skip to Main Content

صرف ایک پھول

احمد عالم میواتی

۔۔۔۔۔۔۔۔

”ملکہ عالیہ ملکہ عالیہ!“
”کیوں کیا ہوا یہ تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟“ ملکہ مکھی نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔
”ملکہ عالیہ! وہ وہ جنگل سے پھول ختم ہو رہے ہیں۔“ شگفتہ مکھی کا سانس پھولا ہوا تھا۔
”جنگل سے پھول ختم ہو رہے ہیں!کیا مطلب؟“
”ملکہ عالیہ! وہ جو چشمے کے کنارے پھولوں کا بڑا باغیچہ ہے نا اُس میں سے دھیرے دھیرے پھول ختم ہو رہے ہیں۔“
”لیکن میں تو صبح ہی وہاں سے آئی ہوں۔ مجھے تو پھول ختم ہوتے نظر نہیںآ ئے۔ باغیچہ پہلے کی طرح پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔“ دربان مکھی بولی۔
”آپ نے غور سے نہیں دیکھا ہو گا۔ میں روز اُس باغیچے میں جاتی ہوں۔ مجھے وہ باغیچہ بہت اچھا لگتا ہے۔ ایک دن ویسے ہی میں نے باغیچے کے پھولوں کو گنا تو مجھے پھولوں کو گننا بہت اچھا لگا۔ دُوسرے دن میں نے پھر پھولوں کو گنا، مجھے اور مزہ آیا۔ پھر تو پھولوں کو گننا میرا معمول ہی بن گیا۔ پرسوں میں نے پھول گنے تو ایک پھول کم تھا۔ دُوسرے دن پھول گنے تو پانچ پھول غائب تھے اور آج آج بیس پھول غائب ہیں۔ ملکہ عالیہ!اگر یوں ہی پھول غائب ہوتے رہے تو ایک دن آئے گا جنگل کے تمام پھول ختم ہو جائیں گے اور اگر جنگل کے تمام پھول ختم ہو گئے تو پھر بھلا ہم کہاں جائیں گے ہم کن پھولوں کا رس چوس کر شہد بنائیں گی؟“ شگفتہ مکھی بولتی چلی گئی۔
”ہوں بات تو تمھاری ٹھیک ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پھولوں کو کون غائب کر رہا ہے، وہ کون ہے جو جنگل سے پھولوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔“ ملکہ عالیہ فکرمند ہو گئیں۔
”ملکہ عالیہ!پھولوں کو غائب کرنے والا جنگل کے جانوروں میں سے ہی کوئی ہو سکتا ہے۔ جانوروں کے علاوہ بھلا کون ہو سکتا ہے؟“ کمانڈر مکھی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”ہوں ضرور یہ کسی جانور کا کام ہے۔“ ملکہ عالیہ نے بھی کمانڈر مکھی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”ملکہ عالیہ!اگر آپ حکم دیں تو ہم ابھی جانوروں پر حملہ کر کے اُن کو سبق سکھا دیتے ہیں۔“ کمانڈر مکھی نے اجازت طلب نظروں سے ملکہ عالیہ کی طرف دیکھا۔
”نہیںہم لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے۔ پہلے ہم بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔“ ملکہ عالیہ سنجیدگی سے بولی۔
”روشنی!“ ملکہ عالیہ نے قاصد مکھی کو پکارا۔
”جی ملکہ عالیہ! “پلک جھپکنے میں روشنی حاضر تھی۔
”جاؤجنگل کے بادشاہ سلامت کو ہمارا پیغام پہنچاؤ کہ آج کے بعد ہم کسی جانور کو اپنا شہد نہیں دیں گے اور یہ بائیکاٹ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک پھولوں کے دشمن کو نہ پکڑ لیا جائے۔“ ملکہ عالیہ بارعب لہجے میں بولیں۔
”جو حکم ملکہ عالیہ!“ قاصد مکھی نے سر جھکا کر سلام کیا اور بادشاہ سلامت چندو شیر کے محل کی طرف روانہ ہو گئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر تھی۔
”حضور کا اقبال بلند ہو یہ ناچیز ملکہ عالیہ سلطانہ مکھی کا پیغام لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی ہے۔“
”پیغام باآوازِ بلند پڑھ کر سنایا جائے!“ بادشاہ سلامت کی بارُعب آواز دربار میں گونجی۔قاصد مکھی نے مکمل صورتِ حال بادشاہ کے گوش گزار کی او رملکہ عالیہ کا پیغام سنایا۔ بادشاہ بھی سُن کرسوچ میں پڑ گیا۔
”ملکہ عالیہ کو ہمارا سلام کہنا اور عرض کرنا کہ ہم اِن شاءاللہ بہت جلد چور کا پتا لگا لیں گے۔“ بادشاہ سلامت نے کہا۔ قاصد مکھی رخصت ہو گئی۔
”ٹونی!“
”جی حضور!“ بادشاہ سلامت کے پکارنے پر ٹونی کتا دُم ہلاتا ہوا آگے بڑھا۔
”تم چھپ کر باغیچے کی نگرانی کرو اور معلوم کرو کہ پھولوں کا دشمن کون ہے؟“
بادشاہ سلامت نے کہا۔
”جو حکم حضور!“ ٹونی نے سر ہلایا اور باغیچے کی طرف چل دیا اور باغیچے کی نگرانی کرنا شروع کر دی۔ اسے نگرانی کرتے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ راجو خرگوش اچھلتا کودتا نمودار ہوا او رباغیچے کی طرف بڑھا۔ باغیچے کے قریب پہنچ کر اس نے گردن اونچی کر کے اِدھراُدھر دیکھا پھر ایک پھول پکڑا اور ایک جھٹکے سے توڑ لیا۔ جھٹکا لگنے کی وجہ سے پودے پر کھلے دوسرے پھولوں سے بھی پتیاں جھڑنے لگیں۔ وہ پھول توڑ کر بھاگنے ہی لگا تھا کہ ٹونی کی غرّاہٹ نے اس کے قدم جکڑ لیے۔
”رکو!“ جھاڑیوں کے پیچھے چھپے ٹونی نے چھلانگ لگا کرراجو خرگوش کو کان سے پکڑ لیا۔”تم نے پھول کیوں توڑا کیا تمھیں پتا نہیں پھول توڑنا منع ہے؟“ ٹونی نے راجو خرگوش کا کان کھینچتے ہوئے پوچھا۔
”میں نے صرف ایک پھول توڑا ہے وہ وہ اصل میں میری چھوٹی بہن رانی کو پھول بہت پسند ہیں۔ مم مجھے معاف کر دو بھلا ایک پھول توڑنے سے کیا ہوتا ہے۔“
بات راجو کی بھی ٹھیک تھی۔ بھلا ایک پھول توڑنے سے کیا فرق پڑنا تھا۔ پورا جنگل پھولوں سے بھرا ہوا تھا اس لیے ٹونی نے راجو کو چھوڑ دیا اور دوبارہ چھپ کر باغیچے کی نگرانی شروع کر دی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ جوجو بندر آیا اور ایک بڑا سا گیندے کا پھول توڑ کر لے جانے لگا۔ ٹونی نے اُسے بھی پکڑ لیا۔
”جوجو!تم نے پھول کیوں توڑا؟ بادشاہ سلامت نے پھول توڑنے سے منع کیا ہوا ہے۔“ ٹونی نے غضب ناک نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔
”اوہو ٹونی بھائی جان!میں نے صرف ایک ہی تو پھول توڑا ہے۔ میں نے کون سا جنگل کے سارے پھول توڑ لیے ہیں۔ ایک پھول توڑنے سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے۔ جنگل بھرا پڑا ہے پھولوں سے۔“ جوجو بندر دانت نکالتے ہوئے بولا۔
”ہاں واقعی! بھلا ایک پھول توڑنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ ٹونی نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملائی او راسے چھوڑ دیا۔ کچھ دیر بعد سنہری ہرنی آئی اور ایک پھول توڑ کر لے گئی۔ ٹونی نے اُسے بھی روکا اور اُسے پھول توڑنے سے منع کیا تو وہ بولی:
”بھلا میرے ایک پھول توڑنے سے کیا نقصان ہو گا؟“ اُس کا جواب سن کر ٹونی کا ماتھا ٹھنکا۔
اُس کے بعد اور بھی جنگل کے کئی باسی آئے اور ایک ایک پھول توڑ کر لے گئے۔ ہر ایک کا یہی جواب تھا کہ بھلا ایک پھول سے کیا نقصان ہو گا۔ اب ساری بات ٹونی کی سمجھ میں آ چکی تھی۔ وہ فوراً بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوا اور ساری بات انھیں بتائی۔ بادشاہ سلامت کو سن کر بہت غصہ آیااور اُنھوں نے ملکہ عالیہ کے نام ایک پیغام بھیجا۔
بادشاہ کا پیغام سُن کر ملکہ عالیہ کے چہرے پر ایک پُراسرار مسکراہٹ پھیل گئی۔
دُوسرے دن کا سورج طلوع ہوا تو ”شہدنگر“ کے دروازے پر معمول کے مطابق تمام جانور جمع تھے اور” شہد پور “کا دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن کافی دیر گزر جانے کے بعد دروازہ نہیں کھلا۔
جنگل کا یہ حصہ بادشاہ سلامت نے خاص طور پر شہد کی مکھیوں کے لیے رکھا ہوا تھا۔ یہاں صرف شہد کی مکھیاں رہتی تھیں۔ کسی اور جانور کو یہاں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ روزانہ صبح سویرے جنگل کے تمام جانور شہدپور کے دروازے پر اپنے اپنے برتن لے کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ جیسے ہی تمام جانور جمع ہوتے شہد پور کا دروازہ کھلتا۔ ملکہ مکھی خود اپنے ہاتھوں سے سب جانوروں میں شہد تقسیم کرتی، لیکن آج دوپہر ہونے کو آئی تھی لیکن شہدپور کا دروازہ ابھی تک نہیں کھلا تھا۔ سب جانور پریشان تھے کہ اچانک شہد پور کا دروازہ کھلا۔ دروازے کے اس پار ملکہ عالیہ تخت پر براجمان تھیں۔
”آج کے بعد کسی جانور کو بھی شہد نہیں ملے گا، کیوں کہ تم لوگوں نے جنگل کے سارے پھول ختم کر دیے ہیں۔ جب جنگل میںپھول ہی نہیں رہیں گے تو پھر بھلا ہم شہد کیسے بنائیں گے؟ چلو بھاگ جاؤ یہاں سے۔“
ملکہ عالیہ نے دربانوں کو حکم دیا اور دروازہ بند کر دیا گیا۔ سب جانور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
”جنگل سے پھول کس نے ختم کیے آخر وہ کون ہے جو پھولوں کا دشمن ہے؟“
مرغا بولا۔
”پتہ نہیں وہ کون ظالم ہے؟ میں نے تو کل بس ایک ہی پھول توڑا تھا۔“
راجو خرگوش نے کہا۔
”ابھی تو جنگل میں بہت سے پھول باقی ہیں۔ یہ مکھیاں ویسے ہی بہانے کر رہی ہیں۔ ہم بادشاہ سلامت سے جا کر ان کی شکایت کرتے ہیں۔“
باگڑ بلے نے غصے سے نتھنے پھلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں! ہمیں بادشاہ سلامت کے پاس ضرور جانا چاہیے۔“ سب نے اُس کی ہاں میں ہاں ملائی اور بادشاہ سلامت کے محل کی طرف چل دیے، لیکن وہ جیسے ہی بادشاہ سلامت کے دربار میں داخل ہوئے، بادشاہ سلامت غرّاتے ہوئے بولے:
”آؤ آؤ ہم تمھارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ نہیں ملے گا بالکل بھی نہیں ملے گا جب تک تم جنگل سے پھول توڑنا نہیں چھوڑو گے تمھیں شہد نہیں ملے گا۔“
”لیکن حضور! ہم نے جنگل سے پھول ختم نہیں کیے۔ کل میری بہن کا خوش بو سونگھنے کو دل کر رہا تھا تو میں نے صرف ایک پھول توڑا تھا۔“ راجو خرگوش بولا۔
”جی ہاں حضور!کل میں نے بھی صرف ایک پھول توڑا تھا۔“ جوجو بندر نے بھی ٹونی کی تائید کی۔
”ہوں ! اچھاتو یہ بات ہے۔ کل تم میں سے کس کس نے ایک ایک پھول توڑا ہاتھ کھڑا کرو!“ بادشاہ سلامت نے سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا تو ایک دو کو چھوڑ کر سب ہی نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
”ٹونی! ذرا ان کو گنو!“ بادشاہ سلامت نے ٹونی کو حکم دیا۔
”ایک دو تین“ ٹونی نے گننا شروع کیا تو کل 30 جانوروں نے پھول توڑے تھے۔
”کل سب نے اپنی طرف سے تو صرف ایک پھول توڑا لیکن جنگل 30پھولوں سے خالی ہو گیا۔ جس طرح تنکے تنکے سے چڑیا گھونسلا بناتی ہے اسی طرح ایک پھول توڑنے سے سارا جنگل پھولوں سے خالی ہو جائے گا اور پھول ختم ہو گئے تو نہ شہد کی مکھیاں شہد بنا سکیں گی اور پھول ختم ہو گئے توان کے زردانے نہ ہونے کی وجہ سے نئے پودے اور درخت اگنا بھی بند ہو جائیں گے۔یوں کچھ عرصے کے بعد جنگل جنگل نہیں رہے گا۔“
بادشاہ سلامت کی بات سن کر سب جانور شرمندہ ہو گئے ۔ کیوں کہ بات اُن کی سمجھ میں آ گئی تھی۔

٭….٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top