skip to Main Content

مریخ کی پری

اشتیا ق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کے پسندیدہ مصنف کی ایک خوب صورت تحریر

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہلکے سے کھٹکے سے سمکی کی آنکھ کھل گئی .. دستک پائیں باغ والی کھڑی پر ہوئی تھی… ابھی وہ حیرت اور خوف کے عالم میں تھی کہ دستک دوبارہ ہوئی…. کسی نے بہت ہی آہستہ آواز میں کہا: ”پیا ری بچی! دروازہ کھولو… میں بہت دو ر سے تم سے ملنے آئی ہوں… تم نے پریوں کی کہانیاں تو سنی ہوں گی… تم مجھے بھی ایک پری محسوس کروگی… میں دور بہت دو ر آسمان سے آئی ہوں۔“
پیاربھرے ان الفاظ نے اسے اور زیادہ حیرت زدہ کر دیا… اسے خوف بھی محسوس ہو رہا تھا… اور یہ بھی کہ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی… پھرو ہ مشینی انداز میں کھڑکی تک آئی… اس کے پٹ کھول دیے۔ کوٹھی کے چار وں طرف دیوار تھی۔ گیٹ پر پہرے دار موجود تھے… یعنی کسی چور ڈاکو کا تو خطرہ تھا نہیں… اورپھر یہ توآوا ز بھی بالکل بچی کی تھی… بہت باریک سی آواز… اس لیے پٹ کھولتے وقت اس نے زیادہ ڈر محسوس نہیں کیا۔
رات کی تاریکی میں باغ میں بھی اندھیرا تھا… چاند اگرچہ نکلا ہوا تھا لیکن درختوں اور پودوں کی وجہ سے باغ میں صاف طورپر دیکھنا ممکن نہیں تھا… اس نے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا… لیکن کچھ نظر نہ آیا … اب تو وہ بے تاب ہو گئی … اس نے آہستہ آواز منھ سے نکالی: ”تم کہاں ہو؟“
”میں… میں یہ رہی۔“
آواز آئی… آواز کی سمت میں اس کی نظریں خود بخود اٹھ گئیں… اب اس نے دیکھا … ایک پودے کی مانند وہ ننھی سی لڑکی کھڑی تھی… اندھیرے میں وہ اسے پوری طرح نظر نہیں آئی تھی…
”تم باغ میں آجاﺅ… میں کمرے میں آنے سے ڈرتی ہوں ۔“
”کیوں ؟“ اس نے حیران ہو کر کہا۔
”کہیں تم مجھے کمرے میں بند نہ کر دو۔“
”ارے نہیں… کیا تم کوئی پر ی ہو۔“
”میں پری تو نہیں ہوں … لیکن پریوں جیسی ہوں … تم میری شکل صورت دیکھ نہیں رہیں ۔“ اس کے ہونٹ ہلے ۔
اب اس نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا… اس کا چہرہ واقعی بالکل پریوں جیسا تھا… اس کا دل اس کی طرف کھنچنے لگا … اس کا خوف یک دم دور ہوگیا … اس نے کھڑکی پھلانگی اور باغ میں آگئی … اب وہ اس کے بالکل سامنے کھڑی تھی …
” تم سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔“
”لل… لیکن تم کون ہو … کہاں سے آئی ہو۔“
”میں… میں مریخ سے آئی ہوں … میرے خلائی جہاز میں خرابی ہو گئی تھی … وہ تباہ ہو گیا … اور میں یہاں آگری۔“
”لیکن کیسے… تمہیں چوٹ کیوں نہیں آئی۔“
”میں نے پیرا شوٹ باندھ رکھا تھا۔“
”تو وہ پیرا شوٹ کہاں گیا؟“
”وہ یہیں کہیں پڑاہے… اندھیرے میں نظر نہیں آرہا۔“
” لیکن … میں نے تو کسی رسالے میں پڑھا تھا … مریخ زمین سے بہت زیادہ دور ہے۔“
”اس میں تو خیر شک نہیں … لیکن میں کون سا پیدل آئی ہوں … میں نے بتایا تو ہے خلائی جہاز کے ذریعے آئی ہوں ۔“
” اوہ ہاں ! لیکن تم نے مریخ سے زمین کا سفر کیوں کیا۔“
”ہم لوگ نئی دنیا کی تلاش میں ہیں … مریخ پر جگہ کم پڑ رہی ہے …مخلوق بڑھ رہی ہے … لہٰذا ہم نئے سیارے تلاش کرنے کی فکر میں ہیں۔“
” اوہ … اچھا۔“ا س کے منھ سے نکلا پھر اس نے پریشان ہو کر کہا۔
”لیکن اب … اب کیا ہو گا … تم واپس کیسے جاﺅ گی… کیا ا ب تم ہماری زمین پر رہو گی ۔“
”نہیں ! میرے ساتھی آئیں گے… خلائی جہاز میں… وہ مجھے لے جائیں گے … لیکن مجھے ڈر ہے… یہاں کے لوگ مجھے دیکھتے ہی مار ڈالیں گے .. اچھی بہن… کیا تم مجھے چند دن کے لیے چھپا سکتی ہو… بس تم کسی سے میرا ذکر نہ کرنا … اور میں تم سے کچھ نہیں چاہتی۔“
”ارے… اوہ۔“ مارے حیرت کے سمکی کے منھ سے نکلا۔
”ارے اوہ کیا!“
”تم تو مریخ کی ہو … تواردوکیسے بول رہی ہو۔“
”میں اپنی زبان میں ہی باتیں کر رہی ہوں… میرے کانوں میں ایسا آلہ فٹ ہے … مریخ کی زبان کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کر دیتاہے … یعنی جس زبان میں مجھ سے بات کی جائے گی … وہ آلہ اسی زبان میں ترجمہ کردے گا۔“
”اوہ اچھا … ایک بات اور اگر میں تمہیں چھپادوں تو تمہیں کھانے کو کیا دوں گی … کیا تم ہماری زمین کے کھانے کھاﺅگی ۔“
”اس کی تم فکر نہ کرو … میں کھالوں گی ۔“
”تب تو ٹھیک ہے… تم میرے کمرے میں رہ سکتی ہو۔ اس طرف کوئی نہیں آئے گا … صفائی والی عورت آتی ہے… اسے میں خود روک دوں گی… کہ وہ چند دن تک میرے کمرے کی صفائی نہ کرے۔“
”وہ تم سے پوچھے گی … تم صفائی کیوں نہیں کرانا چاہتی پھر؟“
”میں اس سے کہہ دوں گی … چند دن تک اپنے کمرے کی صفائی میں خود کروںگی…تاکہ مجھے بھی یہ کام آجائے ۔“
” اوہ… بالکل ٹھیک… تم بہت ذہین ہو … جب میں یہاں سے رخصت ہوں گی … تو تمہیں بہت سے تحفے تحائف دے کر جاﺅں گی۔“
”لیکن کہاں سے دو گی… تمہارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔“
”میرے خلائی جہا ز میں بہت سی چیزیں تھیں… لیکن وہ تباہ ہوگیا… اب جو خلائی جہاز لینے کے لیے آئے گا… اس میں بہت چیزیں ہوں گی۔“
”خیر کوئی بات نہیں… میں تو بس تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔“
”تم… تم بہت اچھی ہو۔“
” آجاﺅ … میرے کمرے میں … تم آج سے میری مہمان ہو۔“
”واہ!یہ ہوئی نا بات…مریخ میں تمہارا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا… ہمیشہ یہ ذکر کیا جائے گا کہ ایک زمینی لڑکی نے مریخ کی ا یک لڑکی کی مدد کی تھی۔“
”شکریہ… میںنے تمہارا نام تو پوچھا ہی نہیں …میں تو خیر سمکی ہوں۔“
”اچھی سمکی… میں شوبی ہوں۔“
کمرے کے اندر آجانے کے بعد سمکی نے کھڑی بند کر دی۔ اب روشنی میں اس نے شوبی کو غور سے دیکھا … اس کا حلیہ واقعی زمینی لوگوں سے بالکل مختلف تھا… اس کی آنکھیں بالکل نیلی اور بہت چھوٹی چھوٹی … گول گول تھیں… آنکھوں کے پپوٹے سرخ رنگ کے تھے اور پلکیں بہت ہی لمبی لمبی تھیں … اس قدر لمبی پلکیں اس نے پہلی بار دیکھی تھیں، اس کے چہرے کا رنگ بالکل سفید تھا … قد درمیانی تھا… بس وہ سمکی کے جتنی ہی تھی…
”کیا میں تمہیں چھو سکتی ہوں۔“
”ہاں! کیوں نہیں۔“
اب اس نے شوبی کی کلائی پر ہاتھ رکھا تو وہ بالکل سرد تھی… سمکی نے چونک کر کہا۔
”یہ کیا… تم تو بالکل ٹھنڈی ہو رہی ہو۔“
”مریخ سورج سے بہت نزدیک ہے نا… میرا مطلب ہے، دوسرے سیاروں کی نسبت … اس لیے میں جب سے اپنے سیارے سے آئی ہوں…جسم سرد رہتا ہے۔“
”اوہ…تب تو تمہیں یہاں سردی بھی بہت لگے گی… حالانکہ آج کل ہمارے ہاں زیادہ سردی نہیں ہے۔“
”بالکل یہی بات ہے… پیاری لڑکی ۔“
”اچھا دیکھو … میرے کمرے کے ساتھ والا کمرہ سٹور کے طورپر استعمال ہوتا ہے … میں تمہیں اس سٹور میں چھپائے دیتی ہوں… ویسے اس سٹور میں کوئی نہیں آتا۔ یہ میرے لیے ہی ہے … یعنی میں اپنی فالتو چیز یں اس میں رکھتی ہوں۔“
”ٹھیک ہے…“
”اور اب رہی بات کھانے کی …میں نہیں جانتی کہ مریخ میں کس قسم کے کھانے ہوتے ہیں … یا تم کیاکھانا پسند کرتی ہو۔“
”میں ہر چیز کھالوں گی… تم پریشان نہ ہو۔“
”نہیں! میں پریشان نہیں ہوں… گھر والے میری پسند کا بہت خیال رکھتے ہیں…“
”اچھی بات ہے۔“
”اور رات کے وقت میں تمہیں سٹور سے کمرے میں لے آیا کروں گی… ہم دونوں ساتھ سویا کریں گے ۔“
”تت … تم بہت ہی… اچھی ہو ۔“
”آﺅ ! اب سوجائیں ۔“
دونوں ایک ہی بستر پرلیٹ گئیں اور جلدی ہی نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔
٭….٭
سمکی بہت پریشان تھی… آج صبح جب وہ جاگی تو اس نے شوبی کو اپنے بستر پر نہ پایا… اس نے اسے فوراً سٹور میں دیکھا … وہ وہاں بھی نہیں تھی … غسل خانہ بھی خالی تھا…غرض شوبی کہیں بھی نہیں تھی… نہ جانے کیوں اسے شدید پریشانی نے آلیا … پھر اسی روز سمکی کے گھر میں گویا ہل چل مچ گئی … گھر میں پولیس نظر آئی … وہ نہ جانے کیا کارروائی کرتی رہی… آخر اس سے رہا نہ گیا … اپنے والد کے پاس چلی آئی…
”آﺅ سمکی بیٹا ۔“
”ابّو یہ پولیس کیوں نظر آرہی ہے گھر میں۔“
”بیٹے گھر سے بہت ہی قیمتی دستا ویزات غائب ہیں… انتہائی اہم فائلوں کی سی ڈیز وغیرہ غائب ہیں…ہمارے گھر میں با قاعدہ چوری کی گئی ہے… زبردست پلاننگ کے تحت… کسی کو کانوں کان پتا تک نہیں چلا کہ چور کس راستے سے آئے اور کس راستے سے گئے ۔“
”اوہ۔“ و ہ دھک سے رہ گئی… شدید الجھن محسوس کرنے لگی … اس کے ابو ایک بڑے سرکاری آفسر تھے،اس کا ذہن شوبی کی طرف گیا… لیکن پھر اس نے سر کو جھٹک دیا … وہ تو مریخ کی لڑکی ہے… اسے ہماری زمین کی دستاویزات کی کیا ضرورت … وہ خاموش رہی …کسی سے کوئی ذکر نہ کیا… آخر اسی روز شام کے وقت اس کے ابّو نے اسے بلایا … اب پولیس آفیسر غور سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے… وہ گھبراگئی …
”کک … کیا بات ہے … انکل۔“
”آپ کے کمرے میں کون آیا تھا بیٹا ؟“ پولیس آفیسر نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”مم … میرے کمرے میں ؟“ وہ حیران رہ گئی ۔
” ہاں … بیٹا ! آپ کے کمرے میں کون آیا تھا… بلکہ کوئی آ پ کے ساتھ رہتا رہا ہے… وہی فائلوں کا چور ہے… کہیں وہ دور نہ نکل جائے۔“
”لل… لیکن… انکل… وہ…تو … وہ تو۔“ سمکی اٹک گئی۔
”ہاں! ہاں! کہو… وہ تو کیا… “مارے بے چینی کے اس کے منھ سے نکلا۔
” وہ تو مریخ کی لڑکی تھی۔“
”مریخ کی لڑکی۔“ ان سب کے منھ سے حیر ت کے مارے نکلا۔
پھر پولیس آفیسر نے پیاربھرے انداز میں اس کے گال تھپتھپائے… اور پیار کرتے ہوئے بولے ۔
”ہاں! بیٹی … سب کچھ تفصیل سے بتا دو ۔“
اور اس کی زبان فر فر چلنے لگی … حالات معلوم ہوتے ہی پولیس نے دوڑلگا دی…پورے شہرمیں مریخ کی اس لڑکی کو تلاش کیا گیا … لیکن وہ تو اس طرح غائب تھی جیسے گدھے کے سرسے سینگ …
سمکی آج بھی اسے بہت یاد کرتی ہے … اسے یاد کرتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ وہ یہ بات ماننے پر کسی طرح بھی تیار نہیں کہ وہ ہمارے دشمن ملک کی جاسوس تھی… مریخ کی مخلوق نہیں تھی…
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top