skip to Main Content
صرف تین منٹ

صرف تین منٹ

حماد ظہیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’شجاعت ہاتھ جوڑے دعا کررہا تھا اور سارے لوگ ہاتھ اٹھائے اس پر آمین کہہ رہے تھے۔‘‘

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چکنا گھڑا اور کچا گھڑا تو شجاعت کو ایک عرصہ سے سمجھا جاتا تھا مگر اس نے خود ہی ثابت کردیا کہ وہ ان سے بہت بڑھ کر ہے۔ یعنی گھڑی۔
’’یار میں نے کب تم لوگوں کو وقت بتایا ہے جو تم لوگوں نے مجھے گھڑی بنادیا‘‘۔ مرزا نے احتجاج کیا۔
’’تمہاری خیریت اسی میں تھی وگرنہ ہم تو تمہیں گھڑیال بنانے سے بھی نہ چوکتے۔ مگرمچھ والا۔‘‘ ہم بولے۔
’’اور وجہ؟‘‘ مرزا نے جانتے بوجھتے تصدیق چاہی۔
’’تمہاری گھڑی گھڑائی یعنی من گھڑت باتیں اور کیا‘‘۔ ہم ہاتھ نچاتے ہوئے بولے۔
’’شکر ہے تمہاری اندھے کنویں جیسی عقل میں گڑھا نہیں آیا ورنہ تم خود اسی میں گرتے‘‘۔
شجاعت مرزا کا دماغ مثال دینے میں محمود کے چاقو سے بھی تیز چلتا تھا۔ اکثر تو وہ ان میں ایسی باتیں کرجاتے جن کا بظاہر کوئی سر پیر نہ ہوتا۔۔۔ مگر وہ کہتے ہیں۔
’’دھڑ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس میں دل موجود ہے اور دل کے زندہ ہوتے ہوئے نہ سر کی ضرورت رہ جاتی ہے نہ پیر کی‘‘۔

*۔۔۔*۔۔۔*

بحث زور و شور سے جاری تھی اور ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنی بات منوانے کے لیے زور لگارہا تھا۔
’’آئن اسٹائن اگر پاکستان میں پیدا ہوا ہوتا نا، تو آج کسی دفتر کی کلرکی کررہا ہوتا‘‘۔
’’اور جارج واشنگٹن اگر یہاں ہوتا تو لکڑ ہارا کا ہارا ہی رہتا‘‘۔
’’جی نہیں جسے بڑا آدمی بننا ہوتا ہے وہ ہر جگہ بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘۔
’’یہاں کے لوگ، یہاں کا ماحول اور انگریز کا بنایا ہوا نظام تعلیم اسے کبھی بھی آگے بڑھنے نہ دیتا‘‘۔
’’جب وہ اتنے بڑے ملک امریکا کو آزادی دلا سکتا تھا تو یہاں ان چھوٹی موٹی چیزوں سے کیوں گھبراتا؟‘‘
’’لیکن قائد اعظم اگر آج کے دور میں ہوتے تو یہ گندی سیاست دیکھ کر کب کے گوشہ نشین ہوچکے ہوتے‘‘۔
’’قائد اعظمؒ کے زمانے میں اس سے بہت بڑھ کر گندی سیاست تھی، انگریزوں کی ہندوؤں کی، سکھوں کی‘‘۔
’’بہرحال اکبر بادشاہ جس نے تقریباً پچاس سال ہندوستان پر حکومت کی اگر آج کسی غریب گھرانے میں پیدا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ سبزیاں ہی بیچتا‘‘۔
ہم نے جب اس قسم کے جملے سنے تو مرزا کو بکرے کی طرح گھسیٹتے ہوئے مرکز بحث کی طرف لے چلے۔
شجاعت جاتے ہی بولا۔ ’’اچھی قسمت بھی محنت سے حاصل کی جاسکتی ہے‘‘۔
گویا دھماکا ہوا۔ 
ہر قسم کی بحث اور باتوں کو بریک لگ گئے اور لوگ شجاعت کی طرف متوجہ ہوگئے۔ ایسے مواقع کا ہمیں بہت شدت سے انتظار رہتا تھا جب مرزا سب کواپنے دام میں لے لیں۔
’’کیا ہم محنت کرکے اب کسی بادشاہ کے بہت بڑے سے محل میں پیدا ہوسکتے ہیں؟‘‘
’’کیوں نہیں‘‘۔
’’کیا ہم کالے کے بجائے گورے اور خوبصورت پیدا ہوسکتے ہیں؟‘‘
’’بالکل‘‘
’’کیسے؟‘‘ بہت ساری آوازوں میں ہماری حیرت بھری آواز بھی شامل تھی۔
’’مانگنے سے۔۔۔ خدا سے مانگنے سے‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’بھائی یہ بتاؤ کہ جو لوگ آج بہت امیر ہیں یا بہت خوش قسمت، خوش شکل، خوش رنگ ہیں یا بہت مزے کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ کیوں ہیں‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’پھر کیا مطلب۔۔۔ ارے بھئی خدا کی مرضی اور مشیت ہے، اس لیے۔ اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ خدا کے خزانے میں تو کوئی کمی نہ تھی، کاش آپ کو بھی ایسا بنادیتا۔۔۔ ہیں نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ کچھ حسرت بھری آوازیں آئیں۔
’’مثال کے طور پر اگر خدا آپ کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے آپ کی پسند اور رائے معلوم کرلیتا تو آپ کیا کہتے بھلا؟‘‘ شجاعت کے پوچھنے پر لوگوں نے اسے فرمائشی پروگرام سمجھ کر جلدی جلدی بتانا شروع کردیا۔
’’میں تو کہتا کہ مجھے کسی بڑے سے ہوٹل کا مالک بنائیں تاکہ ہر وقت مزے مزے کے کھانے کھاتا رہوں وہ بھی مفت میں‘‘۔
’’میں تو کوئی بڑا سا بنگلہ مانگتا جس کے چاروں اطراف باغ ہو۔ فوّارے چل رہے ہوں‘‘۔
’’میں تو کوئی کولڈڈرنگ کی کمپنی مانگتا، میرا تو ان سے جی ہی نہیں بھرتا‘‘۔
’’میں تو کوئی بڑی سی سلطنت کا ولی عہد ہوتا۔ شہنشاہ کا جانشین شہزادہ۔‘‘
مرزا نے جلدی سے انہیں روکا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔ ’’اگر آپ سے یہ سب خواہشات پوچھی جاتیں تو اس کے لیے آپ کو زندگی تو دی جاتی، شعور اور اختیار تو دیا جاتا تاکہ آپ اپنی پسند سے اس زندگی کا فیصلہ کریں‘‘۔
’’ہاں۔ یقیناً۔۔۔ تو پھر؟‘‘ ہم بے چینی سے بولے۔
’’تو اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ ہم اس زندگی میں اس زندگی ہی کے لیے خواہشات بیان کرتے‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘ یہ شجاعت کے سامعین کا پسندیدہ جملہ تھا۔
’’مطلب یہ کہ ہم اس زندگی میں اسی زندگی کے لیے کوشش میں لگ جاتے، یہ سوچ کر اگلی زندگی جب آئے گی تب دیکھی جائے گی۔
’’تو یہ کون کہہ رہا ہے کہ وہ زندگی کوئی لمبی چوڑی ہوتی، بس ہمیں زندہ کرکے خواہشات پوچھ لی جاتیں اور مار کر دوبارہ اس دنیا میں بھیج دیا جاتا‘‘۔ ایک آواز آئی۔
’’لیکن ہزاروں خواہشیں بیان کرنے کے لیے تو وقت درکار ہوتا ہے میرے بھائی‘‘۔ شجاعت نے مزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’بس ایک دن کافی ہے۔ بلکہ ایک شام یا ایک صبح۔ اس میں جتنی خواہشیں بتادیں سو بتادیں‘‘۔
’’اور اس ایک دن کے لیے آپ کو کیا بنایا جائے، کالا یا گورا، خوبصورت یا بدصورت، امیر یا غریب‘‘۔
’’یا اس ایک دن کی زندگی کے لیے پھر ایک مرتبہ پہلے پیدا کرکے پوچھا جائے‘‘۔ ہم نے جملہ کسا۔
’’یار اتنی چھوٹی زندگی کے لیے کیا پوچھنا، ایک دن ہی تو ہے، جیسے تیسے گزارا کرلیا جائے اور ساری توجہ اس زندگی کے لیے خواہشات بیان کرنے میں لگائی جائے‘‘۔ وہی لڑکا دوبارہ بولا۔
’’انسان کے پاس جب اختیار ہوتا ہے تو وہ اپنی من مانی کرتا ہے۔ اگر اسے ایک دن کیا، آدھا دن یا چند منٹ بھی دیے جائیں، تب بھی کوئی بھروسہ نہیں وہ اسے سونے میں اور کھیلنے کودنے میں ضائع کردے‘‘۔ شجاعت مرزا نے فلسفہ جھاڑا۔
’’انتہائی ناممکن اور لامحال بات ہے یہ۔ بڑے سے بڑا احمق یہ نہیں کرسکتا‘‘۔ ہم نے بھرپور تردید کی۔
’’حالاں کہ میرے پاس ایک ایسی ہی مثال موجود ہے۔ ایک شخص کو بتادیا گیا کہ تم کو تین منٹ دیے جارہے ہیں۔ اس کے بعد ایک بڑی زندگی ہے، اس زندگی کے لیے جو مانگنا ہے ان تین منٹ میں مانگ لو‘‘۔
’’پھر۔۔۔ اس کے تو مزے آگئے ہوں گے۔ بہت سارا بینک بیلنس، بڑی بڑی کوٹھیاں، لمبی لمبی کاریں، نوکر چاکر اور خوش کردینے والے بیوی بچے مانگ لیے ہوں گے‘‘۔ ہم جلدی سے بولے۔
’’تم نے تو یہ سب دس سیکنڈ ہی میں مانگ لیا۔ وہ تو اس سے کہیں زیادہ مانگ سکتا تھا۔۔۔ مگر؟‘‘ مرزا نے بات ادھوری چھوڑی۔
’’مگر۔۔۔ کیا؟‘‘ سب بے چین ہوگئے۔
’’اس نے کہا مجھے پیاس لگ رہی ہے، مجھے بھوک لگ رہی ہے، مجھے دھوپ لگ رہی ہے؟‘‘
’’کم ہمت، کم عقل، کم بخت، بے وقوف، احمق‘‘۔
’’اس کو پانی دے دیا گیا، روٹی دے دی گئی، چھتری دے دی گئی اور کہا گیا ان میں وقت نہ ضائع کرو، تین منٹ کبھی بھی ختم ہوسکتے ہیں، مانگ لو ایک لمبی اور طویل زندگی کے لیے‘‘۔
’’میں ہوتا تو نہ کچھ کھاتا، نہ پیتا، بس مانگتا رہتا‘‘۔ ہم بولے۔
’’مگر اس نے کیا کیا، کہا بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی، مجھے تو ابھی یہ چاہیے وہ چاہیے‘‘۔
تمام لوگ شجاعت کی اس بات پر اس شخص پر افسوس کرنے لگے، شجاعت پھر بولا۔ ’’ایسے میں وہاں اس کا ایک دشمن آگیا، اس نے کہا آؤ میں تمہیں مزے مزے کے شربت پلاؤں، اس نے اسے ایسے رنگین شربتوں کے چکر میں پھنسایا، جس سے اس کی پیاس اور بڑھ گئی اور انہیں پیتا ہی چلاگیا اور اسے کچھ بھی مانگنے کا موقع نہ ملا‘‘۔
’’وہ دشمن کون تھا، شجاعت؟‘‘
’’وہ شیطان تھا، میرے دوستو۔ وہ ہر کسی کو بہکا رہا تھا، ہر کسی کو تین منٹ یا اس سے کم وقت دیا گیا تھا مگر زیادہ تر لوگ اس کی باتوں میں آکر بے وقوف بن رہے تھے، بہت کم ایسے تھے جو اس کی چال سے بچ کر لمبی زندگی کے لیے مانگ رہے تھے، وہی عقلمند لوگ تھے‘‘۔
’’یہ تم کس قسم کی باتیں کررہے ہو شجاعت؟‘‘ ہم سے رہا نہ گیا۔
’’یہ میں اسی دنیا اور اسی زندگی کی مثال دے رہا ہوں۔ آخرت کے ایک دن کے مقابلے میں اگر ہم یہاں سو سال بھی رہیں تو یہ فقط تین منٹ سے بھی کم بنیں گے اور وہاں جا کر ہمیں یہی لگے گا کہ ہم یہاں ایک شام یا ایک صبح گزار کر آئے ہیں‘‘۔
’’اوہ۔۔۔ اوہ‘‘۔
’’اور جو مثال میں نے دی تھی وہ میری آپ کی مثال ہے ہم سب اس ذرا سی زندگی کے لیے لگے پڑے ہیں شیطان کے جال میں آکر کتنا بڑا نقصان کررہے ہیں۔ ہمارا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ قیمتی اور ہم اسے ضائع کررہے ہیں‘‘۔
’’مبشر تم کہہ رہے تھے نا کہ ذرا سی زندگی کے بارے میں کیا ہے۔ جیسے تیسے گزر ہی جائے گی، بس یہ اتنی ذرا ہی سی تھی۔۔۔ تین منٹ کی‘‘۔
’’اور حمزہ تم تو کہہ رہے تھے کہ میں ہوتا تو نہ کھاتا، نہ پیتا بس مانگتا ہی رہتا۔ تو یہی ہوگا جنتی کو ایک چیز کے علاوہ اور کسی چیز کا دکھ اور افسوس نہ ہوگا، سوائے اس لمحہ کے جو اس نے خدا کے ذکر سے غفلت میں گزار ہوگا۔‘‘۔
ہم بولے: ’’سب لوگ اپنا اپنا افسوس واپس لے لیں، یہ تین منٹ ابھی جاری ہیں، موقع ہاتھ سے نکلا نہیں، اپنی آخرت اور ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں جو کچھ مانگنا ہو اپنے رب کریم سے مانگ لیں جو ایسا غنی ہے، جس کے خزانوں میں کسی چیز کی ذرا سی کمی نہیں‘‘۔
’’اے خدا! مجھے معاف فرما، کوئی غلط بات میرے منہ سے نکل گئی ہو تو اسے معاف فرما۔ تو جانتا ہے میرا مقصد کیا تھا، ان سب کو بھی اس کی سمجھ عطا فرمادے‘‘۔
’’شجاعت ہاتھ جوڑے دعا کررہا تھا اور سارے لوگ ہاتھ اٹھائے اس پر آمین کہہ رہے تھے۔‘‘

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top