skip to Main Content

ستارہ

کہانی: The Star
مصنف: H G Wells
ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آسمان میں آگ کے ایسے گولے نظر آئیں تو زمین پر تباہی و بربادی ضرور آتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ نئے سال کے پہلے دن کی بات تھی، جب دنیا کی تین رصد گاہوں سے بیک وقت یہ اعلان کیا گیا کہ سیارہ نیپچون کی حرکت غیر معمولی طور پر سست ہوگئی ہے۔ یہ خبر دنیا کی اس اکثریت کے لیے بالکل غیر اہم تھی جو نیپچون کی موجودگی سے ہی بے خبر تھے۔ نہ ہی اس خبر سے لوگوں کی صحت پر کوئی اثر پڑا کہ متاثرہ سیارے کے قریب ایک دھندلی روشنی دکھائی دینے لگی ہے لیکن سائنس دانوں کے لیے یہ روشنی توجہ کا باعث بن گئی۔ رفتہ رفتہ یہ روشنی تیز ہوتی گئی اور ایک باقاعدہ شکل اختیار کرگئی۔ یہ ایک بہت بڑا، بھاری ستارہ تھا جو اچانک ہی سورج کے گرد تیز رفتاری سے گھومتا ہوا نظر آنے لگا تھا۔ سال کے تیسرے دن اخبارات میں لوگوں نے یہ خبر پڑھی کہ نئے ستارے کا نیپچون کے ساتھ ٹکراﺅ کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ کیوں کہ یہ ستارہ نیپچون کے مدار میں ہی گردش کر رہا ہے۔ اس رات دنیا کے بہت سے لوگوں نے آسمان پر ستاروں کو معمول کے مطابق چمکتے دیکھا لیکن کوئی عجیب بات محسوس نہیں کی لیکن صبح ہونے سے دو گھنٹے قبل لندن میں لوگوں نے وہ انوکھا منظر دیکھا۔
آسمان کی مغربی سمت میں ایک بڑا سفید ستارہ نظر آرہا تھا۔ ایک چھوٹی سی روشن گول تھالی کی طرح وہ آسمان پر موجود تھا۔ شہر کی جن پس ماندہ آبادیوں میں سائنس کا گزر نہیں تھا، وہاں لوگ اس ستارے سے خوف کھا رہے تھے اور ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ جب آسمان میں آگ کے ایسے گولے نظر آئیں تو زمین پر تباہی و بربادی ضرور آتی ہے۔
اس رات دنیا کی سو سے زیادہ رصد گاہوں میں سائنس دانوں نے ان دو خلائی اجسام کو تیزی سے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے دیکھا اور دنیا کی تباہی دیکھ کر چِلّائے بغیر نہ رہ سکے۔ کیوں کہ نیپچون ایک دنیا ہی تو تھا، ہماری زمین کا ایک دوست سیارہ، ہمارے نظام شمسی کا ایک حصہ جو اچانک ہی ایک جلتی ہوئی موت کا شکار ہوگیا۔
جی ہاں! نیا ستارہ نیپچون سے ٹکرا گیا تھا۔ رصد گاہوں میں دو بھاری بھرکم اجسام ایک ہوتے نظر آئے اور جب اگلی رات وہ یورپ کے آسمان پر نظر آیا تو لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ اسے دیکھنے کے لیے گھر کی چھتوں، پہاڑیوں اور میدانوں میں جمع ہوگئے۔
”یہ کل سے زیادہ چمک دار لگ رہا ہے۔“ وہ تبصرے کررہے تھے لیکن رصد گاہوں میں سائنس دانوں نے اپنی سانس روک لی تھی۔ وہ خوف زدہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ”یہ اب زمین سے قریب آرہا ہے، بہت قریب….!“ وہ تقریباً سرگوشی میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔
اور پھر یہ الفاظ دنیا کے تمام اخبارات میں شہ سرخی بن کر شائع ہوئے۔ ”وہ زمین سے قریب آرہا ہے۔“ دنیا کا ہر شخص دوسرے کو یہی بتا رہا تھا۔ ستارہ روز بروز پہلے سے زیادہ روشن اور چمک دار ہوتا چلا جارہا تھا۔ لوگ حیرت زدہ بھی تھے اور خوف زدہ بھی رہنے لگے تھے۔ دنیا کے تمام مذہبی رہنماﺅں نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کردیا تھا۔ ”اے لوگو! اب سونے کا وقت نہیں ہے۔ گناہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ آﺅ اور اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ اس سے اس کی رحمت طلب کرو۔“ روزانہ جب صبح سے دو گھنٹے قبل وہ ستارہ مغرب سے نمودار ہوتا تو پوری دنیا تیز گرم روشنی میں نہا جاتی اور چاند اس کے آگے بے نور معلوم ہونے لگتا۔
دنیا کے عظیم ریاضی دان نے پہلے ہی پوری دنیا کو نئے خطرات سے آگاہ کردیا تھا۔ نیا ستارہ جو نیپچون کو اپنے اندر ضم کرچکا تھا، تیزی سے گھومتا ہوا سورج سے قریب ہوتا جارہا تھا، جب کہ سورج سے قریب نظامِ شمسی کا سب سے طاقتور سیارہ ’جوپیٹر‘ اپنے چاندوں سمیت گردش کررہا تھا۔ ہر لمحے جوپیٹر اور نئے ستارے کے درمیان کشش بڑھتی جارہی تھی اور اس کشش کا نتیجہ کیا ہوتا؟….ناگزیر تھا کہ جوپیٹر اپنے مدار سے باہر نکل جاتا اور تیز رفتار نیا ستارہ، سورج کی جانب اپنے سفر میں اگر زمین سے نہ بھی ٹکرائے تو بھی اس کے قریب سے ضرور گزرے گا۔ جس کا نتیجہ زلزلوں، سیلاب اور درجہ حرارت بڑھنے کی صورت میں نکل سکتا تھا۔
اس رات موسم واقعی کچھ تبدیل ہوگیا۔ وسطی یورپ اور فرانس میں جمی ہوئی برف نرم پڑ کر پگھلنے لگی تھی۔ جس کی وجہ سے سردی میں اضافہ ہوگیا لیکن دن گزرنے کے ساتھ لوگوں کا خوف کم ہوتا چلا گیا۔ پیرس کی ٹھنڈی سڑک پر سردی سے کپکپاتے ہوئے ایک فقیر نے آسمان کی طرف دیکھ کے کہا: ”اچھا ہے یہ ستارہ زمین سے قریب آجائے، ہم غریبوں کو کچھ گرمی تو ملے گی۔ خیرات دینے والوں کا دل تو موسم کی طرح سرد ہوگیا ہے۔“
لندن کے ایک نواب زادے کی شادی کی تقریب میں اردگرد جمع خوشامدیوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”دیکھیے حضور! آپ کی اس خوشی میں آج آسمان بھی پہلے سے زیادہ روشن ہوگیا ہے۔“ خود کو عقلِ کُل سمجھنے والے سائنس کے طالب علموں نے کہا: ”یہ محض گرم گیسوں کا ایک گولہ (کامٹ) ہے جو اپنے مدار پر گھوم رہا ہے۔ بھلا اس سے زمین کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے!“ ریاضی دان کے مطابق اس رات نو بجے ستارے کو جوپیٹر سے قریب ترین پہنچ جانا تھا۔ ستارہ حسب معمول سورج نکلنے سے دو گھنٹہ قبل آسمان پر نظر آیا لیکن اس کی روشنی اور جسامت اتنی ہی تھی جتنی ایک روز قبل دیکھی گئی تھی۔ اگر کوئی خطرہ تھا تو وہ ٹل چکا تھا۔ لوگ اپنے خوف پر ہنس رہے تھے اور اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے تھے۔
لیکن جلد ہی ان کی ہنسی کا گلا گُھٹ گیا۔ ستارہ ہر لمحے پہلے سے زیادہ بڑا ہوتا جارہا تھا۔ اس کی تیز سفید نابینا کردینے والی روشنی بے حد گرم تھی۔ اگلی رات وہ امریکا میں چاند کی جسامت کے برابر نظر آیا۔ تیز گرم ہواﺅں کے جھکڑ چلنے سے پہاڑوں پر جمی برف پگھل رہی تھی۔ برازیل اور ورجینیا میں وہ وقفے وقفے سے چمک رہا تھا۔ رات میں دن کا سا سماں تھا اور پھر بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ لیا۔ تیز طوفانی ہواﺅں کے ساتھ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ کلیشیئر پگھل رہے تھے اور دریاﺅں کا پانی کناروں سے باہر نکل آیا تھا۔ سیلابی ریلے میں درخت، انسانوں اور جانوروں کے جسم تیر رہے تھے۔
ارجنٹینا اور جنوبی اٹلانٹک کے ساحلوں پر انسانی تاریخ کا بلند ترین جوار بھاٹہ دیکھا گیا۔ طوفانوں نے ان پانیوں کو دھکیل کر پورے پورے شہر ڈبو ڈالے تھے۔ رات کو گرمی اس قدر بڑھ گئی تھی، جیسے سورج سوا نیزے پر آگیا ہو اور پھر زلزلوں نے زمین کو ہلانا شروع کردیا۔ عالی شان عمارات مٹی کے گھروندوں کی طرح زمیں بوس ہونا شروع ہوگئیں۔ آتش فشاں پہاڑوں نے لاوا اُگلنا شروع کردیا تھا۔ اب ستارے نے بحر اوقیانوس کی طرف سفر شروع کر دیا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے آندھیوں اور طوفانوں کی ایک قطار بندھ گئی۔ وہ جہاں سے گزرتا، آتش فشاں پہاڑ لاوا اُگل کر اس کا استقبال کرتے۔ سیلاب راستے میں آنے والے ہر جزیرے پر بسنے والے نفوس کا خاتمہ کرتے چلے جارہے تھے اور پھر پانی کی ایک پچاس فٹ اونچی دیوار ایشیا کے طویل ساحلوں سے ٹکراتی ہوئی چین کے میدانی علاقوں میں داخل ہوگئی۔ سورج سے زیادہ گرم اور روشن یہ ستارہ اب نہایت بے رحمی سے اس کثیر الآباد ملک کے شہروں اور دیہاتوں پر چمک رہا تھا۔ کروڑوں بے یار و مددگار خوف زدہ لوگوں نے سیلاب کو اپنی طرف آتے دیکھا جو نہایت تیزی سے اُنھیں اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ چین میں یہ ستارہ سفید نظر آرہا تھا لیکن جاوا، جاپان اور مشرقی ایشیا کے دیگر جزائر تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک سرخ آگ کا گولہ دکھائی دینے لگا۔ اس کی وجہ آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والا دھواں، لاوا اور گرم گیسیں تھیں۔ پوری دنیا زلزلے کے جھٹکوں سے لرز رہی تھی۔ جلد ہی تبت اور ہمالیہ کی صدیوں سے جمی ہوئی برف پگھلنے لگی۔ برما اور ہندوستان کے میدانی علاقے مکمل طور پر سیلاب میں ڈوب گئے، ہندوستان کے جنگلات میں آگ لگ چکی تھی۔ لوگ پانی اور آگ جیسے طاقتور دشمنوں کا مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی جنگ مسلسل ہار رہے تھے، بہت سے لوگوں نے آگ سے بچنے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
اس افراتفری میں اگلا دن بھی آگیا لیکن آج ستارہ آسمان پر کہیں نظر نہیں آیا۔ بچے کچھے لوگوں نے اپنی نظریں آسمان پر جمائی ہوئی تھیں۔ آخر کار دس گھنٹے کی تاخیر سے ستارہ دوبارہ آسمان پر نظر آیا۔ جب وہ ہندستان کے قریب پہنچا تو اس کے اوپر ایک پردہ سا آگیا۔ دریاے گنگا سے لے کر دریاے سندھ تک تمام قلعے، محل اور دیگر عمارات پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ لوگوں نے پہاڑیوں کے اوپر پناہ لی ہوئی تھی لیکن شدید گرمی، بھوک اور خوف سے بہت سے لوگ نیچے پانیوں میں گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے تھے اور پھر اچانک ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ آسمان پر بادل آگئے اور لوگوں نے دیکھا کہ چاند ایک سیاہ پلیٹ کی طرح ستارے کے نیچے سے رینگتا ہوا نمودار ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مشرق سے سورج نکلتا ہوا نظر آیا اور پھر ستارہ، سورج اور چاند ایک ساتھ آسمان میں سفر کرنے لگے۔
یورپ میں آسمان کا مشاہدہ کرنے والوں نے دیکھا کہ ستارہ اور سورج ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں اور پھر ایک دوسرے میں ضم ہوتے محسوس ہوئے۔ چاند اس تیز روشنی میں نظر آنا بند ہوگیا۔ اگرچہ زندہ رہ جانے والے لوگ بھوک، پیاس، گرمی اور خوف سے نڈھال ہوچکے تھے لیکن ابھی بھی ان میں ایسے لوگ موجود تھے، جو ان نشانیوں کا مطلب سمجھ گئے تھے۔ زمین اور ستارہ ایک دوسرے کے قریب ترین مقام سے گزر چکے تھے اور اب وہ ستارہ سورج میں ضم ہوچکا تھا۔ سیاہ بادلوں نے آسمان کے تمام مناظر دکھانے بند کردیے۔ پوری دنیا میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں شروع ہوگئیں۔ کئی دنوں تک جاری رہنے کے بعد بالآخر یہ بارشیں تھم گئیں۔ سیلاب اپنے ساتھ درخت، جانور اور انسان بہا لے گیا۔ زمین خشک ہونا شروع ہوگئی۔ زندہ رہ جانے والے خوش نصیب اپنے برباد شہروں میں لوٹ آئے۔ اس کے کئی مہینے کے بعد تک زلزلے آتے رہے لیکن اب ستارہ جاچکا تھا۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ اب دن پہلے سے زیادہ گرم ہونے لگے ہیں۔ سورج پہلے سے کہیں بڑا اور چاند اپنے اصل حجم سے تین گنا سکڑ گیا ہے لیکن اس عظیم سانحے کے بعد انسانوں میں جو بھائی چارہ اور اخوت پیدا ہوئی وہ مثالی تھی۔ سب انسان ایک خاندان کی طرح مل جل کر اپنی آباد کاری کا کام کررہے تھے اور ایک دوسرے کا سہارا بن رہے تھے۔
مریخی ماہر فلکیات ان تمام تبدیلیوں میں بے حد دلچسپی لے رہے تھے۔ وہ ان واقعات کو اپنے نکتہ نظر سے دیکھ رہے تھے۔
”اس میزائل کا حجم اور درجہ¿ حرارت دیکھتے ہوئے جو ہم نے سورج پر پھینکا تھا، یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ سیارہ زمین کو کتنا کم نقصان پہنچا حالاں کہ یہ میزائل زمین کے بالکل قریب سے گزرا تھا۔“ ایک ماہر فلکیات نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا۔ ”تمام جانے پہچانے جغرافیائی نشانات اور سمندر جوں کے توں نظر آرہے ہیں۔ جو واحد فرق نظر آیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی قطب پر موجود سفید رنگ پہلے سے کچھ ہلکا ہوگیا ہے۔“ (یہ شمالی اور جنوبی قطب میں جمی ہوئی برف تھی جو اب پگھل چکی تھی) مریخی ماہر فلکیات کی یہ تحریر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کی بڑی سے بڑی تباہی بھی کس قدر معمولی نظر آتی ہے۔ اگر دیکھنے والا چند سو ملین میل دور بیٹھ کر مشاہدہ کررہا ہو۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
رصد گاہ: ایک عمارت جہاں سے طاقتور دور بین کے ذریعے احرام فلکی و مظاہر کا مشاہدہ و تجزیہ کرتے ہیں
نیپچون: نظام شمسی کا ایک بعید سیارہ، سورج سے آٹھواں، جو ۶۴۸۱ءمیں ریاضی کی تخمین سے دریافت ہوا
ضم: دو چیزوں کا ملنا یا ملانا حجم: جسامت، موٹائی
ماہر فلکیات: علمِ فلکیات کا ماہر
فلکیات: احرامِ فلکی اور ان سے متعلق علم، آسمان اور اس کے لوازم سے متعلق علم

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top