skip to Main Content

لوہے کا زیور

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیبت خان ڈاکو نے اپنی خوف ناک آواز کو نرم بناتے ہوئے فون میں کہا:

”ہیلو… کون صاحب بول رہے ہیں؟“
”میں سیٹھ فیاض بات کررہا ہوں۔ آپ کون ہیں اور کس سے ملنا ہے۔“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
”سیٹھ صاحب! میں شرافت علی بول رہا ہوں۔ مجھے آپ سے ہی کام ہے۔“ ہیبت خان نے مسکرا کر کہا۔
”شرافت علی… میں اس نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتا؟“ سیٹھ فیاض نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔
”جی میں اخبار” حقائق“ کا رپورٹر ہوں، آپ سے انٹرویو لینا چاہتا ہوں۔ آخر آپ اس شہر کے سب سے بڑے دولت مند ہونے کے ساتھ ساتھ سخی بھی ہیں، غریبوں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے پروگرام بنایا ہے کہ آپ کی زندگی کے حالات اخبار میں شائع کیے جائیں۔“
”مگر بھئی… اس کی کیا ضرورت ہے۔“
”جی بہت ضرورت ہے… بس آپ ملاقات کا وقت دے دیں… ویسے میں رات کے ساڑھے نو بجے آسانی سے آسکتا ہوں۔“ ہیبت خان نے کہا۔
”اچھی بات ہے… آجائیے گا۔“ آخر سیٹھ صاحب نے رضا مندی ظاہر کر دی۔
ہیبت خان نے فون کا ریسیور رکھ دیا اور پبلک فون بوتھ سے خوفناک انداز میں مسکراتے ہوئے باہر نکل آیا۔ وہ منہ ہی منہ میں کہہ رہا تھا:
”بہت ہوشیار بنا پھرتا ہے… کہتا ہے، مجھے کوئی لوٹ کر دکھا ہی نہیں سکتا، آج میں اُس کی تجوری پر ایسا ہاتھ صاف کروں گا کہ ساری عمر یاد رکھے گا۔“
ہیبت خان شہر کا سب سے بڑا ڈاکو تھا۔ اُس نے بڑے بڑے دولت مندوں کو لوٹا تھا اور ہر مرتبہ پولیس سے بچ نکلا تھا۔ ایک مرتبہ سیٹھ فیاض کے ہاں بھی ڈاکا ڈالنے کی کوشش کر چکا تھا، لیکن سیٹھ فیاض کا پٹھان چوکیدار دو نالی بندوق لیے چوکس تھا، اس لیے اس کی دال نہ گل سکی تھی۔ اب دوسری مرتبہ اس نے یہ چال چلی کہ ایک اخبار کا رپورٹر بن بیٹھا۔
نو بجے وہ اپنے گھر سے نکلا۔ اس وقت اس کے جسم پر شریفانہ کپڑے تھے۔ ہاتھ میں ایک نوٹ بک تھی اور آنکھوں پر سنہری رنگ کا چشمہ۔ اس نے اپنی بڑی بڑی مونچھیں بھی صاف کر دی تھیں۔ اب اسے کوئی ہیبت خان ڈاکو کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتا تھا۔
ٹھیک ساڑھے نو بجے وہ سیٹھ فیاض کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ دو نالی بندوق لیے پٹھان چوکیدار آج بھی دروازے پر موجود تھا، اس نے کوئی پروا نہ کی اور قریب جا کر بولا:”سیٹھ صاحب کو بتاﺅ… شرافت علی رپورٹر آیا ہے۔“
”بہت اچھا ساب۔“ پٹھان نے کہا اور اندر چلا گیا، جلد ہی وہ واپس آیا اور اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ ہیبت خان لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر داخل ہوا۔
سیٹھ فیاض اپنے کمرے میں پلنگ پر نیم دراز تھے۔ اُن کے سرہانے کے نزدیک ہی آٹھ فٹ لمبی لوہے کی تجوری نصب تھی۔ اسے دیکھ کر ہیبت خان کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔
”آئیے آئیے… شرافت علی صاحب تشریف رکھیے۔“ سیٹھ فیاض نے قدرے اُٹھتے ہوئے کہا۔
”میں یہاں تشریف رکھنے نہیں آیا، کام کرنے آیا ہوں۔“ ہیبت خان نے سخت لہجے میں کہا۔ اُس کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ تھی۔
”کیا مطلب… کیا آپ کھڑے کھڑے انٹرویو لیں گے؟“
”ہاں! میں پستول کے زور پر انٹرویو لیا کرتا ہوں۔“ یہ کہتے ہی اُس نے جیب میں سے پستول نکال کر اُن کی طرف تان دیا۔
”ہیں… یہ کیا؟“ سیٹھ صاحب ہکّا بکّا رہ گئے۔
”جی! میرا نام ہیبت خان ہے… ہیبت خان ڈاکو… مجھ سے بڑے بڑے کانپتے ہیں۔“ وہ مسکرایا۔
”ارے باپ رے۔“ سیٹھ صاحب تھر تھر کانپنے لگے۔
”سیٹھ صاحب! آپ کی خیریت اسی میں ہے کہ آپ اپنی تجوری کی چابی چپ چاپ میرے حوالے کر دیں۔ اگر آپ نے منہ سے ذرا بھی آواز نکالی تو میں گولی مار دوں گا اور پھر چاہے میں پکڑا ہی جاﺅں، آپ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ چابی میرے حوالے کر دیں۔“
” بہت… بہت اچھا!“ سیٹھ فیاض نے کپکپاتے ہوئے کہا اور تکیے کے نیچے چابی تلاش کرنے لگے۔
”تجوری خالی کرنے کے بعد میں آپ کو باندھ کر اور آپ کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر چلا جاﺅں گا، آپ کے چوکیدار کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ اندر آپ کے ساتھ کیا حادثہ پیش آگیا۔ وہ مجھے سلام کر کے مسکراتے ہوئے رخصت کرے گا۔ پھر جب اندر آئے گا تو آپ کو کھول دے گا، اس وقت تک آپ کو اپنے بستر پر بندھے رہنا ہوگا جس کے لیے مجھے افسوس ہے۔“
سیٹھ صاحب نے تھرتھر کانپتے ہاتھوں سے چابی ہیبت خان کی طرف بڑھا دی۔ اس نے چابی لی، ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور تجوری کے سوراخ میں چابی داخل کر کے اُسے گھمایا۔ ایک ہلکے سے کھٹکے کی آواز آئی۔ ہیبت خان نے ہینڈل پکڑ کر کھینچا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دھک سے رہ گیا، لیکن ابھی اسے حیران ہونے کا اچھی طرح موقع بھی نہ ملا تھا کہ ایک فائر ہوا اور پستول اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔
تجوری میں دو پولیس آفیسر پستول ہاتھوں میں لیے بیٹھے تھے جو اب باہر نکل رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی غسل خانے کا دروازہ کھلا اور اس میں سے تین کانسٹیبل نکلے۔ ان کے ساتھ ایک چوتھا آدمی بھی تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک نوٹ بک اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”ان سے ملیے ہیبت خان صاحب۔ یہ اخبار ”حقائق“ کے رپورٹر ہیں۔ آپ کا فون ملنے کے بعد میں نے ”حقائق“ کے دفتر میں فون کیا تھا، کیونکہ میں بہت محتاط آدمی ہوں۔ اخبار کے دفتر سے مجھے پتا چلا کہ شرافت علی نام کے رپورٹر تو ضرور وہاں کام کرتے ہیں، لیکن انھوں نے میرا انٹرویو لینے کے لیے فون ہرگز نہیں کیا۔ اس کے بعد تو تم سمجھ ہی سکتے ہو کہ میرے لیے سب کچھ سمجھ جانا آسان تھا۔ چنانچہ اب شرافت علی صاحب آپ سے انٹرویو لیں گے۔“
سیٹھ صاحب کے الفاظ ہیبت خان کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا:
”اور پھر… میں اپنے مال پر زکوٰة دیتا ہوں اور جس مال پر ہر سال زکوٰة ادا کی جائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“
ہیبت خان نے ادھر اُدھر دیکھا۔ بچاﺅ کا کوئی راستہ نہ تھا۔ اسے گھیرے میں لیا جاچکا تھا۔ وہ خود کو بہت بڑا چالاک خیال کرتا تھا، لیکن آج اس کی ساری چالاکی دھری رہ گئی اور اب ہتھکڑیوں کا جوڑااس کی طرف بڑھ رہا تھا، سونے چاندی کے زیورات کی بجائے لوہے کا زیو ر!

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top