skip to Main Content
سخاوت کی پیکر

سخاوت کی پیکر

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ کی سوتیلی بہن تھیں اور عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بھوک اپنے زوروں پر تھی۔ اس پر مزید بھنی ہوئی بکری کی خوشبو! اف۔۔۔ پیٹ اور کچھ تقاضا کرتا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ بالآخر ایک مدہم سی امید لے کر پڑوسن کے دروازے پر کھٹکا کیا۔ پڑوسن نے دروازہ کھولا اور اندر بلایا تو بھنے گوشت کی خوشبو میں اور بھی شدت آگئی۔ ’’وہ مم مم۔۔۔ مجھے آگ چاہیے اپنا چولہا جلانے کو۔‘‘ خاتون جو خوشبو کی وجہ سے اپنا آنے کا مقصد بھی بھولے جارہی تھیں۔ ایک دم اپنی آمد کا مقصد بتایا۔ پڑوسن نے بغیر کچھ کہے سنے سوال پورا کردیا اور خاتون آگ لے کر بجھے دل کے ساتھ گھر واپس آگئی۔ آگ کی ضرورت تو نہیں تھی مگر یہ ایک امید تھی کہ شاید پڑوسن ازراہ اخلاق تھوڑا بہت گوشت خاتون کو بھی دے دے مگر بے سود! پیٹ نے تقاضا اور بڑھادیا کچھ دیر بعد کچھ سوچ کر خاتون نے ایک بار پھر پڑوس کا رخ کیا۔ بہانہ تو کچھ اور تھا مگر مقصد وہی تھا کہ پڑوسن کھانے کو کچھ پوچھ لے مگر اس بار بھی نتیجہ بے سود رہا۔ بھوک نے حال برا کردیا اور گوشت کی خوشبو مزید بے چین کیے دے رہی تھی۔ اب ایک تیسری اور آخری بار کوشش کی جائے۔ کیا پتا پڑوسن کو اب کی بار کچھ خیال آہی جائے۔ یہ سوچ کر خاتون نے ہمت جمع کی اور پرامید ہو کر پڑوسن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پڑوسن نے اس بار بھی کوئی سوال و جواب نہ کیا۔ اب خاتون جو کہ بھوک سے بے حال ہوچکی تھیں۔ گھر آکر رونے لگیں اور اللہ سے دعا کی۔
’’اے میرے رب میری بھوک کا سامان مہیا کردے۔‘‘ دل سے صدا نکلی تھی اور اللہ جو دلوں کا حال جانتا ہے۔ ایک باہمت خاتون محض بھنے گوشت کی خوشبو سے بے حال نہیں ہورہی بلکہ واقعی میری یہ بندی بھوک سے پریشان ہے اور کچھ ہی دیر میں وہ یہودی پڑوسن گوشت کا پیالہ لے کر خاتون کو دینے آئیں۔ خاتون نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے پیٹ کی آگ بجھائی۔ دراصل جب اس یہودی پڑوسن کا شوہر اپنے گھر واپس آیا تو اس نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کوئی آیا تو نہیں تھا جس پر اس کی بیوی نے بتایا: ’’ہاں پڑوس کی عرب عورت آئی تھی۔‘‘ یہودی نے اپنی بیوی سے کہا:’’ جب تک تم اس میں سے کچھ گوشت پڑوسن کو نہیں بھیجو گی میں اس میں سے کچھ نہیں کھاؤں گا۔‘‘ (کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ کھانے کو نظر لگ گئی ہے) لہٰذا یہودی کی بیوی ایک پیالہ گوشت خاتون کو دے کر آئیں اور اس طرح ان خاتون کی بھوک کا سامان ہوا۔
بھوک سے پریشان یہ خاتون بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے والد کی طرح نہایت عزم و ہمت والی اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ کا شمار جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ کی سوتیلی بہن تھیں اور عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ کی طرف اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت کرنے لگے تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مل کر سامان سفر درست کیا۔ کھانے کا تھیلا اور پانی کا مشکیزہ باندھنے کو جب رسی یا ڈوری نہیں ملی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فوراً اپنا وہ کپڑا (کمر بند) جو عرب عورتیں اپنی کمر کے گرد لپیٹتی تھیں۔ کھول کر اس کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک ٹکڑا اپنی کمر کے گرد لپیٹ لیا اور دوسرے سے مشکیزہ اور کھانے کا تھیلا باندھ کر اونٹ پر لٹکادیا۔ ایسا کرنے پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ذات النطاقین کا عظیم الشان لقب عطا کیا۔ اپنے اس لقب پر حضرت اسماء نے ہمیشہ فخر کیا۔ ایک مرتبہ جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنے فرزند حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی جاے شہادت پر پہنچیں تو حجاج بن یوسف کو وہاں پایا۔ انہیں مخاطب کرکے فرمایا: ’’میں نے سنا ہے کہ تو میرے بیٹے کو طنزاً ابن ذات النطاقین کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ خدا کی قسم میں ہی ذات النطاقین ہوں۔ میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا توشہ دان اپنے نطاق سے باندھا تھا۔ 
اس کے علاوہ جب مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد ایک عرصے تک مسلمانوں کے یہاں کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی تو یہودیوں نے مشہور کردیا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کردیا ہے اور اب مسلمانوں کے یہاں اولاد کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے مگر حضرت اسماء کے فرزند حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے سب سے پہلے بچے کی والدہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے یہودیوں کی مکاریوں کا پول کھل گیا اور وہ سخت شرمندہ ہوئے۔ وہیں مسلمانوں کو اس خبر سے بے حد خوشی حاصل ہوئی۔
مدینہ منورہ آنے کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے چند سال نہایت ہی تنگی سے گزارے۔ گھر کے کام کاج کرتیں۔ اپنے قریبی باغ سے کھجوروں کی گھٹلیاں جمع کرتیں اور کوٹ کر اونٹ کو کھلاتیں۔ گھوڑے کے لیے گھاس لے کر آتیں۔ پانی بھرتیں۔ مشکیزہ پھٹ جاتا تو خود ہی سی لیتیں۔ بھنے گوشت کی خوشبو سے بے چین ہونے کا واقعہ بھی انہی دنوں پیش آیا تھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بہت ناپ تو ل کر (غربت کی وجہ سے) خرچ کرتیں مگر جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے منع فرمایا کہ اسماء رضی اللہ عنہا ناپ تول کر خرچ مت کرو ورنہ اللہ بھی نپی تلی روزی دے گا۔‘‘ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کھلے دل سے خرچ کرنا شروع کردیا اور اللہ کی مہربانی کہ اسی وقت سے آپ کے خاوند حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی آمدنی بڑھنے لگی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے اپنی ماں اور خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو فیاض اور سخی نہیں دیکھا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار خاتون تھیں۔ اتنی زیادہ عبادت کی وجہ سے عام مسلمانوں میں بے حد احترام و عقیدت سے جانی جاتی تھیں۔ طرح طرح کے مریض آپ رضی اللہ عنہا کے پاس دم کروانے آتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا ان کے لیے دعاے صحت کرتی تھیں۔ اسی طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جبہ مبارک آپ کی بہن ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا وقت قریب آیا تو وہ جبہ مبارک انہوں نے اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا وہ تبرک اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھا اور جب گھر میں کوئی بیمار ہوجاتا تو جبہ مبارک کو دھوکر اس کا پانی مریض کو پلادیتی تھیں۔ اس کی برکت سے بیمار کو شفاء حاصل ہوجاتی تھی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو اپنے بچپن کے واقعات میں جہاں اور بہت سے واقعات یاد تھے۔ وہیں واقعہ فیل میں شریک دو فیل بانوں کا پورا حلیہ یاد تھا جنہیں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے بچپن میں بھیک مانگتے دیکھا تھا۔ واقعہ فیل میں یوں تو سارا لشکر ہی تباہ و برباد ہوگیا تھا لیکن یہ فیل بان اللہ نے اس حال میں زندہ چھوڑ دیے کہ دونوں اندھے اور بہرے ہوگئے تھے اور وہ مکہ کی گلیوں میں بھیک مانگا کرتے تھے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا نکاح حواری رسول حضرت زبیر بن العوام سے ہوا۔ جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ مگر ۳۱ ھ میں شوہر سے علاحدگی کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس مستقل رہنے لگیں۔ جنہوں نے نہایت سعادت مندی کے ساتھ اپنی شہادت تک والدہ کی خدمت کی۔ حضرت عبداللہ کی شہادت جہاں حضرت عبداللہ کی بہادری اور شجاعت کی داستان ہے۔ وہیں حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا کی جرات اور بے مثال استقامت کا بھی درس دیتی ہے۔ جب حجاج بن یوسف نے ان کی فوج کا محاصرہ کرلیا تو دوران محاصرہ ایک دن حضرت عبداللہ اپنی والدہ محترمہ سے ملنے آئے۔ ان دنوں والدہ کچھ بیمار تھیں۔ تسلی دینے کے دوران حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے منہ سے نکل گیا: ’’موت میں آرام ہے۔‘‘
بولیں: ’’شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے ( کہ بڑھاپے کی تکلیف سے نجات پاجاؤں) لیکن میں تمہارا انجام دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں کہ اگر تمہیں شہادت نصیب ہو تو اپنے ہاتھوں سے تمہارا کفن دفن کروں اور اگر تم فتح پاؤ تو مجھے خوشی ہو۔‘‘ اور اس واقعہ کے چند دن بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے بعد کئی دن لاش سولی پر لٹکتی رہی۔ بالآخر عبدالملک بن مروان کی مداخلت سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش ملی۔ ضعیفی کے باعث حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی بینائی ختم ہوچکی تھی مگر شہادت کے وقت ایک ایک کیفیت کے بارے میں لوگوں سے پوچھ کر آگاہ ہوتی رہیں۔ غسل کے وقت بھی جبکہ جسم کا جوڑ جوڑ الگ ہوچکا تھا۔ ہدایت دیتی رہیں اور لوگ ہدایت کے مطابق ہر ٹکڑے کو غسل دے کر کفن میں لپیٹتے گئے پھر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیٹے کے لیے دعاے مغفرت کی اور دفن کرنے کو کہا۔ 
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اللہ سے دعا کیا کرتی تھیں: ’’یااللہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک میں اپنے بیٹے کا کفن دفن نہ کرلوں۔‘‘ شہادت کے چند دن بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے خود بھی وفات پائی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر سو سال تھی لیکن دانت سارے سلامت تھے اور اس بڑھاپے میں بھی پورے حواس کے ساتھ تھیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا علم و فراست میں بھی اونچا مقام تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا سے چھپن ۵۶ احادیث مروی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی بہادری شجاعت، استقامت اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی ہم سب مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top