skip to Main Content
مری ایکسپریس

مری ایکسپریس

حماد ظہیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الیکشن کے ذریعے یہ فیصلہ ہوجانے کے بعد کہ مری ایوبیہ کی سیر نبیل بھائی عرف بھیا کے زیر انتظام ہوگی، ہم سب کچھ بھلا کر سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔

’’دیکھ لو بھئی، وہاں ڈیپ فریزر جتنی سردی ہوگی، گرم کپڑے رکھنا مت بھولنا!‘‘ فوزی آپی نے تاکید کی۔

’’افواہ تو پنڈی کے متعلق بھی یہی تھی، لہٰذا ٹھنڈے کپڑے ہم لائے ہی کہاں تھے ساتھ!‘‘ ہم نے ٹھنڈی آہ بھر کر کچھ ٹھنڈ پھیلانے کی کوشش کی۔

’’میں نے تو سنا ہے کہ وہاں بارشیں ایسے ہوتی ہیں جیسے شاور سے پانی آرہا ہو، پھر تو کسی برساتی وغیرہ کا بھی انتظام کرنا پڑے گا۔‘‘ ٹیپو نے معلومات دیں۔

’’بھائی، بارش اور موسم کا مزہ لینے کے لیے ہی تو مری جارہے ہیں، اگر اس سے اتنا بچنا ہے تو واپس کراچی چلے جاؤ!‘‘ سنی نے منھ بنایا۔

زیادہ مزہ لینے کے چکر میں ہم مری کے بجائے مر ہی نہ جائیں لہٰذا احتیاط لازمی ہے۔‘‘ فوزی آپی اپنی تاکید پر قائم تھیں۔

’’بڑا تجربہ تجربہ کہہ رہے تھے نا بھیا، ان ہی سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا کیا سامان رکھیں!‘‘ عفت نے گتھی سلجھائی۔

’’خبردار!‘‘ فوزی آپی گرجیں۔ ’’اگر ایسا کیا تو لگے گا کہ ہم کسی شہر سے نہیں بلکہ ’پنڈ دادن خان ‘سے آئے ہیں۔ بس جو سمجھ آرہا ہے رکھ لو!‘‘

*۔۔۔*

جس کی جو سمجھ میں آیا اس نے وہ رکھ لیا، لہٰذا صبح جب جانے کے لیے نکلنے لگے تو سامان کا ایک انبار لگا نظر آیا۔

’’ارے بھائی ہم مری تک ہی جارہے ہیں، کوئی چاند پر تھوڑا ہی جارہے ہیں!‘‘ ننھیالی گروپ کا عادل گھبرانے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا۔

’’مجھے تو ایسا لگا جیسے سیر کے لیے نہیں بلکہ ہجرت کرکے مری جارہے ہو!‘‘ طوبیٰ نے بھی پھبتی کسی۔

ان میں سے ہر کسی کے پاس اسکول بیگ یا اس سے ملتا جلتا مختصر سامان تھا جبکہ ہم جتنا کراچی سے لائے تھے اس سے بھی کچھ بڑھالیا تھا۔

’’وہاں ہوٹلوں میں کمبل لحاف ہوتے ہیں، لہٰذا اِنھیں لے جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ نبیل بھیا سمجھانے کے انداز میں بولے تو ہمارے اوپر سے ایک رنگ آکر گزر گیا، مگر ماریہ کی بچی نے تو حد ہی کردی۔ بولی: ’’بلکہ پلنگ اور گدے بھی ہوتے ہیں، وہ لے جانے کی بھی ضرورت نہیں!‘‘

’’ہم کوئی برفانی ریچھ نہیں ہیں بھائی۔ الحمد للہ ابھی تک گرمی سردی محسوس کرنے کی صلاحیت باقی ہے!‘‘ فوزی آپی نے بات بنائی۔

’’بس ایک ایک سوئیٹر یا جیکٹ کافی ہے۔ آپ لوگ اپنا سامان کم کرلیں تاکہ گاڑی میں آسکے!‘‘ بھیا نے مشورہ دینے کے انداز میں حکم دیا۔

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔ سنی گنگنایا۔

’’باتیں تو آپ کل ایسی بنارہے تھے اس گاڑی کی وسعت کے متعلق، جیسے یہ کوئی ریل گاڑی ہو!‘‘ ہم جل کر بولے۔

’’لیکن آپ نے تو اس کو مال گاڑی ہی سمجھ لیا!‘‘ عاقب برجستہ بولا۔

’’اگر یونہی زبانیں چلتی رہیں تو گاڑی کیسے چلے گی چلو سامان کم کرو تاکہ ہم روانہ ہوسکیں!‘‘ ٹیپو نے کہا اور اپنا سامان اٹھا کر اندر کی طرف چل دیا۔

ہم سب ہی نے گویا ہتھیار ڈالنے کے سے انداز میں اپنا سامان کم کیا اور باہر کی راہ لی۔ وہاں پہنچے تو دیکھا عادل، عاقب، طوبیٰ، ماریہ لائن بنا کر کھڑے ہیں اور سامنے بھیا کھڑے ہیں۔

’’لگتا ہے کسی شرارت پر کلاس ہورہی ہے۔‘‘ سنی بڑبڑایا۔ہم پہنچے تو بھیا نے ہمیں بھی اشارے سے لائن بنانے کا کہا۔

’’یہ کیا شناخت پریڈ ہورہی ہے؟‘‘ فوزی آپی کے منھ سے نکل ہی گیا۔

’’اسمبلی!‘‘ ماریہ نے سرگوشی کی۔

بھیا نا جانے کس مزاج کے تھے۔ واقعی اسکول جیسی اسمبلی کرارہے تھے۔ ٹیپو نے تلاوت کی۔ طوبیٰ نے نعت پڑھی، ہم سے اُنھوں نے کسی کتاب سے ایک حدیث پڑھوائی، پھر آخر میں سب نے مل کر ترانہ پڑھا۔ شکر ہے پی ٹی نہیں ہوئی کہ اس سے ہماری بہت جان جاتی تھی۔ امی نے جو یہ تماشا دیکھا تو کھڑکی سے سر نکال کر بولیں:’’نبیل! تم بچوں کو پکنک پر ہی لے جارہے ہو یا پھر انڈیا سے جہاد کرنے محاذ جنگ پر!‘‘

بہرطور، ہم کسی طرح لدپھند کر وین نما گاڑی میں سوار ہوئے اور منزل کی جانب گامزن بھی۔

*۔۔۔*

گاڑی بھی کیا تھی، کسی عجائب خانے سے کم نہ تھی۔ وین نما تھی، چھت کافی اُونچی تھی، اس لیے وہاں سامان وغیرہ رکھنے کے چھوٹے چھوٹے ڈبے بنے تھے۔

’’یہ تو ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم کسی کچن میں آگئے، کیبنٹ ہی کیبنٹ ہیں!‘‘ فوزی آپی نے کل پنڈی کی سیر کے دوران کہا تھا۔ اس وقت تو ہمارا دھیان سیر پر زیادہ تھا اس لیے ہم نے مزید نہیں دیکھا لیکن اب دیکھا تو پتا چلا ایک ڈبے میں کچھ کتابیں رکھی ہیں، ایک میں فرسٹ ایڈ کا سامان اورادویہ، ایک میں اوزار وغیرہ، اور ایک میں لکھا تھا ’’ڈسٹ بن۔‘‘

بھیا نے بتایا: ’’کوئی اپنا کچرا گاڑی میں یا کھڑکی سے باہر نہیں پھینکے گا، بلکہ اسے ڈسٹ بن میں ڈالے گا۔‘‘

ایک ڈبے میں تالا لگا تھا۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

’’اس میں کھانے پینے کا سامان ہے، خشک میوے، چپس، بسکٹ، جوس اور پانی وغیرہ!‘‘ عاقب نے بتایا۔

’’گویا یہ گاڑی نہ صرف چلتا پھرتا کتب خانہ ہے بلکہ موبائل ڈسپنسری اور کچن بھی!‘‘ ٹیپو بولا۔

’’وہ تو بھیا نے آپ لوگوں کا لحاظ کرلیا کہ جوتے چپل سمیت آپ کو آنے دیا۔ ورنہ وہ تو جوتے چپل تھیلی میں رکھوا کر ننگے پیر ہم کو اس میں سوار کرتے ہیں، دیکھ نہیں رہے کہ قالین کتنا نرم ہے!‘‘ طوبیٰ نے بتایا۔

’’ارے وین ہے یا ڈرائنگ روم!‘‘ فوزی آپی بڑبڑائیں۔

’’سیٹیں اٹھادیں تو اسی قالین پر لیٹا بھی جاسکتا ہے!‘‘ عادل بولا۔

’’مطلب یہ کہ بس باتھ روم کی کمی ہے، ورنہ اس میں دو چار دن باآسانی گزارے جاسکتے ہیں!‘‘ سنی نے گفتگو لپیٹ کر ہاتھ جھاڑے۔

*۔۔۔*

ہنستے گاتے راستہ کٹتا رہا، یہاں تک کہ نصف سے زیادہ فاصلہ طے ہوگیا۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی اور مٹی سے بھینی بھینی خوشبو آنے لگی، جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے جھرنے بہنے شروع ہوگئے۔ منظر انتہائی مسحور کن تھا اور شاید رہتا بھی اگر بھیا یہ سوال نہ کردیتے۔

’’فوزیہ، تمھارے پاس جو پیسے رکھوائے ہیں اس میں سے کچھ کھلے پیسے نکال کر مجھے دے دو۔‘‘

فوزی آپی نے جھٹ اپنا ہاتھ بیگ میں ڈال دیا، مگر بجاے ہاتھ باہر نکلنے کے، ان کے منھ سے نکلا۔

’’اوہ!‘‘

’’کیا ہوا، کیا ہاتھ اندر کسی مگر مچھ نے دبوچ لیا ہے؟‘‘

’’لگتا ہے کسی چپک دار چیز سے چپک گیا ہے!‘‘

مگر فوزی آپی تو گویا پتھر کی بت بنی گم صم بیٹھی تھیں۔

’’لاؤ فوزیہ؟‘‘ بھیا نے پھر ہانک لگائی۔

’’پیسے جس جیکٹ کی جیب میں رکھے تھے وہ تو میں نے سامان کم کرنے کے لیے گھر پر چھوڑ دی!‘‘ فوزی آپی نے آنکھ بند کرکے یوں جلدی جلدی ہی بولا گویا انتہائی کڑوی کسیلی دوا نگل رہی ہوں۔

ہم سب اپنی اپنی سیٹوں سے اُچھل پڑے۔ بریک ہی اتنے زور دار لگے تھے، بھیا سیٹ سے اُتر کر پیچھے آئے اور بولے: ’’کیا کہا۔۔۔ پیسے گھر پر رہ گئے!‘‘

’’مطلب تو باالفاظ دیگر قریب قریب یہی تھا!‘‘ طوبیٰ نے کندھے اُچکاے۔

’’جی نہیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے اور اب ہم اس ٹھنڈ اور بارش میں رات مری کے کسی فٹ پاتھ پر گزاریں گے۔‘‘ بھیا نے بھیانک منظر کھینچا۔

’’اور اگر رات کو برف باری بھی ہوگئی تو؟‘‘ عفت خوف زدہ ہو کر بولی۔

’’پھر تو صبح تک ہم لوگ اسنومین بن چکے ہوں گے۔ بچے آکر ہمیں ٹوپی مفلر پہنائیں گے، سن گلاسز لگائیں گے، کتنا مزہ آئے گا نا!‘‘ ماریہ تصور ہی تصور میں خوش ہو کر بولی۔

’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اپنے بستر، تکیے، کمبل، لحاف چھوڑ کر نہ آئے ہوتے!‘‘ سنی نے نتھیالی گروپ کا ریکارڈ لگایا۔

’’سونے کا نمبر تو بعد میں آئے گا، پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہم لوگ کیا کھائیں پئیں گے؟‘‘ بھیا نے ایک اور نکتہ اُٹھایا۔

’’ارے یہ بھی بھلا کوئی سوال ہے، بھئی چکن کڑاہی، تکہ بوٹی، نہاری پائے، چرغہ، پلاؤ زردہ، بریانی۔۔۔ سب ہی کچھ تو ملتا ہے وہاں!‘‘ عاقب تصور میں چٹخارے لے کر بولا۔

’’ملتا ضرور ہے، مگر وہاں باباجی کا مزار نہیں ہے کہ لنگر میں ملے، پیسے دینے پڑتے ہیں پیسے!‘‘ عادل نے یاد دلایا۔

’’جب پیسے ہی نہیں ہیں تو آگے جا کے کیا چنے بیچنے ہیں؟ واپس پنڈی چلیں، آج کے لیے اتنی سیر ہی کافی ہے۔‘‘ فوزی آپی نظریں کتراتے ہوئے بولیں۔

’’اطلاعاً عرض ہے کہ گاڑی کی ٹنکی میں صرف اتنا پیٹرول ہے کہ ہم مری پہنچ سکتے ہیں، واپسی کا سفر لمبا ہے، وہ نہیں ہوسکتا!‘‘ بھیا نے نیا مسئلہ بتایا۔

’’تو واپسی تو ڈھلوان پر ہے، اس کے لیے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کیا ضرورت!‘‘ بات تو ہم نے سولہ آنے درست کی تھی مگر بھیا پھر بھی ہمیں گھور کر رہ گئے۔

’’ہاے عاقب کے بچے، تم نے تو کھانے کی لسٹ بتا کر میری بھوک ہی چمکادی، کسی ہوٹل میں بیرے وغیرہ کا کام تو نہیں کرتے رہے!‘‘ طوبیٰ نے عاقب کو دھپ رسید کی۔

’’نہیں بھی کیا تھا تو اب کرنا پڑے گا، ہمیں بیرا گیری اور لڑکیوں کو برتنوں کی دھلائی، تب جا کر شاید رات کا کھانا مل سکے!‘‘ ٹیپو نے دکھ بھرا منظر کھینچا۔

’’تم لوگ برتن دھو، کپڑے دھو یا بھیک مانگو، میری بلا سے!‘‘ بھیا پاؤں پٹختے ہوئے سیٹ پر سوار ہوئے اور گاڑی آگے بڑھادی۔

’’ارے واہ، کپڑے دھونا اور استری کرنا بھی اچھا آئیڈیا ہے، اس سے بھی کچھ پیسے بنائے جاسکتے ہیں۔‘‘ ٹیپو یوں خوش ہو کر بولا۔

جیسے دھوبی کا پیشہ اپنانا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش رہی ہو۔

بڑا ایڈونچر ایڈونچر کررہی تھیں ناں فوزی آپی، آخر آپ نے ایڈونچر کراہی دیا۔‘‘ عاقب ہاتھ نچا نچا کر بولا۔

’’بھیا۔۔۔ آپ اس کھانے والے ڈبہ کے تالے کو تو کھول دیں، مجھے بھوک لگ رہی ہے!‘‘ طوبیٰ نے منت کی۔

’’قطعی نہیں۔۔۔ یہ ایمرجنسی کے لیے ہے!‘‘ بھیا غرّائے۔

’’اس سے زیادہ ایمرجنسی بھی بھلا کیا ہوگی؟‘‘ وہ رونی صورت بنا کر بولی۔

*۔۔۔*

’’ارے وہ دیکھو، سڑک کے کنارے ایک جیپ خراب ہوگئی ہے!‘‘ عادل نے اشارہ کیا۔

’’تو بارش اور موسم بھی تو دیکھو کیسا ہورہا ہے!‘‘ ماریہ نے جیپ کی صفائی پیش کی۔

’’مگر ہمارے بھیا کی گاڑی تو ٹس سے مس نہیں ہوئی۔‘‘ عاقب نے محاورے کا غلط استعمال کیا تو سب اسے گھورنے لگے، مبادا کہ گاڑی خراب ہونے کی مصیبت بھی آن پڑے۔

’’ہم اس کی سواریوں کو لفٹ دے کر کرایہ کی مَد میں کچھ پیسے حاصل کرسکتے ہیں!‘‘ سنی نے بس کنڈیکٹر کے سے انداز میں چِلّا کر کہا۔

’’واؤ!‘‘ کئی آوازیں اُبھریں۔

’’لیکن ہم ان کو بٹھائیں گے کیا اپنے سروں پر!‘‘ فوزی آپی نے جگہ کی تنگی کی طرف نشاندہی کی۔

’’سروں پر بٹھائیں یا پَروں پر۔۔۔ اگر ہمیں مری جا کر عزت کی روٹی کھانی ہے تو یہ تو کرنا ہی پڑے گا!‘‘ بھیا نے گویا آئیڈیے کو منظور کیا۔

طے یہ پایا کہ سب سے بڑا سب سے چھوٹے کو گود میں بٹھائے، اس سے چھوٹا اس سے بڑے کو وغیرہ۔ فوزی آپی نے عفت کو گود میں بٹھایا، سنی نے ٹیپو کو۔ ہم خوش ہوگئے کہ منجھلے تھے کوئی حصے میں نہ آیا، مگر سارے بیگ ہمارے اوپر ڈال کر ہمیں گویا ان کے نیچے دفن کردیا گیا۔

اسی طرح طوبیٰ نے ماریہ کو، عادل نے عاقب کو بٹھا کر ایک سیٹ سامان سے بھرڈالی۔ جیپ کے پاس گاڑی روک کر بسوں کے سے انداز میں صدا لگائی۔

’’مری۔۔۔ مری۔‘‘ مگر کوئی جواب نہ آیا۔ بھیا نیچے اُترے اور بولے۔

’’آپ لوگ بارش میں بھیگ رہے ہیں، ہم معقول کرایہ لے کر آپ کو مری تک پہنچادیں گے!‘‘

جیپ میں تین لوگ موجود تھے۔ ایک نے ڈرائیور کے کان میں سرگوشی کی تو ڈرائیور بولا:’’یہ غیر ملکی ہیں اور آپ کی زبان نہیں سمجھتے، اس لیے آپ کے ساتھ نہیں جاسکتے!‘‘

’’اوہ۔۔۔ غیر ملکی تھے، ان سے تو ڈبل کرایہ ملتا!‘‘ ہم ہاتھ ملتے ہوئے بولے۔

’’بلکہ ڈالر ملتے ڈالر!‘‘ عادل نے بھی حسرت ظاہر کی۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ بھیا نے پشتو بولنی شروع کردی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جواباً غیر ملکیوں نے بھی پشتو بولنی شروع کردی۔ کچھ دیر یہ تبادلہ خیال ہوتا رہا اور ہم بے چینی سے پہلو بدلتے رہے۔

آخر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی یہ دیکھ کر کہ وہ دونوں غیر ملکی اپنے اپنے بیگ لے کر ہماری گاڑی میں سوار ہوگئے۔ ان کے لیے چار سیٹیں خالی کی گئی تھیں۔ ایک ایک پر اُنھوں نے اپنا سامان رکھا اور ایک ایک پر خود براجمان ہوگئے۔

’’ان سے چار بندوں کا کرایہ لیجیے گا بھیا، اُنھوں نے چار سیٹیں گھیری ہوئی ہیں!‘‘ ماریہ جو طوبیٰ کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی بڑی مشکل سے سانس درست کرتے ہوئے بولی۔

’’چار کیا، چالیس کا لے لیں، اِنھیں بھلا کیا اندازہ یہاں کے کرایوں کا۔۔۔ مگر یہ پشتو کیوں بول رہے تھے؟‘‘ عاقب بولا۔

’’احمقو۔۔۔ یہ پشتو نہیں جرمن زبان بول رہے تھے، جس کا میں نے بھی ایک سال پہلے کورس کیا تھا، لہٰذا میں نے انھیں اپنا پیسے بھولنے والا مسئلہ بتایا تو یہ ہمارے ساتھ سفر کو تیار ہوگئے اور کرایہ میں ان سے دو افراد کا ہی لوں گا، نہ کہ چار یا چالیس کا!‘‘

’’مطلب مری جا کر دال ہی ملے گی زیادہ سے زیادہ!‘‘ عاقب نے ٹھنڈی آہ بھری۔

’’اس وقت تو دال بھی مرغی برابر ہے بھائی۔ اگر گل جائے تو!‘‘ ٹیپو نے تسلی دی۔

*۔۔۔*

’’ان غیر ملکیوں سے کہیں کہ اپنا سامان تو اپنی گود میں رکھیں، دیکھ نہیں رہے ہم کتنی مشکل میں بیٹھے ہیں!‘‘ عفت روتی صورت بنا کر بولی۔

’’ہمارے مہمان ہیں، ملک میں بھی اور گاڑی میں بھی لہٰذا تھوڑا برداشت اور ایثار کرلو۔‘‘ بھیا سخاوت سے بولے۔

’’کیا یہ لوگ یہاں سیاحت کے لیے آئے ہیں؟‘‘ فوزی آپی نے پوچھا۔

’’نہیں نہیں یہ لوگ تو جرمنی سے یہاں صرف ہمیں انٹرویو دینے آئے ہیں۔ خیر لے لیتا ہوں۔‘‘ بھیا نے کہا اور ان سے جرمن میں بات کرنے لگے جو کہ ہمیں تو واقعی پشتو سے ملتی جلتی لگی۔

’’کچھ ہمیں بھی تو بتائیں کیا باتیں ہورہی ہیں؟‘‘ طوبیٰ بے چینی سے بولی۔

’’یہ ڈاکٹر کارل ہیں جو محقق ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر ریسرچ کررہے ہیں، جبکہ دوسرا بندہ کوہ پیما ہے چوٹیاں سر کرنے کا شوقین!‘‘ بھیا نے بتایا۔

’’کون جیتا ہے تیری چوٹی کے سر ہونے تک۔‘‘ عاقب گنگنایا۔

’’بھیا۔۔۔ آپ باتوں سے زیادہ راستوں پر توجہ دیں، بارش تیز ہوتی جارہی ہے اور دھند بھی بڑھ رہی ہے!‘‘ سنی نے توجہ دلائی تو ہم نے دیکھا واقعی دُھند اتنی ہوگئی تھی کہ گاڑی سے چند قدم آگے کا منظر بھی نظر نہیں آرہا تھا۔

’’ہاے۔۔۔ کتنی اچھی بارش ہورہی ہے، کیا ہم باہر اُتر کر اس میں نہاسکتے ہیں؟‘‘ ہم جو کراچی میں عموماً بارش کو ترسے ہوتے ہیں اس منظر کی تاب نہ لاسکے۔

’’اس وقت تو صرف دعا کروکہ خیریت سے مری پہنچ جائیں!‘‘ ٹیپو جو پہلے ہی کسی دعا کے پڑھنے میں مصروف تھا جلدی سے بولا۔

’’بھئی خاموش رہیں سب، اور موسم انجواے کریں!‘‘ عادل باہر کے منظر میں کھوتے ہوئے بولا۔

*۔۔۔*

’’گرڑ۔۔۔ گرڑ۔۔۔ گھش!‘‘ گڑگڑاہٹ کی زور دار آواز آئی اور چشم زدن میں ایک تودا ہمارے سامنے بیچ سڑک پر پھسل کر آگیا!

ہم سب کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ ایسا خوف ناک واقعہ ہم نے کبھی تصور میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اکثر کی تو چیخیں نکل گئیں۔

غیر ملکیوں نے اپنی زبان میں نہ جانے کیا چٹر پٹر شروع کردی۔ عفت تو رونا ہی شروع ہوگئی۔

عاقب بولا:’’ یہ غیر ملکی ضرور منحوس ہیں، پہلے اپنی جیپ خراب کرائی پھر ہمیں اس مصیبت میں گرفتار کرادیا۔‘‘

غیر ملکی بھی چپ ہو کر عاقب کو دیکھنے لگے۔ زبان نہیں سمجھتے مگر لہجے نے مفہوم سمجھادیا تھا۔

’’یہ تو بات کا منفی رخ ہے۔ تم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ہم انھیں بٹھانے میں وقت نہیں لگاتے تو یہ تودا اس وقت ہمارے اوپر گرتا!‘‘ ٹیپو نے تجزیہ پیش کیا۔

’’اسی لیے میں کہہ رہا تھا کہ مہمان باعثِ رحمت ہوتا ہے!‘‘ بھیا نے توثیق کی۔

غیر ملکی گاڑی سے اتر کر وقوعہ کا معائنہ کرنے لگے۔

ہم لوگوں نے بھی اُترنے کے لیے پَر تولے تو بھیا نے منع کردیا۔

’’کم از کم ہماری گودوں سے تو اُترجاؤ، پاؤں سن ہورہے ہیں۔‘‘ فوزی آپی عفت سے بولیں۔

’’اچھا اُترجاؤ لیکن سب ہاتھ پکڑ کر ساتھ ساتھ رہنا۔‘‘

ہم نے اُتر کر دیکھا تو منظر بہت ہیبت ناک تھا، اچھا خاصا بڑا پہاڑی ٹکڑا سڑک پر ایسے پڑا تھا کہ سڑک بند ہوگئی تھی۔ غیر ملکی اس پر زور دار انداز میں چٹر پٹر کررہے تھے۔

’’راستے میں روڑے اٹکانا سنا تھا، یہ تودے اٹکنا تو پہلی مرتبہ دیکھا!‘‘ ماریہ رونی صورت بنا کر بولی۔

’’آگے تو جانہیں سکتے، واپس نیچے ہی جانا پڑے گا۔‘‘ طوبیٰ بولی۔

’’جس کا ہمارے پاس پیٹرول نہیں ہے!‘‘ عادل نے یاد دلایا۔

’’یہ غیر ملکی کیا باتیں کررہے ہیں؟‘‘ ہم نے بھیا سے پوچھا۔

’’یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ درختوں کی موجودگی میں اس لینڈ سلائیڈنگ کے امکانات بہت کم تھے اور یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے!‘‘

’’اتنے تجربہ کار ہیں یہ لوگ ذرا ان سے پوچھیں کہ اب ہم یہاں سے کیسے نکلیں؟‘‘ سنی بولا۔

بھیا ان سے باتوں میں لگ گئے اور ہم آپس میں۔

’’ہاے اب تو مجھے بھی بھوک لگنی شروع ہوگئی، کیا کھاؤں؟‘‘ عاقب ندیدے پن سے بولا۔

’’اپنے کھانے کے بجاے یہ سوچو کہ کوئی شیر یا چیتا آکر ہمیں ہی چٹ نہ کر جائے۔‘‘ عادل بولا۔

’’شیر!‘‘ عفت نے ایک چیخ ماری اور واپس وین میں کود گئی۔ ہم سب بھی گھبرا کر وین میں جیسے تیسے ٹھس گئے۔ غیر ملکی ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔

’’کہاں ہے شیر؟‘‘ تھوڑا حواس قابو میں آئے تو فوزی آپی نے پوچھا۔

’’یہ۔۔۔ یہ عادل بھائی کہہ رہے تھے کہ شیر آکر ہمیں کھاسکتا ہے!‘‘ وہ بھولپن سے بولی تو ہم سب ہی نے لاحول پڑھا اور واپس باہر آگئے۔

*۔۔۔*

’’ان دونوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ گاڑی تودے کے اوپر چڑھا کر دوسری جانب اُتار لی جائے!‘‘ بھیا نے غیر ملکیوں کی طرف اشارہ کیا۔

’’یہ تو بہت خطرناک ہے!‘‘ ٹیپو فوراً بولا۔

’’میں نے بھی اُنھیں یہی کہا تو یہ بولے کہ تم ابھی بچے ہو، ہماری ساری عمر اسی طرح کی پہاڑیوں میں گزری ہے!‘‘ بھیا بولے۔

’’میرا خیال ہے ہمارے پاس ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے!‘‘ سنی نے مجبوری بتائی۔

’’میں تودے کے اوپر سے گاڑی لے جانے کی شدید مخالفت کرتا ہوں!‘‘ عادل یکسو ہو کر بولا۔

’’اور میں بھی۔‘‘ عاقب نے حمایت کی۔

’’اور میں بھی۔۔۔ اور میں بھی!‘‘ ہر کسی نے عاقب کی پیش قدمی کی۔

بھیا نے غیر ملکیوں کو سب کا نکتہ نظر بتایا، پھر ان کی بات سن کر بولے۔

’’یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر تم لوگوں کو خدشات ہیں تو وین ہم چلا کر لے جاتے ہیں، تم لوگ پیدل یہ تودا پار کرلو!‘‘

’’اس چکر میں یہ لوگ کہیں ہماری وین نہ پار کرجائیں۔‘‘ ماریہ نے ایک اور خدشہ ظاہر کیا۔

’’یہ وین ہے کوئی پین نہیں کہ کوئی پار کرکے جیب میں ڈال لے!‘‘

’’جو خطرہ ہم اپنے لیے مول نہیں لے سکتے، وہ ان کے لیے بھی نہیں لے سکتے، لہٰذا ان کو منع کردیجیے!‘‘ فوزی آپی ہمدردی اور خلوص سے بھرپور لہجے میں بولیں۔ بھیا نے اُنھیں کہہ دیا، مگر وہ نہ مانے اور دونوں وین میں سوار ہوگئے۔

طوبیٰ چلائی: ’’ارے وہ دیکھو، شاید ان کی جیپ آرہی ہے۔‘‘

سب نے پیچھے کی طرف دیکھا تو واقعی وہی جیپ تھی جو کچھ دیر پہلے راستے میں خراب کھڑی تھی۔ غیر ملکیوں نے بھی دیکھ لیا اور اُتر گئے۔

’’آتا ہے داغِ حسرتِ ’’بل‘‘ کا شمار یاد اب۔ کرایے کی اُمید تو گئی!‘‘ عاقب حسرت سے بولا۔

’’ہماری جان پر بنی ہے۔ تمھیں کرایے کی پڑی ہے!‘‘ عادل نے اسے شاعری ہی میں ڈانٹا۔

غیر ملکیوں نے بھیا کا اپنی زبان میں شکریہ ادا کیا، شاید کچھ پیسے بھی دینا چاہ رہے تھے، مگر بھیا نے لینے سے انکار کردیا۔

’’ان سے کہیں کہ پہلے جیپ تودا پار کرلے، پھر یہ پیدل جائیں!‘‘ ٹیپو نے صدا لگائی۔

بھیا نے یقیناًیہی کہا ہوگا تو غیر ملکی بہت ہنسے لیکن آخر کار بھیا نے ان کا ہاتھ پکڑا تو مان گئے۔

جیپ تودا کراس کرنے آگے بڑھی، ہم سب ہی کو خدشہ تھا کہ تودا مزید نیچے پھسل سکتا ہے لہٰذا ہم دَم سادھے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ دوسری طرف غیر ملکیوں کی برسوں کی چشم بینی تھی، وہ بڑے بے فکری کے انداز میں وین سے ٹیک لگائے اس کے گزرنے کا انتظار کررہے تھے۔

جیپ تودے پر چڑھی، تو وہ نہ پھسلا، لیکن اس کے اوپر کی کیچڑ مٹی بہتے پانی کے ساتھ ایسی پھسلی کہ جیپ بھی سنبھل نہ پائی اور دیکھتے ہی دیکھتے کھائی میں جاگری۔ دھند اتنی تھی کہ نظر بھی نہ آئی کہ کہاں گری۔

اب تو غیر ملکیوں کو جیسے کرنٹ لگ گیا۔ وہ آگے پیچھے یوں بھاگنے لگے گویا کسی نہ کسی طرح جیپ کو بچا ہی لیں گے، مگر اب پچھتائے کیا ہوت! ہم سب کو بھی سانپ سونگھ گیا۔

*۔۔۔*

آخر سنی بولا:’’میرا خیال ہے جتنا بھی جاسکیں ہمیں واپس ہی جانا چاہیے!‘‘

سب کو خاموش دیکھ کر بھیا نے یہی بات غیر ملکیوں کو بتائی۔ پھر ان کی بات سن کر بولے۔

’’ان کا خیال ہے کہ ہمیں یہاں سے پیدل مری مارچ کرنا چاہیے، جو کہ اب نزدیک ہی ہے اور ہم وہاں آدھے پونے گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔‘‘

’’ان سے کہو اتنا شوق ہے مرنے کا تو خود ہی جائیں، ہمیں تو معاف ہی رکھیں۔‘‘ طوبیٰ ہاتھ جوڑ کر بولی۔

’’نہیں نہیں، ان کی بات میں وزن ہے۔ تھوڑا مشکل ہی سہی مگر منزل تک تو پہنچیں گے!‘‘ عادل نے کہا۔

’’میں اتفاق کرتا ہوں۔‘‘ ٹیپو نے اس کا ساتھ دیا۔

’’منزل ایک گہری کھائی میں بھی بدل سکتی ہے!‘‘ فوزی آپی بولیں۔

ذرا ہی دیر میں بحث، مباحثہ چھڑ گیا اور دو گروپ بن گئے۔ صرف عفت بے چاری تھی جس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور وہ خوف زدہ انداز میں کبھی اِدھر کی کبھی اُدھر کی سن رہی تھی۔

’’خاموش!‘‘ بھیا چِلّاے۔

’’ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ذرا ہی دیر میں اندھیرا ہوجائے گا تو ہمیں یہاں صرف بھوت نظر آئیں گے۔ لہٰذا اسلامی طریقے کے مطابق ایک امیر منتخب کرو اور جو وہ کہے وہی کرو، اسی میں اللہ کی مدد ہوگی!‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔۔ ان غیر ملکیوں کو بھی بتادیں۔‘‘

بھیا نے اُنھیں بتایا تو وہ پہلے تو طنزاً مسکرائے جیسے اس بات کا مذاق اُڑا رہے ہوں۔ پھر کچھ کہہ کر عفت کی طرف اشارہ کردیا۔

بھیا نے بتایا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’تم لوگوں کا یہی مسئلہ ہے کہ ہر معاملے میں عقل استعمال کرنے کے بجاے ہر جگہ مذہب کو بیچ میں لے آتے ہو۔ اب امیر منتخب کرنے میں ایک جھگڑا شروع ہوجائے گا کیوں کہ ہر کسی کی تو پہلے ہی ایک راے موجود ہے، نیوٹرل تو صرف عفت ہے!‘‘

’’تو ٹھیک ہے عفت ہی فیصلہ کرے گی۔‘‘ ہم نے بے ساختہ کہا۔

’’یوں تو عورت کو امیر منتخب کرنا بھی پسندیدہ نہیں لیکن یہاں جھگڑا نمٹانے کے لیے میں بھی اس کا فیصلہ تسلیم کروں گا۔‘‘ ٹیپو نے ہمارا ساتھ دیا۔

بڑی عجیب بات تھی کہ سب سے چھوٹی، کم عقل اور باولی سی بچی کا آخر کار ہم سب ہی نے فیصلہ مان لیا اور سوچنے لگے کہ وہ پیدل مری جانے کا انتخاب کرتی ہے یا واپس پنڈی کی طرف!‘‘

*۔۔۔*

مگر اس نے تو ایک اور ہی عجیب بات کردی۔

بولی: ’’صبح ہم لوگوں نے اسمبلی میں واقعہ سنا تھا کہ تین لوگ غار میں پھنس گئے اور پھر اُنھوں نے اپنی اپنی نیکی بتا کر دعا کی تو چٹان سرکتی گئی۔ بس اب ہم سب بھی اپنی اپنی نیکیاں یاد کرکے دعا کریں، یہ تودا اللہ تعالیٰ ہٹا ہی دیں گے۔‘‘

ہم نے آنکھیں ملتے ہوئے عفت کو دیکھا۔ یقین نہ آیا کہ یہ سب اسی نے کہا ہے مگر اس کی بات ماننا بھی ضروری تھی لہٰذا لگے اپنی اپنی نیکیاں یاد کرنے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے یادداشت کو کافی بار آواز دینی پڑی۔

بھیا نے غیر ملکیوں کو بھی بتادیا۔ اُمید تھی کہ وہ سر پکڑ کر روئیں گے کہ یہ کیا غیر سائنسی حرکت کررہے ہیں مگر وہ تو چونکے پھر آپس میں ایک دوسرے سے کوئی بات کی پھر بھیا سے کچھ کہا اور باقاعدہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعا مانگنے لگے۔

ابھی ہم بھیا سے ان کی باتوں کا مطلب پوچھنے بھی نہ پائے تھے کہ تودے کے دوسری طرف سے گڑگڑاہٹ کی آواز آئی۔ ہم نے روشنی سی دیکھی، زنجیریں کھینچنے کی آوازیں سنیں اور پھر ہمیں مٹی کا تودا سڑک سے سرک کر نیچے کھائی میں جاتا دکھائی دیا۔

وہ ایک برف صاف کرنے والا ٹریکٹر تھا جس نے یہ کام سرانجام دیا تھا لیکن محض بظاہر۔۔۔ دراصل یہ ہماری دعاؤں کے نتیجے میں اللہ نے کیا تھا!

خوشی تھی، تشکرکے ناجانے کون کون سے نا قابل بیان جذبات تھے کہ ہم میں سے اکثر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سب کو چپ بھی لگ گئی۔ نہ کوئی سوال تھا نہ جواب۔

*۔۔۔*

باقی سفر ہم نے خاموشی سے طے کیا۔ مری پہنچ کر غیر ملکیوں نے بھیا کو ایک خط دیا اور اُترگئے۔

’’اس میں کیا لکھا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

’’انھوں نے کہا ہے آگے جا کر کھولنا!‘‘

’’کتنا آگے جاکے؟‘‘ ماریہ بے چینی سے بولی۔

’’ایک ہوٹل والا میرا جاننے والا ہے، امید ہے بغیر پیسوں کے ایک رات ٹھہرالے گا۔‘‘ بھیا بولے۔

ہوٹل کے باہر گاڑی رُکی اور ہم سب اُترگئے۔

’’پہلے وہ خط پڑھ لیں، ہمیں بے چینی ہورہی ہے!‘‘ سنی نے کہا۔

بھیا نے خط کھولا اور پھر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

’’کہیں اس میں سانپ بچھو کی شکل تو نہیں بنی ہوئی؟‘‘ طوبیٰ گھبر اکر بولی۔

بھیا نے خط کا رخ ہماری طرف کیا تو ہم بھی دنگ رہ گئے، وہ خط ان غیر ملکیوں نے اردو میں تحریر کیا تھا، بھیا نے پڑھنا شروع کیا۔

’’سب سے پہلے معذرت، اس جھوٹ پر کہ ہمیں اردو نہیں آتی، ناصرف بولنی بلکہ لکھنی تک آتی ہے۔ ہم تم لوگوں کی اپنے متعلق باتیں سنتے رہے اور اس بات کی خوشی ہے کہ مجموعی طور پر تم لوگ دوسروں کے خیر خواہ ہو۔ ہمارے ساتھ تم نے ناصرف اچھا گمان کیا بلکہ ہمارے غیر زبان ہونے کا غلط فائدہ بھی نہیں اُٹھایا۔ سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب بچی نے چٹان ہٹنے والا واقعہ بتایا۔ یہ تو ہماری کتابوں میں بھی آتا ہے، مگر ہم نے اسے کبھی استعمال کرنے کا نہیں سوچا۔

ہم سمجھتے تھے کہ یہ صرف اسی پرانے دور کی چیزیں ہیں مگر یہ تم لوگوں کا دین اسلام ہی ہے جو ہر جگہ زندہ ہورہا ہے۔ کہاں تو ہم اپنے دین کی تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے اور کہاں آج ہم خود تم بچوں سے اتنا متاثر ہیں کہ ہمارے دل اسلام کے لیے کھل چکے ہیں اور ہم بہت جلد اسے اپنانے کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔

ہمیں اندازہ تھا کہ تم ہم سے اضافی پیسے نہیں لوگے لہٰذا تحفہ کے طور پر کچھ رقم ہم نے سیٹ کے کور کے اندر رکھ دی ہے۔ اسے قبول کرنا اور ہمارے لیے دعا کرنا۔‘‘

ڈاکٹر کارل

اتنی خوشی ہمیں زندہ سلامت مری پہنچنے کی بھی نہیں تھی جتنی اس خط کو سُن کر ہوئی۔

*۔۔۔*

 

اس تحریر کے مشکل الفاظ

تودا: ڈھیر ؍ برساتی: بارش سے بچنے کا کوٹ

لدپھند کر: سامان کے ساتھ

سنومین: برفانی پتلا ؍ منجھلا: درمیان، اکیلا

تاب نہ لانا: برداشت نہ کرنا ؍ وقوعہ: حادثہ

پَر تولنا: آمادہ ہونا، تیار ہون

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top