skip to Main Content

معافی

بنت عبدالمجید
۔۔۔۔۔

”آؤ یار! کھیلنے چلتے ہیں۔“ عبدالاحد نے اعلان کیا تو سب دوست اس کے ساتھ چل دیے۔
پگڈنڈی پر پہنچے تو اس کا دوست احسن دوسری سمت دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا۔ باقی سب بھی اس سمت دیکھ کر ہوشیار ہو کر رک گئے۔
پگڈنڈی کے ساتھ لہلہاتے سرسوں کے کھیت کی دوسری جانب میدان تھا، جس میں بچے کھیلنے کے لیے جاتے تھے۔
آج بھی حسب معمول جا رہے تھے کہ دوسری جانب پگڈنڈی پر عبدالاحد کا دوست اسلم آتا ہوا دکھائی دیا۔ کچھ دن پہلے اسکی عبدالاحد سے لڑائی ہو گئی تھی۔ اس دن کے بعد سے وہ چھپ گیا تھا۔ بدلا لینے کے لیے عبدالاحد اور اس کے دوست اس کی گھات میں تھے۔ آج کافی دنوں بعد وہ نظر آیا تو بدلا لینے کے لیے سب کھیت کے اوٹ میں ہو کر اس کے پہنچنے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ جیسے ہی وہ بالکل سامنے پہنچا تو سب نے اسے جا لیا۔
”ارے اب آئے گا مزہ۔“احسن نے دانت کچکچا کر اسکو گریبان سے پکڑ کر کہا تو باقی دوستوں کا زوردار قہقہہ نکل گیا۔
عبدالاحد نے کہا: ”چھوڑ دو یار اسکو اور میری بات سنو!“ سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
اپنی طرف متوجہ پا کر عبدالاحد نے کہا:
”میری امی نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ہمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے کہیں بھاگ کر چلا گیا تھا، کچھ عرصہ بعد وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے قاتل کو دیکھا تو غم تازہ ہو گیا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لیکن تمہیں پتہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ کیا کیا؟“
عبدالاحد نے سوالیہ نظروں سے سب کی جانب دیکھا۔
تو اسلم نے جھٹ سے کہا: ”صاف ظاہر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قتل کروا دیا ہو گا۔“
”نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے معاف کر دیا تھا۔(خطبات النبیﷺ)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دشمن کو معاف کر دیا تھا۔ میں بھی آج اپنے دوست کو معاف کرتا ہوں۔“
عبدالاحد اتنا کہہ کر اسلم سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھ گیا۔ احسن کا ہاتھ خود بہ خود گریبان سے ہٹتا چلا گیا۔ احد نے بے یقینی سے بڑھ کر اپنے پیارے دوست کو گلے لگا لیا۔
اور سب ہنسی خوشی میدان کی طرف چل دیے، سوائے اسلم کے۔ وہ بوجھل قدموں سے واپس گلی میں مڑ گیا۔ ایک گھر کے آگے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے آواز آئی۔ ”کون؟“
”حسن کا دوست اسلم“
”بیٹا تیرا دوست اسلم آیا ہوا ہے دروازے پہ……“
یہ سن کر حسن زور سے اچھلا ”کک ککیا…..اسلم؟“
”جی جی اسلم ہی۔“
وہ بے یقینی سے دروازے کی طرف چل دیا۔ اسلم کو دیکھ کر حسن کا غصہ سوا نیزے کو چھونے لگا۔ اس نے جاتے ہی جھپٹ کر اسلم پر وار کر دیا۔ جس سے اسکی آنکھ سوجنے لگی۔ لیکن اسلم کو آرام سے مار کھاتا دیکھ کر وہ حیران ہوا اور رک کر اس کی طرف دیکھا۔ تو اسلم نے کہا: ”میرے دوست مجھے معاف کر دو میں نے تیری کل پیٹائی کی تھی۔ آج عبدالاحد نے سیرت مبارکہ کا واقعہ سنا کر میری آنکھیں کھول دی ہیں۔“ اسلم نے نم آنکھوں سے کہا تو حسن کا سر ندامت سے جھکتا چلا گیا۔ اس کی نم آنکھیں دیکھ کر حسن کی آنکھیں بھی بھرا گئیں۔
اس نے اسلم کو گلے لگا کر گلوگیر لہجے میں کہا: ”میرے دوست تم مجھے معاف کر دو مجھ سے غلطی ہو گئی یار……“
”جی میں نے دل سے معاف کیا اپنے عزیز دوست کو۔“ اسلم نے کہہ کر حسن کا ہاتھ دبایا تو حسن مسکرا دیا۔
”وہ واقعہ مجھے بھی سناؤ نا جس نے تم جیسے لڑاکے کو اتنا بدل دیا ہے۔“
حسن نے ہنس کر اسلم سے فرمائش کی تو اس نے قہقہہ لگا کر کہا: ”چلو وہ عبدالاحد کی زبانی سنتے ہیں۔“ دونوں دوست واقعہ سننے کے لیے چل دیے۔
عبدالاحد جو چھپ کر اسلم کے پیچھے پیچھے آیا تھا اور ساری بات سن چکا تھا۔ دل ہی دل میں سوچنے لگا،اگر یوں ہی ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے لگیں تو کوئی دوست دوست سے نہ بچھڑے گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top