skip to Main Content
مریخ زمین پر۔۔۔

مریخ زمین پر۔۔۔

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسے قلم کاروں کو لکھنے کی دعوت دوں گا جن کی تحریریں زمین پر کوئی نہیں چھاپتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قارئین! آج کاہماراانٹرویو اس حوالے سے منفرد ہے کہ آج کے ہمارے مہمان بھی منفرد ہیں۔یہ جومحترم شخصیت آپ کے سامنے تشریف فرما ہیں،یہ دراصل مشہور سیارہ مریخ ہیں جو بڑی دور سے چنگ چی رکشے پر سفر کرکے انسانی روپ میں زمین پر تشریف لائے ہیں۔ہم انہیں پہلے زمین پر اور پھر اپنے انٹرویو میں خوش آمدید کہتے ہیں۔مریخ صاحب السلام علیکم… . آپ کا بہت شکریہ کہ آپ ہمیں انٹرویو دینے تشریف لائے….کیسے ہیں آپ؟ اور کیسا لگ رہا ہے آپ کو یہاں آکر؟

 
مریخ: وعلیکم السلام آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میری عزت افزائی فرمائی،آپ کے سوال سے پہلے میں اچھا بھلا تھا اورمجھے یہاں آکربالکل بھی برا نہیں لگ رہا۔ایک بات کی میں تصحیح کر دوں کہ میں چنگ چی رکشے میں نہیں آیا،چنگ چی اتنا لمبا سفر کہاں کرتا ہے،میں سی.این.جی بس میں برا ستہ زہرہ،مشتری ،جھنگ،چینوٹ،فیصل آباد آیا ہوں۔

 
میزبان: شکریہ،اس سے پہلے کہ میں اگلا سوال کروں،میرا خیال ہے آپ اُس کرسی سے اٹھ کر اِس کرسی پر آجائیں تو زیادہ بہتر ہوگا،تکلیف کی معذرت۔

 
مریخ: (مسکرا کر کرسی بدلتے ہوئے)کیوں اس کرسی پر بیٹھنے والا پھانسی چڑھ جاتا ہے؟

 
میزبان: (ہنستے ہوئے)شکریہ …..نہیں پھانسی والی بات ہوتی تو میں آپ کو اٹھنے کی زحمت نہ دیتا،اصل میں آپ کے بیٹھنے کے بعد اس کرسی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا تھا،کمزور حالت میں ہے ناں……کہاں یہ کرسی اور کہاں مریخ…..خیر! ہمارے قارئین کو زمین پر آمد کے بارے میں بتائیے ….کیسے تشریف آوری ہوئی؟

 
مریخ: زمین پر آنے کی دو وجوہات ہیں۔ایک تومجھے زمین دیکھنے کا شوق تھاکیوں کہ میں نے کائنات کے کئی عناصر سے یہ سنا تھا کہ اگرکبھی کہیں سیر کو جانا ہوتو زمین کو جانا چاہئے،کیونکہ زمین خود بھی ایک عجوبہ ہے اور وہاں کی مخلوق بھی ایک نمونہ ہے اور دوسری چیز یہ کہ میں یہاں کی مخلوق یعنی انسانوں کو دعوت دینے آیا ہوں کہ ہمارے ہاں کاروبار کے بہت مواقع ہیں، آپ لوگ وہاں آئیے ،دیکھئے کہ کون سا کام اچھا رہے گا،اپنا پیسہ لگائیے اوررزق حلال کمائیے۔

 
میزبان: نمونہ کہہ کر آپ نے پتا نہیں ہماری کون سی تعریف کی ہے۔خیر!..یہ بتائیے کہ آپ کے ہاں ہم کون سا کاروبار کر سکتے ہیں؟

 
مریخ: دیکھئے!یہ تو آپ لوگوں نے آکر دیکھنا ہے ناں…میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ گرمی کا موسم ہے تو آپ لوگ وہاں فالودے کا ٹھیلا یا املی اور آلو بخارے کے شربت کی ریڑھی لگالیں…بھئی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ شکر قندی ٹھیک رہے گی تو وہ بیچئے….مکئی اور چنے بھوننے والا بھی وہاں کوئی نہیں ہے….اور بھی بہت سے کام ہیں مگر پھر کہہ رہا ہوں کہ یہ دیکھنا آپ انسانوں کو ہے ،میں توخوش آمدید کہوں گا،میری طرف سے دعوت عام ہے…

 
میزبان: یعنی مریخ پر شربت کی ریڑھیاں……واہ واہ…..اور رزق حلال….کیا بات ہے…..یہ بتائیے یہاں زمین پر آپ کامیزبان کون ہے؟ آپ کس کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟

 
مریخ: دیکھئے! ٹھہرنا تو مجھے اس کے گھرتھا جو لکھ رہا ہے…..یہ ایسا شخص ہے جو ایک تحریر لکھنے کیلئے مجھے زمین پر گھسیٹ لایا ہے مگر مجھے ڈر تھا کہ کچھ دن اس کا مہمان رہا تو پتا نہیں اورکہاں کہاں خجل خوار کرائے گا،اس لئے فی الحال میں عدنان پنکچر والے کے ہاں ٹھہراہوا ہوں۔اصل میں وہ میرا تھوڑا بہت رشتے دار بھی لگتا ہے اور ویسے بھی اس کی شکل ہمارے ہاں کی مخلوق سے ملتی ہے ….ملتی تو خیر لکھنے والے کی بھی.. … ..چلئے چھوڑئیے، اگلا سوال کیجئے۔

 
میزبان: ارے مخلوق سے یاد آیا کچھ اپنے ہاں کی مخلوق کے بارے میں بتائیے، خاص کر ان کے حلئے کے بارے میں…

 
مریخ: میرے ہاں کی مخلوق کوئی بہت انوکھی نہیں ہے، یہاں انسانوں میں بھی کئی طبقوں کے حلئے ہمارے ہاں کی مخلوق سے ملتے جلتے ہیں،جیسے آپ کے ہاں کے جرائم پیشہ افراد یا آپ کے ہاں کے ’’پاپ گلوکار‘‘بلکہ ’’پاپ گلا پھاڑ‘‘ہماری مخلوق سے بہت ملتے ہیں،یا کبھی نیکی کی راہ سے ہٹانے والوں کے چہرے دیکھ لیجئے گا وہ بھی (ہنس کر اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے)مریخ کے ملنگ ہی لگتے ہیں۔

 
میزبان: مریخ صاحب !کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیے ،شرارتی تھے یا نہیں؟کبھی آپ کی پٹائی بھی ہوئی بچپن میں؟او رانسان کی آپ تک پہنچ کے بارے میں بھی فرمائیے۔

 
مریخ: دونوں سوالوں کے ایک ساتھ جواب دیتا ہوں، کیونکہ پٹائی انسان کی پہنچ کی وجہ سے ہوئی۔بچپن میں شرارتی نہیں تھا، لاپروا تھااور اسی لا پروائی کی وجہ سے انسان کی پہنچ مجھ تک ہوئی تو بڑے بھائی زحل(مشہور سیارہ)نے جوتیوں سے پٹائی کی اور کہاکہ تمہاری لاپروائی کی وجہ سے ان کے ہاتھ یہاں تک پہنچے ہیں ،اب انہیں ایک مشغلہ مل گیا ہے جس کا دل کرے گا منہ اٹھا کر چلا آئے گا۔کنڈیاں دروازے ٹھیک طرح سے بند کیوں نہیں کئے تھے ؟

 
میزبان: کھیل کود میں بھی دل چسبی رہی ہے آپ کی؟

 
مریخ: جی بالکل،کرکٹ بہت شوق سے کھیلتے تھے ہم سارے بھائی،اکثرگیند چاند پر چلی جاتی تھی تو چاند والی بڑھیا سے ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔اس بے چاری مائی کو باربار سوت کاتتے ہوئے چرخہ چھوڑ کر اٹھنا پڑتا تھا،ایک دو بار تو اس خاتون نے گیند سورج پر پھینک دی ….اللہ اللہ خیر سلا،نہ ہوگی گیند اور نہ رہے گی تکلیف۔

 
میزبان: زمین پر فی الحال جتنے دن آپ نے گزارے ہیں،ہمیں امید ہے اچھے ہی گزرے ہوں گے یقینا؟

 
مریخ: کل صبح میں نماز پڑھ کر جب واپس اپنے میزبان کے گھر آرہا تھا تو گلی کے کونے والی کچر اکنڈی پر پوری حکومت گھوم رہی تھی،پہلے سب مل کر بھونکنے لگے، میں نے دھتکارا کہ شرم نہیں آتی مریخ کی طرف بھونکتے ہو،یہ بات شاید انہیں بری لگی ،ان میں سے ایک نے مجھے کاٹ لیا،اب کہتے ہیں کہ پچاس ٹیکے لگیں گے کیونکہ کاٹنے والا وفاقی وزیر لگتا تھا۔پچاس ٹیلے لگوا کر اپنے آپ کو چھلنی کروانے سے تو اچھا تھا اگر بس چلتا تو نئی ٹویوٹا کی پنڈلی ہی لگوا لیتا……خیر!ناشتے کے بعد روڈ پر نکلا تو دیکھا کہ پولیس والے ٹھیلے والے سے وہ مانگ رہے تھے جو ابھی اس نے بھی نہیں کمائے تھے….عدنان کے ہاں گیا تواس کی بیوی کی برابروالی سے’’جنگِ پڑوسن‘‘ چھڑی ہوئی تھی……شام کو عدنان کے بیٹے کے پیچھے موٹرسائیکل پربیٹھا تو اس نے اس خوبصورتی سے بائیک چلائی کہ بیچ روڈ مجھے پھینک دیا۔ایسا لگتا تھا چلا نہیں رہا ناچ رہا ہے بیوقوف بچہ۔ کل کا دن عجیب ہی رہا۔

 
میزبان: اوہو…اللہ آپ کو شفاء عطاء فرمائے ۔کاٹنے سے یاد آیا زمین کے جانور تو دیکھے ہوں گے آپ نے ، کونسا جانور اچھا لگا آپ کو؟

 
مریخ: گدھے کا بچہ…..جانوروں میں گدھے کے بچے مجھے پسند ہیں…..’’شریف آدمی‘‘ ہوتے ہیں نا بے چارے…

 
میزبان: اور کھانے کی سوغاتوں میں ؟

 
مریخ: کھانے سارے ہی اچھے ہیں مگرمجھے میٹھا زیادہ پسند ہے …اور میٹھے میں بھی جلیبی بہت کمال کی چیز ہے……بالکل سیدھی ہوتی ہے ناں….

 
میزبان: ہیں ں ں….. سیدھی جلیبی؟….اوہ ہ ہ جی جی .. ..آپ کی طبیعت میں جتنے بل ہیں اس حساب سے تو سیدھی ہی ہے…..زمانے ہوگئے سائنس دانوں کو تحقیق کرتے مگر آپ کے بل سمجھ نہیں آئے…یہ بتائیے کہ زمین پر سب سے خوش گوار کیا چیز لگی؟

 
مریخ: اپنی شہرت۔

 
میزبان: وہ کیسے؟

 
مریخ: جب کوئی بچہ سبق یاد کرکے نہیں جاتا تو ٹیچر اس سے کہتی ہیں’’یاد کیوں نہیں کیا۔تم ہمیشہ سے ہی نکمے ہو ،کبھی نہیں ہوا کہ یاد کر کے آئے ہو….ایک تو یاد نہیں کرکے آتے اوپر سے کہتے ہیں مجھے یاد نہیں ہوتا،یاد کیوں نہیں ہوتا تم مریخ سے آئے ہو کیا؟‘‘ یا پھر کوئی خاتون گھر کے دروازے سے گلی میں جھانکتے ہوئے اپنے ملازم کو کوستی ہیں’’کم بخت کب سے دہی لینے گیا ہے،پتا نہیں مریخ پر چلا گیاہے دہی لینے‘‘….میری تو اتنی شہرت ہے کہ صدر کے فٹ پاتھ پر بیٹھا نجومی بھی مجھ سے زیادہ میرے بارے میں جانتا ہے…..ایک لڑکے کا ہاتھ دیکھ کر بتا رہا تھا کہ’’ تیراحاکم ستارہ مریخ ہے…..جا تیرا بیڑہ ہی غرق ہوگا‘‘…..دیکھئے کتنی شہرت ہے….

 
میزبان: اوہو، آپ اسکو شہرت کہتے ہیں…خیر ایسی شہرت توبہت ہے آپ کی،یہ بتائیے کہ سائنس دان کہتے ہیں کہ مریخ پر بادل ہوتے ہیں۔کیا واقعی ایسا ہے یاآپ بھی سگار پی پی کر دھواں ہی چھوڑتے رہتے ہیں؟

 
مریخ: (میز پر رکھا چائے کا کپ یہ جتلانے کے لئے الٹا کرکے رکھتے ہوئے کہ خالی اور نمائشی ہے،مہمان کو چائے نہیں ملی)بادلوں والی بات دراصل یوں ہے کہ سا ئنس دان آلات سے جیسا دیکھ پاتے ہیں وہ بتا دیتے ہیں…اصل میں ہمارے والی مخلوق کی جب شادیاں ہوتی ہیں توباریک جالی والے سفیدشامیانے لگتے ہیں جنہیں سائنس دان بادل سمجھ لیتے ہیں۔اب دیکھئے ،ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے ایک لال رنگ کا کرتا سلوایا،جس دن اسے پہنا اسی دن کسی سائنس دان نے دیکھا تو اس نے کہا کہ مریخ کا رنگ سرخ ہے ،یہی وجہ ہے کہ میں زمانوں تک ’’سرخ سیارہ‘‘ کے نام سے مشہور رہا۔حالانکہ میرا پورا نام تو’’مریخ مجروح‘‘ہے۔

 
میزبان: اچھا سنا ہے آپ کی اپنی روشنی نہیں ہے چاند کی طرح آپ بھی سورج کی روشنی سے گزارا چلاتے ہیں،اپنا لالٹین کیوں نہیں جلا لیتے؟

 
مریخ: آپ کے ہاں کاایک آدمی بازار سے ایک آنکھ بند کرکے گزر رہا تھا کسی نے پوچھا ’’بھائی ایک آنکھ بند کیوں کررکھی ہے‘‘ تو اس نے کہا کہ’’ جب ایک آنکھ سے کام چل رہا ہے تو دوسری کیوں استعمال کروں‘‘… جب سورج کی اتنی روشنی ہے کہ کام چل سکتا ہے ،اور وہ ’’اچھا آدمی ‘‘ہے منع بھی نہیں کرتا تو ضرورت کیا ہے اپنے دئیے جلانے کی؟

 
میزبان: مریخ صاحب کچھ اپنی آج کل کی مصروفیات کے بارے میں بتائیے۔

 
مریخ: آج کل میرامشغلہ لکھنا ہے،تین کتابیں آچکی ہیں۔زمین پر آنے سے دو دن پہلے ہی میری آخری کتاب ’’مریخ کی مجبوریاں‘‘ چھپ کر آئی ہے جواردو بازار میں دستیاب ہے ۔اب سوچ رہا ہوں کہ یہاں سے جا کر زمین کا سفرنامہ ’’انسان پگلے کے دیس میں‘‘ لکھوں۔اس کے علاوہ بچوں کے لئے ایک رسالہ بھی نکالنے کا ارادہ ہے،جس میں ایسے قلم کاروں کو لکھنے کی دعوت دوں گا جن کی تحریریں زمین پر کوئی نہیں چھاپتا۔

 
قارئین!اس سے پہلے کہ میزبان اگلا سوال پوچھتا، مریخ صاحب کا رنگ زرد پڑ گیا۔ا ن کی آنکھیں بند ہو گئیں۔چہرہ دائیں جانب کو مڑ گیا اور بال بھی دائیں جانب کو اڑنے لگے….

 
میزبان:(گھبرائے ہوئے لہجے میں)مریخ صاحب! …..مریخ صاحب!…کیا ہو گیا ہے آ پ کو….آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں……قارئین! انتہائی معذرت کے ساتھ ہمیں انٹر ویو یہیں روکنا پڑے گا۔لگتا ہے موسم بدل رہا ہے اور مریخ پر آندھیا ں چلنے لگیں ہیں۔پھر کسی موقع پر حاضر ہوں گے ۔اللہ حافظ

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top