skip to Main Content

فضول خرچ فقیر

کہتے ہیں، ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے درمیان خوش و خرم بیٹھا اس مطلب کے شعر پڑھ رہا تھا کہ آج دنیا میں مجھ جیساخوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔ اتفاقاً ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں اس مطلب کا شعر پڑھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟
بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی حالت سے آگاہ ہو کر کہا کہ سائیں جی، دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخشا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر صدا لگائی۔ 
بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اسے بہت غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا

جو شخص دن میں جلاتا ہے شمع کا فوری
نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہمدرد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضور والا نے بالکل بجا فرمایا ہے اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور۔ اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔

دیکھا نہیں کسی نے پیا سے حجاز کے
ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر

حاصل کلام:
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے خیر اور بخشش کے بارے میں اہم نکات بیان فرمایئے ہیں۔ (۱) جو لوگ صاحب اقتدار او آسودہ حال ہیں انھیں زیر دستوں کی امداد سے غافل نہ رہنا چاہیے (۲) یہ خیال رکھنا چاہیے کہ امداد سائل کے ظرف اور ضرورت سے زیادہ نہ ہو کہ وہ فضول خرچی کے گناہ سے بچا رہے (۳) جس شخص کو خدا نے اپنی نعمتوں سے نوازا ہوا سے غیر مستحق لوگوں کےسوال پر بھی بر ہم نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ان کی شہرت کے باعث ضرورت مندوں کا ان کے پاس آنا ایک ضروری بات ہے بالکل یوں جیسے شیریں(میٹھے) پانی کے چشمے پر چرند پرند اور انسان سب جمع ہوتے ہیں (۴) سائل کو چاہیے کہ جب وہ صاحب اقتدار لوگوں سے سوال کرے تو اس بات پر ضرور غور کر لے کے اس کا مزاج برہم تو نہیں، کیونکہ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ کبھی اچھی بات پر ناراض اور کبھی بری بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top