skip to Main Content

قبر میں ترو تازگی

مفتی آصف محمود قاسمی

……..

اس میں کوئی شک نہیں کہ گنجان پھل دار، سایہ دار درخت، پھولوں سے لدے پھدے پودے، سرسبز گھاس…. ہر جاندار، انسان، حیوان، چرند، پرند اور درند کی زندگی کو ترو تازہ رکھتے ہیں…. سرسبز و شاداب ماحول…. دماغِ انسانی کو بالیدگی، تخیل کو پاکیزگی، نظر کوتازگی، دل کو شگفتگی، گویا پورے بدن کو آسودگی بخشتا ہے۔
اس عارضی اور مختصر جہاں کے بعد وقوعِ قیامت سے پہلے انسان کو ایک اور عارضی مگر قدرے طویل جہاں سے گزرنا ہے۔ اس جہاں کو عالم برزخ کہتے ہیں۔
شجر کاری عالم دنیا میں ترو تازگی کے ساتھ ساتھ عالم برزخ میں بھی ترو تازگی کا سبب ہے۔
کیوں کہ شجر کاری میںنہ صرف انسانوں کی راحت کا سامان ہے بلکہ شجر کاری اللہ کے ذکر کو عام کرنے کا سبب بھی ہے، کیوں کہ ازروئے قرآن و حدیث ایک ایک پتا اللہ کا ذکر کرتا ہے۔
دنیا، قبر اور آخرت کی ترو تازگی کے لیے عمل کے اعتبار سے بہت ہی آسان ایک نسخہ نبوی بھی ہے وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ ترو تازہ رکھے اس شخص کو جس نے میری باتوں کو سنا، ان کو یاد کیا پھر ان کو آگے پھیلادیا۔“
معمولی توجہ، دلچسپی رکھنے والا عامی سے عامی شخص بھی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا مصداق بن کر دنیا، برزخ اور آخرت میں سرسبز و شاداب رہنے کی ضمانت حاصل کرسکتا ہے۔
عالم مشاہدہ میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ علمائ، صلحائ، مشائخ اور مبلغین ارذل العمر میں پہنچ جانے کے باوجود بقائمی ہوش و حواس اور سرسبز و شاداب ہوتے ہیں۔
اور کبھی کبھی اللہ تعالیٰ ایسی برگزیدہ ہستیوں کی عالم برزخ میں ترو تازگی کا مشاہدہ بھی کروادیتے ہیں۔ بہت سارے واقعات میں سے چند واقعات ثقہ راویوں کے حوالے سے عرض کرتا ہوں۔
٭….شیخ التفسیر مولانا عبداللہ بہلوی رحمہ اللہ کا نواسہ مولوی ابوبکر مدنی میرے ساتھ دورۂ حدیث شریف میں شریک تھا۔
ایک دن کہنے لگا میں نے بہت بچپن میں اپنے نانا کی زیارت کی ہے۔ حضرت بہلوی رحمہ اللہ کا سن وفات 1978ءمیرے علم تھا۔اس لیے میں نے فوراً گرفت کی کہ وہ تو آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوچکے۔ آپ نے زیارت کیسے کرلی؟
تو وہ کہنے لگا اس میں کوئی شک نہیں کہ نانا جی کا انتقال میری پیدائش سے پہلے ہوگیا تھا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ میں نے اُن کی زیارت کی ہے۔ میں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگا۔
میری حیرت کو ختم کرنے کے لیے ابوبکر بتلانے لگا کہ نانا جی کے انتقال کے تقریباً نو برس بعد 1987ءمیں قبر میں سوراخ ہوجانے کے باعث پانی اندر داخل ہونے لگا۔نانا جی نے خواب میں اپنے کسی مرید سے اس کی درستگی کا فرمایا۔ اس شخص نے میرے ماموؤں کو بتلایا۔ علماءکے مشورے سے قبر کو مرمت کے لیے کھولا گیا تو نانا اپنے کفن سمیت صحیح و سلامت موجود تھے۔
علماءکرام اور عوام کی کثیر تعداد نے اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ گرچہ میں اس وقت صرف تین برس کا تھا تاہم میرے ذہن میں بھی یہ منظر موجود ہے البتہ بڑے بھائی مفتی محمد احمد انور صاحب کو تو خوب یاد ہے۔
٭….مولانا محب النبی صاحب مد ظلہ (بانی دارالعلوم مدنیہ لاہور) سے یہ واقعہ سنا۔ فرماتے ہیں کہ کسی گاﺅں کا امام و خطیب گندم کی کٹائی کے موسم میں بیمار ہوگیا۔ اہل علاقہ نے میو ہسپتال لاہور میں داخل کروادیا اور خود مصروفیت کی وجہ سے واپس چلے گئے۔
جب کٹائی سے فارغ ہوئے تو تیمارداری کے لیے ہسپتال آئے تو ان کو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب تو انتقال کر گئے تھے۔ وارث پاس نہ ہونے کی وجہ سے میانی صاحب قبرستان میں دفن کردئیے گئے تھے۔وہ دیہاتی لوگ میانی قبرستان کے متعلقہ گورکن کے پاس پہنچ گئے اور اس سے اپنے مولوی صاحب کی قبر کے بارے میں پوچھا۔
اول تو گورکن نے ٹالنے کی کوشش کی اب ٹھیک طرح یاد نہیں آرہا ہے کہ کس جگہ دفن کیا تھالیکن دیہاتیوں کے شدید اصرار پر اس کو قبر کی نشاندہی کرنی پڑی۔ قبر معلوم ہوجانے کے بعد انھوں نے مولوی صاحب کی میت کو گاﺅں لے جانے کے لیے قبر کشائی کا مطالبہ کردیا۔
گورکن نے کہا: ”اللہ کے بندوں تمھیں قبر معلوم ہوگئی ہے فاتحہ خوانی کے لیے یہیںآجایا کرو۔ گرمی کا موسم ہے اور دو ماہ سے زائد دفن کو ہوچکے ہیں۔ معلوم نہیں میت کا کیا حال ہو، اس لیے اپنے مطالبے سے باز آجاﺅ۔ ایسی ضد مت کرو۔“
دیہاتیوں نے کہا: ” ہمارے مولوی صاحب نے جیسی پاکیزہ زندگی گزاری ہے ہمیں پورا یقین ہے کہ ان کا جسم تو رہا ایک طرف کفن بھی سلامت ہوگا لہٰذا تم ٹال مٹول مت کرو اور قبر کھولو….“
چناں چہ جب قبر کو کھولا گیا تو واقعی مولوی صاحب اپنے تر و تازہ وجود کے ساتھ محوِ استراحت تھے۔
٭….مولانا عبدالقیوم رحمہ اللہ (بادامی باغ لاہور) راوی ہیں۔فرماتے ہیں کہ قاسم چودھری گوجرانوالہ کا ایک جوان تھا حب صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کا استعارہ تھا۔عظمت صحابہ واہل بیت کا دیوانہ وار گلی گلی پرچار کرتا تھا میرے ساتھ اس کا گہرا مذہبی لگاﺅ تھا۔
1995ءکے آخر میں اچانک غائب ہوگیا چوں کہ اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس لیے ہر کوئی یہی سمجھتا رہا کہ دوسرے دوست کے پاس ہوگا۔جنوری 1996ءمیں تھانہ سبزہ زار لاہور کی طرف سے ایک سربریدہ لاش ملنے کی خبر اخبار میں شائع ہوئی۔ اس وقت تو کسی کی توجہ اس خبر کی طرف نہ گئی لیکن جب دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا تو دوستوں کا خیال ہوا کہ اس تھانے جاکر اس لاش کی بابت معلوم کرنا چاہیے۔
چناں چہ ہم اس تھانے پہنچ گئے۔ SHO سے بات ہوئی تو اس نے شناخت کے لیے رکھے اس کے کپڑے، جوتے اور سویٹر ہمیں دکھلائے۔ جب ہم نے وہ کپڑے وغیرہ دیکھے تو ہمیں زبردست شاک لگا کیوں کہ وہ سب چیزیں قاسم چودھری کی تھیں۔
ہم نے SHO سے لاش حوالگی کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگا مولانا! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میت قبر میں پھٹ جاتی ہے اور آپ کی میت ہے بھی سر بریدہ اگر قبر کشائی سے کسی کو ہارٹ اٹیک ہوگیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟
میں نے SHO سے کہا اول تو ایسا کچھ نہیں ہوگا جو آپ کے ذہن میں ہے اور اگر کوئی ناگوار بات ہوئی بھی تو میں اس کا ذمہ دار ہوں آپ قبر کشائی کروائیں۔ چناں چہ جب قبر کھولی گئی تو قاسم چودھری صحیح و سلامت تھا۔ اس کی گردن سے ابھی تک خون جاری تھا جس کی وجہ سے کمر والی جانب سے کفن کافی خون آلود ہوچکا تھا۔
شہید کے لہو کی خوشبو مشامِ جاں کو معطر کر رہی تھی۔
٭….قارئین کو یاد ہوگا ابھی کچھ عرصہ قبل میری بہن ”خالدہ باجی“ کا انتقال ہوا تھا۔ اس کی تدفین کے ٹھیک تین ماہ اٹھارہ دن بعد 18 جولائی 2019ءکو شدید اور طویل بارش کی وجہ سے قبر گر گئی۔ عامر بھائی کہتے ہیں کہ میں نے یہ منظر دیکھ کر طارق بھائی اور معین بھائی کو بھی وہیں بلوالیا۔
ہم تینوں نے مشورہ کیا کہ قبر میں گری سلیبیں اور مٹی نکال کر دوبارہ مرمت کی جائے۔ چناں چہ گورکن سے بات کی، تو اس نے کہا مولوی صاحب! تقریباً چار ماہ گزر چکے ہیں اور وہ بھی شدید گرمی کے آپ کی پیاری مٹی میں مٹی ہوگئی ہوگی۔ اسی پر مزید مٹی ڈال کر قبر کا نشان ٹھیک کردیتے ہیں۔ لیکن ہم اس بات پر مصر رہے کہ ٹھیک طریقے سے دوبارہ قبر بنانی ہے۔
چناں چہ قبر سے مٹی نکالنے کا عمل شروع ہوگیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ”خالدہ“ اپنے ترو تازہ وجود کے ساتھ کفن اوڑھے واضح ہوگئیں۔
یہ منظر دیکھ کر گورکن کے چہرے پر حیرت اور ہمارے چہروں پر اطمینان پھیل گیا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top