skip to Main Content
قلم سوار (شاہ والی اللہ)۔

قلم سوار (شاہ والی اللہ)۔

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بادشاہ فقہ حنفی سے متعلق ایک کتاب مرتب کرانا چاہتا ہے۔میں یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ آپ بھی علماء کی اس جماعت کا حصہ بنیں جو اس کام کیلئے منتخب ہوگی۔بادشاہ کی طرف سے باقی علماء کی طرح آپکا بھی یومیہ مقرر ہوجائے گا جس سے آپ کے مالی مسائل کافی حد تک حل ہوجائیں گے۔

یہ شیخ حامد تھے جو اپنے دوست کو مشورہ دے رہے تھے مگر شاہ عبد الرحیم کو بادشاہ کی ملازمت کہاں پسند تھی۔حالانکہ شاہ صاحب کے والد’’شاہ وجیہہ الدین‘‘ اسی باد شاہ(اورنگزیب عالمگیر) کی فوج میں ملازم رہے تھے اور زہد وتقویٰ کے ساتھ ساتھ بہادری میں بھی اپنی مثال آپ تھے اور مرہٹوں سے لڑی جانے والی جنگوں میں بڑی بے جگری سے لڑتے رہے تھے مگربادشاہ کی فوج میں سپاہی ہونے اور بادشاہ کی ملازمت میں کوئی دینی اور علمی کام کرنے میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے ،یہ ہر عقلمند آدمی سمجھ سکتا ہے۔دینی کام میں بادشاہ کی مرضی کی ہدایات لینا انہیں گوارا نہ تھا یہی وجہ تھی کہ شاہ صاحب نے شیخ صاحب کو صاف انکار کردیا مگر جب شاہ صاحب کی والدہ کو پتا چلا تو وہ ناراض ہوئیں کہ تمہیں اپنے گھر کی مالی تنگی دیکھنی چاہئے تھی۔والدہ کی اطاعت میں انہوں نے فوراً ملازمت کیلئے ہاں کردی۔مگر جب آپ کے مرشد کو پتا چلا تووہ سخت ناراض ہوئے،جس کی وجہ سے آپ ایک بہت بڑی کشمکش کا شکار ہوگئے اور اللہ سے دعا کی کہ ’’بس اب توہی کوئی راستہ نکال سکتا ہے‘‘۔بس پھر اورنگزیب کے سامنے جب علماء کی فہرست پیش کی گئی تواللہ جانے اس کے ذہن میں کیا آیا کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے آپ کا نام کاٹ دیا اورحکم دیا کہ شاہ صاحب کو ایک قطعہ زمین دے دی جائے جو آپ نے شکریہ کے ساتھ ٹھکرا دی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے یوں جان چھڑادی۔اسکے بعد شاہ صاحب کو کبھی مالی تنگی کا سامنا نہیں ہوا۔جن لوگوں کی پرہیزگاری کا یہ معیار ہوکہ وہ رزق حلال میں اتنی احتیاط کرتے ہوں کہ شاہی دربار میں جائز ملازمت کرنے سے بھی کتراتے ہوں،یقیناًانکو اللہ نوازتا ہے۔شاہ عبدالرحیم اپنے وقت کے ایک عالم با عمل تھے ۔ان پر اللہ یوں مہربان ہوا کہ انکو مشہور بزرگ ’’خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ‘‘ نے ایک خوش بخت بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی۔یہی وجہ تھی کہ جب بچے کی پیدا ئش ہوئی تو اسکا م نام ’’محمد قطب الدین‘‘ رکھا گیااورجب شاہ قطب الدین کی عمر پانچ سال ہوئی تو انکی تعلیم کا آغاز کیا گیا جبکہ سات سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید ختم کر لیااور سات سال کی عمر میں ہی عربی اور فارسی پڑھنا شروع کی جبکہ سات سال میں ہی نماز یاد کرا کے پابندی کی تلقین کی گئی اور سات سال میں ہی آپ نے روزہ رکھنا شروع کیا۔دس سال کی عمر میں آپ نہ صرف فارسی بلکہ عربی پر بھی عبور حاصل کرچکے تھے۔ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چودہ برس کی عمر میں وہ کتب بھی پڑھ چکے تھے کہ جنکاپڑھناعلما بھی اپنے لئے بہت بڑی منزل خیال کرتے ہیں۔

پندرہ برس کی عمر میں آپ ،قرآن،حدیث،فلسفہ،منطق،الجبرا،حساب،علم الکلام،علم مابعد الطبعیات،روحانیت اور تصوف کے عالم ہوچکے تھے،جس پر آپ کے والد نے ایک بہت بڑی جشن نما دعوت کا انتظام کیااور اسی سال آپکی شادی بھی کردی گئی۔اسکے ساتھ ہی آپ نے اپنے والد کے ہاتھ پر بیعت کی اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی خانقاہ اور درسگاہ’’ مدرسۂ رحیمیہ ‘‘میں درسِ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ تصوف کی بھی تعلیم دینا شروع کی ۔جب آپکی عمر سترہ برس ہوئی تو آپ کے والد شا ہ عبد الرحیم کا انتقال ہو گیا۔آپکے والد اپنی زندگی میں ہی آپکی تربیت فرما کر آپکو اپنا جاں نشین مقرر کر گئے تھے۔یہی وجہ تھی کہ آپ نے والد کے انتقال کے بعد مکمل طور پرخانقاہ اور درسگاہ سنبھال لی اوربارہ سال تک قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر دینی علوم اور فنون پڑھاتے رہے۔آپ کا طریقۂ تعلیم دیگر علماء کی طرح یہ نہیں تھا کہ جو کچھ پڑھا وہی آنکھیں بند کر کے آگے پڑھا دیا بلکہ آپ ہر مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرتے اور گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اسکا درس دیتے۔یہی وجہ تھی کہ جو بات آپ کے درس میں تھی وہ کسی اور کے درس میں کہاں…..بارہ سال کے بعد آپ کو حج بیت اللہ کا شوق ہوا،جس کے دوہی راستے تھے اور دونوں ہی خطرناک۔پیدل سفر کے دوران راستے میں پڑنے والی ریاستوں میں مرہٹوں نے لوٹ مار اور قتل وغارتگری کا بازار گرم کیا ہوا تھا تو سمندری سفر میں بادبادی کشتیاں طوفانوں اور بحری قزاقوں کے رحم و کرم پرہوتیں۔مگر تمام ترخطرات سے گزر کر۱۱۳۴ھ(1731ء)میں آپ نے پیدل حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔

حج بیت اللہ کے بعد ایک سال تک آپ حرمین میں ہی مقیم رہے۔آپ کا زیادہ تر وقت مدینہ منورہ میں گزراجہاںآپ نے مسجد نبوی کے اساتذۂ حدیث سے پورا فائدہ اٹھا یا۔جن میں سب سے نمایاں نام’’شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی مدنی‘‘کا ہے۔۱۱۴۴ہجری میں دوسرا حج کرنے کے بعد چھ ماہ کا پیدل سفر کرکے ۱۴،رجب۱۱۴۵ہجری(1جنوری1733)کو اپنے وطن دہلی پہنچ گئے۔

حرمین کی زیارت کے بعد آپ کو ایک عجیب خواب آیا کہ حضرات حسنؓ اورحسینؓ آپ کے پاس تشریف لاتے ہیں اور آپ کو ایک ٹوٹا ہوا قلم عطا فرماتے ہیں اور ایک دھاری دارچادر اوڑھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں ہمارے نانا حضرت محمد ﷺ کی ہیں۔ٹوٹے ہوئے قلم سے اہل علم نے مراددین اور خاص کر ’’علم حدیث‘‘لیا ہے۔ اس زمانے میں علمِ حدیث عجم میں تو کیا عرب میں بھی زوال پذیر تھااور کوئی بہت بڑا عالم ایسا نہیں تھا جو اس علم کی خدمت کرتا اور جو مدارس میں پڑھا بھی رہے تھے انہیں اس پر عبور نہیں تھا۔جبکہ چادر سے مراد حفاظت لی گئی ،کہ جب دین کی خدمت اور فتنوں سے مقابلے کیلئے آپ اٹھ کھڑے ہوں گے تولازمی ہے کہ کچھ لوگ آپکی مخالفت اور دشمنی پر بھی اتریں گے تویہ چادر آپکی حفاظت کی یقین دہانی ہے۔

حرمین سے آپ نے بہت سی برکات سمیٹیں اور اللہ کے آپ پر بڑے انعامات ہوئے ،جن پر آپ نے ایک پوری کتاب’’فیوض الحرمین‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی۔سب سے بڑی رحمت تو یہ ہوئی کہ علم حدیث پر آپکو مہارت اور درس حدیث پر آپکو ملکہ عطا کردیاگیا ۔یہی وجہ تھی کہ واپس آنے کے بعد آپ نے ساری علوم و فنون کو چھوڑ کر علم حدیث کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیااور آج دنیا آپ کو محدث(حدیث کا ماہر) کے لقب سے جانتی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ آپ نے دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف جہاد کا آغاز کر دیا۔

چاہے وہ دانشوروں کی شکل میں ہوں جو اپنا فلسفہ گھڑ گھڑ کے اسے ادب میں لپیٹ کر دین کا نام دے کر عوام میں پھیلاتے رہے ہوں اور انہیں دین سے دور کرتے رہے ہوں یاوہ پیر اور صوفی ہوں جو تصوف کے نام پرہندوانہ رسومات اور جہالت پھیلاکر دین کا چہرہ ایسی خوبصورتی سے خراب کرتے رہے ہوں جیسے سونے کافریم بنا لیا جائے مگر اندر کے آئینے کو خراب کر دیا جائے یا وہ گمراہ فرقے ہوں جو دین ہی اپنا الگ لے آئے ہوںیا پھرتاج برطانیہ ہوجو انگریزی زبان کی تعلیم کی آڑ میں انگریزی تہذیب کی بھی تبلیغ کر رہا ہواور سب سے بڑھ کر وہ لوگ جو فرقہ پرسی کی آگ بھڑکا رہے ہوں۔آپ نے ہر فتنے کے خلاف قلمِ جہاد بلند کیا اور باطل عناصر کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے عقائد اور انکی معاشی ،اخلاقی،تہذیبی اورسیاسی اصلاح کے لئے ساری زندگی علمی جدوجہدفرمائی۔

یہی وجہ ہے کہ اہل علم آپ کو مجدد(دین کو زندہ کرنے والا)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اس راستے میں چلتے ہوئے آپ کو بہت سی تکلیفوں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔

آپ نے اپنے قلم سے بہت سا علمی کام کیا اور آپکی فارسی اورعربی کتب کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔ہندوستان میں قرآن کا سب سے پہلا فارسی ترجمہ’’فتح الرحمن‘‘ کے نام سے آپ نے کیاتاکہ وہ اللہ کے بندے جو عربی نہ جاننے کی وجہ سے اللہ کے کلام کو نہ سمجھتے تھے ،ان تک قرآن کی تعلیمات پہنچائی جا سکیں۔جس پر آپ کے مخالفین نے آ پکو بہت روکنے کی کوشش کی اور ایک دن جب آپ مسجد فتحپوری میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ان مخالفین نے مسجد کو گھیر لیا کہ آج جانے نہیں دینا مگر آپ بڑے آرام سے نماز پوری کرنے کے بعد وہاں سے نکل گئے اور انہیں خبر بھی نہیں ہوئی۔

آپکی کتب میں سب سے مشہور کتاب’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ہے ۔جس میں آپ نے اسلام کے احکام شریعت کی حکمتیں اور فلسفہ بیان کیا ہے اورآپکی اس کتاب کو علمی حلقوں میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔آپکی خودنوشت سوانح عمری’’الجزء اللطیف‘‘ کا بھی اپنا مقام ہے جبکہ’’ ازالۃ الخفاء‘‘اور’’الفوزالکبیر‘‘کا مقام بھی مسلّم ہے۔

آپکی پیدائش اورنگ زیب عالمگیرکی وفات سے چار سال پہلے ہوئی ۔اورنگزیب کی وفات کے بعدسلطنت مغلیہ پارہ پارہ ہوگئی اور آپکی زندگی میں دس حکمران دہلی کے تخت پربیٹھے اور اس زمانے میں دہلی کیا پورے ہندوستان میں قتل و غارتگری کا میدان گرم تھا۔ایک طرف سکھوں نے اودھم مچایا ہوا تھا تو دوسری طرف مرہٹوں کی لوٹ مار کا یہ عالم تھا کہ خواجہ نظام الدین اولیا ؒ کی خانقاہ کے برتن تک لوٹ لے گئے تھے کہ اوپر سے نادر شاہ ایران سے آنازل ہوا اور دلی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد لاشوں کے کھیت ڈال گیا۔اس قتل و غارت سے دلی کے شرفأ اتنے تنگ ہوگئے کہ انہوں نے بھی ہندورسم’’جوہر‘‘پر عمل کرنے یعنی آگ کے الاؤ میں عورتوں بچوں سمیت جلنے کا فیصلہ کر لیامگر آپ نے انہیں سمجھایا بجھایا اور اسلام کی تعلیمات صبرکی تلقین فرما کر انکو اپنے ارادے سے روکا۔

یاد رہے کہ مرہٹے(مراٹھے) ہندوستان میں ایک باغی جنگی قوت بن کر ابھرے تھے اور ستائیس سال(1680-1707)تک انہوں نے مغلوں سے جنگ لڑی تھی،جو بعد میں صلح پر ختم ہوئی مگر مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدمرہٹے ہندوستان کی سب سے بڑی جنگی قوت بن گئے تھے۔یہ ہر چوتھے دن دلی پر دھاوا بول دیتے اور مسلمانوں کی جان ،مال اور عزتوں کو تارتار کر جاتے۔اس انتہائی غیر مہذب اورگنوار قوم سے مسلمان اتنے تنگ ہوئے کہ بالآخر شاہ صاحب کا ہی قلم حرکت میں آیا اور انہوں نے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی(درانی) کو خط لکھ کر مرہٹوں کے خلاف مدد کیلئے آمادہ کیا۔احمد شاہ ہند پر حملہ آور ہوا اور ہندوستان کی ریاست ’’ہریانہ‘‘ میں’’ پانی پت‘‘کے میدان میں اٹھارویں صدی کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی ۔14جنوری1761ء کو لڑی جانے والی اس جنگ میں ،ایک دن میں سب سے زیادہ اموات رقم ہوئیں۔اس جنگ نے مرہٹوں پر فیصلہ کن ضرب لگائی اور ان کی کمر ہمیشہ کیلئے ٹوٹ کر رہ گئی۔مؤرخین کے مطابق کم از کم ایک لاکھ مرہٹہ اس میں مارا گیا۔بلاشبہ احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں مرہٹوں کی جنگی قوت کا قلع قمع کروانا شاہ صاحب کانہ صرف ایک بہت بڑا کارنامہ تھا بلکہ یہ ہند کے مسلمانوں کی نسلوں پر بھی احسان ہے۔

اس فساد کے زمانے میں بھی اللہ نے آپ کو کما ل اطمینان بخشا تھااور اس زماے کے مصنفین کی طرح آپ کی کسی کتاب کے دیباچے میں کوئی تحریرایسی نہیں ملتی جس میں غالب کے خطوط کی طرح حالات کی خرابی یا رزق کی تنگی کا ذکر ہو۔اور دوسری خصوصیت یہ کہ آپ نے اپنی کوئی کتاب کسی بادشاہ کے نام کرکے مالی یا دنیوی فائدہ اٹھا نے کے بجائے خالص اللہ کیلئے رہنے دیا اور شاہوں پر بھی لکھی تو تنقید ہی لکھی۔

آپ نے اپنے بعد اپنے شاگردوں کے ساتھ ساتھ اپنے چار بیٹے(شاہ عبدالعزیز،شاہ عبد القادر،شاہ رفیع الدین ،شاہ عبد الغنی)چھوڑے جنکا علمی مقام دنیا جانتی اور مانتی ہے۔اردو میں قرآن کا پہلا ترجمہ شاہ رفیع الدین نے کیا۔نہ صرف یہ بلکہ آپ کے پوتے اور شاہ عبد الغنی کے بیٹے شاہ اسمٰعیل شہید نے سید احمد شہید(شاہ عبدالعزیز کے شاگرد)کے ساتھ مل کر عملی جہاد کاآغاز کیا اور بالا کوٹ میں شہید ہوئے۔

اگرچہ آپکا اصل نام شاہ قطب الدین تھا مگر دنیا آپ کو آپکی خدمات کی وجہ سے ’’شاہ ولی اللہ محدث دہلوی‘‘کے نام سے جانتی ہے۔آپ ۴ شوال۱۱۱۴ھ( 21فروری1703)کواپنے ناناکے گھر اتر پردیش کے شہر مظفر نگر کے ایک قصبے ’’پھلت‘‘میں پیدا ہوئے۔جبکہ ۱۱۷۶ ہجری(20اگست1762) میں آپکا انتقال دہلی میں ہوا۔آپکا سلسلۂ نسب حضرت عمرؓ سے جا ملتا ہے مگر آپکے آباء و اجداد نے عرب کب چھوڑا اسکی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔

گراں   جو   مجھ   پہ   یہ   ہنگامۂ   زمانہ   ہوا

جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top