skip to Main Content

سلطان کا اغوا

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ننھا سلطان گھر سے غائب ہو گیا تھااور پورے گھر میں ہل چل مچی ہوئی تھی۔و ہ سب کی آنکھوں کا تارا تھا،ماں کی آنکھوں کانور اور باپ کے دل کا سرورتھا۔بھائی بہنوں کے لیے دل کا بہلاوا تھا۔ وہ صبح سویرے گھر سے کھیلتا کودتا کسی سمت نکل گیا ۔ماں باپ اور بہن بھائیوں نے کوئی توجہ نہیں دی،کیونکہ وہ ہر روز ہی گلی میں کھیلنے کے لیے نکل جاتا تھا۔
گلی میں اس کی دلچسپی کے سامان جو تھے۔ماسی نوراں کا چھوٹا سا پلا اس کے ساتھ گھل مل گیا تھا۔وہ اسے دیکھ کر دم ہلانے لگتا تھااور اس کے پیروں میں لوٹنے لگتا۔بابا فقیر حسین کی نیلی آنکھوں والی سفید رنگ کی بلی بھی اسے دیکھتے ہی اس کی طرف دوڑی آتی تھی اور اس کی ٹانگوں سے رگڑ کھاتے ہوئے چکر لگانے لگتی۔وہ بھی اس کے پاس چودھری فضل کے گھر کے پختہ چبوترے پر بیٹھ کر ان سے کھیلنے لگتا اور اس طرح اسے کتنی ہی دیر گزر جاتی، پھر اس کی ماں اسے آواز دیتی:
”سلطان بیٹا!اب بہت دیر ہوگئی،آجاﺅ۔“
اور وہ اپنے دوستوں کو خدا حافظ کہتے ہوئے گھر میں داخل ہوجاتا،جہاں اس کی ماں بازو پھیلائے کھڑی ہوتی۔وہ اس سے چمٹ جاتا۔پھر ماں اسے مزے دار چیزیں کھلاتی لیکن آج جب اس کی ماں نے اسے آواز دی :”سلطان بیٹا!اب بہت دیر ہوگئی،آجاﺅ۔“تو جواب میں سلطان کی دوڑنے کی آواز سنائی دی، نہ اس کی آوازآئی۔
اس نے حیران ہو کر دروازے کے باہر چودھری فضل کے گھر کی طرف دیکھا،وہاں پلا اور بلی حیران اور پریشان کھڑے تھے۔
ماں نے جلدی سے بڑے بھائی بہنوں کو دوڑایا کہ جاکر دیکھیں منّا کہاں ہے۔وہ ادھر ادھر دوڑتے چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد چہرے لٹکا کر واپس آگئے۔”امی جان! منے میاں تو کہیں بھی نہیں ہیں۔“
”کیا!“ ماں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
پھر تو کہرام مچ گیا۔۔۔ ماں تو زور زور سے رونے لگی۔۔۔باپ فوراً گھر سے نکل کر ادھر ادھر دوڑنے لگا۔بھائی بہن بھی کافی دور تلاش کرتے نکل گئے۔وقت گزرتا چلا گیا۔۔۔تلاش کرنے والے تھک گئے۔۔۔شام کو جب سب لوٹے تو پتا چلا کہ سلطان ابھی تک کسی کو نہیں ملا تھا۔آخر پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی۔
باپ اور بھائی پھر تلاش کرنے گھر سے نکل گئے۔۔۔پولیس نے اپنی کوشش شروع کردی۔۔۔رات گزر گئی ۔ماں کے آنسو ابھی تک جاری تھے۔اسے کسی پل چین نہیں تھا۔چین تو کسی کو بھی نہیں تھا مگر ماں کی تو حالت ہی اور تھی۔وہ کبھی اپنے بال نوچنے لگتی،کبھی دروازے سے سر ٹکرانے لگتی۔پڑوس کی عورتیں اسے سنبھالتے سنبھالتے تھک گئیں۔۔۔تمام رات کوئی نہیں سویا تھا، نہ کسی کو کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔۔ ۔ آخر پڑوسیوں نے کچھ کھانا تیار کرایا اور انہیں زبردستی تھوڑا بہت کھلایا۔۔۔اخبارات میں گم شدگی کا اشتہاردیا جا چکا تھا،ریڈیو پر بھی اعلان کروادیا گیا۔۔۔۔منادی والے کو بھی ادھر ادھر دوڑایا۔
پھر دوسرا دن بھی گزر گیا۔۔۔گھر والے اب بے دم ہوچکے تھے۔تیسرے دن صبح سویرے ایک کانسٹیبل ان کے گھر میں داخل ہوا۔اُس وقت گھر میں صرف سلطان کی ماں اور ایک بہن موجود تھیں۔کانسٹیبل نے انہیں بتایا کہ ایک بے ہوش بچہ یہاں سے کئی میل دور کھیتوں میں پڑا ملا ہے۔اسے ہسپتال پہنچادیا گیا ہے۔۔۔آپ چل کر دیکھ لیں،کہیں وہ آپ ہی کا تو بچہ نہیں ہے۔
دونوں ماں بیٹی فوراً ہسپتال چلنے کے لیے تیار ہو گئیں۔کانسٹیبل انہیں اس وارڈ میں لے کر داخل ہوا جس میں بچہ موجود تھا۔اس نے ایک بستر کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ادھر ہوئیں اور پھر چیخ اٹھیں۔
”یہی ہے میرا سلطان۔“
ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا،پھر فوراً ہی پریشان ہو گئیں۔۔۔ آخر سلطان کو کیا ہوا ہے۔وہ بے ہوش کیوں ہے۔انہوں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا جو سلطان کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔انہوں نے کہا:
”فکر نہ کریں، بچہ ابھی ہوش میں آجائے گا،اسے کوئی دوا سنگھا کر بے ہوش کیا گیا ہے،دوا کی مقدار بہت زیادہ تھی اس لیے بچہ ابھی تک ہوش میں نہیں آیا۔“
تھوڑی دیر بعد گھر کے باقی افراد کوبھی خبر مل گئی اور وہ سب بھی ہسپتال میں پہنچ گئے۔ان سب کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ان کے لبوں پر دعائیں تھیں۔۔۔یا اللہ سلطان میاں کو ہوش آجائے۔۔۔وہ اس بات پر بھی حیران تھے کہ سلطان اتنی دور کھیتوں میں کیسے پہنچ گیا، وہ کون تھا جو اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔۔۔اور وہ کیا چاہتا تھا۔ان کے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب نہ تھا۔
اور پھر ڈاکٹروں کی دو گھنٹے کی لگاتار کوشش کے بعد سلطان کو ہوش آیا۔۔۔اس نے آنکھیں کھول کر سب کو حیرت سے دیکھا۔۔۔پھر کہنے لگا:
”کیا بات ہے ابو آپ سب لوگ میرے چاروں طرف کیوں جمع ہیں؟“
”تم کہاں چلے گئے تھے بیٹا۔کس کے ساتھ چلے گئے تھے۔“اس کے باپ نے تڑپ کر پوچھا۔
”میں۔۔۔میں۔۔۔کہیں بھی تو نہیں گیا تھا۔۔۔ارے ہاں مجھے یاد آیا۔میں بلی اور پلے کے ساتھ کھیل رہا تھاکہ ایک آدمی میرے پاس آیا۔۔۔اس نے مجھے ایک بسکٹ دیا،میں نے بسکٹ لے کر کھالیا۔ بسکٹ بہت مزے کا تھا،میں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے بسکٹ کے ڈبے کو دیکھا تو اس نے مجھے ایک اور بسکٹ دے دیا۔میں نے وہ بھی کھالیا۔اس پر وہ بولا:”منے آﺅ۔۔۔سڑک کی طرف چلتے ہیں۔۔۔ میں تمہیں اور بسکٹ دوں گا۔میں اس کے ساتھ چل پڑا۔وہ مجھے بسکٹ کھلاتے ہوئے آگے چلتا رہا۔ ہم کافی دور نکل گئے تو مجھے گھر کا خیال آیا، میں گھبرا گیا،میں نے کہا، اب میں گھر واپس جاﺅں گا، تو وہ مجھے کہنے لگا،آﺅ۔۔۔میں تمہیں دوسرے راستے سے گھرلے چلوں،میں اس کے ساتھ ہولیا،یہاں تک کہ ہم کھیتوں کے قریب پہنچ گئے۔اب اس نے ڈبے کا آخری بسکٹ مجھے دیا،اسے کھاتے ہی میں گر پڑا۔۔۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔“
یہ کہہ کر سلطان خاموش ہوگیا۔۔۔سب اس کا یہ بیان سن کر حیران رہ گئے،کیونکہ یہ بہت عجیب بات تھی۔سلطان کے پاس کوئی نقدی نہیں تھی۔ نہ اس کے ہاتھ پاﺅں یا کان میں کوئی زیور وغیرہ کی قسم کی چیز تھی۔۔۔پھر کوئی سلطان کو کیوں لے گیا۔۔۔آخر وہ چاہتا کیا تھا۔
یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔سلطان کو تو خیر گھر لے آیا گیا۔مگر اس کے گھر والے اور پولیس والے اس سوچ میں کھو گئے کہ سلطان کو اغوا کرکے لے جانے والا کیا چاہتا تھا۔۔۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔اسی طرح کئی دن گزر گئے۔
ایک روز ایک شخص ملک کی سرحد پارکرتے ہوئے پکڑا گیا۔وہ زمین پر رینگ کر رات کے وقت سرحد پار کررہا تھا کہ ٹارچ کی روشنی اس پر پڑ گئی اور اس کو گرفتار کرلیا گیا۔اس کے پاس سے کچھ کاغذات بھی برآمد ہوئے۔۔۔ان کا غذات کا جائزہ لیا گیاتو فوجی اسے پکڑ کر شہر کے تھانے میں لے آئے۔۔۔اور تھانے دار کو سلطان کے والد کو بلانے کے لیے بھیجا گیا۔سلطان کے والد حیران پریشان تھانے آئے۔۔۔تو فوجیوں نے ان کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھما دیے۔وہ ان کاغذات کو دیکھ کر تھرااٹھے۔۔۔ ان کا غذات کا تعلق تو ملک سے تھا۔۔۔اس میں ان کے ملک کے متعلق ضروری اور خفیہ معلومات درج تھیں اور یہ ان کے گھر کی الماری کی خفیہ دراز میں موجود تھے۔
اچانک انہیں ننھے سلطان کی گم شدگی کا خیال آگیا۔۔۔انہوں نے ساری بات فوجیوں کو سنا دی۔اسی وقت سلطان میاں کو بھی تھانے بلوالیا گیا۔سلطان میاں نے جونہی اس آدمی کو دیکھا،وہ چلا اٹھے:
”یہی تھا وہ آدمی۔۔۔جس نے مجھے بسکٹ کھلائے تھے۔“
اب سارا معاملہ صاف ہوگیا۔۔۔اس نے سارے گھر کو سلطان کی گم شدگی سے پریشان کردیا تھا۔سب گھر والے ادھر ادھر پھر رہے تھے اور اس دوران وہ گھر سے کاغذات چرانے میں لگا ہوا تھا۔آخر وہ کامیاب ہوگیا،لیکن یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ سرحد پار کرتے ہوئے اسے دیکھ لیا گیا۔
اسے گرفتار کرلیا تھا۔۔۔بعد میں جب اس پر سختی کی گئی تو اس نے بتایا کہ سلطان کے والد کے دفتر کے ایک آدمی نے اسے کاغذات کے بارے میں بتایا تھا۔چنانچہ اس شخص کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور اس طرح دو ملک دشمن گرفتارہوئے۔
دوسرے دن اخبارات کے پہلے صفحے پر یہ کہانی شائع ہوئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top