skip to Main Content
سمندر کی پُراسرار دنیا

سمندر کی پُراسرار دنیا

ناول:Twenty Thousand Leagues under The Sea
مصنف: Jules Verne
مترجمہ: حفصہ صدیقی

۔۔۔۔۔۔

دو سو سال پہلے لکھا گیا ایک عجیب وغریب ناول۔ اس وقت نہ تو بجلی ایجاد ہوئی تھی، نہ آب دوزیں اورنہ ہوائی جہاز۔سمندر کی گہرائیوں میں پیش آنے والے انوکھے واقعات سے بھرپور سائنس فکشن پر مبنی ناول پڑھ کر آپ حیرتوں کے پراسرار سمندر میں ڈوبتے چلے جائیں گے،جہاں یہ ناول آپ کو ایک نئی دنیا کی سیر کروائے گا۔

۔۔۔۔۔۔

پراسراربلا

1866 ء کا سال سمندر کے اندر بے شمار پراسرار اور عجیب و غریب واقعات کا سال تھا۔اکثر ممالک سے آنے والے سمندری جہازوں کو بہت بڑے اور عجیب و غریب سیاہ جسم کا سامنا کرنا پڑا جو سوفٹ لمبا اور سائنس دانوں کے علم میں موجود کسی بھی مخلوق سے زیادہ طویل الجثہ تھا۔یہ مخلوق سمندر کے اندر ایک خوف ناک سا روشنی کا جھماکا پیدا کرتی،جس سے پانی کی سطح پر سوفٹ سے زیادہ بلند روشنی کے مینار نمودار ہوجاتے۔
یہ ”شے“پہلی دفعہ آسٹریلیا کے ساحل سے کچھ فاصلے پر دیکھی گئی،پھر اس کے محض تین دن بعد اس مقام سے 2100 میل کے فاصلے پر بحرالکاہل کے سمندر میں نظر آئی۔اس کا تیسرا ظہور اس مقام سے 6000 ہزار میل کے فاصلے پر اوقیانوس کے عین وسط میں ہوا۔ اس ”شے“کی اس قدر طویل فاصلے پر اس قدر تیزی سے اور کم وقت میں حرکت، اس شے کو زیادہ پرسرار اور غیر معمولی بنانے کا سبب تھی۔
دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے لوگ اس ”شے“ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے پرجوش تھے،لہٰذا دنیا کے ہر خطے کی ہر زبان میں اس غیرمعمولی سمندری مخلوق کے بارے میں معلومات اخبارات میں شائع ہونے لگیں۔سائنس دان اس بحث میں پڑے ہوئے تھے کہ اس قدر بڑی اور اس قدر تیز رفتار سمندری بلا کا وجود ممکن بھی ہے یا نہیں۔
بعد ازاں 1867ء کے ابتدائی حصے میں یہ بلا یا شے سائنسی مسئلے سے ہٹ کر ایک حقیقی خطرہ بن کر سامنے آ گئی، کیوں کہ ایک مسافر پانی کا جہاز اور ایک تجارتی جہاز کسی سمندری شے سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئے۔وہ کیا شے تھی؟ کیا وہ کوئی سمندری چٹان تھی؟کوئی پہاڑ؟یا سمندری عفریت؟
ایک سمندری جہاز کا سمندر میں اس شے سے ٹکرانے کے بعد جائزہ لیا گیا۔جہاز کے انجینئر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں تھا۔اس کا کہنا تھا کہ ایک مکمل مثلث کی شکل کا سوراخ جہاز کے دھاتی ڈھانچے میں پیدا ہو گیا، شاید کوئی شے جہاز سے ٹکرائی تھی۔ان تمام واقعات کی تفصیلات میں نے اپنے امریکہ کے دورے کے دوران پڑھیں، جہاں میں پیرس میوزیم کے لیے پودے، جانور اور معدنیات وغیرہ جمع کرنے گیا تھا۔ میوزیم کے نیچرل ہسٹری کے پروفیسر اور”سمندری گہرائیوں کے راز“ کے مصنف ہونے کی وجہ سے مجھے زیرسمندر زندگی کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔
مگر ہر شخص کی طرح میں بھی اس عجیب و غریب مخلوق کے حوالے سے پریشان تھا۔ میں نے مختلف سمندری جہازوں کے کپتانوں کی بیان کردہ مخلوق کی خصوصیات کے حوالے سے اپنے دماغ کو کھنگال ڈالا۔ اس مشق سے میرا ذہن نار وہیل نامی مچھلی تک پہنچا جو کہ ساٹھ فٹ طویل ہوتی ہے اور اس میں طویل ترین سوفٹ لمبی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے منفرد لمبے نوکیلے دانت لوہے کی طرح سخت ہوتے ہیں۔یہ دانت Scotia جہاز کے مستول یا جہازی ڈھانچے میں سوراخ کر سکتے ہیں۔
بہرحال امریکی حکومت نے سمندری سرگرمیوں کی حفاظت کے لئے اس عفریت سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک تیز رفتار سمندری جنگی جہاز کو ہر قسم کے اسلحہ سے لیس کیا گیا، جس میں تیروں سے لے کر توپ تک ہر قسم کا اسلحہ شامل تھا تاکہ اس مخلوق کو شکنجے میں لے کر ہلاک کیا جا سکے۔
میرا وفادار ملازم کنسیل، گزشتہ دس سال سے میرے ساتھ تھا اور ہر سفر یا مہم میں وہ میرے ساتھ ہوتا تھا، چنانچہ اس مہم میں بھی وہ میرے ساتھ تھا۔ہم ابراہام لنکن نامی اس جہاز پر اس مہم کے لیے سوار ہوئے۔جہاز کے کپتان کمانڈر فراگوت نے ہمارا استقبال کیا اور فوراً ہی جہاز نیویارک کے ساحل سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گیا۔
چھوٹے چھوٹے جہازوں پر سوار سیکڑوں افراد ایک گھنٹے تک اس سفر پر روانگی کے لیے ہماری حوصلہ افزائی کی خاطر نعرے بلند کرتے رہے اور ہمارے پیچھے آتے رہے۔ہم نے علامتی شکریہ کے طور پر اپنا جھنڈا فضا میں لہرایا۔
ہم نے لونگ آئی لینڈ سے مشرق کی طرف بڑھنا شروع کیا اور تقریبا آدھی رات کے وقت پر اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں داخل ہوچکے تھے۔

شکار شروع ہوتا ہے

کمانڈر فراگوت کو اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں تھا کہ وہ نار وہیل کو تلاش کرکے اسے ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے اعتماد کی وجہ اس کے پاس امریکی بحریہ کا تیز رفتار ترین اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس جنگی سمندری جہاز تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس وفادار اور پرجوش عملہ تھا۔ان تمام چیزوں سے بہتر چیز جو اس کے پاس تھی وہ ”نیڈلینڈ“ نامی شخص تھا جو کہ کینیڈا کے نشانہ بازوں (ہارپونز) کا سردار نشانہ باز تھا۔
نیڈ کی مہارت کے ساتھ اس کی بہادری اس کو جہاز پر سوار تمام آدمیوں سے ممتاز کرتی تھی۔اس کی آنکھیں طاقتور اور ٹیلی سکوپ کی طرح تھیں، جن کے ذریعے وہ دور دراز مقامات کی چیزیں دیکھ لیا کرتا تھا اور اس کے ہاتھ طاقتور توپ کی طرح تھے جو ہر لمحہ پھٹ پڑنے کے لیے تیار رہتے تھے۔
ہمیں سمندر میں تین ہفتے گزر چکے تھے اور میں اور نیڈ اچھے دوست بن چکے تھے۔ہم وہیل کے شکار کی اس مہم کے بارے میں گھنٹوں گفتگو کرتے تھے مگر نیڈ طویل الجثہ نار وہیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے نہ صرف یکسر انکاری تھا بلکہ اس معاملے میں وہ ہٹ دھرمی کی حد تک انکاری تھا۔
”تم ان لوگوں میں سے ایک ہو جو بڑے سمندری جانوروں کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں، پھر تم طویل الجثہ نار وہیل کے تصور سے انکاری کیوں ہو؟“میں نے نیڈ سے پوچھا۔
”اس قسم کی مخلوق کے بارے میں عام آدمی ہی یقین کر سکتا ہے پروفیسر۔“اس نے مجھے جواب دیا۔”مگر میں نے سیکڑوں وہیل مچھلیوں کا شکار کیا ہے اور انہیں پکڑا ہے۔کوئی بھی وہیل کتنی ہی طاقتور اور بڑی کیوں نہ ہو، نہ تو ان کا جسم، نہ ہی ان کے دانت اس قدر مضبوط ہو سکتے ہیں کہ وہ کسی جہاز کے دھاتی مستول میں سوراخ کر دیں۔ہو سکتا ہے کہ لکڑی کے بنے ہوئے مستول میں ایسا ہو، مگر دھاتی مستول میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔“
”فرض کرو، وہ مخلوق سمندر میں کئی میل نیچے رہتی ہو۔“میں نے دلیل دی۔”ایسی وہیل پر پڑنے والی سمندری لہروں کے دباؤ کا تصور کرو۔اس صورت میں اس مخلوق کو اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر معمولی طاقت کی ضرورت ہوگی۔اس دباؤ سے تمہارا جیسا طاقتور آدمی دب کر چپکا ہو سکتا ہے۔اتنی گہرائی میں تمہیں ایسا محسوس ہوگا کہ ایک بڑا رولر ٹرک تمہارے اوپر سے گزر گیا ہے۔“
”اف خدایا!“ نیڈ نے میری بات پر سر پکڑ لیا۔”اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مخلوق پر آٹھ انچ موٹی اسٹیل کے تختے اگ جانے چاہئیں،یہاں تک کہ ایک جنگی جہاز کے مستول سے موٹے دانت۔میں اب بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ ایسی کسی مخلوق کا وجود ہے۔“
”تو پھر ضدی شکاری! تم اسکو نیا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی کس طرح وضاحت کرو گے۔“میری اس بات پر نیڈ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا پھر بولا۔”ہوسکتا ہے وہ……نہیں،نہیں ……ایسا نہیں ہو سکتا۔“اس کے بعد وہ ضدی ہارپون باز کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ابراہام لنکن جہاز جیسے ہی جنوبی امریکہ کا ایک چکر مکمل کر کے اوقیانوس سے بحرالکاہل کی جانب مڑنے لگا، جہاز پر موجود ہر شخص نے سمندر کی سطح پر کسی شے کی تلاش شروع کر دی۔ہماری آنکھیں اور ٹیلی اسکوپ دن رات کے کسی بھی وقت کے لئے رکتی نہیں تھیں۔ ہم بمشکل اپنا کھانا حلق سے اتارتے اور محض چند گھنٹوں کی نیند لیتے۔
ان تمام لوگوں میں نیڈ لینڈ وہ واحد آدمی تھا جس نے سمندر میں کچھ تلاش کرنے سے انکار کر دیا، سوائے اس کے کہ جب اس کی چوکیداری کی ڈیوٹی ہو۔جب میں نے اس کو اس کی عدم دلچسپی پر ڈانٹا تو اس نے کہا۔”یہ تمام بے وقوفانہ حرکتیں ہیں۔ہم اندھادھند سطح سمندر پر اس طرح اس مخلوق کو کیوں تلاش کر رہے ہیں۔تم نے کہا تھا کہ یہ ”مخلوق“ آخری دفعہ اوقیانوس کے بیچ میں نظر آئی تھی، وہ بھی چار سے پانچ ماہ قبل۔اگر یہ مخلوق اس قدر تیز رفتار ہے تو اس کو یہاں سے بہت طویل فاصلے پر ہونا چاہیے۔اگر اس کا کوئی وجود ہے تو!!!“ اس نے چبا چبا کر میری بات کا جواب دیا۔

میرے پاس نیڈ کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا، مگر ہم اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ہم نے اس مخلوق کی تلاش میں تین مہینے صرف کر دیے تھے،اس دوران ہم شمالی اوقیانوس سے شمالی امریکہ اور جاپان تک کے سمندر کا ایک ایک انچ دیکھ چکے تھے۔ہم نے ہر وہیل کا پیچھا کیا،مگر اب تک ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آ سکا تھا۔
ہم میں سے ہر شخص مایوس ہو کر غصے کا شکار ہو چلا تھا کہ ان کو کس طرح ایک بیکار مہم کے لیے بے وقوف بنایا گیا ہے۔اب ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ مہم ترک کر کے واپسی کا سفر کرنا چاہیے۔لیکن کمانڈر فراگوت نے اپنے آدمیوں کو مزید تین دن کے لیے راضی کر لیا کہ اگر ان تین دنوں میں وہ بلا نمودار نہیں ہوئی تو ہم اپنا سفر ختم کر کے واپسی شروع کر دیں گے۔
اس نے یہ وعدہ 2 نومبر کو کیا تھا۔اگلے تین دن جہاز کے عملے نے پہلے سے بھی زیادہ تندہی سے اس مخلوق کی تلاش شروع کر دی،مگر 5 نومبر تک بھی کوئی بلا یا عفریت سے ٹکراؤ نہیں ہوا،لہٰذا کمانڈر نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔
اس شام ہم جاپان کے ساحل سے شاید دو سو میل کے فاصلے پر ہوں گے،میں اور میرا ساتھی کنسیل جہاز کے عرشے پر بیٹھے سمندر کو گھور رہے تھے۔جہاز کے عملے کے افراد شفق پر کچھ تلاش کر رہے تھے کہ اچانک نیڈ کے چلانے کی آواز آئی۔”وہ رہا……وہ رہا……“نیڈ سمندر کے نیچے بیضوی شکل کی کسی چمکدار شے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔چمک اس قدر تیز تھی کہ اس سے چار سو گز کے فاصلے سے بھی اس کو دیکھنے سے آنکھوں کو تکلیف ہو رہی تھی۔کیا اس مخلوق کے اندر بجلی بھری ہوئی ہے۔برقی بام مچھلی کی طرح؟شاید ایسا ہو؟
”دیکھو……دیکھو……وہ حرکت کر رہی ہے،وہ پیچھے کی جانب حرکت کر رہی ہے……اوہ نہیں اب یہ آگے آرہی ہے……اس کا رخ ہماری طرف ہے۔“
کمانڈر فراگوت نے جہاز کے انجن کو پیچھے کی طرف گھمایا تا کہ روشنی کی مخالف سمت میں سفر شروع کر دے یا وہ اس سے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ عجیب وغریب چمک دار جانور ہمارے جہاز کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا،مگر ہمارے جہاز سے بیس فٹ کے فاصلے پر وہ اچانک رک گیا اور وہ روشنی یکایک غائب ہوگئی۔چند سیکنڈز کے بعد ہم نے دوبارہ نیڈ کی آواز سنی۔وہ چیخ کر بول رہا تھا۔”وہ پورٹ کی طرف سے آرہی ہے وہ دیکھو۔“نیڈ ٹھیک کہہ رہا تھا،سیاہ رنگ کی مچھلی شکل کا چمک دار وجود پانی کے اوپر کھڑا ہوا تھا۔یہ تقریباً ڈھائی سو فٹ طویل تھا اور اس کی دم اس قدر تیزی سے حرکت کر رہی تھی کہ اس کی حرکت سے سمندر میں جھاگ بن رہا تھا۔
ہماری توپوں کے دہانے کھل گئے اور ان کے گولے اس سیاہ جسم پر پڑ رہے تھے، مگر وہ گولے پھٹنے کے بجائے اس مخلوق سے ٹکرا کر واپس پلٹ کر سمندر میں گر رہے تھے۔جہاز کے عرشے پر بنے ہوئے جنگلے سے میں نے جھانک کر دیکھا کہ نیڈ میرے نیچے تھا اور وہ ایک ہاتھ سے پول پر لٹک رہا تھا،دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنا نیزہ یا ہارپون بلند کیا ہوا تھا۔
وہ ایک کے بعد دوسرا خطرناک ہارپون فضا میں پھینک رہا تھا۔وہ مخلوق اب ہم سے صرف پچیس میل کے فاصلے پر رہ گئی تھی۔ اچانک نیڈ کا ہاتھ آگے کی طرف لہرایا اور اس کا ہارپون فضا میں تیر رہا تھا،اسی لمحے مجھے کسی چیز کے ٹکرانے کی آواز آئی،سمندر کی بڑی لہر جہاز سے ٹکرائی اور تھوڑی دیر میں ……میں نے خود کو سمندر میں پایا۔
میں سمندر میں کوئی بیس فٹ نیچے جا چکا تھا کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے مجھے تھام لیا ہے،پھر چند نرم الفاظ میرے کان میں پہنچے۔”جناب عالی!آپ میرے کندھوں پر سوار ہو جائیے، اس طرح آپ زیادہ آسانی سے تیرنے کے قابل ہوں گے۔“یہ میرا وفادار ملازم کنسیل تھا۔میں نے اپنے وفادار ملازم کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لئے۔
”کیا تم بھی پانی میں گر پڑے تھے؟“میں نے اس سے پوچھا۔”نہیں جناب،کیوں کہ آپ کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے، اس لیے آپ کی جان بچانے کے لیے میں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔“
”ہمارا جہاز کہاں ہے؟“
کنسیل نے دور سے مدہم ہوتی ہوئی روشنی کی طرف اشارہ کیا۔ جہاز بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور میرے خیال سے جہاز پر سوار کوئی بھی شخص ہماری غیر موجودگی کو محسوس نہیں کرے گا۔کنسیل مجھے پکڑ کر سمندر کی موجوں کا مقابلہ کر رہا تھا۔چار گھنٹوں بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ تھک چکا ہوگا اور وہ کمزور ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
”مجھے خود جانے دو کنسیل۔“
”ہرگز نہیں۔پہلے میں ڈوبوں گا، اس کے بعد آپ پر آنچ آئے گی۔“اس کے بعد مجھے اپنی ٹانگیں اکڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔میرا منہ نمکین پانی سے بھر گیا تھا۔میں نے آخری دفعہ سر اٹھایا اور اس کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ڈوب رہا ہوں۔
اس کے بعد دوبارہ میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ کنسیل میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔ اس کی پشت پر نیڈ کھڑا ہوا نظر آ رہا تھا۔
”میں کہاں ہوں؟“میں نے نحیف آواز میں پوچھا۔
”میرے تیرنے والے جزیرے کے اوپر۔“نیڈ نے جواب دیا۔
”تیرنے والا جزیرہ؟“ میں حیرت سے چلایا۔
”آپ اس کو تیرنے والا جزیرہ کہہ سکتے ہیں پروفیسر۔“ نیڈ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”یا آپ اسے اپنی طویل الجثہ نار وہیل کی پشت کہہ سکتے ہیں،مگر یہ نار وہیل اسٹیل کی پلیٹوں سے جڑی ہوئی ہے۔“اس نے کہا۔
میں ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔میں نے دیکھا کہ میں کسی سمندری مخلوق کی پشت پر تھا جو نصف پانی کے اوپر اور نصف سمندر میں تھی۔
میرے ہاتھ اس کی جلد کو دبا رہے تھے، مگر اس کی جلد عام سمندری جانوروں کی طرح نرم نہیں تھی، نہ ہی مگرمچھ اور کچھوے کے خول کی طرح ہڈی جیسی تھی۔ یہ ہموار، چمک دار اسٹیل کی تھی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی جان دار مخلوق نہیں تھی۔ یہ زیر سمندر چلنے والی کشتی تھی جو مچھلی کی شکل میں بنائی گئی تھی۔یہ سوچ کر میری خوشی دو چند ہو گئی کہ کشتی کا مطلب ہے کشتی چلانے والا عملہ اور عملے کا مطلب ہے لوگ!!
”ہم محفوظ ہیں۔“میں چلایا۔
”صرف اس وقت تک جب تک اس آبدوز کا عملہ سمندر کے اندر ڈبکی لگانے کا فیصلہ نہیں کرتا یا پھر انہیں معلوم ہو جائے کہ ہم اس کے اوپر ہیں۔“
ہم نے اس آبدوز کے اندر عملے سے رابطہ کرنے کے لیے سوراخ یا کسی بھی شے کی تلاش شروع کر دی۔ہم نے عرشے کے ایک ایک انچ کا جائزہ لیا،مگر تمام اسٹیل کی پلیٹیں مضبوطی سے جڑی ہوئی تھیں۔
نیڈ نے اسٹیل کی چادر کے اوپر ہاتھ مار کر انتہائی زوردار آواز نکالنی شروع کی۔اچانک آبدوز کشتی کے اندر سے کچھ کھلنے کی آواز آئی۔اسٹیل کی ایک چادر اوپر اٹھی اور درز میں سے دو آدمی برآمد ہوئے۔انہوں نے اودبلاؤ کی کھال کی ٹوپیاں اور سیل مچھلی کے خول کے بنے ہوئے جوتے پہن رکھے تھے،ان کے ڈھیلے ڈھالے لباس کسی ایسی چیز کے بنے ہوئے تھے جسے میں نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ان دونوں افراد میں سے ایک چھوٹے قد کا چھوٹے شانوں والا اور مضبوط بازوؤں والا تھا،جس کے سیاہ پتلے بال تھے، مگر میری توجہ دوسرے شخص کی طرف زیادہ تھی۔ یہ لمبی پتلی ناک اور سخت چہرے اور تیز چبھتی ہوئی نظروں والا شخص تھا، جس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ حکمرانی کرنے والا شخص ہے۔وہ لازمی طور پر جہاز کا کپتان تھا۔کپتان نے کئی منٹ تک ہمارا بغور جائزہ لیا اور پھر اپنے ساتھی سے کسی ایسی زبان میں بات کی جو میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
میرا خیال تھا کہ کپتان فرانسیسی زبان سمجھ لے گا،میں نے فرانسیسی میں اپنا پورا واقعہ بیان کر دیا مگر اس کے چہرے پر ایسی کوئی چیز نمودار نہیں ہوئی جس سے یہ اندازہ ہوتا کہ اسے میری بات کا ایک لفظ بھی سمجھ میں آیا ہے۔
”ٹھیک ہے نیڈ اب تمہاری باری ہے۔اب تم اپنی بہترین انگریزی استعمال کر کے اپنی قسمت آزماؤ۔“
مگر نیڈ کی قسمت بھی میری طرح رہی،ان دونوں اجنبی افراد کے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔اب کنسیل نے اس واقعے کو جرمن زبان میں تیسری دفعہ بیان کرنا شروع کیا مگر اس کی جرمن کا بھی وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے میری فرانسیسی اور نیڈ کی انگریزی کا ہو چکا تھا۔
یہ لوگ کون سی زبان سمجھتے ہوں گے۔میں نے اسکول کے زمانے میں یاد کی ہوئی عبرانی کے الفاظ دہرانے شروع کیے مگر ان دونوں کی طرف سے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں ہوا۔
جہاز کے کپتان نے ایک آواز بلند کی اور اچانک جہاز کے سوراخ سے آٹھ آدمی نمودار ہوئے۔وہ ہمیں پکڑ کر سوراخ کے اندر لے گئے،وہاں سے ایک آہنی سیڑھی نیچے جا رہی تھی۔ وہ ہمیں دھکے دیتے ہوئے وہاں سے مزید اندر کی طرف بنے ہوئے تاریک کمرے میں لے گئے۔ہمیں وہاں ڈال کر انہوں نے آہنی چادر کو بند کر دیا اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بولٹ کے ذریعے اس کو بند کر دیا گیا ہو۔
”یہ ہماری ذلت ہے،ہم نے ان سے انتہائی شریفانہ انداز میں جرمن، فرانسیسی، انگریزی اور لاطینی زبان میں بات کرنے کی کوشش کی تھی۔انہوں نے نہ صرف ہماری بات کا جواب نہیں دیا بلکہ ہمیں لوہے کے اس قید خانے میں بند کر دیا۔“
”غصہ مت کرو نیڈ،غصے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ہو سکتا ہے وہ……“میری بات یہاں ادھوری رہ گئی۔اسی اثنا میں دروازہ کھلا اور ایک اسٹیورڈ نمودار ہوا۔وہ ہمارے لیے لباس لے کر آیا تھا،جس میں پینٹ شرٹ شامل تھیں۔یہ اسی چیز کی بنی ہوئی تھیں جس سے ان لوگوں کے لباس بنے تھے۔جب ہم نے اپنے گیلے لباس تبدیل کرلئے اور خشک لباس پہن لیے تو اس نے کھانے کے لئے میز لگانی شروع کر دی۔ایسے خوبصورت اور نفیس چینی اور سلور کے برتن میں نے اس سے قبل نہیں دیکھے تھے،ہر برتن پر”N“ کندہ تھا،شاید وہ جہاز کے کپتان کے دستخط تھے۔
ہمارے پاس برتنوں کی تعریف کا وقت نہیں تھا کیونکہ بھوک زوردار تھی۔کھانا انتہائی لذیذ اور بعض اقسام کی مچھلیوں کے گوشت کا بنا ہوا تھا اور بعض دوسری کھانے کی چیزیں ایسی تھیں کہ ہم نے اس سے قبل نہ تو کھائی تھیں اور نہ دیکھی تھیں۔ہم ان کو شناخت نہیں کر سکے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم فرش پر بچھی چادروں پر لیٹ گئے اور کچھ دیر بعد ہم سوچکے تھے۔

مجھے اندازہ نہیں کہ ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے مگر میری آنکھ کمرے میں آنے والی سرد ہوا سے کھل گئی۔میرے بعد نیڈ اور کنسیل دونوں جاگ گئے۔ نیڈ رات کی طرح ابھی تک غصے میں تھا۔
”تمہارا کیا خیال ہے،انہوں نے ہمیں اس لوہے کے قید خانے میں ہمیشہ کے لیے قید کر دیا ہے؟“وہ چیخا۔
”میری معلومات تم سے زیادہ نہیں ہے۔“میں نے جواب دیا۔
”میرا خیال ہے کہ ہم اس سمندری آبدوز سے متعلق کسی اہم راز تک پہنچ گئے ہیں تو کپتان کے لئے ہماری زندگی کی زیادہ اہمیت نہیں ہوگی۔اگر ایسا نہیں ہے تو وہ ہمیں جلد ہی کسی خشک مقام پر چھوڑ دے گا۔“
”مگر ہمیں اس طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔“نیڈ نے جواب دیا۔
”پھر تم کیا کرو گے؟“
”فرار……“
”فرار؟پانی کے اندر کے قید خانے سے۔یہ ناممکن ہے۔“ایک طویل بحث کے بعد میں نے یہ کہہ کر نیڈ کو خاموش کیا کہ ابھی کچھ دیر خاموشی سے انتظار کرو،غصہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔“
مگر جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا نیڈ کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔وہ ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا۔پھر اس نے چیخنا شروع کر دیا، مگر وہ آہنی چادریں بہری تھیں۔
میں نے جہاز کے کپتان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا،وہ کس قدر بے حس آدمی تھا۔وہ کس طرح ہمیں قید کرکے بھول چکا تھا،میں سوچ رہا تھا کہ شاید میرا پہلا خیال غلط تھا،وہ باہمت اور ہمدرد آدمی نہیں تھا۔شاید وہ ایک ظالم قاتل کے سوا کچھ نہیں تھا۔
تھوڑی دیر بعد اسٹیورڈ کھانے کے برتن اٹھانے کے لئے اندر داخل ہوا،اسی اثناء میں نیڈ نے اس کے اوپر چھلانگ لگادی اور اس کا گلا گھونٹنے لگا۔میں اور کنسیل تیزی سے آگے بڑھے اور ہم نے نیم بیہوش شخص کے اوپر نیڈ کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلا کرنے کے لیے زور لگانا شروع کیا۔اس پورے عمل کو ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک آواز نے ہمیں ایک جگہ منجمد کردیا۔
الفاظ بہترین انگلش زبان اور لہجے میں ادا ہوئے،”صبر مسٹر نیڈ“پھر بہترین فرانسیسی میں اس نے اضافہ کیا۔”شکریہ نیڈ، کنسیل اور آپ کا بھی شکریہ پروفیسر ایرونیکس۔اب برائے مہربانی آپ میری بات سنیں۔“
ہم سب اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ آواز جہاز کے کپتان کی تھی،اس نے بولنا شروع کیا۔
”دوستو! میں جرمن،فرانسیسی،انگریزی اور لاطینی تمام زبان جانتا ہوں۔دراصل میں یہ فیصلہ کرنا چاہتا تھا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے۔آپ کے توپ کے گولوں نے میرے جہاز پر حملے کیے اور مسٹر نیڈ نے اپنے ہارپون سے اس پر حملے کیے، لہٰذا آپ اس سلوک کے مستحق تھے جو آپ سے روا رکھا گیا۔“
”مگر یہ تہذیب یافتہ لوگوں کا طریقہ نہیں ہے۔“میں نے کہا۔
”موسیو ایرونیکس! میں تہذیب یافتہ آدمی نہیں ہوں۔میں نے آپ کی تہذیب یافتہ دنیا سے تمام تعلقات منقطع کر لیے ہیں،لہٰذا آپ کے اصولوں کی پاس داری میری مجبوری نہیں ہے۔میرے اپنے قوانین ہیں،مگر کیونکہ میرے اندر رحم کا جذبہ موجود ہے، اس لیے میں نے آپ لوگوں کو زندہ چھوڑ دیا۔آپ میرے جہاز پر آزاد آدمیوں کی طرح ساری زندگی رہ سکتے ہیں۔“
میں نے اس سے بحث کرنی چاہی، مگر ذہین کپتان نے یہ کہہ کر مجھے قائل کر لیا کہ وہ میری لکھی ہوئی کتابیں اور مضامین کا مسلسل مطالعہ کر رہا ہے اور میری معلومات کا قائل بھی ہے، مگر اس کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ وقت گزارنے سے مجھے زیر سمندر ان چیزوں کے متعلق معلومات ہو سکتی ہیں جو اس سے قبل میں نے تصور بھی نہیں کی ہوں گی۔اس کی باتوں سے میرے اندر کا سائنس دان آزادی کی خواہش پر حاوی آ گیا اور میں کیپٹن کی بات ماننے کو تیار ہوگیا۔
”مگر میں آپ کو کس نام سے پکاروں؟“میں نے کپتان سے سوال کیا۔
”کیپٹن نیمو (Nemo)……تم اور تمہارے دوست اس جہاز پر ہمارے ساتھی مسافر ہیں۔
کیپٹن نیمو۔یہ میرے لئے دلچسپ نام تھا۔لاطینی میں Nemoکا مطلب nomanیا no bodyہے،یعنی میں کیپٹن غائب (no body) سے بات کر رہا تھا۔
اس کے بعد کپتان نے مجھے جہاز کا دورہ کروایا۔پندرہ ہزار کتابوں کے ذخیرے کو دیکھ کر جوش سے میری چیخیں نکل گئیں۔کیپٹن نیمو کا کہنا تھا کہ وہ زمین سے کوئی بھی چیز نہیں منگواتا۔سمندر سے اسے مزیدار اور صحت بخش کھانے کے لئے چیزیں مل جاتی ہیں۔جو کپڑے ہم نے زیب تن کر رکھے تھے وہ بعض اقسام کی سمندری مچھلیوں کے خول سے تیار کیے گئے ہیں،آپ کے بستر ایک قسم کی سمندری گھاس سے تیار کئے گئے ہیں،آپ کی ڈیسک میں موجود قلم وہیل مچھلی کی ہڈیوں سے بنے ہیں اور انک ا یک قسم کے جھینگے (Squid) سے حاصل کی گئی ہے۔
”اس کا مطلب ہے تمہیں سمندر سے محبت ہے کیپٹن؟میں نے اس کے انکشافات پر حیران ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں مجھے سمندر سے محبت ہے،مگر سطح سمندر سے میلوں نیچی سطح پر رہتے ہوئے۔کیا کوئی شخص حقیقی طور پر آزاد ہو سکتا ہے؟“
”آزادی؟ آزادی کس چیز سے؟“میں حیران ہوا

۔۔۔۔۔۔

دوپہر کا کھانا ختم کر کے ہم ایک بڑے سے کمرے میں داخل ہوئے۔یہ بڑی سی لائبریری تھی۔
”موسیو ایرونیکس یہ بارہ ہزار کتابیں ہیں۔“کیپٹن نیمو نے بتایا۔”دنیا کی ہر بڑی زبان میں ہر موضوع پر؟…… اور میں ان تمام کا مطالعہ کرچکا ہوں۔آپ اس کو بلا تکلف استعمال کر سکتے ہیں۔“
میں نے کتابوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو میں اس شخص کی ذہانت کا قائل ہوتا چلا گیا۔لائبریری کے وسط میں سب سے بڑی الماری میں نمایاں طور پر رکھی ہوئی کتاب کیپٹن کی میرے ساتھ دوستی کی وجہ بیان کر رہی تھی۔یہ کتاب پروفیسر پیرے ایرونیکس کی”سمندر کی گہرائیوں کے راز“ تھی۔
لائبریری کے بعد کیپٹن مجھے ایک کے بعد ایک کمرہ دکھاتا رہا۔ایک فن خطاطی اور مصوری کے لیے۔ ایک بڑے کمرے میں مچھلیوں کے خول، مرجان، مونگے اور دوسرے سمندری نوادرات جمع تھے۔کیپٹن نے بتایا کہ سمندر سے یہ نوادرات اس نے اپنے ہاتھوں سے جمع کیے ہیں اور ایسے جواہرات اور سمندری اجسام دنیا کے کسی میوزیم میں نہیں ہیں۔
”آپ ابھی اور حیران ہوں گے جب میں آپ کو ناٹی لس (Nautilus)کا مشاہدہ کرواؤں گا۔یہ دیوار پر لگے ہوئے آلات دیکھئے۔آپ کو اس طرح کے آلات ہر کمرے میں لگے ہوئے نظر آئیں گے،یہ آلات مجھے جہاز کی سمت،رفتار،سطح سمندر کے اوپر کا موسم، ہر چیز کے بارے میں مطلع رکھتے ہیں۔“
”شاندار! مگر مجھے سب سے زیادہ جو چیز حیران کرتی ہے وہ آپ کی شپ کی طاقت ہے۔“
”یہ ایک شاندار طاقت ہے،یہ مجھے روشنی، حرارت اور میری مشینوں کو چلنے کی طاقت مہیا کرتی ہے۔یہ طاقت ”بجلی“ ہے۔
”مگر زمین پر ہمارے سائنس دان بجلی سے محض لیبارٹری کے اندر تھوڑی سی روشنی پیدا کرنے کے قابل ہوئے ہیں،جب کہ حرارت کے لئے تو ہم ابھی تک کوئلہ اور لکڑی استعمال کر رہے ہیں اور روشنی کے لئے گیس کا استعمال کرتے ہیں۔یقینا ہمارے پاس ایسی کوئی مشین نہیں ہے جو الیکٹرک موٹر سے چلتی ہو۔یہ طاقتور بجلی کی توانائی تمہارے پاس کہاں سے آئی کیپٹن؟“میں نے سوال کیا۔
”سمندر سے۔میں نے سمندری پانی سے نمک علیحدہ کرکے اس کو ایک خاص قسم کی بیٹری کو چارج کرنے کے لیے استعمال کیا جو میں نے خود تیار کی ہے۔یہ مجھے دنیا کی کسی بھی توانائی سے زیادہ طاقت دیتی ہے۔“
اس کی باتیں سن کر میں مزید حیران ہو رہا تھا۔میں نے اس سے ہوا کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب دیا۔”میں جہاز کی ہوا کو سطح سمندر پر جا کر تبدیل کرتا ہوں،اگرچہ ہوا کو بڑے تالابوں میں ذخیرہ کرنے کے لئے میں بجلی کے پمپ استعمال کرتا ہوں۔اس طریقے سے ناٹی لس کئی دنوں تک سمندر کے اندر رہ سکتی ہے۔“
وہاں سے نکل کرہم مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ایک کینوس کی طرح کی جگہ پر پہنچے۔”یہ راستہ کس طرف جاتا ہے؟“
”چھوٹی کشتی ڈنگی کی طرف۔“
”کیا؟تمہارے پاس چھوٹی کشتیاں بھی ہیں؟“
”بے شک اور یہ نہایت شاندار کشتیاں ہیں،ہم انہیں مچھلی کے شکار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔“
”اس کو تم اس وقت استعمال کرتے ہو گے جب تم سطح سمندر پر ہوتے ہو؟“میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہرگز نہیں۔سیڑھی کے اوپر والا دروازہ چھوٹی کشتی کی چھت کے دروازے کے ساتھ کھلتا ہے۔اس چھوٹی سی کشتی کو پانی سے کسے ڈھکن سے بند کیا گیا ہے،لہٰذا جب میں اس کشتی کے اندر ہوتا ہوں،میں اس کے بولٹ کھول دیتا ہوں جس سے چھوٹی کشتی جہاز سے بندھی ہوئی ہے اور یہ کشتی تیزرفتاری سے سطح سمندر کی طرف آ جاتی ہے۔پھر میں اس کا ڈھکن ہٹا دیتا ہوں اور یہ کشتی سمندر میں تیرنے کے قابل ہوجاتی ہے۔“
ہماری گفتگو جاری تھی کہ ہم ”انجن روم“میں پہنچ گئے، جہاں کیپٹن نیمو نے بتایا کہ وہ کس طرح ناٹی لس کو سمندر کے اندر اور سطح کے اوپر لے کر جاتا ہے۔اس نے بتایا کہ شپ کے اندر پانی کے کئی ذخائر ہیں۔جب ہمیں سمندر کے اندر جانا ہوتا ہے تو ہم اس کو پانی سے بھر دیتے ہیں اور جب سطح سمندر کے اوپر آنا ہوتا ہے تو ہم اس کا پانی خالی کر دیتے ہیں۔
”حیران کن……مگر تم پانی کے اندر اپنی کشتی کی سمت کو کس طرح دیکھتے ہو؟“

”ہماری شپ کے سب سے اوپری حصے پر خاص قسم کے شیشے کے کمرہ نما ڈبے لگے ہوئے ہیں۔یہ چپو چلانے والے کا کمرہ ہے۔اس کے عقب میں ایک اور کمرہ ہے جو طاقتور اور تیز رفتار روشنی کی شعاعیں خارج کرتا ہے۔یہ شعاعیں پانی میں روشنی کے فوارے بلند کرتی ہیں۔یہ روشنی میلوں تک پھیلتی ہے۔“
”اہا۔“میں خوشی سے چلایا۔”تو یہ وہ عجیب و غریب روشنی کا فوارہ تھا جس کے بارے میں لوگ کئی مہینوں سے پریشان تھے۔ ناٹی لس واقعی حیران کن ہے۔“
”پروفیسر! میں اس سے اس طرح محبت کرتا ہوں جیسے یہ میرا اپنا جسم ہو، کیونکہ میں اس کا ڈیزائنر، بلڈر اور کیپٹن ہوں۔“
”مگر تم اتنی رازداری سے اتنا شاندار جہاز تعمیر کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟“میں نے سوال کیا۔
”اس جہاز کے مختلف حصے دنیا کے مختلف ممالک میں تیار کیے گئے ہیں اور پھر یہ مجھے مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے بھیج دیئے گئے،میرے عملے اور میں نے ایک خالی جزیرے میں ورکشاپ تیار کی اور وہیں ہم نے ناٹی لس تعمیر کی۔“
”اس تمام پر اچھی خاصی لاگت آئی ہوگی؟“
”دس لاکھ ڈالر سے زیادہ پروفیسر،لیکن یہ رقم میرے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تم جانتے ہو موسیو ایرونیکس کہ میں ارب پتی ہوں۔“
کیا مجھے اس عجیب و غریب آدمی کی باتوں پر ایمان لے آنا چاہیے۔میں اسی شش و پنج میں تھا کہ ہم لاؤنج میں واپس پہنچ گئے۔ کیپٹن نیمو نے دیوار پر نصب ایک بڑے نقشے کی طرف اشارہ کیا۔”ہم اس وقت جاپان سے 300 میل کے فاصلے پر ہیں اور یہ نومبر 1867ء کے دن کے بارہ بجے ہیں۔اسی لمحے ہم اپنا دنیا بھر کا زیر سمندر سفر شروع کرنے والے ہیں۔“اسی کے ساتھ کیپٹن نیمو کمرے سے نکل گیا۔ابھی میں کمرے سے نکلنے ہی والا تھا کہ لاؤنج کی روشنی گل ہو گئی۔میں نے کسی چیز کے نیچے گرنے کی آواز سنی اور میں نے دیکھا کہ دو دروازے کھلے جو کہ دو کھڑکیوں کی صورت میں جہاز کے دونوں جانب کھلتی تھیں۔جہاز سے باہر کا پانی میلوں تک روشن ہو چکا تھا۔
کیا خوبصورت منظر ہے۔میں ایک بڑے ایکوریم کے اس پار سے نظر آنے والے منظر کو دیکھنے لگا۔میں نے اس سے قبل ایسے سمندری جانوروں اور حیات کو زندہ اور اس طرح سمندر میں تیرتے نہیں دیکھا تھا۔میں رنگین اور قسم ہا قسم کی مچھلیوں کی فوجوں کو تیزی سے آگے پیچھے دیکھنے میں اس قدر محو ہوگیا کہ گھنٹوں مجھے وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔
اگلے تین چار دن تک کیپٹن نیمو مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔نیڈ،کنسیل اور میں اس کی پرسرار غیر موجودگی پر حیران تھے مگر ہم اپنے آپ کو ان کھڑکیوں سے باہر کے نظارے دیکھنے میں مشغول رکھتے جو ہر روز ہمارے لئے کھول دی جاتی تھیں۔
نویں دن کی صبح کو کیبن میں مجھے ایک رقعہ موصول ہوا جس پر تحریر تھا۔”پروفیسر ایرونیکس!میں آپ کو اور آپ کے دوستوں کو کل کریپسو کے جزیرے پر شکار کی دعوت دیتا ہوں۔“
”کیپٹن ایرونیکس شکار کی مہم! اس کا مطلب ہے ہم ساحل پر جا رہے ہیں۔وہاں سے ہم فرار ہو سکتے ہیں۔“نیڈ خوشی سے چلایا۔
اگر کیپٹن کو خشک زمین سے نفرت ہے تو وہ جنگلوں میں شکار کے لئے کیوں جارہا ہے؟ یہ سوال مجھے پریشان کر رہا تھا اور اگلی ہی صبح مجھے یہ سوال کیپٹن نیمو سے کرنے کا موقع مل گیا۔
میرے سوال پر کیپٹن مسکرایا اور اس نے جواب دیا۔”پروفیسر! یہ جنگل زمین پر نہیں ہے۔ یہ پانی کے اندر ہے۔“
”پانی کے اندر؟“میں نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں! مگر پروفیسر آپ اس شکار کے دوران بالکل خشک رہیں گے۔“
میں اس کو عجیب طرح سے دیکھنے لگا،مجھے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہو رہا تھا۔شاید میری سوچ میرے چہرے پر آگئی تھی،چنانچہ کیپٹن نیمو نے کہا۔”میں پاگل نہیں ہوں پروفیسر۔تم سائنس کے آدمی ہو۔ تم غوطہ خوری کے لباس دیکھ چکے ہو۔“
”ہاں، میں دیکھ چکا ہوں مگر یہ سوٹ لمبے ہوا کے پائپوں سے متعلقہ کشتیوں سے منسلک تھے جو کہ اس قدر دور دراز شکار کے لئے قطعی موزوں نہیں ہیں۔“میں نے جواب دیا۔
”آہا! مگر پروفیسر……میں نے خاص ہوا کے ٹینک بنائے ہیں جو کہ غوطہ خور کی پیٹھ کے ساتھ پٹیوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ آزادانہ اپنی خواہش کے مطابق گھوم پھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ سمندر کے فرش پر نو سے دس گھنٹے تک چہل قدمی بھی کر سکتا ہے۔“
”یہ واقعی شاندار ہے کیپٹن نیمو……“میں نے جوشیلے انداز میں کہا۔”میں اس شکاری مہم پر جانے کے لئے تیار ہوں۔تم جب بھی جاؤ میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔“
”اس کا مطلب ہے کہ ہم شکار کے لیے زمین پر نہیں جا رہے۔“نیڈ غصے سے چلانے لگا۔”پھر میں جانے سے انکار کر دوں گا۔“
کنسیل ہر حال میں میری پیروی کرتا تھا، لہٰذا وہ میرے پیچھے چل دیا۔کیپٹن نیمو ہمیں ایک چھوٹے سے ڈریسنگ روم میں لے گیا۔ دو آدمیوں نے غوطہ خوری کا لباس پہننے میں ہماری مدد کی جو ایک بھاری واٹر پروف ربڑ کا بنا ہوا تھا اور اس کے جوتے سیسے کے ذریعے بھاری بنائے گئے تھے۔اس کے بعد انہوں نے ہمارے لباس کے دھاگوں جیسے کالر کے ساتھ بڑے دھاتی اور شیشے کے بنے ہوئے خود (ہیلمٹ) اسکرو کی مدد سے لگائے اور ہماری پیٹھوں پر پٹیوں سے ہوائی ٹینک منسلک کر دیے۔اب ہم آسانی سے سانس لے سکتے تھے۔ آخر میں انہوں نے ہماری بیلٹوں کے ساتھ بجلی کے لیمپ لگا دیے اور ہمارے ہاتھ میں ائیرگن تھمادی۔یہ گن چھوٹی چھوٹی شیشے کی گولیاں فائر کرتی تھی جس میں طاقتور بجلی بھری ہوئی تھی۔
ڈریسنگ روم سے نکل کر ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جایا گیا، اس میں پانی سے کسا ہوا دروازہ تھا جو بالکل منجمد تھا۔ اچانک مجھے اپنے سینے سے سر کی طرف ٹھنڈی ہوا گزرتی محسوس ہوئی،جب یہ کمرہ پوری طرح پانی سے بھر گیا،ناٹی لس کے اوپری شگاف میں سے ایک دروازہ نمودار ہوا اور چند ہی لمحوں کے بعد کیپٹن نیمو ہمیں سمندر کے فرش کی طرف لے گیا۔
ہم نے ریتیلے فرش سے چٹانوں والے علاقے کی طرف بڑھنا شروع کیا۔یہ چٹانیں رنگ برنگے حیوانی نباتات سے ڈھکی ہوئی تھیں۔یہ حیوانی نباتات Zoophilousچھوٹے سمندری جانور تھے جو کہ پودوں کی شکل کے ہوتے ہیں۔اوپری حصے میں مچھلیوں کے غول تیرتے پھر رہے تھے۔یہ میری نگاہوں کے لئے شاندار دعوت تھی۔
ایک گھنٹہ چلنے کے بعد میدان کی سطح نیچے کی طرف جاتی محسوس ہوئی،ہم سے آگے کی طرف وہ اونچی دیواروں سے گھری ہوئی ایک وادی تھی۔یہ وادی سطح سے پانچ سو فٹ نیچے تھی،جس میں درختوں کی شکل کے پودے لگے تھے جن کی شاخیں سیدھی اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ وادی کا فرش نوکیلی چٹانوں اور گھنے درختوں سے ڈھکا تھا جس کی وجہ سے اس جگہ پر پھول نہیں کھل سکتے تھے۔
اس کے بعد ہم کریسپو آئی لینڈ کے جنگل میں پہنچ گئے،ہم اس کے اندر گہرائی میں جا تے چلے گئے،یہاں تک کہ ہم ایک بڑی چٹانی دیوار تک پہنچ گئے، یہ جزیرے کا کنارہ تھا، کیپٹن نیمو اس سے آگے نہیں جا سکتا تھا کیونکہ اس کے بعد خشک حصہ شروع ہو جاتا تھا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ خشکی پر قدم نہیں رکھے گا۔
ابھی ہم ناٹی لس کی طرف واپسی کے لیے مڑے ہی تھے کہ کیپٹن نیمو نے ہمیں آگے بڑھنے سے روک دیا اور اپنی بندوق بلند کر لی، میں نے ایک ہلکی سی سائیں کی آواز سنی اور ایک جانور چند فٹ کے فاصلے پر مرا ہوا پڑا تھا۔
یہ بہت بڑا سمندری اودبلاؤ جیسا جانور تھا جس کی بھوری اور چاند کی رنگت والی کھال زمین پر کئی سو ڈالر میں فروخت ہوتی تھی۔یہ عجیب و غریب شکل کا جانور تھا جس کا سر گول،چھوٹے چھوٹے کان،بلی کی طرح کی مونچھیں اور جال کی طرح کے پنجے اور پیر تھے اور اس کی دم مخملیں تھی۔جہاز کے عملے کے ایک آدمی نے پانچ فٹ طویل اس مخلوق کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور ہمارے ساتھ ناٹی لس کی طرف لے گیا۔
جب ہم اپنے کمپارٹمنٹ کے اندر پہنچے،کیپٹن نیمو نے ایک بٹن دبایا۔یکایک بیرونی دروازہ بند ہوا اور پمپ نے پانی کی سطح کم کرنا شروع کر دی۔تھوڑی ہی دیر میں کمپارٹمنٹ خالی ہوچکا تھا اور ہم ڈریسنگ میں گر گئے۔
آنے والے کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک میں نے کیپٹن نیمو کو بمشکل دیکھا۔لاؤنج کے اندر بنی ہوئی کھڑکی نما درزیں کھلی ہوئی تھیں، لہٰذا ہم سمندر کا منظر آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔میں،نیڈ اور کنسیل سمندر کے عجائبات دیکھتے رہے۔
جہاز کے ایک افسر نے سمندر میں ہمارے پہلے مقام کو ایک چارٹ پر نشان زد کر دیا تھا، اب میں اس کے ذریعے اپنے راستے کو جانے کے قابل ہو گیا تھا۔ہم نے ابھی ہی ہوائی کا جزیرہ پار کیا تھا اور اب ہم بحراوقیانوس کے شمال مشرق کی جانب محو سفر تھے۔ہم 4860 میل یا 4580 میل کا سفر اپنے ابتدائی مقام یعنی جاپان کے ساحل سے طے کر چکے تھے۔
11 دسمبر کی رات کو تین ہزار فٹ کی گہرائی میں Nautilusبالکل بے حس و حرکت ہو گیا۔میں لاؤنج میں بیٹھا مطالعہ میں مصروف تھا جب کنسیل نے مجھے عجیب و غریب آواز میں پکارا۔
”موسیو، برائے مہربانی کھڑکی پر آئیے۔“
میں وہاں پہنچا جہاں کنسیل کھڑا تھا اور ایک بڑے سے سیاہ جسم کے اوپر اس کی نظریں تھیں۔”کیا یہ بہت قوی الجثہ وہیل ہے؟“ اچانک مجھے احساس ہوا یہ پانی کا جہاز ہے۔”پانی کا جہاز؟“میں چلایا۔
”ہاں پروفیسر……“نیڈ اداسی سے بولا جس کی نظریں باہر کی طرف جمی ہوئی تھیں۔”یہ ایک ڈوبا ہوا جہاز ہے۔“
ا سے ڈوبے ہوئے یقینی طور پر چند گھنٹے گزرے ہوں گے،کیوں کہ ابھی تک کسی سمندری حیات نے اس پر حملہ نہیں کیا تھا۔یہ ایک تکلیف دہ منظر تھا،مگر اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر یہ تھا کہ چار آدمی جن کا جسم خوفناک انداز میں مڑ کر مستول کے ساتھ بندھے تھے۔جہاز کے عرشے کے سوراخ سے آدھی باہر نکلی ہوئی ایک عورت کی لاش تھی، جس نے اپنے سر پر ایک بچے کو اٹھایا ہوا تھا، بچے نے اپنے ہاتھوں سے عورت کی گردن کو پکڑا ہوا تھا۔ پتوار چلانے والا جہاز کے پہیوں کے پاس جم چکا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس بھوتوں والے جہاز کوسمندر کی گہرائیوں کی طرف چلاتا ہوا لے جارہا ہے۔ ہمارے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ ہم میں سے کوئی بھی شخص ایک لفظ بھی ادا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ پھر میں نے لا تعداد شارک مچھلیوں کو اس طرف آتے دیکھا، انسانی گوشت کی خوشبو نے ان کی آنکھوں میں روشنی بھر دی تھی۔

ناٹی لس (Nautilus) آگے بڑھتی چلی گئی مگر ہم تینوں اس کے بعد کئی گھنٹوں تک کے لیے اپنی جگہ جم گئے تھے۔
2 جنوری کو ہم آسٹریلیا اور نیو گنی کے پانی کے دو بڑے قطعات کی گزرگاہ ”ٹورس“ پر پہنچے۔یہ گزرگاہ جہاز رانی کے نقطہ نظر سے دنیا کی خطرناک ترین گزر گاہوں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔یہ نہ صرف اس جگہ پر موجود چٹانوں اور پہاڑوں کی وجہ سے خطرناک ہے بلکہ اس کے ساحلی علاقوں کے قریب رہنے والے آدم خور درندوں کی وجہ سے بھی۔
”پانی کا کس قدر خوفناک موڑ ہے……“نیڈ نے خوف سے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔میں،نیڈ اور کنسیل ناٹی لس (Nautilus) کے عرشے پر بنے پلیٹ فارم سے باہر دیکھ رہے تھے۔
کیپٹن نیمو جہاز چلانے کی جگہ بیٹھا انتہائی احتیاط سے ناٹی لس(Nautilus)کو آگے کی طرف بڑھا رہا تھا اور ان خطرناک سمندری پہاڑیوں سے جہاز آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ابھی ہم ٹورس گزرگاہ کے آخری سرے پر تھے کہ اچانک ہمیں اپنے پیروں کے نیچے دھکا سا محسوس ہوا۔ناٹی لس(Nautilus) سمندری چٹان سے ٹکرا کر زمین کی طرف بیٹھتی چلی گئی۔کیپٹن نیمو پلیٹ فارم پر ہمارے پاس آیا اور ہمیں یقین دہانی کروائی کہ کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔اگرچہ ہمیں چٹان کے اوپر رکنا ہو گا، اس وقت تک جب تک سمندری لہریں دوبارہ بلند نہیں ہوتیں اور ایسا ہونے میں شاید پانچ دن لگیں جب مکمل چاند نکل آئے گا۔
جیسے ہی کیپٹن نیمو نیچے گیا،نیڈ خوشی سے چلایا۔”ہم زمین سے صرف دو میل کے فاصلے پر ہیں، یہ فرار کا بہترین موقع ہے۔“
”جو زمین تم نے دیکھی ہے وہ نیوگنی کی سرزمین ہے جو آدم خور درندوں کی سر زمین ہے۔“میں نے جواب دیا۔
”مگر کیا ہم وہاں جا کر چند درندوں کا شکار نہیں کر سکتے۔میں اپنے دانتوں کو گوشت کا مزہ دینے کے لیے بے چین ہوں،کئی مہینے سے مچھلی کھا کھا کر میرا دل اکتا چکا ہے۔“نیڈ بولا۔
میں نیچے کیپٹن نیمو سے ساحل پر شکار کی اجازت لینے گیا اور میرے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ وہ راضی ہو گیا،لہٰذا اگلے دن ہم نے اپنی بندوقیں، کلہاڑیاں اور چھوٹی کشتی تیار کرلی۔
سمندر میں دو ماہ گزارنے کے بعد زمین دیکھنے کی خواہش ہمارے جوش و جذبے میں اضافہ کر رہی تھی۔
ہم درختوں،جھاڑیوں میں ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے۔درختوں سے ہم کیلے، انناس، کھوپرے، آم، گوبھی، پھلیاں وغیرہ توڑ توڑ کر کھا رہے تھے۔کشتی پر جس قدر سامان سما سکتا تھا،اتنا ہم نے لاد دیا۔
اس کے بعد ہم اپنی اصل غذا یعنی گوشت کی تلاش میں نکلے،ہمیں ایک بڑا جنگلی جانور نظر آگیا۔نیڈ نے اسے بندوق کی ایک ہی گولی سے ہلاک کردیا۔اس کے بعد اس نے اس کی کھال اتار کر صاف کی،اس کا گوشت کاٹ کر اس کو کئی صاف ستھرے ٹکڑوں میں تبدیل کردیا۔
ہم ساحل کی طرف واپس ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں آگ جل اٹھی،بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو پورے ماحول میں پھیل گئی۔
ہم اپنی دعوت شروع کرنے کے لئے دائرے میں بیٹھ گئے۔ابھی ہم نے کھانا شروع ہی کیا تھاکہ ہم پر پتھروں اور تیروں کی بارش شروع ہو گئی۔ یہ جنگل کے دوسرے کنارے سے ہو رہی تھی۔
”یہ آدم خور وحشی ہیں فوراً کشتی کی طرف بھاگو۔“ کنسیل چلایا۔

جہاز کا عجیب وغریب راز
سیکڑوں آدم خور ہمارا پیچھا کررہے تھے،اس کے ساتھ ہی تیروں اور پتھروں کی بارش جاری تھی۔اس بارش سے بچتے بچاتے ہم نے اپنی کشتی میں چھلانگ لگا دی اور تیزی سے ناٹی لس کی طرف تیرنا شروع کر دیا۔خوش قسمتی سے جزیرے پر کوئی کشتی نہیں تھی، لہٰذا وحشی آدم خور ہمارا پیچھا نہ کر سکے۔
ہم حفاظت کے ساتھ ناٹی لس تک پہنچ گئے اور میں تیزی سے کیپٹن نیمو کے پاس نیچے پہنچا،وہ آرگن پر موسیقی بجانے میں مصروف تھا۔مجھے دیکھ کر وہ چونکا۔”آہا! پروفیسر یہ تم ہو۔تمہاری شکار کی مہم کیسی رہی؟“
”ہم پر جنگلیوں نے حملہ کر دیا تھا۔“میں نے تکلیف سے جواب دیا۔
مگر میری بات سے کیپٹن کے چہرے پر کسی قسم کے حیرت کے تاثرات نہیں تھے۔
”پروفیسر تم زمین میں جس جگہ بھی قدم رکھو گے تمہیں وحشیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہاں بھی اور تمہاری دنیا میں بھی۔“
”لیکن اگر انہوں نے ناٹی لس پر حملہ کر دیا تب؟“
کیپٹن نیمو کچھ دیر خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا۔”اگر نیو گنی کے تمام آدم خور آجائیں اور وہ مل کر ہم پر حملہ کریں تب بھی وہ ناٹی لس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔“
مجھے کیپٹن کی اس بات پر یقین آ گیا تھا اس لئے میں اطمینان کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اگلی صبح چھ بجے میں پلیٹ فارم پر جاکر باہر کا منظر دیکھنے لگا۔سمندر چھوٹی کشتیوں سے بھرا ہوا تھا اور سیکڑوں وحشی ہمارے جہاز کی طرف بڑھ رہے تھے۔
میں تیزی سے نیچے بھاگا تاکہ کیپٹن نیمو کو خبردار کردوں۔میں نے اس کے کیبن کا دروازہ بجایا اور تیزی سے اندر داخل ہو گیا۔
”تم نے مجھے ڈسٹرب کیا ہے پروفیسر مگر مجھے یقین ہے کہ اس کا کوئی اہم سبب ہوگا۔“
”بہت اہم سر۔“میں نے کہا۔”ہم پر سیکڑوں جنگلیوں نے حملہ کر دیا ہے۔“
”اوہ؟“اس نے آہستگی سے کہا۔”مگر ہمیں صرف تمام سوراخ بند کرنے ہوں گے۔پروفیسر تم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ یہ معمولی تیر ہمارے جہاز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جب کہ تمہارے بڑے بڑے توپ کے گولے اس پر ایک نشان بھی نہ ڈال سکے۔“
اس کے بعد وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور میں اپنے کیبن کی طرف چلا گیا۔پورا دن اور پوری رات مجھے ان جنگلیوں کی پلیٹ فارم کے اوپر چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں،خوف کی وجہ سے مجھے اپنا خون جمتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
اگلے دن ڈھائی بجے کے قریب کیپٹن نیمو لاؤنج میں آیا اور اس نے اعلان کیا کہ لہریں بلند ہوگئی ہیں اور اب ہم سفر کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ہم اپنے ہوا کے ذخیرے کو تازہ کریں گے اور سفر کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔
”مگر جنگلیوں کا کیا کیا جائے؟“میں نے پوچھا۔”جب تم عرشے کاسوراخ کھولو گے تو وہ اندر نہیں آ جائیں گے؟“
”موسیو ایرونیکس!کوئی بھی شخص میری اجازت کے بغیر اندر داخل نہیں ہو سکتا لیکن یقینا تم اس بات کو سمجھ نہیں سکو گے۔میرے ساتھ آؤ۔“
میں کیپٹن کے پیچھے پیچھے راہداری سے ہوتا ہوا سیڑھیوں تک پہنچ گیا۔ہم عرشے کے سوراخ کو دیکھ رہے تھے جو کھول دیا گیا تھا۔فوراً ہی بیس کے قریب خوفناک چہرے اس سوراخ سے جھانک کر ہمیں دیکھنے لگے۔ان جنگلیوں میں سے ایک نے سیڑھی کو پکڑ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کی مگر ایک عجیب و غریب قوت نے اس کو باہر پھینک دیا۔وہ عجیب و غریب زبان میں صلواتیں سناتا ہوا واپس بھاگا۔ دوسرے کئی جنگلیوں نے سیڑھی سے نیچے آنے کی کوشش کی اور اسی انداز سے چیختے ہوئے واپس پلٹ گئے۔
مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ عام لوہے کی سیڑھی نہیں ہے، یہ بجلی سے چارج ہونے والی سیڑھی ہے اور کپتان کی خواہش کے بغیر اگر کوئی شخص اس کو چھوئے گا تو اس کو بجلی کے جھٹکے لگیں گے۔ اب اس بات میں حیرانی کی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ کیوں اس طرح چیختے ہوئے واپس بھاگ رہے ہیں۔
اس کے بعد ناٹی لس جنگلیوں سے محفوظ ہو کر اور سمندری چٹانوں سے آزاد ہو کر اپنے سفر پر روانہ ہو چکی تھی۔دو ہفتوں بعد ہم آسٹریلیا سے مغربی جانب چھ میل کے فاصلے پر تھے۔
ایک صبح جب ہم ہوا لینے کے لیے سطح پر آئے تو میں پلیٹ فارم پر چلا گیا۔جہاز کے کپتان کا ساتھی وہاں پر پہلے سے موجود تھا،وہ موسم اور فضا کا ہر صبح گہرا جائزہ لیتا تھا۔اچانک اس نے جہاز کے عرشے کے سوراخ سے نیچے کی طرف جھانکتے ہوئے خوشی سے کیپٹن نیمو کو پکارا۔تقریباً فوراً کیپٹن نیمو عرشے پر نمودار ہوا۔ وہ ٹیلی اسکوپ پر افق کی طرف کسی چیز کو تلاش کر رہا تھا۔
میں نے اپنی ٹیلی اسکوپ آنکھوں سے لگا لی،اس سے قبل کہ میں اس کے عدسے کو درست کرتا، وہ میرے ہاتھ سے چھین لی گئی۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو کیپٹن نیمو میرے پیچھے کھڑا تھا۔اس کی آنکھیں غصے سے چمک رہی تھیں۔اس کا جسم غصے سے سخت ہو گیا تھا اور اس کے ہاتھ سختی سے جمے ہوئے تھے۔مگر وہ میری طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔
چند لمحوں کے بعد اس کا ٹھنڈا مزاج لوٹ آیا اور وہ کہنے لگا۔”موسیو ایرونیکس! مجھے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو کچھ دیر کے لیے قید خانے میں بند کرنا ہوگا۔“
”کیا تم مجھے اس کی وجہ بتانا پسند کرو گے؟“میں نے پریشانی سے پوچھا۔
”نہیں موسیو!! میں آپ کے سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔“پانچ منٹ بعد میں، نیڈ اور کنسیل اسی قیدخانے میں تھے جس میں ہم نے اپنی پہلی رات گزاری تھی۔ہمارا کھانا وہیں آگیا اور کیوں کہ ہمارے پاس کرنے کے لئے اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا،لہٰذا ہم نے کھانا کھانا شروع کر دیا۔
کنسیل اور نیڈ نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا جب کہ مجھے کھانے پر کچھ شک محسوس ہو رہا تھا اس لئے میں بمشکل تھوڑا سا کھانا کھا سکا۔ میں نے دیکھا کہ کنسیل اور نیڈ میز پر سر رکھے گہری نیند میں جا چکے تھے اور میرا سر بھی چکرانا شروع ہو گیا۔اس کا مطلب ہے کہ کیپٹن نے ہمارے کھانے میں نیند کا پاؤڈر ملا دیا تھا۔یعنی اس کو اپنے راز کو راز رکھنے کے لئے ہمارا محض قید خانے میں رکھنا کافی نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو اپنے کیبن میں پایا۔میرا دروازہ بند نہیں تھا، لہٰذا مجھے اندازہ ہو گیا کہ اب میں قیدی نہیں ہوں۔میں نے اپنے سائنسی نوٹس لیے، کاپی اور قلم سنبھالا اور لاؤنج میں آگیا تاکہ ان نوٹس پر کچھ کام کر سکوں۔
شام کے وقت کیپٹن نیمو لاؤنج میں داخل ہوا۔ اس کی سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ گزشتہ رات سویا نہیں ہے اور اس کے چہرے پر اداسی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی،ایسی اداسی جو اس سے قبل میں نے اس کے چہرے پر نہیں دیکھی تھی۔کئی منٹ تک ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد وہ میرے پاس آیا اور پوچھا۔”کیا تم ڈاکٹر ہو، موسیو ایرونیکس؟“
”ہاں کیوں؟“میں نے حیرت سے جواب دیا۔”پیرس میوزیم میں نوکری سے پہلے میں نے کئی سال تک پریکٹس کی ہے۔“
”پھر تم میرے ایک آدمی کا علاج کر دو گے؟“
”کیوں نہیں۔“میں نے کہا اور اس کے ساتھ جہاز کے عملے کے کوارٹروں میں سے ایک شخص کے کمرے میں داخل ہوگیا۔
وہ شخص بستر پر لیٹا تھا اور اس کا منھ پٹیوں سے لپٹا ہوا تھا جن پر خون لگا تھا اور اس کا منہ کسی بہت بھاری چیز سے کچلا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
میں اس کے لیے اس کے سر کی نئی مرہم پٹی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔میں مدد تو نہیں کر سکتا تھا البتہ میں گزشتہ رات کی کارروائی اور اس شخص کی حالت کے درمیان تعلق تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
جب میں نے کیپٹن نیمو سے اس شخص کے زخمی ہونے کی وجہ پوچھی تو وہ تیزی سے بولا۔”یہ تمہارا معاملہ نہیں ہے۔ تم بس یہ بتاؤ کہ یہ کتنی دیر مزید زندہ رہے گا۔“
”میرا خیال ہے یہ دو گھنٹے کا مہمان ہے۔“میں نے کہا۔
کیپٹن نیمو نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچ لیں اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ایک مرد کو روتے دیکھنا میرے لیے بہت عجیب و غریب واقعہ تھا۔
اس کے بعد میں کیپٹن نیمو کو اگلی صبح دیکھ سکا۔میں نے اس سے مرتے ہوئے آدمی کے بارے میں پوچھا۔جب وہ ہمیں ایک اور سمندری تفریح کے لیے مدعو کرنے آیا تھا۔نیڈ اور کنسیل اس دعوت نامے کی رضامندی کے لئے اس قدر بے تاب تھے کہ میں مزید ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا۔
آدھے گھنٹے کے اندر ہم غوطہ خوری کے لباس میں سمندر کے فرش پر چہل قدمی کر رہے تھے۔کیپٹن نیمو نے ہماری رہنمائی کی اور درجنوں عملے کے افراد ہمارے پیچھے تھے۔
سطح سے نوے فٹ نیچے کی طرف ایک ہموار ڈھلوان تھی۔میں نے زندگی میں دو دفعہ کورل مرجان کی ریاست دیکھی۔کورل جیلی کی طرح کے سمندری جانوروں کے ڈھانچوں سے بنی ہوئی پہاڑیاں ہوتی ہیں۔ان سمندری مچھلیوں کو مونگرے یا مرجان کہتے ہیں۔یہ مونگرے سطح سمندر سے کافی نیچے آبادی بنا کر رہتے ہیں اور پھر ان کے ڈھانچے ایک کے اوپر ایک کر کے جمتے چلے جاتے ہیں اور ہوتے ہوتے سمندری چٹان یا جزیرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔یہاں پر سمندر کے نیچے ان مرجان سے پتھروں کاجنگل بن چکا تھا۔سخت خول والے مونگرے یا مرجان ہزاروں مرجانی جانوروں سے ڈھکے تھے۔جیسے ہی میں نے ان جھاڑیوں سے پھول توڑنے کی کوشش کی سیٹی کی طرح کے ایک الارم کی آواز بلند ہوئی اور یکایک سفید رنگ کے پھول اپنے سرخ خول کے اندر بند ہوگئے۔پھولوں والے پودے سخت چٹانی درختوں میں تبدیل ہوگئے۔
مرجان کے اس شاندار باغ کے درمیان میں ایک دائرے میں صاف ستھری ہموار جگہ تھی۔کیپٹن نیمو اور اس کے ساتھی اس جگہ پر رک گئے اور انہوں نے اس جگہ لمبا سوراخ کرنا شروع کر دیا۔اپنے اس کام سے فارغ ہوکر چار دوسرے آدمی ایک سفید بنڈل اپنے کاندھے پر اٹھا کر لائے اور انہوں نے اس بنڈل کو اس سوراخ میں ڈال کر دفن کرنا شروع کر دیا۔اچانک مجھے خیال آیا کہ کیپٹن نیمو اور اس کے ساتھی اپنے جہاز کے عملے کے فرد کو مرجان کی چٹانوں کے درمیان سمندر کے فرش پر بنے اپنے نجی قبرستان میں دفن کر رہے ہیں۔
جب کیپٹن نیمو اور اس کے ساتھی قبر میں اپنے ساتھی کو دفن کر چکے تو وہ قبر کے گرد گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعا میں مصروف ہوگئے۔ میں، کنسیل اور نیڈ ان کے ساتھ دعا کے لئے جھک گئے۔
ہمارے سروں کو جھکے ہوئے چند منٹ گزرنے کے بعد آخری تقریبات شروع ہوئیں اور اس کے بعد ہم ناٹی لس کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب ہم جہاز پر پہنچے تو کیپٹن نیمو نے وضاحت کی کہ وہ زخمی شخص دن میں انتقال کر گیا تھا۔ہم نے اس کو اپنے پرامن قبرستان میں دفن کر دیا ہے۔
”اس طرح تمہارے مرحوم دوست کا جسم شارک کی دسترس سے محفوظ ہو جائے گا۔“میں نے کہا۔
”ہاں!“ اس نے تلخی سے جواب دیا۔”شارک اور انسانوں کی دسترس سے۔“

سچے موتی اور شارک

ٍٍ فروری کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور ہم بحیرہ ہند کے وسط میں تھے اور ہندی خطے کے آخری کنارے پر واقع سیلون کے ساحل کی طرف پہنچنے والے تھے۔ایک صبح جب میں سیلون کے متعلق کتاب کے مطالعے میں مصروف تھا تو کیپٹن نیمو میرے پاس چلا آیا۔
ٍٍ ”سیلون سچے موتیوں والی مچھلیوں کے شکار کے لیے مشہور ہے۔کیا تم یہ شکار کرنا پسند کرو گے؟“اس نے مجھ سے پوچھا۔
”کیوں نہیں!! یقینا۔“میں نے جواب دیا۔
”تو پھر ٹھیک ہے اس شکار کے لیے مارچ کا مہینہ سازگار ہوتا ہے،ابھی ہمیں اس کے لیے ماہی گیر نہیں مل سکتے مگر تمہیں اسی طرح کا مزہ آئے گا جیسا کہ ماہی گیروں کے شکار سے ملتا ہے۔“
”مگر تمہارے ماہی گیر سچے موتیوں والے گھونگھوں کو کیسے پکڑیں گے؟“
”ان کا طریقہ کار بہت سادہ اور قدیم انداز کا ہے۔غوطہ خور چالیس فٹ نیچے جائیں گے اور اپنی کشتی کو ایک رسی کے ذریعے بھاری پتھر سے باندھ دیں گے۔ان کے جوتوں کے ساتھ بھاری پتھر بندھے ہوں گے جو انہیں نیچے سے تھامے رکھیں گے اور وہ آسانی سے سیپ والی مچھلیاں جمع کریں گے۔“
”مگر یہ غوطہ خور کسی قسم کے غوطہ خوری کے لباس اور ہوا کے بغیر کتنی دیر تک نیچے رہ سکیں گے؟“
”زیادہ دیر نہیں۔“کیپٹن نے جواب دیا۔”ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ چند منٹ تک قیام کر لیں، مگر مظلوم مخلوق جب سطح سمندر کے اوپر آتی ہے تو پانی کے دباؤ کی وجہ سے ان کی ناک اور کانوں سے خون بہنے لگتا ہے، اس کے علاوہ ان پانیوں میں شارک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔“
”کیا؟ہمیں یہاں پر شارک مچھلی کا خطرہ بھی ہے۔“میں خوف سے چلایا۔
”بالکل!! مگر تمہیں شارک مچھلی کا شکار دیکھنے میں بہت مزہ آئے گا۔“
کیپٹن نیمو جیسے ہی کمرے سے نکلا، میرے جسم سے ٹھنڈ ے پسینے بہنا شروع ہو گئے۔شارک……میں نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور سیلون کے متعلق کتاب کے مطالعے میں دوبارہ مصروف ہو گیا۔ میں ہر سطر کو غور سے پڑھنے کی کوشش کررہا تھا مگر کتاب کے حروف سے مجھے شارک مچھلی کے خوفناک جبڑے جھانکتے نظر آ رہے تھے۔
اسی وقت نیڈ اور کنسیل دھڑ سے اندر داخل ہوئے۔
”ہمیں ایک بہت اچھا دعوت نامہ ملا ہے تمہارے کیپٹن کی طرف سے۔“نیڈ خوشی سے چلایا۔
”اوہ!! تو تمہیں پتہ چل گیا؟“
”ہاں!!“کنسیل نے جواب دیا۔
”کیپٹن نے ہمیں سیلون کے شاندار پرل فشری کے شکار پر مدعو کیا ہے۔“
”اس نے تمہیں کچھ اور نہیں بتایا؟“
”نہیں صرف یہ بتایا ہے کہ یہ بہت دلچسپ ہوگا۔“
مجھے اندازہ ہو گیا کہ کیپٹن نیمو نے انہیں شارک مچھلی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تو کیا مجھے بتانا چاہیے؟اسی اثناء میں کنسیل نے مجھ سے سوال کر دیا کہ سیپ کیسے بن جاتے ہیں اور اس پر میں اپنا ذہن شارک سے ہٹانے پر اس کا شکر گزار تھا۔لہٰذا میں نے سچے موتیوں یا پرل پر اپنا لیکچر شروع کر دیا۔
”سیپ دراصل چھوٹے چھوٹے سمندری جانور ہیں جو کہ ایک نرم سے گوشت سے دو خول کی صورت میں آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔بعض اوقات اس کے اندر چھوٹی سی سمندری مخلوق داخل ہو جاتی ہے یا ریت کا باریک سا ذرہ داخل ہوجاتا ہے اور سیپ کے گوشت سے رگڑنا شروع ہو جاتا ہے،خود کو بچانے کے لیے Oyesterسیپ اس چیز کو ڈھانکنے کے لئے سخت خول خارج کرنا شروع کر دیتا ہے اور یہ خول تہہ در تہہ موٹا ہونا شروع ہوتا ہے اور اس میں شارک بن جاتی ہے۔“
”شارک؟؟“نیڈ چلایا۔
”کیا میں نے شارک کہا ہے؟ میرا مطلب تھا موتی……“
”کیا کسی سیپ کے اندر ایک سے زیادہ موتی بھی بن جاتے ہیں؟“کنسیل نے سوال کیا۔
”ہاں ……بعض سیپ میں کئی شارک ہوتے ہیں۔“
”تمہارا مطلب ہے موتی۔“کنسیل نے تعجب سے کہا۔
”ہاں بھئی……موتی……ویسے تم لوگوں کو شارک مچھلی سے ڈر تو نہیں لگتا؟“
”مجھے؟؟“نیڈ نے جواب دیا۔”میں اس پر ہنس سکتا ہوں۔ میں ایک طویل عرصے تک ہارپون باز رہا ہوں۔“
”میں کسی سمندر کے عرشے سے اس پر تیر چلانے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔“ میں نے وضاحت کی۔
”اس کا مطلب ہے کہ ہم……“ نیڈ نے اپنا سوال مکمل نہیں کیا۔
”ہاں تم درست سمجھ رہے ہو……پانی کے اندر……تم کیا کروگے کنسیل؟“
”اگر موسیو آپ جانے کے لیے تیار ہیں تو میں بھی اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔“

اگلی صبح ہم خاموش بیٹھے تھے کیونکہ ہم جن کشتیوں میں سوار تھے وہ ہم کو سیپیوں والی مچھلیوں کے ذخیرے کی طرف بہاکر لے جارہی تھیں۔ ہم ساحل سے کوئی تین میل کے فاصلے پر ہوں گے کہ کپتان نیمو نے لنگر گرانے کا حکم جاری کر دیا۔ ہم نے غوطہ خوری کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ کیپٹن نیمو نے میرے ہاتھ میں ایک چھری تھما دی۔
”یہ تمہارے لیے بندوق سے زیادہ کارآمد ہوگی۔“
نیڈ اور کنسیل کے پاس بھی چھریاں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی نیڈ کے پاس بڑے بڑے نیزے (ہارپون) بھی تھے۔ جہاز کے عملے نے ہمیں چھوٹی کشتی سے اترنے میں مدد دی اور ہم سمندر سے فرش کی طرف کیپٹن کی رہنمائی میں روانہ ہوگئے۔ ہمارے ارد گرد چٹانوں میں صدف والے لاکھوں سیپ چپکے پڑے تھے۔ہم سب اس خزانے سے اپنے تھیلے بھرنے کے لیے بے چین ہو گئے۔
کیپٹن نیمو نے اس جگہ سے کچھ فاصلے پر ایک نشان کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ یہ غالباًانڈین غوطہ خور تھا اور عام شکار کے دنوں میں باقاعدگی سے سیپ کے شکار کے لئے آتا ہے۔اس نے ہمارے سامنے کئی دفعہ سیپ کے لیے غوطے لگائے مگر ابھی وہ ایک سیپ کو پھاڑ کر اس میں سے موتی نکالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہمیں اس کے چہرے پر دہشت کا سایہ لہراتا ہوا نظر آیا۔ایک خوفناک شارک اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔مجھے اس کی دہشت کی وجہ سمجھ آگئی،میں اپنی جگہ پر جم کر رہ گیا۔شارک انڈین کو ہلاک کرنے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھی، اس نے شارک کے جبڑوں سے بچتے ہوئے دوسری طرف چھلانگ لگائی مگر شارک کی طاقت ور دم اس کے سینے سے ٹکرائی اور وہ سمندر کے فرش پر گرتا چلا گیا۔
ابھی شارک اس انڈین کے حصے بخرے کرنے کے لیے آگے بڑھی ہی تھی کہ کیپٹن نیمو نے تیزی سے آگے چھلانگ لگائی۔اپنے ہاتھ میں تیز دھار خنجر لے کر وہ اس عفریت سے مقابلے کے لیے تیار کھڑا تھا۔
شارک نے جب ایک نیا شکار دیکھا تو وہ اس کی طرف بڑھی۔ابھی وہ کیپٹن سے محض ایک انچ کے فاصلے پر تھی، کیپٹن نے اپنا خنجر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔شارک کے جسم سے خون کا فوارہ بہہ نکلا اور سمندر سرخ ہونے لگا۔
مگر ابھی تک شارک میں لڑنے کا دم تھا۔بہادر کیپٹن نے اس کے پر کو پکڑا اور اس کے پیٹ میں بار بار خنجر گھونپنے لگا، مگر وہ اس کے دل کے مقام پر وار نہیں کر پا رہا تھا کہ اس طرح اسے آسانی سے ہلاک کر دیتا۔
پھر اچانک شارک نے اپنا وزن کیپٹن پر ڈالا اور اس کو فرش پر دبوچ دیا۔شارک کے کھلے ہوئے جبڑے کیپٹن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے تیار تھے۔اس لمحے میں نیڈ آگے بڑھا اور اس نے اپنے تیر سے اس پر وار کر دیا۔شارک ایک خوفناک آواز کے ساتھ تھوڑی دیر تڑپی اور پھر ساکت ہوگئی۔
کیپٹن نیمو انڈین کی طرف بڑھا اور اس کو اپنے بازوؤں میں تھام کر سطح سمندر کی طرف لے گیا۔
ہم تینوں ماہی گیر کی کشتی تک اس کے پیچھے گئے۔کیپٹن نیمو نے اس شخص کو مصنوعی تنفس دیا اور جلد ہی اس نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے اوپر چار ہیلمٹ والوں کو جھکے ہوئے دیکھ کر کس قدر حیران ہوا ہو گا اور اس وقت وہ مزید حیران ہوا ہوگا جب کیپٹن نیمو نے سچے موتیوں سے بھرا ہوا تھیلا اس کے حوالے کیا۔ہم اس انڈین کو حیران پریشان چھوڑ کر اپنی چھوٹی کشتی کی طرف بڑھ گئے۔
کیپٹن نیمو نے اپنا ہیلمٹ اتارتے ہی نیڈ کی طرف دیکھا اور کہا،”میری جان بچانے کا شکریہ۔“
ہماری کشتی جب ناٹی لس کی طرف بڑھ رہی تھی تو ہمیں راستے میں شارک کی لاش سطح پر تیرتی ہوئی نظر آئی،یہ تقریباً پچیس فٹ طویل تھی اور اس کا بہت بڑا سا منہ تھا جس میں دانتوں کی چھ قطاریں تھیں جو کہ اس کے جسم کے ایک تہائی حصے پر مشتمل تھے۔
چند لمحوں بعد درجنوں شارک نمودار ہوئیں اور اس مردہ شارک کے گوشت کے لیے جھپٹ پڑیں اور آپس میں لڑنے لگیں۔
ناٹی لس پر پہنچنے کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اس انڈین کی زندگی بچانے پر میں اس کی تعریف کروں۔میری تعریف پر اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
”یہ انڈین اس سرزمین پر رہتا ہے جہاں اس کی قوم کے لوگوں پر دوسرے لوگ ظلم کرتے ہیں۔اس نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مدد اپنی موت تک کروں گا۔“
مختلف سمندری بلاؤں کے ساتھ خونی تصادم کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اب میرا ناٹی لس پر مزید قیام ناممکن ہے مگر میں آخری دفعہ کیپٹن سے مل کر یہ کوشش کرنا چاہتا تھا کہ کیپٹن خود مجھے یہاں سے رخصت کرے۔
میں نے اسے اس کے کیبن میں پالیا۔ وہ میز پر بیٹھا کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میرے داخل ہونے پر اس نے ناگوار ی سے میری طرف دیکھا اور بولا۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ میں کام میں مصروف ہوں۔“
”کیپٹن……“میں پرسکون انداز میں گویا ہوا۔”میں تم سے وہ بات کرنا چاہتا ہوں جس کے لیے میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔“
”موسیو ایرونیکس! جو کام میں کر رہا ہوں وہ بھی انتظار نہیں کر سکتا۔یہ کتاب جو میں لکھ رہا ہوں اس میں سمندر کے متعلق میری معلومات کا پورا خزانہ ہے۔اس کتاب میں میرا اصل نام ہے اور یہ میری زندگی کے تمام کارناموں اور واقعات کا احاطہ کرے گی۔میں اس کو ایک چھوٹے تیرنے والے صندوق میں بند کر دوں گا اور اس کو وہ شخص سمندر میں پھینکے گا جو ناٹی لس میں بچ جانے والا آخری شخص ہوگا۔اس وقت جب ناٹی لس اپنے اختتام پر ہوگی۔“
”کیپٹن میں اس بات سے پورا اتفاق کرتا ہوں کہ تمہارے مشاہدے اور مطالعے کو ضائع نہیں ہونا چاہیے، مگر اس بات کا کیا بھروسہ ہے کہ سمندر کی لہریں اس صندوق کو کس جگہ لے کر جائیں گی۔ہوسکتا ہے میں اس کتاب کو زیادہ حفاظت سے رکھوں، اگر تم ہمیں آزاد کرتے وقت اسے ہمارے حوالے کر دو۔“
”ڈاکٹر ایرونیکس!“ وہ چلایا۔”میں پھر وہی بات دہراؤں گا جو میں نے چودہ ماہ قبل کہی تھی کہ کوئی بھی شخص اگر ایک دفعہ ناٹی لس میں داخل ہو جائے تو اس کا یہاں سے نکلنا ناممکن ہے۔اب یہاں سے جاؤ اور آئندہ اس موضوع پر مجھ سے گفتگو کرنے کی کوشش نہ کرنا۔“
یہ گفتگو میں نے اپنے دوستوں کے سامنے دہرائی تو وہ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ ہمیں جلد از جلد ناٹی لس سے فرار ہو جانا چاہیے، کیونکہ اس وقت ہم نیویارک کے ساحل سے محض چند میل کے فاصلے پر تھے۔یہ فرار کے لئے بہترین موقع تھا۔
مگر اندھیرا ہونے سے قبل ہی نیویارک کو طوفان نے گھیر لیا۔بارش تیز ہو رہی تھی اور سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی تھیں۔
شمالی اوقیانوس کی طرف سے طوفان آ رہے تھے۔ہم سب مایوس ہو چکے تھے کیونکہ ناٹی لس اب مشرقی سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔
یکم جون کو ہم آئرلینڈ کے ساحل سے سو میل کے فاصلے پر تھے اور سطح سمندر پر سفر کر رہے تھے۔میں لاؤنج میں بیٹھا مطالعے میں مصروف تھا کہ میں نے جہاز سے باہر ایک دھماکے کی آواز سنی۔میں تیزی سے اوپر گیا تو میں نے دیکھا کہ نیڈ اور کنسیل دونوں وہاں پہلے سے موجود تھے۔
”وہ ہم پر گولیاں چلا رہے ہیں!!“ نیڈ چلایا،اس نے چھ میل دور ایک پانی کے جہاز کی طرف اشارہ کیا۔یہ جنگی سمندری جہاز محسوس ہو رہا تھا اور میرا خیال تھا کہ اس منحوس ناٹی لس کی طرف آ کر ڈوب جائے گا۔
اس کے فوراً بعد ایک اور گولی پانی کے اندر ٹکرائی۔
”وہ ہم پر گولیاں کیوں چلا رہے ہیں؟“میں چلایا جب کہ ہم نے اس پر گولی بھی……“پھر اچانک ہی میرے ذہن میں آیا کہ کمانڈر فراگوت نے دنیا بھر کو بتا دیا ہوگا کہ ہم جس چیز کو ناروہیل سمجھ رہے ہیں وہ دراصل ایک آبدوز sub Marineہے اور اب یہ جنگی جہاز ہر سمندر میں ہر جگہ اس خوفناک جہاز کی تلاش میں ہوں گے۔
آخرکار میں نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ کیپٹن نیمو ناٹی لس کو دنیا سے انتقام کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ پانی کے جہازوں پر ان کے ملک کی تخصیص کے بغیر حملہ کرتا ہے اور اس رات اس نے ہمیں قید خانے میں بے ہوش کرکے اس لیے ڈال دیا تھا کہ ہم اس کے حملے کے راز کو نہ جان سکیں اور مرجان کے قبرستان میں دفن اس کے سپاہی دراصل ان لڑائیوں میں ہلاک ہونے والے سپاہی ہیں۔اب اس حوالے سے مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں تھی مگر کیپٹن نیمو کی زندگی کے کچھ گوشے ابھی تک راز تھے۔
”ہوسکتا ہے ہم انہیں اشارہ کر سکیں کہ ہم ان کے دوست ہیں۔“نیڈ نے کہا۔”ہوسکتا ہے کہ وہ جان لیں کہ ہم ان کے دوست ہیں۔“اس نے اپنا رومال ہوا میں لہرانے کے لیے نکالا ہی تھا کہ ایک سخت ہاتھ نے اسے پکڑ لیا۔
”بے وقوف لوگو!“ کیپٹن نیمو بولا۔”کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ناٹی لس کی دیواروں میں جکڑ دوں؟فوراً نیچے جاؤ، تم سب۔“
”کیپٹن! میں نے احتجاج کیا۔کیا تم واقعی اس جہاز پر حملہ کرنے جا رہے ہو؟“
کیپٹن نیمو کا چہرہ غصے سے تن گیا اور وہ بولا۔”موسیو میں اسے ڈبونے جا رہا ہوں۔انہوں نے مجھ پر حملہ کیا ہے مگر میرا حملہ ان سے زیادہ خطرناک ہوگا۔یہ تمام ہلاک ہو جائیں گے۔یہ تمام قاتل ہیں اور میں ان کا نشانہ ہوں۔ان ہی کی وجہ سے میں ہر چیز سے محروم ہوا ہوں۔جن سے میں کبھی محبت کرتا تھا میرا ملک،میری بیوی،میرے بچے،میرا باپ، میں نے ان سب کو مرتے دیکھا! میں وہاں کی ہر چیز سے نفرت کرتا ہوں! اب اپنا منہ بند رکھو اور نیچے جاؤ۔“
ہم اپنے کیبن کی طرف دوڑتے چلے گئے۔ دروازہ بند ہوتے ہی میں نے سرگوشی کی۔”ہمیں لازمی طور پر فرار کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ پاگل ہو چکا ہے۔ ہمیں اس جہاز کو مطلع کرنا چاہیے۔“
”ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے اس جگہ کو چھوڑنے کی تیاری کر لینی چاہیے۔“نیڈ نے کہا۔
رات ہو گئی مگر ہمیں میں فرار کا موقع نہیں ملا۔کیپٹن نیمو صبح ہونے تک جہاز کے عرشے پر ہی رہا، جب جنگی جہاز کی توپوں نے گولہ باری شروع کر دی۔

کیپٹن نیمو نے جہاز کو غوطہ لگانے کا حکم دیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جنگی جہاز کو اس کے نچلے حصے کی طرف سے ضرب لگانا چاہتا ہے جو حصہ اسٹیل کی چادروں سے ڈھکا نہیں ہوگا۔
”میرے دوستو!“ میں نے اپنے دوستوں نیڈ اور کنسیل کو مخاطب کیا۔”یہ دو جون کی خوفناک تاریخ ہے۔ خدا ہم کو محفوظ رکھے۔“
ناٹی لس کی رفتار خوف ناک حد تک تیز ہوگئی تھی اور اس کا پورا ڈھانچہ لرز رہا تھا۔اچانک مجھے اس پر ایک دھکا سا محسوس ہوا، پھر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسٹیل کی کوئی چیز کسی چیز کے اندر رگڑ کر گھستی چلی جارہی ہے۔ناٹی لس جنگی جہاز کے ڈھانچے کے آرپار گھس چکی تھی جس طرح کوئی سوئی کپڑے سے گزرتی ہے۔اس طرح اب میں اس سے زیادہ انتظار نہیں کر سکتا تھا۔میں لاؤنج کی طرف بھاگا،میں اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔کیپٹن نیمو وہیں کھڑا کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھ رہا تھا، جہاں ایک بڑا جنگی جہاز سمندر کی سطح سے نیچے تہہ میں ڈوب رہا تھا اور ناٹی لس اس کی موت کی جدوجہد دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔جہاز میں سوار ملاحوں نے جہاز کے ٹکڑوں تک پہنچ کر جان بچانے کی کوشش کی مگر پانی کی طاقتور لہروں نے ان کی تمام کوششیں ناکام بنا دیں اور لہریں انہیں گہرائی میں لے جاتی چلی گئیں۔
میں یہ سارا منظر دہشت زدہ ہو کر دیکھ رہا تھا،مجھے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔کیپٹن نیمو واپس مڑا اور کیبن کا دروازہ کھول کر ایک طرف کو چلا گیا۔کھلے دروازے سے میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک نوجوان عورت اور دو معصوم بچوں کی تصویر ہے۔وہ اس تصویر کو کئی منٹ تک دیکھتا رہا اور پھر اس نے تصویر کو بھینچ کر سینے سے لگا لیا۔تصویر اب بھی اس کے ہاتھ میں تھی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا گہری اداسی اور خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ناٹی لس اپنے راستے پر اس طرح محو سفر تھی جیسے ابھی کچھ بھی نہ ہوا ہو مگر میرا کیپٹن نیمو سے خوف کا احساس ابھی تک تازہ تھا۔اس کے ساتھیوں نے اس کو کتنا ہی نقصان پہنچایا ہو مگر اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرے۔
ہم اگلے بیس دنوں تک سمندر کی گہرائیوں میں رہے، اس دوران میں نے کیپٹن کو ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا۔اب نقشے پر ناٹی لس کی پوزیشن بھی نشان زدہ نہیں کی جا رہی تھی، اس لیے اب ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہم کس مقام پر ہیں۔ ایک صبح میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ نیڈ میرے اوپر جھکا ہوا ہے۔وہ بہت دھیمی میں آواز میں بول رہا تھا۔”فرار کا وقت آگیا ہے۔میں عرشے پر گیا تھا جب ہم سمندر کی سطح پر تھے۔ ہم خشکی کے علاقے سے مشرقی سمت سے کوئی بیس میل کے فاصلے پر ہوں گے۔آج رات دس بجے ہم چھوٹی کشتی پر ملیں گے۔“
”میں لازمی وہاں پہنچ جاؤں گا نیڈ۔“ میں نے جواب دیا۔
آج کا پورا دن مجھے اس جہاز پر اپنا آخری دن محسوس ہو رہا تھا۔میں خوف سے اپنا کیبن نہیں چھوڑ رہا تھا کہ کہیں میری ملاقات کیپٹن نیمو سے نہ ہو جائے، کیونکہ میرے دل میں ابھی تک اس کی دہشت طاری تھی۔مگر رات کے سات بجے میں لاؤنج میں گیا تاکہ یہاں پر ذخیرہ کیے گئے مظاہر قدرت اور فن پارے آخری دفعہ دیکھ سکوں۔مجھے یہ سوچ کر افسوس ہورہا تھا کہ یہ انمول خزانہ ایک دن بیچ سمندر میں تباہ ہو جائے گا، مع اس شخص کے جس نے اسے جمع کیا ہے۔
میں اپنے کیبن میں واپس آیا اور موٹے سمندری کپڑے پہن لیے۔میں نے اپنے تمام نوٹس جمع کئے اور ان کو اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب میں احتیاط سے لگالیا۔میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور میں اپنے اعصاب پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا تھا۔
گزشتہ رات میں اپنے بستر پر کچھ دیر کے لیے آرام کرنے کی کوشش کرنے لگا۔اس مہینے کے واقعات ایک ایک کر کے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔سب سے پہلے ابراہام لنکن جہاز کا تباہ ہونا،سمندر کی گہرائیوں میں مچھلیوں کا شکار، ٹورس کی بندرگاہ سے گزرنا، نیوگنی پر آدم خوروں کا حملہ،مرجان کا قبرستان، انڈین غوطہ خور کا واقعہ اور دوسرے واقعات ایک ایک کرکے مجھے یاد آنے لگے۔
ان ہی سوچوں میں تقریباً دس بج چکے تھے۔میں نے اپنے کیبن کا دروازہ آہستگی سے کھولا اور راہداری سے لاؤنج کی طرف رینگتا ہوا جانے لگا۔ کیپٹن نیمو کے کمرے سے اداس اور نرم سے نغمے کی دھن کی آواز آرہی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ کیپٹن نیمو کمرے کے اندر تھا اور مجھے اس سے گزر کر جانا تھا۔
میں نے خاموشی سے اندھیرا کمرہ پار کیا۔  جیسے ہی میں لائبریری کے دروازے کے قریب پہنچا، کیپٹن نیمو کے موسیقی کے آرگن کی آواز ایک دم تیز ہوئی اور آخری الفاظ جو میں نے اپنی زندگی میں آخری دفعہ کیپٹن نیمو کے سنے:
”بس، بس اے عظیم و برتر خدا۔“
”کیا وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے؟“میرے پاس مزید کچھ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔میں لائبریری سے تیزی سے باہر نکلا، دوسرے راستوں سے ہوتا ہوا چھوٹی کشتی میں سوار ہو گیا۔
نیڈ اور کنسیل نے کشتی کے سوراخ کو پیچ سے کسا اور جب وہ اس پیچ کو ڈھیلا کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس کے ذریعے چھوٹی کشتی آبدوز سے بندھی ہوئی تھی، ہم نے ناٹی لس کے اندر سے چند لوگوں کو تیز آواز میں باتیں کرتے محسوس کیا۔
کیا کسی کو ہمارے فرار کا علم ہو گیا ہے؟کیا وہ ہمیں تلاش کر رہے ہیں؟نہیں! جو لفظ جہاز کا عملہ بار بار دہرا رہا تھا وہ ”میل اسٹروم! میل اسٹروم“تھا۔
میل اسٹروم! شاید کسی ملاح کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ لفظ کوئی نہیں ہوگا۔ یہ ناروے کے قریب کا ساحل ہے جہاں دنیا کے سب سے خطرناک بھنور پائے جاتے ہیں۔ اس کی تند لہروں سے کوئی بھی جہاز سلامت نہیں رہا ہے۔ تو کیا ہم جیسے ہی ناٹی لس سے فرار ہوئے تھے وہ فوراً ہی اس طرف چلی گئی تھی۔
کیا ناٹی لس میل اسٹروم میں حادثاتی طور پر پھنسی تھی یا یہ کیپٹن نیمو کی ارادی حرکت تھی۔ میرے پاس مزید سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ ناٹی لس کی حرکت چھوٹے سے چھوٹے دائرے میں محدود ہوتی جارہی تھی، ہماری چھوٹی کشتی ابھی تک ناٹی لس سے منسلک تھی جو کہ ناقابل یقین رفتار کے ساتھ گھوم رہی تھی۔ ہم بری طرح خوف زدہ تھے اور ہمارے خون منجمد ہو گئے تھے، ہمارے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ہم موت کے دہانے پر کھڑے تھے۔
”ہمیں بولٹ کو دوسری طرف گھمانا ہوگا، ہمارے پاس واحد راستہ یہی ہے۔“
اس سے قبل کہ ہم اپنا کام ختم کرتے ایک زوردار چٹخنے کی آواز آئی۔بولٹ ٹوٹ چکا تھا۔ ہماری چھوٹی کشتی ناٹی لس جہاز سے علیحدہ ہو چکی تھی اور بھنور نے ہم کو مرکز گریز قوت سے باہر کی طرف پھینک دیا جیسے غلیل سے پتھر دور نکلتا ہے۔
میرا سر کشتی کی دیوار سے ٹکرایا اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
اس رات ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ہم بھنور سے بچ نکلے، اس بارے میں نہ تو میں،نہ نیڈ اور نہ ہی کنسیل کچھ کہہ سکتے ہیں۔ جب میں ہوش میں آیا تو میں نے خود کو ایک ماہی گیر کے جھونپڑے میں پایا۔ یہ ناروے سے کچھ فاصلے پر واقع ایک جزیرہ تھا۔ جب میں نے آنکھ کھولی تو میرے دونوں دوست میرے گلے لگ گئے۔
اس طرح ہمارا سمندر کے اندر تیس ہزار میل کا سفر ختم ہوا۔
کیا لوگ میری بات پر یقین کریں گے؟ہوسکتا ہے لوگ میری بات پر یقین نہ کریں لیکن سمندر میں دس مہینے گزارنے کے بعد میں نے سمندر کے بے شمار عجائبات دیکھ لیے۔
ناٹی لس کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا وہ میل اسٹروم کے بھنور سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی، کیپٹن نیمو ابھی تک زندہ ہے؟اگر ایسا ہے تو اس کے اس خوف ناک انتقام کی آگ بجھ گئی ہے؟ کیا وہ دن آئے گا جب سمندر سے وہ کتاب مل جائے گی جس میں اس کی زندگی کی کہانی درج ہے؟ کیا میں کبھی اس کا اصل نام جان سکوں گا؟
مجھے اس بات کی بھی امید ہے کہ ناٹی لس اس خوف ناک بھنور سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ہوگا۔ اگر ایسا ہوگیا ہو اور کیپٹن نیمو ابھی تک زندہ ہو تو میں اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ چاہتا ہوں کہ اس کے دل سے دنیا کے لیے نفرت ختم ہو جائے۔ میری خواہش ہے کہ وہ سمندر کی جستجو پرامن انداز میں جاری رکھے اور اپنی وسیع سائنسی معلومات کا ذخیرہ پوری دنیا کے سامنے پیش کرے جو پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top