skip to Main Content
سُرخ دائرہ

سُرخ دائرہ

نذیر انبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’سر! جو سرخ دائرہ آپ نے عامر کے نام کے گرد لگایا ہے‘وہ میرے نام کے گرد لگا دیں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’تم سب میرے کمرے کے باہر کھڑے ہو جاؤ اور میں جس کا نام پکاروں صرف وہ میرے پاس آئے ، سب سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور شور مت کرو۔‘‘سر نثار چلّائے۔
سر نثار کی آواز سنتے ہی کلاس ہشتم ڈی کے بچوں کی سر گوشیاں دم توڑ گئیں ۔بے ترتیب کھڑے ہوئے بچے فوراً ایک قطار بنا کر کھڑے ہو گئے۔ان کی آنکھوں سے شرارت اور چہروں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔سر نثار کے کمرے کے باہر ایک چھوٹی سی تختی پر لکھا تھا: ’’شعبہ مطالعہ پاکستان‘انچارج ڈسپلن کمیٹی‘‘سکول میں جماعت یا جماعت سے باہر کسی طالب علم کو کوئی مسئلہ در پیش ہوتا یاکسی طالب علم کی وجہ سے کوئی مسئلہ ہوتا تو اس کا حل تلاش کرنا سر نثار کا کام تھا۔وہ یہ کام کئی سالوں سے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے تھے ۔ان کی آواز میں اتنی گھن گرج تھی کہ بولتے ایک بلاک میں تھے اور اس کی گونج دوسرے بلا ک میں سنائی دیتی تھی ۔جب بھی سکول میں کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا تو ان کا کمرہ عدالت کا روپ دھار لیتا۔آج بھی ایک مسئلے نے ہشتم ڈی کے طلبہ کو ان کے کمرے کے باہر لا کھڑا کیا تھا۔سب برآمدے میں سہمے کھڑے تھے ۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ان کے منہ میں زبان نہ ہو۔سب سر نثار کی آواز کے منتظر تھے۔
’’محمد علی تم آؤ۔‘‘
’’محمد علی کمرے کی طرف بڑھا تو اسے اپنے پاؤں من من بھر کے محسوس ہو رہے تھے ۔اس کا دل خوف کے مارے دھک دھک کر رہا تھا۔
’’بولو جماعت میں لگے بورڈ کو کس نے توڑا ہے؟‘‘سر نثار نے غصے سے ہاتھ میز پر مارا۔
’’سر مجھے نہیں پتا۔‘‘
’’تو کس کو پتا ہے؟‘‘
’’سر! میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔‘‘ 
’’سیدھی طرح مان جاؤ ورنہ مار بھی پڑے گی اور جرمانہ بھی ہو گا۔‘‘
’’سر! آپ یقین کریں میں نے بورڈ کاشیشہ نہیں توڑا ۔‘‘یہ کہتے کہتے محمد علی رو دیا۔سر نثار کچھ دیر ٹھہر کر بولے: 
’’تم جاؤ اور صادق کو اندر بھیجو۔‘‘
محمد علی اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کمرے سے باہر آگیا ۔چند لمحوں بعد صادق آنکھیں نیچے کیے سر نثار کے سامنے کھڑا تھا۔
’’بورڈ توڑنے کی حرکت تمہارے علاوہ کسی کی ہو ہی نہیں سکتی ۔‘‘ 
’’نہیں سر میں نے ایسی حرکت نہیں کی ۔‘‘
’’تو پھر کس نے کی ہے؟‘‘
’’میں کیا بتاسکتا ہوں۔ ‘‘ صادق بولا۔
’’تمہیں معلوم ہے اس بورڈ میں لگے شیشے کی کتنی قیمت ہے؟‘‘
’’نہیں سر۔‘‘
’’اس بورڈ میں لگے شیشے کی قیمت دو ہزار روپے ہے ۔جس طالب علم نے بورڈ توڑا ہے ‘دو ہزار روپے تو اسے دینا ہی پڑیں گے اور ہو سکتا ہے اسے سکول سے بھی نکال دیا جائے ۔‘‘سر نثار نے صادق کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سر! میں شرارتی ضرور ہوں مگر میں نے بورڈ نہیں تو ڑا ۔‘‘
’’تم جھوٹ تو نہیں بول رہے۔‘‘
’’نہیں سر بالکل سچ کہہ رہا ہوں ۔‘‘صادق نے کہا۔
’’تم جا سکتے ہو‘ اب عامر کو بھیجو۔یہ کہہ کر نثار نے اپنے سامنے رکھے کاغذ پر کچھ لکھا ۔صادق کے جاتے ہی عامر سر نثار کی عدالت میں موجود تھا۔
’’آئیے ……….آئیے عامر صاحب ……….تشریف لائیے۔‘‘
عامر خا موشی سے کھڑا ہو گیا ۔
’’دو ماہ پہلے کھڑکی کا شیشہ تم نے تو ڑا تھا؟‘‘عامر نے یہ سن کر اثبات میں سر ہلا دیا ۔
’’دسمبر میں تم نے گیند مار کر ٹیوب لائٹ کو کرچی کرچی کر دیا تھا۔‘‘عامر نے اس بار بھی ہاں میں سر ہلایا تو سر نثار نے کہا۔
’’بول کر جواب دو۔‘‘
’’جی سر۔‘‘عامر بولا۔
’’ایک ماہ پہلے پنکھے کا پر ٹیڑھا کرنے کا کارنامہ بھی تم نے سر انجام دیا تھا۔‘‘
’’جی سر!‘‘
’’تو اس ماہ تم نے بورڈ کا شیشہ توڑ کر اپنے ریکارڈ کو مزید شاندار بنا لیا ہے۔‘‘
’’سر! میں نے بورڈ نہیں توڑا ۔‘‘
’’تم ہمیشہ پہلے یہی کہتے ہو مگر پھر اعتراف جرم بھی کر لیتے ہو۔۔‘‘
’’میں مانتا ہوں کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے مگر میں جماعت میں چیزوں کی توڑ پھوڑ کی شرارتوں کو چھوڑ چکا ہوں۔پچھلی بار پرنسپل نے کہا تھا کہ اگر میں نے دوبارہ جماعت کی کسی چیز کو نقصان پہنچایا تو مجھے سکول سے نکال دیا جائے گا۔‘‘عامر نے کہا۔
’’تمہیں سکول سے نکالے جانے کا خطرہ تو اب بھی ہے۔‘‘ 
’’سر! ایسا مت کہیں مجھے تو اپنے ابا جان کی مار ابھی تک یاد ہے۔میں بورڈ توڑنے کی حرکت کرنا تو در کنار اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘عامر روہانسی صورت بنا کر بولا۔
’’میں نے معلوم کیا ہے کل جب یہ بورڈ ٹوٹا تھا تفریح کے وقفہ میں تو تم اکیلے جماعت میں موجود تھے ۔کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’جی سر !‘‘
’’جب طلبہ تفریح کے بعد واپس آئے تو بورڈ ٹوٹ چکا تھا اور تم جماعت سے غائب تھے۔تم تفریح میں جماعت میں موجود تھے پھر کیوں باہر گئے تھے ؟‘‘سر نثار نے پوچھا۔
’’میرے پیٹ میں درد تھا۔تفریح کے وقت سکول ڈسپنسری تھوری دیر کے لیے بند ہو تی ہے۔میں تفریح ختم ہونے سے پہلے دوائی لینے کے لیے ڈسپنسری چلا گیا تھا۔میں جب واپس آیا تو بورڈ ٹوٹ چکا تھا۔‘‘عامر نے تفصیل بتائی۔
’’کہانی تم خوب بنا لیتے ہو۔‘‘
’’سر! یہ کہانی نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر اور کیا ہے؟‘‘سر نثار نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
’سر! بورڈ میں نے نہیں توڑا۔‘‘عامر کی بات سنتے ہوئے سر نثار کاغذ پر کچھ لکھتے رہے۔یہ عدالت تقریباً ایک گھنٹہ تک لگی رہی ۔جماعت ہشتم ڈی کا ہر طالب علم اس عدالت میں پیش ہوا اور اپنی صفائی پیش کرتا رہا۔جب عدالت بر خاست ہوئی تو سر نثار ایک نام کے گرد سرخ دائرہ لگا چکے تھے ۔جب انہوں نے سرخ دائرے میں درج نام کو پرنسپل صاحب کے سامنے رکھا تو انہوں نے کچھ لمحے توقف کے بعد کہا:
’’کیا آپ کو یقین ہے کہ عامر نے ہی بورڈ توڑا ہے؟‘‘
’’سر! شواہد سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ بورڈ عامر ہی نے توڑا ہے۔‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے عامر کو سکول سے فارغ کرتے ہیں ۔‘‘سر ! ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔عامر کی وجہ سے مزید بچوں کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘
کل عامر کے والد کو بلا لیں تاکہ ان کو ساری بات سے آگاہ کیا جا سکے۔‘‘
’’جی سر! میں ابھی عامر کے والد سے رابطے کی کوشش کرتا ہوں ۔‘‘
’’شکریہ‘‘پرنسپل صاحب بولے۔
پرنسپل آفس سے سر نثار کے نکلنے کی دیر تھی کہ یہ بات سارے سکول میں گردش کرنے لگی کہ عامر کو سکول سے نکالا جا رہا ہے۔کو ئی بھی اس بات پر اعتبار کرنے والا نہ تھا۔وہ جماعت میں بیٹھا کرچیوں میں تقسیم ہوئے بورڈ کو خاموشی سے تک رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس بورڈ کی جگہ دیوار میں بنا ہوا بلیک بورڈ ہو تا یا لکڑی پر سیاہ رنگ کر کے اس کو بلیک بنایا ہوتا تو اس کو توڑنے کا الزام اس پر نہ لگتا۔اس کے سکول میں تو ہر جماعت میں لکڑی کے فریم میں شیشے کو لگا کر گلاس بورڈ بنایا گیا تھا جو کسی چیز کی ہلکی سی ضرب لگنے سے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکتا تھا۔عامر آنکھوں میں نمی لیے گلاس بورڈ کو دیکھ رہا تھا کہ شاہد بول پڑا:
’’لو بھئی عامر سے الوداعی ملاقات کر لو ‘یہ تو اب ہماری جماعت میں مہمان ہے صرف ایک دن کا مہمان۔‘‘
’’عامر تو الوداعی ملاقاتوں کا عادی ہو چکا ہے۔‘‘عمران نے لقمہ دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘شاہد نے پوچھا۔
’’مطلب یہ ہے کہ عامر کا دل ایک سکول میں کہاں لگتا ہے ۔جب سکول سے جی اچاٹ ہوا سکول کی کوئی چیز توڑدی او ر اگلے سکول میں چلے گئے ۔ یہ اس کا ساتواں سکول ہے۔‘‘
’’نہیں یار یہ تو گپ ہے۔‘‘منیب نے کہا۔
’’نہیں یقین آتا تو خود عامر سے پوچھ لو۔‘‘
’’یہ بھلا کب مانے گا کہ یہ اس کا ساتواں سکول ہے۔میرا تو خیال ہے جماعت دہم میں پہنچنے تک عامر کے سکول کی تعداد ایک درجن تو ہو ہی جائے گی۔‘‘
عامر کے ہم جماعتی اس طرح کے جملے اس کی طرف اچھالتے رہے اور وہ ان جملوں کو تحمل سے سنتا اور برداشت کرتا رہا ۔خاموش تو صادق بھی تھا مگر اس کی خاموشی کی وجہ پیٹ درد تھا ۔صبح وہ ڈبل روٹی کے بجائے آلو پراٹھے کھا کر آیا تھا جس کی وجہ سے وہ پیٹ میں گرانی محسوس کر رہا تھا۔صادق کو آلو والے پراٹھے بہت پسند تھے ۔اس کی فرمائش پر امی جان اکثر اس کے لیے مزیدار پراٹھے پکاتی تھیں۔جب پسند کی چیز پکی ہو تو بندہ ضرورت سے سے زیادہ بھی کھا لیتا ہے۔صادق کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔پیٹ درد کے باعث وہ تفریح کے وقت گراؤنڈ میں بھی نہ جا سکا ۔وہ اکیلا جماعت میں ڈیسک پر سر جھکائے بیٹھا تھا کہ اس کے کانوں میں آواز پڑی:
’’صادق……….صادق……….میری بات سنو۔‘‘
صادق نے یہ سن کر ڈیسک سے سر اٹھایا تو جماعت اور جماعت سے باہر اسے کوئی بھی دکھائی نہ دیا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر کے ڈیسک پر سر رکھا تو کسی نے اس کو پھرمخاطب کیا:
’’صادق میری بات سنو۔‘‘
’’کون ہو تم؟‘‘
’’میں وہی ہوں جس کے ذریعے تم تک بہت سی اچھی باتیں پہنچتی ہیں‘ بولو تمہیں لفظ ’’بالکل‘‘ لکھنا آتا تھا۔تم اس لفظ کو ہمیشہ بالکل کے بجائے بلکل لکھتے تھے ۔‘‘
یہ سن کر صادق کو سر توقیر کا تھپڑ یاد آگیا ۔انہوں نے اردو کا ٹیسٹ لیا تو اس میں صادق نے کئی مرتبہ بالکل کو بلکل لکھا تھا ۔دوسرے دن انہوں نے بورڈ پر ایک طرف غلط اور دوسری طرف درست لفظ لکھے تھے ۔اس دن کے بعد صادق نے کبھی اس لفظ کو غلط نہیں لکھا۔
تمہیں لفظ صدا اور سدا میں فرق کا پتا نہیں چلتا تھا۔
’’ہاں ایسا ہی تھا۔‘‘ صادق نے کہا۔
’’تمہیں ان دونوں لفظوں میں فرق کرنا تب آیا تھا جب اردو کے استاد نے ان الفاظ پر مشتمل جملے مجھ پر لکھے تھے ۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ انہوں نے یہ جملے ’’فقیر نے گلی میں سدا لگائی ‘‘تم صدا خوش رہو’’ لکھ کر طلبہ سے پوچھا تھا کہ ان میں سدا اور صدا کا استعمال درست ہے یا غلط۔تم نے فوراً کہا تھا کہ دونوں جملے درست ہیں۔استاد نے لکھاتھا کہ سدا کا مطلب ہوتا ہے ہمیشہ جبکہ صدا کا مفہوم ہے آوازیوں درست یہ جملے ہیں: ’’فقیر نے گلی میں صدا لگائی تم سدا خوش رہو۔‘‘
جماعت میں تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی پھر صادق کو یہ سنائی دیا۔
’’ریاضی کا ایک مشکل سوال جماعت کے اکثر بچے کوشش کے با وجود حل نہ کر پائے تھے آخر سر الطاف نے میرے ذریعے اس سوال کو حل کر کے تم تک پہنچایا تھا‘‘صادق کو ریاضی کا وہ سوال فوراً یاد آگیا جو وہ کوشش کرنے پر بھی حل نہ کر پایا تھا۔
’’صادق تم میری باتیں سن رہے ہو نا ۔‘‘
’’ہاں میں سن رہا ہوں ۔‘‘صادق بولا۔
’’اسلامیات کے استاد نے باب ’’صادق و امین ‘‘پڑھاتے ہوئے مجھے پر لکھا تھا کہ صادق کا مطلب ہوتا ہے سچا اور امین کا مطلب ہوتا ہے امانت دار ۔مجھ پر ان الفاظ کا مفہوم لکھ کر انہوں نے تم سے پوچھا تھا کہ تمہیں اپنے نام کا مطلب آتا ہے یا نہیں ۔تم نے نفی میں سر ہلادیا تھا۔تب انہوں نے کہا تھا کہ یاد رکھو صادق سچے کو کہتے ہیں ۔‘‘
’’اس دن پہلی بار مجھے اپنے نام کا مطلب معلوم ہوا تھا۔‘‘صادق فوراً بولا۔
’’مجھ پر ہی اسلامیات کے استاد نے ایک حدیث مبارکہ لکھی تھی کہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ’’سچائی کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ سچ بولنا نیکی تک پہنچاتا ہے اور نیکی بہشت میں پہنچاتی ہے اور جو آدمی ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک بڑا سچا لکھا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ نافرمانی کا راستہ دکھاتا ہے اور نافرمانی دوزخ میں پہنچاتی ہے ۔جو آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک بڑا جھوٹا لکھا جاتا ہے۔‘‘ 
یہ سن کر صادق پر تو سکتہ طار ی ہو گیا ۔اس کو وہ لمحہ یاد آگیا جب وہ جماعت میں تھااور اکیلا ہی کرکٹ بیٹ کو شارٹ لگانے کے انداز میں گھما رہا تھا کہ بیٹ گلاس بورڈ سے جا ٹکرایا تھا۔ضرب لگنے کی دیر تھی کہ لکڑی میں لگا شیشہ کرچی کرچی ہو گیا تھا۔اس کے فوراً بعد وہ چپکے سے جماعت سے باہر آگیا تھا کہ کسی کو اس پر شک نہ ہو ۔تفریح کا وقت ختم ہوا تو طلبہ کے جماعت میں آنے پر صادق کی آنکھ کھلی ۔اس کا سر ڈیسک پر تھا۔وہ ٹوٹے ہوئے بورڈ کو دیکھتے ہوئے جماعت سے نکل کر سر نثار کے کمرے میں جا پہنچا۔
’’سر! جو سرخ دائرہ آپ نے عامر کے نام کے گرد لگایا ہے‘وہ میرے نام کے گرد لگا دیں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’اس ’’کیوں‘‘ کے جواب میں صادق واقعی صادق بن گیا اور سب کچھ اس نے سچ سچ بتا دیا۔صادق کا ریکارڈ چونکہ اچھا تھا اور اس نے سچ بھی بولا تھا اس لیے اس کو سکول سے نکالنے کے بجائے صرف جرمانہ کیا گیا۔صادق جب جماعت میں داخل ہو کر اپنی کرسی کی طرف بڑھنے لگا تو بورڈ نے اس کے کان میں سر گوشی کی:
’شاباش صادق ‘شاباش۔‘‘
یہ سن کر صادق کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top