skip to Main Content
معرکہ اُحد میں

معرکہ اُحد میں

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کئی معرکوں اور واقعات میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں۔ جو اسلامی تاریخ میں قتال (جنگوں) میں شریک ہوئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوال ۳ ھجری ہے۔ میدان جنگ گرم ہے۔ مجاہدین اور کفار کی فوج نے اپنے گھوڑوں کے سموں (قدموں) اور اپنے قدموں سے میدان جنگ میں دھول، گرد کا طوفان پیدا کیا ہوا ہے۔ اس گرد کے طوفان میں نظر آرہا ہے کہ میدان کے پیچھے اُحد کا پہاڑ اپنی شان و شوکت سے کھڑا ہے۔ اس کے دامن میں مجاہدین وکفار ایک دوسرے پر حملے پر حملے کررہے ہیں۔ تلواروں سے، تیروں سے، نیزوں سے اور پتھروں سے۔ ایک طرف مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو ہے تو دوسری طرف کفار کا لشکر تین ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔ جو ہر طرح کے اسلحوں، گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ مقابلے کے لیے آئے تھے۔ جنگ کی اس گرمی میں جہاں حق و باطل ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہے ہیں۔ وہیں چند مسلمان خواتین بے خوف میدان جنگ میں مسلمان سپاہیوں کی مرہم پٹی اور پانی پلانے کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 
مسلمانوں نے اس بہادری سے مقابلہ کیا کہ جنگ کی ابتداء ہی میں کفار کے سات بہادرجنگجو مارے گئے اور ایک یقینی فتح مسلمانوں کو نظر آنے لگی۔ ایسے میں کفار میدان جنگ سے بھاگ پڑے۔ ان کے پیچھے ان کی خواتین جو کچھ دیر پہلے دف بجا بجا کر کفار کو مقابلے کے لیے ابھار رہی تھیں۔ دف پھینک کر بھاگ رہی تھیں۔ مسلمانوں نے میدان میں موجود بقیہ کفار کو قیدی بنانا اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کیا۔ ایسے میں ایک پہاڑی درہ جہاں سے کفار کے حملے کا خطرہ تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو حفاظت کے لیے اس تاکید کے ساتھ مقرر کیا کہ جنگ کے حالات کچھ بھی ہوں۔ جب تک انہیں مدد کے لیے یا مال غنیمت کے لیے بلایا نہ جائے۔ وہ ہر گز اپنی جگہ سے نہ ہلیں۔ 
مگر ان تیر اندازوں نے جب میدان میں مسلمانوں کو مال غنیمت سمیٹتے دیکھا تو وہ بھی میدان کی طرف بھاگے اور اپنے کمانڈر کی بات کو بھول بیٹھے۔ اب اس پہاڑی درے پر کمانڈر سمیت صرف دس تیر انداز رہ گئے۔ کفار کا ایک دستہ جو بار بار درے کی طرف حملے کر رہا تھا۔ اب جگہ خالی دیکھ کر درے کی طرف لپکا اور باآسانی ان دس لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کیا۔ اس اچانک حملے سے مسلمان بدحواس ہو کر ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ میں ﷲ کا رسول ہوں ۔ میں یہاں ہوں مگر انہیں بدحواسی میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی نہیں دی اور کفار نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے۔ اب مسلمانوں کے حوصلے اور بھی کم ہو گئے مگر چند اصحاب ایسے بھی تھے۔ جو اب بھی بھرپور لڑائی کررہے تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ بے تاب ہو کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگے۔ بالآخر خود (جنگی ٹوپی) کے اندر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرنور آنکھوں سے پہچان لیا۔ یہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے۔ کفار کی طرف سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے تیروں اور تلواروں کے وار کو اپنے جسم پر روکنے لگے۔ ایسے میں پانی پلانے والی عورتوں میں سے ایک عورت نے یہ منظر دیکھا تو اپنا مشکیزہ (پانی پلانے کا چمڑے کا تھیلا) پھنک کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑیں۔ جہاں ان خاتون کا بیٹا پہلے ہی سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں مصروف تھا۔ 
خاتون نے بھاگتے ہوئے ایک مشرک کی تلوار اور ڈھال جو وہ پھینک کر بھاگ رہا تھا۔ اپنے ساتھ لے لیا اور کفار کے حملے روکنے کی کوشش کی۔ یہ خاتون ایک طرف تلوار سے بھی دشمنوں کو قریب آنے سے روکتیں تو دوسری طرف تیر سے بھی حملے کرتیں۔ اسی دوران خاتون کے بازو پر ایک مشرک کی تلوار سے گہرا زخم لگا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو یہ تمام کارنامہ اپنی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ فوراً ان کے بیٹے کو حکم دیا کہ اپنی ماں کو سنبھالو اور ان کی مرہم پٹی کرو۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے خاندان والوں ﷲ تم پر رحمت کرے۔ اے خاندان والوں ﷲ تم پر رحم کرے۔‘‘ اور خود اپنی نگرانی میں ان کی مرہم پٹی کروائی۔ ان خاتون کو کہا کہ آج تم نے بہت بہادری دکھائی جس پر خاتون نے کہا: ’’یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرے لیے دعا فرمائیے کہ جنت میں بھی آپ کا ساتھ نصیب ہو۔‘‘ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ دعا سن کر خاتون کو بے حدخوشی ہوئی اور انہوں نے کہا اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی پروا نہیں۔
یہ بہاد ر خاتون جنہوں نے اپنی جان سے بڑھ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے نازک وقت میں حفاظت کی اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہادری کی تعریف کی۔ حضرت اُمّ عمارہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کا نام نسیبہ بنت کعب تھا لیکن اپنی کنیت اُمّ عمارہ ہی سے مشہور ہوئیں۔ اُحد کے دن بہادری کے کارنامے کے بعد لوگ انہیں ’’خاتون اُحد‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ حضرت اُمّ عمارہ کا تعلق قبیلہ بنو نجار سے تھا۔ جو مدینے میں ایک مشہور قبیلہ تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قبیلے کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ حضرت اُمّ عمارہ کا شمار بھی سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔
حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کئی معرکوں اور واقعات میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں۔ جو اسلامی تاریخ میں قتال (جنگوں) میں شریک ہوئیں۔ غزوہ احد میں جس طرح انہوں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کی اور بہادری کے کارنامے انجام دیے۔ اس وجہ سے اپنے پورے خاندان کے ساتھ جنت کی بشارت پائی۔ اُحد کے دن حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کو تیرہ زخم آئے تھے۔ جن میں سے ایک زخم اتنا گہرا تھا کہ پورا سال اس کا علاج کراتی رہیں۔
حضرت اُمّ عمارہ بیعت رضوان کے مبارک موقع پر بھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ موجود تھیں۔ ان مبارک ہستیوں میں شامل تھیں۔ جنہیں ﷲ تعالیٰ نے اپنی رضا کے لیے چنا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر کے لیے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے کی بیس خواتین بھی تھیں۔ جن میں سب سے اہم حضرت اُمّ عمارہ تھیں۔ غزوہ حنین میں بھی حضرت اُمّ عمارہ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ شریک تھیں۔ خود اس دن کا واقعہ سناتی ہیں: ’’جب اس دن ہر طرف سے مسلمان شکست کھا کر نکلے تو ہم پانچ عورتیں تھیں۔ میرے ہاتھ میں تیز دھار تلوار تھی۔ اتنے میں، میں نے ایک شخص کو اونٹ پر سوار دیکھا۔ وہ مسلمانوں پر حملے کر رہا تھا۔ میں نے اس کے اونٹ کو زخمی کر دیا۔ جس سے وہ زمین پر آگیا اور میں نے اسے تلوار سے وار کرکے شدید زخمی کردیا۔‘‘
حضرت اُمّ عمارہ ایک ہمت والی ماں بھی تھیں۔ اُحد میں جب ان کے بیٹے عبداﷲ رضی اللہ عنہ بن زید کا ایک مشرک سے مقابلہ ہوا اور اس نے ان کے بیٹے کو زخمی کر دیا تو لپک کر آئیں اور جلدی سے بیٹے کی مرہم پٹی کرکے اُم عمارہ نے اپنے بیٹے کو کہا: ’’جاؤ دشمنوں سے لڑو۔‘‘ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر کہا: ’’اُم عمارہ تمہاری طرح کس میں طاقت ہے؟‘‘
اسی طرح حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دوسرے بیٹے حضرت حبیب رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ کی شہادت پر بھی بے انتہا صبر سے کام لیا جبکہ انہیں مسلمہ کذاب نے انتہائی بے دردی سے شہید کردیا۔ حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا نے اسی دن یہ عہد کیا کہ وہ مسلمہ کذاب سے ضرور اس ظلم کا بدلہ لیں گی۔ اس لیے نہیں کہ اس نے ان کے بیٹے کو شہید کیا۔بلکہ اس لیے کہ وہ جھوٹی خدائی کا دعویٰ کرنے والے کو جلد از جلد ختم کر دینا چاہتی تھیں۔
جب حضرت اُمّ عمارہ نے مسلمہ کذاب سے مقابلے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جنگ یمامہ میں شرکت کی اجازت چاہی تو اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکی تھی۔ ان کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود جنگ یمامہ میں بھی حضرت اُمّ عمارہ نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس جہاد میں انہیں گیارہ زخم آئے اور ایک ہاتھ بھی شہید ہو گیا لیکن اسی دوران انہوں نے دیکھا کہ ان کے بیٹے عبداﷲ نے مسلمہ کذاب کو قتل کر دیا ہے تو خوشی سے تکلیف بھول گئیں۔
حضرت اُم عمارہ کو قرآن سے گہرا لگاؤ تھا۔ ایک مرتبہ حضرت اُم عمارہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں قرآن میں ہر چیز مردوں کے لیے دیکھتی ہوں۔ عورتوں کے لیے کسی قسم کا ذکر نہیں ہوتا تو سورۃ احزاب کی آیت نمبر ۳۵ نازل ہوئی: ’’بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والی عورتیں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے ذکر کرنے والیاں ان (سب) کے لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب رکھا ہے۔‘‘
اسی کے ساتھ ساتھ حضرت ام عمارہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سننے اور یاد کرنے میں بھی بہت رغبت رکھتی تھیں۔ حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا زندگی کے آخری لمحات تک مدینہ منورہ میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان نہایت عزت و احترام سے رہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وصال فرمایا۔رضی اﷲ تعالیٰ عنہا۔۔۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top