیرے میں سے صاف نکل گئے۔
ہجرت
نبی ﷺ گھر سے نکل کر تین دن رات غار ثور کے اندر رہے۔ابوبکر صدیق بھی ساتھ تھے۔دوشنبہ یکم ربیع الاول،۱ہجری کو غار ثور سے نکلے۔دواونٹ سفر کے لیے موجود تھے۔ایک پر نبی ﷺ اور صدیق سوار ہوئے،دوسرے اونٹ پر عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام اورایک راستے کا واقف شخص تھا ۔یہ سب مدینہ کو روانہ ہوئے۔
جب دشمنوں نے آنحضرت ﷺ کا جانا سنا تو انہوں نے بڑے بڑے انعام مقررکیے، اس شخص کے واسطے جو آنحضرت ﷺ کو پکڑ لائے یا سر کاٹ لائے۔
انعام کے لالچ سے بہت لوگ پیچھے لگے،مگر دو شخص حضور تک پہنچے۔مالک بن سراقہ،یہ تو اپنے قصور کی معافی لے کر واپس آگیا۔
بریدہ اسلمی،اس کے ساتھ ۰۷ سوار بھی تھے۔یہ چہرہ مبارک کو دیکھتے اور کلام پاک سنتے ہی مسلمان ہوگئے اور حضور ﷺ کے ساتھ آگے کو چلے گئے۔
۱ھ یا ۱۴نبوت
(۱)آنحضرت ﷺ نے مدینہ پہنچتے ہی خدا کی عبادت کے واسطے مسجد بنائی۔دیواریں کچی اینٹوں کی اور چھت پر کھجور کے پٹھے ڈالے گئے۔
(۲)ظہر،عصر،عشاءکی نماز میں اب تک دودو رکعت تھیں۔یہاں چارچار رکعتیں مقرر ہوئیں۔
(۳)مدینہ کے یہودیوں اور آس پاس کے رہنے والے قبیلوں سے امن اور دوستی کے عہد نامے ہوئے۔
(۴)جومسلمان مکہ سے آئے تھے(مہاجرین)ان کا مدینہ کے رہنے والے مسلمان (انصار) سے بھائی چارہ(مواخات) قائم کیا گیا۔یہ دین کے بھائی سگے بھائیوں سے زیادہ پیار کرتے تھے۔اپنی جائیدادیں برابر بانٹ لیتے تھے۔
۲ھ یا ۱۵نبوت
(۱)نماز کے لئے اذان دینے لگے۔
(۲)اللہ کے حکم سے کعبہ کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھنے لگے۔اب تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھا کرتے تھے۔
(۳)ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔
۳ھ یا۱۶نبوت
زکوٰة فرض ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ مالدار مسلمان سال پیچھے اپنی کمائی میں چالیسواں حصہ غریبوں کو ضرور خیرات دیا کرے۔
۴ھ یا ۱۷نبوت
مسلمانوں پر شراب کا پینا حرام ہوا۔
۵ھ یا ۱۸نبوت
عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم ہوا۔
۶ھ یا ۱۹نبوت
آنحضرت ﷺکعبہ کی زیارت کے لیے مکہ آئے۔جب مکہ سے سات کوس پر تھے تو قریش نے آنحضرت ﷺ کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔آنحضرت ﷺ ٹھہرگئے۔مگر یہاں ٹھہرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ قریش کے ساتھ عہد،ان باتوں پر ہوگیا:
(۱)دس برس تک صلح رہے۔آپس میں آنا جانا،لین دین جاری رہے،جو قبیلہ چاہے مسلمانوں سے مل جائے ،جو چاہے قریش سے مل رہے۔
(۲)مسلمان اگلے سال آکر کعبہ میں نماز پڑھ سکیں گے۔
(۳)اگر قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر نبیﷺ کے پاس جا پہنچے تو اسے قریش کے پاس واپس بھیج دیا جائے اور اگر کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر قریش سے جاملے تو وہ واپس نہیں دیا جائے گا۔پچھلی بات سن کر مسلمان گھبرا اٹھے،لیکن آنحضرت ﷺ نے ہنس کر اسے بھی منظور فرمالیا۔
قریش کا خیال تھا کہ اس شرط سے ڈرکر آگے کو کوئی شخص مسلمان نہ ہوگا لیکن ابھی عہد نامہ لکھا جا رہا تھا کہ سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے عہد کرنے آیا تھا اس کا بیٹا ابو جندل وہاں پہنچ گیا۔یہ مسلمان ہو گیاتھا۔قوم نے قید کررکھا تھا۔اس موقع پر بھاگ آیا تھا۔لوہے کی زنجیر ابھی اس کے پاﺅں میں تھی۔
سہیل نے کہا کہ عہد کے موافق اسے واپس کردو۔
مسلمانوں نے کہاکہ ابھی عہد نامے پر دستخط نہیں ہوئے، اس کی شرطوں پر عمل نہیں ہوسکتا۔
سہیل نے بگڑ کر کہاتب ہم صلح ہی نہیں کرتے۔
نبی ﷺنے ابوجندل کو ان کے حوالے کردیا۔انہوں نے اس کو پھر قید میں ڈال دیا۔اس نے جیل ہی میں اسلام سکھانا شروع کردیا اور اس طرح ۰۰۳ آدمی ایک سال کے اندر مکہ ہی میں مسلمان ہوگئے۔ہر شخص جسے تھوڑی بہت سمجھ ہے۔اس بات سے جان سکتاہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچائی اور اسلام کی خوبی کس طرح دلوں کو اپنا بنا رہی تھی کہ عزیزوں پیاروں کی جدائی،وطن کی دوری،تکلیفوں کا ڈر،قید کا دکھ بھی لوگوں کو مسلمان ہونے سے نہیں روک سکا۔
دعوت اسلام شاہی درباروں میں
۶ھ میں نبی ﷺ نے اپنے وقت کے مشہور مشہوربادشاہوں کے پاس سفیر بھیجے۔ان کو اسلام لانے کی ہدایت فرمائی۔اب ان کا ذکر کیا جاتا ہے:
(۱)حبش کا بادشاہ اصحمہ نجاشی تھا۔وہ حضور ﷺ کے خط پر مسلمان ہو گیا۔
(۲)بحرین کا بادشاہ منذرتھا،مسلمان ہوا۔اس کی بہت سی رعایابھی مسلمان ہو گئی۔
(۳)عمان کا بادشاہ جیفر تھا، وہ اور اس کا بھائی مسلمان ہوئے۔
(۴)خسرو ایران کا بادشاہ تھا۔اس نے حضور ﷺ کا مراسلہ چاک کردیااور یمن کے حاکم کو لکھا کہ آنحضرت ﷺ کو قید کرکے بھیج دے۔حاکم کا نام باذان تھا۔اس نے نبی ﷺ کے ٹھیک ٹھیک حال معلوم کیے اور مسلمان ہو گیا۔ملک بھی مسلمان ہوگیا۔
(۵)اسکندریہ کا بادشاہ مقوقس تھا۔مسلمان نہ ہوا۔آنحضرت ﷺ کے لیے قیمتی قیمتی تحفے بھیجے۔
(۶)ملک شام کا حاکم حارث تھا،مسلمان نہ ہوا۔
(۷)ملک یمامہ کا حاکم ہوذہ تھا،اسلام نہ لایا۔
(۸)روم کا قیصر ہرقل تھا۔اس نے پہلے تو آنحضرتﷺکے حالات معلوم کئے پھر اپنے دربار سے کہا کہ مسلمان ہو جانا چاہئے۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ سردار لوگ نہیں مانتے اور سارا دربار بگڑ جانے کو تیار ہے تو ڈر گیا کہ میرا تخت بھی نہ جاتا رہے،اس لیے مسلمان نہ ہوا۔
قیصر نے آنحضرت ﷺ کے اس طرح حالات دریافت کیے تھے،حکم دیاکہ جوکوئی شخص مکہ سے آیا ہوا شام میں ملے۔اسے دربار میں حاضر کیاجائے۔
تلاش کرنے والوں کو ابوسفیان اموی ملا۔اس کے ساتھ کچھ اور آدمی بھی تھے۔یہ آنحضرت ﷺ سے کئی لڑائیاں بھی لڑ چکا تھا ا ور ان دنوں میں بھی وہ حضورﷺ کا سخت دشمن تھا۔
ابوسفیان کا بیان ہے کہ اسے شہر ایلیا میں لے گئے۔دربار سرداروں سے بھرا ہوا تھا اور ہرقل تاج پہنے بیٹھا تھا۔ہر قل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ پوچھو کہ تم میں سے کون شخص قریبی ہے،اس شخص کا جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے۔
ابوسفیان:میں قریبی ہوں۔
قیصر:کیا قرابت ہے؟
ابوسفیان: وہ میرا چچیرا بھائی ہے۔یہ اس لیے کہا کہ قافلہ میں میرے سوا اورکوئی عبد مناف کی نسل سے نہ تھا۔
قیصر:اسے آگے لاﺅ اور اس کے ساتھیوں کو مونڈھے کے برابر کھڑا کردو۔میں اس سے کچھ باتیں پوچھوں گا۔ساتھیوں کو سمجھا دو کہ اگر یہ جھوٹ بولے تو بتلا دیں۔
ابوسفیان کہتا ہے کہ مجھے شرم آئی کہ میرے ساتھی مجھے جھٹلائیں گے۔نہیں تو میں بہت باتیں بناتا۔
قیصر:اس کا نسب کیسا ہے؟
ابوسفیان:وہ عالی نسب ہے۔
قیصر: کسی اور نے بھی پہلے ایسا دعویٰ کیا ہے؟
ابوسفیان:نہیں۔
قیصر:اس شخص کو کبھی جھوٹ بولنے کی تہمت بھی دی گئی ہے؟
ابوسفیان:نہیں۔
قیصر:اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟
ابوسفیان:نہیں۔
قیصر:سردار لوگ اس کا مذہب مان رہے ہیں یا غریب لوگ؟
ابوسفیان:غریب لوگ۔
قیصر: وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟
ابوسفیان: بڑھ رہے ہیں۔
قیصر: کوئی شخص بے زار ہو کر اس کے دین کو چھوڑ بھی دیتا ہے؟
ابوسفیان:نہیں۔
قیصر:وہ عہد شکنی بھی کرتا ہے؟
ابوسفیان:نہیں۔ہاں!اب ہمارا عہد ہواہے اور ڈر ہے کہ وہ توڑدے گا۔
ابوسفیان کہتا ہے کہ میں اتنی بات سے زیادہ کوئی ایسی بات نہ کہہ سکا۔جس سے آنحضرت ﷺ کی کمی نکلتی اور میرے ساتھی مجھے نہ جھٹلاتے۔
قیصر: کبھی تمہاری اس کی جنگ ہوئی؟
ابوسفیان: ہاں۔
قیصر:پھر کیا رہا؟
ابوسفیان:کبھی وہ جیتا او رکبھی ہم۔
قیصر: اس کی تعلیم کیاہے؟
ابوسفیان: وہ کہتا ہے اکیلے خدا کی عبادت کرو۔کسی کو اس کا شریک نہ بتاﺅ۔باپ دادا کے ٹھاکروں،بتوں کی پوجا نہ کرو۔نماز پڑھو،صدقہ دو،پرہیزگار رہو،عہد پوراکرواور امانتیں ادا کرو۔
قیصر نے ترجمان سے کہا،اسے بتلادو۔
تو کہتا ہے وہ عالی نسب ہے،بے شک نبی ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔
تو کہتا ہے کہ اس سے پہلے کسی نے ایسا دعویٰ نہیں کیا۔اگر ایسا ہوتاتو میں سمجھ لیتا کہ وہ اسی کی ریس کرتا ہے۔
تو کہتا ہے کہ دعویٰ سے پہلے کوئی بھی اسے جھوٹا ہونے کی تہمت نہ دیتا تھا۔تو اب یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ جس شخص نے کبھی انسان پر جھوٹ نہیں باندھا وہ خدا پر جھوٹ باندھنے لگے۔
توکہتا ہے کہ اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ نہ تھا۔اگر ایسا ہوتاتو میں سمجھتا کہ اس بہانے باپ دادا کا ملک چاہتا ہے۔
تو کہتا ہے کہ اس کے مذہب میں غریب مسکین داخل ہورہے ہیں۔بے شک یہی لوگ،پہلے پہل نبیوں کو ماننے والے ہوتے ہیں۔
توکہتا ہے کہ مسلمان بڑھ رہے ہیں۔بے شک ایمان کی یہی تاثیر ہے کہ وہ بڑھتا رہتا ہے۔جب تک وہ پورا کمال حاصل نہ کرلے۔
تو کہتا ہے کہ اس کے دین سے کوئی بےزار نہیں ہوتا۔بے شک ایمان کی یہی حالت ہے کہ جب دل کے اندر جا پہنچتا ہے تو پھر دل سے جدا نہیں ہوتا۔
توکہتا ہے کہ وہ کبھی عہد سے نہیں پھرتا۔بے شک نبی ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔
تو کہتا ہے کہ ہم میں جنگ ہوئی ہے۔ایک دفعہ وہ غالب رہا ایک دفعہ ہم،ہاں نبیوں کی بھی آزمائش ہوتی ہے،مگر آخر نبی کی فتح ہوتی ہے۔
توکہتا ہے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرنے کو اور شرک نہ کرنے کو کہتا ہے ،وہ باپ داداﺅں کے جھوٹے معبودوں سے روکتا ہے۔ نماز، سچائی، پرہیزگاری،وفائے عہد،ادائے امانت کاحکم دیتا ہے۔بے شک نبی کے یہی طریقے ہوتے ہیں۔
قیصر نے پھر کہا میں جانتا تھا کہ ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے مگر یہ گمان نہ تھا کہ وہ ملک عرب میں ہوگا۔
دیکھ !اگر تیرے جواب سچے ہیں تو وہ اس جگہ کا بھی مالک بن جائے گا۔جہاں میں بیٹھا ہوں۔
کاش!میں اس تک پہنچ سکتا۔کاش!میں اس کے پاﺅں دھویا کرتا۔
۲ھ کے بعد اور بھی بہت سے نامی نامی رئیس مسلمان ہوئے تھے۔ان لوگوں نے پہلے اسلام کی بابت سناپھر خود بھی پڑتا ل کی اور جب سچائی کا پتہ لگ گیا۔تب مسلمان ہوئے۔مشہور لوگوں کے نام یہ ہیں:
(۱)ثمامہ والیٔ  نجد،۷ھ میں مسلمان ہوا۔
(۲)جبلہ شاہ غسان۷ ھ میں مسلمان ہوا۔
(۳)فروہ بن عمر جذامی،قیصر کی طرف سے ملک شام کا گورنر تھا۔۷ھ میں مسلمان ہوا۔
جب قیصر نے سنا کہ وہ مسلمان ہو گیا تو فروہ کو بلایا اور حکم دیا کہ اسلام چھوڑدے۔اس نے نہ مانا۔قیصر نے قید کرلیا۔پھر بھی وہ پکا رہا۔تب پھانسی پر چڑھا دیا۔وہ پھانسی پر چڑھتا ہوا بھی شکر کرتا تھا کہ اسلام پر مرتا ہوں۔
(۴)خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
(۵)عثمان بن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ
(۶) عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مکہ کے مشہور سردار تھے۔خود مدینہ پہنچے اور۸ہجری میں مسلمان ہوئے۔
(۷)مشہور دشمن اسلام ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بڑا بہادر نامی سردار تھا ۸ ھ میں مسلمان ہوا۔
(۸)عدی اپنے علاقہ کا رئیس تھا۔مشہور سخی حاتم طائی کا بیٹا تھا۔بڑا بہادر تھا۔۹ھ میں مسلمان ہوا۔
(۹)اکیدر،دومة الجندل کا والی تھا۹ھ میںمسلمان ہوا۔
(۰۱)ذی الکلاع،یہ طائف اور کچھ حصہ یمن اور قبائل حمیر کا بادشاہ تھا۔خدا کہلایا کرتا ،سجدے کریا کرتا۔جب مسلمان ہوا تو سلطنت چھوڑ کر غریبانہ رہا کرتا۔۹ھ میں مسلمان ہوا تھا۔
قبائل کا مسلمان ہونا
بادشاہوں،حکمرانوں کے سوا عرب کے بڑے بڑے قبیلے جو اسلام کی ہدایت سے دل کے شوق اور محبت سے مسلمان ہوئے اور آنحضرت ﷺ کی زیارت کو دور دور سے مدینہ آئے ، وہ بھی بہت ہیں۔ان کے حالات کو کتاب“رحمة للعالمین“میں پڑھنا چاہئے۔
۸ھ یا ۲۰ نبوت
مکہ جہاں سے آنحضرت ﷺ کو کافروں نے نکالا تھا۔جہاں کسی غریب مسلمان کا زندہ رہنامشکل تھا۔جہاں اسلام کی بات کرنا بھی کسی کو آسان نہ تھا۔اس سال فتح ہوگیا۔کعبہ جہاں ۰۶۳ بت رکھے تھے۔بتوں سے پاک ہوا اور جس کام کے لیے یہ مسجد چار ہزار سال سے بنائی گئی تھی یعنی خدائے واحد کی عبادت،اب وہی اس میں جاری ہوئی۔
۹ھ یا ۲۱نبوت
(۱)اس سال حج فرض ہوا۔آنحضرتﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کوحاجیوں کے قافلے کا امیر بنا یا اور کئی سو مسلمانوں نے حج اداکیا۔
(۲)حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میدان حج میں نبی ﷺ کے حکم سے اعلان کیا کہ اب آگے کوکوئی مشرک خانہ کعبہ کے اندر داخل نہ ہوگا۔کوئی عورت یا مرد ننگا ہوکر کعبہ کا طواف نہ کرسکے گا۔جن لوگوں نے عہد شکنی کی ہے، ان کے ساتھ کوئی عہد باقی نہ سمجھا جائے گا۔
غزوات
نبی ﷺ جب مدینہ آبسے تھے۔تب دشمنوں نے فوجیں اکٹھی کیں اور کئی دفعہ مسلمانوں پر چڑھ چڑھ کر گئے تھے۔چار برس تک مسلمانوں نے صبر کیاپھر انہوں نے بھی کئی دفعہ آگے بڑھ کر دشمن کی حملہ آور فوجوں کو تتر بتر کیا۔یہ جھگڑے ۲ ھ سے شروع ہوئے اور ۹ھ تک سات سال رہے۔مشہور مشہور غزوات یہ ہیں:
(۱)بدر۲ھ(۲)احد۳ھ(۳)خندق۵ھ(۴)خیبر۵ھ(۵)مکہ ۸ھ(۶)حنین ۸ھ(۷)تبوک ۹ھ۔
۱۰ھ یا ۲۲نبوت
نبی ﷺ نے حج کیا۔ایک لاکھ چوالیس ہزار مسلمان شامل حج تھے۔آنحضرت ﷺنے اس موقع پر اسلام کے سارے اصول سمجھائے،جاہلیت کی رسموں، شرک کی باتوں کو ملیا میٹ کیا،امت کو الوداع کہا۔
۱۱ھ
نبی ﷺ نے ۳۲ برس ۵ دن تک اللہ کے حکم بندوں کو پہنچا کر،خدا کا سچا سیدھاراستہ دکھا کر۳۶ برس ۵ دن کی عمر میں ۳۱ ربیع الاول کو دوشنبہ کے دن دنیا سے کوچ فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
خطبہ
وفات سے ایک مہینہ پہلے سب کو بلا کر آنحضرتﷺ نے فرمایا:مسلمانو! خدا تم کو سلامتی سے رکھے،تمہاری حفاظت فرمائے، تمہیں بچائے،تمہاری مدد کرے،تم کو بلند کرے،ہدایت اور توفیق دے ،اپنی پناہ میں رکھے،آفتوں سے بچائے،تمہارے دین کو تمہارے لیے محفوظ بنائے۔
میں تم کو تقویٰ کی اور اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور تم کو اپنا جانشین بناتا ہوں اور تم کو خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں۔
امید ہے کہ تم بھی لوگوں کو اس سے ڈراﺅ گے۔تم کو چاہئے کہ خدا کے بندوں اور بستیوں میں سرکشی، تکبر اور بڑھ کر چلنے کو نہ پھیلنے دو۔آخرت کا گھر انہی کے لیے ہے جو دنیا میں بڑھ کر نہیں چلتے اور فساد نہیں کرتے۔اچھی عاقبت صرف متقین کی ہے۔فرمایا جو بڑی بڑی حکومتیں تم کو ملیں گی،میں ان کو دیکھ رہا ہوں۔مجھے ڈر نہیں رہا کہ تم مشرک بن جاﺅ گے لیکن ڈر یہ ہے کہ دنیا کی رغبت اور فتنہ میں پڑ کرکہیں ہلاک نہ ہو جاﺅ۔جیسے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں۔
انتقال سے کچھ دن پہلے پھر سب مسلمانوں کو بلایا۔انصار و مہاجرین کی بابت ہدایتیں اور نصیحتیں فرمائیں۔پھر فرمایا:اگر کسی شخص کا حق مجھ پر ہوتو بتادے۔ایک نے کہا حضور نے ایک مسکین کو مجھ سے تین درہم دلائے تھے،وہ نہیں ملے۔یہ درہم آنحضرت ﷺ نے اسی وقت ادا کر دئیے۔پھر سب لوگوں کے حق میں دعائیں کیں۔بیماری کے دنوں میں فرمایا:لوگو! لونڈی غلام کی بابت خدا کو یاد رکھو، ان کو خوب پہناﺅ،خوب کھلاﺅ، ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی سے بات کرو۔نزع کی حالت میں فرمایا:نماز، نماز ،لونڈی، غلام کے حقوق۔ آخری لفظ جو آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر فرمائے ،یہ تھے:
اللھم الرفیق الاعلیٰ
کنبہ کے حالات
نبی ﷺ کے ۹ چچا تھے۔ان میں حمزہ رضی اللہ عنہ (ان کا لقب اسد اللہ و رسولہ اور سید الشہداءہے) اور عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ابوطالب(علی مرتضیٰ کے والدہیں)آنحضرت کے فدائی اور ناصر تھے۔
۶ پھوپھیاں تھیںجن میں صفیہ رضی اللہ عنہا(زبیر بن العوام کی ماں) مسلمان ہوئیں۔
غلام:۲۱ سب کو آزاد فرمایا۔
لونڈیاں:۳ان میں سے ایک ام ایمن تھیں۔جنہوں نے حضور ﷺ کو گود کھلایا تھا۔آنحضرت ﷺ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔
بیٹے ۳:(۱)قاسم۔ان ہی کے نام پر آنحضرت ﷺ کی کنیت ابوالقاسم ہے۔(۲) عبداللہ۔ان کا لقب طیب اور طاہر ہے۔(۳)ابراہیم۔ سب بچپن میں ہی فوت ہو ئے۔
بیٹیاں۴:(۱)زینب رضی اللہ عنہا۔ان کے شوہر عاص بن ربیع تھے۔
(۲)رقیہ رضی اللہ عنہا۔ ان کے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔
(۳)ام کلثوم رضی اللہ عنہا ۔ان کے شوہربھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔(ام کلثوم کا نکاح رقیہ کی وفات کے بعد ہوا تھا۔حضرت عثمان کو اسی لیے ذوالنورین کہتے ہیں کہ دوبیٹیاں ان کے نکاح میں آئیں۔)
(۴)فاطمہ رضی اللہ عنہا۔(بتول لقب،زہرا علم،سیدة النساءخطاب۔ان کو اپنی بہنوں پر اس لیے فضیلت ہے کہ ان ہی کی نسل دنیا میں باقی رہی۔)ان کے شوہر علی مرتضیٰ تھے،حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان ہی کے بطن سے ہیں۔ (حضرت حسن رمضان ۳ھ حضرت حسین شعبان ۴ ھ کو پیدا ہوئے)
بیویاں
نبی ﷺ کی ہر ایک بیوی کا لقب خدا کے حکم سے”ام المو¿منین“مومنوں کی ماں ہے۔ہر ایک کا مختصر حال لکھا جاتا ہے۔
ام المؤ منین خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا
نبی ﷺ کی پہلی بیوی ہیں۔حضور کی دیانت ، کمال اور برکت کو دیکھ کر انہوں نے شادی کی درخواست خود کی تھی۔ابراہیم کے سوا آنحضرت ﷺ کی کل اولاد ان ہی سے ہے۔ان کی سچائی اور غمگساری کو آنحضرت ﷺ ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ یاد فرماتے رہے۔
ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہ
یہ اپنے پہلے شوہر سکران کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں۔ان کی ماں بھی مسلمان ہو گئی تھی۔پھر تینوں ہجرت کرکے حبش چلے گئے۔ وہاں ان کا شوہر مر گیا۔ نبی نے ان سے اپنا نکاح ۰۱ نبوت میں(سیدہ خدیجة الکبریٰ کی وفات کے بعد)کرلیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔ابوبکر نے دل و جان، زرومال سے آنحضرت ﷺ اور اسلام کی خدمت ایسی کی کہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں سب کی خدمتوں کا بدلہ دے چکا ہوں۔لیکن ابوبکر کی خدمتوں کا صلہ خداہی دے گا۔ابوبکر نے اپنی بیٹی نبی ﷺ کو دینی چاہی ا ور کہا کہ میری زندگی بھر کی تین آرزوئیں ہیں اور ایک یہ ہے کہ میری بیٹی نبی ﷺ کے گھر میں ہو۔نبی ﷺ نے اپنے یار غار کی عرض کو اللہ پاک کے فرمانے سے منظور کرلیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ۲ھ ہجری کو حضور کے گھر میں آئیں۔جیسی باپ نے اسلام کی بڑی خدمتیں کی تھیں،بیٹی بھی ایسی ہی عالمہ و فاضلہ ہوئی کہ بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم علم کی مشکل مشکل باتیں ان سے پوچھا کرتے تھے۔ دوہزار دوسو دس حدیثوں کی روایت ان سے ہے۔
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔اپنے پہلے شوہر کے ساتھ ہجرت حبش کی تھی اور پھر ہجرت مدینہ۔ان کا شوہر غزوہ احد میں زخمی ہوا اور انہی زخموں سے فوت ہوا تھا۔ نبی ﷺ نے حفصہ رضی اللہ عنہ سے ۳ھ میں شادی کرلی۔یہ اللہ کی بندی عبادت گزار بھی حد درجہ کی تھی۔
ام المؤ منین زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
ان کا پہلا نکاح طفیل بن حارث سے،پھر عبیدہ بن حارث سے ہوا تھا۔یہ دونوں نبی ﷺ کے حقیقی چچیرے بھائی تھے۔تیسرا نکاح عبداللہ بن جحش سے ہوا تھا۔یہ نبی ﷺ کے پھوپھی زاد تھے۔وہ جنگ احد میں شہید ہوئے۔آنحضرت ﷺ نے ان سے ۳ھ میں نکاح کرلیا۔وہ نکاح کے بعد صرف تین مہینے زندہ رہیں۔یہ بی بی غریبوں کی اتنی مدد اور پرورش کیا کرتی تھیں کہ ان کا لقب”ام المساکین“پڑگیا تھا۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا
ان کا پہلا نکاح ابوسلمہ عبد بن الاسد سے ہوا تھا۔جو نبی ﷺ کی پھوپھی کے بیٹے اور دودھ کے بھائی تھے۔انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت حبشہ کی تھی اور پھر ہجرت مدینہ۔مکہ سے مدینہ تک تنہا سفر کیا تھا۔ابوسلمہ نے جنگ احد کے زخموں سے وفات پائی تھی۔ چاربچے یتیم چھوڑے۔نبی ﷺ نے بے کس بچوں اور ان کی حالت پر رحم کھاکر ان سے ۳ھ میں نکاح کرلیا۔
ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
یہ نبی ﷺ کی سگی پھوپھی کی بیٹی ہیں۔آنحضرت ﷺ نے ان کا نکاح کوشش کرکے آزاد کیے ہوئے غلام زید رضی اللہ عنہ سے کرادیاتھا۔لیکن شوہر کی زینب کے ساتھ نہ بنی،اس نے بیوی کو چھوڑ دیا۔اگرچہ آنحضرت ﷺ نے زید رضی اللہ عنہ کو سمجھایا بھی بہت کہ بیوی کو نہ چھوڑے۔زینب رضی اللہ عنہاکی اس مصیبت اور ذلت کا بدلہ خدا نے یہ دیا کہ نبی ﷺ کے ساتھ ان کا نکاح ۵ھ میں کروادیا۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک دن یکایک زینب رضی اللہ عنہا کو دیکھ لیا تھا، اس لیے منہ بولے سے چھڑا کر اپنا نکاح اس سے کیا۔یہ لوگ تین باتیں بھول جاتے ہیں:
(۱)زینب آ نحضرت ﷺ کی سگی پھوپھی کی بیٹی ہیں۔آنکھوں کے سامنے پلی اور بڑھی۔ان کی شکل و صورت کی بات آنحضرت ﷺ سے کچھ بھی چھپی نہ تھی۔
(۲)ان کا پہلا نکاح زید کے ساتھ خود نبی ﷺ نے بڑی سعی سے کرایا تھا۔
(۳)اسلام متبنیٰ(منہ بولا بیٹا)بنانے کو باطل ٹھہراتا ہے۔
(تمام امہات المو¿منین سے قبل ۰۲ھ میں وفات پائی۔)
ام المؤمنین جویریہ رضی اللہ عنہا
لڑائی میں پکڑی گئی تھیں اور ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں۔وہ بیس سالہ جوان تھے۔مگر انہوں نے کچھ روپیہ ان کو لگا دیا (مکاتب کردیا)جس کے ادا کرنے سے وہ چھوٹ جاتیں۔جویریہ چندہ مانگنے کے لیے نبی کے پاس آئیں اور یہ بھی ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں۔آنحضرت نے ان کا سارا روپیہ اداکردیا۔(آزاد ہوگئیں)پھر فرمایا:بہتر یہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ نکاح کر لوں۔یہ اس خیال سے فرمایا کہ اگر اور اسیر آئے اورانہوں نے بھی چندہ مانگا تو کیا کیا جائے گا۔جب لشکر نے یہ سنا کہ یہ قیدی اب آنحضرت ﷺ کے رشتہ دار بن گئے تو انہوں نے سب قیدیوں کو چھوڑدیا۔ اس چھوٹی سی تدبیر سے آنحضرت ﷺ نے ایک سو سے زیادہ انسانوں کو لونڈی غلام بنائے جانے سے بچادیا۔یہ نکاح ۵ھ میں ہوا۔۶۵ھ میں وفات ہوئی۔
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا
ابوسفیان اموی کی بیٹی ہیں۔ جن دنوں ان کا باپ نبی ﷺ کے ساتھ لڑائی کررہا تھا،یہ مسلمان ہوئی تھیں۔اسلام کے لیے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ پھر شوہر کو لے کر حبش کی ہجرت کی۔وہاں جا کر ان کا شوہر مرتد ہو گیا۔ ایسی سچی اور ایمان میںپکی بی بی کے لیے یہ کتنی بڑی مصیبت تھی کہ اسلام کے واسطے باپ، بھائی، خاندان، قبیلہ اور اپنا ملک وطن چھوڑا تھا۔پردیس میں خاوند کا سہارا تھا،اس کی بے دینی سے وہ بھی جاتا رہا۔ نبی ﷺ نے ایسی صابری کے ساتھ ۵ھ میں خود نکاح کرلیا۔یہ نکاح حبش ہی میں پڑھا گیا تاکہ ام حبیبہ کی مصیبتوں کا جلد خاتمہ ہوجائے۔(۴۴ھ میں فوت ہوئیں)
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا
ان کے دو نکاح پہلے ہوچکے تھے۔ان کی ایک بہن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے، ایک بہن حضرت عباس کے اور ایک بہن حضرت جعفر طیار کے گھر میں تھی۔ایک بہن حضرت خالد بن ولید کی ماں تھی۔آنحضرت کی چچا عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ سے ان کی بابت کہا اور آنحضرت ﷺ نے چچا کے کہنے پر ۷ھ میں ان سے نکاح کرلیا۔
یہ سب نکاح اس آیت سے پہلے ہوچکے تھے جس میں ایک مسلمان کے واسطے بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ (بشرط عدل) چار تک مقرر کی گئی ہے۔(۱۵ھ میں وفات ہوئی)
ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا
آپ بنو نضیر کے سردار حئی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔آپ کی ماں کا نام ضرہ تھا۔آپ کا اصل نام زینب تھا۔پہلی شادی سلام بن مشکم سے ہوئی تھی،جس نے آپ کو طلاق دے دی۔دوسرا نکاح کنانہ سے ہوا۔غزوہ خیبر میں قید ہوکررسول اکرم ﷺ کے حصہ میں لونڈی کی حیثیت سے آئیں تو آپ نے آزاد فرماکر ان سے نکاح کرلیا اور آپ کا نام صفیہ رکھا۔(۰۵ھ میں انتقال ہوا۔)
خلق محمدیﷺ
نبی ﷺ نے فرمایا”خدا نے مجھے اس لیے نبی بنایا ہے کہ میں پاکیزہ اخلاق اور نیک اعمال کی تکمیل کروں۔“صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا”آنحضرت ﷺ کے اخلاق کیسے تھے؟“فرمایا”قرآن مجید ان کا خلق ہے۔“مطلب یہ ہے کہ درخت پھل سے اور انسان اپنی تعلیم سے پہچانا جاتا ہے۔تم قرآن مجید سے نبی ﷺ کی شناخت کرو۔
قرآن مجید نے آنحضرت ﷺ کو رحمة للعالمین کہا ہے اور زمانہ کی سچی تاریخ بتلاتی ہے کہ حضور ﷺ کا وجود بالکل رحمت تھا۔ایک حدیث سے نبی ﷺ کے اخلاق یہ معلوم ہوتے ہیں:آنحضرت ﷺ شاہد خلق ہیں۔حکم ماننے والوں کو خوش خبری سناتے اور نافرمانوں کو ڈراتے ہیں۔انجانوں کی پناہ،اللہ کے بندے ا ور رسول سب کام کو اللہ پر چھوڑ دینے والے، نہ عادت کے سخت اور نہ بول چال میں کرخت،چیخ کر نہیں بولتے،بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے۔ان کا کام قوم اور مذہب کی کجی ہائے کو درست کردینا ہے اور ایک خدائی وحدانیت کو قائم کردینا۔ان کی تعلیم اندھوں کو آنکھیں،بہروں کو کان دیتی ہے اور غافل دلوں سے پردہ اٹھادیتی ہے۔ہر ایک خوبی سے آراستہ ہر ایک خلق کریم سے عطایافتہ،سکینہ ان کا لباس ہے نکوئی ان کا شعار ہے۔ان کا ضمیر(پاک دل)تقویٰ ہے۔ان کاکلام حکمت ہے۔سچائی ان کی شریعت ہے اور ہدایت ان کی راہ نما ہے۔ملت ان کا اسلام ہے ا ور احمد ﷺ ان کا نام ہے۔
وہ ضلالت کے بعد ہدایت دینے والے اور جہالت کے بعدعلوم سکھانے والے ہیں۔گمناموں کو رفعت دینے والے،مجہولوں کو نام ور کردینے والے،قلت کوکثرت اور تنگدستی کو غنا سے بدل دینے والے ہیں۔خدا نے ان کے ذریعے پھوٹک کی بجائے جمعیت بخشی۔پھٹے ہوئے دلوں کو الفت عطا فرمائی۔گوناگوں خواہشوں اور بوقلموں قوموں کو وحدت ارزانی عطاءفرمائی۔ان کی امت بہترین امت ہے۔اس کا کام لوگوں کو ہدایت کرنا ہے۔
صبروحلم
(۱)طائف والوں نے نبی ﷺ کو پتھر مارکرزخمی اور بے ہوش کردیا تھا۔فرشتہ نے آکر کہا:حکم ہوتو یہ بستی الٹ دوں!فرمایا: نہیں اگر یہ مسلمان نہیں ہوتے تو امید ہے کہ ان کی اولاد مسلمان ہوجائے گی۔
(۲)ایک یہودی کا قرض دینا تھا۔وعدہ کے دن باقی تھے۔اس نے راہ چلتے آنحضرت ﷺ کا گریبان آکر پکڑ لیا کہ میرا قرض ادا کردو۔فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ گستاخ قتل ہونا چاہئے۔نبی ﷺ نے فرمایا نہیں تم مجھے خوبصورتی سے ادا کرنے کو کہو اور اسے تقاضے کا اچھا ڈھب بتلاﺅ۔پھر اسے ہنس کر فرمایا ابھی تو وعدے کے دن باقی ہیں۔
(۳)ایک گنوار نے پیچھے سے آکر زور سے آنحضرت ﷺ کی چادر کھینچی۔گردن سرخ ہوگئی۔نبی ﷺ نے لوٹ کر دیکھا تو وہ بولا کہ میری مدد کرو،میں غریب ہوں۔فرمایا:ایک اونٹ جو کا،ایک کھجور کا دلادو۔
ادب اور تواضح
(۱)لوگوں کے اندر پاﺅں پھیلاکر کبھی نہ بیٹھے۔
(۲) اپنی تعظیم کے لئے مسلمانوں کو کھڑے ہونے سے روکا کرتے۔
(۳)دست مبارک کوکوئی شخص پکڑلیتاتو آپ اس سے کبھی نہ چھڑاتے۔
(۴)کسی کی بات نہ کاٹتے۔
(۵)سوار ہو کر پیدل کو ساتھ نہ لیتے، یا سوار کر لیتے یا واپس کردیتے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ خچر پر بلا پالان سوار تھے۔میں مل گیا۔فرمایا:سوار ہوجاﺅ۔میں حضورﷺ کو پکڑ کر چڑھنے لگا۔آپ تو نہ چڑھ سکا،ہاں حضورﷺ کوگرادیا۔آنحضرت ﷺ نے سوار ہوکر دوبارہ فرمایا۔میں پھر نہ چڑھ سکااور حضور ﷺ کو پھر گرادیا۔تیسری بار آنحضرت نے سوار ہوکر فرمایا۔سوارہوجاﺅ۔میں نے کہا مجھ سے چڑھا نہیں جاتا،حضور ﷺ کو کہاں تک گراﺅں گا۔
جودوسخاوت
سوالی کو کبھی رد نہ فرماتے،زبان پر انکار نہ لاتے۔اگر کچھ بھی دینے کو نہ ہوتا تو سوالی سے عذر کرتے۔جیسے کوئی معافی مانگتا ہے۔
(۱)ایک نے آکر سوال کیا۔فرمایا:میرے پاس تو ہے نہیں تم بازار سے میرے نام پر قرض لے لو۔فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:خدا نے آپ کو یہ تکلیف نہیں دی۔نبی ﷺ چپ سے کرگئے۔ایک نے پاس سے کہہ دیا کہ اللہ کی راہ میں دینا ہی اچھا ہے۔اس پر حضور ﷺ خوش ہوگئے۔
شرم وحیا
ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ میں پردہ نشین لڑکی سے بڑھ کر حیا تھی۔
(۱)اپنے کام میں اپنی جان پر تکلیف اٹھا لیتے مگر دوسرے کو شرم کی وجہ سے نہ فرماتے۔
(۲)کسی کو کوئی کام کرتے دیکھ لیتے جو پسند نہ ہوتا تو اس کا نام لے کے کچھ نہ فرماتے،عام طور پر لوگوں کو اس کام سے روک دیاکرتے۔
مہربانی اور محبت
(۱)نفلی عبادت چھپ کرکیا کرتے کہ امت پر اتنی عبادت کا کرنا مشکل نہ بنے۔
(۲)ہر کام میں آسان صورت کو پسند فرماتے۔
(۳)فرمایا: میرے سامنے کسی کی چغلی نہ کرو۔میں نہیں چاہتا کہ کسی کی طرف سے میری صاف دلی میں فرق آجائے۔
(۴)وعظ اور نصیحت کبھی کبھی کیا کرتے،تاکہ لوگ اکتا نہ جائیں۔
(۵) بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ ساری ساری رات امت کے لئے دعا کیا کرتے اور زار زار روتے۔
صلۂ رحم
(۱)فرمایا:میرے دوست تو ایمان والے ہیں، لیکن رحم سب کے ساتھ ہے۔
(۲)ایک جنگ میں ایک عورت پکڑی آئی۔اس نے کہا کہ میں آپ کی دایہ کی بیٹی ہوں۔نبی ﷺ نے چادر اپنے اوپر سے اتار کر اس کے لیے بچھا دی۔
(۳) مکہ والوں نے حضور ﷺ کو اور مسلمانوں کو سیکڑوں دکھ رنج دے دے کے وطن سے نکالا تھا۔بیسیوں سچے مسلمانوں کو قتل کیا تھا کہ کیوں یہ لوگ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔جب مکہ فتح ہو گیا تو حضور ﷺنے سب کو بلا کے کہہ دیا کہ تمہارے سب قصور معاف کئے جاتے ہیں۔
عدل و اعتدال
(۱) جو جھگڑا دو شخصوں میں ہوتا۔اس میں عدل فرماتے۔اگر کسی کا حضورﷺکے ساتھ کوئی معاملہ ہوتا تو وہاں رحم فرماتے۔
(۲)مکہ میں ایک عورت کا نام فاطمہ تھا۔اس نے چوری کی،لوگوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے جو نبی ﷺ کو بہت پیارے تھے،سفارش کرائی۔فرمایا:کیا تم حدود الٰہی میں سفارش کرتے ہو۔سنو! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرتی تو میں حد لگاتا۔
(۳)اعتدال کی بابت حضور ﷺ کا ارشاد ہے:”خیر الامور اوسطھا۔“اس سے ہر ایک بات میں درمیانہ پن رکھنے کی ہدایت ملتی ہے۔
صدق و امانت
(۱) جانی دشمن بھی حضور ﷺ کی سچائی اور امانت کا اقرار کرتے تھے۔
(۲) بچپن ہی سے سارا ملک حضور ﷺ کو صادق(سچا) اور امین کہہ کر پکارا کرتا تھا۔
(۳)ایک دن ابوجہل نے کہا:اے محمد ﷺ! میں تجھے جھوٹانہیں سمجھتا لیکن تیرے دین پر میر ادل ہی نہیں جمتا۔
(۴)جس رات نبی ﷺ گھر سے مدینہ کے لئے نکلے تھے۔دشمنوں نے اس رات حضور ﷺ کے قتل کا سامان پورابنایا تھا۔مگر حضورﷺ نے پیارے بھائی علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اس لئے مکہ میں پیچھے چھوڑا تھاکہ جو امانتیں لوگوں کی میرے پاس ہیں،وہ دے کر آجانا۔
عفت و عصمت
(۱) نبی ﷺ نے فرمایا:مکہ میں لوگ کہانیاں کہا کرتے تھے۔مجھے بھی سننے کا شوق ہوا۔اس وقت عمر دس برس سے کم تھی۔میں اس ارادے سے چلا۔راستہ میں آرام کے لئے ذرا بیٹھ گیا،وہیں نیند آگئی۔جب سورج نکلا تب آنکھ کھلی۔
(۲)اسی عمر کا ذکر ہے۔کسی کے ہاں بیاہ تھا۔عورتیں گارہی تھیں،دف بجتی تھی۔میں سننے کے لیے چلا گیا۔چلتے چلتے نیند نے غلبہ کیا،سوگیا،دن نکلتے اٹھا۔ان دونوں باتوں کے سوا کبھی کسی مکروہ کام کامیں نے ارادہ بھی نہیں کیا۔
زہد
(۱)نبی ﷺ کی دعا تھی :الٰہی ایک دن بھوکا رہوں ایک دن کھانے کو ملے۔بھوک میں تیرے سامنے گڑگڑایا کروں،کھاکر تیرا شکر کیا کروں۔
(۲)صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرتﷺ کا کنبہ مہینہ دو مہینہ تک پانی اور کھجور پرگزران کرتا۔چولہے میں آگ تک نہ جلائی جاتی۔
(۳)صدیقہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں۔میرے گھر میں آنحضرت ﷺ کا بستر کھجور کے پٹھوں سے بھرا ہوا تھا۔
(۴)حفصہ کہتی ہیں۔میرے گھر میں آنحضور ﷺ کا بسترصرف ٹاٹ تھا۔اسے دو تہہ کرکے بچھادیا جاتا۔ایک دن ہم نے چار تہہ کردیا۔فرمایا:بستر نرم ہوگیا،پھرایسا نہ کرو۔
(۵)ابن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے ساری زندگی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔
(۶)آنحضرت ﷺ نے جو آخری رات دنیا میںکاٹی، اس رات صدیقہ رضی اللہ عنہا نے چراغ کے لیے تیل ایک پڑوسن سے ادھارلیا تھا۔
(۷)وفات کے بعد حضورﷺ کی زرہ یہودی کے پاس تھی جو اناج کے بدلے گروی تھی۔
(۸)آنحضرت ﷺ جیسا زہد خود فرماتے،ایسی ہی نصیحت کنبہ والوں کو فرماتے۔حضورﷺ کی بیٹی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھ دکھائے، تنور کی آگ سے جھلسے ہوئے ،چکی پیسنے سے چھالے پڑے ہوئے اور ایک لونڈی مانگی۔آنحضرتﷺ نے فرمایا:اللہ کو خوب یادکرو۔دنیا کی تکلیفیں کیا ہیں؟
(۹)دعا فرمایا کرتے:الٰہی!آل محمد ﷺ کو صرف اتنا دے جسے پیٹ میں ڈال لیں۔
(۰۱)زہد کی یہ سب صورتیں اختیاری تھیں۔لاچاری کچھ نہ تھی۔
عبادت
(۱)نفلی نماز میں اتنی دیر کھڑے رہتے کہ پاﺅں سوج جاتے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ حضور ﷺ تو بخشے ہوئے ہیں۔پھر اتنی تکلیف کیوں فرماتے ہیں؟فرمایا:کیا میں اب اس کا شکر نہ کروں؟
(۲)سجدہ میں اتنی اتنی دیر تک پڑے رہتے کہ دیکھنے والوں کو انتقال کرجانے کا وہم ہوجاتا۔
(۳)مناجات کے وقت سینہ مبارک دیگ کی طرح جوش مارتا ہو امعلوم ہواکرتا۔
(۴)آیت رحمت پڑھ کر دعا مانگتے اور آیت عذاب پڑھ کر کانپ اٹھتے۔
(۵)کئی کئی دن کا برابر روزہ رکھا کرتے،اوروں کو ایسے روزہ سے منع کرتے۔
عام برتاﺅ
(۱) سب سے ہنس مکھ ہو کر ملتے۔
(۲)یتیموں کو پالتے،رانڈوں کی مدد کرتے۔
(۳)غریبوں مسکینوں سے پیار کرتے،ان میں جاکر بیٹھا کرتے۔
(۴)سفید زمین پر بیٹھ جاتے۔اپنے لئے کوئی سامان امتیاز کا پسند نہ فرماتے۔
(۵)لونڈی غلام بھی بیمار ہوجاتے تو خود جاتے، ان کی خبر لیتے۔
(۶)کوئی مسلمان مر جاتا،اس پر قرض ہوتا تو بیت المال سے اس کا قرض دفن کرنے سے پہلے اداکرتے۔
(۷)کوئی مخلص مرتا تو اس کی تجہیزوتکفین میں خود شامل ہوتے۔
(۸)منافق لوگ سامنے آکر گستاخیاں کیا کرتے۔دشمنوں کو مدد دیا کرتے مگر آنحضرت ﷺ کبھی ان سے بدلہ نہ لیا کرتے۔
(۹)ایک دفعہ نجران کے عیسائی آگئے۔ان کو اجازت دے دی کہ مسجد نبوی میں اپنے طریقہ پر نماز پڑھ لیں۔
(۰۱)جنگل میں ایک بکری ذبح کرنے لگے۔ایک بولا:میں ذبح اور صاف کروں گا۔ایک بولا:میں گوشت کاٹ دوں گا۔ایک بولا:میں پکادوں گا۔آنحضرتﷺ نے فرمایا:میں لکڑیاں لے آﺅں گا۔عرض کی گئی ہم سب خدمت کو حاضر ہیں۔حضور ﷺ کیوں تکلیف کریں۔فرمایا:بھائیو!میں نکما رہنا نہیں چاہتا۔
عفوورحم
(۱)آنحضرتﷺ کے پیارے چچا امیر حمزہ کو وحشی نے مارا۔ناک، کان وغیرہ کاٹے،کلیجہ نکالا تھا۔پھر بھی جب اس نے معافی کی بابت عرض کیا، تو معاف کردیا۔
(۲)ہبار نے آنحضرت کی بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہ کے نیزہ مارا۔وہ ہودج سے گر گئیں،حمل جاتا رہا۔وہی صدمہ ان کی موت کا سبب بنا۔ہبارنے سامنے آکر معافی مانگی،معاف کردیا۔
(۳)ایک دفعہ آنحضرت ﷺ ایک درخت کے نیچے سوگئے۔تلوار ٹہنی سے لٹکا دی۔ ایک دشمن آیا،تلوار اٹھالی اور آنحضرتﷺ کو گستاخی سے جگایااور پوچھا:اب کون تم کو بچائے گا؟آنحضرت ﷺ نے فرمایا:”اللہ“وہ شخص چکر کھا کر گر پڑا،تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ آنحضرت ﷺ نے تلوار اٹھالی۔فرمایا:اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟وہ حیران ہوگیا۔فرمایا:جاﺅ میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔
(۴)فرمایا جاہلیت کی جن باتوں پر لڑا کرتے تھے۔میں سب باتوں کو مٹاتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کا دعویٰ چھوڑتا ہوں اور جن لوگوں سے میرے چچا نے قرض لینا ہے۔ان کو قرضہ بھی معاف کرتا ہوں۔
تعلیمات مصطفویہﷺ
نبی ﷺ کی پاک تعلیم،اعتقادات،عبادات،عادات،معاملات،مہلکات،منجیات،ریاضیات،احسانیات کے بارے میں بحر ناپید کنار ہے۔آنحضرت ﷺ کی بزرگی اور اسلام کی برتری اسی تعلیم پر ہے۔میرا مطلب اس چھوٹی سی کتاب میں اس پاک تعلیم کا نمونہ دکھلادینا ہے۔
تہذیب نفس(اپنے آپ کی درستگی)
(۱)دانا وہ ہے جو اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور کام وہ کرتا ہے جو مرنے کے پیچھے کام آئے۔نادان وہ ہے جو نفس کا کہنا مانتاہے اور خدا پر امیدیں باندھتا ہے۔
(۲)پہلوان وہ نہیں جولوگوں کو بچھاڑ دیتاہے،پہلوان وہ ہے جو نفس کو اپنے بس میں قابو کرلیتا ہے۔
(۳)قناعت وہ خزانہ ہے جو کبھی خالی نہیں ہوتا۔
(۴)غیرضروری کا چھوڑدیناعمدہ دینداری ہے۔
(۵)مشورہ بھی امانت ہے۔جھوٹی صلاح دینا خیانت ہے۔
(۶)شر(بدی یا فساد) کو چھوڑدینا بھی صدقہ ہے۔
(۷)حیا سراپا خیر ہے(شرم وحیا میں نیکی ہی نیکی ہے۔)
(۸)صحت اور فراغت ایسی نعمتیں ہیں جو ہر ایک کو میسر نہیں۔
(۹) گزران میں میانہ روی رکھنا نصف روزی ہے۔(سمجھ سمجھ کر خرچ کرنا آدھی کمائی کے برابر ہے)
(۰۱)تدبر جیسی کوئی دانائی نہیں۔
(۱۱)جو عہد کا پکا نہیں وہ دیندار نہیں۔
(۲۱)عقل سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔
(۳۱)مرد کی خوب صورتی اس کی فصاحت ہے۔
(۴۱)جہالت سے بڑھ کر کوئی تنگی نہیں۔
(۵۱) جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں۔
(۶۱)اچھے خلق کے برابر محبت کی کوئی تدبیر نہیں۔
(۷۱)تواضع سے درجہ بلند ہوتاہے۔
(۸۱)خیرات سے مال میں کمی نہیں آتی۔
(۹۱)اپنے بھائی کو طعنہ نہ دو۔ایسا نہ ہو کہ تم بھی اسی حال میں پھنس جاﺅ۔
(۰۲)جس طرح سرکہ سے شہدخراب ہوجاتا ہے،اسی طرح بدخلقی سے ساری خوبیاں جاتی رہتی ہیں۔
ماں باپ کی اطاعت
(۱)خداکی خوشی باپ کی خوشی میں ہے۔خدا کا غضب باپ کے غضب میں ہے۔
(۲)سب عملوں سے بہتر نماز کاوقت پر پڑھنا ہے۔پھر ماں باپ کی اطاعت۔
(۳)سب گناہوں سے بڑھ کر گناہ شرک ہے اور ماں باپ کی نافرمانی،پھر جھوٹی گواہی اور جھوٹ بولنا۔
رشتہ داروں سے قرابت
رحم(قرابت)رحمن سے نکلا ہے۔جو قرابت کو قائم رکھتا ہے،اللہ اسے ملاتا ہے۔جو اسے چھوڑتا ہے، خدا اس شخص کو چھوڑدیتا ہے۔
لڑکیوں کو پالنا
(۱) اگر کسی کے تین یا دو بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ اللہ سے ڈرکے،ان کی اچھی تربیت کرے،وہ بہشتی ہے۔(خواہ ایک ہو)
(۲)لڑکیوں کی پرورش ایک امتحان ہے،جو اس میں پورا اترا وہ دوزخ سے بچا رہے گا۔
یتیموں کا پالنا
یتیم کی پرورش کرنے والابہشت میں میرے ساتھ یوں رہے گا جیسے ہاتھ کی دوانگلیاں۔
بادشاہ وقت کی اطاعت
(۱)بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ ہے۔
(۲)اگر حبشی غلام بھی حاکم ہوجائے تو اس کی اطاعت تم پر فرض ہے۔
(۳)سلطنت کفر سے نہیں جاتی بلکہ ظلم سے جاتی ہے۔
رحم دلی
جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہ کیا جائے گا۔
بھیک مانگنے کی برائی
(۱)جوکوئی لوگوں سے بھیک مانگتا ہے وہ اپنے لئے آگ اکٹھی کررہاہے۔اب بہت اکٹھی کرلے یا تھوڑی۔
(۲)سب سے برا آدمی وہ ہے جو خدا واسطے کہہ کر مانگتاہے اور پھر بھی اسے کچھ نہیں ملتا۔دیکھو خدا کا واسطہ دے کر لوگوں سے مت مانگو،اللہ ہی سے مانگو۔
باہمی برتاﺅ
(۱)جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔
(۲)تم اہل زمین پر مہربانی کرو۔خدا آسمان پر مہربان ہوگا۔
(۳)ایک مومن دوسرے کے لیے آئینہ ہے، اگر کسی بھائی میں کوئی نقص دیکھو تو اسے بتلادو۔
(۴)آپس کی محبت اور ہمدردی میں دیوار سے مثال سیکھو۔جس کی ایک اینٹ دوسری کو مضبوط بناتی ہے۔
(۵)ہنس کر ملنا، نیک بات کہنا،بری بات سے ہٹادینا،بھولے بھٹکے کو راستہ بتا دینا،تھوڑی نظر والے کو راستہ بتانا،راستے میں سے کانٹا،پتھر،ہڈی ہٹادینا۔کسی کو پانی کا ڈول نکال دینا،یہ سب صدقہ جیسے ہیں۔
(۶)سلام کرنا(غریبوں)کو کھانا کھلانا،رات کو چھپ کر نماز پڑھنا۔اسلام کی اچھی نشانیاں ہیں۔
(۷)جس کا خلق اچھا ہے۔قیامت کے دن وہی مجھے پیارااورمیرے پاس ہوگا۔جس کا خلق برا ہے،میں اس سے بیزار اور دور رہوں گا۔جو لوگ بے ہودہ بکتے ،گپیں لگاتے،تکبر کرتے ہیں۔میں ان سے بیزار ہوں۔
(۸)اچھی حالت میں رہنے کا نام تکبر نہیں۔لوگوں کو حقیر جاننا،سچائی کو رد کردینے کا نام تکبر ہے۔
(۹)سب سے محبت رکھو اسی میں آدھی عقل ہے۔
(۰۱)یہ مت کہو کہ اگرلوگ ہم سے اچھا برتاﺅ کریں گے تو ہم بھی اچھا برتاﺅ کریں گے او راگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے،بلکہ ایسی عادت بناﺅ کہ اگر لوگ تم سے اچھا برتاﺅ کریں تو تم ان سے احسان کرو اور اگر وہ تم سے برائی کریں تو تم ان پر ظلم نہ کرو۔
علم کی بزرگی
(۱)جوکوئی علم کی تلاش میں چلتا ہے اسے بہشت کی راہ آسان ہوجاتی ہے۔
(۲)تم جب تک علم کی تلاش میں ہو،راہ خدا میں ہو۔
(۳)علم کی تلاش پچھلے گناہوں کا کفارہ ہے۔
(۴)تحقیقات کا شوق آدھا علم ہے۔
(۵)عبادت کی بزرگی سے علم کی بزرگی بہتر ہے۔
(۶)حکمت و دانائی کو اپنی گمشدہ چیز سمجھو۔جہاں مل جائے لے لو۔
(۷)جوکوئی علم چھپاتا ہے اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔
(۸)جہاں علم اور حلم اکٹھے ہوں ان سے بہتر کوئی دوچیزیںکہیں ایک جگہ اکٹھی نہ ملیں گی۔
لونڈی، غلام، خادم سے سلوک
(۱) لونڈی غلام تمہارے بھائی ہیں۔اللہ نے ان کو تمہارے ماتحت بنادیاہے۔جس کے پاس لونڈی یا غلام ہو وہ اسے برابر کا کھلائے،برابر کا پہنائے،طاقت سے بڑھ کراس سے کام نہ لے۔مشکل کام میں آپ اس کو مدد دے۔
(۲)لونڈی یا غلام کو آزاد کرنااپنے آپ کو دوزخ سے چھڑالینا ہے۔
(۳)ایک نے پوچھا خدمت گار کو کہاں تک معاف کیاجائے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا،دن میں ستر دفعہ۔
دعا
دعاءبندہ کو خدا سے ملاتی ہے۔مصیبت میں دل کو تسکین دیتی ہے،فراغت میں غفلت کو دور رکھتی ہے۔نبیﷺ نے جو دعائیں ہم کو سکھلائی ہیں،ان سے اسلام کی تعلیم بھی معلوم ہوجاتی ہے اور سیاہ دلوں کی زنگ بھی صاف ہوتی ہے۔جو دعائیں لکھی جاتی ہیں،بہتر ہے کہ ان کو حفظ کرلواور خدا سے اسی طرح دعاکیا کرو۔
(۱)میں زمین اور آسمان کو پیدا کرنے والے کی طرف یکسو ہوکر اپنا منہ کرتا ہوں۔میں اس کے برابر کاکسی کو نہیں سمجھتا۔میری بدنی عبادتیں اور مالی صدقے،میرا جینا ،میرا مرنا جہاں کے مالک پروردگار کے لئے ہے۔بے شک مجھے حکم ہے کہ میں کسی کو پروردگار کے برابر کا نہ سمجھوں اور اپنے سر کو اسی کی درگاہ پر رکھوں۔اے خدا!اے بادشاہوں کے بادشاہ،پالن ہار!تیرے سوا کوئی بھی نہیں،جس کی بندگی کی جائے ۔میں تیرا بندہ ہوں۔اپنی جان پر ظلم کرچکا ہوں۔اب اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو میرے تمام گناہوں کو معاف کردے کیونکہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی معاف نہیں کرسکتا۔
اے مالک! مجھے اچھے سبھاﺅ اور نیک عادتوں پرچلا۔بے شک ایسی ہدایت توہی دے سکتاہے۔
میں تیرے حضور میں حاضر ہوں اور تیرا حکم ماننے کو تیار ہوں۔
اے مالک!مجھے برے سبھاﺅ اور بدخلقی سے بچالے،بے شک تو ہی مجھے اس سے بچا سکتا ہے۔
اے مالک بہتری اور نیکی کی سب قسمیں تیرے ہاتھ میں ہیں اور بدی کو تیری طرف لگاﺅ نہیں۔
اے مالک!بڑی برکتوں اور بلندیوں والے میںتجھ سے اپنی بخشش کا سوال کرتا ہوں۔
(۲)الٰہی!میں تجھے سجدہ کرتا ہوں۔تجھ پر ایمان رکھتا ہوں۔تیرے سامنے اپنے سر کو جھکاتا ہوں۔میراچہرہ اس کو سجدہ کرتا ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور میری صورت بنائی۔جس نے چہرہ کے ساتھ سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں لگائیں۔خدا بڑی برکتوں والاہے۔ پیدا کرنے کی طاقت اس میں اعلیٰ واحسن ہے۔الٰہی!میرا ظاہر میرا باطن تجھے سجدہ کرتاہے اور میرا دل تجھ پر ایمان رکھتا ہے اور میں تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں۔
(۳)الٰہی! میں تجھ سے چاہتا ہوں کہ کاروبار میں مجھے استقلال دے اور ارادہ میں مجھے نیکی عطا فرماکر مجھے توفیق دے کہ تیری نعمت کا شکر اور تیری عبادت اچھی طرح بجالاﺅں۔الٰہی!میرے دل کو عیبوں سے پاک کردے اور زبان کو سچائی سکھلادے۔
(۴)الٰہی!میرے دین کو سنواردے،اس میں میرا پورا پورا بچاﺅ ہے۔میری دنیا کو سنواردے،اس میں میری گزران ہے۔
(۵)الٰہی!مجھے رزق دے جو پاک ہو،علم دے جس کا نفع ہو۔عمل!جسے تو قبول کر لے۔
(۶)الٰہی!میں تجھ سے عاجزی،کاہلی بے ہمتی، بخیلی،حددرجہ کی کمزوری اور عذاب قبرسے پناہ مانگتا ہوں۔الٰہی!میرے دل کو پرہیزگار بنادے،اسے پاک کردے۔توہی سب سے بڑھ کر اسے پاک بنا سکتا ہے اور توہی میری جان کا والی و کارساز ہے۔
الٰہی! جس علم میں نفع نہ ہو،جس دل میں تیری بزرگی نہ ہو،جس نفس میں قناعت نہ ہو،جو دعا قبول نہ ہوتی ہو۔میں ان سب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(۷)الٰہی!ہمارے دلوں میں الفت بھر دے۔ہمارے حالتوں کو درست بنادے۔ہم سب کو سلامتی کی راہ پر چلا۔ہم کو اندھیرے سے نکال کر روشنی دکھلا۔الٰہی ہم کو کھلے اور چھپے فحش سے پاک کردے اور ہم کو ہمارے کان،آنکھ،دل،بیوی بچوں میں برکت دے۔تو ہم پر رحمت رکھ اور اپنی نعمت کا شکر گزار بنا،ہم تیری نعمت لیتے رہیں اور تیری ثنا کرتے رہیں اور تو ہم پر اپنی نعمتوں کو پورا فرماتا رہے۔آمین یا رب العالمین۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top