skip to Main Content

سمندر کا بھوت

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔
داداجان کی باتوں پر کسی نے یقین نہیں کیااور کرتا بھی کیوں، بات ہی عجیب سی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔

معاذ نے گہرے سمندر کا غوطہ خور بننے کا فیصلہ کر کے اپنے قریبی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ زندگی میں اور بہت سے شعبوں کا انتخاب کرسکتا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ آخر معاذ نے غوطہ خور بننے کا ہی فیصلہ کیوں کیا؟ انہوں نے معاذ سے کئی بار پوچھا کہ آخر اس شعبے کے انتخاب کے لیے اس کو کس نے مجبور کیا ہے اور معاذ نے ہر دفعہ سب کو یہی جواب دیا کہ یہ خود اس کا ذاتی فیصلہ ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ معاذ کو غوطہ خور بننے کے لیے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا ۔ یہ تو ایک کہانی تھی جو اس کے دادا جان نے اسے بہت سال پہلے سنائی تھی۔ جس نے اسے آج بھی اپنے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔ معاذ تب بہت ہی چھوٹا تھا اور اپنے دادا جان کے ساتھ سمندر کے کنارے ایک پہاڑی پر بنے گھر میں رہتا تھا۔ جہاں سے ہر وقت وہ سمندر کو دیکھ سکتا تھا۔ ایک دن دادا جان سمندر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے قریب بیٹھے دور سمندر کی بے کراں لمبائیوں میں بنتی ہوئی موجوں کو دیکھ رہے تھے۔
”دادا جان! آپ کو روز سمندر دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے؟“ ننھا معاذ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔
”ہاں! میں نے اپنی زندگی کے ہر دن سمندر کو دیکھا ہے۔“ وہ آہستگی سے بولے۔
”تب بھی جب آپ ابھی بہت چھوٹے تھے۔“ معاذ نے دادا جان کو جان بوجھ کر اس موضوع پر بولنے کے لیے مجبور کیا تاکہ وہ گفتگو میں کسی کہانی یا راز سے پردہ اٹھائیں۔
”ہاں! جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ میں ہمیشہ گھر کے اوپر والے کمرے میں سوتا تھا اور میرا بستر ہمیشہ کھڑکی کے ساتھ ہوتا تھا۔ جہاں سے مجھے سمندر کی طرف سے آنے والی تازہ ہوا چھوتی رہتی تھی۔“ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ پھر معاذ نے پوچھا کہ جہاز یہاں سے کبھی کبھار ہی گزرتے ہیں تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر دادا جان کسی پرانی بات کے متعلق سوچنے لگے۔ وہ آگے کی طرف جھکے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے۔
”ایک دفعہ کا ذکر ہے میری آنکھوں نے ایک ایسا منظر دیکھا تھا…. اور پھر خاموش ہوگئے۔“ معاذ نے اشتیاق سے دوبارہ پوچھا کہ انہوں نے کیا دیکھا تھا….وہ چپ رہے لیکن معاذ انہیں مجبور کرتا رہا آخر کار انہوں نے چپ کا روزہ توڑ ہی دیا اور کہنے لگے کہ بات کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ میں نے یہ بات بارہا لوگوں کو بتائی لیکن کسی نے میرا یقین نہیں کیا لیکن تمہارا جوش اور چہرے پر چھایا تجسس مجھے مجبور کررہا ہے کہ میں وہ پرانی کہانی تمہیں دوبارہ سناؤں اور پھر دادا جان نے کہانی شروع کی۔
بہت سال پہلے ایک رات بہت بڑا سمندری طوفان آیا تھا۔ تند و تیز ہوا کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ ہمارے پورے گھر کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر لے جائے گا۔ میں بہت دور بیٹھا اس طوفان کی طاقت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ میں تب بہت چھوٹا تھا اور ابھی توتلا بولتا تھا۔ میں اپنے بستر میں بیٹھا اندھیرے کو گھور رہا تھا۔ کمرے کے دوسرے کونے میں میرا بھائی سو رہا تھا کہ میں نے اچانک کسی بڑی چیز کے ٹوٹنے کی آواز سنی۔ یہ آواز صحن میں لگے ہوئے درخت کے ٹوٹنے کی تھی۔ ہاں تب اتنی بجلی کوندی کہ ایسا لگا جیسے آسمان دو ٹکڑے ہوگیا ہو۔ اسی لمحے میں نے بجلی کی چکا چوند کے اندر ایک بڑی بحری جہاز ڈوبتے ہوئے دیکھا۔ وہ بہت خوبصورت اور شاندا ر تھا۔ اس کے مستول یوں لگتے تھے جیسے آسمان تک بلند ہوں۔ وہ بہت شاندار جہاز تھا جو اب ڈوب رہا تھا۔
معاذ کے منھ سے یہ سبھی کچھ سن کر بے اختیار آہ نکلی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ خود طوفان کو دیکھ رہا ہو اور جہاز اس کے سامنے ڈوب رہا ہو۔ دادا جان نے اپنی بات جاری رکھی۔ انہوں نے بتایا کہ مشکل سے وہ بھیانک طوفانی رات ختم ہوئی اور صبح کے آثار نظر آئے۔ طوفان تھم چکا تھا۔ اس صبح میری امی جان بہت افسردہ تھیں کیونکہ آنگن میں لگا ہوا سایہ دار درخت ٹوٹ گیا تھا۔ میرے والد صاحب گھر کے گیٹ کی مرمت کررہے تھے۔ جسے رات کی وحشی ہوا نے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میں نے انہیں ڈوبے جہاز کے متعلق بتانا چاہا لیکن انہیں میری بات کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ انہوں نے مجھے صرف اتنا کہا کہ جاؤ بیٹا کھیلو اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔
”تو کیا وہ پھر ساری زندگی ہی آپ کی بات سمجھ نہیں پائے۔“ معاذ نے دادا سے پوچھا۔
”کیوں نہیں کئی سال بعد جب میں انہیں اپنی بات اچھی طرح سمجھا سکتا تھا۔ میں نے دوبارہ انہیں یہ واقعہ سنایا۔ تو ان کا خیال تھا کہ میں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اتنا بڑا جہاز ڈوب گیا اور اسے میرے سوا کسی نے ڈوبتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ خود میرا بھائی میری اس بات کو میرا خواب سمجھ کر مذاق اڑانے لگا اور تب سے میرا خاندان جب کسی بات کو ناممکن سمجھتا تو اسے میرے جہاز والے واقعہ سے تشبیہ دیتا اور پھرسارا خاندان مجھ پر ہنستا۔ آج تک لوگ اس بات کو میرا من گھڑت افسانہ سمجھتے ہیں اور اب وہ فرضی جہاز میرے نام سے منسوب ہے یعنی دادا جان کا جہاز۔“
دادا جان نے اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدلا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ ”میری بات پر کوئی یقین نہیں کرتا۔“
”لیکن میں تو کرتا ہوں۔“ معاذ نے دادا کے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔ پھر معاذ نے سمندر کو حد نگاہ تک دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور اس کا ذہن ایک نئی کہانی کے تانے بانے بن رہا تھا۔ دادا جان البتہ بار بار ڈوبے ہوئے جہاز کی خوبصورتی کی تعریف ہی کیے جارہے تھے اور پھر معاذ کے ذہن میں اس خیال نے جنم لیا کہ جب وہ بڑا ہو گا تو سمندر کی تہہ تک جانے والا غوطہ خور بنے گا اور ایک دن سمندر کی عمیق گہرائیوں میں غوطہ مارے گا اور دادا جان کے ڈوبے جہاز کو کھوج نکالے گا۔ لہٰذا وہی ہوا جو اس نے سوچا تھا۔
٭….٭
اب وہ ایک تربیت یافتہ غوطہ خور تھا جو سمندر کی تاریک گہرائیوں کو ماپ سکتا تھا۔ اس وقت وہ اپنے عزیز دوست عنریق کے ساتھ اپنی پتوار والی کشتی میں سوار تھا۔ وہ اب اندازاً سمندر میں عین اس جگہ پر کھڑے تھے۔ جہاں دادا جان کا جہاز ڈوبا تھا۔
”یہی وہ جگہ ہے۔“ معاذ نے عنریق سے کہا۔
” لیکن معاذ مایوس نہ ہونا اگر تمہیں سمندر کے نیچے جہاز نہ ملے۔ ہوسکتا ہے دادا جان نے واقعی خواب ہی دیکھا ہو۔“
” ہاں ہوسکتا ہے۔“ معاذ نے جواب دیا۔ ”لیکن انہیں ابھی تک یقین ہے کہ انہوں نے جہاز ہی ڈوبتا دیکھا تھا اور تمہیں پتا ہے کہ میں ان پر مکمل یقین کرتا ہوں۔“
اس نے پاؤں میں تین جوڑے جرابوں کے پہنے اور پھر اپنے کپڑوں پر تین سوئٹر پہنے۔ سمندر کی اوپری سطح پر اگرچہ موسم بالکل ٹھیک تھا مگر معاذ جانتا تھا کہ سمندر کی تہہ میں اسے کتنی سردی سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ پھر اس نے اپنے شانوں پر حفاظتی پیڈ باندھے اور اوپر سے غوطہ خوری والا ربڑ کا سوٹ پہن لیا اور پیروں میں تیراکی والے جوتے۔
”خدا حافظ!! عنریق نے معاذ کے سر پر ہیلمٹ پہناتے ہوئے کہا۔ معاذ اس سیڑھی سے سمندر میں اترنے لگا۔ جو کشتی کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ پھر آخر میں اس نے اپنے منھ میں عنریق سے آکسیجن والا پائپ سیٹ کروایا۔ تاکہ وہ پانی میں سانس لے سکے۔ معاذ نے عنریق کو ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہا اور سیڑھی سے سمندر میں کود گیا۔
کچھ ہی ساعتوں میں وہ سمندر کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔ پہلے پہل تو وہ کچھ نہیں دیکھ سکا۔ ماسوائے دھندلے پانی اور مچھلیوں کے جھنڈ کے یا سرخ اور گلابی انجانے جیتے جاگتے چھوٹے چھوٹے تیرتے جانوروں کے۔ لیکن جہاز اسے کہیں نظر نہیں آیا۔
وہ سمندر کی تہہ میں ہیلمٹ کے پیچھے سے جہاز تلاش کرتا رہا لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ کیا دادا جان نے خواب دیکھا تھا یا اب سمندر کی ریت جہاز کو نگل چکی ہے۔ ہر جگہ رنگین مچھلیاں تھیں لیکن جہاز کہیں نہیں تھا۔ آخر اسے افسوس میں ڈوبے ہوئے واپس آنا پڑا۔
اس نے اپنے جسم کے ساتھ بندھی ہوئی زندگی کی بچانے والی رسی کھینچی۔ یہ عنریق کے لیے اشارہ تھا کہ وہ سطح پر آرہا ہے۔ معاذ جانتا تھا کہ ایک غوطہ خور کے لیے زیادہ دیر سمندر کی تہہ میں رہنا کتنا خطرناک ہے اور بہت تیزی سے اوپر جانا بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔ جیسے جیسے وہ سمندر کی اوپری سطح کے قریب ہوتا گیا۔ اس نے راستے میں کئی دفعہ رک کر دوبارہ سفرشروع کیا۔ آخر وہ کشتی کے ساتھ لٹکی ہوئی رسی کے آخری سرے تک پہنچ گیا۔ وہاں سے عنریق نے اسے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا اور اسے کشتی میں کھینچ لیا۔
معاذ نے اپنے چہرے سے ہیلمٹ اتاراکرافسوس سے سر ہلایا۔ اس نے کچھ دیر کشتی میں بیٹھ کر اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کیا۔جب وہ فضا میں معمول کے مطابق سانس لینے کے قابل ہو گیا تو اس نے عنریق سے کہا وہ کشتی کو تھوڑا آگے لے چلے تاکہ وہ دوبارہ غوطہ لگائے۔ عنریق نے کچھ کہے بغیر پتوار چلانا شروع کر دیئے اور پھر کچھ دور جا کر ایک بار پھر معاذ تھا اور سمندر کی بے کراں عمیق گہرائیاں۔
پہلے کی طرح شروع شروع میں اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ پھر آہستہ آہستہ اسے اپنے سامنے سمندر میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں بنی ہوئی دکھائی دیں۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ واقعی دادا جان نے شاید کوئی خواب ہی دیکھا ہوگا۔
وہ سمندر میں چٹانوں کے اردگرد تیرتا رہا۔ اس احتیاط کے ساتھ کہ کہیں اس کا آکسیجن والا پائپ کسی جگہ نہ اٹک جائے اور تب اچانک اسے ایسا لگا جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک بڑا سا ہیولہ آگیا ہو۔ اس کا دل دھڑکا۔ ”کیا یہ وہ ہوسکتا ہے؟“ اب وہ داداجان کا کہا یاد کررہا تھا۔ وہ اتنا خوبصورت جہاز تھا جس کے مستول آسمان تک بلند تھے۔ اسے لگا کہ دادا جان کو اس وقت اس کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ واقعی وہ وہی پراسرار جہاز تھا جو آدھا ریت میں دھنسا ہوا تھا اور اس کے عرشے پر مختلف سمندری مچھلیوں کی آمدورفت تھی۔ جہاز کے مستول ٹوٹ کر علیحدہ ہوچکے تھے۔ جہاز میں بڑی بڑی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ کمروں کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ اگرچہ آہستہ آہستہ سمندر کی تہہ میں جہاز ٹوٹ رہا تھا لیکن اب بھی وہ بلا کا حسین تھا۔
مجھے دادا جان کے لیے یہاں سے کچھ نشانی کے طور پر لے کر جانا چاہیے۔ بے شک وہ لکڑی کا چھوٹا سا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ یہ ایک غیر ملکی جہاز تھا۔ تب اسے ایک بند کیبن نظر آیا جس کا دروازہ آج تک نہیں کھلا تھا۔ پانی کے بے انتہا دباؤ کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح آج بھی بند تھا۔ معاذ کی تھوڑی سی کوشش سے وہ کھل گیا اور معاذ اس کے اندر داخل ہوا۔
دروازے کے ساتھ ہی ایک لوہے کا صندوق پڑا تھا ۔ معاذ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ ”یہ کیا ہے؟“ اس نے خود سے پوچھا۔ وہ پریشان تھا کہ اس کے اندر کیا ہوسکتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ صندوق کو ہی ساتھ لے لے۔ اسی اثناءمیں اسے اس کی بندھی رسی سے ایک جھٹکا محسوس ہوا۔ یہ بلاوا تھا۔ عنریق اسے اوپر بلا رہا تھا۔ لیکن معاذ ہر قیمت پر صندوق میں جھانکنا چاہتا تھا اس نے جلدی جلدی صندوق کا زنگ آلود ڈھکنا کھولا۔ اندر کیا تھا۔ اوہ! بے شمار پرانے سکے۔ سونے کے سکے۔ اتنی دیر میں اسے رسی سے ایک اور جھٹکا لگا۔ عزیق سطح سمندر سے اسے سمجھا رہا تھا کہ اب کافی وقت ہو گیا ہے۔ تمہیں اوپر آنا چاہیے۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ معاذ کے پاس سینکڑوں سونے کے سکے ہیں۔ معاذ بہت خوش تھا کہ یہی چیز دادا جان کو خوش کرسکتی تھی اور ان کے شایان شان تھی۔
وہ صندوق کو سینے سے چمٹائے ہوئے کیبن سے باہر نکلا اور پانی کو چیرتا ہوا سطح سمندر کی طرف بڑھنے لگا۔ نیچے دھندلے پانیوں میں وہ جہاز کو تنہا چھوڑ کر آرہا تھا۔ جو بہت خوبصورت تھا مگر اب ایک سایہ تھا۔ ایک بھوت تھا جو سمندر کی تہہ میں رہ رہا تھا۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top