skip to Main Content

صندوقچہ

سارہ الیاس خان

۔۔۔۔۔۔۔۔

اس صندوقچے میں پرانی دنیا کی کچھ نشانیاں ہیں اور بس….!پرانی دنیا کے ایک باسی کی کہانی۔ وہ اپنے ”گھر“ کو بچانا چاہتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔

دادا میاں کا وہ پرانا سا صندوقچہ آج کل ہماری بحث کا موضو ع بنا ہوا تھا ۔ اجمل کہتا تھا کہ اُس میں ان کے پرانے روزنامچے ہوں گے جب کہ میرا خیال تھا کہ اس میں اُن کی دولت ہے۔ جمع پونجی ،ہیرے جواہرات قسم کی۔اُدھر نینی کہتی تھی کہ کیوں فضول میں دماغ کھپا رہے ہو، اس میں یوں ہی جھاڑ جھنکار ہوگا ۔
اُس وقت فضا باجی اپنے ٹینک سے سانس کھینچ رہی تھیں ، جب کہ نینی باری کے انتظار میں نڈھال سی بیٹھی تھی۔
”لگی شرط؟ ….روزنامچے نہ نکلے تو میرا نام بدل ڈالنا۔“ بحث بڑھی تو اجمل جوش میں آگیا۔
”کیا شرطیں لگ رہی ہیں ؟“ دادا میاں کی آواز پر ہم اچھل پڑے۔ وہ بالکل نیلے پڑ رہے تھے۔
فضا باجی نے ماسک فورا اُن کے چہرے پر سیٹ کر دیا۔
نینی نے لمبا سا سانس لیا اور قوت بخش مشروب کا ایک گھونٹ اور بھر لیا۔
”دادا جان!….وہ…. آپ کے صندوق میں کیا ہے؟“
”میرے صندوقچے میں؟…. تم لوگوں سے مطلب؟ “آہستہ آہستہ اُن کی حالت بہتر ہو رہی تھی۔
”بس ویسے ہی پوچھ رہے ہیں۔ “
”تم لوگ کیا جانو، اُس میں کیا ہے۔ ہماری شرمندگی ہے اس میں۔“
”روزنامچے ہیں ناں آپ کے؟“
”نہیں، مگر ہماری کوتاہیوں کے نشان ہیں۔ پرکھوں سے ملی جس دولت کو تمھارے لیے سنبھال نہ سکے، اس کی نشانیاں باقی ہیں۔ “
انھوں نے ماسک اتارا تو نینی نے بے تابی سے سے چھوٹے سائز کا ماسک اس پر لگایا اور لمبے لمبے سانس کھینچنے لگی۔
دادا میاں سر ہلاتے لاٹھی ٹیکتے واپس اپنے کمرے کی سمت ہو لیے ۔
اگلی صبح ہم خوراک کی ٹکیاں پھانک رہے تھے، جب اجمل کا تجسس پھر سے جاگ اٹھا۔
”ابا….!؟ “
”ہوں ….“انھوں نے اخبار کے پیچھے سے سر اٹھایا ۔
”آپ جانتے ہیں کیا؟“ اجمل نے پوچھا۔
”کیا ؟“
”یہ دادا میاں کے صندوقچے میں ہے کیا؟“
”دادا میاں کا صندوقچہ؟…. بھلا کیا ہونا ہے اس میں؟ گزری زندگی کی نشانیاں ہیں کچھ اور بس….“انھوں نے لاپروائی سے کہا۔
”قیمتی ہیں؟“
”ہمارے لیے تو گھاس پھونس ہیں، ان کے لیے سونا چاندی سے کم نہیں۔“ یہ کہہ کر ابا میاں دوبارہ اپنے ڈیجیٹل اخبار میں گم ہوگئے۔
فضا باجی دادا ابا کے ناشتے کی ٹکیاں اور صبح کے آکسیجن پف دینے اُن کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں تو امی بولیں:
”بیٹا ! دیکھو !تمھارے ابا میاں کسان آدمی تھے ،ساری زندگی انھوں نے فصلیں اگاتے گزاری۔ اب اِس نئی زندگی میں رہنا ان کے لیے مشکل ہے۔ “
”جیسے اسکول میں تصویریں ہیں؟ ….ٹریکٹر ،بیل وغیرہ ؟…. تو دادا میاں اتنے پرانے ہیں ؟“ میں بولی توابا ہنس دیے۔
”نہیں بیٹا وہ اتنے پرانے نہیں، بس ہم ذرا جلدی نئے ہو گئے ہیں۔خیر ! ابا میاں کے سب دوست اب دنیا سے رخصت ہو چکے ۔ یہ نئی دنیا اُن کے لیے عجیب ہے ۔ جیسے تم لوگوں کو اٹھا کر اِن اسکول والی ویڈیوز میں ڈال دیں تو تمھیں کیسا لگے گا ۔تو ان کی بھی اپنی پرانی دنیا کی کچھ نشانیاں ہیںاس صندوقچے میں بس۔“ امی نے بات ختم کر دی۔
دوپہر میں ہم سب اپنی آکسیجن پوری کیے، ویڈیو گیم کھیل رہے تھے، جب اچانک اجمل کے ذہن میں ایک خیال آیا۔
”سنو! ہم ذرا چل کر دیکھیں تو….“
”کیا؟ “
”وہ صندوقچہ…. اور کیا!“
”کیسے؟“
”دادا کی نیند نہیں کھلنے والی۔ وہ انرجی کیپسول لیے بغیر سوئے ہیں۔ مانتے ہی نہیں تھے، بس دو خوراک کے کیپسول کھائے اور لیٹ گئے۔“
”تو؟“
”چل کر وہ صندوقچہ اڑا لاتے ہیں۔“
”آخر تمھارے دماغ پر وہ صندوقچہ کیوں سوارہو گیا ہے؟“
”اس بات کو چھوڑو تم….یہ بتاؤ کون کون میرے ساتھ ہے؟“
کوئی کچھ نہ بولا تو وہ  ’ہونہہ بزدل “کہتا خود ہی داداکے کمرے میں جا گھسا۔
دبے قدموں وہ اندر داخل ہوا۔ دادا واقعی گہری نیند سو رہے تھے۔ کرسی اٹھا کر اُس نے الماری کے سامنے رکھی اور اس پر چڑھ کر صندوقچہ اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
اس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا۔ کھڑکی کے پیچھے کھڑے اسے دیکھتے ہوئے اچانک جیسے ہم سب کے سانس رک گئے ہوں…. مگر اجمل کو کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
دادا میاںچپکے سے کھڑے ہوئے تھے اور انھوں نے پیچھے سے اجمل کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔
”دد…. دادا….وہ…. “ چوری پکڑے جانے پر اجمل بری طرح بوکھلا گیا تھا۔
”کیا کر رہے تھے؟“
ہم سب یہ منظر دیکھ کر وہاں سے رفوچکر ہونے کے چکر میں تھے کہ دادا نے ہمیں بھی دیکھ لیا۔ انھوں نے آواز دے کر ہم سب کو اندر بلا لیا۔ ہم گردن جھکائے اُن کے سامنے آئے تو وہ ٹھنڈی سانس بھر تے ہوئے اپنی آرام کرسی پر ڈھے گئے۔
پرانی طرز کا وہ منقش سا چوکور صندوقچہ خود کسی عجائب گھر میں رکھنے کے قابل تھا ، اسے اپنی گود میں رکھے ہوئے انھوں نے پوچھا:”جانتے ہویہ کیاہے؟“
”نہیں؟“
”یہ امانت ہے، اس کا بوجھ اٹھانے سے تمھارے ماں باپ نے انکار کر دیا تھا ، انھوں نے اور اُن کے دوستوں نے اِس امانت کو ناقابل استعمال،نئے زمانے سے مطابقت نہ رکنے والی خیال کیا تھا…. اور دنیا کو نیا بنایا تھا۔“
”تو نیا اچھا نہیں ہوتا کیادادا!؟ “نینی نے پوچھا۔
”ہر نیا اچھا نہیں ہوتا بیٹا !….دنیا کا نظام اللہ نے بنایا ہے اور ضرورت سے زیادہ انسانی مداخلت نے اسے تباہ کر دیا ہے۔ یہ آکسیجن ٹینک بھرنے کے لیے تمھارے ابا ہی نہیں،اماں بھی دن بھر پیسے کماتے ہیں،ہمارے زمانے میں اِس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ہر طرف درخت تھے، پودے تھے جو اللہ کے حکم سے بالکل مفت ہم انسانوں کو فراہم کرتے تھے۔ اُن دنوں اِن درختوں اور پودوں کے سبب ہمیں پیٹ بھر کھانا ملتا تھا۔ یہ گولیاں کھا کھا کر گزارا نہیں کرنا پڑتا تھا جیسے پٹرول ڈال لیا ہو ہو گاڑی میں ۔ ہم زندہ تھے بیٹے اور زندگی گزار رہے تھے۔ اب تو سب مصنوعی ہے ۔ جیسے ہم سائنسدانوں کی لیبارٹری میں رکھے چوہے ہیں، جن پر تجربے ہو رہے ہیں۔“
”میری سمجھ میں نہیں آرہا دادا !“اجمل نے کہا تو وہ ایک لمبا سانس لے کر خاموش ہوگئے۔
”سمجھاتا ہوں ….کاش تم سب کی سمجھ میں آجائے۔“ یہ کہہ کر انھوں نے صندوقچہ کھول لیا۔ ہم سب کا تجسس سے براحال ہو گیا۔ ہماری نگاہیں کھلے ہوئے صندوقچے کے اندر جا گڑی تھیں۔دادا نے اس میں سے کچھ عجیب و غریب سی فائلیں نکالیں۔ مومی کاغذ کی تہوں میں لپٹی ہوئیں عجیب سی ۔
”یہ…. یہ کیا ہے؟“
”یہ بیج ہیں بیٹا!اور مختلف پودوں کے پتے اور معلومات بھی کہ کب کس کو کیسے بونا ہے؟…. یہ دیکھو! یہ ننھا سا دانہ جب زمین میں ڈالا جاتاہے تو خدا کی قدرت سے اس میں سے ایک ننھا پودا نکلتا ہے۔ وہ پودا بڑا ہو کر درخت بنتا ہے یا مختلف مو سم کے فصلیں۔ان پودوں پر خوراک اُگا کرتی تھی۔ چاول،د الیں،اناج ،پتے تک کھا جاتے تھے ہم اور پتا ہے یہ درخت دن بھر مفت میں آکسیجن بناتے اور زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کر تے تھے۔ “
”اب کہاں گئے وہ سب؟ “اجمل نے پوچھا۔
”ہم پرانے لوگ چیختے رہے ،چلاتے رہے مگر تمھارے اماں ابا کی نسل نے ایک نہ سنی۔ ترقی کے چکر میں انھوں نے درخت کاٹ ڈالے اورعمارتیں ،سڑکیں بنا لیں۔ ایک نئی دنیا بنا لی۔ دور دراز کے گاؤں چھوڑ کر ہر جگہ کا انھوں نے یہی حال کیا۔شروع میں انھوں نے لیبارٹری میں آکسیجن بنا کر ہوا میں شامل کرنا شروع کی۔ مصنوعی سبزیاں دالیں بھی تجربہ گاہوں میں بنانے لگے،پھر آہستہ آہستہ یہ حال ہو گیا ہے کہ اب انسان آکسیجن کے بغیر رہنے کو ایڈاپٹ کر رہا ہے۔ چہروں کا گلابی کی بجائے نیلا رنگ اب ہمارے لیے عام بات ہو گئی ہے۔ زندگی لمبی کرنے کے جنون میںہم ایسی دنیا میں آگئے ہیں جہاں ہم مشینیں بن کر رہ گئے ہیں۔ہم اپنی مشینوں میں پیٹرول ڈالتے ہیں اور کاموں میں جت جاتے ہیں۔ اگر یہ زندگی ہے تو موت کیا بری ہے؟!“
فضا باجی کی سمجھ میں سب آرہا تھا ….میں اور اجمل کوشش کر رہے تھے اور نینی اونگھ رہی تھی۔
”اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟“ فضا باجی نے پرسوچ انداز میں پوچھا۔”کیا اِس ماحول میں اب یہ بیج اگ جائیں گے ۔“
”میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ “دادا میاں کی آنکھوں میںاِس سوال پر امید کی کرن چمکی تھی یا شرارت کی، مجھے اندازہ نہ ہوا۔
اگلے دن امی ابو کی نظر بچا کر آکسیجن ٹینک کے نیچے چھوٹے گملوں میں کچھ بیج بو دیے گئے تھے اور جس دن اِن بیجوں سے ننھے ننھے پودوں نے سر نکالا، دادا میاں کی خوشی دیدنی تھی۔
کچھ ہی دنوں میں پچھلی طرف خالی پڑی زمین میں کیاریاں بناتے وہ ہولے ہولے اللہ کا ذکر ر رہے تھے۔
اجمل نے گملوں اور کیاریوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جو ایک ہی دن میں وائرل ہو گئی۔ ہزاروں نوجوان پوچھنے لگے کہ کیا وہ بھی یہ کر سکتے ہیں؟
دادامیاں نے ہم چاروں کے ساتھ مل کرایک تحریک کا آغاز کیاجس کا نام تھا ”سرسبز تحریک!“
آج کا انسان بھی شاید فطرت سے لڑتے لڑتے تھک گیا تھا، سو اِس تحریک نے زبردست کامیابی حاصل کر لی۔ لوگ ٹولیوں کی صورت میں پھرنے لگے اوردور دراز کے گاؤں دیہاتوں سے بیج اکھٹے کرنے لگے۔ دادا جیسے کتنے ہی داداؤں اور ناناؤں نے اپنے وقتوں کی یہ نشانیاں کسی قیمتی خزانے کی طرح سینے سے لگا رکھی تھیں، انھوں نے بھی ہماری اس تحریک سے حوصلہ پا کر اپنے اپنے علاقوں میںسبز انقلاب برپا کر دیا۔
جیسے جیسے یہ تحریک پوری دنیا میں زور پکڑنے لگی، کچھ نوجوان سائنس دانوں نے تجربہ گاہوں میں موجود آکسیجن کا استعمال کیا اور بڑے پیمانے پر زراعت اور درختوں کے بونے کا کام شروع کر دیاگیا۔
آج دادا تو ہم میں نہیں رہے ،مگر اُن کی اس تحریک کی بدولت یہ زمین اس تباہی سے بچ گئی ہے جس کے دہانے پر یہ کھڑی تھی۔
اللہ انھیں جنت کے باغات میں ہمیشہ خوش رکھے، آمین!

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top