skip to Main Content
عوام کا مقدمہ

عوام کا مقدمہ

حماد ظہیر

 …………………………….
جہاں پناہ ! عوام کے نمائندے آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں

…………………………….

پس منظر: ہم میں اور سنی میں یہ بحث چل پڑی کہ حکومت زیادہ طاقتور ہوتی ہے یا عوام۔چھٹی کے دن تھے،اکثر اوقات بجلی بھی چلی جاتی تھی۔لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ میدان میں ایک دوسرے کے مدّ مقابل آ کر خود ہی فیصلہ کر لیا جائے۔دالان میں دربار سجا۔ہم بادشاہ سلامت بنے،فوزی آپی ہماری طرف تھیں وہ ملکہ عالیہ بنیں۔سنی اور عفت عوام بن گئے۔ ٹیپو ان چکروں سے دور بھاگنا چاہتا تھا ،اسے وزیر بنا دیا گیا۔فوزی آپی اکنامکس پڑھا کرتی تھیں،انہوں نے کچھ اُصول طے کئے اور ہم نے کھیل شروع کیا۔
منظر: ہم اور فوزی آپی دو بڑی بڑی کرسیوں پر بادشاہ اور ملکہ بنے بیٹھے ہیں۔

*۔۔۔*

فوزی آپی:بادشاہ سلامت کہیے، آپ کو ہمارے ہاتھ کے ٹنڈے پسند آئے۔
ہم:(سہم کر) جی ملکہ عالیہ، ساری زندگی آپ کے ہاتھ سے ڈنڈے کھائے ہیں،ان سے تو یہ ٹنڈے ہی غنیمت ہیں۔
فوزی آپی:بتائیے آج کھانے میں کیا کھائیں گے؟
ہم:(تابعداری سے) جو آپ کا دل چاہے کھلا دیجئے گا۔
فوزی آپی:بس تو پھر آج کا کھانا ہم باہر کھائیں گے،بروسٹ اور برگر،وزیرِ مملکت سے کہیے گا رکشہ لا دیں!
(وزیر کا نام لیتے ہی ٹیپواندر داخل ہوتا ہے)
ٹیپو: جہاں پناہ ! عوام کے دو نمائندے آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں!
ہم:(منہ بنا تے ہوئے) اس وقت؟ (ہاتھ میں بندھی گھڑی دیکھتے ہوئے) کیا انہوں نے اپائنٹمنٹ لیا تھا؟
ٹیپو:(سر کھجا کے) یہ تو آپ انہی سے پوچھےئے، میں بلاتا ہوں۔
(ٹیپو باہر چلا جاتا ہے، اور کچھ دیر کے بعد سنی اور عفّت کے ساتھ اندر آتا ہے)
سنی:آداب بادشاہ حضور!
عفّت: آداب ملکہ حضور!
ہم:(رعب سے) کہو کیسے آنا ہوا!
سنی:(لاپروائی سے) ایسے ہی ۔۔بور ہورہا تھا ،سوچا چل کر گپ شپ کرتے ہیں۔
فوزی آپی:حدِّ ادب۔
ہم:(دھاڑ کر)گستاخ!
سنی: جی وہ فصل اگانے کا زمانہ آگیا ہے، ہمیں بیج اور کھاد وغیرہ خریدنے کیلئے قرضہ چاہئے۔
فوزی آپی:ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کیا ہوں گی؟
عفّت:(حیرانی سے) جی۔۔۔کیا کہا؟
ہم:ٹھیک ہے،مل جائے گا قرضہ،لیکن تمہیں دو تہائی فصل ہمیں دینی ہوگی۔
عفّت:ہم تو آپ کو صرف دہائیاں ہی دے سکتے ہیں۔
فوزی آپی:کیا؟
ٹیپو: جی ان کا مطلب ہے کہ یہ ایک دہائی حصہ دے سکتے ہیں۔
ہم:(فیصلہ کرتے ہوئے)نہ دہائی نہ تہائی،بیچ کی بات کرتے ہیں۔بس آدھی فصل تم ہمیں قرضہ واپسی کی صورت میں دے دینا۔اب جاؤ۔
(ٹیپو،عفّت اور سنی کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے،پھر اکیلا اندر آ کر پوچھتا ہے)
ٹیپو:(سرگوشی میں)حضور!تین دن گزارنے ہیں، کیسے گزاروں؟
ہم:آج تاریخ کیا ہے وزیر صاحب؟
ٹیپو:پندرہ جون!
ہم:اب کیاتاریخ ہوگئی؟
ٹیپو:(حیرت سے) پندرہ ہی ہے!
فوزی آپی: غور سے دیکھئے وزیر صاحب اٹھارہ ہوگئی ہے!
(ٹیپو چونکتا ہے اور پھر خوشی خوشی باہر چلا جاتا ہے۔کچھ دیر کے بعد سنی اور عفّت کے ساتھ آتا ہے)
ٹیپو:حضور والا ! یہ عوام کے نمائندے آپ سے پھر کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔
فوزی آپی:عرض کیا جائے!
عفّت:عرض کیا ہے۔۔
خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔۔
ہم:(دھاڑ کر) شعر نہیں بلکہ مدّعا بیا ن کرو۔
سنی:حضور ہمارے کھیتوں میں جو نہر آتی ہے اس کا پانی بند کر دیا گیا ہے ہم فصل کیسے اگائیں؟
ہم:حکومت کا کثیر اثاثہ خرچ ہوتا ہے نہر کھدوانے میں۔اب ہم صرف اسی کو پانی دیا کریں گے جو ہمیں پانی کا ٹیکس دیا کرے گا۔
سنی:مگر اس پانی سے جو فصل اگتی ہے وہ تو آدھی آپ ہی کو دی جاتی ہے یعنی حکومت کو ہی تو فائدہ ہوتا ہے۔
ہم:ہمیں مزید نہریں بنوانے کیلئے اور اثاثہ چاہئے۔
سنی: مگر ہمارے پاس مزید کچھ نہیں ہے دینے کیلئے!(سنی اپنی خالی جیبیں باہر نکال کے دکھاتا ہے)
فوزی آپی:تمہارے پاس جو آدھی فصل بچ رہے گی اس کا آدھا بھی ہمیں دے دو۔
سنی: وہ تو ویسے ہی عوام کیلئے ناکافی پڑتی ہے۔
ہم: اچھا تویہ بتاؤ تم ہل کتنے بیلوں سے چلاتے ہو؟
عفّت:چار بیل۔آپ نے سنی ہو گی نا کہانی چار تھے بیل۔
ہم: بس اس میں سے ایک بیل ہمیں دے جانا۔
سنی:مگر اس طرح تو پیداوار کم ہو جائے گی۔
فوزی آپی:اس کا حل ہم تمہیں بتاتے ہیں۔پہلے یہ بتاؤ کہ تم کتنے گھنٹے کام کرتے ہو؟
سنی:صبح سات سے دوپہر ایک بجے تک۔
فوزی آپی:یعنی چھ گھنٹے چار بیلوں کے ساتھ۔اگر تم تین بیلوں کے ساتھ آٹھ گھنٹے کام کرلوتو پیداوار میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
عفّت:پھر اگلے سال کیا ہو گا؟
ٹیپو:ایک بیل اور دے دینااور بارہ گھنٹے کام کرنا۔
عفّت: اور اس کے اگلے سال؟
ہم:(جلدی سے حساب لگا کر) ایک بیل اور دے دینا اور چوبیس گھنٹے کام کرنا۔
عفّت :(ڈرتے ہوئے) اور اس کے اگلے سال؟
(ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں)
فوزی آپی:ہمارا دورِ حکومت پانچ سالہ ہے،اس کے بعد کے ہم ذمہ دار نہیں!
سنی:ٹھیک ہے،آپ پانی کھولیں۔
ہم:(اسی کے انداز میں)ٹھیک ہے آپ ایک بیل کھولیں۔
(سنی اور عفّت باہر نکل جاتے ہیں،پھر فوراََ ہی پلٹ کر واپس آتے ہیں)
ہم:اب کیا ہوا؟
سنی:حضور والا! تین ماہ بیت گئے ہیں،ذرا پوچھئے اپنے وزیر سے۔
ٹیپو:(خود ہی سے بول پڑتا ہے)ہاں آج پندرہ ستمبر ہے۔
سنی:حضور یہ تو ظلم ہے،آپ فوراََ کچھ کیجئے!
فوزی آپی:آخر ایسا کیا ہو گیا؟
سنی:آپ کے کچھ سپاہی ہمارے کھیتوں میں نکل آئے اور ان کے گھوڑوں نے ہماری فصل کا کافی صفایا کردیا۔
ہم:وہ ملک و قوم کے رکھوالے ہیں،یہ ان کا حق ہے۔
سنی:(برہم ہو کر)پھر ہم جو اتنے بھاری بھاری ٹیکس اور تاوان حکومت کو دیتے ہیں وہ کہاں جاتا ہے؟
ہم:(بڑبڑا کر)ابھی تک تو سپاہیوں کو جاتا تھامگر اب نہیں جائے گا!
عفّت:(خوش ہو کر)یعنی سارے ٹیکس معاف؟
ہم:نہیں بلکہ وہ شاہی خزانے میں جمع ہو گا۔اور انہیں ہدایت دے دی جائے گی کہ اپنا اور اپنے گھوڑوں کا پیٹ کھیت اور کھیت والوں سے پالیں۔
سنی:مگر ہم ٹیکس بھی دیں اور یہ رشوت بھتّہ بھی،آخر کیوں؟
فوزی آپی:(سمجھاتے ہوئے)بھئی یہ قوم کے محافظ ہیں،ان کی خدمت کرنا عوام کا فرض ہے!
سنی:ایک وقت میں ایک ہی کی خدمت کر سکتے ہیں،یا تو حکومت کی یا عوام کے محافظوں کی۔
ہم : (گرج کر) گستاخ۔۔ اپنی زبان کو لگام دو۔
سنی: لگام تو حضور آپ دیجئے اپنی لالچ اور حرص کو۔ ورنہ یہ آپ کو گھسیٹ کر ایسا گرائے گی کہ پھر اٹھ نہ سکیں گے۔
فوزی آپی: (تحکمانہ انداز میں) اس بد زبان کی بے باکی حد سے بڑھتی جا رہی ہے۔جلّاد۔۔ اڑا دو اس کی گردن۔
(ٹیپو ادھر ادھر دیکھتا ہے جیسے جلّاد کو ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر خود ہی آگے بڑھ کر سنی کی گردن اڑا دیتا ہے۔ سنی زمین پر گر جاتا ہے۔ عفّت ’’بھیّا۔ بھیّا‘‘ کہہ کر رونے لگتی ہے۔)
ہم: وزیر صاحب ! لے جائیے اس کی لاش اور چوراہے پر لٹکادیجئے، تاکہ سب کو پتا چل جائے کہ ہماری حکم عدولی کی سزا کیا ہے!
(ٹیپو سنی کو گھسیٹ کر باہر لے جاتا ہے،عفّت بھی چلی جاتی ہے۔ پھر ٹیپو واپس آتا ہے۔)
ٹیپو: حضور عوام کے کچھ اور نمائندے آئے ہیں آپ سے ملنے۔
فوزی آپی: حاضر کیا جائے۔
(ٹیپو باہر چلا جاتاہے اور سنی اور عفّت کے ساتھ واپس آتا ہے۔)
ہم : (گھبرا کر) ارے یہ تو وہی ہے!
سنی: (گا کر) ہر گھر سے میں ہی نکلوں گا، تم کتنے بندے مارو گے؟
فوزی آپی: کہو۔ کیسے آنا ہوا؟
سنی: (مؤدب ہو کر) ہم یہ کہنے آئے ہیں کہ سپاہیوں کی لوٹ مار کے بعد ہمارے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔
ہم: اگر ہمیں دو گے نہیں تو تمہیں بھی کوئی قرض وغیرہ نہیں ملے گا۔
سنی: (کندھے اچکاتا ہے۔) مجبوری ہے!
(سنی اور عفّت باہر چلے جاتے ہیں)
ہم: (فوزی آپی سے) آج کیا پکا ہے ملکہ عالیہ؟
فوزی آپی: شاشلک جہاں پناہ!
ٹیپو: حضورچھ ماہ اور گزر گئے ہیں!
ہم: ارے بدمعاش، تم تو ٹائم مشین سے بھی دو ہاتھ آگے ہو۔ کم از کم شاشلک تو کھالینے دیتے۔
ٹیپو: تو اب کھالیجئے۔
ہم: آج کیا پکا ہے ملکہ عالیہ؟
فوزی آپی: (غصّہ سے) کچھ نہیں پکا۔ سارا راشن ختم ہوگیا ہے، فرج خالی پڑا ہے۔ نہ آٹا ہے، نہ دال چاول، نہ گھی چینی!
ہم: (گرج کر) عوام کے کسی نمائندے کو حاضر کیا جائے۔
(ٹیپو جلدی سے سنی اور عفّت کو لے کر آتا ہے۔)
ہم: کیوں عوام۔۔ تم نے اس مرتبہ ہمیں ہمارا حصّہ کیوں نہیں پہنچایا۔
سنی: حضور دراصل ہم نے ہڑتال کردی ہے۔ پچھلی فصل کا کافی حصہ آپ کے گھوڑے۔۔ میرا مطلب ہے سپاہی کھا گئے۔ کچھ بچا کچھا ہمیں نصیب ہوا۔نہ آپ کو حصّہ دیا، نہ آپ سے قرض لیا۔ اب ہم تو فصل اگانے سے رہے، اب یا تو آپ خود فصل اگائیے، یا اپنے سپاہیوں سے اگوائیے!
عفّت: اپنا اگاؤ۔ اپنا کھاؤ!
فوزی آپی: اگر سپاہی فصل اگانے لگے تو پھر ملک کی حفاظت کون کرے گا؟
سنی: کس ملک کی؟ یہاں بچا ہی کیا ہے، یا یوں کہئے کہ یہاں چھوڑا ہی کیا ہے؟
ہم: (غصّہ سے) اس گستاخ کو ستّر کوڑے مارے جائیں!
ٹیپو:(دل پہ ہاتھ رکھ کر) ستّر!
(ٹیپو جلدی جلدی ہاتھ چلاتا ہے گویا کوڑے مار رہا ہو۔ سنی مزے سے کھڑا مسکراتا رہتا ہے۔)
ہم: اب کچھ عقل آئی؟
سنی: کتنے بھی کوڑے مار لیں، اس سے فصل تو نہیں اگ جائے گی۔
ہم: یعنی ابھی عقل ٹھکانے نہیں آئی۔ ستّر کوڑے اور مارے جائیں!
ٹیپو: (ناگواری سے، کہ کوڑے مارنے میں مشقّت تو اسے اٹھانی پڑتی ہے۔) حضور میں اب مزید ظلم نہیں کر سکتا، آپ خود ہی یہ خدمت انجام دیجئے!
(ہم اور فوزی آپی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں)
فوزی آپی: ٹھیک کہہ رہا ہے جہاں پناہ۔ کچھ سمجھائیے بجھائیے، کوڑے مارنے سے ہمارا پیٹ تو نہیں بھر سکتا نا!
ہم: اچھا۔ عوام۔۔ بتاؤ تمہاری کیا شرائط ہیں جن پر تم فصل اگاؤ گے!
(سنی جلدی سے جیب میں سے ایک لمبی سی لسٹ نکالتا ہے جو زمین تک جارہی ہوتی ہے۔)
ہم: (گھبرا کر) نن۔۔ نہیں۔ چیدہ چیدہ بتاؤ۔
سنی: کوئی سپاہی یا اس کا گھوڑا ہماری فصل سے ایک پتّا بھی نہیں کھائے گا۔
ہم: منظور ہے۔ اب جاؤ اور فصل اگاؤ، بہت بھوک لگی ہے!
سنی: ابھی تو چیدہ چیدہ کا صرف چ ہی بتایا ہے۔
فوزی آپی: ہوں۔۔ بولو۔
سنی: ہم آپ کو فصل مارکیٹ کے ریٹ میں بیچیں گے اور پھر پیسوں میں قرض چکائیں گے!
ہم: نن نہیں!
سنی: پھر ہماری طرف سے بھی نن نہیں۔ بھوکے مر جائیں گے، مگر آپ کو فصل اگا کر نہیں دیں گے!
ہم: (پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے) اچھا اچھا ٹھیک ہے۔
سنی: اور نہر تو کبھی بند ہوگی نہیں بلکہ آپ ہم سب کو ٹیوب ویل بھی لگا کر دیں گے!
(ہم بے بسی سے ٹیپو کی طرف دیکھتے ہیں)
ٹیپو: ٹھیک ہے۔
عفّت: اور حکومت ہر سال ہم سے ایک بیل لینے کے بجائے ہمیں ایک ٹریکٹر دے گی۔
(ہم دل پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر چکراتے ہیں اور پھر بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ فوزی آپی جلدی سے پانی کے ایک گلاس سے ہمیں چھینٹیں مارتی ہیں)
فوزی آپی: ٹھیک ہے ٹھیک ہے اب تم لوگ جاؤ اور اپنا کام کرو۔
(عفّت اور سنی باہر نکل جاتے ہیں ان کے جاتے ہی ہم ہوش میں آجاتے ہیں)
ہم: وزیر صاحب پردہ تو گرادیں، ہمیں سچ مچ بھوک لگ رہی ہے، کیا یہ ڈرامہ یوں ہی چلتا ہی رہے گا۔
(سنی بھاگا بھاگا واپس آتا ہے)
سنی: حمزہ کے بچّے غضب ہوگیا۔ لگتا ہے کسی حکومت کے نمائندے نے ہمارا ڈرامہ باہر سن لیا۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ پانی پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔
ہم سب: اوہ۔۔
(سب دل پکڑ کر یا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں)
ٹیپو: مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر سمجھ کر یہ تمثیلی ڈرامہ عوام بھی سن لیتی!
(پردہ گرتا ہے)

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top