skip to Main Content

سیاہ ٹوپی والا

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے پلٹ کر چرواہے کی طرف دیکھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دوبارہ اس کے پاس آگئے اور سرد آواز میں بولے:
”ہاں تو وہ سیاہ ٹوپی والا آدمی کہاں چھپا ہوا ہے؟“
چرواہا گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
”نوجوان! میرا تعلق پولیس سے ہے، آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“
”صاحب! میں کہہ چکا ہوں، میں نے کسی سیاہ ٹوپی والے کو یہاں نہیں دیکھاہے۔“
”مانتا ہوں، آپ اچھی ادا کاری کر رہے ہیں لیکن شاید نہیں جانتے، اس وقت آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔ میرا نام انسپکٹر خان ہے اور مجھ سے کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں، آپ نے اس سیاہ ٹوپی والے کو دیکھا ہے۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟“
”جی بالکل! آپ سو فی صد غلط کہہ رہے ہیں۔ میں نے یہاں کسی کو نہیں دیکھا۔“ چرواہے نے اعتماد سے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، لیکن جب میں یہاں سے آگے جانے لگا تو آپ مسکرائے کیوں تھے؟“ انسپکٹر خان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
”اس کا یہ مطلب تو نہیں، میں نے اس سیاہ ٹوپی والے کو چھپایا ہے۔“ چرواہے نے جھنجلا کر کہا۔
اس کی بات سن کر انسپکٹر خان خاموش ہوگئے۔ وہ برابر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ چرواہے کی آنکھوں میں اب الجھن کے آثار نمایاں نظر آنے لگے تھے۔ وہ سامنے کھیت میں موجود اپنی بھیڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ انسپکٹر خان اس کے دائیں طرف موجود تھے۔ اچانک وہ مسکرائے اور دھیرے سے بولے:
”وہ سیاہ ٹوپی والا ایک مجرم ہے، ایک بس لوٹ کر بھاگا ہے۔ اسے پکڑوانے میں آپ میری مدد کریں، میں حکومت سے آپ کو انعام دلوانے کی کوشش کروں گا۔“
انسپکٹر خان کی بات سن کر چرواہے نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات تھوڑی دیر کے لیے تبدیل ہوئے مگر پھر فوراً وہ نارمل ہوگیا۔
”انسپکٹر صاحب! میں سچ کہتا ہوں، میں نے کسی سیاہ ٹوپی والے کو یہاں نہیں دیکھا۔ دیکھا ہوتا تو ضرور اس کے متعلق آپ کو آگاہ کردیتا۔ میں پڑھا لکھا ہوں، جانتا ہوں، پولیس کی مدد کرنا میرا فرض ہے، لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے اُسے نہیں دیکھا۔“ چرواہا کہتا چلا گیا۔
”میرا خیال ہے، آپ کو پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ انہوں نے آہستہ سے کہا۔
چرواہے نے چونک کر ان کی طرف دیکھا:
”انسپکٹر صاحب! ایک ہفتے بعد میری بہن کی شادی ہے۔ مجھے پیسوں کی کیسے ضرورت نہیں ہو سکتی!“
”آپ کے والد صاحب کہاں ہیں؟“ انہوں نے اچانک پوچھا۔
”کیا مطلب!!!“ چرواہا یوں اُچھلا، جیسے اسے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں زمانے بھر کی حیرت اور خوف در آیا۔
”میں نے پوچھا ہے، آپ کے والد صاحب کہاں ہیں؟“
”وہ…وہ…وہ ایک کام سے شہر گئے ہیں۔ بہن کی شادی ہے نا، کچھ سامان وغیرہ خریدنے گئے ہیں۔“
”ان کا نام کیا ہے؟“
”نام…ہاں، ان کا نام ارسلان حمیدی ہے۔“ چرواہے پر گھبراہٹ پوری طرح حاوی تھی۔
”کیا میں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں؟“
”کک…کیوں،آپ میرے پاس کیوں بیٹھیں گے۔“ چرواہا اُچھل کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں آپ کے والد صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔“
”لیکن…وہ آپ کا سیاہ ٹوپی والا…“ چرواہے نے کہنا چاہا۔
”اسے پھر پکڑ لوں گا۔“
”کیا وہ بھاگ نہیں جائے گا۔“چرواہے نے جلدی سے کہا۔
”جی نہیں، وہ کہیں نہیں جا سکتا۔“وہ مسکرائے۔
نوجوان چرواہے نے مزید کوئی بات نہ کی۔ انسپکٹر خان اس کے قریب بیٹھ گئے اور کھیت میں چرتی اس کی بھیڑوں کو دیکھنے لگے۔
”اچھا، یہ تو بتائیں،وہ آئیں گے کس وقت۔“ انسپکٹر خان نے اچانک گردن گھما کر چرواہے کی طرف دیکھا۔ اسے ایک طرف متوجہ دیکھ کر وہ مسکرائے۔ پھر انہوں نے اس کا کندھاپکڑ کر ہلایا:
”میں نے پوچھا ہے، آپ کے والد صاحب کب آئیں گے۔“
”جی وہ…معلوم نہیں، کہہ کر گئے تھے، انہیں زیادہ دیر بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا انتظار نہ کیا جائے۔“ چرواہے نے چونک کر کہا۔ اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوگیا۔
”نوجوان! جھوٹ بولنا بہت آسان ہے لیکن ان لوگوں کے لیے جن کا کام ہی یہی ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ آپ نے اپنے والد صاحب کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن افسوس، آپ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔“ انسپکٹر خان نے اُٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
”کک…کک…کیا مطلب!!!“ چرواہا حیرت سے اُچھل پڑا۔
”مم…میرا مطلب ہے،آپ اس سیاہ ٹوپی والے کو بچا نہیں سکے۔ میں نے جان لیا ہے، وہ کہاں چھپا ہوا ہے۔“ انہوں نے اس کے انداز میں کہا۔
”نہیں…یہ نہیں ہوسکتا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے…اُف میری…“ چرواہے کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔
انسپکٹر خان نے گردن گھما کر اپنے عقب میں موجود ٹیلے کی طرف دیکھا اور نارمل آواز میں بولے:
”رحیم داد! آجاؤ۔“
فوراًہی ٹیلے کی اوٹ سے نکل کر، دو سپاہی ان کے پاس آگئے۔ چرواہا انہیں دیکھ کر بہت زور سے اُچھلا۔ اس کے منہ سے نکلا:
”کیا مطلب؟“
”مطلب یہ ہے نوجوان چرواہے، میں نے اس سیاہ ٹوپی والے کو تلاش کر لیا ہے۔“
”کہاں ہے وہ؟“ چرواہے نے ڈوبتی آواز میں کہا۔
”آپ کی بھیڑوں کے پیچھے۔ میرا مطلب ہے، ان کے پیچھے ایک گڑھے میں۔“ انسپکٹر خان نے مسکرا کر کہا۔
”اوہ…“ چرواہے کے منہ سے بے ساختہ نکل گیااور پھر وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔
”نوجوان! اپنے والد صاحب سے کہو، رضا کارانہ طور پرخود کو میرے حوالے کر دیں۔ اگر انہوں نے ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو آپ کو یا انہیں کوئی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ آپ لوگ اس پوزیشن میں نہیں ہیں…اس لیے کہ آپ کی بہن کی شادی میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔“ انسپکٹر کہتے چلے گئے۔
”ابا جان! آجائیں…اب چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ شاید اللہ کو یہی منظور ہے۔“ اچانک چرواہے نے چلا کر کہا۔ انسپکٹر خان نے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ سیاہ ٹوپی والا گڑھے سے باہر نہ نکلا۔ یہ دیکھ کر چرواہے نے پھر کہا:
”ابا جان! باہر آجائیں، ان لوگوں کو آپ کے بارے میں سب معلوم ہوگیا ہے۔“
اور پھر گڑھے میں سے ایک آدمی برآمد ہوا۔ اس کے ہاتھ میں بڑا سا پستول تھا۔ وہ چلتا ہوا، ان کے پاس آگیا۔
”لائیں، یہ پستول مجھے دے دیں…یہ آپ کے ہاتھ میں اچھا نہیں لگتا۔ یوں بھی آپ اسے چلانا نہیں جانتے اور نہ شاید یہ آپ کا اپنا ہے، ورنہ اب تک دو چار فائر ضرور کر چکے ہوتے۔“ انسپکٹر خان نے کہا اور اس پستول اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
سیاہ ٹوپی والے کی آنکھوں میں آنسو تھے،سر جھکا ہوا تھا۔وہ کہہ رہا تھا:
”انسپکٹر صاحب! میں یہ سب کرنا نہیں چاہتا تھا…لیکن۔“
”لیکن حالات انسان کو مجبور کر دیتے ہیں۔“انسپکٹر خان نے کہا۔
”انسپکٹر صاحب! میری بہن…“ چرواہے نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
”آپ فکر نہ کریں…“ انسپکٹر خان نے کہا۔ وہ سیاہ ٹوپی والے کی طرف متوجہ ہوئے:
”بے شک آپ مجبور تھے لیکن آپ نے راستہ غلط چنا، اس کی سزا تو آپ کو ملے لیکن میں وعدہ کرتا ہوں،آپ کی بیٹی کی شادی ضرور ہوگی اور اچھے طریقے سے ہوگی…ان شاء اللہ۔“
انہوں نے رحیم داد کو اشارہ کیا۔ اس نے آگے بڑھ کر سیاہ ٹوپی والے کو گرفتار کر لیا۔ پھر وہ اسے لے کر شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں انسپکٹر خان اپنے ماتحت رحیم داد سے کہہ رہے تھے:
”رحیم داد! انسان پر مشکل وقت آتا ہے لیکن اسے غلط راستوں پر نہیں چلنا چاہیے۔ مشکل وقت آدمی پر اس کے مالک کی طرف سے امتحان ہوتا ہے۔ اچھے اور سچے مسلمان امتحان میں ضرور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ارسلان حمیدی پر بھی مشکل وقت آیا، لیکن انہوں نے غلط راستے کا انتخاب کیا۔ بہت سے لوگوں کو تکلیف دے کر اپنا مسئلہ حل کرنا چاہا لیکن چوں کہ یہ عادی مجرم نہیں ہیں، اس لیے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔“
رحیم داد اور اس کا ساتھی ان کی تائید میں سر ہلانے لگے جب کہ ارسلان حمیدی کا جھکا سر، مزید جھکتا چلا گیا۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top