skip to Main Content

مار نہیں پیار

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی رضا کا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔ ایسا کام پوری زندگی میں نہیں کیا تھا۔آج صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو یہ قدم اُٹھانا پڑا۔علی رضا نے فتح یاب نگاہوں سے اپنے کام کو اختتام پدیز کیا۔
’’ٹرررن۔۔۔۔۔ٹرررن۔۔۔۔۔ٹرررن‘‘ پریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجی۔
’’حیدر آئندہ کے بعد کوئی کام مت دینا۔میری تو جان نکل جانے والی تھی۔‘‘ علی رضا کا نپتے ہوئے بولا
’’یار مجھے پتہ تھا تو یہ کام ضرور کر لے گا۔ اس لیے تجھے دیا تھا۔‘‘ حیدر ہنسی میں بات ٹالتے ہوئے بولا
’’حیدر سر کیا سوچیں گئے میری اس شررات سے ان کو بہت د’کھ ہوگا۔‘‘علی رضا نے شرمندہ ہوتے ہوئے بولا
’’میرے خیال سے سر تمھیں سکول سے خارج کر دیں گے۔‘‘نعمان جو ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا گفتگو میں حصہ ڈالتے ہوئے بولا
’’نعمان تم ہمیشہ سیدھے سادے لڑکوں کو ڈرتے رہتے ہو۔تمھارا کام ہی یہی ہے۔‘‘حید ر نے نعمان کو ڈانٹتے ہوئے بولا
’’میرا دل گھبرا رہا ہے۔نعمان کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘ علی رضا نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا
’’8Bکا ایک لڑکا تھاقاسم اُس نے ایسی شررات کی تھی۔ سر نے اُسے سکول سے خارج کردیا۔‘‘ نعمان نے ثبوت کے ساتھ جواب دیا
’’یار تم اس کی باتوں پر دھیان نہ دو۔ یہ بکواس کر رہا ہے ۔ تم پر کسی کا شک نہیں جائے گا۔‘‘ حیدر نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا
’’حیدر تیری اس شررات سے میں مارا جاؤں گا۔‘‘ علی رضا نے غم زدہ لہجہ میں بولا
حیدر ذہن او رمحنتی لڑکا تھا۔بس اس میں ایک خامی تھی کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ لیتا تھا۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے وہ پی ٹی میں الجھا ہواتھا۔ اس وجہ سے وہ حاضری بھی نہیں دے سکاتھا۔حیدر نے علی رضا کو مجبور کر کہ حاضری رجسٹر پر اپنی حاضری لگوالی تھی۔اب ان کو یہ ڈر تھا کہ سر کو پتہ نہ چل جائے۔
سکول سے چھٹی کے بعد حیدر اور علی رضا کے ذہن میں یہی بھوت سوار تھا کہ حاضری رجسٹر دیکھنے کے بعد سر کیا کاروائی کرتے ہیں۔ حیدر کو رہ رہ کر اپنی شررات پر افسوس ہورہاتھا۔حیدر نے اپنے معصوم سے دوست
سے ایسا کام سرانجام کروایا ہے۔اس سے علی رضا کا مستقبل تباہ ہوسکتا تھا۔’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں ۔۔۔۔۔‘‘ والا محاورا اُس پر پورا آرہا تھا۔
’’اچھا حیدر میرا گھر آگیا ہے۔‘‘ علی رضا نے حیدر کا نادم چہرا پڑھتے ہوئے بولا
’’یار میں نے۔۔۔۔۔۔‘‘ حیدر نے فقرہ اُدھورا چھوڑ دیا
’’حیدر تم اپنی شررات پر نادم ہو۔مجھے او ر کیا چاہیے۔اب سر پر ہے وہ کیا کرتے ہیں۔‘‘علی رضا نے حیدر کا جھکا ہوا سر اُوپر کرتے ہوئے کہا

*****

سر نے حاضری رجسٹر اپنے ہاتھ میں پکٹرے ہوئے کمرے جماعت میں داخل ہوئے۔تمام طالب علموں نے کھڑے ہوکر سلام کیا۔ سر کے بیٹھ جانے کے بعد تمام طالب علم اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ کمرہ جماعت میں نعمان،حیدر اور علی رضا کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ تینوں شدت سے انتظار تھا کہ سر کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔سر نے حاضری رجسٹر کھولا اور حاضری لینے لگے۔ اچانک ان کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوگئے۔
’’علی رضا کھڑے ہوجاؤ۔‘‘ سر نے بھاری آواز میں کہا
علی رضا نے جب اپنا نام سنا تو حالت پتلی، منہ رونے والا اور ہاتھوں میں پسینے آگیا۔ ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا۔
’’کیا بات ہے ۔تمھارے بھی پر نکل آئے ہیں۔تم بھی شررات کرنے لگے ہو۔‘‘ سرنے طنز کرتے ہوئے کہا
’’سر غلطی ہوگئی آئندہ نہیں کروں گا۔‘‘علی رضا ہلکلاتے ہوئے بولا
’’بھئی یہ شررات تمھاری نہیں لگتی۔اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ بھی ہے۔‘‘ سر نے حیدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
’’جی سر۔ یہ شررات میری ہے۔‘‘ حیدر اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولا
سر یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حیدر اور علی رضا محنتی اور ذہن طالب علم ہیں۔یہ شررات ان سے نادانی میں ہوئی ہے۔وہ دونوں شررات پر نادم بھی ہیں ۔
سرنے مسکراتے ہوئے کہا’’اگر حاضری لگانی تھی مجھے بتا دیتے ،میں لگا دیتا۔آپ نے تو اتوار کی حاضری بھی نہیں چھوڑی ۔اس وجہ سے تم دونوں پکڑے گئے ہو۔‘‘
’’سر ہمیں معاف کردیں۔ ہم اپنی شررات پر بہت شرمندہ ہیں۔‘‘حیدر اور علی رضایک زبان ہوکر بولے۔
’’ٹھیک ہے۔ آئندہ ایسی شررات نہیں ہونی چاہیے۔‘‘سر نے پیارے بھرے انداز میں کہا
ایک منٹ تک کمرہ جماعت میں خاموشی چھائی رہی۔نعمان نے خاموشی کے سکوت کو توڑتے ہوئے سر سے پوچھا’’ سر! مجھے لگتا تھا کہ آپ دونوں کو مار مار کر سکول سے خارج کردیں گے۔لیکن آپ نے ایسے نہیں کیا۔‘‘
’’نعمان!مار سے بچے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں۔پیار سے بچے سدھر جاتے ہیں۔اس لیے تو سکول کے باہر لگا ہوتا ہے ۔’’مار نہیں پیار‘‘ ‘‘ سر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top