skip to Main Content

مریخ کا حملہ

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کہانی جس ناول سے لی گئی ہے۔ اس کا نام (War of the Worlds) ہے ۔ یہ ناول مشہور ادیب ایچ جی ویلز نے لکھا تھا اور آج اسے لکھے ہوئے سوسال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ ایک خیالی کہانی ہے جس میں ویلز نے بتایاہے کہ سیارہ مرےخ میں رہنے والی مخلوق نے ہماری زمین پر حملہ کردیاہے اور ہر طرف تباہی مچادی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دن ہوئے اخبارات میں عجیب و غریب خبریں چھپی تھیں۔ ان خبروں میں بتایا گیاتھا کہ مریخ سے آگ کاایک گولا نکلا ہے اور بڑی تیزی سے زمین کی طرف آرہاہے ۔ میں نے بھی اس خبر کو مذاق سمجھاتھا لیکن چند روز بعد یہ خبریں سچ نکلیں اور صرف انگلستان نہیں بلکہ پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہوگیا اوردنیا ایک بڑی تباہی کی زد میں آگئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا انسانوں کی پوری نسل ختم ہوجائے گی۔
میری ایک سائنس دان سے دوستی تھی جس کانام اوگلوی تھا۔ میں رات کو اس کے گھر اسے ملنے گیا تو اس نے دور بین سے مجھے مریخ کی طرف دیکھنے کو کہا۔ دور نیلے آسمان میں مریخ ایک چھوٹے گول سیارے کے روپ میں تیررہا تھا اوروہاں سے ایک آگ کاگولا زمین کی طرف آرہا تھا۔ اس کاخیال تھا کہ یہ کوئی شہابیہ ہے جو ٹوٹ کر آرہا ہے پھر ایک رات لوگوں نے ایک تارہ ٹوٹ کرزمین کی طرف گرتا دیکھا۔ گویا آگ کی ایک لمبی سی لکیر لہرا گئی ہے۔ میں نے اور اوگلوی نے بھی روشنی کی یہ لکیر دیکھی۔
اوگلوی صبح سویرے ہی اس ٹوٹے ہوئے تارے کاپتا چلانے نکل پڑا۔ شہابیے کے گرنے سے زمین میں ایک بہت بڑا گڑھا پڑگیا تھا۔ اوگلوی نے غو ر سے گڑھے میں دیکھا۔ وہ شہابیہ نہیں بلکہ دھات کی کوئی بہت بڑی چیز تھی اور اس کی شکل راکٹ سے ملی جلتی تھی۔ گڑھے کے اندر سخت تپش تھی پھر بھی اوگلوی جی کڑا کرکے گڑھے میں اُتر گیا۔ تھوڑی دیر میں راکٹ کادروازہ کھلنے لگا۔ راکٹ میں کوئی زندہ چیز ہل رہی تھی اور اس طرح باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی جیسے سخت تکلیف میں ہو۔ اوگلوی کے ذہن میں اخباروں کی سب سرخیاں آگئیں۔ وہ ڈر گیا۔ پھر وہ اُلٹے پاﺅں بستی کی طرف بھاگا۔ وہ بستی میں داخل ہوتے ہی اخبار کے نامہ نگار اینڈرسن کوملا۔ اوگلوی کادم پھولا ہوا تھا۔ اس نے اینڈ رسن کو ساری تفصیل بتائی تو وہ اوگلوی کے سا تھ گڑھے میں گرے راکٹ کو دیکھنے چل پڑا۔ وہ دونوں تیزی سے گڑھے کے قریب پہنچے تو راکٹ ویسے ہی پڑا تھا جیسے اوگلوی چھوڑ کر گیا تھا۔ راکٹ کادروازہ اب بھی کھل رہا تھا۔ وہ دونوں اس کے قریب جانے کے بجاے گاﺅں واپس آئے۔ اینڈرسن لندن خبر بھیجنے چلا گیا اور اوگلوی نے قصبے کے لوگوں کو ڈنڈوں او رکلہاڑیوں سے لیس کرکے ساتھ لیا اور گڑھے کے قریب پہنچا۔ لوگوں میں راکٹ کے نزدیک پہلے جانے کی کوشش میں دھکم پیل ہونے لگی۔ میں بھی ان لوگوں میں تھا۔ میں نے اوگلوی کو دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ راکٹ کا ڈھکنا اندر کی طرف سے کھولا جارہا تھا۔ پھر ڈھکنا کھل گیا اندر کوئی چیز ہلتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ اچانک بھورے رنگ کی ایک سانپ نما چیز راکٹ سے نکلی اور بل کھاتی ہوئی میری طرف بڑھی۔ میں ابھی اسے ہی دیکھ رہا تھا کہ اس جیسے کئی سانپ باہر نکلنے لگے۔ پھر ایک بہت بڑی بھورے رنگ کی بلا باہر نکلی اس کی آنکھیں بہت خوفناک تھیں اور ان کے نیچے اور اس کے پیٹ کے دونوں طرف بھی ویسے سانپ لہرارہے تھے۔ وہ بلا راکٹ سے باہر آگئی اور دھم سے گڑھے میں گری۔ اس کے گرنے کے بعد ویسی ہی ایک اور بلا باہر نکلنے لگی۔
میں یہ ڈراﺅنا منظر دیکھ کر سر پر پاﺅں رکھ کر بھاگا۔ لوگ بھی میرے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ میں درختوں کے ایک جھنڈ کے پیچھے کھڑا ہوکر گڑھے کا نظارہ دیکھنے لگا۔ گڑھے میں سے سیاہ رنگ کی پتلی سی دو چیزیں اوپر اٹھ رہی تھیں جیسے دو چابک ہوں۔ وہ اس بلا کے بازو تھے۔ پھر گڑھے سے ایک پتلی سلاخ اٹھتی نظر آئی۔ اس کے اوپر کا حصہ تھالی کی طرح گول تھا۔ سلاخ کے نیچے ایک جوڑ تھا۔ اس کے نیچے ایک موٹی سلاخ تھی اور نیچے پھر جوڑ تھا۔ مجھے لگا کہ یہ دھات کا ڈھانچا کچھ کرے گا مگر خاصی دیر کچھ نہ ہوا۔ میں جھنڈ سے باہر نکل آیا۔ کچھ لوگ ہاتھوں میں سفید رومال لیے مریخ کی مخلوق کی طرف بڑھ رہے تھے جیسے صلح کا پیغام دے رہے ہوں۔ لوگ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے کہ گڑھے سے آگ کا ایک خوفناک شعلہ نکلا جس سے میری آنکھیں چند ھیاگئیں۔ میں نے لوگوں کی طرف نظر دوڑائی۔ سارا علاقہ اور لوگ اس شعلے کی روشنی کی زد میں تھے۔ کچھ جل کر بھسم ہوگئے تھے۔ کچھ جان بچا کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے او رگڑھے کی آگ ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ حدت سے زمین چٹخ رہی تھی اور اس میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ میں بت بنا کھڑا رہا اور پھر بھاگ نکلا۔تھوڑی دور جاکر میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو چالیس پچاس بندے مرے پڑے تھے۔ ان میں نامہ نگار اینڈ رسن بھی تھا اور اوگلوی بھی۔ میں بھاگتے ہوئے تھک گیا تو لڑکھڑاتے قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔ پل کے اوپر سے ریل گاڑی گزر رہی تھی۔ ابھی گاﺅں کے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ کیا قیامت ٹوٹ چکی ہے۔ میں نے لوگوں کو اطلاع دینا اپنا فرض سمجھا لیکن میں نے جسے بھی اس واقعے کے متعلق بتایا وہ میری طرف ایسے دیکھنے لگا جیسے میں کوئی پاگل ہوں۔ گھر پر میری بیوی کو بھی مجھ پر یقین نہ آیا لیکن آخر کار وہ میری بات مان گئی۔ میرا خیال تھا کہ مریخ کے باشندے گڑھے سے باہر نہیں آسکتے کیونکہ زمین کی سطح کی کشش ثقل مریخ کی سطح سے تین گناہ زیادہ ہے۔ اس لیے وہ فوراً اپنا بوجھ نہیں اٹھاسکیں گے۔
میری اس دلیل سے میری بیوی تھوڑی مطمئن ہوئی لیکن ادھر میں یہ باتیں کر رہا تھا۔ ادھر مریخ والے کشش ثقل کا مسئلہ مشینوں کے ذریعے حل کرکے آئے تھے اور گڑھے سے باہر نکل رہے تھے۔ لندن میں یہ خبر پہنچ گئی اور وہاں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ لندن والے صلح کا پیغام مریخ والوں سے سن چکے تھے۔ اب وہ ان کے مقابلے میں فوج بھیجنا چاہتے تھے کچھ ہی دیر میں جو ملا۔ اسی میں سے فوج کے دودستے گڑھے کے چاروں طرف گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے۔ فوجی ابھی ان تیاریوں میں مشغول تھے کہ مریخ سے د وسرا راکٹ زمین پر آگرا۔ علاقہ ایک دفع پھر روشنی میں نہا گیا اور فضامیں سبز روشنی کی ایک موٹی سے لکیر لہرا گئی۔ میں نے رات جوں توں کرکے گزاری اور صبح دودھ دینے والے سے رات کا حال پوچھا۔ وہ چاہتا تھا کہ فوج والے مریخ کے باشندوں کو زندہ گرفتار کریں۔ میرا بھی یہی خیال تھا، ان سے ان کی سائنس کی ترقی کا راز پوچھا جائے۔
میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ناشتا کیا اور پھر باہر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ میں قصبے کی سڑکوں سے گزرتا ہوا کچھ ہی دور گیا تھا کہ چند فوجی نظر آئے۔ جنہوں نے بتایا کہ مریخ والے آگ کا جو شعلہ چھوڑتے ہیں۔ اس سے اردگرد کی تمام چیزوں کو آگ لگ جاتی ہے اور تمام جاندار جل کر مرجاتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مریخ والوں پر قابو کیسے پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ رینگتے ہوئے گڑھے کے قریب پہنچیں گے اور یکدم ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ میں نے انہیں گڑھے کی تپش کا یاد دلایا کہ وہ گڑھے کے نزدیک تو جاہی نہیں سکتے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ فوجیوں نے ابھی یہ طے ہی نہیں کیا کہ اس آفت کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ میں گڑھے کے نزدیک جانا چاہتا تھا مگرمجھے روک دیا گیا۔
شام کو ہم دونوں میاں بیوی چاے پی رہے تھے کہ پہلے گولیوں کی تڑتڑ کی آواز آئی اور پھر ایک خوفناک دھماکا ہوا۔ ایسے لگا جیسے قریب ہی بم پھٹا ہو۔ پوری زمین ہل کر رہ گئی تھی۔ ہم چاے چھوڑ کر باہر دوڑے۔ وہاں جو منظر تھا اس نے ہمارے اوسان خطا کردیے۔ درختوں کی شاخیں شعلوں کی لپیٹ میں تھیں۔ بستی کا مینار ٹوٹ کر گر رہاتھا۔ اسی وقت عین ہمارے سر پر دھماکا ہوا اور ہمارے مکان کی چمنی ٹوٹ کر دھڑام سے زمین پرآرہی۔ ایسے لگا جیسے اس پر توپ سے گولہ چلایا گیا ہو۔ اپنی بیوی کے پوچھنے پرمیں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا: ”میراخیال ہے کہ مریخ والوں سے جنگ شروع ہوگئی ہے۔ آﺅیہاں سے بھاگ چلیں۔ ہم لیدر ہیڈ اپنے چچیرے بھائی کے ہاں جانے کاپروگرام بناہی رہے تھے کہ فوجیوں نے گھرگھر منادی شروع کردی کہ تمام لوگ یہ علاقہ چھوڑ کرچلے جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے قصبے میں بھگڈر مچ گئی۔ چاروں طرف شور مچا ہوا تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میں اپنی بیوی کاہاتھ تھامے دوڑتا ہوا اپنے ایک دوست کے گھر پہنچا اور اس سے اس کی گھوڑا گاڑی مانگی۔ وہ مان گیالیکن اس نے وعدہ لیا کہ میں جلدی واپس آنے کی کوشش کروں۔ بستی سے باہر نکل کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو تمام بستی آگ کی لپیٹ میں تھی۔ مکان جل جل کر دھڑ دھڑ گر رہے تھے۔ مریخ والے ہرچیز کو آگ لگارہے تھے۔ میں نے یہ درد ناک نظارہ دیکھ کرمنھ پھیر لیا۔ لیدر ہیڈ میں ہمارے رشتہ دار ہمیں دیکھ کرحیران رہ گئے اورہماری باتیں سن کر سخت پریشان ہوئے، انہیں امید تھی کہ مریخ کی بلائیں یہاں نہیں پہنچ پائیں گی۔
میں بیوی کوچھوڑ کر واپس جانے کے لیے مڑا۔ رات ہوچکی تھی۔ میں نے وعدے کے مطابق گھوڑا گاڑی اپنے دوست کوپہنچانی تھی۔ راستے میں میری بائیں طرف کچھ فاصلے پر مریخ سے تیسرا راکٹ زمین پر گرا۔ لیکن میں گھوڑے کوسرپٹ دوڑاتا ہواقصبے کی طرف جانے والی سڑک پرگامزن رہا۔ سردی کی انتہا تھی۔ میں خود کسی جگہ چھپنے کی سوچ رہاتھا کہ اچانک ایک ڈھلان پر میری نظر پڑی۔ میں نے غور سے اسے دیکھا تومیری چیخ نکل گئی۔ وہ دھات کا ڈھانچا تھا جس کی تین ٹانگیں تھیں اور ان کے درمیان دو سونڈیں لہرارہی تھیں۔ وہ بڑی تیزی سے چل رہاتھا اور اس کے راستے میں آنے والے درخت ٹوٹ ٹوٹ کر گررہے تھے۔ ابھی میں اس کے متعلق سوچ رہاتھاکہ میرے سامنے والے درخت بھی اکھڑنے لگے اورویسے ہی ایک اور خوفناک بلانمودار ہوئی جومیری طرف گھوڑا گاڑی دیکھ کر بڑھ رہی تھی۔ اب میں بچ نہیں سکتاتھا۔ میں نے زور سے گھوڑے کی لگا م کھینچی تو جھٹکے سے گھوڑا گاڑی الٹ گئی۔ میں لڑکھڑاتا ہوا سڑک کے نیچے ایک تالاب میں جاگرا۔ جب میں ہوش میں آیا تومیں پانی میں اوندھے منھ پڑا تھا۔
کچھ فاصلہ پر وہ بلا کھڑی نظر آئی۔ میں دم سادھے پڑا رہا پھر گھاس کی آڑ میں آگے بڑھنے لگا۔ اتنی دیر میں وہ دیو جیسی مشین لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی میرے بائیں جانب پہاڑیوں پر چڑھنے لگی۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا ورنہ میرا بچنا مشکل تھا۔ آدھے میل کے فاصلے پر دو مشینی بلائیں ایک گڑھے کے اوپر جھکی ہوئی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں مریخ کا تیسرا راکٹ گرا تھا۔ گھوڑاگاڑی پر سفر کرنا اب خطرناک تھا۔ میں لمبی لمبی گھاس او رجھاڑیوں سے گزرتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ میں کسی نہ کسی طرح آخر اپنی بستی میں پہنچ ہی گیا۔ وہاں زندگی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ درختوں کے پتے تک جل کر راکھ ہوچکے تھے۔ میں سخت بھوکا تھا۔ میں نے اپنے گھر پہنچ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائی۔ اب واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ کھڑکی سے باہر جلے ہوئے درختوں کے قریب ویسی ہی ایک مشینی بلا نظر آرہی تھی جو مجھے لیدر ہیڈ کے راستے میں ملی تھی۔ اب مجھے سمجھ آگئی تھی کہ یہ بلا مریخ والوں کی جنگی مشین ہے اور انسان کی بنائی ہوئی مشین اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اچانک کھڑکی کے نیچے مجھے ایک فوجی نظر آیا جس کی وردی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے اندر بلا لیا۔ فوجی حملہ کرنے والے دستوں میں شامل تھا۔ جن کا صفایا مریخ والوں نے کردیا۔
وہ بتارہا تھا کہ تو پیں ہونے کے باوجود انہیں مریخ والوں نے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ وہ حملہ کے دوران بے ہوش ہوگیا تھا جب اسے ہوش آیا تو اس کے چاروں طرف سپاہیوں کی جلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں۔ میں نے اسے کھانا کھلایا تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے بتایا کہ اب مریخ والوں کا رخ لندن کی طرف ہے۔ مریخ والوں کی مشینیں لندن کی طرف بھاگی چلی جارہی ہیں۔ لندن میں میرا چھوٹا بھائی رہتا تھا اس کا خیال آتے ہی میرا رواں رواں کانپ اٹھا۔ بعد میں میرے بھائی نے مجھے بتایا کہ لندن پر کیا گزری تھی۔ میں البتہ اب اپنی بستی میں محفوظ تھا۔ لندن میں لوگ بے فکری سے اپنے کام کر رہے تھے۔ ادھر لندن سے کچھ فاصلے پر مریخ والے تباہی مچارہے تھے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان پر کیا آفت آنے والی ہے۔ میرا بھائی لندن میں رات بارہ بجے اپنے گھر سویا ہوا تھا کہ لندن میں خبر اڑگئی کہ مریخ والے آرہے ہیں۔ سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ بھائی نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو لوگ سڑکوں پر پاگلوں کی طرح بھاگے جارہے تھے۔ خطر ے کو بھانپتے ہی میرا بھائی ان لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہوگیا۔ اس بھگدڑ میں بچے ماﺅں سے بچھڑ گئے۔ کئی آدمی ہجوم کے پاﺅں تلے آکر کچلے گئے۔ جن کے پاس گھوڑا گاڑیاں تھیں، وہ دوسرے شہروں او رقصبوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ میرے بھائی کو اچانک خیال آیا کہ فرانس بھاگ جاﺅں۔ انگلستان اور فرانس کے درمیان سمندر ہے۔ اس لیے مریخ کی بلائیں وہاں نہیں پہنچ سکیں گی۔ خوش قسمتی سے ساحل سمندر پر اتنا ہجوم نہیں ہوا تھا۔ میرے بھائی کو بھاپ سے چلنے والے ایک جہاز میں جگہ مل گئی۔ جہاز فرانس جارہا تھا۔ جہاز پر سوار ہوکر اس نے سکھ کا سانس لیا لیکن جب جہاز روانہ ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ دھات کا ایک دیو جیسا ڈھانچا ساحل پر کھڑا ہے۔ یہ مریخ والوں کی جنگی مشین تھی جو لندن میں تباہی مچاتی ہوئی ساحل کی طرف آنکلی تھی۔ ان بلاﺅں کے آنے سے لندن پر جو بیتی وہ بیان سے باہر ہے۔ ہزاروں آدمی ان مشینوں سے نکلنے والی آگ کی لپیٹ میں آکر زندہ جل گئے۔ سینکڑوں عمارتوں کے پر خچے اڑگئے اور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ جدھر دیکھو ملبے کے ڈھیر اور لاشیں نظر آتی تھیں۔ ساحل پر کھڑی جنگی مشین تھوڑی دیر تک سمندر میں چلتے ہوئے جہاز کو دیکھتی رہی پھر پانی میں کود پڑی۔ اب وہ بڑی تیزی سے جہاز کی طرف بڑھ رہی تھی۔
مسافروں کو اپنی موت نظر آرہی تھی۔ جہاز کے کپتان نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ وہ جہاز کو پوری رفتا ر پرچھوڑ دیں لیکن جہاز سے مشین کی رفتار کہیں تیز تھی۔ وہ سمند ر میں لمبے لمبے ڈگ بھرتی تیزی سے جہاز کی طرف آرہی تھی لیکن اتنی دیر میں ان دونوں کے درمیان ایک جنگی تارپیڈو جہاز آگیا جس نے آتے ہی مشین پر ایک تار پیڈو فائر کیا لیکن اسی وقت جنگی مشین میں سے آگ کاشعلہ نکلا۔ اس نے تار پیڈو جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایک زبردست دھماکے سے تار پیڈ جہاز بھک سے اڑ گیا اوراس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سمندر میں پھیل گئے۔ البتہ تار پیڈو سے مشینی بلا کو کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ وہ اطمینان سے آگے بڑھی اور اپنی سونڈ سے جہاز کے ٹکڑے اٹھالیے تاکہ اندر بیٹھے مریخ کے باشندے ان کامعائنہ کرسکیں۔ اس لڑائی سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے میرے بھائی کاجہاز دور سمندر میں نکل گیا۔ اس کا جہاز فرانس کے ساحل سے لگا تو مریخ والوں کا چوتھا راکٹ زمین پرگرا جس کی روشنی میں نے اپنے گھر میں بیٹھ کر دیکھی۔ میرافوجی ساتھی مجھ سے بچھڑ چکا تھا۔ وہ وہاں جاناچاہتا تھا جہاں اس کی لڑائی ہوئی تھی کہ اگر کوئی زخمی ہوتو وہ اس کی مدد کرسکے۔
اب میں ویران بستی میں تنہا تھا،مجھے اپنی بیوی یادآئی اورمیں پیدل ہی لیدر ہیڈ کی طرف چل پڑا۔ راستے میں میں نے اجڑی بستیاں دیکھیں۔ جگہ جگہ انسانوں کی لاشیں پڑی تھیں اوربدبوسے دماغ پھٹا جارہا تھا۔ راستے میں مجھے ایک ادھیڑ عمر کابابا ملا جس سے مل کرمجھے بے حد خوشی ہوئی۔ وہ بہت دہشت زدہ تھا اوربتارہاتھا کہ مریخ کی مخلوق زمین کے ہرحصے تک پہنچ گئی ہے۔ وہ بھوکا تھا۔ ہم اس بستی کے ایک مکان میں گئے۔ وہاں ہمیں کھانا مل گیا۔ جسے ہم کھارہے تھے کہ ایک دم سبز روشنی سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں پھر ایک خوفناک دھماکے سے ہم بے ہوش ہوگئے۔ ہوش آنے پر بھی ہم وہیں دبکے پڑے رہے۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی توہم نے دیکھا کہ باورچی خانے کی دیواریں پھٹ گئی تھیں۔ میں نے دیوار کے شگاف سے باہردیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے باہر ایک راکٹ پڑاتھا۔ یہ مریخ کی طرف سے چوتھا راکٹ تھا جس کا ڈھکنا کھل چکاتھا اور مریخ کاایک خوفناک باشند ہ ڈھکنے کے اوپر بیٹھا ہوا پہرہ دے رہا تھا۔ یہ راکٹ اسی مکان کے اوپر گراتھا جہاں ہم چھپے ہوئے تھے اور اب ہم اس کے ملبے کے نیچے دفن ہوچکے تھے۔ میرے ساتھ بابا گڑگڑا کردعائیں مانگ رہا تھا۔ خدا خدا کرکے دن گزرا اوراندھیرا ہوا۔ مرےخ کا باشندہ اپنا ہتھیار سونڈ میں دبائے اب بھی راکٹ کے قریب موجود تھا۔ نودن تک ہم یونہی باورچی خانے میں دبکے پڑے رہے اور چھپ چھپ کرکھاتے پیتے رہے۔ نویں رات کو میں نے ایک خوفناک چیخ سنی۔ اس کے ساتھ ہی کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ میں نے ایک خوفنا ک منظر دیکھا۔ میراساتھی کچھ فاصلے پر مرا پڑا تھا۔ مریخ کی مشین کی سونڈ ادھر ادھر ٹٹولتی ہوئی لہرا رہی تھی۔ میں جان بچانے کے لیے باہر بھاگا اورقریب ہی کوئلوں کی ایک کوٹھری میں چھپ گیا۔ مگر اس خوفناک بلا نے ٹٹول کے اپنی سونڈ سے دروازہ کھول لیا۔ میں کوئلوں کے اوپر چڑھ کربیٹھ گیا۔ کچھ دیر سونڈ مجھے ڈھونڈتی رہی اورآخر ایک کوئلے کا ایک بڑا ٹکڑا لپیٹ میں لے کر باہر نکل گئی۔
سارادن پھربھی میں دم سادھے کوئلوں پر پڑا رہا۔ آخر ہمت کرکے میں باورچی خانے میں گیا اوروہاں سے پانی پیا۔ پھرہمت کرکے میںدیوار کے شگاف کے پاس گیا اوروہاں سے باہر جھانکا تومجھے اپنی آنکھوں پریقین نہیں آیا۔ راکٹ اورمریخ کے خوفناک باشندے غائب اوران کادور دور تک پتا نہ تھا۔ میں شگاف سے باہر نکلا تودھوپ بہت تیزتھی لیکن مجھے خوشی نہیں تھی۔ باہردنیا اجڑ چکی تھی۔ میں سڑک پر ہولیا۔ راستے میں مجھے ایک ندی ملی۔ میں اس کے کنارے لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد قریبی جھاڑیوں سے کوئی چیز ہلتی دکھائی دی۔ پھر ایک انسان نمودار ہوا جس کے کپڑے تار تار ہوچکے تھے۔ یہ وہی فوجی تھا جو میرے مکان میں کچھ دیر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ مریخ کے باشندے لندن سے آگے چلے گئے ہیں۔ دو دن سے اس نے انہیں نہیں دیکھا۔ وہ بتارہا تھا کہ ان سے لڑائی ایسے ہی ہے جیسے چیونٹیاں انسانوں سے مقابلے کی ٹھان لیں۔ میں فوجی کے ساتھ لندن جانے والی سڑک پر ہولیا۔ لندن پہنچنے تک میں نے ہر طرف تباہی کے مناظر دیکھے۔ شہر کے ایک حصے سے عجیب سی چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ جیسے کوئی درد سے بلبلا رہا ہو۔ میں ان چیخوں کی طرف چل پڑا لیکن پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔ تھوڑی دیر بعد کچھ فاصلے پر دھات کی وہ خوفناک بلا زمین پر گری ہوئی نظر آگئی جو ہر چیز کو بھسم کر دیتی تھی۔ میں ایک دیوار کی آڑ سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کافی دیر وہ اسی طرح بے حرکت پڑی رہی۔ اس کے اوپر کوے اور چیلیں منڈلا رہی تھیں۔
جب میں اس کے نزدیک پہنچا تو میں نے ناقابل فراموش منظر دیکھا۔ دھات کے اس دیو جیسے ڈھانچے کے اندر اور اردگرد مریخ کے کئی باشندے مرے ہوئے تھے۔ میں نے ڈنڈا لگا کر انہیں الٹ پلٹ کر دیکھا وہ کچھوے جیسے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے مرے؟ جب مجھے ان کی موت کی وجہ معلوم ہوئی تو میں خدا کی قدرت پر حیران رہ گیا۔ اصل میں ان بلاﺅں کو ان ننھے ننھے جراثیموں نے ہلاک کیا تھا۔ جنہیں دیکھنے کے لیے خوردبین کی ضرورت پڑتی ہے۔
مریخ والوں نے سائنس میں اتنی ترقی کر لی تھی کہ انسان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ مگر انہوں نے کوئی ایسا طریقہ ایجاد نہیں کیا تھا جس سے وہ جراثیم سے محفوظ رہ سکیں اور بیمار نہ ہوں۔ مریخ کی سطح پر جراثیم نہیں ہوتے۔ اس لیے انہوںنے زمین پر آنے کے لیے اس بات کی احتیاط نہیں کی۔ جو نہی وہ زمین پر پہنچے جراثیموںنے ان کے جسم میں داخل ہوکر اپنا کام شروع کر دیا اور وہ بیمار ہوکر تڑپ تڑپ کر ہلاک ہونے لگے۔ وہ دردناک چیخیں جو میں نے سنی تھیں۔ مریخ کے باشندوں کی ہی تھیں۔ مریخ والوں کے مرنے کی خبر جلد ہی چہار سو پھیل گئی۔ لوگوں نے گھروں کو واپس آنا شروع کردیا۔ میں ایک پل کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ میرے کپڑے تار تار اور سر کے بال بڑھے ہوئے تھے۔ پل پر لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ وہ مجھے فقیر سمجھ رہے تھے۔ کئی گھنٹے بعد میری دعا قبول ہوئی او رمیری بیوی کی جانی پہچانی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ دوسرے دن مجھے میرا بھائی بھی مل گیا۔ مریخ والوں اور انسانوں کی جنگ ختم ہوچکی تھی۔ انسان یہ جنگ جیت چکا تھا۔ اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top