skip to Main Content
سنگ تراش

سنگ تراش

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاپانی لوک کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر کار ہانشو کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ مطمئن ہوگیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانشو ایک سنگ تراش تھا جو اس وقت ایک بہت بڑی چٹان پر اپنا تیشہ اور چھینی آزما رہا تھا۔ قریب ہی اس کے کچھ اور بھی اوزار پڑے ہوئے تھے۔ یہ بڑا مشکل کام تھا۔ اس وقت سورج پوری شدت سے اس کے سر پر چمک رہا تھا۔ ہانشو کے دل سے آہ نکلی۔ وہ بولا: ’’یاخدا! کبھی میری زندگی میں بھی ایسا دن آئے گا جب مجھے پورا دن کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ میں سارا دن آرام سے بیٹھ کر سستاتا رہوں گا اور مجھے یہ بھاری اوزار نہیں اُٹھانے پڑیں گے۔‘‘

تبھی اس کے کانوں میں بہت سے لوگوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ہانشو نے دیکھا کہ سڑک سے لوگوں کا ایک جلوس گزر رہا ہے۔ جب وہ لوگ نزدیک آئے تو اُس نے دیکھا کہ بادشاہ کی سواری گزر رہی ہے۔ جلوس کے داہنی طرف فوجی تھے جنھوں نے زرہ بکتر پہن رکھے تھے اور کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار تھے جبکہ جلوس کی بائیں طرف بادشاہ کے وزیر اور دربار کے مصاحب تھے جو بادشاہ کی کوئی بھی خدمت بجا لانے کے لیے تیار تھے۔

ہانشو کی آنکھوں نے یہ نظارہ دیکھا تو بے اختیار اس کے دل میں خواہش اُبھری کہ کاش وہ بھی بادشاہ بن جائے اور اس کے پاس اسی طرح فوجی بھی ہوں، جو اس کے لیے کسی سے بھی لڑنے کو تیار ہوں اور اس کی خدمت کے لیے مصاحب اور غلام ہوں۔ جو ہر وقت اس کا کہنا مانیں۔

وہ حسرت سے بولا: ’’اے خدا! کاش میں بادشاہ بن جاؤں۔‘‘ تبھی کسی نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی۔ ’’تو بادشاہ بن جاؤ۔‘‘

یہ سنتے ہی ہانشو کو محسوس ہوا کہ وہ ایک پتھر توڑنے والا سنگ تراش نہیں رہا۔ جو سڑک کے کنارے بیٹھا ایک چٹان کو اپنے تیشے سے توڑ رہا تھا بلکہ اب وہ بادشاہ بن چکا ہے۔ اس نے بھی اپنے جسم پر بھاری زرہ بکتر پہن رکھی ہے۔ وہ گھوڑے پر سوار سڑک پر چلا جارہا ہے اور اس کے دائیں بائیں فوجی اور ملازم چل رہے ہیں اور سب اس کے ہر حکم پر سر جھکا رہے ہیں۔ وہ چلتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ قافلہ بھی لیکن اس نے جو زرہ بکتر پہنی ہوئی تھی وہ بہت بھاری تھی اور اس نے سر پر جو بھاری لوہے کا خود (ٹوپی) پہن رکھی تھی اس کے وزن سے اس کا سر جھکا جارہا تھا۔

گرمی سے وہ بہت کمزوری اور تھکاوٹ بھی محسوس کرنے لگا تھا، اگرچہ وہ بادشاہ تھا لیکن اسے بھی دوسرے انسانوں کی طرح سورج کی تیز دھوپ تنگ کررہی تھی۔ آخر اُکتا کر وہ خود سے کہنے لگا۔ ’’یاخدا! اگرچہ میں بادشاہ بن گیا ہوں لیکن سورج کی گرمی برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے سوچا تھا کہ شاید دنیا میں بادشاہ ہی سب سے طاقتور ہوتا ہوگا لیکن سورج مجھ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا اور سورج مسلسل اس کے سر پر آگ برساتا رہا۔ وہ سوچتا رہا کہ بادشاہ سے کہیں زیادہ طاقتور سورج ہی ہوتا ہے۔

آخر وہ بولا: ’’اے خدا! کاش تو ہانشو کو سورج بنادے۔‘‘ تبھی اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی۔ ’’تو پھر سورج بن کر دیکھ لو۔‘‘ اور فوراً وہاں سے وہ بادشاہ جو اپنے مصاحبوں اور وزیروں کی فوج کے ساتھ چلا جارہا تھا۔ اپنے لاؤ لشکر سمیت غائب ہوگیا۔

ہانشو اب سورج بن چکا تھا جو آسمان پر پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ وہ زمین پر گرمی پہنچارہا تھا اور چراہ گاہیں تک اس کی حِدّت سے تَپ رہی تھیں۔ وہ نیا نیا سورج بنا تھا۔ ابھی اسے معلوم نہیں تھا کہ کتنی گرمی زمین تک پہنچانی ہے۔ اس نے زمین پر شعاعوں کو پوری کے ساتھ پہنچنے دیا۔ جس سے چراہ گاہوں کی گھاس جل گئی اور وہ خشک بنجر ہوگئیں ۔ گرمی کی شدت سے لوگ بِلبِلا اُٹھے لیکن ہانشو کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے رہا ہے۔

لیکن پھر اچانک بادل اس کے اور زمین کے درمیان آگئے۔ اب اس کی شعاعیں زمین پر، لوگوں پر اور شہروں تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ تب ہانشو نے سوچا کہ وہ سورج ہے اور اس کی شعاعوں کی تپش سب مانتے ہیں لیکن یہ بادل تو اس سے بھی طاقتور ہیں۔ اُنھوں نے تو اس کی شعاعیں زمین تک پہنچنے سے روک دی ہیں۔ وہ یہ سوچ رہا تھا اُدھر بادل مزید گہرے اور سیاہ ہوگئے۔

ہانشو بڑبڑایا اور بولا: ’’اے خدا! کاش تو ہانشو کو بادل بنادے۔‘‘ اور فوراً وہ سورج جو کچھ لمحے پہلے زمین پر گرمی پھیلا رہا تھا۔ اُڑتا ہوا بادل بن گیا۔ وہ بارش برسا رہا تھا۔ سورج کی شعاعوں کو روک رہا تھا۔

بلکہ اس کے بہت زیادہ برسنے سے ندی نالوں میں سیلاب آرہا تھا۔ اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کتنا برسنا چاہیے۔ وہ برستا رہا اور سیلابی پانی سے فصلیں تباہ ہوتی رہیں۔ چراہ گاہیں جوہڑوں میں تبدیل ہوگئیں۔ تیز ہوا چلنے لگی جس سے درخت جڑ سے اُکھڑنے لگے۔ گھر زمین بوس ہوگئے لیکن ہانشو نے ان سب چیزوں کا خیال نہیں کیا بلکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ بہت اچھا کام کررہا ہے۔

لیکن اچانک اس کی نظر زمین پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ ایک سڑک کے کنارے ایک بڑی چٹان جمی کھڑی ہے اور اسے اس آندھی اور طوفان سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس نے کہا: ’’میں اتنا مضبوط ہوں کہ درختوں کو جڑ سے اُکھیڑ سکتا ہوں اور شہروں کو ملیا میٹ کرسکتا ہوں اور فصلوں اور چراہ گاہوں کو پانی کے جوہڑ بناسکتا ہوں لیکن اس چٹان کو میری طاقت سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس لیے یہ چٹان ضرور مجھ سے زیادہ طاقت ور ہے۔‘‘ تب ہانشو کے منھ سے نکلا: ’’اے خدا! کاش تو مجھے یہ چٹان بنادے۔‘‘ اس کے کانوں نے فوراً ایک سرگوشی سنی: ’’تو پھر چٹان بن جاؤ۔‘‘ اب وہ بادل نہیں رہا جو زمین پر بارش برسا رہا تھا بلکہ اب وہ ایک چٹان میں تبدیل ہوگیا جو سڑک کے کنارے سختی سے ساکت کھڑی تھی۔ اب اسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ واقعی بہت مضبوط اور طاقتور ہوگیا ہے لیکن ابھی وہ اس بات کا مزا ہی لے رہا تھا کہ اسے تیشے اور چھینی کی آوازیں آئیں۔ کوئی ان اوزاروں کو اس کے سر پر برسا رہا تھا۔

تب اسے احساس ہوا کہ جتنی مرضی آندھی آئی اور طوفان آیا برسا لیکن یہ سب چٹان کا کچھ نہ بگاڑ سکے ایک سنگ تراش یا تیشہ بان جب چاہے اس کی صورت تبدیل کرسکتا ہے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔

وہ بے اختیار بولا: ’’اے خدا! ہانشو کو سنگ تراش ہی بنادے۔‘‘ پھر اس کے کانوں نے سرگوشی سنی: ’’تو پھر بن جاؤ۔‘‘

تب ہانشو نے دوبارہ خود کو سڑک کے کنارے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں تیشہ تھا اور دوسرے ہاتھ میں چھینی اور چٹان اس کے سامنے کھڑی تھی۔ بادشاہ کا قافلہ تب تک گزر چکا تھا اور سورج کی شعاعوں کا راستہ ایک بادل روکے ہوئے کھڑا تھا لیکن بارش نہیں ہورہی تھی۔ تب ہانشو بولا: ’’سورج بادشاہ سے زیادہ طاقتور ہے۔ سورج سے بادل طاقتور تھا لیکن بادل سے طاقتور چٹان تھی لیکن میں ہانشو! یعنی انسان سب سے زیادہ طاقت وَر ہوں۔‘‘

پھر وہ اپنے کام میں جُت گیا، وہ مطمئن تھا اور سمجھ چکا تھا کہ خدا نے دنیا میں جس چیز کو بھی بھیجا ہے اسے خاص کام دے کر بھیجا ہے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top