skip to Main Content
مغرور لڑکی

مغرور لڑکی

غلام عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت عرصے کی بات ہے۔یونان کے ایک شہر میں ایک بہت خوب صورت لڑکی رہتی تھی۔وہ کپڑا بُننے کے کام میں بڑی ماہر تھی۔دُور دُور سے لوگ اُس کے ہاتھ کے بُنے ہوئے کپڑے دیکھنے آیا کرتے تھے۔وہ رُومالوں پر ایسی خوب صورت رنگ برنگی تصویریں کاڑھا کرتی کہ لوگ انھیں دیکھ کر عَش عَش کر اُٹھتے تھے۔

جیسے ہی کوئی نیا رُومال یا نئی چادر تیار ہو جاتی،تو لوگ بہت سا روپیہ دے کر اُسے خرید کر لے جایا کرتے۔اس طرح ہوتے ہوتے وہ لڑکی بہت امیر کبیر بن گئی۔لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ مغرور بھی بہت ہوگئی۔

ایک دن ایک عورت نے جو اُس کے کاڑھے ہوئے ایک خوب صورت رُومال کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی اُس سے کہا:

’’اے پیاری لڑکی!تمھارا رُومال ایسا نفیس بُنا ہوا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ تمھیں ہماری ملکہ نے بُننا سکھایا ہوگا۔‘‘

اُس عورت نے تو یہ بات اُس لڑکی ،کی تعریف میں کہی تھی۔کیوں کہ یونان کی ملکہ بھی کڑھائی اور بُننے کے کام میں بہت ماہر تھی۔لیکن وہ مغرور لڑکی اس بات پر خوش ہونے کے بجائے ناک بُھوں چڑھاتے ہوئے تکبر سے بولی:

’’واہ بی صاحبہ!آپ نے میرے کام کی بہت اچھی تعریف کی ہے۔ملکہ بے چاری بھلا مجھے کیا سکھا سکتی ہے۔ملکہ تو ملکہ دُنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے،جو ایسے خوب صورت بُننے کے کام میں مجھ سے زیادہ بڑھ کر اور زیادہ ماہر ہو۔‘‘

اُس مغرور لڑکی کا باپ بہت نیک آدمی تھا۔اس نے جب اپنی لڑکی کی یہ بات سُنی تو وہ دل میں بہت ڈرا کہ اب ملکہ ہم سے بہت خفا ہوگی۔چنانچہ وہ اپنی بیٹی سے کہنے لگا:

’’بیٹی!عقل کی بات کرو۔تمھارا اور ملکہ کا بھلا کیا مقابلہ ہے۔یہ بات پھر کبھی اپنی زبا ن پر مت لانا۔اگر ملکہ نے سُن لیا،تو وہ بہت سخت ناراض ہوگی اور تمھیں اس گُستاخی پر بہت سخت سزا دے گی۔‘‘

لیکن اُس کی مغرور لڑکی پر باپ کی نصیحت پر کچھ اثر نہ ہوا۔وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی۔کہنے لگی:

’’ابّاجان!میں پھر کہتی ہوں کہ ملکہ مُجھ جیساخوب صورت اور نفیس بُنائی کڑھائی کا کام نہیں کر سکتی۔ہاں مزہ تو تب تھا جب ملکہ خود اس وقت یہاں موجود ہوتی،اور ہم دونوں ایک ساتھ بنتیں۔پھر سچ اور جُھوٹ آپ کو معلوم ہو جاتا۔‘‘

یہی باتیں ہورہی تھیں،کہ ایک بُڑھیاپھٹے پُرا نے کپڑے پہنے،عَصا ٹیکتی ہوئی اُدھر آنکلی،اور اُس مغرور لڑکی کے قریب آکر کہنے لگی:

’’بیٹی!تم نے ہماری ملکہ کے بارے میں ایسی باتیں کہی ہیں جو کہ تجھے نہیں کہنی چاہییں تھیں لیکن اگر تم اپنی غلطی مان جاؤاور عہد کرلو کہ آئندہ پھر کبھی تم ملکہ کے بارے میں ایسی باتیں زبان سے نہیں نکالوگی،تو مجھے یقین ہے کہ ملکہ تمھیں خوشی سے معاف کردیں گی۔‘‘

بُڑھیاکی یہ بات سُن کر وہ مغرور لڑکی آپے سے باہر ہوگئی اور بُڑھیا کو جِھڑک کر کہنے لگی:

’’اری اوبُڑھیا!آفت کی پُڑیا!تجھے ان باتوں سے کیا مطلب ہے!چل جا تُو اپنا راستہ لے۔میں پھر کہتی ہوں،کہ مُجھ جیساخوب صورت اور نفیس بُنائی کا کام ملکہ نہیں کر سکتی۔اگر ملکہ یہاں خود موجود ہوتی ۔تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

مغرور لڑکی ابھی اپنی بات بھی ختم نہ کرنے پائی تھی کہ اُس بُڑھیا نے جَھٹ اپنے پَھٹے پُرانے کپڑے اُتار دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یونان کی ملکہ زرق برق پوشاک پہنے اُس کے سامنے کھڑی تھی۔گھر میں جتنے لوگ موجود تھے۔سب کے سب خوف زدہ ہوگئے اور ڈرکے مارے کانپنے لگے اور سوچنے لگے کہ دیکھیں اب ملکہ اس مغرور لڑکی کو اس کے غرور کی کیا سزا دیتی ہے۔مگر مغرور لڑکی کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔

وہ تکبر سے بولی:

’’ملکہ صاحبہ!میں بہت خوش ہوئی ہوں آپ کو یہاں دیکھ کر کہ آپ تشریف لے آئی ہیں۔مگر مجھے یقین ہے کہ آپ میرے مقابلے میں بُننے کی جرأت نہ کر سکیں گی۔‘‘

ملکہ نے غصے سے بھرے ہوئے لہجے میں کہا:

’’اے بے وقوف لڑکی!میں تجھ سے مقابلہ کرنے سے ہر گز نہیں ڈرتی۔لا مجھے بُننے کا سامان دے۔‘‘

کئی گھنٹوں کی محنت کے بعددونوں نے ایک ایک رُومال تیار کیا۔دونوں کےُ رومال صفائی اور خوب صورتی میں بے مثال تھے اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھے۔

ملکہ نے اپنے رُومال پر ایک بہت ہی عُمدہ اور عبرت انگیز تصویرکاڑھی تھی۔جس میں یہ دکھایا تھا کہ:

جو لوگ اپنے بادشاہوں کے بارے میں بُری بُری ،اور توہین آمیز باتیں کہتے ہیں،انھیں کیا سزا ملتی ہے۔ملکہ نے یہ تصویراس لیے بنائی تھی کہ وہ مغرور لڑکی اس سے اشارہ پا کر اب بھی سمجھ جائے اور اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائے۔

اُدھر مغرور لڑکی نے اپنے رُومال پر جو تصویر کاڑھی تھی وہ ملکہ اور اُس کی سہیلیوں کے متعلق تھی۔تصویر میں اُس نے ان سب کی شکلیں غصّے سے بھری دکھائی تھیں۔گویا کہ وہ ہر وقت آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی ہیں۔اُس لڑکی نے یہ تصویر ملکہ کو چڑانے کی غرض سے بنائی تھی۔

یہ تصویر دیکھ کر تو ملکہ غصّے سے پاگل ہوگئی اور اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔اُس نے کہا:

’’اے گُستاخ اوربے وقوف لڑکی!یہ سچ ہے کہ تو مجھ سے بہت نفیس اور خوب صورت بُننا جانتی ہے،لیکن تو بہت مغرور ہے۔تو بڑوں کا ادب اور احترام نہیں کرتی،بلکہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہے۔لہٰذا تیرا دُنیا میں اس طرح رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔اس لیے میں تجھے یہ سزا دیتی ہوں کہ تو ہمیشہ بُنتی رہے گی۔‘‘

یہ کہہ کر ملکہ نے غصّے سے اُس لڑکی کا ڑُومال پھاڑ ڈالا۔رُومال پھٹتے ہی مغرور لڑکی کے سر کے بال جَھڑ گئے اور اُس کا قد چھوٹا ہونا شروع ہوا۔یہاں تک کہ وہ انگوٹھے کے ناخن برابر ہوکے رہ گئی اور وہ مکڑی بن گئی۔

مکڑی بنتے ہی وہ جَھٹ گھر کے ایک اندھیرے کونے میں بھاگ گئی اور اُسی وقت بُننا شروع کردیا۔وہ دن اور آج کا دن وہ مغرور لڑکی مکڑی بنی ہوئی ہر گھر میں بُننے کے کام میں مصروف ہے۔

تم نے اکثر گھر کی چھتّوں میں ،باغ کی جھاڑیوں میں اس کے نازک اور باریک تاروں کے جال دیکھے ہوں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top