skip to Main Content

مالٹوں کا اِغوا

معروف احمد چشتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم اسمبلی میں پہنچے تو قطاروں سے ’مالٹا مشن کامیاب‘ کی دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دے رہی تھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے اسکول پرنسپل صاحب بہت سخت گیر انسان تھے۔ شرارتی بچوں کو وہ ہرگز معاف نہیں کرتے تھے۔اکثر اوقات شرارتی اور ضدی بچوں کوپورے اسکول کے سامنے اسمبلی ہی میں سزا دی جاتی تھی۔ اُن سے مجھ سمیت وہ سب بچے بہت تنگ تھے جن کا شیطانی دماغ انھیں پڑھائی سے زیادہ شرارتوں پر اُکساتا رہتا تھا۔ آخر ایک دن خوش خبری آئی کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اسکولوں میں بچوں کو مارنے پیٹنے پر پابندی لگ چکی ہے۔آیندہ کوئی ٹیچر بچوں کو مار پیٹ نہیں سکتا۔ یقین مانیے اس خبر کو سننے کے لیے اس دن زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ ہم نے نیوز چینل لگانا گوارا کیا۔ خوشی کے مارے ساری رات نیند نہ آئی۔ خیالوں اور خوابوں میں نئی نئی شرارتوں کے منصوبے بناتے رہے۔ اور تصور کی آنکھ سے پرنسپل صاحب کو بے بس دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔
اگلے دن اسکول پہنچے تو سب دوستوں کو اس خبر سے باخبر کیا۔گو کہ دوست پہلے ہی سے آگاہ تھے مگر اتنی پیاری خبر بار بار سنانے میں مزا آرہا تھا۔خبر کیا تھی نری خوش خبری تھی۔اب پروگرام بننا شروع ہوئے کہ کون سی شرارت پہلے کی جائے اور کون سی بعد میں۔اسی بحث و تکرار میں حامد نے چیلنج کر دیا کہ شرارتیں کرنے کا اتنا ہی شوق ہے توملک یاور عباس کے باغ سے مالٹے توڑکر دکھاؤ۔ اس کی بات سن کر ایک مرتبہ تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔ ملک صاحب کا مالی بہت غصیلا تھا۔ ہر وقت پہرہ دیے رکھتا تھا اور شاید نیند تو اسے رات میں بھی نہیں آتی تھی۔اس کی انھیں خصوصیات کے باعث ہم اسے باغ کا پرنسپل بھی کہتے تھے۔
محمود مودا بار بار میری طرف اشارہ کر کے کہ رہا تھاکہ سب خالی باتیں بناتے ہیں۔ کسی میں مالٹے توڑ کر لانے کا دم نہیں ہے۔ مجھے غصہ آ گیا۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔بس یہی ہماری عقل کے ساتھ ہوا۔غصہ ہماری عقل کو ہڑپ کر گیا اور ہم نے کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ ایسا عظیم کام سواے ہمارے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ 
میرے دوستوں نے تالیاں بجا کر میری حوصلہ افزائی کی(بعد میں معلوم ہوا وہ دوست تو صرف مالٹے کھانے کے چکر میں ہمارا حوصلہ بڑھا رہے تھے)طے ہو گیا کہ اگلے دن آدھی چھٹی کے وقفے میں ہم تین دوست یہ کارنامہ سرانجام دیں گے۔ عاصم اور زبیر مالی کو باتوں میں مصروف رکھیں گے اور میں دوسری طرف سے باغ میں داخل ہو کر مالٹے اغوا کروں گا۔
اگلے دن مالٹا مشن طے شدہ پروگرام کے مطابق شروع ہوا۔عاصم اور زبیر مالٹے خریدنے کے بہانے مالی کے پاس پہنچے۔مالٹوں کا چیک اپ شروع ہوا۔ وہ چھوٹے بڑے مالٹے الگ الگ کرنے لگ گئے۔میں نے دور سے مالی کو مصروف پا کر موقع غنیمت جانا اور باغ کی مشرقی جانب بڑھ گیا۔ کچھ دور جا کر باغ کی کچی دیوار پھلانگی اور مالٹوں پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔پہلے تو خود دو مالٹے کھائے پھر شولڈر بیگ میں مالٹے اکٹھے کرنے شروع کر دیے۔درجن کے قریب مالٹے توڑ چکا تو مالی کی کڑک دار آواز سنائی دی جو عاصم اور زبیر کو مالٹے نہ خریدنے اور اس کا وقت برباد کرنے پر برا بھلا کہ رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ اب میرے دونوں دوست کھسکنے والے ہوں گے اس لیے مجھے بھی بھاگ جانا چاہیے۔ اور جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں کہ مجھے مالی نے پکڑ لیا ہو گا اور میری پھینٹی لگائی ہو گی۔ نہیں جی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں ٹھیک وقت میں باغ سے رفو چکر ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ 
اس دن مالٹے کھانے کا جو مزا آیا وہ تو بس مت پوچھیے۔بس کہانی پڑھیے۔مزا آپ کو آخر میں معلوم ہو جائے گا۔تو جناب ہم سب دوستوں نے خوب مزے لے لے کر مالٹے کھائے۔میں اس دن خود کو اسپائیڈر مین ہی سمجھ رہا تھا۔سب دوست واہ وا کرتے نہ تھکتے اور میں پھولا نہ سماتا۔ مالٹا مشن خوب کامیاب رہا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی ۔اسکول سے واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ ہیرو بننا کوئی مشکل کام نہیں ہے مگر یہ اعزاز کسی کسی کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے جیسے کہ میرے مقدر میں!
اگلی صبح جب ہم اسمبلی میں پہنچے تو قطاروں سے ’مالٹا مشن کامیاب‘ کی دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ہم نے سینہ تان کر دوستوں کی جانب نگاہ ڈالی جیسے کوئی بھی ہیرو اپنے مداحوں کی طرف دیکھتا ہے۔اسمبلی کے اختتام پر جب سب طلبہ کلاس روم کی طرف جا رہے تھے توا سپائیڈر مین کو ایک ٹیچر نے روک لیا اور پرنسپل صاحب کا پیغام دیا کہ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ہیرو کبھی اپنے مداحوں کو مایوس نہیں کرتا۔ یہی سوچ کر ہم فوراً پرنسپل آفس کی طرف چل پڑے۔
پرنسپل صاحب تو جیسے ہمارے ہی منتظر بیٹھے تھے۔ہمیں دیکھتے ہی فرمایا: ’’ایک بڑے سائز کا پیپر اور موٹا مارکر لے کر آؤ۔‘‘ ہم حیران تھے کہ خدا معلوم کون سی نیکی کر بیٹھے جو پرنسپل صاحب ہمیں کوئی خاص اسائنمنٹ سونپنے کا سوچ رہے ہیں۔خیر ہم بھاگے بھاگے کلاس روم میں گئے اور اعلان کیا کہ ہمیں پرنسپل صاحب نے ایک خاص اسائنمنٹ کے لیے چنا ہے اور اس کے لیے کاغذ قلم درکار ہے۔ لہٰذا جلدی سے کاغذ قلم مہیا کیا جائے۔دوستوں نے جلدی سے کاغذ قلم مہیا کر دیے۔ ہم مطلوبہ سٹیشنری لے کر پرنسپل صاحب کے سامنے حاضر ہوئے تو حکم ہوا۔ ادھر کونے میں کھڑے ہو جاؤ اور اس پر خوب بڑا بڑا کر کے لکھو ’’میں مالٹا چور ہوں‘‘پرنسپل صاحب کی زبان مبارک سے یہ فقرہ سننا تھا کہ دل خوشی سے جھوم اُٹھا اور ہم نے دل ہی دل میں کہا ’’لو جی اپنے پرنسپل صاحب بھی ہماری طرح ’ہیرو ‘نکلے مگر یہ لکھوا کیوں رہے ہیں؟‘‘ یہی سوچ کر ہم نے پرنسپل صاحب سے سوال کیا ’’ سر ، آپ کہتے ہیں تو مان لیتاہوں ورنہ آپ کیسے مالٹا چور ہو سکتے ہیں۔‘‘
بس یہ سننا تھا کہ پرنسپل صاحب کا غصہ کسی راکٹ کی طرح آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا اور وہ خود غزنوی میزائل کی رفتار سے ہماری طرف لپکے، کان سے پکڑا اور دھاڑے: ’’الو کے پٹھے! میں نہیں،تم ہو مالٹا چور۔تم!‘‘ یہ سن کر ہمارے سر پر گویا کوئی خود کش دھماکا ہوگیا۔ کان سن ہو گئے اور ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی پھیل گئی۔مگر پھرخود کو حوصلہ دیا کہ بچوں کو سزا دینے پر پابندی لگ چکی ہے اس لیے پرنسپل صاحب کچھ زیادہ نہیں کہیں گے۔پرنسپل صاحب نے ہمارے بائیں کان کو انتہائی درجے تک کھینچ کر کہا: ’’اگر آج سزا دینے پر پابندی نہ ہوتی تو تمھارا وہ حشر کرتا کہ سارا اسکول عبرت پکڑتا۔ کل ملک صاحب تم لوگوں کی شکایت درج کروا کر گئے تھے۔ ‘‘پھر حکم دیا’’ اب تمھاری سزا یہی ہے کہ پلے کارڈ پرلکھو ’ میں مالٹا چور ہوں‘ اور دفتر کے باہر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ یہ انوکھی سزا سن کر پسینے چھوٹ گئے۔بڑی لجاجت کے ساتھ پرنسپل صاحب کی طرف دیکھا مگر وہاں رحم نام کی کوئی شے دکھائی نہ دی۔ مجبوراً وہی کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ یعنی پلے کارڈ ہاتھ میں اُٹھا کر دفتر کے باہر کھڑا ہو گیا۔ دفتر کے ساتھ ہی پانی کے کولر لگے تھے جہاں سے پورا سکول پانی پیتا تھا۔ اب جو لڑکا بھی آتا وہ پانی پینا بھول جاتا اور ہمیں دیکھ کر قہقہے لگانے لگتا۔ دشمن گروپ کے لڑکوں نے خوب مذاق اُڑایا۔ شکر ہے اس وقت موبائل کیمرے اتنے عام نہ تھے ورنہ گلی گلی ہمارے اشتہار لگ جاتے۔
زندگی میں سب کچھ بھول سکتا ہوں لیکن سزا کا وہ آدھا گھنٹا ناقابلِ فراموش رہے گا۔ اس وقت جو شرمندگی ہوئی تو حکومت کو کوسنے لگے کہ سزا پر پابندی نہ ہی لگائی جاتی تو اچھا تھا۔ چپکے سے دو چار ڈنڈے لگتے اور معاملہ رفع دفع ہو جاتا کم از کم اس شرمندگی سے تو بچ جاتے۔ مگر اب جو شرمندگی اور بدنامی ہوئی تھی اس کا ازالہ ممکن نہ تھا۔اس دن دو سبق سیکھے، ایک تو یہ کہ مطلب پرست دوستوں کے بہکاوے میں نہیں آنا اور دوسرا کسی کا بُرا نہیں کرنا ورنہ سزا ہر حال میں مل کر رہتی ہے۔

*۔۔۔*

نئے الفاظ:
نرا: سراسر، واحد
غصیلا: غصے والا
پھینٹی: پٹائی
رفو چکر: فرار ہونا
مدّاح: تعریف کرنے والا، چاہنے والا
اسائمنٹ: کام
اسٹیشنری: لکھنے پڑھنے کا سامان
اُلّو کا پٹّھا: احمق، بیوقوف(تحقیر کے لیے استعمال ہوتا ہے)
عبرت: نصیحت ،سبق
اِزالہ: نقصان پورا کرنا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top