skip to Main Content

سرکار کا دربار

الیاس احمد مجتبیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرب
ہمارے دیس ہندوستان سے دور ٹھیک پچھم کی طرف ایک اور ملک ہے ،اس کا نام ہے عرب ،اس کے تین طرف سمندر ہے ، ایک طرف خشکی پر دوسرے ملک ہیں ۔اس پورے ملک کو جزیرۃالعرب کہتے ہیں ،جس کی حدیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں ، جس طرح ہمارے ملک ہندوستان کا صدر مقام دہلی ہے ،جزیرۃ العرب کاصدر مقام مکّہ ہے۔نقشے میں دہلی سے مکّہ تک لکیر کھینچ کر ناپیں تو دہلی سے مکّہ کچھ کم ڈھائی ہزار میل دور ہے ۔سارا عرب رتیلا میدان ہے ۔وہاں بے حد گرمی پڑتی اور تیز لو چلا کر تی ہے ہمارے دیس کی طرح وہاں پانی افراط سے نہیں ملتاہے اور دوردور ہریالی نظر نہیں آتی ، غرض کچھ عجیب اجاڑ سا دیس ہے ۔
عرب کے لوگ
اب سے ۱۳ ۔۱۴ سو برس پہلے عرب کی حالت بہت خراب تھی وہاں کے لوگوں میں بڑی بُری عادتیں تھیں، وہ لوگ بات بات پر آپس میں لڑ جاتے اور آپس میں تلواریں چل جاتی تھیں پھر اس طرح کی کوئی لڑائی ایک دفعہ ہو کر ختم بھی نہ ہوتی تھی،بلکہ اس کا سِلسلہ پشتوں تک چلا کرتا ۔ اس طرح کہ اگر کسی کا کوئی بھائی بھتیجا ، عزیز پیارا مارا جاتا تو اس کا بدلہ لینا بھی ضروری ہو جاتا ، چھوٹی سے چھوٹی کوئی بات ان کی طبیعت کے خلاف ہوتی تووہ لڑنے مرنے کو سید ھے ہوجاتے ،شراب وہ پیتے ،جوّا وہ کھیلتے، اُن میں بعض قبیلے (قبیلہ معنی خاندان گھرانا) ایسے تھے کہ اگر ان کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو ناموس کے خیال یا اپنی غریبی محتاجی کی وجہ سے جان سے مار ڈالتے اور کبھی زندہ ہی دفن کر دیتے تھے، عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرتے ،غرض دنیا کا کوئی عیب ایسا نہ تھا جو ان میں نہ ہو ۔پتّھر کی بنی مورتوں کو خدا جانتے او ران کی پوجا کیا کرتے ،اُن ہی سے اپنی مُرادیں مانگتے اور منتیں مانتے تھے۔رات اور دن لوٹ مار میں گزارتے اور خدا کا خوف دل میں نہ لاتے ، بس یہ سمجھوکہ ان کا نہ کوئی دین تھا کہ عاقبت کاڈر کرتے نہ دنیا کی لاج تھی ،سب کا ایک ہی حال تھا ۔بس جو چاہا و ہ کیا۔
پر کچھ باتیں ان میں اچھی بھی تھیں، اول تو وہ سب بڑے بہادراور جِیالے تھے، ہر وقت لڑنے کے لئے تیار رہتے ۔لڑائی میں جان دینے کو بڑی اچھّی بات جانتے اور اس طرح کی موت پر خوش ہوتے مگر بستر پر مرنا ان کے لئے بڑی شرم کی بات تھی ۔مہمان کی بہت خاطر کرتے ۔جوے سے جو آمدنی ہوتی وہ سب غریبوں کو بانٹ دیتے تھے ۔جو کوئی ان کی پناہ میں آجاتا۔یعنی ان سے اپنی جان اور اپنے مال کی حفاظت چاہتا پھر اس کی ہر طرح دیکھ بھال کرتے یہاں تک کہ اپنے بھائی سے زیادہ اس کی بھلائی کی فکر رکھتے تھے ۔
یہ لوگ زیادہ تر قریش قوم سے تھے جن کی نسل اب تک چلی جاتی ہے ۔قریش کے علاوہ دوسری قوم کے لوگ بھی تھے اور ان کا حال بھی یہی تھا۔
نام و نسب
اُن دنوں عرب کے قریش میں ایک بہت بڑے سردار تھے ،ان کانام تھا عبدالمطّلِب جو قریش کی اولاد تھے ۔ان کے کئی بیٹے تھے۔ ان کے نام تھے ابو طالب ۔عبداللہ ۔حمزہ ۔عباس وغیرہ ۔
ان میں عبداللہ کے بیٹے ہمارے سرکار ﷺ خدا کے پیغمبر و رسول حضرت محمد ﷺ رسول اللہ ہیں آپ کی ماں کانام آمنہ بی بی ہے جو قریش قوم میں بڑے اچھے گھرانے سے تھیں ۔
لڑکو!شاید تم نے نبی، پیغمبرو رسول کے الفاظ پہلے نہ سنے ہوں، اُن کے معنی نہ جانتے ہو ۔لو سنو ہم بتاتے ہیں ۔
پیغمبر کا لفظ پیغام سے بنا ہے یعنی پیغام لانے والا ۔نبی،رسول کا مطلب بھی یہی ہے ۔یہ لوگوں کو نیک اور اچھے کاموں کی ہدایت کے لئے خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں جو ہمیں خدا کی بتلائی ہوئی باتیں سکھاتے ہیں جن سے اللہ میاں خوش ہوتے ہیں ،ان بُرے کاموں سے روکتے ہیں جن سے خدا اپنے بندوں سے خفا ہوتا ہے ۔
سب سے پہلے خدا کے نبی حضرت آدم ؑ ہوئے ہیں،جن کی اولاد میں ہم سب ہیں ۔ان ہی حضرت آدم کی اولاد میں ہماری تمہاری طرح ہمارے سرکا رﷺ بھی ہیں ۔یہاں اتنی بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہم تم بھی ضرور آدم ؑ کی اولاد ہیں پر ہم کسی طرح نبیوں کے برابر نہیں ہو سکتے ۔
حضرت آدم ؑ کے بعد بہت سے نبی پیدا ہوئے ،ان میں مشہور اور بڑے بڑے حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسمٰعیل ؑ ،حضرت موسیٰ ؑ ،حضرت عیسیٰ ؑ تھے ۔حضرت ابراہیم ؑ ہی کی اولاد میں سرکار حضرت محمد رسول اللہ ہیں ۔ان سب نبیوں کو اللہ میاں نے اپنا ایک ایک پیغام دے کر دنیا میں بھیجا تھا لیکن لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی اور انھیں طرح طرح ستا یااور جھُٹلایا۔آخر میں ہمارے سرکار کو خدانے اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ۔آپ کے بعد پیغمبر یا رسول یا نبی آنے بند ہو گئے ،کیوں کہ ہمارے سرکار نے خدا کے بندوں کو وہ سب باتیں ایک ایک کر کے بتا دیں جو خدا چاہتا ہے ۔
اس کتاب میں آپ کا سارا حال پیدائش سے وفات تک لکھا ہے ۔
نور کا ظہور
دنیا کو جس آب رحمت کی پیاس تھی ، خدا کی مخلوق جس سچائی کی بھوکی تھی ،جِس مبارک ہستی کی آمد آمد کے لئے گھڑیاں گنی جا رہی تھیں ، خدا کے بندے جِس ہدایت کرنے والے سے پہلے اپنے رب کو ہی کو بھلا بیٹھے تھے ‘جس نبی کے لئے حضرت ابراہیم ؑ خلیل نے خدا سے دعا کی تھی اور حضرت عیسیٰ ؑ مسیح نے خدا کے جس آخری رسول کی آمد آمد کی خوشخبری دی تھی آخر وہ پیاری گھڑی ایسی شان و شوکت سے آ پہنچی کہ اس سے پہلے خدا نے اُس سے زیادہ اچھی ساعت دنیا میں کبھی نہ بھیجی تھی ۔اور سچ پوچھو تو بات یہ ہے ، دنیا کی پیدائش اور بنیاد ہی صرف اسی رحمتِ عالی کے سبب ہوئی۔ نہیں تو نہ یہ دنیاہوتی اور نہ دنیا کی کوئی چیز ہوتی ۔اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی حالت پر رحم آیااور ان کی ہدایت اور بھلائی کے لئے اپنے حبیب ﷺ ہمارے سرکار کو دنیا میں بھیجنا طے فرمایا۔
چاند کے مہینے ربیع الاول کی (۹ )نو تاریخ کو دو شنبہ کے دن صبح کے سہانے وقت ہمارے سرکار ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ، اس دن انگریزی مہینہ اپریل کی (۲۰) بیس تاریخ تھی اور ۵۷۱عیسوی۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل ؑ اور نوید مسیحاؑ
(حالی)
مبارک ہو کہ دور راحت و آرام آ پہو نچا
نجات دائمی کی شکل میں اسلام آ پہونچا
مبارک ہو کہ ختم المرسلین تشریف لے آئے
جناب رحمۃ اللعالمین تشریف لے آئے
بصد انداز یکتائی ، بغاوت شان زیبائی
امین بن کر امانت آمنہؓ کی گود میں آئی (حفیظ جالندھری )
اَ للّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰے مُحَمَّدِِ
اِسی سال آپ کی پیدائش ہے ۱۵ ۔ ۲۰ دن پہلے ابرہہ نام کے ایک امیر نے مکہ پر چڑھائی کی تھی جو ملک حبش کے عیسائی بادشاہ نجاشی کی فوج کا جرنیل تھا ۔اُ س کی فوج میں بڑے بڑے ہاتھی تھے ، اس نے یہ ارادہ کیا تھا کہ ان ہاتھیو ں سے کعبے کو ڈھادے گا اور قریش قوم کو پکڑ لے جائے گا۔حضرت آمنہ بی بی بہت گھبرائیں اور پریشان ہو کر ایک پہاڑ میں جا چھپیں ۔خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ہمارے سرکار کی بدولت اور آپ کی برکت سے اللہ میاں نے جھُنڈ کے جھُنڈ پرندے (گدھ ) بھیجے جو اپنی چونچوں میں کنکر یاں لے کر سارے آسمان پر چھا گئے اور ابرہہ کی فوج پر بر سانے لگے آخر اس کی فوج ’’کھائے (فََجَعَلَھُمْ کَعَصْفِِ مَاْ کُوْ ل)ہوئے بھوسے کی طرح برباد ہو گئی ‘‘اور اس طرح خدا کا گھر کعبہ بچ گیا۔
کعبہ
مکّہ میں ایک گھر ہے جو کعبہ کہلاتا ہے اور جسے خدا کاگھر بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں خدا ہی کا نام لیا جاتا ہے ، اور اس ہی کی عبادت کی جاتی ہے ۔اسی گھر کے لئے مشہور شاعر ڈاکٹر اقبال نے یہی شعر کہا ہے ۔
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
یہ ایک چوکور کوٹھری کی شکل کا ہے جس کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی قریب قریب برابر ہے۔ اسے عرب قوم کے دادا (مورث ) حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ پیغمبر اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ نے خدا کی عبادت کے لئے بنایا تھا۔ سرکار ﷺ کے نبی ﷺ ہونے سے پہلے یہ خدا کا گھر بتوں کا گھر بن گیا تھا ،اور عرب کے کافروں نے اس میں بت رکھ چھوڑے تھے ۔لیکن ہمارے سرکارﷺ کے نبی ہونے ،لوگو ں کے آپﷺ پر ایمان کے لانے ،اور اسلام قبول کر لینے پر وہ سارے بت توڑ ڈالے گئے اور جب سے اب تک کہ تیرہ سو برس ہو گئے، برابر اس میں خدا کی ہی عبادت ہوتی ہے ۔
خاندان
عرب میں یہ دستور چلا آتا تھا کہ جو گھر انا سب سے اچھّا ہوتا ،کعبے کا خادم وہی مانا جاتا یعنی کعبہ کی دیکھ بھال اسی گھر انے کا کام سمجھا جاتا تھا۔ویسے تو عرب کا ہر گھرانا اپنے سامنے کسی کو نہ مانتا تھااور وہ لوگ اپنے آگے کسی کو بڑا نہ گنتے تھے ،پر ہمارے سرکار کا خاندان ایسا اچھا تھا کہ وہ سب اس کی بڑائی اور بزرگی مانتے تھے۔ اِسی سے کعبہ کی خدمت کئی پشتوں سے برابر آپ ہی کے گھرانے میں رہا کی ۔اِسی لئے شرافت اورعزت و توقیر کے لحاظ سے ہمارے سرکار کا گھرانا بڑے سے بڑے درجے پر تھا، یہاں تک کہ اس سے اونچا اور کوئی خاندان نہیں ۔
اِسلام
پیارے بچّو ! ہیں تو ہم تم سب مسلمان یعنی اسلام کو ماننے والے پر تم نے کبھی سوچا ہے ، اسلام کہتے کسے ہیں ؟اور وہ کیا چیز ہے ؟
اسلام کے معنی ہیں تسلیم کرنے یعنی مان لینے کے، کسے ماننے کے ؟خدا کو !کہ وہی سب کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی سب کا مالک ہے ،اسی کی بندگی لازم ہے ۔نہ کسی اور کی مگر صرف اُس کی عبادت کی جائے اور اُس کے بھیجے ہوئے سب نبیوں ،رسولوں اور پیغمبروں کو مانا جائے جن میں آخری نبی ﷺ ہمارے سرکار حضرت محمد رسول اللہ ہیں ۔آپ پر جو خدا کا کلام (قرآن ) اُترا اُسے بر حق مانا جائے اور آ پﷺ کی بتلائی ہوئی راہ پر سچّے دل سے چلا جائے۔ خدا کے فرشتوں کا بھی اقرار ضروری ہے اور قیامت کے دن کا دل میں یقین بھی ضروری ہے ۔بس انہی باتوں کو اسلام کہتے ہیں ۔جو سب سے اچھا دین ہے ۔جس کے ماننے والوں کو مسلمان کہتے ہیں ۔اِن باتوں کو ذرا پھیلا کے ہم نے آخری حصے میں لکّھا ہے اور اس حصے کانام ’’اسلام کے عقیدے ‘‘رکھا ہے ۔
دودھ پینا
اُس زمانے میں عرب میں یہ رواج تھا کہ بڑے بڑے امیر گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کو دودھ پلانے او ر کھلانے اور بہلانے کے لئے گاؤں کی شریف عورتوں کو دے دیا کرتے تھے ۔ہمارے سرکار ﷺ جب اس دنیا میں تشریف لائے تو چونکہ آ پ کے والدکا انتقال ہو چکا تھا ،آپ پیدا ہی یتیم ہوئے اس لئے آپ کے بزرگوں،خاص کر والدہ کو یہ مشکل نظر آئی ،آپ کے لئے اس طرح کی کوئی دودھ پلانے والی بی بی نہیں مل سکتی تھیں کیونکہ یتیم بچّوں کو دودھ پلانا، ان کی پرورش کرنا وہ عورتیں اپنے لئے بُرا سمجھا کرتی تھیں ۔بی بی حلیمہ ایسی ہی ایک بی بی تھیں لیکن ان کے پاس دودھ بہت کم تھااور اس دفعہ جب شہر (مکّہ ) میں اس غرض سے وہ آئیں ،انہیں کوئی بچّہ نہیں مِلا، مجبوراً ہمارے سرکار ﷺ کو ہی لے گئیں ۔آپ کی برکت سے حلیمہ کا دودھ اتنا بڑھ گیا کہ آپ ﷺ پیتے ،آپ ﷺ کے رضاعی بھائی یعنی خود حلیمہؓ کے بیٹے پیتے پھر بھی بچ رہتا ۔ہمارے سرکار ﷺ کے طفیل حلیمہؓ کے گھر میں بڑی برکت نظر آنے لگی۔ وہ کہا کرتیں کہ ہمارے ہاں جو اونٹنی تھی وہ بھی پہلے بہت کم دودھ دیتی تھی اور سوار ی کے لیے جو جانور تھاوہ بھی بہت سست تھا،آپ کی برکت سے یہ ہوا کہ اونٹنی نے بھی اتنا دودھ دیا کہ گھر کے سب لوگ خوب پیٹ بھر کے دودھ پیا کرتے تھے پھر بھی بچ رہتااور سواری کا وہ جانور اتنا تیز ہو گیا کہ سفر میں ہم اپنے ساتھ چلنے والوں میں سب سے آگے رہا کرتے۔ حلیمہ یہ بھی کہتیں کہ آپ کی برکت سے ہمارے گھر میں سب لوگ بڑے چین و آرام سے رہنے لگے ،ہماری بکریاں سارے گاؤں کی بکریوں کی بہ نسبت زیادہ دودھ دیتیں ۔یہاں تک کہ اور لوگ چرواہوں سے کہا کرتے تھے ،تم بھی وہیں چراؤ جہاں حلیمہؓ کی بکریاں چرا کرتی ہیں ۔چرواہے ایسا کرتے پر ان کی بکریوں کا دودھ نہ بڑھتا۔دو برس تک آپ ﷺ برابر حلیمہؓ کے پاس رہے، اس کے بعد جیسا کہ دستور تھا آپ ﷺ کا دودھ چھڑا یا گیا تو دوسرے بچوں کی طرح آپ ﷺ نے کوئی ہٹ نہیں کی اور نہ روئے دھوئے ، حلیمہؓ آپﷺ کو آپ ﷺ کی والدہ کے پاس لے گئیں مگر ان دنوں مکّہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ دُوسرے اس وقت آپﷺ بہت تندرست تھے، آپﷺ کی والد ہ نے سوچا کہ گاؤں کی آب و ہوا بہت اچھی معلوم ہوتی ہے اور یہاں بیماری پھیلی ہے ایسا نہ ہو کہ میرا لال بھی بیمار پڑ جائے اس لئے آپ کو پھر حلیمہ ہی کے سُپرد کر دیا۔ حلیمہؓ اس بات سے بہت خوش ہوئیں کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے ان کے گھر میں بڑی برکت تھی،وہ پھر اپنے ساتھ لے گئیں اور چار برس آپﷺ حلیمہؓ کے پاس اور رہے۔ حلیمہ کہا کرتیں کہ اور بچوں کی طرح آپ ﷺ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے بڑوں کو دکھ ہو اہو ۔بلکہ بچپن کے زمانے بھر آپ ﷺ اس طرح رہے کہ سب کو آپ پر پیار آتااور ہر کوئی آپ سے محبت کر تا تھا۔
آپ جب بڑے ہو کر نبی ﷺ ہوئے تو اپنی رضاعی ماں ،دودھ پلانے والی ماں ،حلیمہؓ اور ان کے گھرانے والوں کے ساتھ بڑے بڑے سلوک کئے اور آپ ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے ۔
ہمارے سرکار ابھی چھ (۶) ہی برس کے ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ جب آٹھ برس کے ہوئے تو آپﷺ کے دادا عبدالمطلب کا بھی اانتقال ہو گیا،اب صرف چچا ابو طالب رہ گئے جنہوں نے پالا پوسا اور جو آپﷺ سے بے حد محبت کرتے اور ہر طرح کی دیکھ بھال رکھتے تھے ۔
بچپن ہی سے بہت شرمیلے تھے اور حیا رکھتے تھے ،یہاں تک کہ کبھی کسی نے آپ کو بچپن میں بھی ننگا نہیں دیکھا۔
بچپن کے بعد
جیسے جیسے آپ ہوشیار ہوتے گئے آ پ کی اچھی عادتوں کی وجہ سے لوگ آپ سے محبت کرتے اور آپ کی عزت کیا کرتے ،آپ حضرت موسیٰ ؑ پیغمبر کی طرح جنگل میں بکریاں چرانے بھی جایا کرتے ، جب خوب سیانے ہو گئے تو تاجروں کے ساتھ تجارت کرنے لگے اور دوسرے ملکوں میں مال لے جا کر بیچتے ، کبھی ایسا نہ ہوا کہ آپ کے کسی ساجھی یا شریک سے پھوٹ ہوئی ہو،لوگ آپ کو امین اور صادق کے ناموں سے پکار تے تھے ، عربی زبان میں اس کا مطلب یہ تھا کہ ہر چھوٹے بڑے کو آپ ﷺ کی سچائی اور نیکی پر پورا بھروسہ اور یقین تھا۔اسی لئے لوگ اپنی امانتیں آپﷺ کے پاس لا کر رکھتے تھے ۔
کعبہ کی مرمت
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کعبہ سیلاب (معنی اہلا ۔بہیارو۔پانی چڑھ آنا۔) کی وجہ سے گر گیا تو یہ ٹھہرا کہ شروع سے بنایا جائے ،کیونکہ اسے بنے ہوئے بھی مدتیں ہو چکی تھیں،دیواریں بہت پُرانی او رکم زور ہو گئی تھیں ۔ سب کی رائے یہی ہوئی اور پھر سے بنانے میں عرب کے سب گھرانے شریک ہوئے۔ اس وقت ہمارے سرکار کی عمر ۲۵ برس تھی ۔جب سب بن چکا تو حجر اسود (حجر اسود کالے رنگ کا ایک پتھر ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی عبادت کے نشان کے طور پر اب تک قائم رکھا گیا ہے ۔) کو اس کی جگہ پر رکھنے میں بہت بڑے جھگڑے کا اندیشہ ہو گیا ۔کیونکہ ہر گھرانے والا یہ چاہتا تھا کہ ہمارے ہی ہاتھوں یہ کام ہو، آخر ایک بڑے میاں نے یہ طے کیا کہ کل صبح کعبہ کی چار دیواری میں جو سب سے پہلے داخل ہو گا وہی اس بات کا فیصلہ کرے گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہو اکہ آپ ہی سب سے پہلے پہونچے ، آپ کے بعد اور لوگ داخل ہوئے اور ایک زبان ہو کر بولے امین آگیا امین آگیا ۔آخر سب نے فیصلہ آپ ﷺ پر رکھا، آپﷺ چاہتے تو یہ کام اکیلے آپﷺ ہی کرتے لیکن ہمارے منصف مزاج سرکار ﷺ نے وہ تدبیر نکالی کہ کام بھی ٹھیک ہو اور سب لوگ راضی اور خوش بھی رہے ۔آپ ﷺ نے ایک مضبوط چادر بچھائی۔ اس پرحجر اسود رکھا اور چادر کے سرے ہر گھرانے کے ایک بڑے سردار کے ہاتھ میں دے کر اٹھانے کو فرمایا۔اٹھ چکا تو پھر خود اسے اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
خدیجہؓ بی بی سے نکاح
اُن دنوں مکہ میں ایک بڑی مالدار بی بی تھیں خدیجہؓ ،جن کے پہلے میاں کا انتقال ہو چکا تھا جو بہت بڑ ے تاجر تھے لیکن ان کے بعد یہ اپنے نوکروں اور دوسرے لوگوں کی مدد سے منافع میں شرکت کی شرط پر اب بھی اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے تھیں ۔انہوں نے ہمارے سرکار ﷺ کی دیانت داری اور نیکیوں کے چرچے سُنے تو اب کے آپﷺ کو اپنا تجارتی مال دے کر باہر بھیجا جس میں بہت نفع ہوا،اور واپس آکر ہمارے سرکار ﷺ نے کوڑی کوڑی کا حساب چُکا دیا ۔ خدیجہ بہت خوش ہوئیں اور آپ ﷺ سے شادی کرنے کی درخواست کی ۔آپ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے ذکر کیا ۔ انھوں نے منظور کر لیا اور پچیس (۲۵) برس کی عمر میں خوشی خوشی ان سے آپ ﷺ کی شادی ہو گئی ۔ اس وقت خدیجہ بی بی کی عمر چالیس (۴۰) برس تھی ۔
بی بی خدیجہؓ بہت نیک دل بی بی تھیں ، انہوں نے ہمارے سرکار ﷺ کی بہت خدمت کی ۔ وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ آپ کے دل میں بھی ان کی بہت عزت تھی اور اُن سے محبت کرتے تھے ۔خدیجہؓ بی بی جب تک زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ ان سے چار لڑکیاں اور دو لڑکے پیدا ہوئے جن میں بڑے صاحب زادے کانام قاسم تھا ، اسی سے آ پ ابو القاسم ( قاسم کے باپ ) بھی کہلاتے ہیں ، لیکن حضرت قاسم دو ہی برس کے ہو کر فوت ہو گئے ۔آپ ﷺ کی چاروں صاحب زادیوں کے نام یہ ہیں :
رقیہؓ : ان کا نکاح حضرت عثمان (یہ ہمارے سرکار کے بہت ہی قریبی ساتھی اور آپ کے تیسرے خلیفہ ہیں ہم نے ان کا حال کتاب چار یار میں لکھا ہے ۔) سے ہوا ۔
زینبؓ : یہ ابو العاص سے بیاہی گئیں ۔
فاطمہؓ : ان کا نکاح خدا کے شیر حضرت علیؓ ( ہمارے سرکار کے چچیرے بھائی اور چوتھے (آخری ) خلیفہ ہیں ۔ان کا حال بھی ہم نے چار یار میں لکھا ہے ۔)سے ہوا ۔
امّ کلثوم : رقیہؓ کے انتقال پر یہی حضرت عثمانؓ کے نکاح میں آئیں ۔
حضرت بی بی خدیجہ ﷺ نے جب انتقال کیا،ہمارے سرکار کو بے حد رنج اور صدمہ ہوا۔آپ ان کو بہت یاد کرتے تھے ۔ فرمایا کرتے کہ جب میں غریب تھا۔اُس نے مجھ سے شادی کر کے مجھے امیر کر دیا۔جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے وہ مجھے سچا جانتی اور جب سارا عرب میرا دشمن تھا اُس نے میرا ہر طرح ساتھ دیا ۔
حضرت بی بی خدیجہؓ برابر خدا کی راہ میں اپنا روپیہ صرف آپ کی مرضی اور آپ کی خاطر خرچ کرتی رہیں ۔آپ جب کبھی کسی خرچ کے لئے فرماتے وہ خوشی خوشی قبول کرتیں اور جس قدر ضروت ہوتی خوشی خوشی پیش کر دیتیں، غرض یہ دونوں پاک میاں اور بیوی دلی محبت ا ور خوشی کے ساتھ رہتے سہتے اور ایک دوسرے کے سُکھ آرام کا خیال رکھتے ۔
حضرت زیدؓ
حضرت بی بی خدیجہؓ کے ایک غلام تھے زیدؓ ۔جب ہمارے سرکار ﷺ کا نکاح ہوا تو بی بی خدیجہؓ نے زیدؓ کو سرکار کی خدمت کے لئے پیش کیا ۔آپ نے انھیں آزاد کر دیا ، لیکن ہمارے حضرت کا برتاؤہرا میر ، غریب ، چھوٹے اور بڑے کے ساتھ ایسا اچھّا تھا کہ زیدؓ آزاد تو ہو گئے پر وہ برابر آپﷺ کی خدمت میں حاضررہے ۔ان کے باپ کو خبر لگی تو وہ اپنے پیارے بچے کو آزاد کرانے اور گھر لے جانے کے لئے آئے، حضرت سے عرض کیا، آپ ﷺ نے فرمایا ، یہ تو آزاد ہیں، ان کی خوشی چاہے یہاں رہیں چاہے آپ کے ساتھ گھر جائیں لیکن زید کے دل میں آپ ﷺ کی جو محبت بیٹھ چکی تھی ،ا س نے آ پ سے دور رہناپسند نہیں کیا اور وہ آخر عمر تک ہمارے سرکار ﷺ ہی کی خدمت میں رہے، باپ کے ساتھ جانا گوارا نہ کیا ۔
جوانی کا زمانہ
پیارے بچو! جب تک آدمی پر مصیبت ، پریشانی اور فکر نہیں پڑتی ، اس کا دل نرم نہیں ہوتا اور وہ دوسروں کی مصیبت نہیں پہچانتا ، ہمارے سرکار تو نبی ﷺ تھے اور خدا کے پیغمبر ، اللہ میاں نے آپ کو رحمت اللعالمین کاخطاب دیا لیکن ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا میں خدا ہرکا م کا سبب اور وجہ اس سے پہلے پیدا کر دیتا ہے ۔یوں سمجھو کہ جب خوب جاڑے پڑ چکتے ہیں تو اللہ میاں گرمیوں کا موسم بھیج دیتے ہیں ۔جب گرمی خوب پڑ چکتی ہے تو آسمان پر کالے کالے بادل گھر کر پانی برسنے لگتا ہے ۔ برسات کی فصل آجاتی ہے ۔ مہینوں کی سوکھی اور گرم زمین ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ چاروں طرف ہر ی ہری گھاس اُگ آتی ہے ۔
پیارے بچّو!ویسے تو خدا نے نبیوں کو چھوٹے بچوں کی طرح معصوم پیدا کیا ہے ۔لیکن ان کو شروع میں مصیبتیں جھیلنے اور تکلیفوں کے برداشت کرنے کا خو گر بنایا جاتا ہے تاکہ وہ دوسروں کی مصیبت پہچانیں اور ہمدرد ی کا سبق حاصل کریں۔ دیکھوہمارے سرکار پیدا ہی یتیم ہوئے ،۔دنیا میں سب سے پیاری چیزیں ماں باپ ہیں لیکن باپ کی آپﷺ نے صورت بھی نہیں دیکھی ماں اور دادا بھی چھٹ پن ہی میں دنیا سے چل بسے ، پھر اور بھی کوئی خوشی نہ دیکھی ۔یہ سب ایسی باتیں تھیں جن سے آپ کا دِل دوسروں کی مصیبتوں پر روتا اور دن رات آپﷺ کو اپنے ملکی بھائیو ں کی بُری بُری باتوں کاغم رہا کرتا۔آپ گھبراتے اور ایسا بہت ہوا کرتا کہ جنگل میں چلے جاتے ،وہاں اسی سوچ میں پڑے رہتے ۔
حرا
مکّہ (شہر) سے باہر تھوڑی ہی دور ایک پہاڑ ہے، اُس میں ایک غار تھا جسے حِرَا کہتے ہیں ۔ہمارے سرکار ﷺ زیادہ تر اِسی غارِ حِرا میں دن دن بھر اکیلے سو چا کرتے کہ لوگ کیسے نا سمجھ اور بے رحم ہیں جو’’نہ کچھ باتوں ‘‘ پر آپس میں لڑ ا کرتے ہیں۔ بیٹی پیدا ہو تو مار ڈالتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں ۔ جوّا کھیلتے ہیں ۔ یہ کیسے بُرے لوگ ہیں۔ یہ کس طرح سُدھارے جائیں ۔ہمارے سرکار ﷺ غارِ حِرا میں جیسا کچھ سمجھ میں آتا خدا کی عبادت بھی کیا کرتے ،غرض اسی طرح بُہت دن بیت گئے اور آپﷺ کی عمر چالیس (۴۰) برس کی ہو گئی ۔
خدا کا پیغام
ایک دن سب دنوں کی طرح غارِ حِرا میں تھے کہ اچانک آپﷺ نے کچھ ڈراونی آوازیں سنیں ، اس کے بعد ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی پکار رہا ہے اور کہتا ہے ’پڑھ ‘ ۔آپﷺ بولے میں توپڑھا نہیں ہوں ۔تب کہا:
اِقْرَابِاسْمِ رَبِّکَ الَّذَیْ خَلَقَ۔ پڑھ اپنے رب کے نام سے پر (جس نے پیدا
خَلَقَ الْا نْسَانَ مِنْ عَلَقِِ۔اِقْرَا کیا ہے ‘اور جمے ہوئے خون سے آدمی کو بنایا جو
وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔اَلَّذِیْ عَلَّمَ بڑا ہی مہربان ہےُ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا ،
بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِ نْسَانَ مَا لَمْ ےَعْلَمْ۔ آدمی کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہ جانتا تھا(قرآن)
یہ اللہ تعالیٰ کا کلام خدا کا پیغام ہے جو پہلے پہل آ پ کو پہنچا اور حضرت جبرئیل نے خدا کے حکم سے آپ ﷺ کو پڑھ کر سنایا اور آپ ﷺ سے پڑھوایا۔حضرت جبرئیل ؑ ہمارے سرکار ﷺ سے پہلے نبیوں کوبھی اللہ میاں کا حکم لا کر سناتے تھے ۔
حضرت جبرئیل ؑ جب یہ پیغام سنا کر رخصت ہوئے اور آپ بے حد گھبرائے ہوئے گھر آئے ، خدیجہؓ بی بی کو سب حال سنایا ، آپﷺ بہت پریشان تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سخت لرزہ ہے ۔ حضرت خدیجہؓ نے بہت تسلّی دی اور کہا ،خدا آپ کا ساتھ دے گا کیونکہ آپﷺ عزیزوں اور رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرتے ہیں ،غریبوں کی مدد اور مہمانوں کی خاطر کرتے ہیں ، مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں اور اپنے پرائے کاغم کھاتے ہیں پھر وہ آپ کو ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور ان کو یہ سب ماجرا سنایا ۔ورقہ نے بھی بی بی صاحب کی بات کان لگاکے سنی اور چونکہ ان کو دین کی بہت تلاش تھی ،بولے کہ اگر ایسا ہے تو وہ فرشتہ جو اُن کے پاس آیا ہے، جبرئیل ؑ ہیں اور یہ نبی ہیں ۔
سب سے پہلے مسلمان
اسی دن سے حضرت خدیجہؓ مسلمان ہو گئیں اور بتوں یعنی پتھر کی بنی مورتوں کو پوجنا چھوڑدیا ۔عورتوں میں سب سے پہلی مسلمان بی بی آپ ہی ہیں ۔
لڑکوں میں ہمارے سرکار کے چچیرے بھائی حضرت علیؓ جو آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور آ پ بھی ان کو بے حد پیا ر کرتے تھے، سب سے پہلے ایمان لائے ۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ (یہ ہمارے سرکار ﷺ کے بہت ہی پیارے دوست اور پہلے خلیفہ تھے جنھوں نے حضرت کی وفات پر بھی دین اسلام کوخوب پھیلایا ۔ ان کاحال ہم نے کتاب ’’چار یار‘‘ میں لکھا ہے ۔)مکہ کے بڑے مال دار لوگوں میں تھے اور ہمارے سرکار ﷺ سے ان کی بہت دوستی تھ، انہوں نے جب یہ حال سنا تو بغیر کسی پس و پیش کے آپ پر ایمان لے آئے ۔مردوں میں یہ پہلے مسلمان ہیں ۔حضرت صدیقؓ کے دل میں ہمارے حضرت ﷺ کی بے حد عزت اور محبت تھی ۔بری بڑی مشکلوں میں آپ نے ہمارے سرکار ﷺ کا ساتھ دیا، اسی سے سرکار کے دربار سے آپ کو رفیق کا خطاب ملا۔
حضرت زیدؓ جن کا حال اوپر پڑ ھ آئے ہو، و ہ بھی انہی پہلے ایمان لانے والے مسلمانوں میں سے ہیں۔
حضر ت خدیجہؓ ‘،حضرت ابو بکرؓ ‘،حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ یہ چاروں صاحب حضرت ﷺ سے بہت قریب رہنے والے تھے ، اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ زیادہ سنگ ساتھ رہنے والے کو اُس آدمی کا سب اچّھا بُرا حال معلوم ہوتا ہے جس کے ساتھ اور جس کے قریب وہ رہتا ہے ۔بیوی سے زیادہ آدمی کا حال جاننے والااور کون ہوگا ۔ اس کے بعد قریبی عزیز ،بھائی، بھتیجے ہوتے ہیں ۔پھر خادم اور کام کاج کرنے والے ۔پھر یار دوست بھی حالات سے واقف ہوتے ہیں ۔تو یہ چاروں صاحب سب ایسے تھے ۔ہٹ دھرم نہ تھے ، دل میں انصاف رکھتے تھے۔ انہو ں نے دیکھا کہ جو دنیا کی کسی بات کے لئے جھوٹ نہ بولا، بھلا وہ خدا کے بارے میں کیسے جھوٹ بو لے گا ۔
حضرت صدیقؓ کا ایمان ایسا پکا اور مضبوط تھا کہ آپ چاہتے کہ خداکے بندے بھی اس سچائی کومانیں اور ہمارے سرکار ﷺ پر ایمان لائیں ۔اُن کی کوشش سے ایسے ایسے لوگ ایمان لائے اور مسلمان ہوئے جنھیں مسلمان تو مسلمان ساری دنیا مانتی اور قدر کرتی ہے ۔اُن میں حضرت عثمان ،حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن ، حضرت سعد ، حضرت طلحہ بڑے پائے کے گزرے ہیں ۔
ان کے علاوہ بے چارے کچھ غریب لوگ ہیں جن میں حضرت بلالؓ کا درجہ بہت بڑا ہے ۔
یہ بھی اصل میں حضرت زیدؓ کی طرح ایک عرب سردار کے غلام تھے۔ مسلمان ہوگئے تو اس ظالم سردار نے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں پہونچائیں ۔جلتی دھوپ میں تپتی پتھریلی زمین پر لٹاتا اور چھاتی پر بھاری بھاری پتھر رکھ دیتا‘ پھر کہتا کہ اسلام کو چھوڑو لیکن وہ اس تکلیف کی بے ہوشی میں بھی خدا ہی کانام لیتے اور کہتے اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے بھلا وہ کیسے اسلام جیسے سچّے دین کو چھوڑتے ۔ ان کے دل میں تو اس کی سچائی گھر کر چکی تھی۔ اللہ اور اللہ کے پیارے حضرت محمدرسول اللہ کی محبت بیٹھ چکی تھی۔ انھوں نے یہ سب مصیبتیں جھیلیں اور اپنے دین اسلام پر آخر دم تک قائم رہے ۔حضرت بلال نماز کے لئے اذان دیا کرتے ،ان کی اذان بہت مشہور ہے ، ہمارے سرکار ﷺ کو بہت پسند تھی اور حضور ﷺ کو ان سے بہت محبت تھی ۔
ان کے سوا اور بھی بہت لوگ مسلمان ہوئے جن میں ایک بزرگ ار قمؓ تھے۔ ان کے گھر پر سب مسلمان بھائی اکٹھے ہوتے اور جولوگ آتے انھیں ہمارے سرکار بتلاتے کہ اسلا م کیا ہے اور وہ کیسا اچھا اور سچا دین ہے ۔اس وقت تک چالیس(۴۰) بزرگ مسلمان ہو چکے تھے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ برابر مسلمانوں کی تعداد بڑھتی رہی ۔ان میں بہت سے تو ایسے بڑے بڑے ہیں جن کے ہاتھوں خدا کی مدد سے اسلام بہت پھیلا اور مضبوط ہوا ۔
حضر ت حمزہؓ نے بڑے جوش کے ساتھ اسلام قبول کیا اور کافروں سے پکار کر کہا کہ تم لوگ اپنے ظلم و زیادتی سے سچی بات کو جھوٹا نہیں کر سکتے ۔یہ ہمارے سرکار ﷺ کے چچا ہیں ۔
ایک صاحب اور ہیں جو عرب کے بہت بڑے سرداروں میں سے تھے ،یہ ہمارے سرکار ﷺ کے دوسرے خلیفہ تھے جن کا نام عمرؓ بن خطاب (ان کا حال ہم نے کتاب ’’چار یار ‘‘میں لکھا ہے ۔ان کے زمانے میں اسلامی سلطنت کی حد بہت بڑھ گئی اور اسلام بھی خوب پھلا پھولا۔)ہے ۔ ان کے مسلمان ہو جانے سے مسلمانوں کی ہمتیں اور بڑھیں ۔ ان کے مسلمان ہو نے کا عجیب ماجرا ہے ۔ان کی بہن فاطمہؓ مسلمان ہو چکی تھیں لیکن انھیں اس کی خبر ہی نہ تھی طبیعت کے بڑے سخت تھے اور مزاج میں غصّہ تھا ۔ایک دن یہ سوچ کر کہ ہمارے سرکار کو شہید (جو لوگ خدا کی راہ میں جان سے جاتے ہیں اسلام میں انہیں شہید کہتے ہیں جن کا درجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا ہے بلکہ وہ زندہ ہی سمجھے جاتے ہیں ۔وہ مرتے نہیں بلکہ صرف دنیا سے پر دہ کر جاتے ہیں ۔) کر دیں تلوار لی اور غصہ میں بھرے ہوئے گھر سے نکلے ۔ راستے میں ایک مسلمان صاحب مِل گئے ۔انھوں نے پوچھا تو بولے ،بس آج فیصلہ ہے ،ان مسلمان صاحب نے جوان کے تیور بہت بے ڈھب دیکھے، کہنے لگے ’’میاں !پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو، تمہاری بہن اور بہنو ئی مسلمان ہو چکے ہیں ، پہلے انھیں تو ٹھیک کر لو، محمّد کا قتل آسان نہیں ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ تن بد ن میں آگ لگ گئی اور اب سارا غصّہ ان دونوں پر ڈھل گیا ۔جھپٹے اور سیدھے ان کے گھر پہنچے ۔ اُس وقت وہ بیٹھی زور زور سے قرآن شریف پڑھ رہی تھیں ۔ اِن کے کان میں بھی آواز پہنچی ۔ کچھ ٹھٹکے لیکن پھر یکبار گی ان کے سر پر پہنچ گئے ۔حضرت سعیدؓ ان کے بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے تھے ،پہلے ان ہی کو دھر پکڑاور مارنا شروع کر دیا۔بہن حضرت فاطمہؓ بچانے لگیں تو انھیں ایسا جھٹکا دیا کہ ان بے چاری کے بہت چوٹ آئی اور وہ لہولہان ہو گئیں ۔آخر تھیں تو وہ بھی ان ہی کی بہن ،جل کے بولیں ہاں ہم مسلمان ہو چکے ہیں، تمہارا جو جی چاہے کرو ۔ہم ایسے سچے دین کو کبھی نہ چھوڑیں گے ۔اس بات کا حضرت عمرؓ کے دل پر بڑا اثر پڑااور کہنے لگے، اچّھا مجھے وہ تو دو جو تم پڑھ رہے تھے ،فاطمہؓ ڈرتی کانپتی (کہ کہیں پھاڑ نہ ڈالیں یا جلا نہ دیں ) قرآن مجید کے وہ اوراق لائیں جنھیں ان کے ڈر سے اس وقت چھپا دیاتھا۔ان سے کہا کہ بغیر نہائے تم ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔حضرت عمرؓ نے غُسل کیااور پڑھا تو دل پر ایسی کاری اور بھر پور چوٹ پڑی کہ بے اختیار رونے لگے ۔ہمارے سرکار کاٹھکانا پوچھااور سیدھے حضرت ارقمؓ کے گھر پہونچے ۔کسی نے دیکھاکہ عمرؓ تلوار لگائے تیزی سے لپکے چلے آرہے ہیں تو لوگ گھبرائے ،پر ہمارے سرکار ﷺ نے حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔دروازہ کھلا ،اندر پہونچے ،ہمارے سرکار کاسامنا ہوا۔حضورﷺ نے فرمایا ،عمرؓ کس نیت سے آئے ہو ،تو بڑے جوش سے بولے ،یارسول اللہ !میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہوں اور اسی جوش میں کلمہ پڑھا ۔یہ رنگ جو دیکھا تو مسلمان ایسے خوش ہوئے، ایسے خوش ہوئے کہ تکبیر یعنی اللہ اکبر کی آواز سے ساری بستی گونج اٹھی ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ۔مسلمان جو جسم اور جان کی زیادہ سے زیادہ تکلیفیں خوشی خوشی جھیلتے تھے مگر حالت یہ تھی کہ کافر انھیں اونچی آواز سے قرآن شریف بھی نہ پڑھنے دیتے تھے ۔
حضرت عبداللہ اسلام لائے تو انھوں نے کہا میں ہر گز نہیں مانوں گا ۔لوگوں نے سمجھایا بھی مگر یہ حرم شریف میں اور زور زور سے قرآن پڑھنے لگے۔ اب کیا تھا ، کافر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے اور مُنہ ہی مُنہ میں طمانچے لگانا شروع کر دےئے مگر ا ن کو جتنا پڑھنا تھا وہ پڑھ ہی کر دم لیا۔ واپس ہوئے تو سارامنہ ورم کر آیا اور تمام چہرے پر نشان پڑ گئے تھے۔
ان سب حضرات کااللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک (قرآن ) میں ذکر کیا ہے اور ان کو بہت بڑا درجہ بخشا ہے اور انھیں سَابِقُون الاولون (قرآن) کاخطاب دیا ہے یعنی سب سے پہلے خدا پر،اس کے رسول پر ایمان لانے والے ۔
کافروں کا ستانا
قریش کے جب بڑے بڑے سردار اور سمجھ دار لوگ حضرت پر ایمان لے آئے اور مسلمان ہو گئے تو انھیں فکر پڑی ۔اور ہمارے سرکار ﷺ کے ساتھی (مسلمان ) بھی چالیس سے اوپر ہو چکے تھے اور پہلے کی طرح اب مسلمان اور خود حضرت ،خدا کی عباٍدت چھپ چھپ کر نہیں بلکہ سب کے سامنے کرتے اور خاص کعبہ میں جا جا کے نماز پڑھا کرتے ، خداکے دشمن ناسمجھ کافر آپ کی ہنسی اڑاتے اور تکلیفیں پہنچاتے ۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپﷺ سجدہ میں تھے۔ کسی نے بہت خراب سی اور گندی ایک بدبودار چیز آپﷺ کے سر پر رکھ دی ۔اس سے ہمارے حضرت کو بہت دُکھ ہوا ، کیونکہ آپ ﷺ کی طبیعت بہت ہی صفائی پسند تھی اور آپ گندگی کو بیحد نا پسند فرماتے اور نفرت کرتے تھے ۔(آپ کی عادتوں کے بیان میں اس کاذکر کھو ل کر کیا جائے گا۔)لیکن آپﷺ کو تو اپنا وہ سب سے بڑا کام کرنا تھا جس کے لیے اللہ نے آپ ﷺ کو مقرر فرمایا تھا۔ آپ ﷺ نے صبر فرمایا اور چُپ ہو رہے ۔
آپﷺ صبح اندھیرے ہی جاگ جاتے اور نماز پڑھنے کعبہ جایا کرتے تو بے رحم کافر راہ میں کانٹے بچھا دیتے جس سے اپنے پیارے نبی اور خدا کے سچے رسول کے پیر زخمی ہو جاتے ۔ کبھی آپﷺ کے اوپر کچرا ،مٹی پھینک دیتے ۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے ۔کسی ظالم بدبخت نے آپﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر اتنی زور سے کھینچی کہ آپ ﷺ کا دم گھٹنے لگا لیکن اتنے میں حضرت ابو بکرؓ صدیق پہنچ گئے ،چھٹا لیااور اُن لوگوں کوبہت ڈانٹا کہ تم صرف اس لیے ستاتے ہو کہ خدا کاایک سچا بندہ اپنے رب ، اپنے مالک کو یاد کرتا ہے اور اینٹ ،پتھروں کی پوجا کے بجائے صرف خدا کی عبادت کرتا ہے اور اُسی کانام لیتا ہے ،جواکیلا ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں ہے ۔
وہ غریب و مسکین لوگ اور غلام جو مسلمان ہو چکے تھے سب سے زیادہ ستائے جاتے اور ان بیچاروں پر سب سے زیادہ ظلم ہوتے ۔
لڑکو !یہاں ہم اُن ہی غریبوں اور مظلوموں کا کچھ حال لکھتے ہیں ، جنھوں نے انتہائی مصیبتیں جھیلیں پر اپنے سچے دین اسلام اور اپنے پیارے سرکارﷺ کو مرتے دم تک نہ چھوڑا ۔
عمّار :ملک یمن کے رہنے والے تھے ۔ یہ جب مسلمان ہوئے ہیں تو صرف تین آدمی ایمان لائے تھے۔ قریش ان غریب کو جلتی زمین پرلٹاتے اور اتنا مارتے کہ بے ہوش ہو جاتے ۔
سمیّہ :حضرت عمّار کی والدہ تھیں جنھیں ابو لہب نے اسلام لانے کی سزا میں برچھی مار کر شہید کر دیا۔
یاسر :حضرت عمار کے والد تھے ، یہ بھی کافروں کی تکلیفیں اُٹھاتے اٹھاتے شہید ہو گئے ۔
ابو فکیہہ:حضرت بلالؓ کے ساتھ ایمان لائے تھے ، ان کے آقا کو معلوم ہوا تو پاؤ ں میں رسّی بند ھوا حکم دیا کہ گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ریت پر لٹائیں ۔ راہ میں ایک گبریلا نظر آیا ۔ آقا نے پوچھا یہی تو تیرا خدا نہیں ؟ جواب دیا’’میرا اور تیرا دونوں کاخدا اللہ تعالیٰ ہے ‘‘ اس پر اس نے جل کر اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگ سمجھے دم نکل گیا۔ ایک دفعہ سینہ پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیا کہ بے چاروں کی زبان نکل پڑی ۔
لُبنیتہ -یہ حضرت عُمرؓ کی لونڈی تھیں ، جنھیں وہ مارتے مارتے تھک جاتے اور کہتے ’’میں نے تجھ کو رحم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ میں تھک گیا ہوں، چھوڑ دیا‘‘ وہ بڑی مضبوطی سے جواب دیتیں کہ اگر تم اسلام نہ لائے تو خدا اس کا بدلہ لے گا۔
حضرت بلالؓ :حضرت بلالؓ کی مصیبتوں اور اُن پر جو ستم توڑے گئے اُس کاحال پیچھے پڑھ ہی چکے ہو ۔
اسی طرح بہت سے غریب تھے جنھیں طرح طرح ستایا جاتا ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اسلامی خدمات اور بزرگوں میں پہلی بات یہی ہے کہ انھوں نے ان مصیبت زدوں کو بھاری بھاری داموں پر خرید فرما کر آزاد کیااور اس طرح اُن کی جانیں بچیں ۔ اوپر لکھے ہوؤں کے علاوہ دوسروں کے نام یہ ہیں ۔
حضرت فہیرہ ، زنیرہ ، نہدےۃ ، ام عبیس وغیرہ
خدا کی راہ میں پکے اور پورے مضبوط اور ثابت قدم رہنے کی آزمائشوں میں بڑے بڑے امیر اور سردار بھی پڑے جو کہ مسلمان ہو گئے تھے ۔ حضرت عثمانؓ کے چچا نے انھیں رسّی سے باندھ کر بہت پیٹا ، حضرت عمرؓ نے اپنی بہن کی جوگت بنائی ا وراُ ن بیچاری کو لہو لہان کر دیا اُس کا ذکر بھی پیچھے ہو چکا ہے ۔ حضرت زبیرؓ کو چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں پہنچایا گیا، غرض ہر قسم کا زور وظلم اُٹھ نہ رہا جوان خدا کے پاک بندوں پر نہ کیا گیا۔ خود اپنے پیارے سرکار ہی نہ بچّے اور کس طرح بچتے کہ آپﷺ ہی ان سب باتوں کے سبب تھے۔ پر وہ خدا کے سچے بندے اور اُس کے سچے رسول۔ ہمارے سرکار کے دیوانے اپنی جگہ سے ایک انچ نہ کھسکے اور اپنے سچے دین اسلام پر ان مصیبتوں میں پڑنے پر بھی قائم رہے ۔
کافروں کا دنیا کی لالچ دینا
آخر کار کافر جب تھک گئے اور اُن کی منشاء کسی طرح پوری نہ ہوئی ، اور خدا کے نام پر جان دینے کو تیار رہنے والے خدا کے پیارے اپنے دین پر جمے رہے تو انھیں دنیا کی لالچ دی گئی ، ایک دن کافروں کا بہت بڑا سردار عتبہ نامی ہمارے سرکار ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس پہنچا اور آپ ﷺ سے بڑی خوشامد اور نرمی سے بولا کہ میرے بھائی کے بیٹے !اگر تم مال و دولت جمع کرنا چاہتے ہوتو ہم تمھارے لئے بے شمارروپیہ اکٹھا کر دیں ، اگر عزت چاہتے ہو کہ لوگ تمھیں بڑا مانیں تو ہم تمھیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں ، اگر کہو تو ہم تم کو اپنا بادشاہ بنالیں ۔
جب وہ کہہ چکا تو اپنے حضرت ﷺ نے فرمایا مجھے ان میں سے ایک چیز بھی درکار نہیں ۔آپ جائیں اور لوگوں سے پکار کر کہہ دیں کہ بس اُسی ایک خدا کو مانیں جس نے ہمیں تمھیں سب کو پیدا کیا ہے اور اُسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ۔
ملک حبش کو ہجرت
(ہجرت اپنے وطن سے بے وطن ہونے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پردیس سدھارنے کو کہتے ہیں ۔)
ویسے تو ہمارے سرکار پر یہ کچھ ظلم ہو رہے تھے ، آپ کی جان تک خطرہ میں تھی پر آپﷺ کسی وقت نہ گھبراتے تھے، اکیلے گھومتے اور راتوں میں اپنی دھن میں پھرا کرتے ۔دن بدن زیادہ ہمت سے اپنا کام کرتے ، جو خدا نے آپﷺ کے سپرد کیا تھا۔ آپﷺ اکیلے بھی اتنے دشمنوں میں رہتے ہوئے نہ ڈرتے ، پر آپﷺ کا دل اپنے مسلمان ساتھیوں کی تکلیفوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا تھا۔ آپﷺ کو اُن کی مصیبتوں سے چھٹکارے کی بڑی فکر تھی۔ اُن بے رحموں کا زور و ظلم جب بہت ہی کچھ بڑھنے لگا تو آپﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم لوگ حبش چلے جاؤ وہاں کا بادشاہ عیسائی ہے لیکن رحم دل اور منصف ہے۔ وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ۔ سب لوگ آرام و سکھ سے رہتے ہیں ۔ اُس زمانے میں حبش کے بادشاہ کانام نجاشی تھا۔ غرض آ پ کے گیارہ ساتھیوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے گھر بار سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھوے ۔ کافروں کوخبر لگی تو بدبختوں نے ان بے گناہوں کاحبش تک پیچھا کیا اور نجاشی کے دربار میں اپنے بڑے بڑے آدمیوں کو بھیجا جو بڑی قیمتی اور بڑھیا بڑھیا چیزیں اپنے ساتھ لے کر گئے کہ نجاشی کو پیش کریں گے ۔ پہونچتے ہی پہلے تو سب درباریوں کو ملایا اور پادریوں کو بھڑکایا۔ پھر خود نجاشی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ وہ سب چیزیں سامنے رکھیں جو ساتھ لائے تھے اور کہا یہ لوگ ہمارے باغی ہیں۔ ان کو ہمارے حوالے کیجئے ۔یہ ہمارے خداؤں کوبُرا کہتے ہیں ۔ نجاشی کو بھڑکانے کے لیے کہنے لگے کہ انھوں نے ایک نیا دین نکالا ہے جو عیسائی مت کے بھی خلاف ہے ۔ نجاشی نے مسلمانوں کو بلوا کر پوچھا۔ حضرت جعفرؓ ہمارے سرکار ﷺ کے چچیرے بھائی جو مسلمان ہو چکے تھے ،بولے کہ اے بادشاہ ! ہم لوگ پہلے اُجڈ گنوار تھے ، پتھر کی بنی مورتوں کو خدا مانتے اور اُن کی پوجا کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، جُوا کھیلتے اور شراب پیتے تھے ‘ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہے مار ڈالتے تھے، کُنبہ والوں پر زیادتی کرتے اور پڑوسیوں کو ستاتے تھے۔ اور بھی بہت سی گندی اور بے حیائی کی باتوں میں گرفتار تھے کہ اتنے میں ہماری قوم میں خدا کے ایک نبی پیدا ہوئے جن کا نام محمدﷺ ہے ، وہ بڑے ہی نیک انسان ہیں اور لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلاتے ہیں ۔ہم انھیں اپنا سردار اور خدا کا پیغمبر مانتے ہیں اور اُن کے بتلانے پر اُس ایک خدا کی پوجا کرتے ہیں جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے اور ہمارا تمہارا سب کا پالن ہا رہے ۔ یہ لوگ اس بات سے ناراض ہیں ۔ ہمیں طرح طرح کی تکلیفیں دیتے ہیں ۔ اب ہم نے اپنا دیس بھی چھوڑ دیا پر یہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے ۔ نجاشی پر حضرت جعفرؓ کی ان باتوں کا بڑا اثر ہوا اور قریش کے سرداروں کی وہ سب چیزیں واپس کر کے انھیں رخصت کر دیا۔ مسلمانوں کو پناہ دی اور اُن کے ساتھ بہت اچھاسُلوک کیا۔
مسلمانوں نے بھی اُس کے احسان کا بدلہ کیا اور جب جب اُس پر دوسرے بادشاہوں نے چڑھائی کی تو و ہ بھی اُسکی طرف سے لڑتے ، اور نماز وں میں دعائیں بھی کرتے تھے ۔
پیارے بچو! تم نے دیکھا ؟ مسلمان ،سچے مسلمان اپنے مہربانوں اور محسنوں سے کیا سلوک کرتے تھے ، کیونکہ خدا نے اپنے پیغمبر ہمارے سرکار ﷺ کے ذریعے ہمیں یہ حکم بھی دیا کہ احسان کا بدلہ احسان ہے ۔(قرآن شریف خدا کے کلام کی آیت ہے جس کے اصل عربی الفاظ یہ ہیں : ھَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّاالْاِحْسَان )
طائف کا سفر
مکہ سے کچھ دور ایک اور شہر طائف ہے۔ ہمارے سرکار ﷺ کو جب کافروں نے بہت ہی کچھ ستانا شروع کیاتو آپ نے کچھ دنوں کے لیے مکہ سے ہٹ جانا چاہا اور طائف چلے گئے ، پر وہاں کے سرداروں کو اپنے مال و دولت کا بڑا گھمنڈ تھا اور انھیں اپنے عیش و آرام ہی سے چھُٹی نہ تھی ، انھوں نے نہ تو خدا کا کلام سُنا اور نہ ہمارے سرکار ہی کی کچھ قدر جانی۔ اُلٹے یہ کیا کہ شریر لڑکوں ، کم سمجھ اوربے وقوف غلاموں سے آپ کوگالیاں دلائیں۔ ڈھیلے، پتھر برسوائے اور شہر سے نکلوادیا۔ دیکھو پیارے بچو! ہمارے سرکارﷺ نے صرف دنیا کی بھلائی اور خدا کی مخلوق کو نیک راہ پر لانے کے لیے کیسے کیسے دُکھ اُٹھائے اور کیا کیا تکلیفیں سہیں لیکن پھر بھی آپ ﷺ ڈٹے رہے ، اور ہمت نہ ہاری ، کیونکہ آدمی کو خدا کی طرف سے کبھی نااُمید نہ ہونا چاہیے، خدا ہمت توڑ دینے اور ناامید ہو جانے والوں سے خوش نہیں رہتااور ہمت سے کام کرنے والے کی وہ مدد کرتا ہے ۔ اپنے حضرت ﷺبھوکے پیاسے تھکے ماندے لہولہان ایک کھجور کے نیچے سُستانے لگے اور نماز پڑھ کر خدا سے گڑگڑا ئے کہ مولیٰ تیری خوشی درکار ہے، تو راضی ہے تو کسی بات کاغم نہیں اور تیری راہ میں ہر تکلیف آرام ہے ۔اپنی طرف سے تیرے بندوں کوتیرا پیام پہنچانے میں کوتاہی نہ کروں گا ،پر تیری مدد بغیر کچھ نہ بنے گا۔
مجبور ہو کر آپﷺ پھر مکّہ لوٹ آئے اور اب مسافروں ،راہ گیروں کوخدا کاکلام سناتے اور نیک کاموں کی ہدایت فرماتے ۔ ایک دفعہ مدینہ کے کچھ لوگ مکّہ آئے ہوئے تھے ،آپﷺ کومل گئے جو قرآن پاک (خدا کا کلام ) سُن کر آپﷺ پر ایمان لے آئے اور مسلمان ہو گئے ۔
صفا پہاڑ پر حق کی پکار
بہت دنوں تک اپنے حضرت ﷺ چپکے چپکے لوگوں کوخدا کا پیغام پہنچاتے رہے اور نیک کاموں کی تعلیم دیتے رہے ، کیونکہ کافر آپ کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں ڈالتے تھے ، یہاں تک کہ جب آپﷺ کعبہ میں نماز پڑھتے۔ آپ ﷺ کو طرح طرح پریشان کرتے اور ہنسی آڑاتے ، اسی لیے آپﷺ حضرت ارقمؓ کے گھر نماز پڑھا کرتے ، خدا کانام لیتے اور جولوگ آتے ،انھیں خدا کی سچی راہ بتاتے۔ تمہیں یاد ہوگایہیں حضرت عمر آکر ایمان لائے اور اُن کا کفر حضرت ارقمؓ کے مکان پر ٹوٹا تھا۔ پر اب خدا نے ایک نیا حکم بھیجا کہ
فَاصْدَعْ بِمَا تُو مَرُ(قرآن):جن باتوں کاحکم دیا جاتا ہے اُن کو کھول کر بیان کرو ۔
اَنْذِرْ عَشِےْرَتَکَ الْاَقْرَبِین :اپنے رشتہ داروں (اقرباکنبہ والوں) کو (خدا کے غضب سے ) ڈراؤ۔
اب ہمارے سرکار ﷺ نے ایک دن صفا پہاڑ پر لوگوں کو خاص کر اپنے گھر والوں کو پکارنا شروع کیا ، جب لوگ اکٹھا ہو گئے تو آپ ﷺ نے اُن سے پوچھا کہ تم لوگ مجھے صادق(سچا) سمجھتے ہو یا کاذب (جھوٹا) جانتے ہو؟ سب نے ایک زبان ہو کر اور پکار کر کہا کہ اب تک ہم نے تمھیں ہر بات میں سچا ہی پایااور آج تک ہم نے تمھاری کوئی بات جھوٹی نہ خود پائی اور نہ سُنی ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا اگر ایسا ہے تو پھر میں جوکچھ کہوں اس کا یقین کرواور وہ یہ ہے کہ ایک دن ہم سب کو اُس خدا کے سامنے جانا ہے ، جہاں نہ بُت (پتھر کی مورتیں ) کسی کے کام آئیں گے نہ کسی اور کی مدد سے کام چلے گا، بلکہ جو جیسا کرے گا ویسا ہی اُس کا پھل پائے گا۔ اس لیے بس اُسی اللہ کی عبادت کرو جو سب کا مالک ہے اور جس نے سب کو پیدا کیا ہے ۔ اُس کے غصّے سے ڈرو اور جن بُرے بُرے کاموں میں پھنسے ہو انھیں چھوڑدواور اُس کی خوشی کے کام کرو اور اُس کے سوا کسی کو اپنا معبود نہ ٹھیراؤ کیونکہ وہی عبادت کاحق رکھتا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ۔
ہمارے سرکار ﷺ کے اس وعظ سے ابو لہب ( سرکار کے چچا کا نام جو آخر وقت تک آپ کو برابر ستاتا رہا ، بڑا ہی جاہل تھا ۔)بہت بگڑا اور شور مچانے لگا،بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ اٹھا کر چل دیا اور کہنے لگا (توبہ توبہ ) محمدﷺ دیوانہ ہوگیا ہے ، مگر جو لوگ اچھے تھے ، اُنھوں نے آپ کی بات ٹھنڈے دل سے سُنی اور ایمان لائے ۔اسی موقع پر حضرت علیؓ بھی مسلمان ہوئے تھے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ۔
کافروں کی دوسری شرارتیں
ابو لہب نے اب آپ کو اور ستانا شروع کیا، اُس کی بیوی آپ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی جس سے آپﷺ کے پیر سب لہولہان ہو جاتے اور بڑی ہی تکلیف پہنچتی ، پر آپﷺ کچھ نہ گھبراتے اور برابر لوگوں کو خدا کاپیغام پہنچاتے اور اُس کاکلام سُناتے ، خدا کے نیک بندے آپ ﷺ کی بات دھیان سے سُنتے اور ایما ن لاتے ، آہستہ آہستہ مسلمان بڑھتے گئے اور کافروں کی ترکیبیں بے کار ہوتی رہیں ۔ اس بات سے کافروں کو اور فکر پڑی کہ آپﷺ کے ساتھی تو برابر بڑھے چلے جاتے ہیں ۔
آخر ہمارے سرکار ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس لوگ پھر گئے اور کہا کہ یا تو آپ محمدﷺ کو سمجھائیں اور انھیں روک دیں نہیں تو ہم اُنھیں قتل کر دیں گے۔ ابو طالب نے کافروں کو تو سمجھا بجھا کر ٹال دیا پر انھیں اب ہمارے سرکار ﷺ کی طرف سے بڑی فکر پڑ گئی کیونکہ و ہ آپﷺ سے محبت کرتے تھے ۔ ابو طالب نے اپنے حضرت کو بلا کر باتیں کیں اور کہا کہ اچھے پوتے ! تم ان باتوں کو چھوڑدو ہمارے سرکار ﷺ نے دیکھا کہ اب یہ میرے مدد کرنا نہیں چاہتے ہیں تو آپ ﷺ نے بڑے حوصلہ اور ہمت کے ساتھ جواب دیا کہ چاہے ادھر کی دنیااُدھر ہو جائے پر جب تک میرے دم میں دم ہے میں یہ کام نہ چھوڑوں گا جوخدا نے میرے سپرد کیا ہے ، آپ نے یہ باتیں کچھ ایسے جوش اور درد بھرے دل سے کہیں کہ آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے ۔
ابو طالب پر اپنے حضرت ﷺ کی ان باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بولے بیٹا! تم خوشی سے جو چاہو کرو میں تمہارا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ اب آپﷺ خوب زور شور سے وعظ فرماتے اور جولوگ باہر سے مکّہ میں آتے، آپ ﷺ اُن کے پاس جا جا کر خدا کا پیغام پہنچاتے اور نیک کاموں کی ہدایت کرتے ۔ کافر اور خاص کر ابو لہب تو یہ کرتا کہ اُن مسافروں کے پاس پہنچتا اورا نھیں بھڑکاتا کہ ہم میں محمد ﷺنامی ایک آدمی پیدا ہوا ہے جو ہمارے دین اور ہمارے بتوں کو بُرا کہتا ہے لیکن اُس کی ان باتوں سے لوگوں کے دل میں ہمارے سرکارﷺ سے ملنے کااور شوق پیدا ہوتا اور جب وہ ملتے تو سچے دل سے مسلمان ہو جاتے ۔ آپ پر ایمان لاتے اور آ پﷺ کو خدا کا بھیجا ہوا سچّا پیغمبر ماننے لگتے ۔
کافروں کا ہمارے سرکارکو قید کر دینا
قریش یعنی کافروں نے جب دیکھا آپ ﷺ کسی طرح اپنے کام سے نہیں چوکتے ہیں اور کوئی تدبیر کام نہیں آتی تو آپس میں یہ طے کیا کہ بنی ہاشم یعنی ہمارے حضرت کے گھرانے والے جب تک محمدﷺ کو ہمارے حوالے نہ کر دیں ہم اُن سے ملنا جلنا سب چھوڑدیں، نہ اُن کے ہاتھ ضرورت کی کوئی چیز بیچیں اور نہ اُن سے کوئی چیز مول لیں، نہ اپنی لڑکی اُنھیں دیں نہ اُن کی اپنے ہاں لائیں، غرض غم و شادی سب بند کر دی جائے ۔ یہ فیصلہ ہو کر اور کاغذ پر لکھ کر کعبہ میں لٹکا دیا گیا جس کی پابندی ہر کسی پر لازم تھی۔ اب تنگ آکر سوائے ابو لہب کے جو قریش سے ملا ہوا تھا باقی سارے بنی ہاشم اور بے بس مسلمان اور خود ہمارے سرکار ﷺمکّہ سے باہر ایک پہاڑی میں چلے گئے جس کانام بعد میں شعب ابی طالب پڑ گیا ، ان بے گناہوں نے صرف خدا کانام لینے اور اُس کے دین کے پرچار میں تین برس تک برابر بے حد مصیبتیں اٹھائیں ۔ کافروں نے بالکل بندی کر دی کہ کوئی انھیں کھانے پینے کی چیز نہ دے ، یہ بیچارے پیڑوں کی پتیاں کھا کر گزارا کرتے ، پانی نہ ملتا، بڑے آدمی تو جیسے تیسے کاٹتے پر چھوٹے چھوٹے بچّے پانی کی پیاس سے تڑپتے اور ظالموں کو ذرا رحم نہ آتا ۔ یہ کچھ ستم ہو رہے تھے پر سچے مسلمانوں نے اپنے سچے دین سے ہٹنے کانام نہ لیااور اپنے پیارے نبی ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا۔
آخر کچھ نیک طبیعت اور رحم دل لوگوں نے بنی ہاشم کی ان مصیبتوں پر ترس کھایااور ابو جہل (ابو لہب چونکہ بڑا کٹر کافر تھا اور بے حد جاہل اس لیے اُسے ابو جہل بھی کہتے ہیں )کے خلاف ہونے پر بھی اُس کاغذ کو پھاڑ ڈالا۔ اس کے بعد بنی ہاشم اور ہمارے سرکار ﷺ پھر مکّہ میں لوٹ آئے ۔
ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات
ان ہی دنوں میں آپ ﷺ کے مہربان چچا ابو طالب کا انتقال ہو گیا جو ہر آڑے وقت میں آپﷺ کے ساتھ رہے اور آپ ﷺ کی مدد کرتے رہے ، ان کے بعد ہی حضرت خدیجہؓ بی بی بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں ، اور اب دشمنوں کے حوصلے اور بڑھ گئے ،ہمارے حضرت ﷺ کو اور ستانا شروع کیا۔
معراج
ہمارے حضرت پر جیسی جیسی مصیبتیں پڑتی رہیں ،بڑی ہی ہمت سے اُنھیں جھیلتے رہے ، خدا کا شکر کرتے اور صبر سے کام لیتے ، اللہ میاں کے حکموں کو اُ س کے بندوں میں پھیلاتے ،اس سے اللہ میاں آپ سے اور بھی راضی و خوش ہوتے جاتے ، انھیں سخت مصیبتوں کے دنوں میں اللہ نے آپ ﷺ کو بہت ہی بڑا درجہ دیا جو کسی نبی کو نہیں ملا۔
ایک عجیب بات ہوئی جسے معراج کہتے ہیں ۔ آپ ایک دن رات کولیٹے ہوئے تھے کہ حضرت جبرئیل ؑ فرشتہ ،خدا کے بھیجے ہوئے آپ کے پاس آئے اور کہا کہ خدا نے آپ کو اپنے پاس بلایا ہے ۔
جبرئیل ؑ پہلے آپ کو بیت المقدس لے گئے جہاں ہمارے سرکار ﷺ نے نماز پڑھی ، پھر آسما ن پر پہنچادیا ، وہاں آپ کی پچھلے سب نبیوں سے ملاقات ہوئی ۔ پھرخدا نے خاص اپنے پاس عرش پر بلایا ، آپ سے باتیں کیں اور آپ کو بہت ہی بڑا ، سب سے بڑا درجہ عطا فرمایااور یہ حکم دیا کہ اپنی اُمت کو پانچ وقت کی نماز کی بہت تاکید کرنا کہ فجر ،ظہر، عصر، مغرب او رعشا ء کی نماز کبھی ناغہ نہ ہو ۔ ا س سے ہم بہت خوش ہوں گے اور انھیں بڑا درجہ دیں گے ۔ ہمارے حضرت ﷺ نے آسمانوں کی عجیب عجیب چیزوں اور خدا کی قدرت کے تماشے دیکھنے۔ فرشتوں نے آپ کو مبارک باد دی ۔
پھر ہمارے سرکار ﷺ کو حضرت جبرئیل ؑ نے اُسی رات اُسی جگہ پہنچا دیا جہاں سے لے گئے تھے ۔ صبح ہوئی توحضرت نے اپنی اُمت کو یہ سارا حال سنایا۔ سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بغیر کچھ بھی شک و شبہ کے فرما یا کہ یا رسو ل اللہ ﷺآپ سچ فرماتے ہیں ۔ اسی دن سے ہمارے سرکار نے حضرت ابو بکر کوصدیقؓ (صدیق معنی نہایت سچا نبیوں پر سب سے پہلے ایمان لانے والااور اپنی ساری زندگی سچائی کے ساتھ گزارنے والا) کاخطاب دیا۔ اور مسلمان بھی اس بات پر ایمان لائے لیکن ناسمجھ کافروں نے آپ کی خوب ہنسی اڑائی ۔
پیارے بچو ! معراج میں اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب ﷺ کا درجہ بڑھانا تھا اور بندوں کو یہ بتلانا منظور تھا کہ جو اُس کے حکم مانتا ہے اور اس کی مرضی پر چلتا ہے ، پھر دنیا میں چاہے جتنی مصیبتیں پڑیں وہ جھیل جائے اور ہمت نہ ہارے تو اُسے خدا کامیاب فرماتا ہے اور بڑائی دیتا ہے ۔
رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات (اقبال)
ہجرت
جیسا کہ پیچھے پڑھ آئے ہو مدینہ کے کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے، وہ جب اپنے گھر گئے تو اور لوگوں سے آپ ﷺ کا ذکر کیا، یوں وہاں آپ ﷺ کاخوب چرچا ہونے لگا اور بہت سے لوگ آپﷺ کے پاس آکر مسلمان ہوتے رہے ۔
مدینہ والوں کو ہمارے سرکار ﷺ سے بہت محبت ہو گئی اور وہ جب دیکھتے کہ کافر آپ ﷺ کو بہت ستاتے ہیں تو انھیں بڑا دُکھ ہوتا ۔ آخر انھوں نے حضرت سے درخواست کی کہ سرکار ﷺ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ تشریف لے چلیں ۔ وہاں آپ پر کوئی حملہ کرے گا تو ہم لڑیں گے ۔
ادھر کافروں نے اب یہ صلاح کی کہ(توبہ توبہ ) آپ ﷺ کو جان سے مار ڈالیں تاکہ یہ سارا جھگڑا ختم ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس ارادے کی خبر آپ کو دیدی ، آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا مجھے ہجرت کاحکم مل چکا ہے لیکن جن لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں انھیں واپس کرنے کے لیے تم ٹھیرو ، بعد میں آجانا ۔ پھر حضورﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے رائے لی ، انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا اور یہ درخواست کی کہ میں سرکار ﷺ کے ساتھ ہی چلوں گا ۔ ہمارے سرکار ﷺ نے اور مسلمانوں کوتو پہلے روانہ کر دیا ۔ اور ایک دن اسی رات جب کافر چاروں طرف سے گھر گھیرے ہوئے تھے ہمارے سرکار اپنی جگہ حضرت علیؓ کو لٹا اور دشمنوں کو غافل پا کر بڑی صفائی سے نکل آئے ۔کافر ہوشیار ہوئے اور انھوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نہیں ہیں بلکہ حضرت علیؓ ہیں ۔ہم اندھے ہو گئے اور ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر محمدﷺ نکل گئے ۔ تو بہت کُڑھے اور غصّے میں یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ جو کوئی (توبہ توبہ) محمدکو پکڑ لائے گا اُسے بہت بڑا انعام ملے گا ، بعض بدبختوں نے پیچھا کیا ،کچھ تو اُس غار تک بھی پہنچ گئے جو ایک پہاڑی میں تھااور جہاں ہمارے سرکار حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لیکر چھپ گئے تھے ، وہ بالکل غار کے منھ تک پہنچ گئے توحضرت ابو بکرؓ کچھ گھبرائے ،پر اپنے سرکار ﷺ نے فرمایا غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے ۔
یہاں ذرا خدا کی رحمت اور اُس کی قدرت کا تماشہ دیکھو عجیب بات ہوئی کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا پور دیااوپر سے جنگلی کبوتر نے انڈے دے دیے ، کافروں نے خیا ل کیا کہ بھلا یہاں کون ہوگا ، یہ کہتے ہوئے آگے چل دیے ۔
غار میں حضرت صدیقؓ کو سانپ کا کاٹنا
ہمارے پیارے سرکار جن پر ہماری جانیں نثار ، اُس غار میں تین دن رہے ایک دن کیا ہوا کہ آپﷺ کچھ تھکے تھے، آرام کرنے کوحضرت صدیقؓ کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ گئے، حضرت صدیقؓ نے دیکھا کہ غار میں ایک سوراخ ہے ،سوچا کہ نہ معلوم کس جانور کا ہو، احتیاطاً سوراخ کو پیر کے انگوٹھے سے بند کیے رہے ۔ لیکن سچ مچ وہ سانپ ہی کا بل تھا وہ نکلنا چاہتا تھااور مُنہ بند پا کر انگوٹھے کوکاٹنے لگتا ، خوب کاٹااور حضرت صدیقؓ کے سارے بدن میں سانپ کا زہر دوڑنے لگا ، پر وہ اپنے پیارے نبی ﷺ کی محبت میں نام کو ہلے بھی نہیں کہ کہیں حضرت ﷺ کی آنکھ نہ کھل جائے ، لیکن زہر کے اثر اور سخت تکلیف سے حضرت ابو بکرؓ کے چہرے سے جب پسینہ گرنے لگاآپ ﷺ جاگ گئے تو پوچھااور اپنا تھوک لگا دیا فوراً زہر اُتر گیااور حضرت صدیقؓ بالکل اچھے ہو گئے ۔
تیسرے دن آپ اورحضرت صدیقؓ غار سے نکلے،ایک دشمن نے دیکھ پایا اور پیچھے گھوڑا ڈال دیا، لیکن خدا نے بچایا ، گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا اور سوار منہ کے بل زمین پر آرہا ، ہمارے رحم دل سرکارﷺ نے اُس پر رحم کھایا ،اُس کا قصور معاف فرما دیااور دعا دی جس کا اثر یہ ہوا کہ اسی نے اس وقت توبہ کی اور مسلمان ہو گیا۔
قبا کی مسجد
قُبا مدینہ سے کچھ ہی دور ایک چھوٹا سا مقام ہے جہاں ہمارے سرکار ﷺ مکہ سے رخصت ہو کر اور مدینہ پہونچنے سے پہلے چودہ دن ٹھیرے اور وہاں ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جو آج بھی مسجد قبا کے نام سے موجود ہے ۔
مدینہ میں
مدینہ والوں کوحضرت کے مکّہ سے چل دینے کی خبر لگ گئی تھی اس لیے آپ کے شیدائی اور فدائی بڑی بیتابی سے راہ دیکھ رہے تھے اور روز کچھ کچھ لوگ شہر سے باہر دُور تک دیکھ دیکھ آتے ، عورتیں اور بچے چھتوں پر چڑھ جاتے اور اپنے پیارے سرکارﷺ کے انتظار اور آمدآمد کی خوشی میں گیت گاتے ، آخر وہ مبارک دن آہی گیا۔
ربیع الال کی بارہ تاریخ تھی کہ حضرت مدینہ میں داخل ہوئے ۔آپﷺ اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت صدیقؓ آپ کے ساتھ ساتھ دوسری اونٹنی پر تھے ۔ ہر کوئی یہ چاہتاتھا کہ سرکار ﷺ اُس کے گھر اُتریں اور اُسی کے مہمان ہوں۔ ایک صاحب نے تومحبت کے جوش میں اونٹنی کی نکیل تھام اپنے گھر کا رخ کر دیا، لیکن سرکار ﷺ نے فرمایااسے چھوڑ دوخدا نے حکم دے دیا ہے جس جگہ خدا ہی کی مرضی ہو گی وہیں ٹھیر جائے گی ۔ چلتے چلتے اونٹنی اُس جگہ ٹھیری جہاں مدینہ کی اُس مشہور مسجد کا دروازہ ہے جو مسجد نبوی کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے ۔ چونکہ اُسی جگہ سے ملا ہوا حضرت ابو ایوب کا مکان تھا، اس لیے یہ نعمت انھیں کو نصیب ہوئی ۔وہ اپنے سرکار ﷺ کو مکان لے گئے اور آدھا مکان سرکارﷺ کو نذر کر دیا۔
مسجدنبوی
وہ جگہ جہاں اونٹنی ٹکی تھی بہت خراب، خستہ اور ویران تھی جس کے مالک دو یتیم تھے ،انھوں نے چاہا کہ قیمت نہ لیں پر آپ نے اُس کے دام ادا ہی کیے اور مسجد کی بنیاد پڑ ی اور بننی شروع ہو گئی ، جس کے لیے خاص طور پر نہ معمار بلائے گئے اور نہ مزدور بلکہ ہمارے سرکار ﷺ ہی اپنے پا ک ہاتھوں سے سب کام کرتے اور آپ کے صحابہ (صحابہ ، اصل میں صاحب کی جمع ہے ، سرکار کے مسلمان ساتھیوں کو کہتے ہیں، اصحاب بھی کہلاتے ہیں۔ حضرت صدیقؓ ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ ،علیؓ وغیرہ سب صحابہ ہیں جنھوں نے ہم تک سرکار کی بتلائی ہوئی ایک ایک بات (حدیث)بھی پہنچائی ہے ۔ ہر ہر کو صحابی کہتے ہیں ۔ ) بھی سب مزدور وں کی طرح کام کرتے ۔
اس مسجد میں بے ضرورت چیز ایک بھی نہ تھی ، ہر جگہ اور ہر چیز میں سادگی ہی سادگی تھی ، کچی دیواریں تھیں ، کھجور کے کھمبے تھے اور کھجور ہی کی پتیوں سے چھت پاٹی گئی ۔ چھت اتنی نیچی تھی کہ بعض لانبے قد والوں کے سر لگتے تھے ۔
لیکن پیارے بچوں !یہ ہمارے سچے نبی ﷺاور پیارے سرکار ﷺ ہی کی برکت تھی اور خدا کے سچے دین پر ٹھیک ٹھیک چلنے اور خدا کے حکموں کو پوری طرح ادا کرنے کا ہی سبب تھا کہ ایک زمانہ وہ آیا جو ساری دنیا میں سچا اور پکا دین اسلام پھیل گیا، ہمارے بڑے اچھے قومی شاعر ڈاکٹر اقبال نے جب ہی تو کہا ہے :
؂چین و عرب ہمار ا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
مسلمان ان گنت ہو گئے ۔ سینکڑوں بادشاہ اور نواب ہوئے اور اپنے ہندوستان میں بھی دھلی کی جامع مسجد جیسی بڑی بڑی مسجد یں بن کر کھڑی ہو گئیں۔ مسجد نبوی حضورﷺ پیغمبر ہمارے سرکارﷺ کے زمانہ میں تو یوں ہی سادی سادی ہی رہی لیکن بعد کو مسلمان بادشاہوں نے خوب شاندار بنا دیا جس کافوٹو اس کتاب میں تمہارے اُلٹے ہاتھ کی طرف لگا ہوا ہے ۔
بھائی چارہ
ویسے تو بعض ہجرت کرکے آنے والے صحابہ مکہ کے اچھے مال دار لوگوں میں سے تھے پر وہ بیچارے تو سب وہاں چھپ چھپ کر یہاں آئے تھے ۔اُن کی جائدادیں ،زمینیں اور اوپر کاسارا مال اور گھر بار مکّہ کے کافر وں اور بے دین قریشیوں نے دبا لیا تھا۔اس لیے یہاں مدینہ میں وہ غریب سب مفلس تھے، ہمارے سرکارﷺ نے دیکھو کیا اچھی تدبیر نکالی کہ مہاجرین (مہاجرین ،وہ سب مسلمان کہلائے جوحضورﷺ کے ساتھ اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آبسے ۔)اور انصار( انصار ،مدینہ کے وہ مسلمان جنھوں نے حضورﷺ کی ہر طرح مدد کی، انصار مدد کر نے والے کو کہتے ہیں ۔)میں بھائی چارے کا قاعدہ جاری فرمایا۔انصار کو آپ نے بتلایا کہ ’’سارے جہان کے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘
ایمان والے انصار نے سر آنکھوں پر اپنے سرکارﷺ کے اس حکم کولیا اور سب مہاجرین کو آپس میں ایک ایک دودو یا زیادہ زیادہ جیسی جس کی حیثیت تھی بانٹ لیا، گھر جا کر رکھااور اُن سے کہا بھائی !ہماری ہر چیز میں آج سے تم آدھے کے مالک ہو،اپنی زمینیں اور گھر کا سب مال و اسباب اور آرام سے رہنے کو اپنا گھر غرض ہر چیز آدھی آدھی کر کے اُن کے حوالے کر دی ۔
مہاجرین کی غیرت اور محنت مزدوری کرنا
انصار نے یہ مہربانی کی اور اپنے مہاجرین بھائیوں کو اپنے سگے بھائی بنایا پر مہاجرین نے یہ پسند نہیں کیااور انھیں یہ گوارا نہ ہوا کہ وہ بیٹھے بیٹھے انصار کی روٹیاں توڑیں اور اپنا بوجھ سب کا سب اُن پر ڈالے رکھیں ،اس لیے انھوں نے انصار کی ان مہربانیوں اور ایسے اچھے برادر انہ سلوک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے محنت مزدوری کر کے اپنی روزی آپ کمانی شروع کر دی ، چونکہ مہاجرین ہمیشہ سے تجارت کرتے آئے تھے اور اُن کے باپ دادا زیادہ تر تجارت ہی کرتے تھے ، انھوں نے یہاں بھی تجارت ہی کو پکڑ ا اور خوب کمایا تھوڑے ہی دنوں میں وہ پہلے سے زیادہ مال دار ہو گئے اور انصار کی امداد کی انھیں ضرورت نہ رہی ۔ جن مہاجرین کے انصار بھائی غریب تھے وہ جنگل سے لکڑیاں ڈھیر کر لاتے اور بازار میں بیچ کر اپنا کام چلاتے ۔
اصحاب صُفہ
مہاجرین میں کچھ صاحب ایسے تھے جنھیں دنیا کی کسی بات سے کچھ سرو کار نہ تھا، دن رات وہ خدا کی عبادت کرتے ، خدا اور اُس کے پیارے نبی اپنے سرکار حضرت محمد رسول اللہ کے حکم اور تعلیم لوگوں میں پھیلاتے تھے، یہ خدا کے ، اُس کے رسول کے ،پیارے بندے اور غلام ہمیشہ ایک چبوترہ پر رہا کرتے جو مسجد بنوی میں ایک طرف بنا ہوا تھا ، اسی سے انھیں اصحاب صفہ کہتے ہیں ، یہ بیچارے بڑے ہی نیک اور مسکین تھے ، دوسرے مسلمان بھائی باری باری سے ان کو اپنا اپنا مہمان بناتے تھے یا تھوڑے تھوڑے روز بانٹ لیتے تھے ، اکثر توخود اپنے سرکارﷺ اپنا مہمان بناتے اور ساتھ کھانا کھلاتے ۔
کافروں کا جنگ کی تیاری کرنا
ہمارے سرکار ﷺ خدا کے دوسرے سچے بندے مہاجرین اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ چکے، طرح طرح کی مصیبتیں جھیلیں پر اپنے سچے اور پیارے آقا اور اپنے سچّے دین کو نہ چھوڑا۔ وطن سے دور مدینہ آبسے، اب کچھ چین ملا اور آزادی سے خدا کانام لینے لگے تو کافروں کو یہ کب بھاتا ،انھیں چین نہ پڑا اور آہستہ آہستہ مسلمانوں پر دھاوا بولنے کی فکر یں کرنے اور لڑائی کے منصوبے گانٹھنے لگے ۔
مسلمانوں کو بھی خدا کی طرف سے لڑائی کاحکم ملنا
پیارے بچو!خدا کو تو ہر بات کی خبر رہتی ہے ،کوئی سات پردوں میں چھپ کر اچھا یا برا کام کرے یا خالی دل میں ارادہ کرے اللہ میاں جان جاتے ہیں ،بس تو اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ کافروں نے بے گناہ مسلمانوں پر اتنی دور سے چڑھ دوڑنے کا پکّاارادہ کر لیا ہے تو اپنے پیارے رسول ہمارے سرکارکو جبرئیل علیہ السلام سے حکم بھیجا کہ :
’’جن مسلمانوں سے کافرلڑیں ان کو اب کافروں سے بھی لڑنے کی اجازت ہے کیونکہ ان (بے چاروں ) پر ظلم ہوتا ہے ،بے شک اللہ ان کی مدد کر سکتا ہے ۔وہ بے چارے توصرف ایک بات کہنے پر کہ ہمارا رب اللہ ہے ناحق اپنے گھروں سے نکالے گئے ۔‘‘(قرآن )
جنگِ بدر
آخر کافروں نے مدینہ پر حملہ بول ہی دیا۔ بدر کے مقام پر جو مدینہ سے کچھ کم اسی (۸۰) میل دور ہے مسلمانوں اور کافروں کے لشکر کی مڈ بھیڑ ہو گئی ،پیارے بچو! ذرا غور کرنا اس جنگ میں مسلمان کتنے تھے ،اُن کی فوج کی کیا حالت تھی اور دوسری طرف کافروں کے کیاٹھاٹھ تھے ۔لیکن دیکھنا خدا مظلوموں کی کس طرح مدد کرتااورسچوں کو فتح دیتاہے۔
مسلمانوں کے کل تین سو تیرہ (۳۱۳) یا چودہ(۱۴) آدمی تھے، جن میں تراسی (۸۳) مہاجرین اور باقی انصار تھے جن میں زیادہ تر بے چارے کھیتی باڑی کرنے والے سید ھے سادھے لوگ تھے اور جنگ کے قاعدوں سے بالکل انجان، بہت سے بوڑھے ضعیف تھے اور کچھ کم عمر بچے تھے جو لڑائی کانام بھی نہ جانتے تھے ، بہتیرے ایسے غریب اور مسکین لوگ تھے جنھیں پیٹ بھر کھانا بھی نہ ملتا تھا ۔جنگ کا سامان بھی ادھورا ،خراب اور پُرانادُھراناتھا۔ نہ خود تھے نہ زِرّہْ بکتر ،پرانی مور چہ کھائی اور گٹھل تلواریں تھیں ،صرف دو(۲) گھوڑے اور ستر اونٹ تھے ۔دوسری طرف کافروں کی فوج ایک ہزار کے لگ بھگ تھی ۔ہر سپاہی کے پاس بڑھیا بڑھیا تلواریں اور نیزے تھے۔ سروں پر خود تھے اور سینے ،بازو،زِ رہ بکتر سے ہر طرح مضبوط تھے ۔ایک سو (۱۰۰) سوار اور سات سو اونٹ تھے ،غرض کافروں کی اتنی بڑی بھیڑ ایسے ٹھاٹھ اور سامان کے ساتھ مٹھی بھر نہتّے مسلمانوں پر چڑھ دوڑی ۔
ہمارے سرکار کو بہت فکر تھی،گھڑی گھڑی آپ ﷺ نماز پڑھنے لگتے اور دیر دیر سجدے میں پڑے رہتے ۔اپنے اللہ سے گڑ گڑا کر اور رو رو کر دعا مانگتے۔ آخر خدا نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بتا دیا کہ کافروں کی فوج ہارے گی اور وہ بھاگ جائیں گے ۔ہمارے حضرت سجدہ سے اٹھے اور مسکراتے ہوئے سب مسلمانوں کویہ خوش خبری سنائی ۔
کافروں کی طرف سے کچھ جوان نکلے اور اپنے مقابلہ کے لئے آواز لگائی۔ اِدھر سے پہلے تو انصار میں سے لوگ باہرآئے لیکن وہ بولے، محمدﷺ!ان سے ہم کیا لڑیں ۔ہمارے مقابلہ کو تو ہماری ہی قوم والے یعنی قریش آئیں۔ اب انصار تو پھر صفوں میں آکر مل گئے۔ قریش مہاجرین میں سے تین بزرگ نکلے جن کے ہاتھوں وہ مغرور خدا کے منکر اوررسول ﷺ خدا کے دشمن جہنم رسید ہوئے پھر اسی طرح دو دو تین تین آدمیوں سے مقابلے ہوتے رہے آخر ایک دم سب کے سب کافر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ،خوب گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔مسلمان بڑی ہمت سے لڑے اور مار مار کے ڈھیر لگا دےئے ۔کافروں کے بڑے بڑے سردار اور جرنیل مارے گئے ۔ابو جہل جسے سب سے زیادہ گھمنڈ تھا،دو انصاریوں کے ہاتھ سے جہنم رسید ہوا ۔ کافروں کی فوج نے جب یہ رنگ دیکھا تو جس طرح ایک دم مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے اسی طرح ایک دم گھبرا کر بھاگ بھی کھڑے ہوئے ،مسلمان صرف چودہ (۱۴) شہید ہوئے ۔
قیدی
کافر بھاگے تو مسلمانوں نے اُن کا پیچھا کیا ۔بہت سوں کو پکڑ لائے لیکن ہمارے سرکار ﷺ نے حکم دیا ،اب جبکہ لڑائی ختم ہو گئی ہے ان کے ساتھ کسی طرح بُرا سلوک نہ ہو،مسلمان یہ حکم پا کر اُن کا فر قیدیوں کو آپس میں بانٹ کر اپنے اپنے گھر لے گئے اور خوب آرام سے رکھا ،آخر ہمارے سرکار نے فدیہ لیکر سب کو چھوڑدیا۔ان میں سے ایک قیدی نے کہا ہے کہ میں جن مسلمانوں کے پاس تھا وہ مجھ پر اتنے مہربان تھے کہ اچھا اچھا کھانا تو مجھے کھلاتے اور خود روکھی سوکھی روٹیاں اور کھجوریں ہی کھا کر گزر کرتے ۔
کُچھ حال جنگ احد کا اور لڑکوں کی بہادری
پیارے بچو!تم نے دیکھا ؟ہمارے آقا حضرت رسولِ ﷺ خدا کے فرماں بردار بندے اپنے دشمنوں سے کیسا اچھابرتاؤ کرتے تھے جسے خود دشمن مانتے تھے ۔
اچھّا ،آؤ ہم تمھیں جنگ بدر کے بعد بہت مشہور جنگ احد میں تمہاری برادری یعنی کچھ مسلمان بچوں کی بہادری اور اپنے دینِ اسلام کے پیچھے جان دینے اور مرنے کے شوق کا حال سنائیں۔
مسلمانوں کا لشکر مقابلے کے لئے مدینہ سے باہر نکلا۔ دیکھا گیا تو بہت سے کم عمر لڑکے اور بچے بھی آگئے ہیں ،اُن کو لوٹا دیا گیا لیکن رافع بن خدیج سے کہا گیا کہ تم تو ابھی چھوٹے ہو لوٹ جاؤ تو وہ انگو ٹھے کے بل تن کر کھڑے ہو گئے کہ اور نہیں تو اونچے ہی معلوم ہوں ‘حضرت رافع کی یہ ترکیب چل گئی اور وہ اسلامی فوج میں شامل رہے۔ ایک اور صاحب لڑکوں ہی میں سے تھے جن کا نام سمرہ تھا ۔یہ بولے میں رافع کو پچھاڑ لیتا ہوں اس لئے جب وہ ٹھیرا لئے گئے تو مجھے بھی جنگ میں شریک ہونے کی اجازت ملے ، اب دونوں سے کشتی لڑائی گئی ،سمرہ نے سچ مچ رافع کو پچھاڑ دیا اور راہ خدا میں ان کی ہٹ مان لی گئی۔ یہ دونوں پیارے بچے جنگ میں شریک رہے لیکن دوسرے بچے واپس کر دےئے گئے جن کے نام حضرت زید بن ثابت ،برا بن عازب ،ابو سعید خذری ،عبداللہ بن عمر اور عرابہ اوسی تھے ۔
کھڑے کھڑے جنت میں
لڑکو!احد کی لڑائی بڑے زور کی ہوئی تھی اور مسلمان بڑی بہادری سے اپنی جانیں قربان کر رہے تھے۔ انھیں اپنی جان کی ذرا بھی فکر نہ تھی۔ ایک بہادر مسلمان بے پروائی کے ساتھ کھڑا کھجوریں کھا رہا تھا، پوچھنے لگایا رسول اللہﷺ اگر میں مارا گیا تو کہاں ہوں گا ؟ہمارے سرکار ﷺ نے فرمایا جنت میں۔اس خوشخبری کو سُن کر مارے خوشی کے اس طرح کافروں پر ٹوٹ پڑا کہ بے چارہ شہید ہو گیا ۔
دوسری لڑائیاں
بدر میں کافروں کو بہت بری طرح شکست ہوئی تو ان کے دلوں میں غصے کی آگ اور بھی بھڑکی ،بعضوں نے تو قسم کھائی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لیں گے اور انھیں ختم نہ کردیں گے، نہ کپڑے بدلیں گے اور نہ کسی خوشی میں شریک ہوں گے ، اس لئے بڑی مستعدی کے ساتھ جنگ کی تیّاریوں میں لگ گئے ۔جنگ بدر کے بعد چھوٹی بڑی کئی لڑائیاں ہوئیں کافروں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے ۔
دشمن فوجیں اکٹھی کر کے کے چڑھ چڑھ آتے ، چاربرس تک مسلمان صبر کرتے رہے اس کے بعد انھوں نے بھی آگے بڑھ کر حملہ کیااور دشمن کی فوجوں کو تتر بتر کر دیا یہ جھگڑے ۲ہجری سے شروع ہو کر ۹ہجری تک (۷ برس )رہے۔ مشہور مشہور لڑائیاں یہ ہیں جن میں خود ہمارے سرکار بھی مسلمانوں کی طرف سے شریک رہے اور انھیں غزوہ (جمع غزوات )کہتے ہیں ۔
(۱) بدر ۲ہجری میں۔ (۲) احد ۳ہجری میں ۔ (۳) خندق ۵ہجری میں ۔
(۴) خیبر۷ہجری میں۔ (۵) مکہ ۸ہجری میں۔ (۶) حنین ۸ہجری میں ۔
(۷)تبوک ۹ہجری میں ۔
لیکن پیارے بچو ! ہمیشہ یاد رکھو، سچی بات کبھی جھوٹی نہیں ہو سکتی اور اسے دنیا میں اس کا بڑے سے بڑا دشمن کبھی بھی نہیں مٹاسکتا ہے ، اگر مسلمان اپنے پکّے دین پر قائم رہیں،خدا اور رسول ﷺ یعنی ہمارے سرکار ﷺ کے حکموں کو پوری پوری طرح مانیں ،دوست اور دشمن سب کے ساتھ بھلائی کریں جس طرح کہ ہمارے سرکار ﷺ کا ہر اپنے پرائے کے ساتھ برتاؤ تھا، کریں تو یقین کرو آج بھی کوئی نہیں جو اُنھیں نقصان اور تکلیف پہنچا سکے۔جیسا کہ ان تھوڑے سے مفلس غریب ،مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ فتح دی اور دین و دنیا دونوں جگہ اُن کابول بالا رکھا ۔اسی طرح خدا ہی سے ڈرنے والوں اور اُسی پر بھروسہ کرنے اورا سی سے لو لگائے رکھنے والوں کے لئے کبھی بھی پریشان ہونے کی بات نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کی مدد کرے گا اور اسی طرح انھیں فتح دے گا جِس طرح اُن تھوڑے سے خدا کے سچے پکّے اور خدا کی راہ میں مضبوطی اور ہمت سے ڈٹے رہنے والوں کی مدد کی تھی ۔لیکن یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ خدا اور اس کے پیارے رسولﷺ ہمارے سرکار ﷺ کی بتائی باتوں پر ٹھیک ٹھیک چلا جائے ۔
صلح حدیبیہ
بے چارے مسلمانوں کو اپنا دیس (مکّہ ) چھوڑے چھ برس ہو گئے مدینہ کے مسلمان بھائیوں نے ان کے ساتھ بہت ہی اچّھا برتاؤ کیا، پھر بھی وطن جیسی پیاری چیز انھیں کیسے نہ یاد آتی ، رہ رہ کے ان کا جی چاہتا کہ کچھ نہ ہو کعبہ ہی کی زیارت ہو جائے ،پر وہ بے چارے وہاں کیسے پہونچتے ۔کافر تو ان پر مدینہ تک چڑھ چڑھ آتے اور جنگ کرتے تھے ،کیا کرتے جی ہی جی میں کڑھتے اور چپ ہورہتے ،آخر ہمارے سرکار ﷺ نے خواب دیکھا کہ کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں ،نبیوں کے خواب بھی ہمیشہ سچے ہوتے ہیں ،اس لئے حضور سوچ بچار کے کچھ صحابہ کو ساتھ لے مکّہ کو چل پڑے لیکن یہ سوچ کر کہ کافروں کولڑائی کا دھوکہ نہ ہو قربانی کے لئے اونٹ ساتھ لئے اور حج کے کپڑ ے پہنے کیونکہ وہ زمانہ حج کاتھاجس میں لڑائی ہوتی بھی نہ تھی ،لیکن قریش کو خبر لگی تو لڑائی کی تیاری کرنے لگے ،یہ دیکھ کر ہمارے سرکارﷺ مکّہ سے کچھ دور حدیبیہ نامی ایک مقام پر ٹھیر گئے ۔
قریش نے اپنے قاصد چھوڑے جنھوں نے آپ سے پوچھا کہ کس لئے آئے ہو ،ہمارے سرکارﷺ نے جو سچی سچی بات تھی بتا دی ،لیکن وہ کہنے لگے ،تم لڑائی کے لئے نہ بھی آئے ہو تب بھی اس میں ہماری بے آبرو ئی ہے۔ لوگ یہی کہیں گے کہ مسلمان زبردستی مکہ میں داخل ہوکرکعبہ کی زیارت کر گئے ۔
اسی بیچ میں قریش کے ایک بڑے سردار بات چیت کے لئے ہمارے سرکارﷺ کے پاس آئے اور کچھ ایسی باتیں کیں جن سے مسلمانوں کی ہتک ہوتی تھی، حضرت صدیقؓ کو بہت غصّہ آیا پر ہمارے حضرت نے سمجھایا بجھایااور کافروں کے قاصد وں سے فرمایا کہ ہم تو صرف کعبہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اور کوئی غرض اس کے سوا نہیں ہے ۔
کئی دن ہو گئے کوئی بات طے نہ ہو پاتی تھی، آخر ہمارے سرکار ﷺنے حضرت عثمانؓ کو فیصلے کے لئے بھیجا ۔وہ اپنے قبیلے کے سردار امان بن سعید نامی کی پناہ میں مکہ پہونچے مگر ان کے پہونچتے ہی خبر اڑ گئی کہ کافروں نے انھیں قتل کر دیا۔ مسلمانوں کو جو یہ خبر لگی تو ہمارے سرکار ﷺ کو بے حد دُکھ ہوا، اور مسلمانوں نے مِل کر یہ طے کیا کہ اب تو ہم جب تک حضرت عثمانؓ کا بدلہ نہ لیں گے ،ہٹنے کانام نہ لیں گے ،چاہے کچھ بھی ہو ۔
بیعت رضوان
ہمارے سرکار ﷺ نے اس وقت اپنے سب ساتھیوں سے یہ اقرار لیااور سب نے اسی پر ایک درخت کے نیچے قسم کھائی ، اسی کو بیعت رضوان کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنے کلام پاک میں اپنے پیارے نبیﷺ سے خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ :
جب مسلمان درخت کے نیچے تمھارے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے تو اللہ ان سے راضی ہو گیا ۔(قرآن مجید )
حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر جھوٹ نکلی اور قریش نے اپنے ایک اور قاصد سہیل بن عمرو کوہمارے سرکار ﷺ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ ہماری تمھاری صلح جب ہی ہوگی کہ اس سال تو تم اور تمھارے ساتھی سب مدینہ لوٹ جائیں ‘البتہ اگلے سال کعبہ کی زیارت کر سکتے ہو۔
سہیل کی باتوں سے آپ نے یہ اندازہ فرمایا کہ قریش اب ٹال نہیں رہے ہیں بلکہ سچ مچ کچھ طے بھی کرنا چاہتے ہیں ۔تب نیچے لکھی شر طوں پر دونوں طرف سے اقرار ہو کر دستخط ہو گئے ۔
(۱) مسلمان اس سال واپس چلے جائیں،اگلے سال آکر کعبہ کی زیارت کرلیں ، مگر تین دن سے زیادہ حرم میں نہ ٹھیریں ،کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو،سوائے تلوار کے ،وہ بھی میان میں رہے ،قریش ان دنوں میں باہر چلے جائیں گے ۔
(۲)مسلما ن عرب کے قبیلوں (خاندانوں ،گھرانوں ) میں سے جس سے چاہیں میل کر کے اپنی مدد کے لئے اپنا ساتھی بنالیں ،اسی طرح قریش بھی کر سکتے ہیں ۔
(۳)اگر قریش کاکوئی آدمی اپنے بزرگ یا سردار کی بغیر اجازت مسلمانوں سے جا ملے گا تو مسلمان اسے واپس کر دیں گے ،لیکن کوئی مسلمان ایسا ہی کرے گا تو قریش اسے واپس نہ کریں گے ۔
(۴)مسلمانوں اور قریش دونوں میں دس (۱۰) سال تک کوئی لڑائی نہ ہو گی ۔
وہ وقت ایسا تھا کہ ظاہر میں مسلمانوں نے یہ صلح نامہ بہت دب کے کر لیا ۔جِس کی شرطوں میں تیسری تو خاص طور پر مسلمانوں کے حق میں بہت بے انصافی تھی۔ حضر ت عمرؓ سے تو رہا نہ گیااور جھلا کر حضرت سے بولے کہ یا رسول اللہ !کیا آپ ﷺ نبی نہیں ؟ یا کیا ہم مسلمان نہیں ؟ اور کیا وہ لوگ مشرک نہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا بے شک میں نبی ہوں اور وہ مشرک ہیں ۔تب حضرت عمرؓ نے عرض کی تو پھر ہم دین کے معاملے میں یہی ذلت کیوں گوارا کریں ،لیکن ہمارے سرکار ﷺ نے انھیں سمجھایا اور یہ فرمایا کہ خدا کا حکم ایسا ہی ہے وہ مجھے ہر گز ذلیل نہ کرے گا ۔
پیارے بچو!اُس موقع پر یہی طریقہ مناسب تھااور غور کر کے دیکھو تو اس وقت مسلمان دب کے نہیں رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح اور کامیابی کا دروازہ مسلمانوں کے لئے اسی راہ سے کھل گیا ۔
فتح مَکّہ
صلح حدیبیہ کے بعد مکہ کے دو قبیلوں میں سے ایک قریش اور ایک مسلمانوں سے مل گئے جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ۔کوئی دو ہی برس بعد یعنی ۸ ہجری (ہجری سے مراد ہے ہجرت والا یعنی جس سال ہمارے سرکار ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی ہے وہ ۱ ہجری کہلاتا ہے اور ہجری سنہ جب ہی سے شروع ہوتا ہے ۔) میں ان دونوں قبیلوں میں لڑائی ہو پڑی ،قریش نے اپنے ساتھی قبیلے کی مدد کی ۔دوسرے مسلمانوں والے قبیلے کو شکست ہوئی جس کے کچھ آدمی جان بچانے کو کعبہ کے حرم میں گھس آئے ،پر وہاں بھی ان کا پیچھا کیا گیا اور وہیں قتل کر ڈالے گئے ،جہاں قتل حرام مانا جاتا تھا۔اُن مصیبت زدوں کے دو ایک آدمی ہمارے سرکار ﷺ کے پاس دوڑے ہوئے مدینہ پہونچے اور ان سے مسلمانوں کا جو اقرار ہو گیا تھا ،اس کا ذکر کر کے دہائی دی اور مدد چاہی۔ قریش کو جو خبر لگی کہ ہمارے سرکار کے پاس مدد لینے گئے ہیں تو بہت گھبرائے کیونکہ اب مسلمان ویسے کم زور نہ تھے ۔قاصد دوڑائے گئے کہ حدیبیہ میں جو باتیں طے پائی ہیں، ان پر پھر اقرار ہو کر دستخط ہو جائیں ، پر ہمارے حضرت ﷺ نے اس بات سے انکار فر ما دیا ،کیونکہ ان مظلوموں کی مدد بھی کرنی ضروری تھی جن سے ایسے ہی آڑے وقتوں پر مدد کا آپس میں اقرار ہوا تھا۔
ہمارے سرکارﷺ نے چپ کے ہی چپ کے تیاری شروع کردی اور قریش کوخبر نہ ہونے دی اورایک دم مکہ پر آپﷺ دس ہزار (۱۰۰۰۰)صحابہ کے ساتھ چڑھ آئے ۔قریش کوتو پہلے سے خبرہی نہ تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ مسلمان بڑی شان و شوکت کے ساتھ ان کے سروں پر پہنچ گئے تو بہت گھبرائے ،ہمارے حضرت کے چچا حضرت عباسؓ اپنی قوم کی بر بادی کے ڈھنگ دیکھ دیکھ کے بہت بے چین تھے اور چاہتے تھے کہ اب سب لوگ مسلمان ہو جائیں اور حضورؓ نبی کریم پر ایمان لے آئیں تو اچھا ہے ،نہیں توصبح جب یہ بے شمار فوج حملہ بولے گی تو ان کانام نشان بھی باقی نہ رہے گا ۔
اس ڈر سے حضرت عباسؓ رات ہی رات ہمارے سرکار کی طرف روانہ ہوگئے۔راستے میں ابو سفیان مل گئے ‘انھیں اپنے ساتھ لے لیا۔ابو سفیان کفر کے زمانے میں اسلام کے بڑے پکّے دشمن تھے ،حضرت عمرؓ نے انھیں جو دیکھا تو مارے غصّے کے آگ بگولہ ہوگئے اور حضرت ﷺسے اُسی جوش میں عرض کی، حضورﷺ اب حکم دے دیں کہ میں اس کا سر اڑا دوں پر ہمارے رحم دل سرکارﷺ نے حضرت عمرؓ کو روکااور ابو سفیان کو حضرت عباسؓ کے سپرد فرمایا کہ حفاظت سے رہیں۔ صبح ابو سفیان مسلمان ہو گئے ۔ہمارے سرکار ان سے خوش ہو ئے اور انھیں بہت بڑا درجہ عنایت فرمایا ۔حضرت ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص خانہ کعبہ یاابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا اس کو پناہ ملے گی یا جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے گا یا اپنی تلوارمیان کر لے گا ۔وہ بھی بچ جائے گا مسلمان اسے نہ ستائیں گے۔ ابو سفیان مکہ پہنچے لوگوں کو حضور ﷺ کاحکم پکار پکار کر پہنچا دیا۔
اسلامی لشکر بڑی شان و شوکت کے ساتھ مکّہ میں داخل ہوا اور بغیر کسی بڑی لڑائی کے مکہ فتح ہو گیا یعنی مکّہ پر اب مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ۔
ہمارے سرکارﷺ نے سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا،پھر خاص کعبہ کے اندر داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی ۔خدا کے گھر میں جو بت رکھے گئے تھے، توڑے گئے ،پھر سرکارﷺ نے لوگوں کے سامنے یہ وعظ فرمایا کہ:
لوگو! اللہ ایک ہے ،جس کاکوئی شریک نہیں، اس نے وعدہ پورا فرمایا اور اپنے بندے کی مدد کی جس نے تمھارے جتھوں کو ہرا دیا، سب لوگ آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم خاک سے بنے تھے(یعنی آدمی آدمی سب برابر ہیں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے )لوگو!تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیاکروں گا ؟
وہ بولے آپ ہمارے شریف بھائی اور بھائی کے بیٹے ہیں (یعنی ہمیں آپﷺ کی طرف سے کسی ظلم کی امید نہیں ) ہمارے سرکارﷺ نے بڑی مہربانی اور محبت کے انداز میں فرمایا ’’جاؤ تم سب آزاد ہو ۔‘‘
کافروں نے آپ کو جب اس طرح مہربان پایا تو اپنی وہ پرانی حرکتیں اور بدسلوکیاں اور آپ کو طرح طرح ستانا یاد کیا۔ بہت پشیمان ہوئے ۔دلوں میں شرمائے ،سوچا کہ بے شک یہی خدا کے وہ نبی ہیں جن کے لئے حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے دعا کی تھی اور جن کی آمد کی خوش خبری حضرت مسیح نے دی تھی۔ قریب قریب قریش اسی دن مسلمان ہو گئے ،تھوڑے جو رہ گئے وہ بھی بعد میں ایمان لے آئے ۔
جنگ حنین
پیارے بچّو !اللہ میاں کو کسی کا اپنی طاقت ،اپنے مال اور اپنی دولت کے زور پر گھمنڈ کرنا بہت بُرا لگتا ہے ۔اور جو لوگ غرور کرنے والے ہوتے ہیں اللہ میاں ان سے ناراض رہتے ہیں ۔پھر سوچو تو جب اللہ میاں خفا ہوجائیں تو بھلا کہاں ٹھکانا ہے ؟کہیں نہیں،دنیا بھی خراب اور عاقبت بھی تباہ ۔
اسی طرح کا موقع ہمارے سرکار کے زمانے میں ہوا ہے۔ بات یہ تھی کہ مکّہ فتح ہو جانے کے کچھ دن بعد مکّہ کے دو قبیلے آپس میں مل کر مسلمانوں کے مقابلے کو تیّار ہو گئے ،یہ ہمیشہ سے بڑے لڑاکواورسرکش تھے ۔اپنے آگے کسی کو نہ مانتے تھے، غرض وہ مسلمانوں پر چڑھ آئے ،ہمارے سرکار ﷺ کو خبر ہوئی توصحابہؓ کو لے کر مقابلہ کے لئے نکلے۔ اس وقت اسلامی فوج بارہ ہزار تھی اور ہر قسم کاسامان بھی اچھے سے اچھا موجود تھا۔صحابہؓ نے دیکھا تو بے دھڑک بول اٹھے ۔اب ہم سے کون جیت سکتا ہے ۔پس یہی گھمنڈ کا بڑا بول اللہ تعالیٰ کو بُرا معلوم ہوا۔ جنگ میں جب مقابلہ ہوا ،پہلی لڑائی میں دشمن کے تیربڑے زوروں سے برسنے لگے اور مسلمان تتر بتر ہونے لگے ۔وہ بہادر مسلمان جو کافروں کو بیسیوں بار نیچا دکھا چکے تھے دشمن کے اس حملے کو نہ روک سکے ۔خالی ہمارے سرکار ﷺ اور تھوڑے سے کچھ اور صحابہ جمے رہے۔ حضرت عباس نے آپﷺ کاحکم پاکر پکارا،انصار پلٹے اور جب مسلمان ایک سو (۱۰۰) اکٹھا ہوگئے تو کافروں پر بڑے زوروں میں ٹوٹ پڑے۔ اب تو ایسے لڑے اور ایسی جیوٹ سے لڑے کہ ۵۔۶ ہی گھنٹوں میں دشمن کو ہرا دیا ۔مسلمانوں کو غنیمت (لڑائی میں جو چیزیں دشمن چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے وہ جیتنے والوں کی ہوتی ہیں۔ اسی کو غنیمت یا مال غنیمت کہتے ہیں ۔)میں چھ (۶) ہزار عورتیں اور بچے ،چوبیس (۲۴) ہزار اونٹ ،چالیس (۴۰) ہزار بکریاں اور ڈھیروں چاندی ملی ۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نصیحت کے لئے اپنے پیارے رسولﷺ ہمارے سرکارﷺ سے یہ فرمایا جو قرآن پاک میں موجود ہے۔ مسلمانوں سے خطاب ہے کہ:
’’اللہ نے بہت دفعہ تمھاری مدد کی اور حنین کے دن بھی جب تمھیں اپنی بہتات پر گھمنڈ تھا مگر وہ کام نہ آئی ۔زمین کشادہ ہونے پر بھی تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگے ۔پھر اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کو تسلی بخشی (آسمان سے) وہ فوجیں اُتاریں جنھیں تم نے دیکھا ہی نہیں ،کافروں کو سزا دی اور ان کا بدلہ یہی ہے ۔‘‘(قرآن مجید)
پیارے بچّو!اب تم خود ہی سمجھ گئے ہو گے غرور اور گھمنڈ کیسی بُری بات ہے، ہم نے اسی سے جنگ کاحال بھی لکھ دیا جو حنین کے نام سے مشہور ہے اور حنین ایک گھاٹی کانام ہے جو مکّہ اور طائف کے بیچ میں ہے ۔ہم نے جنگ بدر کے بعد جو بہت سی لڑئیاں ہوئیں ان کا حال کتاب بڑھ جانے کے خوف سے نہیں لکھا ۔بس یہ سمجھ لو کہ کافروں نے بہتیر ی کوششیں کیں اور بار بار مسلمانوں پر چڑھ چڑھ آئے،پر اللہ تعالیٰ نے قریب قریب ہمیشہ مسلمانوں کو فتح بخشی۔
سرکاری ایلچی
ہمارے سرکارﷺ نے سچّے مذہب اسلام کا پرچار لگاتار جاری رکھا اور دیس دیس عالموں کو پھیلا دیاجو لوگوں کوخدا اور رسول کاکلام سناتے اور بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ بتاتے ۔رکاوٹیں تو رہیں اور سب سے زیادہ سچّے اور پکے ساتھیوں کو طرح طرح کی مصیبتیں جھیلنی پڑیں جس کاحال پیچھے پڑھ آئے ہو، تیسرے لوگ ان باتوں کی ہنسی اڑا اڑا کر ٹال دیتے اور دھیان سے بات نہ سنتے تھے ،لیکن دھیرے دھیرے ۱۰ہجری تک سارا عرب مسلمان ہو گیا۔ جب عرب اور خاص مکّہ کے بُت اور لوگوں کے کفر ٹوٹ گئے ۔خدا کے بندے خدا ہی کی پوجا کرنے لگے تو پھر جدھر رخ کیا جاتا اللہ تعالیٰ وہیں مسلمانوں کا مطلب پورا کرتا اور وہاں اسلام کا جھنڈا اُڑنے لگتا ۔آئے دن کسی نہ کسی بادشاہ یابڑے سردار یا امیر کے مسلمان ہونے کی خوشخبری سنی جاتی ۔یہاں تک کہ ہمارے سرکارﷺ جب دنیا سے سفر کرنے والے تھے۔ سارے عرب اورآس پاس کے سب ملکوں میں اسلام ہی کا بول بالا تھا۔مسلمانوں کی ہر جگہ دھاک بیٹھ گئی اور کوئی بادشاہت ایسی نہ تھی جہاں اسلامی ایلچی (سفیر) (جب ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کو مان لیتا ہے تو ان دونوں کا ایک ایک بڑا آدمی آپس میں ہر ایک کے دربار میں رہا کرتا ہے پرانے زمانے میں انھیں سفیر کہتے تھے ) نہ موجود ہوں ۔
آخری حج
مکّہ فتح ہو گیا پر مشرکوں کو اب تک حج کرنے کی اجازت رہی اسی لئے ہمارے سرکار نے خاص حج کے زمانہ میں حج نہیں کیا بلکہ دوسرے دنوں میں یہ اسلامی فرض ادا کیا جسے عمرہ کہتے ہیں لیکن اب کہ مکہ، عرب بلکہ عرب کے ارد گرد کے ملکوں میں اسلام پھیل گیا تو ہمارے سرکار ﷺ نے خدا کے حکم سے یہ منادی کر دی کہ اگلے سال سے کوئی مشرک حج نہ کر پائے گا اور پھر اس سال حضور ﷺ نے عزت والے گھر (کعبہ ) کی زیارت اور حج کرنے کا پکا ارادہ کر لیااور سوا لاکھ مسلمانوں کے ساتھ آپﷺ مدینہ سے مکہ کو چل پڑے ۔
پیارے بچو!دیکھو یہ ہمارے سرکارﷺ وہی ہیں جنھوں نے ہجرت کے موقع پر تین دن غار میں چھپ کر دشمنوں سے جان بچائی تھی ،یہ وہی ہیں جن کا مکّہ میں ایک ایک تنکا جانی دشمن ہو گیا تھااور جنھیں جان ہی سے ختم کر دینے کے لئے طرح طرح کے منصوبے گانٹھے جاتے تھے اور جنھیں پکڑ لانے کے لئے سو سو اونٹوں اور ہزار ہزار چاندی کے سکوں کاانعام رکھا جاتا تھا ،جن کی راہ میں ان کے دشمن کیا خدا کے دشمن کانٹے بچھا کر انھیں لہو لہان کر دیتے تھے ۔غرض کوئی مصیبت اور تکلیف نہ تھی جو آپ کو خدا کی راہ میں نہ اٹھاناپڑی ہو، کوئی آپ کو جادو گر کہتا،کوئی سڑی دیوانہ سمجھتااور کہتا ،پر دیکھو تو آج کیا ہی اچھا دن ہے کہ وہی ہمارے سرکار اپنے بے شمار جان نثارو ں کے جھرمٹ کے ساتھ صرف جامہ احرام (حج کے موقع پر بغیر سلا ہوا کپڑا پہننا ہوتا ہے جو ایک تہبند کی طرح باندھا جاتا ہے اور ایک اوپر کے بدن پر لپیٹ لیتے ہیں اسی کو جامہ احرام کہتے ہیں ۔)پہنے خدا کے دربار میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ،امیر و غریب اور فقیر و بادشاہ سب برابر ہیں اور سب کے سب خدا اور ااس کے پیارے نبی ﷺہمارے سرکار کاکلمہ پڑھنے والے اکھٹا ہیں۔اب ذرا دیکھو ،یہ خدا ہی کا تو سچّا کلام تھا ،اور پھر ہمارے سرکار ﷺ کی سچائی ہی تو تھی کہ جیسے بڑے کام کا بیڑا انھوں نے اٹھایا تھاخدا نے وہ آپ کی زندگی ہی میں پورا کر دکھایا اور دشمنوں کی دشمنیاں اور اُن کی ساری رکاوٹیں دھری رہیں ،پھر ہمارے سرکار ﷺ کو اس وقت کیسی کچھ نہ خوشی ہوئی ہو گی کہ خدا نے جو کام ان کے سپرد کیا تھاوہ پورا ہوا ،لیکن پیارے بچّو ! خوب یاد رکھو اس طرح کی خوشی آدمی کو جب ہی ملتی ہے کہ ایک تو کام سچا اور اچھا ہو،پھر اس میں تن من دھن ہر طرح سے آدمی لگا ہی رہے اور آرام و تکلیف کا کسی وقت دل میں خیال نہ لائے غرض جب کہ خدا کاکام پورا ہو گیا تو پھر اللہ میاں کو اپنے پیارے ہمارے سرکارﷺ کی جُدائی گھڑی گھڑی بھاری معلوم ہونے لگی اور اللہ تعالیٰ نے اب ایک نیا پیام بھیجا کہ
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین اور اپنی نعمتیں پوری اور ختم کر دیں اور تمھارے لئے مذہب اسلام پسند کیا۔(قرآن )
اس پیام سے اللہ میاں کا یہ اشارہ تھا کہ اب آپﷺ کے دنیا میں رہنے کی ضرورت باقی نہیں بلکہ دنیا کو اب اُس کے حال پر چھوڑ کر دوست دوست سے آن ملیں ،یہ دیکھ کر ہمارے سرکارﷺ نے ایک د ن عرفات نامی پہاڑ پر چڑھ اسی میدان میں مسلمانوں کے سامنے یہ خطبہ دیا کہ اے مسلمانو! شائد اگلے برس میں تم میں نہ ہوں گا،اِس وقت کی باتیں خوب دھیان سے اور کان لگا کر سن لو اور یاد رکھو کہ ساری دنیا کے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ،ایک بھائی پر دوسرے بھائی کی اُس کے لائق عزت کرنی لازم ہے ، پرائے مال پر نیت بگاڑنی حرام ہے ، سب کو ایک دن خدا کے دربار میں جانا ہے جہاں (قیامت میں ) ہر کسی کے ایک ایک اچھے بُرے چھوٹے بڑے کام کا حساب کتاب ہو گا اور جیسا کرے گا ویسا ہی اسے پھل ملے گا ،دیکھو عورتوں کے ساتھ برابر تاؤ کبھی نہ کرنا بلکہ ہر طرح ان پر مہربانی کرتے رہنا اور غلاموں کو اسی طرح آرام اور سکھ سے رکھنا جس طرح تم خود ہو ۔اُن سے خطا قصور ہو تو معاف کر دینا اور جہاں تک بنے ان کی غلطی سے آنکھ بچانا ،کسی کاحق نہ دبانااور کسی پر کسی طرح ظلم نہ کرنا۔لوگو !آج تک میں نے جو کچھ کہا ہے یا پچھلے نبیوں ،پیغمبروں نے کہاہے اُن سب میں بڑھ چڑھ کر بس ایک کلمہ پاک ہے اور وہ یہ ہے کہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُوَھُوَ عَلیٰ کُل شَیْءِِ قَدِیر۔
خدا ایک ہے اس کا کوئی ثانی اور نہ شریک ہے ۔ وہ سارے جہانوں کا مالک ہے اور اسی کے قبضے میں سب کچھ ہے ۔وہ جوچاہے کر سکتا ہے ۔
پھر آپ نے بڑی اونچی آوازمیں فرمایا ،کیا میں نے خدا کا پیغام پہنچادیا؟ہزار ہا آدمیوں کے جھرمٹ سے آواز آئی بے شک بے شک اور اس آواز سے سارا میدان گونج گیا،کیوں نہ ہو، آپ سچّے ،آپ ﷺ کا لایا ہوا خدا کا پیغام سچّا،اگر سچّا نہ ہوتا تو کوئی بتائے اتنے تھوڑے سے دنوں میں خدا کی خدائی خدا ہی کے راستے پر کس طرح آتی ۔کوئی ہے جو یہ بتائے کہ ایسی ایسی کڑی رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے ایسے مشکل کام کو کسی اور نے کر دکھایاہو بس یہ خدا کابھیجا ہوا سچا دین اسلام ہی تھا جس کی سچائی دلوں میں گھر کر کے رہی اورجُگوں اور پشتوں کے بھٹکے ہوئے سیدھی راہ پر آئے ۔
دنیا سے پردہ
آخری حج (حجۃ الوداع)سے مدینہ واپس ہو تے ہو ئے تو ہمارے سرکار ﷺاپنے مولا سے جا ملنے کی راہ دیکھ رہے تھے کہ ایکا ایکی ۱۱ہجری صفر کے مہینے میں بیمار پڑے اور بخار نے ایسا گھیرکہ ا کسی طرح نہ گیا‘ ‘بھلا وہ کیسے جاتا وہ تو ایک بہانہ تھا۔اللہ کو تو اپنے پیارے ہمارے سرکار ﷺ کو اب اپنے ہی پاس بلاناتھا ۔د ن بدن آپ کی طبیعت بگڑتی ہی گئی ۔اور کم زوری بڑھتی گئی ،لیکن اس بیماری اور ایسی نازک حالت میں ہوتے ہوئے بھی نماز باجماعت (مسجد میں سب مسلمانوں کے ساتھ )آپ سے نہ چھوٹی ،حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنی جگہ امام مقرر فرمااور خود ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ۔ایک دن نماز کے بعد آپ نے فرمایا لوگو !میں نے کوئی زیادتی کی ہوتو معاف کر نا کسی کو بُرا بھلا کہا ہو تو آج مجھے کہہ لو ،کسی کا قرض ،باقی ہو تو لے لو۔لوگو! مجھے معاف کرو تاکہ میں اللہ کے دربار میں خوش خوش جاؤں اور میں اللہ کے سامنے کسی بات پر شرمندہ نہ ہوں اور وہ مجھ سے کچھ حساب کتاب نہ کرے ۔ایک آدمی بولا میرے تین درہم باقی ہیں جو ایک فقیر کو دینے کے لئے آپ نے لئے تھے۔ فوراََ اس کو ادا کئے گئے۔ اس کے بعد گھڑی گھڑی آپﷺ کی حالت نازک ہوتی گئی ۔چار پائی پر لیٹے تھے ۔بے چینی میں کبھی چادر سے چہرا پاک ڈھانپ لیتے اور کبھی گھبرا کر کھول دیتے اور زبان مبارک پہ یہ بول تھے کہ :
اَللّٰھُمَّ الرَّفیق الْا عْلٰے ،اَللّٰھُمَّ الرَّفیق الْا عْلٰے
بڑے دوست کے پاس ،بڑے دوست کے پاس
بیماری کے دنوں میں ہمارے سرکار ﷺ نے کچھ خاص خاص باتوں کی وصیتیں فرمائیں۔ بالکل آخر میں کہ لوگ صاف صاف آپ کی آواز سمجھ بھی نہ پائے تھے۔ آپ کے ہونٹ ہلتے ہوئے معلوم ہوئے توحضرت بی بی عائشہؓ نے کان لگائے اور یہ سنا کہ ’نماز،نماز،اور غلام‘مطلب یہ تھا کہ نماز نہ چھوٹنے پائے اورغریبوں، محتاجوں اور غلاموں کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے بلکہ ا ن کا ہر طر ح خیال رکھا جائے ۔
ہماری جانیں قرباں اور ہمارے ماں باپ آپ پر نثار ہمارے سرکار ﷺ آخر کار دو شنبہ کے دن ۱۲ ربیع الا ول کو اپنے بے شمار جان نثار وں کو تڑپتا چھوڑ کر اپنے اللہ سے جا ملے اور اپنی امت کے لئے خدا کا کلام (قرآن ) اور اپنے کاموں کا نمونہ چھوڑ گئے کہ بس یہی دو چیزیں ہیں کہ اگر انھیں نہ چھوڑا گیا ، بلکہ اُن ہی کے موجب کام کیا گیا تو ہر موقع پر بیڑا پار ہے ۔
اَللّٰھُمَّ صَلَّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحُمدِِ وَّ عَلیٰ اٰ لِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِِوَ بَارک و سَلِّمْ
ہمارے سرکار ﷺ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح ادھر سے اُدھر پھیل گئی ،لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے ،ٹھٹھ لگ گیا ،لوگ بے چین تھے اور حضور کی جدائی پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھےِ حضرت عمرؓ کی حالت تو ایسی بگڑی ہوئی تھی کہ بولے جو یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ۔ تو اُس کا سر اِس تلوار سے اڑا دوں گا ۔حضرت ابو بکرؓ جن پر ایک تو حضورﷺ کا انتہائی صدمہ تھااوپر سے حضرت عمرؓ کی یہ حالت تھی بہت پریشان ہوئے لیکن سوچ سمجھ کر منبر پر کھڑے ہوئے اور یہ خطبہ دیا کہ :
لوگو! اگر کوئی محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا تو محمدﷺ دنیا سے سدھارے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
غرض حضرت صدیق نے بڑی دانائی کے ساتھ لوگوں کو سمجھایا بجھایا اور ان کی سمجھ میں آگیا کہ ’’ہمیشہ رہے نام اللہ کا ‘‘لیکن دنیا میں کوئی ایسانہ ہوا اور نہ ہوگا جسے ہمارے سرکارﷺ کا سا رتبہ ملا ہوا ور جس نے اپنے کام میں ویسی ہی کامیابی پائی ہو۔
صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ مُحَمَّد
اب ہم ہمارے سرکار کے اخلاق و عادات کی کچھ باتیں بیان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیار ے رسولﷺ ہی کے طفیل اوراُن کے صدقہ میں ہمیں تمھیں اور سب مسلما ن بھائیوں کو کچھ ویسے ہی کام کرنے کا شوق اور ہمت دے ۔آمین۔لیکن اخلاق سے پہلے ہم چاہتے ہیں ، اسلام کے عام اور ضروری عقیدے اور ایک مسلمان کی نشانیاں جو ہونی ضروری ہیں معلوم کر لو۔
اسلام کے عقیدے
توحید
توحید کے معنی ہیں خدا کو ایک ماننا ،اس کو اپنا رب جاننا اور اُسی سے اپنی ہر ضرورت کو ظاہر کرنا،اس کے سوا کسی کا خوف دل میں نہ لانا اور یہ یقین کرنا کہ جو کام خدا کے کرنے کے ہیں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا ہے ۔اگر کوئی کسی اور سے ایسی لو لگائے تو اسی کو شرک کہتے ہیں ۔اور مشرک یعنی شرک کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بڑا عذاب دے گا ۔
ہمارے سرکار ﷺ اس گھر میں پیدا ہوئے جو اس وقت تک کعبہ کا متولی تھا ۔کعبہ کی حالت یہ تھی کہ وہاں بڑے بڑے بت رکھے گئے تھے اور حضورﷺ کے گھرانے والے سب بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ بچوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جو اپنے بڑوں کو کرتے دیکھتے ہیں وہی خود کرنے لگتے ہیں پر ہمارے سرکار ﷺ نے کبھی نا سمجھی یعنی بچپن میں بھی بتوں کو سجدہ نہیں کیا ،پھر جب مکہ فتح ہو گیا تو کعبہ میں گھس کر بتوں کو توڑا۔ اس کے بعد صرف خدا کو سجدہ کیا۔ نماز پڑھی ،مکہ میں کافروں نے آپ کوکیسا کیسا ستایا اور جان ہی لینے کو تُل گئے لیکن آپ ذرا بھی نہ گھبراتے اور خدا کے سوا کسی سے نہ ڈر تے بلکہ اندھیرے اجیلے باہر نکلتے بیٹھتے ،پھر تمھیں یاد ہو گا جب کافر حضورﷺ کی ہجرت پر آپﷺ کی تلاش میں اُس غار تک پہنچ گئے اور بالکل منہ پر آگئے توحضرت صدیقؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا گھبراؤنہیں خدا ہمارے ساتھ ہے ،اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کے سوا دنیا میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں کسی کو کچھ دخل ہے، اسی لئے آپ ﷺ نے خاص اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ اور اپنی پھوپھی سے فرما یا ’’اے پیغمبر خدا کی بیٹی فاطمہؓ !اور اے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہؓ !خدا کے ہاں کے لئے کچھ کر لو میں تمہیں خدا سے نہیں بچا سکتا ۔‘‘یوں تو ہمارے سرکار ﷺ غیروں کیاساری دنیا کے لئے خدا کی طرف سے رحمت بن کر دنیا میں آئے تھے پر یہاں آپﷺ کا مطلب یہ تھا کہ کوئی اس دھوکے میں نہ رہے کہ آپﷺ کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے عاقبت کی فکر ضروری نہیں بلکہ آپ نے جتا دیا کہ ایسا خیال کرناشرک ہے اور شرک سے خدا بے حد ناراض ہوتا ہے ۔
نبوت یا رسالت
نبوت یا رسالت سے مطلب یہ ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے سب نبیوں ،رسولوں اورپیغمبروں کو مانا جائے، خاص کر ہمارے سرکارﷺ خدا کے حبیب ﷺ حضرت محمدرسول اللہ کو مانے بغیر توکوئی مسلمان ہی نہیں رہ سکتا ۔
ہمارے سرکار ﷺ نے ہمیں بتلایا ہے کہ آپﷺ سے پہلے بھی مخلوق کو بھلائی اور خدا کی خوشی حاصل کرنے کی راہ بتانے کے لئے اور بھی نبی آتے رہے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے ، آپ فرمایا کرتے کہ میں اپنے دادا(مورث) حضرت ابراہیم کے دین کو پھر سے جگانے اور لوگوں کو ہوشیار کرنے آیا ہوں ، خود اپنے بارے میں اپنا نبی ہو نا بتلایا۔ان چیزوں کے لئے اسلام نے ایک کلمہ مقرر کر دیا جسے کلمہ طیبہ کہتے ہیں اور جس کے دل سے پڑھ لینے اور اس پر سچے دل سے یقین کر لینے پر ہر غیر مسلم ،مسلم مسلمان ہو جاتا ہے ۔وہ کلمہ یہ ہے کہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہ
کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں سوائے خدا کے اور محمد ﷺ خدا کے رسو ل ہیں ۔
قیامت اور خدا کاخوف
صفا پہاڑ پر سب سے پہلے اور باتوں کے ساتھ بڑی تاکید سے یہ فرمایا کہ لوگو! اُس دن سے ڈرو جوآنے والا ہے اور جس دن خدا کے سامنے تمہارے اچھے بُرے کاموں کا حساب ہو گا ۔آپﷺ تو نبی ﷺ تھے اور خدا کے حبیب ،لیکن خدا کا ڈر اس قدر تھا کہ کبھی جو زور سے ہوا چلنے لگتی تو آپﷺ خدا ہی کے خوف سے سہم جاتے۔ جنگ بدر میں خدا نے فتح کی خوش خبری دے دی تھی پھر بھی آپﷺ بار بار سجدہ میں جاتے اور نماز پڑھنے لگتے ۔
عبادتیں
ہمارے سرکار ﷺ شروع ہی سے راتوں کو اُٹھ اٹھ کر اپنے رب کی عبادت کیا کرتے جو علاوہ پانچوں وقت کی نماز کے آخر عمر تک برابر جاری رہی ۔آپ کے پاؤں ورم کر آتے ۔ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے عرض کی، حضور تو نبی ہیں جن سے قیامت میں خدا حساب کتاب بھی نہ کرے گا ۔پھر آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں، اس پر آپﷺ نے فرمایا بے شک یہ ٹھیک ہے لیکن اسی لئے کہ خدا نے مجھے یہ رتبہ دیا ہے ،کچھ نہیں تو مجھے اس کا شکر بھی نہ ادا کر نا چاہیے ۔اور اُس رحیم و کریم کا پورا پورا شکر ادا کرنا کیسے ممکن ہے ؟
پیارے بچو !ذرا غور کرنا ۔آدمی جب دنیا سے سفر کرتا ہے تو اس وقت جو سب سے زیادہ ضروری اور خاص بات ہوتی ہے ،اس کی وصیت کرتا ہے ،حضورﷺ جب اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے تو بار بار آپﷺ نے نماز کی تاکید فرمائی کہ نماز کسی حال میں بھی نہ چھوٹنے پائے ۔
نماز کے بارے میں قرآن پاک میں جگہ جگہ حکم ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الصلوۃ تنھیٰ عن الفحْشاء وَالْمُنکَر ۔
نماز بے حیائی کے کاموں اور گندی گندی باتوں سے روکتی ہے ۔
اور جولوگ نماز پڑھنے میں کاہلی کرتے ہیں ان پر اللہ اپنے غصہ کا اس طرح اظہار فرماتا ہے ۔
فَوَےْلُ الِّلْمُصَلَّےْنَ الَّذِےْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰو تِھِمْ سَا ھُوْنَ۔
ان نمازیوں کے لئے بڑی تباہی ہے جو اپنی نماز کی طرف سے کاہلی کرتے ہیں یعنی ٹھیک ٹھیک اور وقت پر نہیں پڑھتے ۔
اس کے بعد تین چیزیں اور ہیں۔ ایک تو رمضان بھر کے روزے۔ دوسرے حج اور تیسرے زکوٰۃ۔ یہ آخری دونوں اُس کے لئے فرض ہیں جو پیسے والا مالدار ہو، نہیں تو معاف کر دی گئی ہیں ۔مگر نماز ،روزے ہر امیر غریب پر فرض ہیں ۔
اخلاق و عادات
یہاں تک عقیدوں کا ذکر کر کے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کودوسری مذہبی کتابوں میں دیکھنے کو چھوڑکر اب ہم ہمارے سرکار کے وہ اخلاق و عادات بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ان پر چلنا سرکارﷺ اور خود اللہ تعالیٰ کی خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے کیونکہ حضور کی ساری باتیں خدا ہی کی مرضی کے بمو جب اور قرآن پاک کے مطابق تھیں ۔
اخلاق
پیارے بچو ! دنیا کا یہ دستور ہے کہ کسی کا حال جب معلوم کرنا ہوتا ہے تو اُس کے دوستوں ، ملنے والوں یا سنگی ،ساتھیوں سے پوچھا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر یوں سمجھو کہ کسی کی شادی کی کسی جگہ بات چیت ہوتی ہے تو دلہن (لڑکی والے دولہا (لڑکے) کے دوستوں سے اس کا چال چلن اور عادتوں وغیرہ کاحال پوچھتے ہیں۔ ہمار ے سرکار ﷺ کے دوست کہو ،ساتھی کہو، وہ سب ایسے ایسے بزرگ تھے کہ آج تک جن کا نام روشن ہے اور دنیا ان کا لوہا مانتی ہے۔ ان سب میں حضر ت علیؓ ،حضرت عائشہؓ ،حضرت انسؓ ،حضرت زیدؓ وغیرہ مدتوں حضورﷺ کی خدمت میں رہے اور یہ سب اپنی اپنی جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے سرکار ﷺ بے حد نرم دل، خوش مزاج اور نیک عادتوں والے تھے ،کسی کا دل نہیں دکھا تے ہمیشہ ہنس مکھ پائے جاتے اور بات چیت نہایت سہولت اور اطمینان کے ساتھ فرماتے اور ٹھیر ٹھیر کر بولتے تھے، اس طرح کہ کوئی چاہتا تو لکھ لیتا ۔لوگ یاد کر لیا کرتے تھے ۔
دیکھو آدمی کا سب سے پکّا بھید ی اس کی بیوی سے زیادہ نہیں ہوتا، بیوی کو سب حال معلوم ہوتا ہے ۔اسی لئے حضور کی وفات پر لوگوں نے حضرت بی بی عائشہؓ صدیقہ سے آپ کاحال پوچھا تو بی بی صا حبہ نے فرمایا ،’’آپﷺ کا خلق قرآن تھا۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جو جو حکم دیے ہیں وہ ایک ایک حضور کی روزانہ زندگی میں ادا ہوتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔
حضرت بی بی عائشہؓ نے جگہ جگہ حضور کی اچھی عادتوں کا ذکر فرمایا ہے ،وہ فرماتی ہیں ہمارے سرکار ﷺ کسی کو بُرا بھلانہ کہتے تھے۔ بُرائی کے بدلے بُرائی نہ کرتے بلکہ ٹال جاتے اور معاف فرمادیتے ۔خاص اپنے معاملہ میں کسی سے بدلہ نہیں لیا (ہاں خدا کے بارے میں کسی رو رعایت نہ فرماتے اور جوقاعدہ کے موجب جانتے وہی کرتے ،پھر چاہے کچھ بھی ہو کبھی مروت نہ کی جاتی)جو آگے چل کر معلوم کرو گے۔ساتھ کے بیٹھنے والوں میں نہ تو کسی سے آگے ہوکر بیٹھتے اور نہ ٹانگیں پھیلاتے تھے ۔اسی وجہ سے نئے آدمیوں کو ہمارے سرکار ﷺ کو معلوم کرنے کے لئے پوچھنا پڑتا تھا ۔گھر میں داخل ہوتے تو مُسکراتے ہوئے ۔
حضرت بی بی خدیجہؓ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد برابر پچیس (۲۵) برس حضور کی خدمت میں رہیں ،تمھیں یاد ہو گا جب ہمارے سرکارﷺ پر وحی یعنی خدا کا کلام (قرآن ) نازل ہونا شروع ہوا ہے تو پہلی بار آپ بہت گھبرائے ہوئے تھے ،اسی پریشانی میں حضرت بی بی صاحبہ کے پاس پہنچ کر حال بیان کیا تو انہوں نے آپ کی اچھی اچھی عادتوں ہی کا ذکر کرتے ہوئے آپﷺ کو تسلی دی ۔
حضرت علی نبوت کی ابتدا سے آخر دم تک کوئی ۲۳ برس آپ کی خدمت میں رہے ،ایک دفعہ حضرت امام حسینؓ کے سوا ل پرہمارے سرکار کے اخلاق و عادت کے بارے میں فرمایا کہ ’’آپ ہنس مُکھ، عادت کے نرم ،طبیعت کے مہربان تھے ۔تھڑ جئے اور سخت مزاج نہ تھے ، بات بات پر شور نہ کرتے ،کوئی بُرا بول مُنہ سے کبھی نہ نکالتے (کسی کا) عیب نہ تو ڈھونڈھتے اور نہ سختی کرتے ،کوئی بات اگر آپ کی طبیعت کے خلاف ہوتی تو (جہاں تک) ہوتا ٹال دینا چاہتے، آپ کی مرضی کے خلاف کوئی آپﷺ سے کسی خلاف بات کی امید رکھتا تو حضور اس کی امید نہ توڑتے ،لیکن منظوری بھی نہ دیتے (بلکہ خاموش رہتے اور جاننے والے آپﷺ کا مطلب جان جاتے ) ہمارے سرکار ﷺنے تین چیزیں تو بالکل ہی ترک کر رکھی تھیں ۔ ایک تو بحث مباحث یعنی تکرار اور حجّت ۔دوسرے جو بات مطلب کی نہ ہو اس میں پڑنا۔تیسرے ضرورت سے زائد بات کرنا۔اسی طرح دوسروں کے متعلق بھی تین باتوں سے بچتے تھے (۱) کسی کو بُرا کہنا ۔(۲) کسی کا عیب نکالنا۔(۳) کسی کے اندرونی حالات کی ٹوہ میں رہنا ۔کوئی دوسرا بات کرتا تو جب تک وہ ختم نہ کرلیتا آپﷺ چپ سُنا کرتے ،جب تک بولنے والا خود چُپ نہ ہولے اس کی بات بیچ سے نہ کاٹتے تھے ۔لوگ جن باتوں پر ہنستے آ پ بھی مسکرا دیتے ۔جن پر لوگ تعجب کرتے آپ بھی کرتے ، دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننا پسند نہیں فرماتے ۔آپ بڑے فیاض، رحم دل ،خوش مزاج تھے اور راست گو شروع ہی سے تھے کہ جس پر دشمنوں نے آپﷺ کو صادق (سچے ) کا خطاب دیا تھا۔
حضرت زیدؓ جنھیں حضور ہی نے پرورش کیا تھا وہ آپ کی بہت سی باتوں کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ’’آپ سخت مزاج نہ تھے ،عادت کے نرم تھے ،چھوٹی چھوٹی باتوں (خدا کی نعمتوں اور بخششوں ) پر شکر ادا کرتے تھے۔ کسی چیز کو بُرا نہیں کہتے تھے۔ کھانا جیسا بھی ہوتا اس کا عیب نہ نکالتے تھے ۔
بچو !اب ہم آ پﷺ کی بے شمار اچھی اچھی باتوں میں تھوڑی تھوڑی باتوں کو الگ الگ ،مگر بہت کم کم ہی بیان کرتے ہیں ۔
ایثار و انصاف : ایثار کہتے ہیں دوسروں کے آرام اور سکھ کی خاطر اپنے آرام کو قربان کر دینا ،یہ وصف ہمارے سرکار ﷺ میں حد درجہ تھا اور غور کرو تو آپ کی پوری زندگی ایثار ہی ایثار تھی ۔آپﷺ نے اپنے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ خدا کی مخلوق کے لئے دنیا بھر کی مصیبتیں اور طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کیں ۔
ہمارے سر کار ﷺ کی اپنی اولاد سے بے حد الفت تھی خاص کر حضرت فاطمہ بہت پیاری تھیں مگر ان جنتی مائی خدا کی دُلاری کی دنیا میں غریبی اور تنگ حالی کا یہ حال تھا کہ ان کے گھر میں کام کاج کے لئے کوئی لونڈی تک نہ تھی ، وہ خود چکّی پیستیں ، پانی بھر لاتیں ،چکی پیستے پیستے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں او ر پانی کی مشک سے سینے پر نیل پڑ گئے تھے ۔ایک دفعہ انہوں نے حضرت علیؓ سے کہلوایااور درخواست کی کہ اس لڑائی میں جو لونڈیاں آئی ہیں، انہیں میں سے ایک ہمیں مل جائے،ہمارے سرکار نے فرمایا’’ابھی اصحاب صُفہ کا انتظام نہیں ہو پایااور اُس سے پہلے میں کچھ نہ کرونگا۔‘‘
ایک دفعہ ایک غفاری مہمان ہوا، رات کھانے کے لئے صرف بکری کا دودھ ہی تھا، آپﷺ نے وہی نذر کر دیا ، اور سب گھر والوں کی فاقہ سے گزری جبکہ پچھلی رات بھی اسی وجہ سے فاقہ ہو چکا تھا۔
مہمان نوازی : ہمارے سر کار ﷺ کی مہمان نوازی کے بہت سے واقعے ہیں۔ اکثر حضورﷺ اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کی خاطر داری کا بندوبست فرماتے تھے ۔
ایک دفعہ حبش کے بادشاہ نجاشی کے کچھ لوگ آئے تو آپﷺ نے خود سارا انتظام ان کی مہمانی کا فرمایا ،اکثر یہ ہوا کرتا کہ خود بھوکے سو رہتے اور گھر میں جو کچھ ہوتا وہ مہمان کو کھلا دیتے ۔
عفوو رحم : عفو کہتے ہیں کوئی بے جا حرکت کرے پھر بھی اسے معاف کر دیا جائے۔ تم پڑھ چکے ہو کافروں نے حضور ﷺ کو ستانے میں کمی نہیں کی لیکن آپ نے اپنے بڑے بڑے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا اور اس کا نتیجہ آخر کار یہ نِکلا کہ وہی دشمن آپﷺ کے جان نثار اور اسلام پر قربان ہونے والے ہو گئے ۔جب ہی تو اللہ تعالیٰ نے کلام پا ک میں فرمایا ہے کہ:
اے پیغمبر ! اللہ کی مہربانی سے تم ان (کافروں ) سے اچھا برتاؤ کرتے ہو اگر تم کہیں دل کے سخت بُرے برتاؤوالے ہوتے تو یہ لوگ تمہارے آس پاس سے ہٹ جاتے (قرآن )
پھر اللہ میاں نے ایک جگہ کیا جگہ جگہ ہمارے سرکار کی اچھائیاں بیان کی ہیں بس ایک آیت نقل کئے دیتے ہیں ۔
’’لوگوں !تمھارے پاس تمھیں میں سے ایک پیغمبر آیا ،اس پر تمھاری تکلیف بہت بھاری ہوتی ہ، تمھاری بھلائی کا وہ بھو کا ہے اور ایمان والوں پر نہایت نرم اور مہربان ہے ۔‘‘
حیوانوں پررحم:ہمارے سرکار تو آدمیوں کو چھوڑ حیوانوں (جانوروں )پر بڑے ہی مہربان تھے کسی سفر میں جب منزل پر ٹھیرے تو ساتھیوں میں سے کسی نے چڑیا کے گھونسلے سے اس کا انڈا اٹھا لیا ۔وہ بیچاری بے چین تھی اور پر مار اور اپنے بچوں کے لئے پھُر پھُرا رہی تھی ۔آپ نے پوچھا تو حال معلوم ہوااور ان صاحب نے کہا’’یا رسول اللہ مجھ سے یہ بھول ہوئی ہے ‘‘ہمارے سرکار نے کہا جاؤ اسے وہیں رکھ آؤ ۔
اسی طرح چڑیا کے بچوں کا بھی ایک واقعہ ہے ، کوئی صاحب گھونسلے سے اٹھا لائے تھے ،ہمارے سرکار نے فرمایا جاؤ بچوں کو وہیں رکھ آؤ ۔
ایک دفعہ راستہ میں ایک اونٹ نظر پڑا جس کا پیٹ پیٹھ بھوک کے مارے ایک ہو رہے تھے ، ہمارے سرکار ﷺ نے فرمایا ان بے زبانوں کے بارے میں خدا سے ڈرو ۔
گدا گری سے نفرت : حضو رکے خلق اور ہر چھوٹے بڑے پر آپ کے عام کرم کی بارش ہوتی تھی ،لیکن آپ کو کسی کا بغیرخاص اور سخت ضرورت کے سوال کرنا بہت بُرا لگتا تھا ۔آپﷺ فرماتے ’’اگر کوئی شخص لکڑی کا گھٹا پیٹھ پر لادے اور بیچ کر اپنی (روزی) کمائے اور آبرو بچائے تو لوگوں سے سوال کرنے سے اچھا ہے ۔‘‘
ایک دفعہ ایک انصاری نے آپ سے کچھ مانگا اور کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے سوائے ایک بچھونے کے جسے کچھ اوڑھتا ہوں اور کچھ بچھاتا ہوں اور ایک پانی کا پیالہ ہے ،آپ نے دونوں چیزیں منگوا کر صحابہؓ میں دو درہم میں بیچ ڈالیں ۔ایک درہم کاکھانا منگوا کر دیااور فرمایاکہ خود کھاؤ اور گھر میں دو اور دوسرے کے رسے خریدنے کو فرمایا اور بتایا کہ جنگل سے لکڑیاں لا کر شہر میں بیچو ،دس (۱۰) دن کے بعد ان کے پاس دس درہم ہو گئے جن سے کچھ کپڑا خریدا اور کچھ اناج کھانے کے لئے مول لیا ۔اب حضور نے فرمایا’’یہ اچھا ہے یا قیامت میں چہرے پر گداگری کا داغ لگا کر جاتے ؟‘‘
ہمارے سرکار ﷺ نے فرمایا ہے کہ سوال کرنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف تین شخصوں کو روا ہے
۱۔ جو قرض سے بوجھل ہو۔
۲۔وہ جس پر کوئی ناگہانی (اچانک) مصیبت پڑ جائے جس وجہ سے اس کا سارا مال و متاع بر باد ہو گیا ہو۔
۳۔ تین گواہوں کی گواہی دلا سکے کہ اس کو فاقہ ہے، اس کے علاوہ جو کوئی مانگ کر حاصل کرتا ہے، حرام کھاتا ہے ۔
ہدےئے اور تحفے قبو ل کرنا:ہمارے سرکار اپنے دوستوں سے بڑی اچھی طرح ملتے اور کیوں نہ ملتے جب کہ آپ دشمنوں پر مہربانی فرماتے تھے ۔آپ دوستوں کے تحفے قبول کرتے اور فرماتے کہ :
’’آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجو تو محبت بڑھے گی۔ ‘‘
آپ کو لوگ اکثر ہدیے بھیجا کرتے لیکن حضور ہمیشہ ان کا بدلہ کر دیا کرتے اور خود بھی تحفے بھیجا کرتے ،حضرت ابو ایوبؓ انصاری جیسے آپ ﷺ کے عاشق جن کے مکان پر آپ چھے مہینے رہے تھے ۔آپﷺ انھیں اکثر کھانا بھیجا کرتے ،اصحاب صفہ کو اکثر یہ عزت حاصل ہوتی ۔
سادگی اور بے تکلفی :آپ ﷺ کی ساری زندگی اور ہر کام میں سادگی اور بے تکلفی پائی جاتی تھی ۔کھانے پینے ،پہننے اوڑھنے اور اٹھنے بیٹھنے، رہنے سہنے غرض کسی بات میں بھی کسی طرح کا تکلف نہ تھا۔ کھانا جیسا بھی سامنے آتا کھا لیتے ۔کپڑا موٹا چھوٹا جیسا بھی ہوتا خوشی سے پہنتے او ر وہی پسند فرماتے ۔روٹیوں کے لئے آٹے کی بھوسی نہیں نکالی جاتی تھی۔ کرتے کا گریبان اکثر کھلا رہتا تھا ۔فرمایا کرتے کہ گھر میں ایک بستر اپنے لئے ،اپنی بیوی کے لئے اور ایک مہمان کے لئے کافی ہے۔ چوتھاشیطان کا ہے ۔
ایک دفعہ حضرت فاطمہؓ کے گلے میں سونے کا ہار دیکھا تو فرمایا،تم کو یہ بُرا نہ معلوم ہو گا کہ لو گ کہیں پیغمبر کی بیٹی کے گلے میں آگ کا ہار ہے ؟
ہمارے سرکار ﷺکے گھر میں سامان کا یہ حال تھا کہ ایک دن حضرت عمرؓ حاضر ہوئے تو دیکھا حضرت شہنشاہِ دوجہاں کے پاک گھر میں دنیا وی سامان کی یہ کیفیت ہے کہ جسم مبارک پرایک تہبند ہے ،ایک چٹائی (بوریا) ہے جس کے سرہانے ایک تکیہ ہے جس میں خُرمے کی چھال بھری ہے ، مٹھی بھر جو رکھے ہیں۔ایک کونے میں کسی جانور کی کھال پڑی ہے ۔چھوٹی مشکوں کی کچھ کھالیں لٹک رہی ہیں۔حضرت عمرفرماتے ہیں کیفیت دیکھ کر میر ی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔حضور نے پوچھا تو عرض کی ،یارسول اللہ !کیوں نہ روؤں جسم مبارک پر چٹائی کے نشان پڑ گئے ہیں اور یہ کل سامان حضورﷺ کی گزر بسرکاہے۔ قیصر اور کسریٰ تو ہر طرح کا عیش اٹھائیں اور طرح طرح کے مزے اڑائیں اور آپﷺ خدا کے پیغمبر ﷺ اور اس کے پیارے ہو کر اس تکلیف میں رہیں ،ہمارے سرکار نے اس پر فرمایا کہ ’’اے ابن خطاب !خطاب کے بیٹے! تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ دنیا لیں اور میں آخرت ؟‘‘
مساوات وانصاف:ہمارے پیارے سرکار کی نظر میں امیر غریب ،چھوٹا بڑا،آقااور غلام سب برابر تھے ،سلمان، صہیب اور بلال جو سب غلام رہ چکے تھے، آپ کے دربار میں رئیسوں سے کم رتبہ نہ تھے ۔
ایک دفعہ سلمانؓ اور بلالؓ کہیں بیٹھے تھے، اتفاق سے ابو سفیان نکلے تو یہ دونوں بزرگ بولے ابھی اس دشمن خدا کی گردن پر تلوارکاپورا قبضہ نہیں ہوا ہے ،حضرت ابو بکر نے ان سے کہا،سردار قریش کی شان میں یہ الفاظ ؟ اور سیدھے حضرت کے پاس پہنچ کر شکایت کی، حضور نے فرمایا کہیں تم نے ان لوگوں کوناراض تو نہیں کیا؟اگر ان کو ناراض کیا تو خداکوناراض کیا۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فوراًجا کر ان سے معافی چاہی ۔
ایک بڑے نامی اور آبرو دار گھرانے کی عورت ایک دفعہ چوری میں پکڑی گئی۔ حضرت اسامہؓ بن زیدؓ جو حضو رکے بڑے چہیتے تھے لوگوں کی خواہش پر سرکار ﷺ کے دربار میں سفارش کے لئے حاضر ہوئے ،آپ نے فرمایا ’’اسامہؓ ! خدا کے قوانین میں تم سفارش کرتے ہو؟ ‘‘پھر لوگوں کو جمع کر کے فرمایا ’’تم سے پہلے امتیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ جب بڑے آدمی جرم کرتے تو ٹالا جاتااور معمولی غریب آدمی جرم کی سزا پاتا۔ خدا کی قسم اگر محمدؓ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے ۔‘‘
بدر کی لڑائی میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ حضرت کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہو کر آئے جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے ۔قیدیوں کو فدیہ (کافر مسلمانوں سے شکست کھا کر (ہار کر ) جو قید ہو جاتے وہ ایک رقم ادا کر کر کے چھوٹ جاتے تھے۔ اسی رقم کو فدیہ کہتے ہیں ۔) لے کر چھوڑا گیا ،بعض نیک دل انصار نے اس خیال سے کہ وہ آپ کے قریبی رشتہ دار ہیں ۔عرض کی یا رسول اللہ ! اجازت ہو کہ ہم اپنے بھانجے (عباسؓ کوفدیہ معاف کردیں ،آپ نے فرمایا نہیں ،ایک درہم بھی معاف نہیں۔
جب ہمارے سرکار مجمع میں بیٹھے ہوتے تو جو چیز آتی دا ہنی طرف بانٹتے چاہے اس طرف کوئی بھی ہو ۔
ایک دفعہ حضرت انسؓ کے مکان پر آپﷺ نے پینے کے لئے پانی مانگا ،اُنہوں نے دو دھ حاضر کیا۔لوگ اس طرح بیٹھے تھے کہ حضورﷺ کے دا ہنی طرف ایک بدو بیٹھا تھا،آپ ﷺ کے سامنے حضرت عمرﷺ اور بائیں جانب حضرت ابو بکرؓ تھے آپ ﷺ کے دودھ پی چکنے کے بعدحضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکرؓ کی طرف اشارہ کیا کہ باقی ان کو عنایت ہو لیکن آپ ﷺ نے فرمایا پہلے دا ہنی طرف والے کا حق ہے اور کیا ہوا ،دودھ اُسی بدو کو عنایت فرمایا۔
ایک دفعہ سفر میں کھانا پکانا پڑا ۔سب صحابہؓ نے ایک ایک کام بانٹ لیا ،جنگل سے لکڑی لانے کاکام حضورﷺ نے لیا ۔صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ بھی ہم حضورﷺ کے غلام کر لیں گے لیکن آپﷺ نے فرمایا ،ہاں سچ ہے مگر مجھے پسند نہیں کہ خود کو تم سے بڑا جانوں، خدا اس بندے کو پسند نہیں کر تا جو اپنے ساتھیوں میں خود کو بڑا گنتا ہے ۔
مدینہ میں مسجد نبوی بننے لگی تو تمھیں یاد ہو گا حضور ﷺ اور سب لوگوں کے ساتھ برابر ہر طرح کاکام کرتے ۔ایک لڑائی میں خندق کھو دی گئی تو اُس میں بھی آپ ایک ادنیٰ مزدور کی طرح کام کرتے یہاں تک کہ بدن پر مٹی اور خاک کی تہ جم جم جاتی ۔
غرض ہمیشہ آپ ﷺ کا یہ معمول تھا اور یہی تعلیم تھی کہ خدا کے بندے سب برابر ہیں اور مسلمان مسلمان ہر چھوٹا بڑا آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اسی سے تو ہمارے قومی شاعر ڈاکٹراقبال نے کیا خوب کہاہے ۔
ہو کہ صف بستہ زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
(یہ گویا نماز باجماعت کی تصویر ہے جس میں شاہ گدا ایک دوسرے سے مل کر اور بازو سے بازو کندھے سے کندھا جوڑ کر برابر ایک قطار (صف) میں کھڑے ہوتے ہیں ،محمود ایک مشہور بادشاہ کانام ہے ،ایاز اُس کاغلام تھا۔)
اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جس کے جیسے اعمال ہوں گے ویسا ہی اس کو پھل ملے گا ۔اور خدا کے ہاں وہ اسی کے موجب جگہ پائے گا۔ اسلام میں نہ کوئی بڑا ہے اور نہ چھوٹا بلکہ سب برابر اور آپس میں ایک د وسرے کے بھائی بھائی ہیں ۔
شرم وحیا: حضور ﷺ بن بیاہی لڑکیوں سے زیادہ شرمیلے تھے ،ہر بات سے شرم و حیاء پائی جاتی ۔ کبھی کسی سے بد زبانی نہیں فرمائی ، بازاروں میں سے چپ چاپ گزر جاتے ،مسکراہٹ کے سوا آپ کبھی قہقہہ کے ساتھ نہیں ہنسے۔
محفل میں کوئی بات ناگوار ہوتی تو لحاظ سے فرماتے تو کچھ نہیں لیکن چہرے کے اثر سے لوگ سمجھ جاتے کہ یہ بات حضور کوپسند نہیں آئی ۔
اپنے ہاتھ سے اپنا کام : گھر کاکام کاج خود کرتے ،کپڑوں میں پیوند لگا لیتے ‘،گھر میں جھاڑو خود دے لیتے ،دودھ دوہ لیتے ،بازار سے سودا سلف خود لاتے ،پھٹی جوتی خود گانٹھ لیتے ،اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھ دیتے اور اُس کو چارہ ڈال دیتے، غلام کے سات مل کر آٹا گوندھ لیتے وغیرہ وغیرہ ۔
ایک دفعہ دو (۲) صحابیؓ حاضر ہوئے تو آپﷺ خود اپنے ہاتھوں سے مکان کی مرمت کر رہے تھے ،وہ دونوں بھی دیکھ کر شریک ہو گئے۔ کام جب ختم ہو گیا تو آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔
دوسروں کے کام کر دینا:ہمارے سرکار ﷺ اپنے بس بھرہر کسی کاکام کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ۔لونڈی ،رانڈوں ،بے کسوں اور مسکینوں کے لئے بازار سے سودا لا دیتے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہو چکے تھے کہ ایک بدو آیا اور آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر بولا، میراذرا ساکام رہ گیا ایسا نہ ہو کہ بھول جاؤں پہلے اسے کردو،آپ ﷺ اس کے ساتھ فوراًمسجد سے باہر نکل آئے اور اس کا کام ختم کر کے نماز ادا کی ۔
ہمت، استقلال اور بہادردی :پیارے بچو!تم پڑھ آئے ہو،کوئی تیرہ برس تک آپ ﷺ کو لوگوں نے بے حد پریشان کیا اور آپ ﷺ کے خدائی کاموں میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں لیکن آپﷺ کبھی نا امید نہیں ہوئے بلکہ برابر ہمت سے کام میں لگے رہے ،اسی سے تو جب حضور ﷺ ایک لاکھ اپنے جان نثاروں کوچھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ساری دنیا میں اسلام جیسا آپ کا سچادین پھیل چکا تھا۔
جنگ اُحد میں صحابہؓ سے مشورہ کیا تو سب نے حملہ کی رائے دی لیکن جب آپ زرہ پہن کر تیار ہو گئے تو رُک جانے کی رائے ہوئی ۔اب حضورﷺ نے فرمایا پیغمبر کو زیبا نہیں کہ زرہ پہن کر اُتار دے ۔
ایک دفعہ مدینہ میں شور مچا کہ دشمن آگئے، لوگ مقابلہ کو تیار ہو ئے لیکن سب سے پہلے حضورﷺ ہی آگے بڑھ کر باہر نکلے ،جلدی میں گھوڑے پر زین بھی نہیں کسا بلکہ ننگی پیٹھ پر سوار ہو لئے اور سارے میں گھوم پھر کے واپس ہوئے اور سب کو اطمینان دلایا کہ کوئی ڈر نہیں ہے ۔
وعدہ کی وفا:صلح حدیبیہ میں جو تیسری شرط طے پائی تھی وہ مسلمانوں کے حق میں بہت سخت تھی اور سراسر بے انصافی لیکن حضور ﷺ کو اس کی پابندی کا پورا پاس تھا، یہاں تک کہ عین اسی وقت دو مسلمان مکہ کی قید سے بھاگ کر آئے ،فریاد کی دہائی دی ،سب مسلمان اُن بے گناہوں کی تکلیف سے تڑپ گئے ۔خود حضور ﷺ کو بھی سخت دُکھ تھا لیکن آ پ نے انھیں اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ صبر کرو لیکن بد عہدی نہیں کی جا سکتی ۔اسی قسم کے اور بھی بے شمار واقعات ہیں ۔
دوسرے مذہب والوں سے بر تاؤ:ایک دفعہ راہ میں کسی یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ ﷺ کھڑے ہو گئے۔ ایک دفعہ کچھ یہودی آئے اور شرارت سے السّلام علیکم کی جگہ السام علیکم (یعنی تم پر موت )کہا ۔حضرت عائشہؓ نے غصے میں ان کو بھی سخت جواب دیا لیکن آپ نے روکااور فرمایا’’عائشہ !بد زبان نہ بنو،نرمی کرو ۔اللہ ہر بات میں نرمی پسند کرتا ہے ۔‘‘
ایک دفعہ عیسائیوں کے کچھ لوگ کسی ضرورت سے آئے تو آپﷺ نے اُن کی مہمان داری کی۔ مسجد نبوی میں ٹھیرایا، یہاں تک کہ ان کو انھیں کے طریقہ پر نماز پڑھنے کی اجازت دے دی ، مسلمانوں کو معلوم نہ تھا۔ انھوں نے روکنا چاہا تو آپ نے منع فرمایا ۔
دشمنوں کے لئے دعا کرنا:وہ قریش جنھوں نے حضور کو برابر تین بر س شعب ابی طالب میں قید رکھا اور اناج کا ایک دانہ اپنے بس بھر نہ پہونچنے دیا لیکن جب مکہ میں ایسا زبردست کال پڑا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگے اور گھبرائے ہوئے ہمارے سرکار ﷺ کے پاس پہونچے اور عرض کی محمد تمہاری قوم مر رہی ہے اپنے خدا سے دعا کرو، آ پ نے فوراًدعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کو ٹالا ،لوگوں کی
جانیں بچیں ۔
جنگ اُحد میں دشمنوں نے آپ پر پتھر پھینکے ،تیر برسا ئے، تلواریں چلائیں ،حضور کے دانتوں کو شہید کیا، چہرۂ پاک پر خون بہ آیا لیکن اس پر بھی ہمارے پیارے سرکار ﷺ اور سچّے نبی رحمت اللعالمین نے دعا کی کہ :
’’خدایا ان کو ہدایت فرما یہ جانتے نہیں (نادان ہیں ) ‘‘
صبر و تحمل :مصیبتوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنے اور انتہائی تکلیفوں کو جھیلنے میں کوئی دوسرا نبی تک نہیں تو اور معمولی آدمیوں میں بھلا کون ہو سکتا ہے جو حضور کے صبر کو پہونچے ۔اور ہزاروں باتوں کو جانے دو سفرطائف کے حالا ت کو یاد کرو !جنھیں پڑ ھ کے پتھر سا دل بھی موم ہو جاتا ہے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے ہیں لیکن حضورﷺ اس پر بھی صبر سے کام لیتے ہیں اور فرماتے خدایا مجھ پر تیرا غضب نہیں تو پھر اس (ظلم ) کی کچھ پروا نہیں۔ مجھے تو تیر ی رضا مندی اور خوشی درکار ہے ۔ہمارے سرکار ﷺ خون میں تر تھے اور تکلیف کی شدت سے بے ہوش ،لیکن اس پر بھی فرمایا’’میں ان لوگوں کی تباہی نہیں چاہتا۔‘‘ وہ ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا ،پر ان کی اولاد تو ضرور راہ پر آجائے گی ۔ اللہ اکبر !سوچنے کی بات ہے آج کل ہم لوگ جو ذرا سی کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو خدا کو بھول کر اپنی نا سمجھی میں کیسے کیسے بُرے بول منہ سے نکال بیٹھتے اور کچھ پروا نہیں کرتے کہ ہم یہ کیا کر رہے ہیں۔
غلاموں پر شفقت :غلاموں کو لفظ غلام سُن کر اپنی توہین معلوم ہوتی تھی اور ان کا دل دکھتا تھا ،حضور کو ان بے کسوں کی یہ تکلیف گوارا نہ تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی میرا غلام یا میری لونڈی نہ کہے بلکہ’میرا بچہ،یا میری بچی ‘کہے ‘‘ہمارے سرکار ﷺکو غلاموں کے ساتھ اتنی محبت تھی اور ان کا اتنا خیال تھا کہ خاص وفات کی بیماری میں سب سے آخری وصیت اور باتوں کے ساتھ یہ بھی فرمائی کہ ’’غلاموں
کے معاملہ میں خدا سے ڈرا کرنا۔‘‘
ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ! میں غلاموں کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں ؟ حضورﷺ دو بار تو چپ رہے ۔تیسری مرتبہ فرمایا ہر روز ستر (۷۰) بار معاف کیا کرو۔
عیادت اور غم خواری:عیادت کسے کہتے ہیں ۔بیمار کو جا کر دیکھنا اور حال پوچھنا ،بیماروں کو دیکھنے آپ تشریف لے جاتے اور دعا فرماتے ،کسی کی بیماری کا پتہ بعدمیں لگتا تو آ پ کو افسوس ہو تا کہ عیادت نہ ہو سکی۔
ایک دفعہ حضرت سعدؓ بن عبادہ بیمار پڑے ،آ پ مزاج پوچھنے تشریف لے گئے ،ان کی حالت دیکھ کر آپ کا بھی جی بھر آیا۔آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے یہ کیفیت دیکھ کر اور سب لوگ بھی رو پڑے ۔
عیادت کے وقت مریض کے قریب بیٹھ جاتے ،اُسے تسلی دلاسا دیتے ،پوچھنے پر وہ کوئی چیز مانگتا اور وہ چیز اس کے لئے مضر بھی نہ ہوتی تو اسے لا دیتے تھے ۔
عِلاج:بیماری میں حضور نے دوا استعمال کی ہے ۔دوسروں کو بھی علاج کے لئے فرماتے کہ ’’خدا کے بندو ! دو ادارو کیاکرو کیوں کہ خدا نے ہر مرض کی دوااور اس میں شفا مقرر کی ہے ۔
جنازہ جاتا ہوتا تو آپ کھڑے ہو جاتے ،آپﷺ نے فرمایا کہ جنازہ جاتا ہو یا اس کے ساتھ جاؤ ،نہیں تو کھڑے ہی ہو جاؤ اور اس کے گزر جانے تک کھڑے رہو ۔
اولاد سے محبت :حضرت فاطمہؓ جب حضور کی خدمت میں تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے ،پیار کرتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے کسی کو اپنے خاندان سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی کہ آپ کرتے تھے ۔
آپ کے داماد حضرت زینب کے شوہر بدر کی لڑائی میں قید ہوئے جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے ،فدیہ ادا نہ کر سکے تو گھر کہلا بھیجا ،حضر ت زینب کے پاس بھی کیا رکھا تھا، لیکن وہ جنتی مائی اپنے شوہر کی مصیبت نہ برداشت کر سکیں اور شوہر کی وفاداری کے اس جوش میں جس کی تعلیم خود ہمار ے سرکار نے فرمائی ہے ،انہوں نے اپنے گلے کا وہ ہار بھیج دیا جو حضرت خدیجہ بی بی نے انھیں جہیز میں دیاتھا ۔ حضورنے دیکھا تو بے تاب ہو گئے اور آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ،صحابہ سے فرمایا اگرتمھاری مرضی ہو تو یہ ہار زینب کو بھیج دوں سب نے سر آنکھوں سے منظور کیا۔
عرب کے ایک رئیس اقرع نامی حاضر ہوئے تو ہمارے سرکار حضرت امام حسن کا منہ چوم رہے تھے ،وہ رئیس کہنے لگے میرے دس بچے ہیں پر میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا ،حضورﷺ نے فرمایا جو اوروں پر رحم نہیں کرتا ،اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا ۔(یعنی خدا اس پر رحم نہیں کرتا )۔
اکثر امام حسینؓ کو گود میں لیتے او ران کے منہ میں منہ ڈالتے اور فرماتے خدایا میں اس کو چاہتا ہو ں، اس کو بھی چاہتاہوں جو اس کو چاہے ۔
دوسرے عام بچوں پر شفقت :ہمارے سرکار ﷺ اور سب بچوں پر بھی بے حد مہربان تھے ،اور ان سے محبت کرتے تھے۔آپ ﷺ کا معمول تھا کہ سفر سے واپسی پر راہ میں جو بچے ملتے اپنے پاس سواری پر آگے پیچھے انھیں بٹھا لیتے۔ راستہ میں انھیں خود سلام کرتے۔ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور گود میں اٹھا لیتے ۔
ایک دفعہ کہیں سے کپڑے آئے ،اُن میں ایک پلّو دار چادر بھی تھی آپ نے پوچھا کسے دوں آخر اُمّ خالد کو بلوایا،انھیں اڑھا کر دو دفعہ فرمایا پہننااور پُرانی کرنااور اس پر بنے ہوئے بوٹوں کو دکھا دکھا کر فرماتے تھے کہ دیکھو یہ سنا(سنا ایک پتی کابھی نام ہے اور سنا کے معنی ہیں اچھایا اچھی ) ہے ۔
ماں بچّے کی محبت سے آپ پر بڑا اثر ہوتا تھا۔ایک دفعہ بہت ہی غریب کوئی عورت حضرت عائشہؓ کے پاس اپنی دو چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ آئی۔ حضرت عائشہ کے پا س ا س وقت کچھ نہ تھا۔ ایک کجھور پڑی تھی وہی دے دی۔ اس نے کھجور کے دوحصے کرکے دونوں بچیوں میں بانٹ دی۔ حضور کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا جس کو خدا اولاد کی محبت میں ڈالے اور ان کا حق ادا کرے وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا ۔
ہمارے سرکار فرمایا کرتے ،میں نماز شروع کرتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ دیر میں ختم کروں لیکن اچانک صف سے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے، اس لئے نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ اُ س کی ماں کو تکلیف ہوتی ہوگی ۔معمول تھا کہ فصل کا میوہ نیا نیا آتا تو اس وقت جو سب سے زیادہ کم عمر بچّہ ہوتا پہلے اس کو دیتے ۔
ایک دفعہ آپ بچوں کو پیار کر رہے تھے کہ ایک بدّو آیااور بولا تم لوگ بچوں کو پیار کرتے ہو میرے دس بچے ہیں،اب تک میں نے کسی کو پیار نہیں کیا،حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ آکر تمہارے دل سے محبت چھین لے تو میں کیا کروں ۔
حضرت بی بی عائشہؓ بہت چھٹ پن میں بیاہ کر حضور کے نکاح میںآئی تھیں۔ ایسی کہ محلہ کی لڑکیوں کے ساتھ کھیلا کر تیں۔ آپ جب گھر میں آتے تو وہ لڑکیاں آپ ﷺ کے لحاظ سے ادھر ادھر چھپ جاتیں لیکن ہمارے سرکار انھیں تسکین دیتے اور کھیلنے کو فرماتے ۔
ورزش کی تعلیم:ہمارے سرکار لوگوں کو مردانہ ورزشوں کا شوق دلاتے ۔رکانہ ایک شہور اور نامی پہلوان تھا،وہ کہا کرتا کہ آپ مجھے پچھاڑ دیں تو مسلمان ہو جاؤں، حضور نے اسے تین بار پچھاڑا اور وہ مسلمان ہو گیا ۔تیر کمان چلانے کو فرمایا کرتے کہ تیر چلایا کرو ،تمھارے باپ اسمٰعیل بڑے تیر انداز تھے اسی طرح گھوڑ دوڑ بھی حضورکے حکم سے کرائی جاتی تھی ۔
عادات
چال: چال بہت تیز تھی ایسا معلو م ہوتا تھا کہ ڈھا لو زمین پر اُتر رہے ہیں۔
میٹھے بچن :ہمارے سرکار کی زبان یعنی بات چیت بڑی پیاری، نرم اور میٹھی تھی ،بہت ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ایسے کہ کوئی چاہتا تو لکھ لیتا ۔
کھانا پینا:کھانے کے لئے کوئی ٹھیک نہ تھا ۔جیسا بھی مل جاتا خوشی خوشی کھا لیتے لیکن سرکہ،شہد، حلوا،زیتون کا تیل ، لو کی، آپ کو بہت پسند تھے۔ ٹھنڈا پانی آپ ﷺ کو بہت پیارا تھا،دودھ کبھی خالی اور کبھی پانی ملا کر پیتے ،کبھی کشمش ،کھجو،انگور ،کوپانی میں بھگودیا جاتا،کچھ دیر کے بعد اسے پی لیتے ۔
دستر خوان پر جو کھانا آتا اگر کوئی چیز پسند نہ ہوتی تو اس میں ہاتھ نہ ڈالتے پر اس کو بُرابھی نہ کہتے اور جو سالن حضور کے سامنے ہوتا اسی میں ہاتھ ڈالتے ،ادھر ادھر ہاتھ نہ بڑھاتے ،اور اس بات سے اوروں کو بھی منع کرتے ،ہمارے سرکار ﷺ کھانے پینے کی کوئی چیز اکیلے اکیلے نہ کھاتے بلکہ سب کو شریک کر لیتے تھے ،ایک دفعہ آپ ﷺ نے ایک بکری خریدی ،ذبح (حلال )ہوئی اور کلیجی کے کباب بنے۔ اس موقع پر ۱۳۰ صحابہؓ ساتھ تھے سب کو بانٹے اور ان میں سے جو موجود نہ تھے ان کا حصّہ الگ سنبھال کے رکھ چھوڑا ۔
لباس:ہمارے سرکار ﷺ کے پہناوے کابھی کچھ ٹھیک نہ تھا لیکن زیادہ تر قمیص (کرتا) تہبند اور چادر استعمال کی ہے ۔شان و شوکت اور تکلف سے نفرت تھی لیکن کبھی قیمتی کپڑے بھی حضورﷺ پہن لیتے تھے ۔
رنگوں میں آپ کو پیلا رنگ بہت پسند تھا اور سفید رنگ کے لیے تو فرماتے کہ یہ رنگ سب رنگوں میں اچھا ہے ،لیکن لال رنگ بے حد نا پسند تھا یہا ں تک کہ ایک دفعہ ایک شخص لال کپڑے پہنے آیا تو آپ ﷺ نے سوال کا جواب تک نہیں دیا۔
خوشبو اور پاکیزگی :خوشبو یعنی عطر وغیرہ بہت ہی پسند فرماتے تھے ،اُس زمانے میں ایک عطر ہوتا تھا وہ ہمیشہ لگاتے۔ طبیعت میں پاکیزگی اتنی تھی کہ ایک آدمی کو میلے کپڑے پہنے دیکھ کر فرمایا اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ کپڑے دھو لیا کرے ۔ایک آدمی میلے کچیلے کپڑے پہنے آیا ۔آپ نے پوچھا کچھ مقدور ہے؟ بولا ہاں ،آپ نے فرمایا خدا نے نعمت دی ہے تو اس کااعتبار بھی ہو نا چاہئے ۔ایک دن لوگ مسجد نبوی میں اکٹھے ہوئے ،ہر طرح کے لوگ تھے۔ کاروباری بھی جو میلے کچیلے بدبو دار کپڑوں میں تھے ۔پسینہ کی بو ساری مسجد میں پھیل گئی ، آپ ﷺ نے فرمایا نہا کر آتے تو اچھّا ہوتا ،اُسی دن سے جمعہ کا غسل اسلامی حکم بن گیا۔
ایک دفعہ مسجد میں دیواروں پر تھوک وغیرہ کے دھبّے نظر آئے۔ سرکارﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی لکڑی تھی، اس سے کھرچ کھرچ کر انھیں صاف کیا اور لوگوں سے بہت غصّے کے ساتھ فرمایا کہ تم پسند کرتے ہو کہ کوئی تمھارے مُنہ پر تھوک دے ۔
اچھّے سرکار ﷺ کے اچھے بچن
پیارے بچو !تمھیں یہ تو معلوم ہے،پیچھے پڑھ آئے ہو کہ ہمارے سرکار جو کچھ فرماتے اِن کے سچّے خادم اور خدا کے پاک بندے جنھیں صحابہؓ کہتے ہیں یا تو زبانی یاد کر لیتے یا لکھ لیتے تھے،حضورﷺ کی اِن باتوں ہی کو حدیثیں کہتے ہیں ۔قرآن کے بعد بس حدیث کا درجہ ہے ۔حدیث شریف کو ہم اپنی زبان میں ’’اچھے بچن ‘‘کہہ سکتے ہیں ۔کیونکہ حدیثوں میں نری اچھائیاں ہی اچھائیاں ہیں ۔اور اصل بات یہ ہے کہ مسلمان کے لئے دین دنیا کے ہر کام میں قرآن پاک اور حدیث شریف وہ زبر دست نعمتیں ہیں جن کے ہوتے ہوئے پھر کسی تیسری چیز کی ضرورت ہی نہیں ،ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے ان کے سمجھنے اور پڑھنے کے لائق بھی بن جانا چاہئے ،اب تو قرآن اور حدیث دونوں کے اچھے اچھے اردو ترجمے ملتے ہیں ،اگر کوئی اصل عربی نہ سمجھ سکے تو چاہئے ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پڑھا کرے ۔
اچھا تو اب ہم حضورﷺ کی بعض ضروری اور خاص خاص حدیثیں (باتیں ) لکھتے ہیں ۔خدا کرے ہمیں تمھیں سب کو اللہ میاں ان پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔
کیا اچھا ہو جو سچے بچن زبانی یاد کر لئے جائیں ۔پیارے بچو !ذرا یہ بھی دیکھنا ٖچھوٹے چھوٹے لفظوں میں حضور کتنی اور کیسی کیسی زبردست باتیں بتاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے ۔یہ بھی حضور ﷺکے نبی اور سچے نبی ہونے کی بڑی بھاری پہچان ہے ،نہیں تو بھلاکوئی اور ان پڑھ اس خوب صورتی کے ساتھ ایسے نپے تلے اور بندھے ٹکے بول ادا کر سکتا ہے ؟ یا ایسی ’باون تولے پاؤ رتی‘ باتیں کہہ سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ہمارے سرکار ظاہر میں پڑھے لکھے نہ تھے پر آپ نے وہ کام کیے اور وہ باتیں دنیا کو سکھائیں کہ آج بڑے بڑے عالم ،فاضل انھیں پڑھ پڑھ کر سر دھنتے ہیں ۔اس موقع پر ہمیں اُردوکے سب سے بڑے اور شروع زمانہ کے شاعر میر محمدتقی میر کاایک شعر یاد آ گیا وہ کہتے ہیں
باتیں (نبی ) کی یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنئے گا ۔
پڑھتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا
قَالَ رَسُوْ ل اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّم(یہ عبارت آگے ہر حدیث کے شروع میں نہ لکھی جائے گی بلکہ خود ہی پڑھ لینی چاہیے ۔)
خدا ان پر درود و سلام بھیجے رسول اللہ نے فرمایا:
لَا یُؤ مِنُ اَحَدَ کُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔
(مسلمانو!) تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوتا جب تک وہ دوسروں کے لئے بھی وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔
خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِیْ مو مِنِِ اَلْبُخْلُ وَ سُوْ ءُ اَلْخَلْقِ۔
دو عادتیں مومن میں اکٹھی نہیں ہوتیں (ایک) کنجوسی (دوسری) بدمزاجی ۔
مَنْ لَّمْ ےَشْکُرِ النَّا سَ لَمْ ےَشْکُرِاللّٰہَ ۔
جو آدمیوں کا احسان نہیں مانتا وہ گویا اللہ کی نا شکری کرتا ہے ۔
مَن لَا ےُرْ حَمُ النَّاسَ لَا ےَرْ حَمَہُ اللہ۔
جو آدمیوں پررحم نہیں کرتا اس پر اللہ بھی رحم نہیں کرتا ۔
دُمْ عَلیٰ الطَّھَا رَۃِ ےُوْ سِعُ عَلَےْکَ الرِّ زْ قُ۔
ہمیشہ پا ک وصاف رہو اس سے رزق زیادہ ہو گا ۔
اَلْعِدَّۃُ دَےْنٌ ۔
وعدہ ایک قرض ہے (جس کا پورا کرناضروری ہے ۔)
اَلْمَجَا لِسُ بالاَ مَا نَۃ
مجلس کی باتیں امانت ہیں (یعنی دوسری جگہ ان کا ذکر نہ کرنا چاہئے ۔)
اَلدَّےْنُ شَےْنُ الدِّےْنِ ۔
قرض دین کے چہرہ پر ایک داغ ہے ۔
اَلْقَنَا عَۃُ مَا لٌ لَّا ےَنْفَدُ ۔
قناعت ایسا مال ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ۔
الصُّبْحَۃُ تَمْنَعُ الرِّزْقُّ۔
دن چڑھے تک سونا روزی کا دشمن ہے ۔
اٰ فَۃُ السَّمَا حِ الْمَنُّ۔
احسان جتانے سے سخاو ت کی قدر جاتی رہتی ہے ۔
السَّعِےْدَۃُ مَنْ وَّ عِظ بِغَےْرِہٖ۔
دوسروں کو دیکھ کر نصیحت پکڑنا عین سعادت مندی ہے ۔
کَفٰی بالمَوْتِ وَا عِظاً۔
موت سے بڑھ کر کوئی واعظ نہیں ۔
خَےْرُالنَّاسِ اَلْفَعُھُمْ لِلنَّا سِ ۔
سب سے اچھا آدمی وہی ہے ،جس سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔
اِنَّ اللہ ےُحِبُّ السَّھْلَ الطُّلْقَ۔
اللہ نرم دل اور ہنس مکھ آدمی سے بہت محبت کرتا ہے ۔
تُھَآ دُّ وا تُحَا جُّوا۔
ایک دوسرے کو تحفہ دو اس سے محبت بڑھتی ہے ۔
الطَّلَبُوْ الْخَےْرَ عِنْدَ حِسَا ن الْوُجُوْہِ ۔
کوئی حاجت ہو تو اچھی صورت والوں کے پاس جاؤ ۔
ذُر غِبًّا تَزْدُ و حُبًّا۔
ٍٍٍٍٍ ایک دن بیچ کر کے ملا کرو محبت بڑھے گی اور قائم رہے گی ۔
طُوبیٰ لِمَنْ شَغَلَہ‘ عَےْبُہٗ عَنْ عُےُوْبِ النَّاسِ ۔
اس آدمی کا کیا کہنا جو اپنے عیب کے آگے دوسروں کا عیب نہیں دیکھتا ۔
مِنْ حُسْنِ اِسْلَا مِ المَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا بَغِےْہِ۔
بے معنی فضول باتو ں سے بچنا ایمان کی اچھائی ہے ۔
لَےْسَ الشَّدِےْدُ بِا لصُّرْ عَۃِ اِنَّمَا الشَّدِےْدُ الَّذِیْ ےَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضبِِ۔
زبردست وہ نہیں جو دوسروں کو بچھاڑ دے بلکہ زبردست تو بس وہی ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔
اَلْعِلْمُُ لَا ےَحِلَّ مَنْعُہٗ ۔
علم حاصل کرنے میں کوتاہی حرام ہے ۔
اَلْکَلِمَۃُ الطَےْبَۃُ صَدَقَۃٌ۔
اچھی بات خیرات کے برابر ہے ۔
کَثْرَۃُ الضُّحِکَ تُمیت الْقَلْبِ۔
زیادہ ہنسنے سے دل مر جاتا ہے ۔
الْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْلَامِ الْاُمَّھَاتِ۔
ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہے ۔
اَلْبَلَا ءُ مُوَ کَّلٌ بِا الْمَنْطِق۔
زیادہ بولنا بڑی آفت ہے ۔
لَا یشبَعُ الْمُو مِنُ دُوْنَ جَا رِ ہٖ ۔
مومن اسے پسند نہیں کرتا کہ خود تو پیٹ بھرے اور اس کا پڑوسی فاقہ کرے ۔
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِےْہِ کَانَ اللّٰہُ فِی حَاجَۃِ ۔
جو اپنے بھائی کی ضرورت میں کام آتا ہے اللہ اس کی ضرورت میں کام آتا ہے ۔
من دَلَّ عَلیٰ خَےْرِِ فَلَہٗ مِثْلُ اَجْرِ فَا عِلِہٖ۔
جو بھلائی کا رستہ دکھاتا ہے اس نے گویا خود بھلائی کی ۔
سَمِّ اللہ وَ کُلِّ بِےَمِےْنِکَ وکُلْ مِمَّا ےَلَیکَ۔
اللہ کا نام لے کر دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور وہی کھاؤ جو تمہارے قریب ہو۔
اَصِّےَامُ جَنَّۃٌ۔
روزہ ایک ڈھال ہے ۔(گناہوں کی)
اِنَّ اللہ لاَ ےَنْظُرُ اِلیٰ صُوْ رِکُمْو اَمْوَا لِکُمْ وَلٰکِنْ ےَنْظُرُ اِلیٰ قُلُوْ بِکُمْ وَ اَعْمَا لِکُمْ۔
اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے کام اور دلوں پر نگاہ رکھتا ہے ۔
اَلظُّلْمُ ظُلْمَاتٌ ےَوْم الْقِےٰمَۃِ ۔
دنیا میں ظلم آخرت میں اندھیرا ہے ۔
مَنْ فَرَّ جَ عَنْ اَخِےْہِ کُرْ بَۃًَنْ کَرْ ب الدُّ نْےَا فَرَّجِ اللہ کُرْ بَۃًمِّنْ کُرْبِ ےَوْمَ الْقِےٰمِۃ۔
جو دنیا میں کسی کی تکلیف دور کرے اللہ قیامت میں اس کی تکلیف دور کرے ۔
اِنْ کَانُو ثَلٰثَۃَ فَلَا ےَتَنَا ج اَثْنَانِ دُوْ نَ وَاحِدِِ ۔
اگر ایک جگہ تین آدمی ہوں تو یہ ٹھیک نہیں کہ ایک کو چھوڑ کر دو آدمی مل کر کانا پھوسی کر نے لگیں ۔
مَنْ لَّمْ ےَرْحَمُ صَغِےْرَ وَلَمْ ےُوْ قِر کَبِےْرَنَا فَلَےْسَ مِنَّا ۔
جو چھوٹوں سے محبت نہ کرے اور بڑوں کا ادب نہ کرے وہ ہم سے (مسلما ن) نہیں ہے ۔
اِنَّ اَبغَضَ الرِّجَالِ اِلَی اللہ اَلَا لَدَّ الْخَصِمُ ۔
جھگڑا لو آدمی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت ہے ۔
مَنْ اَخَذَ مِنَ الْاَرْضِ شِےْرًا بِغَےْرِ حَقِّہٖ خُسِفَ بِہٖ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ اِلاَ سَبْعِ اَرْ ضِےْن۔
جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین بھی ناحق لے گاوہ قیامت کے دن سات تہہ دھسا دیا جا ئے گا ۔
َ اِشْفَعُوْ ا تُوْجَرُوْا۔
لوگوں کی سفارش کردیا کرو اللہ تمھیں اس کا اچھا بدلہ دے گا ۔
مَنْ صَلَّی عَلَیَّ وَاحِدَۃً صَلَّے اللّٰہُ عَلَےْہِ عَشِےْرًا ۔
جو کوئی مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا خدا اس پر دس بار رحمت بھیجے گا ۔
تو پیارے بچوّ ۔آؤ چلتے چلتے ہم تم سب ایک بار سچے دل سے حضور ﷺ پر درود سلام بھیجیں اور پڑھیں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عََلیٰ مُحَمَّدِِ وَّ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدِِ وَّ بَا رِ کْ وَسَلِّمْ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top