skip to Main Content

مریم اور ماہین

سائرہ شاہد
۔۔۔۔۔

مریم اور ماہین اپنی امی کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کی عمر بالترتیب بارہ اور دس سال تھی۔ مریم بہت کم گو اور ماہین کی نسبت کم صورت تھی جس کا فائدہ ماہین ہمیشہ اٹھاتی تھی۔
”مریم باجی! پنسل دیں ذرا۔“ماہین نے کتاب پر جُھکے ہوئے کہا تو مریم نے اپنے بستے سے پنسل نکال کر ماہین کو دے دی۔ اُس نے پنسل دیکھی تو اپنی ہنسی کو بمشکل ضبط کیا۔ ”پتا نہیں باجی نے اپنے جیسی کالی کلوٹی پنسل کہاں سے خرید لی۔“
ماہین بڑبڑائی تو مریم نے اُداس ہو کر سر جھُکا لیا۔

۔۔۔۔۔

”امی! یہ دیکھیں استانی جی نے مجھے یہ ڈائری انعام میں دی۔“ماہین نے رات کے کھانے کے بعد اسکول کا کام کرتے ہوئے ڈائری دکھائی۔ ڈائری کے سفید چمک دار سرورق پر سنہری قلم بنا تھا جو بے حد دل کش لگ رہا تھا۔
”واہ ماشاء اللہ! میری شہزادی کی ڈائری بہت پیاری ہے۔“امی نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا تو ماہین نے ڈائری جھپٹ لی۔
”یہ مجھے دے دیں باجی! آپ کے ہاتھوں میں اِس بے چاری کی خوب صورتی ختم ہو گئی۔ دیکھیں میرے ہاتھوں میں بہت اچھی لگ رہی ہے۔“ماہین نے یہ کہتے ہی اپنے بستے سے قلم نکالا۔
”بہت بری بات ہے ماہین! چلو بہن کو اس کی ڈائری واپس کرو اور اپنے رویے کی معافی بھی مانگو۔“امی نے ماہین کو ڈپٹ کر حکم دیا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اُس نے جلدی سے ڈائری کھولی اور اُس پر اپنا نام لکھ لیا۔
”بس اب یہ میری ہے اور میں کسی کو نہیں دوں گی۔“ماہین یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر چلی گئی اور مریم نے بے بسی سے امی کی طرف دیکھا تو اُن کی بھی آنکھیں بھر آئیں۔

۔۔۔۔۔

”خالہ جانی! آپ کب آئیں؟“
مریم اور ماہین اسکول سے واپس آئیں تو گھر میں رابعہ خالہ کو دیکھ کر خوشی سے چلاتے ہوئے ان سے لپٹ گئیں۔ رابعہ خالہ ان کی سب سے چھوٹی خالہ تھیں جو مریم اور ماہین کو بہت پسند تھیں۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ ہمیشہ اُن کے پاس ڈھیروں کہانیاں ہوتیں اور وہ ان کو اپنے مخصوص انداز سے سنایا کرتی تھیں۔
”واہ ماہین! تمہاری ڈائری بہت پیاری ہے۔“خالہ نے ماہین کے ہاتھ میں ڈائری دیکھی تو خوش ہو کر تعریف کی۔
”یہ میری استانی جی نے مجھے انعام میں دی۔“مریم نے ڈائری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو خالہ نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔
”اچھاااا۔۔۔“یہ کہتے ہوئے انھوں نے ڈائری کھولی جہاں ماہین کا نام لکھا تھا اور پھر مریم کی طرف دیکھا جو ڈائری کی جانب حسرت سے دیکھ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔

”کیسے خالہ جانی؟ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بات پر کفار نے بھی یقین کر لیا۔“ماہین نے سوال کیا کیوں کہ اُن کی کہانیوں کی محفل شروع ہو چکی تھی۔
”ہمارے پیارے آقا ﷺ کبھی غلط بات نہیں کہتے تھے اور ہمیشہ سچ بولتے تھے اسی لیے ان کے جانی دشمن بھی انھیں صادق اور امین کہتے تھے۔“خالہ جانی نے جواب دیا۔
”ہمارے پیارے نبی ﷺ قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں، یہ بات ہماری استانی جی نے بھی بتائی تھی۔“ مریم نے باتوں میں حصہ لیتے ہوئے کہا توخالہ مسکرانے لگیں۔
”آپ کو زیادہ پتا ہے باجی؟ چپ کر کے بیٹھیں اور کہانی سننے دیں۔“ماہین نے بگڑے تیور لیے ہوئے کہا اور اس کی بات پر مریم کی آنکھیں بھر آئیں۔
”اچھا تم دونوں میری ایک بات کا جواب دو۔“ انھوں نے ماہین کو سمجھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا اور پوچھا:
”کیا تم ہمارے پیارے خاتم النبیین ﷺ سے محبت کرتی ہو؟“
”بہت بہت بہت محبت کرتی ہوں خالہ جانی! آپ کو پتا ہے کہ میں اسکول کی مشہور نعت خواں ہوں اور سب کو میری نعت بہت پسند ہے۔“ماہین نے جوش سے کہا جب کہ مریم خاموش رہی کیوں کہ وہ دوبارہ بول کر ماہین کو موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔
”ماشاء اللہ! ہم جس سے محبت کرتے ہیں،اس کی ہر بات اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا تم بھی پیارے نبی ﷺ کے بتائے گئے طریقوں پر عمل کرتی ہو؟“خالہ جانی نے اگلا سوال کیا تو ماہین سوچ میں پڑ گئی۔
”کیا ہوا؟ ایسا کچھ ملا؟“خالہ نے پوچھا تو ماہین نے نفی میں سر ہلایا۔
”تم کر سکتی ہو اگر تم پیارے آقا ﷺ کی صرف ایک خوبی کو پورا ہفتہ اپناؤ تو آہستہ آہستہ بہت ساری ایسی باتیں جمع ہو جائیں گی جو اللہ کے حبیب اور ہمارے آقا ﷺ کی پیروی میں شمار ہوں گی۔ مریم! تم بھی اسی طرح ایک خوبی اپنانا۔“خالہ نے انھیں ایک منفرد طریقہ بتایا تو مریم نے اثبات میں سر ہلایا۔
”باجی نہیں کر سکے گی خالہ جانی! ان سے کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے ان کو رہنے دیں۔“ماہین نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا تو خالہ نے بظاہر اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔
”صحیح بخاری کی حدیث نمبر 10 میں ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“ یہ اس ہفتے کا کام ہے یعنی سب سے پہلے اپنی زبان کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ آپ کی کسی بات سے کوئی پریشان نہ ہو۔“
یہ سن کر ماہین نے سر جُھکا لیا۔ اُسے سمجھ آ رہی تھی کہ سب سے پہلے اس حدیث پر کیوں عمل کرنا ہے۔
”میں اپنی پوری کوشش کروں گی خالہ جانی! اور باجی آپ مجھے معاف کر دیں۔“ماہین نے یہ کہتے ہوئے مریم کے ہاتھ پکڑ لیے تو وہ خوشی سے مسکرانے لگی۔
”یہ لیں آپ کی ڈائری کیوں کہ آپ کی لکھائی بہت اچھی ہے تو یہ آپ کے لیے ہی ٹھیک رہے گی۔“ماہین نے بستے سے ڈائری نکالی اور مریم کو دیتے ہوئے کہا تو امی کمرے میں داخل ہوئیں اور دونوں کے لیے دودھ کا گلاس رکھا۔
”میں یہ نہیں لے سکتی۔“مریم نے بلند آواز اور عجیب سے لہجے میں کہا تو ماہین کے ساتھ ساتھ امی اور خالہ بھی حیران ہو گئیں۔ ”کیوں کہ ماہین نے اس پر ایسے لکھا ہے جیسے کیڑے ڈال دیے ہوں اور مجھے کیڑوں سے ڈر لگتا ہے۔“اُس نے معصومیت سے اگلی بات کی تو وہ تینوں کھلکھلا کر ہنس دیں اور مریم خلاف معمول بات کرنے کے بعد جھینپ سی گئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top