skip to Main Content
علامہ اعصمی

علامہ اعصمی

علامہ اصمعی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار اسلامی تاریخ کامشہور بزرگوں میں ہوتا ہے، وہ نہ صرف قرآن پاک، حدیث،ریاضی، تاریخ ور عربی زبان کے بہت بڑے عالم تھے۔ بلکہ ان کو علم حیوانات میں بھی کمال حاصل تھا۔ علم حیوانات یا حیوانات کا مطلب یہ ہے کہ مختلف بے زبان جانوروں مثلاً اونٹوں، گھوڑوں، بھیڑ بکریوں اور جنگلی جانوروں مثلاً شیروں، چیتوں، بندروں، بھیڑیوں، ہاتھیوں وغیرہ کی عادتوں،بیماریوں، ان کے علاج، خوراک وغیرہ کے بارے میں ہر قسم کی واقفیت حاصل کرنا، کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے سائنس داں ہیں، جنہوں نے اس علم میں بڑی تحقیق کے بعد کئی کتابیں لکھیں۔
علامہ اصمعی رحمتہاللہ علیہ 740 عیسوی میں عراق کے شہر بصرہ میں ایک نہایت غرایب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالملک بن قُریب تھا، لیکن انہوں نے اپنے لقب اصمعی سے شہرت پائی۔
علامہ اصمعی رحمتہ اللہ علیہ نے ذرا ہوش سنبھالا تو والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور کوئی دوسرا سہارا بھی نہ رہا۔ والدین نے ایک معمولی مکان کے سوا اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑا تھا، اس لیے اصعی بڑی تنگی ترشی سے گزارا کرتے تھے۔ اللہ کی قدرت کہ جس قدروہ غریب تھے، اتنا ہی ان کو عالم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ یہ شوق پورا کرنے میں انہوں نے دن رات ایک کردیے اور اتنی مصیبتیں جھیلیں کہ ان کا حال پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ان کے شوق اور محنت کا یہ نتیجہ تھا کہ ایک دن وہ بہت بڑے عالم بنے اور عالم بھی اتنے دولت مند کہ بڑے بڑے امیر لوگ ان پر رشک کرتے تھے۔ بے شمار غریب لوگ ان کے دسترخوان پر روٹی کھاتے تھے۔
علامہ اصمعی رحمتہ اللہ علیہ نے بچپن میں اپنی غریبی، علم حاسلکرنے کے شوق اور اپنی ترقی کا حال اس طرح بیان کیا:
“میں نے بچپن میں تعلیم حاصل کرنی شروع کی تو سخت غریب اور بے سہارا تھا۔ گھر میں کبھی کھانے کو کچھ مل جاتا اور کبھی فاقہ کرنا پڑتا۔ کسی دوسرے کو اپنی غریبی کا حال بتا کر اس کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرم آتی تھی۔ گھر میں کوئی ایسی چیز بھی نہ تھی جسے بیچ کر کچھ حاصل ہوجاتا۔ جب بھوک سے نڈھال ہوجاتا تو گھر کی اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر بیچتا تھا اور کچھ مل جاتا، اسی سے پیٹ پالتا تھا۔ اس پریشانی کی حالت میں بھی علم حاصل کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ دن ہو یا رات، اپنے وقت کا زیادہ حصہ اسی کام میں گزر جاتا تھا۔ ہر روز صبح سویرے اپنے پھٹے پرانے کپڑے پہن کر باری باری بصرہ شہر کے کئی عالموں کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ کسی سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرتا، کسی سے تاریخ کا درس لیتا۔ کسی سے ریاضی کا اور کسی سے کسی اور علم کا سبق لیتا تھا۔
جس گلی میں میرا گھر تھا۔ اس میں ایک سبزی بیچنےو الے کی دکان تھی۔ وہ مجھے گلی میں آتے جاتے دیکھ کر اکثر مجھ سے پوچھا کرتا،میاں! کہاں گئے تھے یا کہاں سے آرہے ہو۔ جب اسے بتاتا کہ فلاں عالم کے پاس دین کا علم حاصل کرنے گیا تھا یا فلاں عالم سے تاریخ یا ریاضی وغیرہ کا علم حاصل کرکے آرہا ہوں تو میری ہنسی اڑاتا اور مجھ سے ہمدردی جتاتے ہوئے کہتا: “میاں! تم کس بکھیڑے میں پڑ گئے ہو، میری مانوں تو کوئی ایسا ہنر سیکھ لو جس سے روزی کماسکو۔ ان کتابوں میں اپنا مغز کھپا کر تم اپنا وقت برباد کررہے ہو، ان کتابوں سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر تم یہ ساری کتابیں ایک روٹی کے بدلے میں مجھے دینا چاہو تو خدا کی قسم میں انہیں ہرگز نہیں لوں گا”۔
اس سبزی فروش کی ہر روز کی ایسی باتوں نے میرا ناک میں دم کردیا۔ مجبور ہو کر میں اندھیرے منہ گھر سے نکلتا، جب اس کی دکان کھلی نہ ہوتی اور رات گئے اس وقت واپس آتا جب اس کی دکان بن ہوجاتی۔ اس طرح کئی سال گزر گئے۔ ان چند سالوں میں کوئی علم ایسا نہیں تھا جس میں میںنے کمال حاصل نہ کرلیا ہو، میرے سارے استادوں کاشمار اس زمانے کے بہت بڑے عالموں میں ہوتا تھا اور لوگ ان کو بہت مانتے تھے۔
میں نے جس شوق اور محنت سے تعلیم حاصل کی تھی، اس کی وجہ سے میرے استاد میری بہت قدر کرتے تھے اور اپنے دوسرے شاگردوں اور عام لوگوں کے سامنے میرے بے حد تعریف کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ سب لوگ مجھے بہت اونچے درجے کے عالموں میں شمار کرنے لگے۔ اس طرح میری شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اتنا مشہور ہو کر بھی میری حالت میں کوئی فرق نہ آیا، کیوں کہ میں کسی کو اپنی غریبی کا حال نہیں بتاتا تھا۔ چند نوجوانوں نے میری شاگردی اختیار کرلی تھی۔ وہ کبھی کبھی کھانے پینے کی کچھ چیزیں ہدیے کے طور پر مجھے دے دیتے تھے اور میں کئی کئی دن انہی چیزوں پر گزارا کرتا تھا۔
ایک دن تو مجھ پر ایسا بھی آیا کہ گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ میں گھر کا دروازہ بند کرکے بھوکا پیاسا لیٹا ہوا تھا کہ اچانک کسی نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک شخص عمدہ لباس پہنے کھڑا ہے۔ اس نے مجھے بڑے ادب سے سلام کیا اور کہا: “میں بصرہ کے امیر (گورنر) محمد بن سلیمان کا خادم خاص ہوں۔ انہوں نے آپ کو یاد فرمایا ہے اور میں آپ کو ان کے پاس لے جانے کے لیے آیا ہوں”۔
میں نے کہا: “بھائی! مجھے آپ کے ساتھ جانے میں کوئی عذر نہیں لیکن میرے پاس تو اپنے ان پیوند لگے کپڑوں کے سوا اور کوئی ڈھنگ کا لباس بھی نہیں، جسے پہن کر امیر کے پاس جاسکوں”۔
یہ سن کر وہ شخص خاموشی سے چلاگیا، لیکن تھوڑی دیر بعد وہ پھر آیا اور عمدہ کپڑے کے تین چار جوڑے میرے سامنے رکھ دیے۔جن پر ایک زار اشرفیوں کی تھیلی بھی رکھی ہوئی تھی۔
میں نے پوچھا : “اب آپ کیسے تشریف لائے ہیں”۔
اس نے کہا : “یہ چیزیں امیر نے آپ کی خدمت میںبھیجی ہیں۔ آپ نہاد ھو کر ان جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہن لیں اور میرے ساتھ چلیں”۔
میں نے نہا دھو کر کپڑے تبدیل کیے اور اس شخص کے ساتھ امیر کے پاس پہنچ گیا۔
امیر محمد بن سلیمان نے بڑے تپاک سے میرا استقبال کیا اور بڑی عزت کے ساتھ مجھے اپنے پاس بٹھا کر کہا: “ہماری خلیفہ امیر المومنین ہارون الرشید کو اپنے بیٹے شہزادہ امیر الرشید کی تعلیم و تربیت کے لیے اتالیق (استاد) کی ضرورت ہے، میرے خیال میں اس خدمت کے لیے آپ سے بڑھ کر کوئی اور عالم موزوں نہیں۔ اگر آپ اس کام کا ذمہ لے سکتے ہیں تو میں آپ کو خلیفہ کی خدمت میں بغداد بھیج دیتا ہوں”۔
میں نے کہا: “مجھے یہ خدمت انجام دے کر بہت خوشی ہوگی”۔
امیر نے کہا: “آپ کا شکریہ، آپ بغداد جانے کے لیے تیار ہو کر کل صبح میرے پاس پہنچ جائیں۔ اب گھر جا کر آپ سفر کی تیاری کریں”۔
دوسرے دن صبح کو میں نے چند ضروری کتابیں اپنے ساتھ لیں اور اپنا گھر ایک رشتے دار بوڑھی خاتون کے سپرد کرکے امیر کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے خلیفہ کے نام ایک خط میرے سپرد کیا اور اپنے ایک ملازم کو حکم دیا کہ مجھے دریا کے کنارے تک پہنچادے۔ وہ مجھے دریا کے کنارے لے آیا، جہاں ایک خاص کشتی میرے لیے کھڑی تھی۔ میں اس میں سوار ہو کر بغداد پہنچ گیا۔ بغداد پہنچ کر میں نے ایک دن آرام کیا اور دوسرے دن شاہی دربار میں خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سلام کرکے امیر محمد بن سلیمان کا خط خلیفہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ خلیفہ نے خط پڑھ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا: “عبدالملک بن قُریب الاصمعی آپ ہی کا نام ہے”۔
میں نے عرض کیا: “جی ہاں حضور! اس بندے ہی کو عبدالملک بن قُریب الاصمعی کہتے ہیں”۔
خلیفہ نے کہا: “میں اپنے پیارے بیٹے محمد امین کو تعلیم و تربیت کے لیے آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اسے ہر مضمون کی تعلیم ایسے عمدہ طریقے سے دیں گے کہ اس کے دین اور عقیدے میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوا”۔
میں نے عرض کیا: “امیر المومنین! جیسا آپ چاہتے ہیں، میں یہ خدمت اسی طرح انجام دوں گا”۔
اتنے میں شہزادہ محمد امین بھی دربار میں آگیا۔ خلیفہ نے اس کو میرے سامنے کرکے کہا: “یہ تمہارے استاد ہیں”۔
اس وقت دربار میں موجود تمام امیروں نے شہزادے کے سر پر ہزاروں اشرفیاں نچھاور کیں۔ یہ سب اشرفیاں مجھے دے دی گئیں۔ اس کے بعد خلیفہ کے حکم سے ایک شاندار محل ہر قسم کے سامان سمیت اس مقصد کے لیے میرے سپرد کیا گیا کہ اس میں بیٹھ کر شہزادے کی تعلیم و تربیت کی خدمت انجام دوں۔ محل کے ساتھ کئی ملازم بھ میری خدمت کے لیے مقرر کردیےگئے۔ خلیفہ نے دو ہزار اشرفیاں میری ماہانہ تنخواہ مقرر کی اور حکم دیا کہ میرے لیے ہر روز شاہی باورچی خانے سے کھانا آیا کرے اور یہ کھانا اس کھانے میں سے دیا جائے، جوخاص خلیفہ کے لیے تیار کیاجاتا ہے۔
شہزادے کا اتالیق ہونے کی وجہ سے خلیفہ مجھ پر بہت مہربان تھا۔ اگر میں کسی کی سفارش کرتا تو اس کو ہمیشہ منظور کرلیتا۔ لوگ بھی مجھ کو اکثر قیمتی تحفے بھیجتے رہتے تھے۔ تنخواہ سے اور اس طریقے سے جو رپہ میرے پاس جمع ہوگیا، میں نے اپنے بعض دوستوں کے پاس بصرہ بھیج دیا۔ انہوں نے میرے لیے بصرہ میں کافی جائیداد خریدلی اور میرے لیے ایک شاندار مکان بھی تیار کرالیا۔
میں کئی سال تک شہزادہ محمد امین الرشید کو بڑی محنت سے تعلیم دیتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ سارے مضامین میں طاق ہوگیا۔ اب میں ایک دن شہزادے کو خلیفہ کے پاس لے گیا اور اس سے درخواست کی کہ میں نے آپ کی خواہش کے مطابق شہزادے کو تعلیم دے دی ہے، آپ اس کا امتحان لے لیں۔
خلیفہ نے ہر علم اور فن میں شہزادے کا امتحان لینے کے لیے بے شمار سوال کیے۔ شہزادے نے ہر سوال کا صحیح جواب دیا۔ اس پر خلیفہ بہت خوش ہوا۔ اب انہوں نے کہا کہ میں شہزادے کو چند خطبے یاد کرادوں۔ میں نے چند عمدہ خطبے اس کو یاد کرادیے۔ اس کے بعد جو جمعہ آیا تو شہزادے نے بڑے اچھے طریقے سے جامع مسجد میں خطبہ پڑھا اور پھر نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس پر تمام وزیروں اور امیروں نے خلیفہ کو مبارکباد دی اور ہزاروں اشرفیاں مجھے انعام میں ملیں۔ اس طرح میرے پاس ایک بڑی رقم جمع ہوگئی۔ اس کے بعد خلیفہ نے میرے ماتھے کو چوم کر کہا: “آپ نے اپنا فرض ادا کردیا، اب آپ کا حق ہے جس چیز کی خواہش ہو، مجھ سے مانگ لیں”۔
میں نے عرض کیا: “امیر المومنین میری صرف اتنی درخواست ہے کہ اب مجھے بصرہ واپس جانے کی اجازت دیں”۔
خلیفہ نے فرمایا: “آپ بخوشی بصرہ جاسکتے ہیں”۔
اس کے ساتھ ہی اس نے اشرفیوںکی بہت سی تھیلیاں بہت سے قیمتی کپڑے اور اعلیٰ قسم کے گھوڑے مجھے انعام میں دیے اور بصرہ کے امیر کو لکھ بھیجا کہ میرا شاندار استقبال کیا جائے۔
پھر میں کئی ملازموں کے ساتھ خلیفہ کو دعائیں دیتا ہوا بغداد سے روانہ ہوا۔ بصرہ پہنچا تو بصرہ کے امیر نے شہر کے ہزاروں لوگوں کے ساتھ میرا استقبال کیا اور ایک جلوس کی صورت میں مجھے اپنے گھر پہنچایا۔ میراگھر اب ایک شاندار محل کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ جب جلوس کے لوگ واپس جانے لگے تو اچانک میری نظر اس سبزی فروش پر پڑی جو ہر روز میری ہنسی اڑایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ کتابیں چھوڑو اور کوئی دوسرا کام سیکھو، اب وہ میری شان و شوکت دیکھ کر سخت حیران تھا۔ میں نے اسے اپنے قریب بلا کر اس کا حال پوچھا۔
اس نے کہا: “آپ نے جس حال میں مجھے چھوڑا تھا، میں آج تک اسی طرح سبزی بیچ کر اپنی روزی کماتا ہوں، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی عزت دی ہے”۔
میں نے اس سے کہا: “یہ سب ان کتابوں کی بدولت مجھے حاصل ہوا ہے، جن میں مغز کھپانے سے تم مجھے منع کرتے تھے”۔
سبزی فروش نے کہا: “میں اپنی بے وقوفی پر شرمندہ ہوں، اب مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ علم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔
میں نے سبزی فروش کو گلے لگایا اور اپنی جائیداد کا انتظام اس کے سپرد کردیا۔ علامہ اصمعی رحمتہ اللہ علیہ اس کے بعد عمر بھر غریبوں اور حاجت مندوں کی دل کھول کر مدد کرتے رہے، انہوں نے 828ء میں وفات پائی اور بہت سی کتابیں اپنی یادگار چھوڑیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top