skip to Main Content

سوال نامہ

ماریہ حجاب

۔۔۔۔۔۔
ایسے سوالات جو آپ نے کبھی کیے ہوں گے

۔۔۔۔۔۔

عنوان دیکھ کر گھبرائیے مت…. یہ آپ کے لیے سوال نامہ نہیں بلکہ جناب محمد صدیقی صاحب کا خطاب ہے جو ان کی مریم باجی نے ان کی طرف سے ہونے والی مسلسل سوالات کی بمباری سے متاثر ہو کر ان کو عطا فرمایا ہے۔
محمد نے تین سال کی عمر میں بولنا شروع کیا۔ اس سے پہلے وہ اشاروں سے کام چلاتے تھے، ہر چیز کے لیے الگ اشارہ تھا۔ تین سال کے ہوچکے تو ایک خاتون نے مشورہ دیا کہ فزیو تھراپسٹ کو دکھائیے (یہ بن مانگے کا مشورہ تھا) ہم نے ایسے ہی اپنی امی یعنی محمد کی نانی جان سے ذکر کیا تو کہنے لگیں ’بالکل نہیں۔‘ سوچنا بھی مت۔ یہ جو سن رہا ہے سب اس کے دماغ میں فیڈ ہورہا ہے جب نکلے گا تو تمھارے کان کھائے گا۔“ ساتھ ہی ”رب الشرح لی “یاد کرانے کی تاکید کی۔ میں نے کہا اس کے تو تھوڑے مشکل الفاظ ہیں، کیسے یاد کرے گا تو کہنے لگیں ”بس تم پڑھاﺅ۔ آگے اللہ بہتر کرے گا۔“ اور ہم حیران رہ گئے جب صرف چار دن میں محمد نے یہ دعا یاد کرلی اور بس یہی شروعات تھی۔ نانی جان تو اپنی پیشن گوئی کو پورا ہوتے نہ دیکھ سکیں کہ اگلے ہی مہینے اللہ نے انھیں اپنے پاس بلالیا مگر ہمیں تقریباً روزانہ ہی محمد صاحب ان کی پیشن گوئی یاد کرادیتے ہیں۔ سوالات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ہر جواب دیتے ہوئے آپ اگلے چار سوالات کے لیے تیار رہیں۔
نانی جان کے بعد انھیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ سب کو اللہ کے پاس جانا ہے۔ ایک دن پوچھنے لگے کہ ”امی کیا سب مرنے کے بعد قبر میں جاتے ہیں؟“ ہم نے کہا۔ ”ہاں“ اور دوسرے لوگ اُن کو قبر میں ڈالتے ہیں۔ ”جی ہاں۔“
”اچھا، تو جب دنیا کا آخری آدمی رہ جائے گا تو وہ کیسے جائے گا قبر میں؟“ ہم چپ۔ ابھی آپ تھوڑے اور بڑے ہوجائیں پھر یہ بات بھی سمجھ میں آجائے۔ (اس وقت ان کی عمر ۴ سال تھی) پھر پوچھا: ”اچھا تو نانی جان کو کس نے قبر میں ڈالا؟“
ہم نے کہا: ”قانت ماموں، کاشف ماموں اور فرحان ماموں نے۔“
”اچھا تو یعنی آپ کو میں ڈالوں گا؟“
ہم نے کہا: ”ان شاءاللہ اور پھر آپ اپنی امی کے لیے بہت دعا کرتے رہیے گا۔“
اچھا اس ساری بات کے بعد سب سے خطرناک بات یہ ہوئی کہ ہم انھیں یہ منع کرنا بھول گئے کہ یہ بات کسی اور سے مت کرنا اور انھوں نے بتانے کے لیے پسند کس کو کیا؟ اپنی دادی جان کو۔
دادی جان سے ان کو بہت محبت ہے۔ جب ہم پاکستان جاتے ہیں تو یہ زیادہ وقت اپنی دادی جان کے پاس ہی گزارتے ہیں۔ دادی جان بھی ان کے سوالات اور باتیں بہت برداشت کرتی ہیں تو یہاں بھی یہی ہوا۔ پوری بات ہونے کے بعد تھوڑی دیر غور و خوض کیا اور جب ہم اپنے کسی کام میں مصروف ہوگئے تو یہ دادی جان کے پاس پہنچ گئے۔ ”معلوم ہے دادی جان! جب امی اللہ میاں کے پاس جائیں گی تو میں انھیں قبر میں ڈالوں گا۔“
اب آگے آپ خود سمجھ جائیے کہ کیا ہوا ہوگا….
ساتھی رسالہ ان کو بہت پسند ہے۔ سائم اور جولیا کی کہانی بہت شوق سے سنتے ہیں۔ ایک کہانی کو آپ بار بار سنائیں۔ یہ اتنی ہی توجہ اور لگن سے سنیں گے۔ پھر کافی دیر تصاویر پر غور کرتے ہیں۔
پچھلے رسالے میں ماہنامہ ساتھی کی مجلس ادارت نے ’دنیا کا پہلا سرجن‘ چھاپ دی۔ مصیبت ہمارے لیے ہوگئی۔ بلامبالغہ آدھا گھنٹہ اس مضمون کو لیے بیٹھے رہے اور پھر سوالات۔
سوال نمبر ۱: گوریلا کا آپریشن کیوں کیا کسی اور کا کیوں نہیں کیا؟
جواب: کیوں کہ گوریلا کا جسم اندر سے انسان کے جسم سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔
سوال نمبر ۲: زرافہ کا نہیں کیا؟
جواب: نہیں۔
سوال نمبر ۳: گھوڑے کا بھی نہیں؟
جواب: (جھنجھلا کر) نہیں۔
سوال نمبر ۴: تو پھر یہ کیسے پتا چلا کہ صرف گوریلا کا جسم انسان سے ملتا ہے؟
جواب: خاموشی۔
سوال نمبر ۵: اچھا یہ گوریلا اندھیرے میں کیوں کھڑا ہے؟
جواب: (ہم ابھی پچھلے سوال کے زیر اثر تھے) خاموشی۔
اچانک اہم شرط تو ہم بتانا بھول ہی گئے کہ آپ سوالوں کے جواب دیں اور خوش گوار موڈ کے ساتھ۔ ذرا مشکل بنی تو ”امی آپ کی شکل کیسی ہورہی ہے۔“
”کیوں، کیا ہوا شکل کو؟“
”آپ رونے والی کیوں ہورہی ہیں؟“
”نہیں رو رہی بھئی۔“
”تو شکل کیوں ایسی ہورہی ہے؟“
انھیں ۶ سال کا ہونے کا بہت شوق ہے۔ اپنے بابا سے عربی کی گنتی سیکھ رہے ہیں۔ ”میں خمس سال کا ہوں اور ستہ کا ہونے والا ہوں۔“ (حالاں کہ پچھلے مہینے ہی ۵ سال کے ہوئے ہیں اور ۶ سال کا ہونے میں ابھی پورا سال ہے)۔
چھوٹا بھائی روہانسا ہو کر ”بھائی جان! مجھے بھی تو بتاﺅ۔“
”اچھا تم ثلاثہ کے ہو اور اربع کے ہوگے۔“
جنت میں جا کر اللہ میاں سے یہ چیزیں لینی ہیں۔ ”براق گھوڑوں کا اصطبل، آم کا پورا درخت اور Marry بسکٹ کی دکان۔“ ابراہیم بھائی جب بھی تنگ کریں گے میں براق پہ بیٹھ کر اُڑ جاﺅں گا۔“ اب جب سے حضرت جعفر طیارؓ کا واقعہ سنا ہے پروں کا معاملہ بھی زیر غور ہے۔ اگر پر مل جائیں تو پھر تو ہم خود ہی اُڑ سکتے ہیں۔
حضرت ابو طلحہؓ اور اُم سلیمؓ کی مہمان نوازی والا واقعہ بہت پسند ہے۔ ان کے بچوں کی طرح یہ بھی بہت ساری باتوں پر صبر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر چھوٹے بھائی کا خیال کرتے ہوئے۔
پہیلیاں بوجھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ایک جگہ اپنے بابا کے ساتھ دعوت پر گئے۔ توقع غالب ہے وہاں پر بھی اپنی کارگزاری میں مصروف ہوں گے۔ ایک صاحب نے کہا: ”اچھا یہ بتاﺅ ایک چیز ہے جس کے بڑے بڑے کان ہیں اور وہ میاﺅں میاﺅں بولتی ہے مگر وہ بلی نہیں ہے۔“ فوراً بولے ”بلا“۔ اچھا جب ان کے بابا ہمیں بتارہے تھے تو ہم بھی ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑگئے کہ ایسا کون سا جانور ہوسکتا ہے لیکن محمد تو محمد ہے جواب دے کر اگلا سوال جو کرنا تھا۔
”میں کچھوا نہیں ہوں۔“ گل رعنا کی تحریر ہمارے لیے عملی طور پر بے حد کارآمد ثابت ہوئی اور شاید یہی وہ واحد کہانی ہے جو دوبارہ سننے کی فرمائش نہیں ہوئی بلکہ ہم نے خود سنانے پر اصرار کیا تو بھی سننے پر راضی نہیں، ناراض ہوجاتے ہیں۔ وجہ تو سامنے موجود ہے جب بھی یہ صاحب سستی دکھاتے ہیں، ہم بغیر ان کی طرف دیکھے بس یہ کہتے ہیں: ”یہاں تو کسی کا کچھوا بننے کا دل چاہ رہا ہے۔“ اور بس فٹافٹ کام ہوجاتا ہے، مگر اس کی نوبت کم ہی آتی ہے کہ زیادہ تر وہ بھاگ بھاگ کر کام کرتے ہیں۔
کون سی چیز کتنے کی ہے یہ بھی معلوم کرنے کا بہت شوق ہے۔ اپنے بابا سے اس بات پر کئی دفعہ ڈانٹ کھا چکے ہیں مگر…. ان کے اس شوق کا اندازہ اس سے کرلیں:
”امی! Minicooper بہت مہنگی ہوتی ہے؟“
(ہم کھانا بنارہے تھے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا)
”اچھا تو کتنے کلو کتنے پیسوں کی لے سکتے ہیں؟“
اس مضمون کو لکھنے کے دوران ہر تھوڑی دیر میں پریشان ہو کر آتے رہے ہیں۔ ”امی کتنا لکھیں گی؟“
”آپ ابھی تک تھکی نہیں؟“
”اچھا کب تھکیں گی؟“
تو جناب محمد کو تو گھور گھور کر خاموش کروایا، لیکن اب ایسا لگتا ہے ہم واقعی تھک گئے ہیں تو مدیر صاحب سے گزارش ہے کہ سائم اور جولیا کی کہانی میں ناغہ نہیں کیا کریں ورنہ محمد کے ساتھ ساتھ ہمارے…. جی ہاں ہمارے بھی دل پر گزر جاتی ہے کیوں کہ جتنے شوق سے محمد سنتے ہیں اس سے کہیں زیادہ شوق سے ہم اُنھیں سناتے ہیں۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top