skip to Main Content

طوطا کہانی

محسن خان

۔۔۔۔۔

دانش جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اس کی نظر طوطے پر پڑی ۔ایک بڑا سا پہاڑی طوطا لان میں امرود کے درخت پر آرام سے بیٹھا چونچ سے اپنے پر کھجا رہا تھا ۔دانش کو بڑی حیرت ہوئی ۔اس نے کئی طرح کے طوطے دیکھے تھے مگر یہ طوطا ان سب طوطوں سے زیادہ خوبصورت اور بڑا تھا ۔اس کے پرو ں میں کئی رنگ تھے۔چونچ سرخ تھی اور پنجے بھی لال تھے ۔اپنے گھر کے لان میں اتنا بڑا اور خوبصورت طوطا دیکھ کر دانش کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ سچ مچ کسی طوطے کو دیکھ رہا ہے یا کوئی خواب دیکھ رہا ہے ۔وہ دبے قدموں سے طوطے کے قریب گیا۔ طوطے نے اس طرح اس کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ،”فرمائیے، کیا بات ہے؟“
دانش کو طوطے سے ذرا سا بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا ۔اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ طوطا اپنی نیل کٹر سے بھی بڑی چونچ سے اس کی انگلی کاٹ لے گا ۔ قریب جاکر اس نے طوطے کے سر پر آہستہ آہستہ انگلی پھیری ۔ طوطے نے سر کو جھکا لیا اور آنکھیں بند کر لیں ۔ کچھ دیر تک سر سہلانے کے بعد دانش نے انگلی طوطے کے پنجوں کے پاس رکھی ۔ طوطے نے پہلے ایک پنجہ دانش کی انگلی پر رکھا پھر دوسرا پنجہ بھی اسکی انگلی پر رکھ دیا ۔ انگلی پہ طوطے کو بٹھا کر دانش اتنا خوش ہو ا جیسے وہ امتحان میں سب سے زیادہ نمبر لے آیا ہو۔ وہ دوڑتا ہوا گھر کے اندر گیا۔ دانش کی ممی نے اس کی انگلی پر طوطا دیکھا تو پوچھا ،”یہ طوطا تم کہاں سے لے آئے؟“
”لان میں امرود کے درخت پر بیٹھا تھا ۔“دانش نے جواب دیا ۔
”کسی کا پالتو معلوم ہوتا ہے۔اسے اڑا دو ،جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جائے گا۔ “ممی نے کہا ۔
”اڑاﺅں گا نہیں میں اسے پالوں گا۔ “ دانش نے کہا اوروہ طوطے کو لے کر دادی ماں کے کمرے میں گیا ۔دادی ماں موٹی سی چونچ والے بڑے سے طوطے کو دیکھ کر ایسی ڈریں کہ ایک طرف کو لڑھک گئیں۔ اگر انہیں دیوار کا سہارا نہ مل جاتا تو فرش پر ہی گر جاتیں ۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر کچھ دیر تک طوطے کو دیکھتی رہیں پھر سنبھل کر بیٹھ گئیں اور انھوں نے دانش سے کہا ”ائی اتنا بڑا؟ کمبخت مارا طوطا ہے کہ الّو۔“
دانش نے کہا،” دادی ماں یہ الّونہیں طوطا ہے،پہاڑی طوطا۔ “
دادی ماں نے ایک بار پھر غور سے طوطے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ” یہ تمہاری انگلی پہ اس طرح بیٹھا ہے

جیسے تمیں پہچانتا ہو۔“
”دادی ماں یہ میرے کاٹ بھی نہیں رہا ہے۔“اس نے کہا ، ”یہ دیکھئے!“ دانش نے اپنی انگلی طوطے کی چونچ کے قریب کی تو طوطے نے چونچ کا رخ دوسری طرف کر لیا ۔
”کسی کا پالتو ہے ۔یہ تم کو کہاں مل گیا۔ “دادی ماں نے پوچھا ۔
”لان میں امرود کے درخت پر بیٹھا اپنے پر کھجا رہا تھا۔“دانش نے جواب دیا ۔
”کسی کے گھر سے اڑ کر آ گیا ہے۔اس کا مالک اسے تلاش کرتا ہوا آتا ہی ہوگا۔“ دادی ماں نے کہا ۔ ”کسی کو نہیں دوں گا ۔اب یہ میرے پاس رہے گا۔ “دانش نے کہا ۔
اس نے طوطے کو میز پر بٹھانے کی کوشش کی تو طوطے کے پنجے میز کے شیشے پر پھسل گئے اور اس کی چونچ کھٹ سے شیشے سے ٹکراگئی۔ دانش نے جلدی سے طوطے کے پروں کو پکڑ کر اسے اٹھایا تو طوطا ٹیں ٹیں کر کے زورسے چیخا اور غصہ سے اس کے سر کے بال ایسے پھول گئے جیسے اس نے کنٹوپ پہن لیا ہو۔ طوطے کی چیخ سن کر دانش کی ممی دوڑتی ہوئی آئیں اور طوطے کی طرف دیکھتے ہوئے انھوں نے دانش سے پوچھا ۔”کیا ہوا۔طوطا کیوں چیخ رہا تھا ؟“
”میں نے اس کے پر پکڑ لئے تھے اس لئے چیخ رہا تھا۔ “دانش نے جواب دیا ۔
”اب تم اسے انگلی پر بٹھا کر گھومتے رہو گے یا کپڑے بھی بدلو گے۔ “ممی نے دانش سے کہا ۔
”ابھی بدلتا ہوں ممی۔“ دانش نے کہا۔
اس نے طوطے کو دادی ماں کے بستر پر کنارے کی طرف بٹھایا اور کپڑے بدلنے کے لئے جانے لگا تو دادی ماں نے اس سے کہا ،” اسے یہاں سے لے جاﺅ ۔نہیں تو میرے بستر پر گندگی کرے گا۔“
” دادی ماں ابھی آتا ہوں “۔ دانش نے کہا اور دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
طوطانرم بستر پر آرام سے بیٹھ نہیں پا رہا تھا ۔پنکھے کی تیز ہوا بھی اس کے پروں میں لگ رہی تھی۔ وہ بار بار آگے جھکتا اور سنبھلنے کی کوشش کرتا ۔دادی ماں ذراکھسک کر دور ہو گئیں ۔انھوں نے سوچا ،نا سمجھ پرندہ ہی تو ہے اور وہ بھی اتنا بڑا ۔نہ جانے کب بھڑک جائے اور بوٹی اتار لے۔ وہ تسبیح کے دانے گھما گھما کر وظیفہ پڑھ رہی تھیں ۔طوطا اپنی گردن کوذرا بل دیتا اور پتلیاں نچا نچا کر کبھی دادی ماں کے ہاتھ میںجھولتی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طر ف دیکھتا تو کبھی کھڑکی کے
شیشے سے دکھائی دے رہے آسمان کو دیکھنے لگتا ۔
دانش نے کپڑے بدلے اور ہاتھ منہ دھو کر دادی ماں کے کمرے میں آیا۔اس نے اپنی انگلی طوطے کے پنجوں کے پاس رکھ دی۔طوطے نے پہلے ایک پنجے سے دانش کی انگلی پکڑی پھر دوسرے پنجے سے اس کی انگلی پکڑ کر آرام سے بیٹھ گیا۔طوطا تن درست اور وزنی تھا ۔ دانش اپنی چھوٹی سی انگلی پہ اسے مشکل سے اٹھا پارہا تھا۔جب اس نے ہاتھ اوپر اٹھایا تو طوطے نے پروں کوذرا پھیلا کر اپنے پنجوں سے انگلی کو اتنی زور سے پکڑا کہ دانش کی آنکھ میں آنسو آگئے ۔
شام کو جب دانش کے پاپا آفس سے آئے تو طوطے کو دیکھ کر وہ بھی بہت خوش ہوئے ۔انہیں بھی پرندے اچھے لگتے تھے ۔ دانش ،دانش کی ممی ،پاپا اور دادی ماں طوطے کو گھیر کر بیٹھ گئے۔ طوطا دادی ماں کے پلنگ کی چوکھٹ پر ایک پنجے پر کھڑا تھا ۔اس کے دوسرے پنجے میں ہری مرچ تھی جسے وہ اپنی دھار دار چونچ سے کاٹ کاٹ کر بڑے مزے سے کھا رہا تھا ۔
دادی ماں اس تماشے میں ایسی کھوئیں کہ وظیفہ پڑھنا ہی بھول گئیں ۔دانش کی ممی کو بھی خیال نہیں رہا کہ آج کھانا پکانے میں دیر ہو گئی ہے ۔ دانش کے پاپا آفس کی فائل میز پر رکھنے کے بجائے ہاتھ میںپکڑے بیٹھے رہے۔
جب رات ہو گئی اور سب کے سونے کا وقت آ گیا تو طوطے کو ڈرائنگ روم میں رکھے ہوئے پالنے میں بٹھا دیا گیا۔ جب دانش چھوٹا تھا تو اس کی ممی اسے اسی جھولے میں لٹا کر دھکا دیتی تھیں۔ جھولا گھڑی کی پنڈولم کی طرح ہلتا رہتا اور دانش اس میں مزے سے لیٹا رہتا تھا۔
جب سے دانش کے گھر میں طوطا آیا تھا دانش بہت خوش رہنے لگا تھا۔ا ب وہ اپنے سب کام بڑے سلیقے سے کرتا ۔صبح صحیح وقت پر اٹھتا،وقت پر سوتا، اسکول کے کام میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کرتا ۔جب ضروری کاموںسے فرصت مل جاتی تو طوطے کے پاس جاتا۔ اسے کھلاتا ،پلاتا اور باتیں کرتا ۔دانش کے پاپا بازار سے ایک بڑا سا پنجرہ لے آئے تھے ۔پنجرے میں ایک جھولا بھی تھا ۔دانش طوطے کو جھولے پر بٹھا کر آہستہ سے دھکا دیتا جھولا ہلتا ۔طوطا خوب مزے سے جھولتا اگر دھکا زور سے لگ جاتا تو طوطا سنبھلنے کے لئے پر پھیلا لیتا اور زور زور سے ٹیں ٹیں ٹیں ٹیں کی آواز یں نکالنے لگتا ۔طوطے کو پنجرے میں اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ پنجرے میں ہوتا تو بے چینی کے ساتھ ادھر ادھر ٹہلنے لگتا ۔تیلیوں کو

چونچ سے کاٹنے کی کوشش کرتا۔اس لئے دانش اپنا ہوم ورک کرتے وقت یا رات کو سونے سے پہلے اسے پنجرے میں بند کر دیتا کہ کہیں بلی اسے پکڑ کے نہ لے جائے ۔ایک دن دانش دادی ماں کے کمرے میں طوطے کو اپنی انگلی پر بٹھا کر اس کا سر سہلا رہا تھا ۔طوطا آنکھیں بند کئے مزے سے بیٹھا تھا ۔دادی ماں وظیفہ پڑھ رہی تھیں۔ دانش نے دادی ماں سے کہا ،”دادی ماں میں اسے بولنا سکھاﺅں گا۔ “
”ہاں سکھاﺅ۔ پہاڑی طوطے بہت جلدی بولنا سیکھ لیتے ہیں۔“ دادی ماں نے کہا،”مگر بے وجہ کی باتیں نہیں، دعائیں اور کلمے سکھانا۔ “
”پہلے کون سا کلمہ سکھاﺅں دادی ماں؟“ دانش نے پوچھا ۔دادی ماں دانش کو بتانے ہی والی تھیں کہ طوطے نے اپنی گردن ذرا اوپر اٹھائی اور کسی بوڑھے آدمی کی طرح بھاری آواز میں بولا ۔”دادی ماں۔“
دادی ماں کے ہاتھ سے تو تسبیح ہی چھوٹ گئی۔
دانش خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے پہلے کبھی ایسے کسی پرندے کو نہیں دیکھا تھا جو انسانوں کی طرح بولتا ہو ۔
”یہ تو بولنے لگا۔ “ دانش نے خوب خوش ہوتے ہوئے دادی ماں سے کہا ۔
”بہت سمجھ دار ہے ۔تم بار بار دادی ما ں دادی ماں کہہ رہے تھے اس نے سیکھ لیا ۔اب تم جو کچھ بولو گے وہ سیکھتا رہے گا ۔“دادی ماں نے کہا ۔
اتنے میں دانش کی ممی آگئیں۔ دانش نے ممی سے کہا۔” ممی ابھی طوطا دادی ماں کہہ رہا تھا۔ دیکھیے گا ابھی پھر کہے گا۔ “دانش نے طوطے کی طرف جھک کر کہا ۔”کہو دادی ماں۔“
طوطا کھڑکی سے باہر کے جانب دیکھنے لگا جیسے اس نے دانش کی بات سنی ہی نہ ہو۔ سب لوگ بڑی محویت سے طوطے کی کی طرف دیکھ رہے تھے مگر طوطا آنکھوں کی پتلیاں نچا کر کبھی چھت کے پنکھے کی طرف دیکھتا تو کبھی باہر دیکھنے لگتا ۔ دانش کا دل اس طرح دھڑک رہا تھا جیسے پٹاخہ کے فلیتے میں آگ لگانے کے بعد دل دھڑکتا ہے ۔
”جانور اور پرندے اپنی مرضی سے بولتے ہیں ۔جب جی چاہے گا بولے گا۔ “ دانش کی ممی نے کہا۔
”ابھی بولا تھا اب کیوں نہیں بول رہا ہے؟ “دانش نے کہا۔
”اتنے پریشان کیو ں ہو بولے گا۔“ دانش کی ممی نے کہا۔

طوطے نے ذرا گردن اوپر اٹھائی اور بھاری آواز میں بولا ۔”پریشان نہ ہو،بولے گا۔ “
دانش خوشی سے اچھل پڑا ۔اسکی انگلی پر بیٹھا ہوا طوطا اپنے پروں کو پھیلا کر سنبھلنے کی کوشش کرنے لگا ۔
”بہت سمجھدار ہے ۔“ممی نے کہا ۔
”اسے میرے پاس لاﺅ۔“ دادی ماں نے دانش سے کہا ۔
دانش دادی ماں کے قریب بیٹھ گیا تو دادی ماں نے طوطے کی طرف جھک کر کہا ۔ ”کہو ، لاالہ الااللہ۔“
طوطے نے گردن موڑ کر ترچھی نگاہ سے دادی ماں کی طرف دیکھا پھر چونچ سے اپنا پنجہ کھجانے لگا۔
” مٹھو میاں کہو ،لاالہ اللہ“ دادی ماں نے طوطے کی طرف جھک کر کہا۔
طوطے نے اپنے سر کو ذرا جھکا یا اور گردن کو پھلا کر بڑے صاف الفاظ میں بولنا شروع کیا ۔ ”لاالہ اللہ۔ “
دانش کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیںرہا ۔ اس کے ممی پاپا کو بھی یہ دیکھ کر بہت تعجب ہو رہا تھا کہ ایک طوطا انسانوں کی طرح صاف لہجے میں بول رہا ہے۔دادی ماں کی آنکھ میں تو خوشی کے آنسو آ گئے۔ انہوں نے جلدی سے سر پہ دوپٹہ ڈالتے ہوئے کہا ”سبحان اﷲ“ طوطے نے بھی کہا” سبحان اﷲ “
سب لوگ طوطے سے اتنی دیر تک باتیں کرتے رہے کہ رات ہو گئی ۔دانش اپنے کمرے میں جاکر ہوم ورک کرنے لگا۔ممی اور پاپا اپنے کاموں مصروف ہوگئے ۔دادی ماں نے نماز پڑھی اس کے بعد وظیفہ اور وہ طوطے سے باتیں کرنے لگیں۔
طوطا زیادہ وقت دادی کے کمرے میں رہتا ۔دانش اسکول چلا جاتا ۔ ممی اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتیں تو دادی ماںطوطے سے دل بہلاتیں۔ وہ اسے پھل کھلاتیں ،اس کا سر سہلاتیں ،کلمے اور دعائیں سکھاتیں ۔ طوطا ان کی سکھائی ہوئی دعائیں اور کلمے پڑھتا تو انھیں بہت خوشی ہوتی ۔ وہ سوچتیں طوطے کو کلمے اور دعائیں سکھا کر انھیں خوب ثواب مل رہا ہوگا۔
تھوڑے ہی دنوں میں طوطے نے کئی کلمے اور دعائیں سیکھ لی تھیں ۔وہ سلام بھی کرنے لگا تھا اور جب کوئی اسے سلام کرتا تو وہ جواب میں وعلیکم السلام کہتا ۔ تعجب کی بات تو یہ تھی کہ جب مسجدسے اذان کی آواز آتی تو طوطا موذن کے ساتھ ساتھ پوری اذان دوہراتا ۔کئی بار تو ایسا ہوا کہ مسجد سے اذان کی آواز آنے سے پہلے ہی طوطے نے اذان

دے دی اور دادی ماں کی آنکھ کھل گئی ۔دادی ماں کو طوطے سے بہت محبت ہو گئی تھی وہ نماز پڑھنے کے بعد جب بھی دعا مانگتیں تو طوطے کی صحت اورزندگی کی بھی دعا مانگتیں ۔ اب طوطا بے زبان پرندہ نہیں رہ گیا تھا بلکہ سب کی طرح بولنے والا گھر کا ایک فرد بن گیا تھا ۔محلے کے بچے بھی اس عجوبے کو دیکھنے اور اس کی باتیں سننے کے لئے آجاتے تھے۔ طوطے کے دم سے گھر میںبڑی چہل پہل رہتی تھی۔
طوطے کو دانش کے گھر آئے ہوئے ابھی چند دن ہوئے تھے کہ ایک عجیب واقعہ ہوا ۔دروازے پر دستک ہوئی۔دانش کے پاپا نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دھوتی کرتا پہنے ایک بزرگ ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کی پیشانی پہ تلک لگا تھا اور سر کے پیچھے ایک لمبی سی چوٹی لٹک رہی تھی وہ بزرگ سادھو معلوم ہو رہے تھے ۔ان کے ساتھ آٹھ دس برس کا ایک بچہ بھی تھا ۔ان بزرگ نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور دانش کے پاپا سے کہا ۔ ”میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔“
دانش کے پاپا نے انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھا یا اور پانی پیش کرتے ہوے کہا ۔”فرمایئے ، کیسے آنا ہوا؟ “
ان بزرگ نے دانش کے پاپا کو بتایا کہ ان کا نام راما نند ترپاٹھی ہے اور وہ ان کے مکان کے پیچھے بنگالی کلب کے پاس رہتے ہیں اور یہ کہ ان کے گھر میں ایک پہاڑی طوطا تھا جو اڑ کریہاں آگیا ہے ۔ یہ بات رامانند جی کے پوتے کو محلے کے کسی بچے نے بتائی تھی۔
”جی ہاں ، کئی دن پہلے ایک پہاڑی طوطا میرے گھر آ گیا تھا ۔مگر یہ کیسے مان لیا جائے کہ وہ آپ ہی کا طوطا ہے ۔ “ دانش کے پاپا نے کہا۔
”آ پ طوطے کو میرے پاس لایئے آپ کو یقین آ جائے گاکہ وہ میرا ہی طوطا ہے۔ “ رامانند جی نے کہا۔
دانش کے پاپا نے طوطے کا پنجرا لا کر رامانند جی کے سامنے رکھ دیا ۔ رامانند جی کے ساتھ آنے والا بچہ پنجرے کے پاس بیٹھ کرطوطے کو اس طرح دیکھنے لگا جیسے اسے دیکھنے کو ترس گیاتھا ۔ اس نے پنجرے کی طرف جھک کر طوطے کو چمکارتے ہوئے پوچھا ۔”کیسے ہو رمن؟“
طوطے نے زور زور سے ٹیں ٹیں کی آوازیں نکالیںا اور الٹا لٹک کر پنجرے کی تیلیاں کاٹنے لگا ۔رامانند جی نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طوطے سے کہا ۔”دیکھو تم سے ملنے کون آیا ہے۔ “

طوطے نے رامانندجی کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا ۔”دیکھو تم سے ملنے کون آیاہے۔“ پھر وہ اس طرح ہنسا جیسے کوئی بچہ ہنس رہا ہواور بولا ۔ ”راہل آیا ہے۔“
” دیکھئے جناب ! “ رامانند جی نے خوش ہو کر دانش کے پاپا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔”اور دیکھئے ابھی یہ بھجن بھی سنائے گا۔“ راما نند جی پنجرے کی طرف جھکے اور طوطے سے کہا۔”بیٹے رمن ! ذرا بھجن تو سناﺅ۔“
طوطے نے پنجرے میں لٹک کر ذرا دیر قلابازیاں کھائیں پھر پنجرے کے جھولے پر بیٹھ کرگردن ذرا سیدھی کی اور سر ہلا ہلا کر بھجن گانے لگا ”رام رام سیتا رام ،جے جے رام سیتا رام۔ “
را مانند جی کی آنکھیںخوشی سے چمکنے لگیں۔ان کے ساتھ آنے والے بچے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرے وہ کبھی اکڑوں بیٹھ کر طوطے کو دیکھتا تو کبھی جلدی سے اٹھ کر رامانند جی کی طرف دیکھنے لگتا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ بس طوطے کو لے کر جلدی سے گھر چلیے۔ رامانند جی نے مسکرا کے دانش کے پاپا کی طرف دیکھا اور کہا ۔ ”اب تو آپ کو یقین آ گیا کہ یہ میرا ہی طوطا ہے۔”اسے ہنومان چالیسا بھی یاد ہے آپ کہیں تو سنوا دوں۔“
دانش کے پاپا خا موش کھڑے طوطے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔یہ تو ثابت ہو چکا تھا کہ طوطا رامانند جی کاہی ہے۔انھو ںنے اپنے دل پرپتھر رکھ کر رامانند جی سے کہا،” جی ہاں یہ طوطا آپ ہی کا ہے آپ اسے لے جا سکتے ہیں“
دانش کے پاپا کی بات سن کر رامانند جی کے ساتھ آئے ہوئے بچے نے جلدی سے پنجرے میں ہاتھ ڈال کر طوطے کو باہر نکالا اور انگلی پر بٹھا کر اس کا سر سہلانے لگا۔ طوطے نے سر جھکا کے آنکھیں بند کر لیں۔
”میں آپ کا بہت آبھاری ہوں۔ “رامانند جی نے ہاتھ جوڑ کر دانش کے پاپا سے کہا ۔
”مجھے شرمندہ نہ کیجیے۔ “ دانش کے پاپا نے کہا ”بس آپ میری ایک گزارش قبول فرما لیں تو میں آپ کا احسان

مند رہوں گا۔“
”فرمایئے!“ رامانند جی نے کہا ۔
دانش کے پاپا نے طوطے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا۔”ہم لوگوں کو بھی اس سے بڑا لگاﺅ ہو گیا ہے۔ اس کے جانے سے ہمارا گھر سونا ہو جائے گا۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم لوگ آپ کے گھر آ کر کبھی کبھی اس سے مل لیا کریں ۔“
”اب آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں ۔“رامانند جی نے کہا ۔ ”وہ بھی آپ ہی کا گھر ہے۔ آپ جب چاہیں اپنے پریوار کے ساتھ آ سکتے ہیں اور ہاں!“ رامانند جی کو جیسے کچھ ےاد آ گیا ۔”جب آپ ہمارے گھر آئےں گے تو میں آپ کو اپنے پتا جی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اردو بھاشا کی پانڈو لپی دکھاﺅں گا۔ پڑھ کر بتائےے گا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔“
”جی میں ضرور آﺅں گا۔ “دانش کے پاپا نے کہا ۔
رامانند جی نے دانش کے پاپا سے ہاتھ ملایا اور طوطا لے کر اس بچے کے ساتھ چلے گئے۔
جب دانش اسکول سے آیا اور اسے پتا چلا کہ طوطا اب گھر میں نہیں ہے تو وہ اتنا رویا کہ اسے بخار آ گیا۔ دانش کے پاپا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ پرندے تو آتے جاتے رہتے ہیں ۔میں بازار سے تمہارے لیے اس سے بھی بڑا اور خوبصورت طوطا لا دوں گا۔ مگر دانش کو تسلی نہیں ہوئی۔ اسے تو بس اسی طوطے کی چاہت تھی جو اس کا دوست بن گیا تھا اور اس کی انگلی پر بیٹھ کر مزے مزے کی باتیں کرتا تھا ۔ دانش کے ممی اور پاپا کو بھی طوطے کے جانے کا بہت دکھ تھا ۔ دانش کی ممی نے اس خیا ل سے پنجرا اسٹور میں چھپا کر رکھ دیا تھا کہ اسے دیکھ کر سب لوگوں کو طوطا یاد آئے گا۔ دادی ماں کا تو یہ حال تھا کہ اپنے آپ سے اس کی باتیں کرتی رہتی تھیں کبھی کبھی طوطے کے خیال سے ان کا دل اتنا بے قرار ہوجا تا کہ آنکھ میں آنسو آ جاتے۔
دانش اسکول چلا جاتا،دانش کے پاپا آفس اور دانش کی ممی گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتیں۔ دادی ماں اپنے کمرے میں اکیلی رہ جاتیں اس وقت انھیں طوطا بہت یاد آتا۔کبھی کبھی تو انھیں وہم ہوتا کہ جیسے طوطا انھیں پکار رہا

ہو ۔وہ گبھراکر ادھر ادھر دیکھنے لگتیں۔ مگر طوطا وہاں کہاں تھا جو انھیں دکھائی دیتا ۔ وہ تو خواب وخیال ہوکر رہ گیا تھا۔
کئی دن ہو چکے تھے سب یہی سوچ رہے تھے کہ ان کا چہیتا طوطا اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایک دن شام کے وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ دانش کے پاپا نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ راما نند جی طوطے کا پنجرا پکڑے سامنے کھڑے ہیں ۔رامانند جی اپنی بات کے دھنی تھے ۔ انھوں نے پنجرا دانش کے پاپا کے ہاتھ میںتھمایا اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ اسے آپ کے پاس چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ کل صبح آ کر لے جاﺅ گا ۔
دانش کے گھر میں تو جیسے بہار آگئی۔طوطے کا پنجرا دادی ماں کے پاس رکھا گیا اور سب اسے گھیر کر بیٹھ گئے دانش نے پنجرا کھول کر طوطے کو باہر نکالا اور اپنی انگلی پر بٹھانے کی کوشش کی تو وہ فرش پر کود گیا اور سر جھکا کے ادھر ادھر بھاگنے لگا ۔
” یہ تو سب کو بھول گیا۔ “ دادی ماں نے کہا ۔
”ماحول بدلا ہے اس لیے پریشان ہو رہا ہے۔“ دانش کی ممی نے کہا ۔
دانش نے اسے اٹھا کر ایک بار پھر انگلی پر بٹھایا اور اس کا سر سہلانے لگا۔ طوطے کو قرار آ گیا۔ اس نے سر جھکا کے آنکھیں بند کر لیں۔دانش نے اپنا منہ طوطے کے کان کے قریب کر کے کہا ! ” مٹھو میاںکیاسب کو بھول گئے، دادی ماں کو بھی بھول گئے؟ “
طوطے نے ذرا ذرا آنکھیں کھولیں اور سر کو اوپر اٹھا کر نیچے کرتے ہوئے کہا۔ ” دادی ماں۔“
بس پھر کیا تھا قہقہے گونجنے لگے ۔گھر میں پہلی سی رونق آ گئی۔طوطے نے خوب تماشے کیے سیٹیاں بجائیں ایسی آوازیں نکالیں جیسی آوازیں تا نگے والے اپنے گھوڑوں کو روکنے کے لیے منہ سے نکالتے ہیں ۔اس نے دانش کا نام لیا۔ ممی اور پاپا کو پکارا۔ دادی ماں کے سکھائے ہو ئے کلمے اور دعائیں سنائیں ۔ طوطے سے اتنی دیر تک باتیں کرنے اور اس کے تماشے دیکھنے سے سب کے دلوں کو قرار آ گیا ۔خاص طور پر دادی ماں اس خیال سے بہت خوش تھیں کہ جو کلمے اور دعائیں انہوں نے سکھائیں تھیں طو طے کو سب کی سب یاد تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top