skip to Main Content

ضمیر کی آواز

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

اس بار نغمہ کے گھر میں بڑی رونق تھی۔ملتان سے اس کی بڑی باجی اپنے بچوں کے ساتھ آئی تھیں۔پنڈی سے خالہ اور اسلام آباد سے پھوپھی تشریف لائی تھیں۔شام کے بعد تو رونق میں اور اضافہ ہوگیا،کیوں کہ نغمہ کی باجی کی بڑی بیٹی کی سال گرہ کی تقریب بھی تھی۔خوب رونق ہوئی،موم بتیاں جلائی گئیں، کیک کاٹا گیا اور سب نے مل کر”ہپی برتھ ڈے“ گایا۔نو بجے کے قریب تقریب ختم ہوئی۔وہ مہمان جو سال گرہ کے موقع پر آئے تھے، اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔نغمہ کے ابو جو ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھے، رات کی ڈیوٹی کے لیے گاڑی میں بیٹھ کر گھر سے نکل گئے۔گھر کے لوگ ادھر ادھر بکھرا ہوا سامان سمیٹنے میں مصروف ہو گئے۔دس ساڑھے دس بجے گھر کے اندر خاموشی چھا گئی،کیوں کہ تھکاوٹ کی وجہ سے سب لوگ جلدہی سو گئے۔نغمہ کی آنکھوں میں بھی نیندچھارہی تھی۔وہ اپنے کمرے میں گئی اور لباس بدل کر لیٹنے کا ارادہ کر ہی رہی تھی کہ اس کی نظر میز کے اوپر ایک لفافے پر پڑی۔اس نے لفافہ اٹھایا اور اسی لمحے اسے یاد آگیا کہ وہ لفافہ اس کی ایک سہیلی نسرین کی طرف سے آیا تھا جس میں اس کی سہیلی نے اپنی ماں کی شدید بیماری کی اطلاع دے کر لکھا تھا کہ اپنے ابو سے کہہ دے کہ وہ چند منٹ کے لیے ہمارے گھر آکر امی کو دیکھ لیں۔
نغمہ نے یہ خط پڑھ لیا تھا۔وہ چاہتی تھی کہ ابو کو نسرین کی امی کے ہاں جانے کو کہے اور اسے یقین تھا کہ ابو اس کی بات ضرور مان جائیں گے اور اس کے ساتھ نسرین کے گھر روانہ ہوجائیںگے،مگرہوا یہ کہ جب وہ نسرین کا خط پڑھ کر ابو کو اطلاع دینے کے لیے اپنے کمرے سے باہرآئی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ڈرائنگ روم میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔وہاں جانامناسب نہیں تھا۔اس لیے نغمہ ابو کے دوستوں کے جانے کا انتظار کرنے لگی۔
تقریب کی سرگرمیاں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھیں۔نغمہ کی اپنی کئی سہیلیاں بھی آگئیں تھیں۔وہ ان کا خیر مقدم کرنے اور باتیں کرنے میں اس درجہ مشغول ہوگئی کہ نسرین کے رقعے کا خیال ہی اس کے ذہن سے اتر گیا۔
اس کے ابو کے دوست چائے پی کر چلے گئے۔ اس کی باتیں اپنے ابو سے بھی ہوئیں،مگر جو بات بھول چکی تھی وہ اسے یاد نہ آسکی اور اب جو وہ نسرین کا رقعہ دوسری مرتبہ پڑھ رہی تھی تو اسے سخت افسوس ہورہا تھاکہ کیوں نہ وہ اپنے ابو سے اپنی سہیلی نسرین کی امی کی بیماری کا ذکر کرکے انہیں اپنے ساتھ نسرین کے گھر لے جا سکی۔
”معلوم نہیں نسرین کیا سوچے گی اور اس کی امی کی حالت کیسی ہوگی؟“اس کے دل میں یہ سوال آیا۔
”اللہ کرے بیماری بڑھ نہ گئی ہو۔میں ابھی ابو کو فون کرتی ہوں۔“
اور وہ ابو کی خوب گاہ کی طرف جانے لگی۔ٹیلے فون اسی کمرے میں رکھا تھا۔
”کیوں نغمہ،کیا بات ہے۔پیاس لگی ہے بیٹی؟“اس کی امی جو کمرے کی طرف جا رہی تھیں اس سے پوچھنے لگیں۔
”نہیں امی !مجھے ابو کو ٹیلے فون کرنا ہے۔“
”ٹیلے فون کیوں کرنا ہے؟“
نسرین کا رقعہ ابھی نسرین کے ہاتھ ہی میں تھا۔وہ اس نے اپنی امی کی طرف بڑھا دیا۔
”تو بیٹا۔یہ رقعہ تو دوپہر کے وقت تمہیں ملا تھا۔ابو گھر میں تھے۔نو بجے تک گھر میں رہے۔کیوں نہیں بتایاانہیں۔اب تو ان کے لیے مشکل ہوگا۔“نغمہ کی امی بولیں۔
”امی مجھے یاد ہی نہ رہا۔“نغمہ نے بڑے افسوس اور ندامت سے کہا۔
”اچھا میں دیکھتی ہوں۔“یہ کہہ کر نغمہ کی امی نے ہسپتال میں ٹیلے فون کیا۔وہاں سے خبر ملی کہ” ڈاکٹر صاحب، ایک مریض کی حالت بڑی خراب ہے وہاں ہیں۔نہیں مل سکتے۔“
”تو امی!اب کیا کیا جائے۔“نغمہ بڑی پریشان تھی۔
”اب کیا ہوسکتا ہے۔تم جاﺅ اپنے کمرے میں۔ایک گھنٹے کے بعد میں پھر کوشش کروں گی۔شاید اس وقت تک وہ اپنے کمرے میں آچکے ہوں گے۔“
نغمہ بھاری قدموں سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
نسرین اس کی بہت ہی پیاری سہیلی تھی اور اس کی امی کو وہ خالہ کہا کرتی تھی۔گھر میںکوئی تقریب ہو یہ ماں بیٹی اس کے ہاں ضرور آتی تھیں۔ پچھلے برس جب وہ بیمار ہوئی تھی تونسرین اور اس کی امی دوتین بار اس کے ہاں آئی تھیں اور دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہی تھیں۔
”میں کتنی بری لڑکی ہوں۔اپنی سب سے اچھی سہیلی کی ماں بیمار ہوئی تو ان کی طرف سے بالکل بے پروا ہو گئی۔“مگر دوسرے ہی لمحے کہنے لگی ”میں بے پروا تو ہر گز نہیں ہوئی تھی،اتنی مصروفیت رہی کہ ان کا خیال ہی بھول گیا۔“
نغمہ کے ذہن میں طرح طرح کے خیال آرہے تھے اور اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔اس کی امی نے کہا تھا کہ ایک گھنٹے کے بعد ٹیلے فون کروں گی اور اس نے جب سامنے لگے ہوئے کلاک پر نظر ڈالی تو پونے گیارہ بجے تھے۔یعنی اسے اپنے کمرے میں آئے صرف آدھا گھنٹہ گزرا تھا۔
اس نے چاہا کہ کسی طرح باقی وقت بھی گزر جائے تو وہ دوبارہ امی کے پاس جائے،مگر یہ وقت گزارنا اس کے لیے قریب قریب محال تھا۔کسی نہ کسی طرح اس نے پندرہ منٹ گزار دیے اور امی کے کمرے میں پہنچ گئی۔
”نغمہ۔“
”جی امی۔“
”بیٹی ابھی میں نے تمہارے ابو کو ٹیلے فون کرنے کی کوشش کی تھی۔ان کے ایک ساتھی ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ وہ نیچے ہیں اور جب تک مریض کی حالت ذرا ٹھیک نہیں ہو جاتی اوپر نہیں آئیں گے۔“
”تو امی۔“
”بیٹی میں کیا کر سکتی ہوں۔وہ مریض کو نازک حالت میں چھوڑ کر کیسے اپنے کمرے میں آسکتے ہیں۔“
ماں کی یہ بات سن کر نغمہ مایوس ہو کر کرسی پر بیٹھ گئی۔اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اس کی امی اسے غور سے دیکھ رہی تھیں۔
کئی منٹ گزر گئے۔
”امی!“نغمہ کو ایک تجویز سوجھی”آپ اجازت دیں تو چچا جان کو“
نغمہ کی امی سمجھ گئیں کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔نغمہ کے ابو کے چھوٹے بھائی یعنی نغمہ کے چچا جان بھی ڈاکٹر تھے۔ان کی ڈیوٹی دن کو ہوتی تھی۔ رات کو گھر پر رہتے تھے۔نغمہ کی آرزو تھی کہ انہیں نسرین کے ہاں لے جائے مگر اس کی امی کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ انہیں اپنی بیٹی کی یہ تجویز پسند نہیں آئی۔
”دیکھوبیٹی!تمہارے چچا جان کو ہم نے کبھی ایسی تکلیف نہیں دی۔کیا پتا وہ برا مان جائیں۔“
”نہیں امی!وہ بڑے مہربان چچا جان ہیں۔“
”مہربان تو ہیں،مگر یہ بھی دیکھو وہ کتنی دور رہتے ہیں۔کم از کم ہمارے گھر سے بارہ میل کے فاصلے پر۔“امی نے کہا۔
نغمہ نے اصرار کیا تو اس کی امی اس کے چچا جان کو ٹیلے فون کرنے پر رضامند ہوگئیں۔
اس وقت اس کے چچا جان یعنی ڈاکٹر مقیم سو رہے تھے۔جاگے تو کہنے لگے:
”صبح دیکھا جائے گا۔اس وقت میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔“
نغمہ نے یہ الفاظ سن لیے۔امی سے بولی:”امی مجھے ریسیور دے دیں۔“اور اس نے ریسیور لے لیا اور بولی،”چچا جان آپ بھول گئے ہیں کہ ڈاکٹر کا فرض انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔اگر آپ یہ فرض ادا کرنا نہیں چاہتے تو میں کچھ بھی نہیں کہوں گی۔“اور یہ کہتے ہوئے اس نے ریسیور رکھ دیا۔چچا جان کے جواب کا بھی انتظار نہ کیا۔
”نغمہ تمہارا لہجہ گستاخانہ تھا۔“
”ٹھیک ہےلیکن امی!کیا میںنے بات درست نہیں کہی؟“نغمہ نے خود اعتمادی سے کہا۔
”خیر اب تم اپنے کمرے میںجاﺅ،صبح دیکھا جائے گا۔تمہارے ابو بھی آجائیں گے۔“
نغمہ اپنے کمرے میں واپس آگئی۔اس کی آنکھوں میں نیند کہاں؟وہ پہلے سے بھی زیادہ بے چین تھی۔اسے اپنے چچا جان سے ایسی امید نہیں تھی۔اس کے چچا جان نے خود بتایا تھا کہ ڈاکٹر کا حقیقی فرض انسانیت کی خدمت ہے۔پھر وہ یہ فرض کیوں بھول گئے۔
وہ کرسی پر بیٹھی رہیبیٹھی رہی۔کلاک نے بارہ بجائے اور اس کے ساتھ ہی کار کے ہارن کی آواز گونج اٹھی۔
نغمہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔
یہ گاڑی تو چچا جان کی ہے“اس کے منہ سے بے اختیار نکلا اور وہ بھاگی بھاگی امی کے کمرے کی طرف گئی۔
”امی!چچا جان آگئے ہیں۔“
”ہاں میں نے ہارن سن لیاہے۔شال لپیٹ کر جاﺅ۔باہر سردی ہوگی۔“
نغمہ تیزی سے سیڑھیوں سے اتری۔اس کے چچا جان کار سے باہر نکل کر اس کا انتظار کر رہے تھے۔
”گھر کا پتا ہے نغمہ بیٹی؟“
”پتا ہے چچا جان۔“
”بیٹھ جاﺅ۔“
نسرین کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔بیس بائیس منٹ میں کار اس کے گھر کے سامنے رک گئی۔
نغمہ جب کار سے اتری تو اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔اس کے ہونٹوں سے نکل رہا تھا۔”اللہ میاں خیر ہو۔“
گھر میں روشنی تھی۔نغمہ نے دروازے پر دستک دی۔
دوتین منٹ کے بعد دروازہ کھل گیا۔نسرین آدھی رات کے وقت نغمہ کو اپنے دروازے کے سامنے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
”نسرین باتیں بعد میں ہوں گی۔یہ بتاﺅ خالہ جان کیسی ہیں؟“نغمہ نے سوال کیا۔نسرین نے زبان سے کچھ نہ کہا۔اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
”نسرین بیٹی ہمیں اندر لے چلو۔“نغمہ کے چچا جان بولے۔انہوں نے مریضہ کو دیکھا،حالت بڑی خراب تھی۔
”فکر کی کوئی بات نہیں۔نغمہ! ہم انہیں تمہارے ابو کے ہسپتال لے جاتے ہیں۔“
سب نے مل کر مریضہ کو گاڑی کے اندر لٹا دیااور گاڑی روانہ ہوگئی۔
ایک بجے کے قریب مریضہ ہسپتال میں تھی۔نغمہ کے ابو،چچا جان اور نرسیں مریضہ کے علاج میں مصروف ہو گئے۔نغمہ ایک منٹ کے لیے بھی کمرے سے باہر نہ گئی۔لگتا تھا اپنی سگی ماں کی تیمارداری کر رہی ہے۔
صبح دس بجے مریضہ خطرے سے نکل چکی تھی۔
”اللہ کا شکر ہے نغمہ بیٹی!تمہاری سہیلی کی امی جلد ہی صحت یاب ہو جائیں گی۔“نغمہ کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔
”چچا جان یہ آپ کی مہربانی کا نتیجہ ہے۔میں آپ کی بہت بہت ممنون ہوں چچا جان۔“
”نہیں بیٹی ! اصل شکریے کی مستحق تم ہو۔تم نے مجھے اپنے فرض سے آگاہ کیا۔تم نے جب سے کہا ڈاکٹر کا حقیقی فرض انسانیت کی خدمت ہے۔تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا اور میں ایک منٹ بھی گھر میں نہ ٹھہر سکا۔“
نسرین کی امی اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں اور کہہ رہی تھیں:
”مبارک ہیں وہ ہستیاں جو ضمیر کی آواز سنتی ہیں اور اپنا فرض ادا کرتی ہیں۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top