skip to Main Content
قیمتی قیدی

قیمتی قیدی

محمد الیاس نواز

  

فاتحِ قسطنطنیہ اور سلطنتِ عثمانیہ کے عظیم شہنشاہ سلطان محمد خان ثانی(سلطان محمد فاتح)کی وفات ۳۱سال کی حکمرانی کے بعد۵۲یا۵۳ سال کی عمر میں۳،ربیع الاول۔۸۸۶ھ ،عیسوی سنہ ۳،مئی ۱۴۸۱ء،کو ہوئی۔سلطان کے دو بیٹے بایزید اور جمشیدتھے۔بایزید کی عمرسلطان کے انتقال کے وقت۵ ۳جبکہ جمشید کی ۲۲ سال تھی۔سلطان کی وفات کے وقت دونوں شہزادوں میں سے کوئی بھی دارالخلافہ قسطنطنیہ(استنبول)میں نہیں تھا۔سلطان کی وفات کی خبر بایزید تک پہلے پہنچ گئی چنانچہ وہ تیزی سے سفرکی منزلیں طے کرتا ہواجمشید سے پہلے قسطنطنیہ پہنچ کر تخت پر بیٹھ گیا۔جمشید کو جب سلطان کی وفات کی خبر ملی تو با یزید تخت سنبھال چکا تھا۔

جمشید نے کئی ایک شہروں پر قبضہ کرلیا اور بایزید کو پیغام بھیجاکہ والد محترم نے آپکو ولی عہد (جا نشین)نہیں بنایا تھا اس لئے حکومت پرصرف آپکا حق نہیں ہے ۔مناسب یہ ہے کہ ایشیائی علاقے آپ مجھے دیدیں اور یورپی علاقے آپ لے لیں مگر بایزید نے اسکی تجویز ماننے سے انکار کر دیا۔سلطان محمد فاتح کی بہن یعنی شہزادوں کی پھوپھی نے بایزید کو سمجھایا کہ آپس میں لڑنے سے کو ئی فائدہ نہ ہوگا مگر اس نے کہا کہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہوں کہ جمشید اپنے گھر والوں کے ساتھ بیت المقدس میں رہائش اختیار کر لے اور میں انکا خرچہ دیتا رہوں گا۔جمشید یہ بات جانتا تھا کہ اگروہ تخت حاصل نہ کر سکا تو با یزید اسے زندہ نہیں چھوڑے گا، لہٰذا اب اپنی جان کی حفاظت کی خاطر ہی اس کیلئے لڑنا ضروری ہو گیا۔
چنانچہ ۲،جون ۱۴۸۱ء (۸۸۶)کو دونوں کی فوجوں میں جنگ ہوئی ۔اگرچہ جمشید پھرتیلا اور مستعد تھا جبکہ بایزید سست اور لا پروا تھا مگر اسکے پاس اسکا نہایت تجربہ کار سپہ سالار احمد قیدوق موجود تھا جو کہ سلطان محمد فاتح کا وزیر اعظم بھی رہ چکا تھااس نے اس سے فائدہ اٹھایااور جمشید کی بد قسمتی کہ عین جنگ کے درمیان اکثر سردار اپنے سپاہیوں سمیت با یزید کے پاس چلے گئے اسطرح جمشید کو شکست کھانی پڑی۔شکست کے بعد جمشید کو کسی بھی ترکی سردار پر اعتماد نہیں رہا اسی لئے وہ ترکی کے کسی علاقے میں نہیں رکا بلکہ اپنی ماں،بیوی اور چند ایک جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ مصر جا کر دم لیا۔
مصر میں مملوکیوں کی حکومت تھی جسکے بادشاہ کا نام ابو سعید قائد بیگ تھااسکو جب پتا چلا تو اس نے نہایت احترام کے ساتھ انکا استقبال کیااور بادشاہوں کی طرح ان کو اپنا مہمان بنایا۔چار مہینے مصر میں رہنے کے بعد جمشید حج کیلئے چلا گیااور واپس آکرپھر سے جنگی تیاری شروع کی ۔سلطانِ مصر نے اسکو فوج اور رقم سے مدد دی۔ جمشید اپنی والدہ اور بیوی کو چھوڑ کرپھر مقابلے کیلئے روانہ ہوا۔
بایزید بھی احمد قیدوق کو لیکر آگے بڑھا۔۸۸۷ھ یعنی ۱۴۸۲ء ۔جون کا مہینہ تھا۔بڑے زور کی جنگ ہوئی مگر جمشید کی قسمت میں پھرشکست لکھی تھی۔اس مرتبہ بھی ترکی سرداروں نے غداری کی جنہوں نے جمشید کو یہ وعدہ کر کے بلایا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر لڑیں گے مگر جنگ کے دوران وہ پھر بھاگ کر با یزید کے ساتھ جا ملے۔شکست کھانے کے بعد جمشید کو مصر جاتے ہو ئے شرم آنے لگی کہ سلطانِ مصر،ماں اور بیوی کو کیا منہ دکھاؤں گا۔اگر وہ مصر چلا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ ایسا وقت آجاتا کہ مصری اور ترکی سرداروں کی کوششوں سے ایک دن وہ تخت پر جا بیٹھتا مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جمشید نے سوچا کہ کیوں نہ سلطنت کے یورپی حصے میں جا کر سرحد کے یورپی عیسائی حکمرانوں سے مدد حاصل کرے ۔
اس نے روڈس کے عیسائی حکمران ڈابسن کو لکھا کہ کیا تم مجھے چند دن کیلئے اپنے جزیرے پر ٹھہرنے کی اجازت دوگے؟چند دن ٹھہرنے کے بعد میں یونان کی طرف چلا جاؤں گااور دوبارہ حکومت حاصل کرنے کی کوشش کرونگا۔اس پیغام کو پڑھتے ہی ڈابسن کے جسم کے بال کھڑے ہو گئے اور اسکے دماغ میں ایک سے ایک منصوبے آنے لگے۔ہو سکتا تھاکہ جمشیدکوسلطانِ مصربلا لیتا یا اسے اپنی ماں کی محبت دوبارہ مصر لے جاتی اور وہ یورپ نہ جاتا مگر روڈس کی پارلیمنٹ نے اسے لکھا کہ ’’آپکا آنا ہمارے لئے عزت کی بات ہے کیونکہ ہم آپ کو سلطنتِ عثمانیہ کا سلطان تسلیم کرتے ہیں اور ہم اپنی فوجوں ،جہازوں اور خزانے سے آپکی بھرپور مدد کریں گے۔یہ سن کر شہزادہ کہاں صبر کر سکتا تھا۔لہٰذا وہ تیس آدمیوں کے ساتھ روڈس کی طرف چلا گیا اور جب ساحل پر اُترا تو اسکا فوج کیساتھ شانداراستقبال کیا گیا اور نہایت احترام کیساتھ بطور شاہی مہمان دارالسلطنت(دارالخلافہ)پہنچا دیا گیا جہاں چند ہی دنوں میں جمشیدپر یہ راز کھلا کہ وہ مہمان نہیں بلکہ قیدی ہے۔
ڈابسن نے سلطان با یزید کو لکھا کہ جمشید ہماری قید میں ہے اور اگر آپ ہم سے صلح رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تمام بندر گاہوں پر تجارت کی اجازت دیں ،کسی قسم کاٹیکس بھی نہ لیں اور سالانہ پینتالیس ہزار عثمانی سکے(تین لاکھ روپے سے زیادہ) بھی ہمیں دیتے رہیں تاکہ ہم جمشید کو اپنی نگرانی اور قید میں رکھیں اور اگر آپ نے ہماری شرائط کو نہ مانا تو ہم اسکو چھوڑ دیں گے تا کہ وہ آپ سے جنگ لڑے اور حکومت چھین لے ۔
بایزید نے بغیر کسی چوں چراں کے شرائط منظور کرلیں۔اب ڈابسن نے جمشید کی پردیسی اور دکھی ماں کو پیغام بھیجا کہ’’دیکھو اگر ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ بھیجی رہو گی تو ہم جمشید کو اپنی حفاظت میں آرام سے رکھیں گے ورنہ اس سے کہیں زیادہ رقم ہمیں با یزید دینے کیلئے تیار ہے۔ ہم جمشید کو اس کے حوالے کر دیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ جمشید کو قتل کر دیگا۔جمشید کی ماں نے جیسے تیسے یہ رقم بھیج دی اورڈابسن کو پیغام دیا کہ میں ہر سال آپ کو یہ رقم بھیجتی رہوں گی۔اب جمشید روڈس والوں کیلئے ایک جیتا جاگتا خزانہ تھا جس کو ذریعہ بناکر وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ساتھ ہی انہیں یہ خطرہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلطان با یزید یا سلطان مصر جمشید کو چھڑانے کیلئے حملہ کردیں چنانچہ انہوں نے جمشید کو ایک دستے کی حفاظت میں فرانس روانہ کردیا۔
وہ لوگ جمشید کو فرانس کے مختلف شہروں میں تبدیل کرتے رہے اور اسکے ساتھیوں کو بھی اس سے جدا کرتے رہے۔فرانس کے باد شاہ نے جمشید کیلئے خصوصی مکان بنوایا جہاں اُوپر کی منزل میں اس کو رکھا گیااور نیچے محافظ مقرر کر دئیے گئے۔گویا اب اس خزانے پر فرانس کے بادشاہ چارلس کا قبضہ ہو گیا۔اس دوران چارلس،پاپائے روم اور دوسرے عیسائی بادشاہوں نے ڈابسن کو خط لکھے کہ جمشید کو ہمیں دیدیجئے ،مگر ڈابسن ایسے خزانے کو کہاں کھونا چاہتا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ اس نے کسی کو صاف جواب نہیں دیا بلکہ ٹالتا رہا۔جب ڈابسن کو یقین ہو گیا کہ فرانس کا بادشاہ جمشید پر قبضہ کر لے گا تو اس نے شہزادے کو دوبارہ بلانے کا سوچااور جمشید کی ماں کو لکھا کہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سفر کے خرچ کیلئے بھیج دو تو میں جمشید کو فرانس سے مصر پہنچا دوں گا۔اس بیچاری نے فوراً رقم بھیج دی۔ڈابسن نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ جمشید کو اب اٹلی لے آؤ۔شاہِ فرانس(چارلس) کو جب اس کہانی کا پتا چلا تو اس نے کہا کہ میں ہر گز جمشید کو یہاں سے نہیں جانے دونگا۔بڑی لے دے کے بعداٹلی کے بادشاہ یعنی پوپ(پاپائے روم)نے شاہِ فرانس کو دس ہزار روپے بطور ضمانت رکھوائے کہ اگر فرانس کی اجازت کے بغیر جمشید کو اٹلی سے باہر جانے دیا گیا تو پوپ کی رقم ضبط کرلی جائیگی۔دوسرا معاہدہ پوپ نے روڈس والوں سے کیا کہ اگر جمشید کے اٹلی آنے سے با یزید یا مصر کی طرف سے رقم آنا بند ہو گئی تو پاپائے روم یہ رقم ادا کرے گا۔
۸۹۵ھ  کو شہزادہ فرانس کے سفیر کے ساتھ روما پہنچا جہاں اسکا شاندار استقبال کیا گیااور پوپ کے محل میں ٹھہرایا گیاجہاں پوپ کے نائبوں نے اسے پوپ کے سامنے اسی طرح جھکنے کو کہا کہ جیسے دوسرے عیسائی سردار جھکتے تھے مگر سلطان محمد سلطان فاتح کے بیٹے نے جھکنا کہاں سیکھا تھا، وہ بڑی بے پروائی سے پوپ کے پاس جا کر بیٹھ گیااور کہا کہ میں آپ سے چند باتیں علیحدگی میں کرنا چاہتا ہوں۔پوپ اسکی بات علیحدگی میں سننے کو تیار ہو گیا۔اس نے پوپ سے عیسائی سرداروں کے جھوٹ،فریب اور زیادتیوں کی شکایت کی اور اپنی ماں اور بیوی کی جدائی کا ذکر کیاتو جہاں اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے وہیں پوپ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔پوپ نے اس سے کہا کہ تمہارا مصر جانا ٹھیک نہیں اور بہتر یہ ہے کہ تم اسلام کو چھوڑ کر عیسائی مذہب قبول کرلو۔پھر سارا یورپ تمہارے ساتھ ہوگا اور تم آسانی سے سلطنتِ عثمانیہ کے تخت پر بیٹھ جا ؤ گے۔
پوپ نے ابھی یہی کہا تھا کہ جمشید نے پوپ سے کہا کہ اگر ساری دنیا کی بادشاہی مجھے مل جا ئے تو میں اسلا م کی خاطر اس کو بھی ٹھکرا دوں گا، سلطنتِ عثمانیہ کیا چیز ہے۔پوپ نے فوراً گفتگو بدل لی۔جمشید پہلے روڈس پھر فرانس اور اب روما(اٹلی) کا قیدی تھا۔سلطانِ مصر کو جب جمشید کے اٹلی آنے کا پتا چلا تو اسکو یقین ہو گیا کہ اب شہزادہ رہا ہو جا ئیگا۔اس نے اپنا ایلچی استقبال کیلئے بھیجا،ایلچی نے جمشید کو بتایا کہ ڈابسن نے کس طرح اسکی غریب ماں سے رقم بٹوری ہے ،جمشید کو بڑا دکھ ہوا ،اس نے پوپ سے شکایت بھی کی مگر گئی رقم کہاں واپس آنی تھی۔ادھر سلطان با یزید نے بھی اپنا ایلچی پوپ کے پاس بھیجا کہ جمشید کو قید رکھنے کے جتنے پیسے ڈابسن کو ملتے تھے اتنے ہی آپ کو ملتے رہیں گے۔اس طرح با یزید کی پوپ سے سودا بازی ہو گئی اورمصر کا سفیر ناکام واپس چلا گیا۔
تین سال کے بعد پوپ شنیوس فوت ہو گیا او راسکی جگہ سکندر نام کا شخص پوپ بنا ۔اس نئے پوپ کی ’’شرافت ‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس نے تخت پر بیٹھتے ہی با یزید کو پیغام بھیجا کہ جو رقم آپ سالانہ بھیجتے ہیں وہ بھی بھیجتے رہیں اور اگر تین لاکھ سکے ایک ساتھ بھیج دیں تو میں جمشید کو موت کے گھاٹ اتار کر آپکی جان ہمیشہ کیلئے اس سے چھڑا دوں گا۔ یہ بات ابھی چل رہی تھی کہ شاہِ فرانس نے جمشید کو پوپ اسکندر کے قبضے سے چھڑاکر دوبارہ خود قبضہ کرنے کیلئے اٹلی پر حملہ کردیا۔پوپ نے بھاگ کر ایک قلعے میں پناہ لی اور ساتھ ہی جمشید کو بھی لے گیا۔آخر پوپ اور شاہِ فرانس کے درمیان صلح کی بات چیت شروع ہوئی تو شاہ کی پہلی شرط یہی تھی کہ جمشید فرانس میں رہے گا۔جمشید سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں تو قیدی ہوں چاہے جہاں بھی رکھو مجھے کونسا فرق پڑے گا۔بالآخر چارلس جمشید کو فرانس لے آیا ۔
اب پوپ کو اس رقم کی فکر ہوئی جو اس نے با یزید سے مانگی تھی ۔اس نے بایزید کو پیغام بھیجا کہ جمشید فرانس جا چکا ہے مگر میں پھر بھی اس کو قتل کرا دونگا۔پوپ نے ایک حجام کوزہر کی پڑیا دیکر اس کام کیلئے تیار کیا جسکی عیسائیوں میں بڑی عزت تھی کیوں کہ یہ ایک مرتبہ مسلمان ہو کردوبارہ عیسائی ہو گیا تھا۔وہ آہستہ آہستہ جمشید تک پہنچنے لگا ،ایک معزز حجام پر بھلا کس کو شک گزرتا جو اسے روکتا ۔اس نے جمشید کو کسی طرح زہر کھلا دیا اور زہر لگے استرے سے اسکی حجامت بھی بنا دی ۔جسکے بعد جمشید کو لا علاج بیماری لگ گئی جس سے وہ کمزور ہو تا گیا اور اتنا کمزور ہو گیا کہ ہا تھ بھی نہیں ہلا سکتا تھا۔پھر اس نے دعا کی کہ ’’الٰہی!اگر یہ کفار میرے ذریعے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چا ہتے ہیں تو مجھے موت دیدے‘‘بس پھر اسی دن اللہ نے اس کو دنیا سے اُٹھا لیا۔۱۳سال کی قید کے بعد ۹۰۱ھ  میں ۳۶سال کی عمر میں جمشید کاانتقال ہوا۔سلطان بایزید نے جمشیدکی لاش منگواکر اسکو ترکی میں دفن کیاجبکہ پوپ کو بھی رقم ادا کردی اورحجام کو بلا کر وزیر بنادیا۔
اسطرح اس تین ملکی قیدی کی زندگی کا خاتمہ ہوا،جو خود تو غریب الوطن تھا مگر دوسروں کیلئے دولت کا ذریعہ بن گیا تھا۔
جمشید نے تخت حاصل کرنے کیلئے دشمنوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے اسے سخت ذلت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخراپنی جان سے بھی گیا۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top