skip to Main Content

غابہ کا مردِمیدان

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عزیز بچوں !پچھلی کہانی ”رسول اللہ ﷺکا شہسوار“میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ ۶ ہجری میں چالیس ڈاکوﺅں نے ذی قرد(چشمہ یا گاﺅں)کے قریب جنگل کی چراگاہ پر چھاپا مارا اور رسول ِکریم ﷺکی بیس اونٹنیوں کو ہانک کر لے چلے ۔رسول ِپاک ﷺ کے صحابی حضرت سلمہؓبن اکوع اتفاق سے وہاں آگئے۔انھوں نے ایک طرف تو اس چھاپے کی اطلاع آپﷺ کو دی اور دوسری طرف وہ ڈاکوﺅں کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔یہ تعاقب انھوں نے کیسے کیا اور اس کا نتیجہ کیا ہوا،اس سے پہلے کہ اس کا ذکر کیا جائے ہم یہ بات بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ ہماری تاریخ میںغزوئہ غابہ یا غزوئہ ذی قرد کے نام سے مشہور ہے۔(یعنی غابہ کی لڑائی یا ذی قرد کی لڑائی)غابہ عربی زبان کا لفظ ہے ،اس کا مطلب ہے جنگل ۔ذی قرد ایک چشمے اور اس کے قریب ایک چھوٹے سے گاﺅں کا نام تھا۔جن ڈاکوﺅں نے چھاپا مارا تھا وہ دو ایسے قبیلوں کے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیاتھا۔ان چھاپا ماروں کا سردار عیبینہ بن حصن فزاری تھا چونکہ اس واقعہ میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ نے حیران کر دینے والی بہادری دکھائی اورا پنی جان کی بازی لگا کر ڈاکوﺅں سے رسولِ اکرم ﷺ کی اونٹنیاں واپس لیں،اس لئے انہیں اس لڑائی کا مرد ِمیدان یعنی سورما کہا جاتاہے۔اب سنئے کہ حضرت سلمہؓ نے ڈاکوﺅں کا پیچھا کس طرح کیا۔
حضرت سلمہؓ نے رسولِ کریم ﷺ کو چھاپے کی اطلاع دے کر مدد کا انتظار نہ کیا بلکہ فوراً درختوں کی آڑ لے کر اکیلے ہی چھاپا ماروں پرپتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔وہ بڑے بہادر اور غضب کے تیر انداز اور بہت تیز دوڑنے والے تھے۔جب تیر چلاتے تو یہ نعرہ لگاتے”یہ لے میں اکوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن چھٹی کا دودھ یاد کرانے کا دن ہے۔“
اس اکیلے بہادر نے ڈاکوﺅں کو ایسا عاجز اور مجبور کیا کہ وہ اپنی چوکڑی بھول گئے اور ساری اونٹنیاں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔حضرت سلمہؓ نے اونٹنیوں کو مدینہ کی طرف ہانک دیا اور خود ڈاکوﺅں کا تعاقب جاری رکھا۔وہ گھبراہٹ میں اپنی چادریں اور نیزے پھینکتے جاتے تھے اور اس اکیلے سورما کے سامنے بھاگتے جاتے تھے۔یہاں تک کہ انھوں نے تیس چادریں اور تیس نیزے پھینک دیئے۔حضرت سلمہؓ ہر چادر اور نیزے پر نشانی کے طور پر ایک پتھر رکھتے جاتے تھے پھر ان کا تعاقب شروع کر دیتے تھے۔جب پہر دن چڑھ گیا تو ایک جگہ ڈاکوﺅں نے حضرت سلمہؓ کا راستہ روک لیا۔وہ قریبی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ڈاکوﺅں کے سردار عیینہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ سلمہ کو پکڑنے کی کوشش کرو۔اس پر چارڈاکو حضرت سلمہؓ کی طرف بڑھے۔جب وہ چوٹی کے اتنے قریب پہنچے کہ حضرت سلمہؓ کی آوا ز سن سکیں تو حضرت سلمہؓ نے پکار کر ان سے کہا:
”کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں؟“
ڈاکوﺅں نے کہا:”تو کون ہے؟“
حضرت سلمہؓ نے کہا:
”میں اکوع کا بیٹا ہوں۔اس ذات پاک کی قسم جس نے محمدﷺ کو بزرگی بخشی،تم میں سے کسی کی مجال نہیں کہ مجھ کو پکڑ سکے۔اگر تم نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو کوئی بھی زندہ بچ کر نہیں جاسکے گا۔“
حضرت سلمہؓ اور ڈاکوﺅں کے درمیا ن یہی سوال و جواب ہو رہے تھے کہ حضرت اخرم اسدی،حضرت ابو قتادہ انصاری اور حضرت مقداد ؓ گھوڑے دوڑاتے حضرت سلمہؓ کی مدد کے لئے آپہنچے۔حضرت اخرمؓ تو ایک ڈاکو عبدا لرحمن فزاری کے ہاتھ سے شہید ہو گئے لیکن حضرت ابو قتادہ ؓ نے عبدالرحمن کو مار کر حضرت اخرم کا بدلہ لے لیا۔اب حضرت سلمہؓ ،حضرت ابو قتادہؓ اور حضرت مقدادؓ تینوں اپنے نیزے سیدھے کر کے ڈاکوﺅں کی طرف بڑھے۔اسی وقت رسولِ اکرم ﷺ کی بھیجے ہوئے کچھ اور سوار ان کی مدد کے لئے آپہنچے۔بزدل ڈاکو انہیںدیکھتے ہی دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔حضرت سلمہؓ کی نظر ایک ڈاکو پر پڑی جس کے پاس دو گھوڑے تھے۔انہوں نے اس کا پیچھا کیا تو وہ دونوں گھوڑے پیچھے چھوڑ کر قریبی جنگل میں کہیں غائب ہو گیا۔حضرت سلمہؓ دونوں گھوڑوں کو ہنکا کر واپس ذی قرد کے چشمے پر پہنچے جہاں رسولِ پاکﷺ اپنے پانچ سو جانثاروں کے ساتھ موجود تھے۔حضرت سلمہؓ نے گھوڑے حضو ر ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا:
”یا رسول اللہ !اگر آپ مجھے سو آدمی دے دیں تو میں ان ڈاکوﺅں کا نام ونشان مٹا ڈالو ںگا ،یہاں تک کہ کوئی خبر دینے والا بھی نہیں بچے گا۔“
حضور ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
”اے سلمہ !کیا تم واقعی ایسا کر گزرو گے؟“
حضرت سلمہؓ نے بڑے جوش سے عرض کیا:
”یا رسول اللہ!اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو بڑی شان اور عزت بخشی ہے،میں ایسا ہی کروں گا۔“
ان کا جواب سن کر حضور اکرمﷺ کو بڑی خوشی ہوئی اور آپﷺ نے ہنستے ہوئے فرمایا:
”اے اکوع کے بیٹے !اب جانے دو،بھاگ جانے والے دشمن سے درگزرکرو۔“
آنحضورﷺ کو جو واقعات اب تک پیش آئے تھے۔بتائے گئے تو آپﷺ نے فرمایا :
”ہمارے سواروں میں سب سے بہترین ابو قتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بہترین سلمہ بن اکوع ہیں۔“
ڈاکوﺅں سے اونٹنیاں واپس لے کر اور ان سے دو گھوڑے چھین کر حضرت سلمہؓ نے جو بہادری دکھائی ،رسول ِپاکﷺ نے اس کی تعریف فرمانے کے علاوہ اس طرح بھی داد دی کہ جب آپ ذی قرد سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو حضرت سلمہؓ کو اپنی سواری غضبائ(اونٹنی)پر اپنے پیچھے بٹھالیا۔دوسرے صحابی اپنی اپنی سواریوں پر آپﷺ کے ساتھ تھے۔جب یہ قافلہ مدینہ سے کئی میل دور تھا کہ ایک انصاری صحابی بار بار آواز لگانے لگے کہ کیا مدینہ تک دوڑ میں کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے۔حضرت سلمہؓ نے ان کی آواز سنی تو انھوں نے رسولِ پاکﷺ کی خدمت میں عرض کیا: 
”یا رسول اللہ !میرے ماں باپ آپ پر قربان،مجھے اجا زت دیں کہ میں ان کے ساتھ دوڑ لگا ﺅں“
حضور ﷺ نے فرمایا:”جو تمہاری مرضی۔“
اب انھوں نے انصاری صحابی سے کہا:
”تیار ہو جاؤ،میں تمہارے ساتھ دوڑ لگاؤں گا۔“چنانچہ دونوں اپنی اپنی سواریوں سے کود پڑے اور مدینہ کی جانب دوڑنے لگے۔حضرت سلمہؓ کہتے ہیںکہ”میں نے اسے تھوڑی دور تک مہلت دی اور اپنے آپ کو اس سے پیچھے رکھا پھر میں دوڑ کر اس سے مل گیا اور اس کے بازوﺅں پر اپنا ہاتھ مار کر کہا”خداکی قسم اب میں تجھ سے آگے بڑھا۔“وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا :”میرا بھی یہی خیال ہے۔پس مدینہ پہنچ کر میں اس سے آگے بڑھ گیا۔“
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمہؓ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسولِ پاک ﷺ سے بے انتہا محبت تھی۔آپ کے بارے میں کوئی غلط بات سن کر تڑپ اٹھتے تھے۔وہ حضور ﷺ کے ساتھ کافروں کے خلاف سات لڑائیوں میں شریک ہوئے۔ان کے علاوہ وہ نوایسے لشکروں میں شریک ہوئے جو رسولِ اکرمﷺ نے اسلام کے دشمنوں کی سرکوبی کے لئے باہر بھیجے ۔وہ ہر لڑائی میں جان ہتھیلی پر رک کر لڑے اور اپنے آپ کو اللہ کا شیر ثابت کیا۔بہادر ہونے کے ساتھ وہ بڑے سخی بھی تھے۔کسی سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے۔وہ ۴۷ہجری میں اس دنیا میں سے رخصت ہوئے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top